بھول کے سرے سے اُگتی تمہاری یاد
تم کو دیکھتا ہوں
تو جیسے بھول جاتا ہوں
سامنے دکھائی دیتے پھول کا نام
جیسے بھول جاتا ہوں
ہتھیلی پر رکھا
میر کا شعر
جس میں سرسوں کی بھی بات ہے
تم کو دیکھ کر یاد آتے ہیں
ندیوں کے پرانے نام
جس میں سُندرتا کی چھینٹیں بچی ہوسکتی ہیں
پانی اور ماضی کے علاوہ
نظم کے روزمرہ میں
بار بار عمدہ تشریح کی حقدار ہوتم
کچھ نہ کام آئے
تو مناؤں تمہیں نظم سے
اور تم مان جاؤ میری محنت مگر
نظم کو پھر بھی رد کرو
میں جانوں دکھ کا سبب
کہ نظم محنت سے نہیں پھوٹتی
تم پھول کا غلط نام لو
اور میں اس کو دبی زبان میں کہا گیا حرف مانوں
سجھاؤں صحیح نام کسی چٹھی میں
نثر میں
تم نثر سے بے حد عشق کرو
پھول کو پھر بھی غلط نام سے پکارو
٠٠٠
نظم
نیند ایک مکان ہے
لوٹتا ہوں جس میں بے طرح
دنیا بھر کے دفتری کام نمٹا کر
ایک مقدس کونا ہے
جس میں جاتے ہی
ضرورت نہیں
خود کو دی گئی کسی مقبولیت کی سند کی
نیند کی دہلیز پار کرنے سے پہلے
ڈوبتا ہوں تمام ممنوعات میں
سکھ کی لذتیں
اور صبح سے شروع کرسکنے والے
نئی زندگی کے عہد
نیند سب کچھ نگل لیتی ہے
میرے گناہ و ثواب
جھجھک، کفارہ، کپٹ
اور باقی سبھی کپکپاہٹوں کو
نیند ایک گہرا کنواں ہے
جو واپس نہیں آنے دیتا
پھینکے گئے پتھر کی آواز
زندگی میں
جاگنے کی ہر کوشش
نیند سے ہو کر گزرتی ہے
٠٠٠
نظم
لمس کی خواہش سے بھاگتے ہوئے تمہارے پیر
لمس کی خواہشوں سے ہی بنائے گئے ہیں
٠٠٠
نظم
کتنا لکھا جا رہا ہے
دیکھا تو جارہا ہے اس سے بھی زیادہ
فکشن، کلٹ، کلاسیک
اور اَن پُٹ ڈاؤن ایبل (unputdownable)
کوئی بھی کتاب چھوؤ
وہ اس کا بارہواں ایڈیشن ہوگا
ایک فلم سے چوک جاؤ
تو
بھاردواج رنگن ٭سمجھ میں نہیں آتا
کبھی جوش تھا
کبھی پڑھنے کا وعدہ
کچھ کو
نہ پڑھنے کی سزا تھی
قارئین کے سماج میں
اور باقی سارے کام بھی
نیند ٹوٹتے ہی چلے آتے ہیں
ترجیحات کی فہرست لیے
خود کا منتخب کیا ہوا بھی
باسی ہوا جاتا ہے
جو جتنا ہوسکا
پلٹ کر دیکھا
وہی سکھ ہوگیا
تِس پر بھی کبھی پیٹھ دُکھتی ہے
کبھی آنکھیں
نہ جانے کتنی جنگیں ہیں
جو باقی رہ جانے کی سزا جھیل رہی ہیں
باقی اتنا سب کچھ تھا کہ
ایک بوند بھی پانی جب پیا
پیاس کااتہاس کھُلتا چلا گیا
٠٠٠
٭بھاردواج رنگن: فلمی نقاد اور مصنف
نظم
چوتھے پہر سے
بارش کی آخری لڑی لٹکی ہوئی ہے
لیمپ پوسٹ پر پسری تکان
پتیوں پر چمکتی گیلی روشنی
ایک گزرتی ہوئی گاڑی
سڑک پر جمع پانی کو
اس کا چیرتے ہوئے گزرنا
رات کی بارشوں کے
رنگ نہیں ہوتے
دیر سے کھلے گا آسمان
دیر سے لگیں گی ریڑھیاں
بروقت ملیں گے اخبارات
بے شکل بارش
اپناتی چلی جائے گی
صبح کا چہرہ
تھمنے لگی ہے تھک کر
جیسے پہنچ رہی ہو اب
پلیٹ فارم پر
لمبی دوری کی ٹرین
٠٠٠
نظم
تمہیں یاد کروں
تو تمہارا سنسار بھی ساتھ ہی چلا آتا ہے
پردے اور برتن
تازہ پُتی ہوئی دیواریں
مرتبان
اور اُرد سے بننے والی
سب چیزیں
میں بس خوش ہوں
کہ ان سب کے درمیان
تمہارے بغیر بھی رہ لیتا ہوں
پہلے تو اتنا کتابی تھا ہجر
کہ دکھ میں بھی
معاصر نظموں میں
ڈھونڈنا پڑتا تھا
اپنی ذہنی حالت جیساکوئی شاعر
٠٠٠
نشانت کوشک 1991 میں جبلپور، مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے انہوں نے ترکی زبان و ادب میں ایم اے کیا۔اور ممبئی یونیورسٹی سے فارسی میں ڈپلومہ اور ایڈوانس ڈپلومہ حاصل کیا۔وہ اردو، ہندی، آذربائیجانی، پنجابی اور انگریزی سے ہندی میں تراجم کرتے آئے ہیں۔ ان کے ترجمے ہندی کی مشہور ویب سائٹس سدانیرا، سمالوچن ، انوِتی اور ہندوی وغیرہ کی زینت بنتے رہے ہیں۔ وہ تبصروں، تراجم، ڈائری اور شاعری کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ مطالعے کے تعلق سے اپنی دلچسپی کے لیے جانے جاتے ہیں۔فی الحال 2023 سے پونے میں مقیم ہیں اور وہیں نوکری بھی کررہے ہیں۔
نشانت کوشک کی یہ نظمیں سرگوشیاں کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ جس طبیعت کے انسان ہیں، وہاں ویسے بھی خود کو مشتہر کرنے کی خواہش بہت زیادہ نہیں ہے۔ لکھتے پڑھتے رہنے کے عمل میں جنم لینے والی یہ تھوڑی سی نظمیں ان کے شانت سبھاؤ اور غم دوراں کے ساتھ غم جاناں کی بھی کچھ عمدہ جھلکیاں پیش کرتی ہیں۔ ان نظموں میں مناظر ہیں، دیکھے اور جیے ہوئے، ٹھہرے اور بہتے ہوئے، سمٹے اور بکھرے ہوئے۔انہیں سے یہ نظمیں اپنی ایک الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔