جنگل کی تین کہانیاں

(اکرام اللہ کے افسانوں ‘جنگل’، ‘لے گئی پون اڑا’ اور ‘راہ کا پتھر’ کے تناظر میں)

عمدہ کہانیاں ایک طرح کی سیپ جیسی ہوتی ہیں، ان میں موتی ہے یا نہیں، اس سے زیادہ اہم بات ان کی بناوٹ میں ہوتی ہے۔ایسا ہردم معلوم ہونا چاہیے کہ اندر کچھ ہے یا پھر اس ساخت کے سبب انسانی تجسس کے کیڑے ذہن میں بیدار ہوجانے چاہیے۔اکرام اللہ کی یہ تینوں کہانیاں اسی طرح کی ہیں۔میں یہاں ان کہانیوں  کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔یہ میں کبھی کرنہیں سکتا،کیونکہ جس طرح کہانی میں نظریات کی ریلم پیل لگانا، ہر بات کو بیان کرنا اور اخلاقی اصولوں کے ڈھیر لگادینا میرے نزدیک کہانی کے فن کے تعلق سے بڑے گناہ ہیں، اسی طرح کسی کہانی پر بات کرتے ہوئے ، کہانی بیان کرنے لگنا کوئی چھوٹا موٹا جرم نہیں۔کہانی پر بات ایسی ہونی چاہیے، جس سے کہانی پڑھنے کی ترغیب ملے یا نہ ملے تو کم سے کم غیر قاری کو اسے پڑھ کر کوئی بڑا فائدہ نہ ہو۔غیر قاری میں انہیں کہتا ہوں، جو کتابوں، کہانیوں وغیرہ کے بارے  میں انہیں بغیر پڑھے تبصرہ نما تحریروں کے ذریعے ان پر تبصرہ کرنے کی بہادری کو ایک عمدہ صفت خیال کرتے ہیں۔جنگل کہانی دراصل مجھے اس دنیا میں انسانوں کے اس ذہنی جنجال کا پیش خیمہ معلوم ہوتی ہے، جس سے ہر سوچنے والا دماغ گزرتا ہوگا۔ہر سوچنے والا سے میری مراد ہے، ہر وہ شخص جو سوچ سکتا ہے۔اسے کوئی مصنف یا قاری اپنی الگ تخلیقی صلاحیت سمجھ کر کہیں تھوڑا بہت پھول نہ جائے، اس خیال سے بتانا ضروری ہے کہ سوچتے وہ بھی ہیں، جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ محض بدن بھر ہیں اورجن کی زندگیوں پر امید اور افسوس کے دونوں خانے خالی ہیں۔یہی بتانے کے لیے کہ ایسا نہیں ہے، اکرام اللہ نے اپنی ان تینوں کہانیوں کے جو کردار چنے ہیں، وہ سیدھی سادی عام زندگی میں اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جس کا تعلق کھردرے پن اور تکلیف سے گہرا ہے۔یہ تکلیفیں زمینی زیادہ ہیں یعنی ریشم میں لپٹی ہوئی وہ فلسفہ زدہ تکالیف نہیں، جن کے سوال ہی یہاں سے شروع ہوتے ہیں کہ انسان پچھلے کئی ہزار برسوں میں اگر بندر سے آدمی بنا ہے توآئندہ ہزار سالوں میں اس کی ہیت کیا ہوگی؟ یہ پیٹ بھرے لوگوں کے سوالات ہیں۔ جیسے کہ اے آئی سے کتنی نوکریاں پیدا ہوں گی یا کتنی ختم۔زندگی کی سب سے عجیب بات  یہ ہے کہ وہ اصل کتابی صفحے پر جتنی کم ہے، اس سے زیادہ حاشیے میں موجود ہے۔ان حواشی کو کئی بار جینے والے کاہلی، کسلمندی یا سستی میں دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور زندگی کی کتاب  کو سرسری پلٹنے والے کبھی ان سے ان حواشی کے بارے میں زیادہ کچھ جاننے  کی کوشش بھی نہیں کرتے، اس لیے دونوں کا کام خوبصورتی سے چلتا رہتا ہے۔خیر، کہانی ‘جنگل’ میں اکرام اللہ کا کردار اسی طرح کی ایک ادھیڑ بن میں پھنس گیا ہے، وہ دراصل بھٹکا ہوا محض معلوم ہوتا ہے، مگر اس کی اس بھٹکن میں بھی تجسس زیادہ گہرا ہے، اعتماد کی کمزوری نہیں ہے، بلکہ بدلتی ہوئی جگہوں سے پرانی یادوں کے اعتماد کی ایک لمبی جنگ ہے، جو کہ دراصل اپنے آپ میں زندگی کا ایک استعارہ ہے۔آپ کسی راہ سے برسوں تک نہیں گزرے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں دوسری پگڈنڈیاں پیدا نہیں ہونگی، نئے راستے نہیں بن جائیں گے۔آپ اندھیرے میں اگر پرانی یادوں کے سہارے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے تو ہوسکتا ہے کہ جو آپ کو ملا ہے، اس میں آپ کی تلاش کی جیت ہوجائے مگر آپ کا اعتماد جواب دے جائے۔حالانکہ اس ساری فتح و شکست سے فرق کوئی خاص نہیں پڑنا ہے، کیونکہ جو سمجھتے ہیں کہ وہ راستوں کو جانتے ہیں، جنگل کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں، جنگل انہیں چکمہ دے گا، چاہے وہ روز ادھر سے گزریں، روز نئی نئی نشانیاں پیڑوں سے لٹکادیں، شاید یہ سمجھتے رہیں کہ اس جنگل میں غیر ضرر رساں گیدڑوں کے علاوہ کوئی ایسی خاص بات نہیں۔وہ جنگل کو جانتے ہی نہیں، کیونکہ جنگل روز بروز بدلتا جارہا ہے، مزید گھنا ہوتا جارہا ہے۔خود کو بنارہا ہے، کہیں سے کم کررہا ہے، کہیں سے زیادہ۔وہ اپنے آپ میں تخلیقیت سے اتنا پر ہے کہ آپ کو پہلی نظر میں اس کی تبدیلی کا اندازہ نہیں ہوگا، جس طرح وقت بدلنے کا اندازہ نہیں ہوتا اور وقت بدل جاتا ہے۔اور پرانے وقتوں کے ملے ہوئے اعتماد کے کشکول بھربھری ریت کی طرح ، نئے دروازوں کے آگے جھڑ جاتے ہیں، مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتے ہیں۔اس لیے کہانی کے خمیر میں جو بات سب سے اہم ہے، وہ ہے  اس بات کا سمجھنا کہ کسی جگہ پہنچنے کے لیے جنگل نہیں ہے، وہ آپ کو اپنے اندر جذب کرلینے کے لیے ہے، اتارلینے کے لیے ہے۔کوئی راستہ اس سے ہوکر نہیں گزرتا، سب راستے اسی میں گم ہونے کے لیے بنے ہیں، اس لیے دن ہو یا رات۔جنگل سے گزر کر کہیں اور پہنچ جانے کا خیال چھوڑدینا چاہیے۔جنگل میں بھٹکنا ہی، جنگل کو قبول کرنا ہے۔بے مقصد اور گھبرائے بغیر۔جیسا کہ جینے والے، سچ میں جینے والے زندگی کے ساتھ کرتے ہیں۔

‘لے گئی پون اڑا’ ایک بجھتے ہوئے دیے کی کہانی ہے۔مگر بھرپور، بیماری اور دکھی کے عذاب سے جوجھتے ہوئے انسانی زندگی کے اس کراہت آمیز اور لجلجے پہلو کو اکرام اللہ بہت باریکی سے اور سفاکی سے نقش کرتے ہیں۔ان کے یہاں اس معاملے میں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔بھوک، افلاس، غریبی، پریشاں حالی یہ سب بہت فطری ہتھیار ہیں، انسانی تدابیر کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دینے کے لیے۔جو پون چل رہی ہے، اس کے بہاؤ میں اڑ کر آپ کو اسی ڈھیر تک پہنچنا ہے۔روحوں کی دنیا پر اس کہانی میں جو تبصرے ملتے ہیں، وہ سنجو کر رکھنے کے لائق ہیں،ایک مثال پیش کرتا ہوں:

‘ہر روح ایک جگ سا پزل ہے، جس کی ٹکڑیاں محض خلط ملط ہی نہیں ہوئی ہیں، بلکہ بہت سی کم ہیں۔ہم دوسری روحوں کی ٹکڑیاں ملا کر تصویر مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن تصویر کیونکر مکمل ہوسکتی ہے جبکہ وہ ایک الگ اور مختلف پزل کی ٹکڑیاں ہیں۔دراصل ہر پزل کی ٹکڑیاں ازل سے آتی ہی کم ہیں۔اس لیے کوئی تصویر کبھی مکمل نہیں  ہوسکتی۔جس روز روحیں اپنی گم شدہ ٹکڑیاں تلاش کرکے اپنی تکمیل کرسکیں گی دنیا جنت بن جائے گی۔ہماری روحیں پیاسی ہیں، بے حد پیاسی۔جنس ایک سراب ہے۔ریت ہے، پانی نہیں۔یونہی وہم سا گزرتا ہے کہ ہماری پیاس بجھ رہی ہے۔ہماری روح کی تکمیل ہورہی ہے۔گم شدہ کڑیاں مل رہی ہیں۔کچھ بھی نہیں ہوتا۔’

میں اکثر سوچتا ہوں کہ فسادات میں مرنے والوں پر ہم افسوس کرتے ہیں۔لیکن فسادات میں ایک دوسرے کو مارنے والے، مار کر خوش ہونے والے روحوں کے اس جنجال سے تب کیسے سامنا کرتے ہوں گے، جب کسی مذہبی مجمعے میں، حج یاترا میں ، کمبھ میلے میں یا کسی اور جگہ لوگ کچلے جاتے ہیں، مارے جاتے ہیں۔اپنے ہی ہم مذہبوں کے قدموں تلے روند دیے جاتے ہیں۔تب کوئی خدا ان کی روحوں پر مہربان کیوں نہیں ہوتا۔تب وہ جس ایشور کا نام جپتے ہوئے ، دوردراز کے علاقوں سے یہاں آتے ہیں، وہ انہیں سوائے اگلے دن کے اخبار میں بہت سے نمبروں کے ڈھیر میں ڈال کر کیسے اطمینان سے اگلے سال کے مذہبی جشن کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔لیکن یہ سارے سوال روحوں پر اترتے ہی کہاں ہیں۔روحیں اتنا بوجھ برداشت نہیں کرسکتیں۔جیسا کہ ایک جگہ اس کہانی میں کہا بھی گیا ہے، آپ پڑھ لیجیے گا۔یہ کہانی ‘لے گئی پون اڑا’ اردو کی بہترین کہانیوں کے ہر انتخاب میں جگہ بنانے کے لائق ہے، کیونکہ یہ کالا سچ پروستی ہے اور وہ بھی بڑے سلیقے سے۔کہانی میں مرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں پیدا کرواتی۔حاشیے پر رہنے والوں کی زندگی کا بس ایسا دیدار کراتی ہے، جس سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، بشرطیکہ آپ اپنی روح پر تھوڑا سا دباؤ ڈال سکیں۔تو پھر کامنی کی موت آپ کو رلائے گی نہیں،نہ آپ کو مسعود کی موت کے قریب آنے کا ملال ہوگا۔بس ایک خلا ہوگا، جس میں آپ بھٹکتے رہیں گے  اور خود سے پوچھتے رہیں گے کہ کیا ہم بھی یوں ہی نہیں جی رہے؟منٹو ہو، میراجی ہو یا ہانس فلاڈا،کاواباتا ہو یا ہیمنگوے یا پھر ورجینیا وولف۔ان کی روحیں بھی تو ان سے یہی سوال کررہی تھیں، جب یہ موت کی طرف بڑھے اور انہیں معلوم ہوا کہ مرنا ایسا بھی کوئی مشکل کام نہیں، جیسا کہ روح کو اس بوجھ تلے پسنے کے لیے چھوڑدینا ہے۔

تیسری کہانی ‘راہ کا پتھر’دلچسپ ہے، اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے مجھے اس نوعیت کی کوئی دوسری کہانی یاد نہیں آئی۔اچھی بات جو مجھے لگی اور جو آپ کہانی پڑھ کر شاید محسوس بھی کریں گے وہ یہ ہے کہ محبت میں ہم سب خود غرض ہوتے ہیں، مرد شاید اتنے مکار ہیں کہ وہ اپنی خود غرضی کو تیاگ، تپسیا، رہبانیت یا اسی طرح کی خود فریبیوںمیں ڈال کر دنیا کو اور خود کو دھوکا دینے کا سوانگ رچتے ہیں،مگر عورت۔وہ جو سوچتی ہے، ننگی ہوکر سوچتی ہے، اسے محبت میں پردہ کرنا نہیں آتا، نفرت میں بھی نہیں اور شاید بیزاری میں بھی نہیں۔چاہے آپ اسے ہزاروں برقعوں میں لپیٹ دیں۔سینکڑوں اوڑھنیوں میں ڈھانپ دیں۔

٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *