پرانی بات ہے ، ایک چھوٹی سی ریاست کے راجا نے ایک مور پالا۔ ویسے تو سبھی مور اچھا ناچتے ہیں، مگر اس مور کی بات الگ تھی۔وہ چَوپڑا کے کنارےگہرے درختوں کے جھنڈ میں رہتا تھا۔ اسی جگہ سادھو کا آشرم تھا، ایک مندر اور راج پریوار کے مرحومین کی سمادھیاں تھیں۔ایسی سمادھیاں کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ صاحب علم و نظر انہیں فن تعمیر کا نادر نمونہ قرار دیتے ہیں، وہ مور انہیں سمادھیوں کے آس پاس پھرا کرتا تھا۔ اسے ناچنے کا بڑا شوق تھا، گویا وہ جانتا ہو کہ قصبے کے لوگ اس کا ناچ دیکھنے کے لیے ترستے رہتے ہیں۔لوگوں کی انسیت اس سے اس قدر تھی کہ گلیوں اور گھروں میں اکثر اس کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ ویسے تو وہاں اور بھی دوسرے پنچھی بہت تھے اور وہ لوگوں کے آس پاس کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے مگر لوگوں کی نظر میں وہ مور جیسی خاص جگہ نہ بنا سکے تھے۔شادی بیاہ، تیج تہوار پر کسی کے یہاں باہر سے کوئی آئے تو اسے مور ضرور دکھایا جاتا تھا۔ مور کے علاوہ اس قصبے میں دکھانے لائق کچھ اور تھا بھی نہیں، ایک قلعہ تھا جس میں سکول لگتا تھا اور اتنا معمولی قسم کا قلعہ تھا کہ بجائے کسی پہاڑی کے ایک ٹیلے پر بنا ہوا تھا اور چاروں طرف سے مکانوں سے گھرچکا تھا۔
کچھ لوگ اپنی بستی کی ڈینگیں ہانکنے میں ماہر ہوتے ہیں، جیسے میرے بھائی صاحب بچپن میں ساگر کو دنیا کا سب سے سندر اور بڑا شہر، ساگر کے تالاب کو دنیا کا سب سے بڑا تالاب، ساگر کی ہاکی ٹیم کو دنیا کی سب اچھی ہاکی ٹیم اور اپنے ایک دوست کے پِتا کو دنیا میں سب سے اچھی انگریزی بولنے والا مانتے تھے اور انہیں اپنی باتوں کی سچائی پر ذرا بھی شبہ نہیں تھا۔کچھ کہو تو لڑ بیٹھتے تھے۔جب وہ تھوڑے بڑے ہوئے تو یہی باتیں وہ مدھیہ پردیش کے بارے میں کہنے لگے، آج کل بھارت کی ڈینگیں ہانکنے کے ساتھ ساتھ ایشیا کی عظمت کے دعوے کرتے ہیں اور انہیں کوئی ڈِگا نہیں سکتا۔ایسے لوگوں کی تو اس قصبے میں بھرمار تھی۔ وہ کہتے، ایسا مور پورے سنسار میں دوسرا نہیں ہے، اس کی عمر بہت لمبی ہے۔پہلے یہ والمیکی آشرم کے آس پاس گھوما کرتا تھا۔ آدمی کی بولی سمجھتا ہے۔ ایک بار اس نے ایک سادھو سے باتیں بھی کی تھیں۔اگر یہ مور چاہے تو شیر بن سکتا ہے، تتلی بن سکتا ہے، ایک بار یہ چوپڑا کے پانی میں کمل بن گیا تھا اور کمل پر کوئی بڑی ہی سندر دیوی براجمان تھیں۔اسی طرح کی نہ جانے کتنی باتیں ہیں کہ جن سے پورا مور پُران بن جائے۔سنتے ہیں، ایک بار ایک سوتے ہوئے بچے کو آسمان میں بہت اوپر لے جاکر گھما بھی لایا ہے۔وہ بچہ اب بڑا ہوگیا ہے مگر ساری باتیں اسے اب تک ٹھیک ٹھیک یاد ہیں۔بستی کے ایک معتبر جیوتشی کا کہنا تھا کہ مور پچھلے جنم میں اربوں میل دور کے ایک سیارے پر اتنی بڑی چڑیا تھا کہ جب وہ چڑیا اڑتی تھی تو آکاش گنگاؤں میں دھول اڑتی تھی اور بڑے بڑے سیارے اسے دیکھنے اپنی بالکنیوں میں کھڑے ہوجاتے تھے۔
لوگ کہا کرتے تھے، مور امر ہے۔خود برہما جی نے اسے یہ وردان دیا ہے اور اب کوئی اسے مار نہیں سکتا۔مگر سوچیے اس بستی کے لوگوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی جب ایک بھرما بندوق کی معمولی سی بارود نے اس مور کی جان لے لی! جب یہ خبر پھیلی کہ مور کی ہتیا ہوگئی، لوگوں کو یقین ہی نہیں آیا، وہ مر ہی نہیں سکتا!۔۔۔کچھ لوگ اس کے چیتھڑے دیکھ کر بستی کی طرف دوڑے تو بھگڈر مچ گئی۔ مور کو کسی انگریز نے مارا ہے، یہ سن کر لوگوں کا پارہ چڑھ گیا۔ کوئی کہتا وہ سپاہی تھا، کوئی کہتا افسر۔ایک کاچھی بولا۔ڈلہوزی نے مارا ہے، تو کسی نے کہا۔یہاں کہاں رکھا ہے ڈلہوزی۔مگر وہ کہنے لگا کہ اس نے ڈلہوزی کو دیکھا تھا۔ جہاز سے اترا، اس نے مور کو بندوق سے مارا اور جہاز میں چڑھ کر بھاگ گیا۔
راجا اس روز کہیں گئے ہوئے تھے۔ رانی صاحبہ تھیں۔ کچھ لوگ حویلی کی طرف بھاگے۔دیوان جی نے ان لوگوں کو تسلی دی کہ مناسب کارروائی کی جائے گی۔مگر اب مور تو واپس نہیں آسکتا۔ایک انگریز سپاہی نے مارا ہے اور مارنے کی جھونک میں مارا ہے، چنانچہ کوئی کچھ نہ بولے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ کل کے روز کوئی مصیبت کھڑی ہوجائے۔
مگر وہ سپاہی ہے کہاں اور اس نے مور کو مارا کیوں؟ اس سوال کے جوش سے معمور لوگ چوپڑا پہنچے۔دوپہر کا وقت تھا، تیز گرمی پڑ رہی تھی۔چوپڑا کا پانی لگ بھگ سوکھ گیا تھا اور وہ گندگی سے بھرے ہوئے بڑے گڈھے کی طرح چلچلا رہا تھا۔سادھو کے آشرم کے پاس اور چوپڑا کے چاروں طرف لوگ ہی لوگ تھے اور وہ انگریز بندوق لیے چوپڑا کی دلدل میں گھٹنوں تک دھنسا ہوا لوگوں کے پتھروں سے بچنے کی کوشش کررہا تھا۔ لیکن اتنے پتھر اس پر برس رہے تھے کہ جلد ہی وہ بری طرح گھائل ہوگیا۔تبھی تھانے سے سپاہیوں کا ایک دستہ تھانے دار کی اگوائی میں ہوائی فائر کرتا ہوا آیا اور اس انگریز کو نکال کر لے گیا۔
لوگ اب تھانے کی طرف امڈے، مگر تبھی تھانے دار نے اعلان کیا کہ سب لوگ اپنے اپنے گھر چلے جائیں۔جو بھی سڑک پر ملے گا اسے گولی مار دی جائے گی۔ تھانے دار بہت ظالم تھا اور مارنے کی اسے پوری چھوٹ تھی، اس لیے جلد ہی تھانے کے پاس سے کیڑے مکوڑے تک نکل بھاگے۔
تھوڑی دیر بعد ہُلّے کاچھی دارو کے نشے میں لڑکھڑاتا ہوا آیا اور تھانے کے آگے اکیلا کھڑا ہوکر گالیاں بکنے لگا۔اپنے نام پر ماں بہن کی گالیاں سن کر تھانے دار باہر نکلا اور ایک معمولی سے ناٹے قد کے پھوہڑ شرابی کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ کر پہلے تو چکرایا، پھر اس پر ٹوٹ پڑا۔ہُلے کی جم کر پٹائی ہوئی۔وہ جتنا پٹتا جاتا، اتنی ہی زور سے گالیاں بکتا۔آخر اسے گھسیٹ کر تھانے میں ڈال دیا گیا۔ وہ بے ہوشی میں بھی گالیاں بکتا رہا۔
خبر بستی بھر میں پھیل گئی کہ ہُلے کاچھی نے تھانے دار کی ماں بہن ایک کردی۔اس کی بہت پٹائی ہوئی اور اب حوالات میں پڑا ہے۔
بستی میں کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ تھانے جاکر ہُلے کو چھڑالائے۔ہُلے کی عورت رام وتی کو جب یہ پتہ چلا تو وہ کاچھِن انٹی میں روپے دباکر سیدھی تھانے پہنچ گئی۔پہنچ کر اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، روپے تھانے دار کی میز پر پھینکے اور ایک طرف لڑھکے ہوئے اپنے آدمی کو ہلا ڈلا کر ہوش میں لانے کے جتن کرنے لگی۔تھانے دار گرجا ، تو کون ہے تو بولی کہ میں اس کی لُگائی ہوں، اور یہ رہا پیسہ۔
ایک سپاہی نے جس کی کسان جیسی مونچھیں تھیں، ایک لوٹا پانی ہُلے کے منہ پر پھینکا۔ہُلے نے آنکھیں کھول دیں اور اپنی عورت کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔تھانے دار چلایا، چل بھاگ یہاں سے۔
ہُلے تھانے کے بڑے دروازے تک پہنچا، وہاں سے پلٹ کر اس نے تھانے دار کو گھور کر دیکھا اور گالیاں بکتا ہوا چلا گیا۔
بستی کے سارے جی دار لوگ جیل میں تھے۔ آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے والے وہ لوگ اگر اس موقع پر یہاں ہوتے تو شاید مور کی اس بے تکی ہتیا کے خلاف کچھ ہلچل ہوتی۔دوسرے دن راجا صاحب لوٹ آئے اور لوگوں نے دیکھا کہ وہ کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔انگریز زخمی حالت میں ضلع ہسپتال میں بھرتی تھا۔راجا صاحب نے دیوان جی کو ہسپتال بھیج کر اس کا حال چال دریافت کروایا تو لوگوں کے لیے ایک طرف سے سارا معاملہ ہی ٹھنڈا پڑگیا۔پھر سننے میں آیا کہ رانی ایلزبتھ کو مور کی ہتیا کا دکھ ہے اور وہ اس ہتیارے انگریز کوانگلینڈ واپس بلا کر خود اپنے منہ سے ڈانٹیں گی۔ان کا تذکرہ لوگوں میں چل پڑا کہ وہ بہت غصیل اور خوبصورت عورت ہیں۔
یہ جان کر کہ ملکہ انصاف پسند ہیں، لوگوں کو کچھ تسلی ہوئی مگر ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ جو مور امر تھا، اتنا پرانا تھا، وہ برہما جی کی مرضی کے بغیر مر کیسے گیا! کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کا جسم مرا ہے، اس کی روح نہیں مری ہے۔وہ اجر-امر ہے اور کبھی کبھی رات میں چوپڑا کے پاس دکھ جاتا ہے۔روح دیے کی لو کی مانند ہوتی ہے ، خواہ کیسا بھی اندھیرا اور آندھی کیوں نہ ہو، وہ ڈٹی رہتی ہے۔
مگر ہُلے کو ان باتوں سے کوئی مطلب نہیں تھا۔اس نرے ان پڑھ شرابی نے مور کی ہتیا سے تھانے کو جوڑ دیا اور روز اس سے ٹکرانے لگا۔ لوگ حیران رہ گئے، جب دوسرے دن شام کو کلاری سے نکل کر ہُلے اپنے کچھوارے کی طرف لوٹتا ہوا تھانے دار کو گالیاں دیتا اور لڑکھڑاتا ہوا دکھا۔گھٹنوں تک چڑھی دھوتی، بنڈی اور صافے میں وہ دھول بھری سڑک پر ننگے پاؤں چل رہا تھا۔دکانوں سے چھنتی دھیمی روشنی میں اس کے باہر نکلے بڑے بڑے پیلے دانت دکھ جاتے تھے۔تھانے کے آگے رک کر اس نے ہنکار لگائی۔تھانے دار کا نام لے کر چلایا اور گالیاں بکنے لگا۔تھانے میں کنور صاحب تھانے دار کے ساتھ بیٹھے تھے۔میز پر گیس کا ہنڈا جل رہا تھا۔ ہُلے کی گالم گلوج سن کر دو سپاہی باہر دوڑے اور اسے پکڑ کر اندر لے گئے۔ وہ گھسٹتا ہوا گالیاں بکتا رہا۔میز کے پاس پہنچ کر وہ کنور صاحب کے پیروں پر سر رکھ کر اکڑوں بیٹھ گیا اور بولا۔’سرکار ان ہتیاروں کے پاس بیٹھتے ہو، ان نے مور مارنے والے انگریز سپاہی کو نہیں مارا اور موئے مارا۔’
کنور صاحب نے اسے ڈپٹا اور بولے،’چل سیدھا حویلی پہنچ۔میں آتا ہوں، چل سیدھا۔’تھانے دار ہنس کر کچھ کہنے کو ہوا مگر کنور صاحب بولے۔’ٹھہریے! میں آج اس کی خبر لیتا ہوں۔’
حویلی میں ہُلے کو دس جوتوں کی سزا ملی۔جوتے کھاکر وہ سیدھا کلاری گیا۔وہاں اس نے ایک پاؤ چڑھائی اور تھانے کے سامنے کھڑا ہوکر گالیاں بکنے لگا۔تھانے دار تھانے میں تھے نہیں۔منشی جی پان کھاکر تھانے میں گھس رہے تھے۔ہنس کر بولے، ‘جاؤ بھیا، گھر جاؤ۔تھانے دار ابھی نہیں ہے۔’
ہُلے کا کچھوارا بستی سے لگا ہوا تھا۔زرخیز زمین تھی، کنواں تھا، محنتی عورت تھی، ہُلے بھی محنت کرتا تھا یا پھر دن بھر پڑا سوتا رہتا تھا۔کچھوارے سے آمدنی اچھی تھی اور خرچ بہت کم تھا، بال بچے تھے نہیں،نہ بھائی بہن ہی تھے۔دارو پینے کے علاوہ کوئی عیب ہُلے میں نہیں تھا۔پاس ہی میں جوئے کا ایک اڈا تھا مگر ہُلے وہاں کبھی پھٹکا تک نہیں۔مور کی ہتیا کے بعد تھانے دار کو گالی دینے کا خرچ بڑھ گیا تھا۔پولیس والے اسے حوالات میں ڈال دیتے اور اس کی عورت روپے دے کر اسے چھڑاتی۔چار سال بعد جب دیش آزاد ہوگیا اور دیسی سرکار بن گئی تو پولیس اور بھی سختی سے پیش آنے لگی۔کبھی کبھی وہ اتنی بری طرح پیٹا جاتا کہ چار آٹھ دن کے لیے کھاٹ پکڑ لیتا، مگر جیسے ہی چلنے پھرنے کے لائق ہوتا تو پھر ٹھیکے پر پہنچ جاتا اور لڑکھڑاتا ہوا تھانے کے آگے رک کر گالیاں بکنے لگتا۔کئی بار اسے پولیس کچہری لے جاتی اور جرمانہ لگادیتی۔اس کی عورت نے کبھی یہ نہیں ہونے دیا کہ ہُلے کو جیل میں ہی رہنا پڑا ہو، وہ کہتی کہ تھانے دار کو گالی دیے بنا اسے چین نہیں پڑتا تو کیا اسے جیل میں سڑنے دیں؟ سرکار روپیہ لے کر گالی دینے دیتی ہے۔
پچیسوں تھانے دار بدلے۔قصبہ بدلا۔بجلی آئی۔کالج کھلے۔پرانی پیڑھی مرکھپ گئی۔ چین سے لڑائی ہوچکی، نہروجی چل بسے۔اندراجی کا راج آیا۔ایمرجنسی لگی۔مگر ہُلے نہیں بدلا۔لوگ مور کو بھول گئے۔اس کی ہتیا کو بھول گئے، یہاں تک کہ ہُلے کو اور اس کی روز کی گالم گلوج کو بھول گئے۔مگر ہُلے نے مور کی ہتیا سے شروع ہونے والے تھانے دار کو دی جانے والی گالیوں کا سلسلہ ختم نہیں کیا۔جیسے اُپواس کرنے، مندر جانے، سندھیا پوجا کرنے کامعمول لوگوں کا مرتے دم تک نہیں ٹوٹتا، ہُلے کا یہ عمل بھی نہیں رکا۔اگر حساب لگایا جائے تو تیس پینتیس برسوں میں اس نے پولیس کے ہزاروں بینت کھائے، پچاسوں بار حوالات میں پٹخا گیا، سیکڑوں بار اس کی عورت نے جرمانہ دے کر اسے چھڑایا، مگر اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تھانے دار کو گالیاں دینا چھوڑ دو۔
اگر آپ کبھی اس قصبے میں گئے ہوں تو آپ نے شام کو دیکھا ہوگا کہ لوگ سڑک پر آجارہے ہیں۔اور ایک کالا کمزور آدمی کچی شراب کے نشے میں چور تھانے کے آگے کھڑا کھڑا تھانے دار کو چنوتی دے رہا ہے، گالیاں بک رہا ہے اور کسی کا بھی اس کی طرف دھیان نہیں ہے۔لوگوں کے لیے یہ ایک روزمرہ کی بات ہوچکی تھی۔جیسے کتوں کا بھونکنا، بجلی کے کھمبوں کا ایک جگہ کھڑے رہنا اور پیڑ کا ہِلنا وغیرہ وغیرہ۔لوگ تو یہ تک بھول گئے تھے کہ وہ گالیاں دیتا کیوں ہے؟ جب کوئی نیا تھانیدار آتا تو وہ بوکھلا کر کارروائی کرتا۔پھر اسے تھانے کے پرانے لوگ سمجھاتے کہ صاحب اس کے منہ کیا لگنا، یہ تو زمانے سے یہی سب کرتا آرہا ہے۔اسے کاٹ کر بھی پھینک دیں تو بھی یہ گالیاں بکنے سے باز نہیں آئے گا۔تھانے دار اگر تھوڑا نرم مزاج ہوتا ، جیسا کہ مشکل سے ہی ہوتا ہے، تو وہ ہُلے سے الجھنا چھوڑ دیتا اور اگر لنٹھ آدمی ہوتا ، جو کہ عام طور پر ہوتا ہے، تو وہ ہُلے کو مارتا بھی، اسے بند بھی کرتا اور اس کی عورت سے روپیہ بھی اینٹتھا۔
سنکی اور ضدی آدمی کتنا اچھا لگتا ہے، جب اس کی ضد اور سنک میں اس کا اہنکار شامل نہیں ہوتا۔غریب ہے، کمزور ہے مگر مصیبتوں میں کسی سہارے کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاتا، بلکہ سامنا کرتا ہوا پِٹتا چلا جاتا ہے۔ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی طرف دھیان دے۔آخری سانس تک اپنی ضد اور سنک میں رہتا ہے۔کتنا مشکل ہوتا ہے ایک ایسا آدمی جبکہ بستیاں آبادیوں سے بھری پڑی ہیں۔کتنے کم لوگ اس طرح جیتے ہیں جنہیں کچھ بھی بٹورنا نہیں ہے، نہ کسی کو لوٹنا ہے۔کسی سے کچھ نہیں چاہیے۔نہ کسی سے شکایت کرنی ہے، نہ کسی پر حملہ کرنا ہے۔بس جو اپنے جذبات کی ایک لہر میں جی رہے ہیں،ہُلے اسی طرح جیا اور اسی طرح مرگیا۔
ایک تھانے دار آیا ، اس کا نام تھا پانڈے۔نوابی اس کا ٹھاٹھ تھا۔بہت بڑی توند پر بیلٹ لپیٹے جب وہ بستی میں نکلتا تو ہاتھ کے بینت، کمر کی پستول، نکیلی مونچھیں دیکھ کر اچھے اچھوں کے گلے سوکھنے لگتے۔وہ اتنی زور سے چلاتا کہ اگر خرگوش کھڑا ہوتو دبک جائے۔وہ دو بیویاں ساتھ لے کر آیا تھااور یہاں وہاں منہ مارنے کے لیے سانپ کی طرح بستی میں پھرا کرتا تھا۔دن بھر کھانے کے بعد رات بھر شراب پیتا تھا۔ اس کے ڈر سے بدمعاش شریفوں کی طرح اور شریف غلاموں کی طرح چلا کرتے تھے۔گلیوں میں بھونکنے والے کتے اسے دیکھ کر دم دبائے نالی میں گھسنے لگتے تھے اور پنچھی پیڑوں سے جان چھڑا کر بھاگ نکلتے تھے۔بلیاں اسے دیکھ لیں تو منڈیروں سے پھسل کر نیچے گر پڑیں ۔گائیں گوبر کردیں اور کنکھجورے اپنے ہی کان میں گھس جائیں۔اس نے تھانہ ڈھائی لاکھ میں خریدا تھا اور تین سال میں اسے دس لاکھ چاہیے تھے۔ اوپر سے نیچے تک اس کی ایسی پکڑ تھی کہ وہ کسی کی آنتیں نکال کر پھینک دے تب بھی کہیں سنوائی نہ ہو۔ابھی جب وہ بستی میں آیا بھی نہیں تھا، اس کے آنے کی خبر سے ہی دہشت پھیل گئی تھی۔ پورے علاقے میں اس کا شور تھا۔لوگ ڈاکوؤں سے اتنا نہیں ڈرتے تھے، جتنا اس کا خوف تھا۔اس کی آمد پر سبھی نے اس کا سواگت کیا، ہُلے نے بھی۔
اس مہابلی تھانےدار نے گالی کبھی کھائی نہیں تھی، اس لیے وہ ایک دم پگلا سا گیا۔وہ اتنی زور سے چلایا کہ تھانے کی مضبوط دیواریں ہل گئیں اور کمزور دیواریں گرپڑیں۔دروازوں اور کھڑکیوں کے پلے بھڑبھڑانے لگے اور سڑک پر جو جہاں تھا، وہیں گر پڑا۔ہوا رک گئی اور بلبوں کی روشنی اتنی تیزی سے بڑھنے لگی ، جیسے کہ ان میں آگ لگ گئی ہو۔اس سناٹے میں ہُلے کی آواز اونچی ہوتی گئی۔’نکل پانڈے تیری ماں کی۔۔۔’
تھانے دار نے جھپٹ کر ہلے کی گردن پکڑلی اور اسے اتنی زور سے پھینکا کہ وہ سیدھا اپنے کچھوارے میں جا کر گرا۔پھینک کر وہ اسے ڈھونڈنے لگا مگر وہ ملتا بھی کیسے! میل بھر دور جو پڑا تھا۔اس کی ہڈی پسلی سب برابر ہوگئی تھی مگر اس نے اتنی زور سے گالی دی کہ تھانے تک پہنچ گئی۔’نکل پانڈے تیری تھانے دار۔۔’سارے سپاہی سڑک پر ، دکانوں میں، نالیوں میں ہُلے کو ڈھونڈنے لگے۔اور تھانے دار پیروں کو چوڑائے، بینت لیے بیچ سڑک پر کھڑے ہوکر پھنکارنے لگا۔اس کا غصہ اتنا زبردست تھا کہ چاند پیلا پڑگیا اور تارے آسمان میں چھید کرکے پیچھے کی طرف نکل بھاگے۔
‘تھانے دار تیری بہن۔۔۔’ہُلے کی گالیاں اس کے سر پر گریں تو اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔اس نے ہوا میں بینت گھمایا، فائر کیا اور چلایا، ‘کہاں ہے سالے!سامنے آ۔۔’
میل بھر دور کھچوارے میں یہ چنوتی پہنچی تو ہُلے نے کھینچ کر گالی دے ماری اور چلایا۔’ادھر آ تھانے دار کے۔۔۔۔’
‘کدھرکدھر؟’ تھانے دار پھنپھناتا ہوا کئی گھروں کے دروازے روندتا، چھتوں پر ایڑیاں بجاتا، لوگوں کی چھاتیوں پر سے گزرنے لگا اور گرجا۔’کدھر ہے تو؟’
‘ادھر حرامی، ادھر کچھوارے میں۔۔۔’
پورا تھانہ کچھوارے کی طرف دوڑا۔تھانے دار نے تین قدم میں میل بھر کی دوری ناپی اور کانٹوں کی باڑ میں پڑے ہُلے کی گردن پکڑ کر اسے اتنی زور سے پھینکا کہ اب کے وہ تھانے میں جاگرا۔سنسان تھانے میں گرتے ہی اس نے کمرمیں ٹھنسی ہوئی شراب کی شیشی نکال کر باقی شراب چڑھائی اور چلایا۔’حرامی تھانے دار پانڈے، سالے مادر۔۔۔’
آواز کھچوارے میں پہنچی تو تھانے دار نے کچے مکان کو جوتے کی ایک ٹھوکر ماری۔مکان بھربھرا کر گرا اور ملبے میں سے ایک عورت چلاتی ہوئی باہر نکلی۔تھانے دار نے عورت دیکھی، سپاہیوں سے کہا، تھانے جاؤ، میں آتا ہوں۔پھر وہ عورت پر جھپٹا۔کاچھن بوڑھی ہوکر بھی مضبوط تھی، وہ مقابلہ کرنے لگی۔مگر تھوڑی چھٹپٹاہٹ کے بعد ہی سمجھ گئی کہ وہ بچ نہیں سکتی، اس کا شکار ہوکر رہے گا۔وہ چھوٹ کر بھاگی، مگر تھانے دار اس کے چاروں طرف پھیل کر اسے گھیرنے لگا۔وہ اس کی ٹانگوں کے بیچ سے نکل گئی، مگر تھانے دار کی پکڑ میں اس کا ہاتھ آگیا۔کاچھن نے چھوٹنے کے لیے اتنی زور سے جھٹکا دیا کہ اس کا ہاتھ بازو سے اکھڑ کر تھانے دار کے ہاتھ میں رہ گیا اور وہ بھاگ کر کنوئیں میں کود گئی۔
تھانے دار نے دیکھا کہ عورت ڈوب مری۔عورت کا ہاتھ ہی رہ گیا ہے اور ہاتھ میں سونے کی ایک چوڑی ہے۔اس نے چوڑی اتار کر جیب کے حوالے کی۔کاچھن کے ہاتھ کو بینت کی طرح ہلاتا ہوا وہ تھانے کی طرف چل دیا۔
سامنے سے ہُلے چلاآرہا تھا۔ اس کی شراب اتر چکی تھی، اس نے تھانے دار کو دیکھ کر سلام کیا اور آگے بڑھنے لگا تو تھانے دار نے اس کاچھن کا ہاتھ اسے تھماتے ہوئے کہا۔’لے جا، یہی بچا ہے۔’
آزادی ہند کے لیے لڑنے والے ایک شخص کا بستی بھر میں بڑا نام تھا۔ وہ تو کبھی کے پرلوک سدھار چکے تھے مگر ان کے لڑکے بچے تھے اور سرکاری پارٹی میں ان کا اچھا خاصہ اثرو رسوخ تھا۔خوب پیسہ کمانے کے بعد انہیں یہ بات کھٹکی کہ ان کے اتنے مہان پِتا کا کوئی مجسمہ نہیں ہے۔وہ لوگ پانڈے تھے اور پھر تھانے دار بھی پانڈے تھے، اس پر ان کا آپس میں میل جول بھی تھا۔ایک دن انہوں نے تھانے دار سے اپنے من کی بات کہی۔تھانے دار نے ساری ذمہ داری اپنے سر پر لے لی۔جگہ کی تلاش شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ مرد آہن ہُلے کے باپ کے دوست تھے۔دوست تو نہیں مگر اکثر ہُلے کے کچھوارے میں بیٹھ کر کچھ بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔طے کیا گیا کہ کچھوارے کے اسی مقام پر ان کا مجسمہ نصب کیا جائے گا۔ہُلے کی زمین سے لگے ہوئے پانڈوں کے بڑے بڑے کھیت تھے۔ ہُلے کا کچھوارا سڑک کنارے تھا۔ہُلے کے پاس جب یہ خبر بھیجی گئی تو وہ پلاسٹر باندھے کھاٹ پر پڑا تھا اور ایک کسان اس کے لیے چلم بھر رہا تھا۔
اس رات کے واقعے کے بعد سے ہُلے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے عورت گنوادی تھی۔ صرف اس کا مردہ سوکھا ہاتھ باقی بچا تھا۔جس ہاتھ سے وہ ہُلے کے کچھوارے میں کام کرتی تھی، اسے چھڑانے کے لیے پولیس کے آگے روپے پھینکتی تھی، ہُلے کو سنبھالے ہوئے تھانے سے باہر لاتی تھی، وہی ہاتھ کھاٹ کے نیچے پڑا ہوا تھا۔
پانڈوں کے آدمی نے کہا۔’اس کے بدلے تمہیں کہیں اور زمین مل جائے گی، بھیا نے کہا ہے وہاں کنواں بھی کھدوادیں گے۔’
‘نہیں، ہم یہ کنواں نہیں چھوڑیں گے، اس میں جنی ہے۔’
تبھی کنویں میں سے آواز آئی۔’مت چھوڑنا۔۔مت چھوڑنا۔’
‘نہیں چھوڑوں گا، کبھی نہیں چھوڑوں گا۔’
کنویں میں سے پھر آواز آئی۔’مت چھوڑنا، مت چھوڑنا۔’
پانڈوں کا آدمی آواز سے ڈر گیا۔ اور بنا کچھ بولے جلدی سے بھاگ کھڑا ہوا۔شام کو ہُلے نے کسان سے پگڑی بندھوائی، بنڈی پہنوائی اور کلاری کی طرف گھسٹتا چلا گیا۔ سڑک پر کسی نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا۔دیوالی کا دن تھا۔ خوب روشنی تھی۔لوگوں نے نئے کپڑے پہن رکھے تھے۔دکانوں میں لکشمی پوجا ہورہی تھی اور حلوائیوں کے یہاں لوگوں کی بھیڑ لگی تھی۔
کلاری تک کے راستے میں ہُلے دس بار بیٹھا ہوگا۔کسان اس کے ساتھ تھا اور اسے سہارا دے رہا تھا۔ کئی دنوں بعد اس نے دارو پی، اسے جسم میں طاقت محسوس ہوئی اور وہ تھانے کی طرف گھسٹتا ہوا چل پڑا۔وہ لڑکھڑا کر گرنے کو ہوتا تو کسان اسے تھامنے لگتا، مگر وہ ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ ہٹا دیتا۔تھانے کے باہر پہنچ کر اس نے چلا کر تھانے دار کو للکارا اور گالیوں کی جھڑی لگادی۔
تھانے کے آنگن میں تھانے دار کچھ معززین کے ساتھ بیٹھا ہوا تاش کھیل رہا تھا۔اس نے باہر آکر دیکھا اور چلایا۔’پکڑو اور یہاں لاؤ۔’
دو سپاہی ہُلے کو اس کی گالیوں سمیت گھسیٹ کر اندر لے آئے۔تھانے دار کرسی سے اٹھا اور اس نے اپنے بھاری بوٹ سے ہُلے کی چھاتی کچل دی۔اندر سے ہڈی کے چرمرانے کی آواز آئی اور پوری بستی کا فیوز اڑ گیا۔صرف دیے ٹمٹاتے رہ گئے۔تھانے میں اندھیرا ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں میز پر دو موم بتیاں جل اٹھیں۔اسے گھسیٹ کر باہر پھینک دو۔تھانے دار حکم دے کر واپس اپنی جگہ بیٹھ کر پتے سنبھالنے لگا۔
سپاہیوں نے ہُلے کو گھسیٹا تو اس کی چھاتی وہیں کھل کر پھیل گئی۔جتناممکن ہوسکا، اتنے حصے کو باہر پھینک دیا گیا۔کسان نے اسے اپنے انگوچھے میں باندھا اور کچھوارے کی طرف چل پڑا، تبھی لائٹ آگئی۔
دوسرے دن بستی کے لوگوں نے دیکھا، مور کی چونچ میں کاچھن کا سوکھا مردہ ہاتھ تھا۔مور کچھوارے سے نکلا اور چوپڑ ے کی طرف بڑھنے لگا۔اس کے سنہرے پنکھ پھیلے ہوئے تھے۔لوگ اس کے پیچھے لگ گئے۔جب وہ تھانے کے سامنے پہنچا تو رک گیا اور ناچنے لگا۔اس کے ناچنے سے برسات ہونے لگی۔لوگ بھیگتے ہوئے اسے دیکھتے رہے۔تھوڑی دیر ناچنے کے بعد وہ چوپڑے کی طرف بڑھا۔متجسس لوگ اس کے پیچھے پیچھے چوپڑے تک گئے۔ اس نے چوپڑے کا ایک چکر لگایا اور چونچ میں عورت کا ہاتھ دبائے ہوئے لوگوں کو دیکھتے دیکھتے چوپڑے کے پانی میں ڈوب گیا۔تھوڑی دیر بلبلے اٹھتے رہے، پھر پانی شانت ہوگیا۔
ہُلے کو مرے برسوں گزر گئے ہیں۔ اس کی زمین پر پانڈوں کے پتا کا مجسمہ بن گیا ہے۔مجسمے کے ارد گرد ایک خوبصورت اور گھنا باغیچہ ہے۔کنویں کی جگت سیمنٹ کی ہوگئی ہے۔بہت دنوں تک تو اس کنویں سے کسی نے پانی نہیں نکالا، پھر لوگ سب کچھ بھول بھال گئے۔باغیچے میں پکنکیں منائی جاتی ہیں تو لوگ اسی کنویں کا پانی پیتے ہیں۔
ایک دن کنویں سے پانی کھینچا جارہا تھا تو بالٹی بھاری لگنے لگی۔کھینچنے والے نے جھانک کر دیکھا تو بالٹی میں ایک لڑکے کو دیکھ کر وہ چکرا گیا۔غنیمت ہوئی کہ وہ گھبرایا نہیں اور اس نے سنبھال کر بالٹی اوپر کھینچ لی۔
سب اسے گھیر کر کھڑے ہوگئے۔وہ ایک سانولا لڑکا تھا، جس کی بڑی بڑی شفاف آنکھیں تھیں۔
‘کیا تم کنویں میں گر گئے تھے؟”
‘میں نہیں، میری ماں گر گئی تھی۔’
‘تمہاری ماں مرگئی تھی؟ تمہارا باپ کون ہے؟’
‘ہُلے کاچھی۔۔!’یہ کہہ کر لڑکا مسکرانے لگا۔
کون ہُلے کاچھی؟ وہ لوگ ہُلے کو نہیں جانتے تھے۔
٠٠٠
نوین ساگر 29 نومبر 1948 میں ساگر، مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے اور 14 اپریل 2000 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ انہوں نے اپنی باون برس کی اس زندگی میں کئی کہانیاں لکھیں اور کمال کی شاعری کی۔ ‘نیند سے لمبی رات’، ‘جب خود نہیں تھا’اور ‘گھر گھر سے غائب’ نامی ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے۔ان کی نظموں نے بغیر کسی تشہیر کے بہت سے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنائی، البتہ کہانیاں کافی عرصے تک یکجا نہیں ہوسکیں۔مگر کچھ عرصہ قبل ہندی میں ان کی اب تک کی دستیاب تمام کہانیاں ‘نوین ساگر کی کہانیاں ‘ کے نام سے شائع ہوکر سامنے آئی۔کہا جاسکتا ہے کہ نظم و نثر پر ان کی دسترس یکساں تھی اور وہ ان دونوں میدانوں میں کامیاب رہے۔
نوین ساگر کی کہانی مور ایک غریب، نہتے مگر اڑیل آدمی کے احتجاج کی ایک ایسی کہانی بیان کرتی ہے، جس میں سب کچھ حقیقت کی تختی پر نہیں لکھا گیا ہے، بلکہ کچھ باتوں کو خاص مجازی رنگ دے کر اسے کسی بھی طرح کے خاص زمان و مکان سے الگ کردیا گیا ہے۔اس طرح یہ انسانی احتجاج پر لکھی گئی آفاقی قسم کی کہانیوں میں سے ایک بن گئی ہے اور اس کی کامیابی یہی ہے کہ یہ طاقت اور جبر کے سامنے نہ جھکنے والے ایک فرد کی ایسی گاتھا سناتی ہے، جو اپنے ہونے کے نشے کو دولت اور طاقت کے تمام نشوں سے برتر اور بہتر مانتا ہے۔وہ اس کی قیمت بھی چکاتا ہے، اسے کوئی جانتا بھی نہیں مگر پھر بھی اس کے پاؤں اس میدان میں ذرا سی دیر کے لیے بھی ڈگمگاتے نہیں ہیں۔ یہ نوین ساگر کی لکھی ہوئی بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ ہندی ادب کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہا جائے ، تب بھی غلط نہ ہوگا۔