امِت تیواری کی نظمیں

ایک تھوڑا ایماندار دن ایک تھوڑا ایماندار دن بتانے کی خواہش میں پڑوسی کے نمسکار پر سر جھکا لیا بازار گیا اور ایک بڑے سیٹھ کو للکارا سہولیت یافتہ شہروں کی سست رفتاری پر تیکھی رائے زنی کی واچ مین کا حال چال لیا اور بہت دیر تک ہنستا رہا اپنی اس اوچھی حساسیت […]
عابد رضا کی نظمیں

ڈی مینشیا ( Dementia ) اور جینیاتی رفوگر اگلے وقتوں کے اک قصہ گو پیرِ کہنہ نے پھر دشتِ بے ماجرا سے گزرتے ہوئے نرم رو مہرباں خضر قامت مشینی فرشتے سے یوں عرض کی اے مشیں زاد ! اب میری پیرانہ سالی کے موسم میں اُن داستانوں کی چادر دریدہ ہوئی وہ جنھیں […]
دو ظاہر دار

اگست کی گرم، سرمئی شام شہر پر چھا چکی تھی اور ایک ہلکی گرم ہوا، جو موسم گرما کی یادگار تھی، سڑکوں پر رواں تھی۔ سڑکیں، اتوار کی چھٹی کے لیے بند تھیں اور وہاں رنگین کپڑوں میں ملبوس لوگوں کا ہجوم تھا۔ اونچے کھمبوں کے اوپر لیمپ موتیوں کی طرح روشن تھے اور نیچے […]
تختیاں

1 سیپ پر کان دھرے ہیں اسنے وہ سب سننے کے شوق میں جو اسے نہیں بتایا گیا 2 بس ایک انچ کا فاصلہ ہے دونوں کے بیچ تصویر میں ایک فریم کی ہوئی مسکان ملبے تلے دفن ہے 3 جب بھی تم سمندر میں پتھر اچھالتے ہو وہ میری لہروں میں ترنگیں […]
چمڑے کا احاطہ

شہر کی سب سے پرانی ہائیڈ مارکٹ ہماری تھی۔ ہمارا احاطہ بہت بڑا تھا۔ ہم چمڑے کا بیوپار کرتے تھے۔ مرے ہوئے جانوروں کی کھالیں ہم خریدتے اور انہیں چمڑا بناکر بیچتے۔ ہمارا کام اچھا چلتا تھا۔ ہماری ڈیوڑھی میں دن بھر ٹھیلوں اور چھکڑوں کی آواجاہی لگی رہتی۔ کئی بار ایک ہی سمے پر […]
شہر لاہور کی کہانیاں

اردو کے ادبی منظر نامے پر اظہر حسین کی شناخت کے کئی حوالے ہیں؛ وہ ادب کے پر شوق قاری ہیں، ایک بے لاگ اور تند و تیز ادبی مبصر ہیں، پاکستان اور ہندوستان سے شائع ہونے والے دو کتابی سلسلوں “لاہور” اور “کسوٹی” کے مدیر ہیں اور شاعر ہیں۔ شاعری البتہ ان کا ابتدائی […]
جوشنا بنرجی کی نظمیں

پریمی کی موت کا دن کلاس کی ایک سہیلی نے گھر آکر کان میں بتایا کہ ایک حادثے میں پریمی کی موت ہوگئی ہے وہ اتوار کا دن تھا، چھوٹا بھائی اور میں میگی کھارہے تھے، ابھی کانٹے میں میگی پھنسائی ہی تھی ، واپس پلیٹ میں چھوڑ دی چھوٹا بھائی منہ پھاڑ کر […]
ہرے پرکاش اُپادھیائے کی نظمیں

آگرے سے آیا راجو گورکھپور میں فیمس دکان ہے چائے کی مئو سے آکر بسنے والے گورکھ رائے کی وہیں برتن دھوتا ہوا آگرے سے آنے والا راجو بیٹھ گیا جاکر ایک دن اس کے بازو برتن دھوتا جاتا تھا کیا خوب سریلا گاتا تھا عمر محض بارہ کی تھی مگر وہ کھینی […]
دیوار کے پیچھے کی دنیا

انیس ناگی کے ناول ‘دیوار کے پیچھے’ کے تعلق سے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔اس ناول کی تخلیق کے پچاس برسوں بعد اس پر میں کچھ ایسے زاویوں سے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔جس میں لایعنیت کے فلسفے اور انیس ناگی کی جیون کتھا کے ابواب شامل نہ ہوں۔ان دونوں پر بات […]
لالو

میرے بچپن کا ایک دوست تھا جس کا نام تھا لالو۔ یہ کوئی پچاس برس پرانی بات ہے ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں ٹھیک ٹھیک بتا نہیں سکتا کہ کتنی پرانی بات ہےــ ہم ایک چھوٹے سے بنگلہ اسکول میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ اس وقت ہم دس گیارہ برس کے رہے […]