مونچھیں

پرتاب جینتی پر اس بار سرکاری دفتر بند رہے۔ٹھاکر اس کے لیے برسوں سے  کوششیں کررہے تھے۔ وہ بہت ناراض تھے کہ ایرے غیروں کی جینتوں پر تو چھٹی رہے اور رانا پرتاپ کا کہیں شمار ہی نہ ہو۔بات سچی تھی۔ اتفاق سے وزیر اعظم ٹھاکر تھے اس لیے وہ اس سچائی کو محسوس کرسکے۔انہوں نے چھٹی کا سرکاری اعلان کروایا تو شہر بھر کے ٹھاکروں نے ایک بڑے ہال میں اکٹھا ہونے کا فیصلہ کیا۔پرتاپ جینتی کا دن ہی اس  کے لیے چنا گیا۔ٹھاکر لوگ پوری طرح سے روایتی پوشاکوں میں ملبوس تو نہیں تھے، مگر بندوقیں لانا ہرگز نہ بھولے تھے۔پتلون قمیص، پتلون کرتا، کرتا پاجامہ، دھوتی قمیص ہر طرح کی پوشاک پر کارتوسوں کی پیٹیاں کسے، کندھوں پر بندوقیں ٹانگے ہوئے،وہاں پہنچنے والوں میں سے زیادہ تر لوگوں کی مونچھیں تھیں۔مونچھیں طرح طرح کی تھیں جن میں بھاری گل مچھوں سے لے کر چھوٹی نوکدار مونچھوں تک پچیسوں طرح کی قسمیں تھیں۔سب کے چہروں پر رعب تھا اور وہ ایسی چال سے چل رہے تھے جیسے ان کے دلوں میں سرفروشی کی تمنا ہو۔

اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔رانا پرتاپ کی زندگی کے تعلق سے مشہور و معلوم باتوں کو جوشیلے انداز کے ساتھ دوہرایا گیا۔تقریباً ہر مقرر کو گھاس کی روٹی کھانے کا واقعہ بتاکر فخر محسوس ہوا۔ایثار کے اس جذبے کا ٹھاکروں میں فقدان ہوگیا ہے، آج ضرورت ہے کہ ہم رانا پرتاپ کی طرح جئیں اور انہیں کی طرح موت کو گلے لگائیں۔بہت پہلے سرکار نے پرتاپ بھَوَن  کے لیے زمین دی تھی، آج اس زمین پر جھگیاں پھیل گئی ہیں۔

ان جھگیوں کو سرکار نے قانوناً جائز قراردے کر پورے ٹھاکر سماج کو چنوتی دی ہے۔ ہم سرکار کو ایک ہفتے کا نوٹس دیں گے اور اگر جھگیوں کو نہیں ہٹایا گیا تو ہم ان میں آگ لگا دیں گے اور وہاں تب تک گولیاں چلائیں گے جب تک زمین پر پرتاپ بھَوَن نہیں کھڑا ہوجاتا۔خوب تالیاں پیٹی گئیں۔ایک صاحب  جوش میں باہر نکل آئے اور ہوا میں گولیاں داغنے  لگے۔ہال ہنکاروں سے بھر اٹھا۔بھاشنوں کے بعد کھان پان کی محفل سجی۔لوگ جھنڈوں میں کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے۔بندوقوں کے لائسنس ملنے کی دقتوں، بندوقوں اور کارتوسوں کی بڑھتی قیمتوں کی شکایت کے ساتھ ساتھ اس بات  پر بھی تنقید ہوئی کہ بہت سے ٹھاکروں کے پاس بندوقیں نہیں ہیں۔اجلاس میں کچھ لوگ ایسے تھے جن کے پاس بندوقیں نہیں تھیں اور وہ شروع سے ہی بے عزتی محسوس کررہے تھے۔انہوں نے مونچھیں تو اچھی طرح تراشی تھیں مگر ان میں رعب نہیں تھا۔اس بات چیت  کے سبب ان کا اعتماد مزید کمزور ہوگیا تھا۔وہ اس احساس گناہ کے بوجھ کی وجہ سے   پچھڑ گئے اورخود کو چھپانے کے جتن کرنے لگے۔بات چیت کا ایک موضوع یہ بھی تھا کہ شہر میں نوکری کی غرض سے آنے والے ٹھاکروں کی مدد کرنے میں کوتاہی ہورہی ہے۔ جو ٹھاکر بڑے عہدوں پر ہیں ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ٹھاکروں کو نوکری دلوائیں، مکان دلوائیں اور اگر کوئی بہت غریب ہے تو روپے پیسے سے اس  کی مدد کرنے کے لیے سماج کا ایسوسی ایشن تیار رہے۔کچھ لوگوں کا یہ ماننا بھی تھا کہ ٹھاکر قوم ناانصافی سے لڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہے، اس لیے سماج میں جہاں کہیں ناانصافی ہو اس کے خلاف لڑائی کے لیے ٹھاکروں کو ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ جبکہ آج یہ حالت ہے کہ ٹھاکر خود ناانصافی کا شکار ہورہے ہیں، بزدل اور دبُّو ہوگئے ہیں۔کھانے کے بعد محفل برخاست ہوئی۔ہال کے باہر نکل کر سبھی بندوق برداروں نے ہوا میں گولیاں داغیں۔قریب آدھے گھنٹے تک دھائیں دھائیں ہوتی رہی۔ پھر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔

 

میرے پڑوس میں رہنے والے رام سنگھ ٹھاکر بھی اس اجلاس میں گئے تھے۔ ان کے پاس بندوق نہیں تھی، اس لیے وہ بڑے ہی اداس لوٹے۔میں اپنے دروازے پر لکڑی کی ریک دھو رہا تھا کہ وہ سامنے اپنے مکان میں گھسے۔میں نے پوچھا، ٹھاکر صاحب ہوآئے؟

کیا کہا؟ انہیں میرا لہجہ دوستانہ نہیں لگا۔انہوں نے سمجھا کہ میں ان پر پھبتی  کس رہا ہوں۔وہ تڑپ کر پلٹے اور مجھے ایسے گھورنے لگے کہ کیا بتاؤں۔وہ کالونی کے زیادہ تر لوگوں سے جھگڑ چکے  ہیں۔ جھگڑنے میں وہ کسی دلیل ولیل  کے چکر میں نہیں پڑتے، اٹھاپٹخ پر اتر آتے ہیں، اپنی تیکھی آواز میں بری طرح چیختے ہیں۔میں ان کی نظر دیکھ کر سمجھ گیا کہ وہ اٹھا پٹخ کرسکتے ہیں۔ میں دوبارہ ریک پر جھک گیا۔مگر وہ میرے پاس آدھمکے اور بولے، گھبراؤمت، میں جلدی  ہی بندوق خرید لوں گا۔وہ چلے گئے ، میں دھیرے سے مسکرایا۔کہتے ہیں گھبراؤ مت اور خریدنے والے ہیں بندوق۔میں انہیں مشورہ دوں گا، بندوق نہ خریدیں۔غصیل آدمی ہیں، غصے میں کبھی چلا بیٹھے تو ان کے لیے مسئلہ ہوجائے گا۔مگر میں یہ کہوں گا تب، جب وہ اچھے موڈ میں ہوں گے اور بار بار جیب سے لونگ نکال کر بڑے انکسار سے کہہ رہے ہوں گے، لونگ کھائیے لونگ۔

آخر میں ان کے ایک دم سامنے رہتا ہوں۔خوش مزاج آدمی ہیں۔خاص کر ٹھاکر صاحب کی  سدا تنی رہنے والی مونچھوں، بھووں اور چھوٹے سے لنٹھ شریر کی دھمکی بھری ٹھسک دیکھ کر مجھے اکثر ہنسی آجاتی ہے۔کبھی کبھی وہ دیکھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں، کیوں ہنس رہے ہیں؟ میں کہہ دیتا ہوں، کچھ نہیں ایک چُٹکُلہ یاد آگیا یا کل کی فلم کا سین یاد آگیا تھا یا ایسا ہی کچھ اور۔کبھی کبھی دیکھ کر وہ چپ رہتے ہیں۔ ان کا چپ رہنا ایک طرح سے گانٹھ باندھنے جیسا ہوتا ہے۔وہ کئی گانٹھیں باندھ چکے ہیں۔اپنے ڈھنگ سے گانٹھیں کھولنے کی کوشش میں اکثر کرتا رہتا ہوں۔جیسے ان کے آنے کا وقت ہوا کہ میں نے ان کے بچوں کو اپنے پاس بلا لیا اور ان سے ہنسنے بولنے لگا۔کبھی ان کے بچے کو سائیکل پر بٹھا کر اس سڑک پر نکل گیا جس پر وہ آتے ملیں یا مِیرا سے کہہ کر ان کی پتنی کو اپنے گھر چائے پر بلا لیا۔ کبھی میرا اور بچوں کو لے کر ان کے یہاں ٹی وی دیکھنے پہنچ گیا۔انہیں ٹی وی خریدنے پر بڑا فخر ہے۔جس دن انہوں نے خریدا تھا،اس روز ان کی شان دیکھتے بنتی تھی۔بار بار گھر میں گھستے۔ وہ اتنی شان کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی اور دیکھتا ہوگا۔ٹی وی کے سامنےصوفے پر بیچوں بیچ بیٹھ جاتے ہیں، لگاتار مونچھیں اور ہر دس منٹ میں ٹی وی کے کان اُمیٹھتے ہیں۔بٹن گھماتے سمے ان کے چہرے پر ایک مکینک کا  جوشیلا انداز چھاجاتا ہے۔دیکھنے والوں کو اس سے پریشانی تو ہوتی ہے مگر وہ کہہ بھی کیا سکتے ہیں، یہ بار بارکہتے جاتے ہیں کہ اب پہلے سے زیادہ صاف دکھ رہا ہے۔کالونی کے جو لوگ ان کے یہاں ٹی وی دیکھنے نہیں گئے، ان لوگوں سے  بہت ناراض ہوچکے ہیں اور یہ ناراضی دن بدن بڑھ رہی ہے۔

ٹی وی خریدنے کی حیثیت ان کی تھی  نہیں، وہ خریدتے بھی نہیں، اگر کالونی کی پانچ سات چھتوں پر انٹینا نہ لہرانے لگتے۔اور جب انہوں نے دیکھا کہ کوہلی ٹی وی لے آیا ہے تو ان سے رہا نہ گیا۔کوہلی ان کا دشمن نمبر ایک ہے۔ پہلے وہ اسی کے مکان کے سامنے رہتے تھے۔ کل دو مہینے رہے اور اتنا لڑے کہ حد ہوگئی۔کوہلی بھی ہیکڑ  ہے۔ٹھیکے داری کرتا ہے، پیسے کا اسے نشہ ہے، جوانی میں پہلوانی کا شوقین رہا ہے۔ وہ ٹھاکر صاحب سے دبا نہیں،برابری سے لڑا اور انہیں اس مکان سے نکلوانے میں بھی کامیاب ہوگیا۔ تبھی سے ٹھاکر صاحب اس سے لڑنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔وہ بہانہ زمین پر ڈھونڈتے ہیں جبکہ کوہلی آسمان میں رہتا ہے۔ کوہلی کے یہاں ٹی وی ٹھیک ایسے آیا کہ کوئی ٹارچ یا سروتا خریدا کرتا ہے اور جب انہوں نے ٹی وی خریدا تو سمجھیے پوری کالونی کو ہلکان کردیا۔ٹی وی خریدنے کے بعد ان کی لنٹھ ہیکڑی میں رئیسانہ بھڑکیلا پن آگیا۔وہ اب لنگی بنیان میں باہر نہ نکلتے، بچوں کو سجا دھجا کر رکھتے، برتن مانجھنے والی لگالی، ان کے گھر دھوبی آنے لگا اور وہ انگلش پینے لگے۔تھوڑی سی لیتے اور کئی لوگوں کے گھر ہوآتے، کہتے ہیں کہ انگلش کا اپنامزہ ہے۔ پہلے وہ دیسی پیتے تھے، ایسا نہیں کہ روز پیتے تھے، مگر کہتے تھے بنا پیے نیند نہیں آتی۔اب انگلش پیتے ہیں اور کہتے ہیں   کہ انگلش پی کر اچھی نیند آتی ہے۔یہاں یہ بتا دینا ٹھیک ہے کہ وہ سرکار کے شعبۂ جنگلات میں  یُو ڈی سی ہیں۔تنخواہ تو وہی ہے جو یوڈی سیوں  کی ہوتی ہے مگر اوپری کمائی بھی کرلیتے ہیں۔بتاتے ہیں  بہت ہوجاتا ہے مگر مجھے پتہ ہے کہ کبھی کہیں سے کچھ نوچ کھروچ  لیا تو ٹھیک، نہیں تو کوری تنخواہ  پر  ہی ان کا گزارہ ہوتا ہے۔

جس روز وہ اجلاس سے لوٹے اس دن مجھ سے ناراض ہوگئے تھے، اس لیے دو دن بعد تعطیل ہوئی تو صبح صبح میں ٹھاکر صاحب، ٹھاکر صاحب کہتا ہوا ان کے گھر جا پہنچا۔وہ باہر کے کمرے میں کاغذ پتر پھیلائے کچھ حساب کتاب کررہے تھے۔انہوں نے چشمہ چڑھا رکھا تھا۔مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے،آؤ آؤ۔کوئی ان کے گھر پہنچ جائے تو انہیں بڑکپن  کا احساس ہوتا ہے، خاص کر مجھ جیسا کوئی ، جو رنگین رسالوں کے اشتہارات میں چھپنے والے مردوں جیسا لگتا ہے، ویسے ہی مسکراتا ہے، اسی طرح کے کپڑے پہنتا ہے۔بیٹھتے ہی میں نے بڑی ملائمت سے پوچھا، کچھ کام کررہے ہیں؟ وہ کاغذ سمیٹتے ہوئے بولے، نہیں کچھ خاص نہیں۔پھر میرے سامنے کی کرسی پر بیٹھ کر مونچھ اُمیٹھنے لگے۔ان کی کنجی آنکھوں میں بغض کی چمک کے  ساتھ ساتھ میزبانی کا مٹ  میلا رنگ تھا۔میں نے کہا، اس دن آپ کو شاید برا لگ گیا۔انہوں نے تپاک سے کہا، نہیں آپ  کی بات کا برا نہیں لگا۔وہاں سبھا میں میرے پاس بندوق نہیں تھی، اس پر لوگوں نے بڑی باتیں بنائیں۔میں تو آپ کو یہی بتارہا تھا کہ بندوق خریدوں گا۔

میں نے کہا، ہاں آپ جیسے ٹھاکر کے پاس بندوق نہیں ہے یہ دیکھ کر اٹ پٹا تو مجھے بھی لگتا ہے۔ وہ بولے، بندوقیں تو کئی ہیں مگر سب گاؤں میں ہیں اور وہاں اتنے جھگڑے ہیں کہ وہاں سے بندوق لائی نہیں جاسکتی۔

مجھے پتہ تھا کہ گاؤں میں ان کے بوڑھے پِتا کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور وہ اتنے غریب ہیں کہ بندوق ہوتی تو اسے بیچ کر تھوڑے دنوں کی روٹی جُٹا لیتے۔مگر میں نے ٹھاکرصاحب کی چاپلوسی کرتے ہوئے کہا، وہ تو ہے ہی۔وہاں سے بندوق لانے کی بجائے یہیں نیا لائسنس لینا ٹھیک ہوگا۔جب آپ سبھا میں جارہے تھے تو مجھے خود برا لگ رہا تھا کہ آپ بندوق کے بنا جارہے ہیں۔

انہوں نے اوپر کی جیب سے لونگ نکال کر میری طرف بڑھا دی، لونگ کھائیے لونگ۔میں نے ایک لونگ کھالی۔لونگ کھا کر میں نے کہا، مگر ٹھاکر صاحب آپ کے پاس بندوق ہونا مجھے دوسرے کارن سے ٹھیک نہیں لگتا۔آپ ان لوگوں  میں سے تو ہیں نہیں جو بندوق محض ٹانگنے کے لیے خرید لیں، آپ کا غصہ تیز ہے، بندوق چلاتے آپ کو دیر نہیں لگے گی۔

بھویں چڑھا کر وہ بولے، یہ تو ہے۔

اس لیے میں سوچتا ہوں کہ آپ بندوق نہ خریدیں ورنہ بچے  کبھی بھی مصیبت میں پڑسکتے ہیں۔وہ سخت لہجے میں بولے، میں آگا پیچھا نہیں سوچتا، جو ہونا ہو، ہوجائے گا۔آخر میں ایک ٹھاکر ہوں، کوئی بنیا باہمن نہیں۔میں نے کہا، ہاں یہ تو ہے ہی مگر۔مگر وہ نہیں مانے۔بندوق خریدنے  پر ان کی طبیعت ایسی آمادہ تھی کہ مجھے اپنی کوشش بیکار لگی۔اس لیے میں نے پلٹی کھائی اور اٹھتے اٹھتے  کہا، خیر یہ تو میں خود چاہوں گا کہ آپ ٹھاکروں کی سبھا سوسائٹی میں جائیں تو آپ کا کندھا خالی نہ رہے۔یہ طے تھا کہ ٹھاکر صاحب بندوق لیں گے، اس بندوق سے خود کو بچانے کے سوا ان کے لیے میں کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔

میں شرارتی آدمی ہوں۔جوانی کے دنوں میں اس وجہ سے کئی بار بکھیڑوں میں پھنس چکا ہوں اور دو چار بار تو مجھے سر عام پٹنا تک پڑا ہے۔اب میں اڑتیس سال کا شادی شدہ مرد ہوں مگر اب بھی وہ عادت پوری طرح گئی نہیں ہے۔ اب آپ ہی سوچیے ان ٹھاکر صاحب سے پنگا لینے کی حماقت مجھے کیونکر کرنی چاہیے مگر میں ان کے معاملے میں بے قابو ہوجاتا ہوں۔اور بھی کئی ٹھاکروں سے قربت رہی ہے، کچھ تو میرے اچھے دوست بھی رہے۔وہ غصیل تو تھے مگر بات بات میں مرنے مارنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔وہ یہ قبول کرچکے تھے کہ زمانہ بدل گیا ہے، اب یہ ممکن نہیں کہ باہمن دھرم کا پرچم لہرا کے راج کریں، ٹھاکر تلواریں گھما کے، بنیے ساری دولت اپنے تلے دبالیں اور چھوٹی ذات والے جوتے کھاتے پھریں۔مگر ان ٹھاکر صاحب کے لیے زمانہ رتی بھر نہیں بدلا تھا۔وہ ایک ایسے راجا کی طرح  غصیل ہیں جس کا راج پاٹ چھن گیا ہے اور جو اپنی ہی ریاست میں ایک عام شادی شدہ شخص کا چولا پہن کر زندگی گزار رہا ہے۔میں نے ایک ایسے راجا کو اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے میں دیکھا ہے جو بھارت میں ریاستوں کے ادغام کو قبول نہیں کرپایااور پاگل ہوگیا۔وہ اپنی حویلی کے پیچھے موجود احاطے میں ایک راجا کی طرح  غصے میں زمینی  حملے کرتا ہوا مرگیا۔وہ حکم دیتا  تھا اور نہ جانے کیا کیا اور کرتا پھرتا تھا۔مگر اس کی بات سمجھ میں آتی تھی۔راجا کا لڑکا تھا، اس کی تاجپوشی ہونے والی تھی، نہیں ہوسکی، چنانچہ صدمے سے پاگل ہوگیا۔یہ تو راجا نہیں ہیں، ٹھاکر صاحب ہیں۔ گاؤں میں سینہ تان کر رہتے ہوں گے، چماروں  مہتروں کو کبھی پیٹ پاٹ لیتے ہوں گے۔اب شہر میں نوکری کرتے ہیں تو وہ رعب داب نہیں چلتا، اتنا ہی تو ہوا ہے ان کے ساتھ! مگر ان کا غصہ اس پاگل راج کنور سے کسی طور کم نہیں۔مجھ سے اکثر کہا کرتے ہیں، کچھ بھی ہورہا ہے سالا، جسے دیکھو تن کے چل رہا ہے۔کسی کا کوئی لحاظ نہیں۔ذرا کسی کو سدھارنے کی کوشش کی اور راجنیتی بیچ میں کودی۔حد ہوگئی سالی! بنیے باہمن تو ٹھیک، سالے چمار بھی راج کررہے ہیں، تبھی تو چین  نے دُچلی بنادی۔

اپنی ایسی باتوں سے مجھے اور بھی شرارتی بنا دیتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کسی دن ان کے تاؤ کا شکار ہوا تو دھنک کے رکھ دیں گے۔ایسا نہیں ہے کہ وہ دارا سنگھ ہیں اور میں ٹئی، بس اتنی سی بات ہے کہ ان میں لڑنے کا  جوش ہے، پرانے مشاق ہیں، جبکہ میرا جسم پٹتے وقت سُن ہوجاتا ہے اور جیسی بھی جو طاقت مجھ میں ہے، وہ ناف کے پاس اکھٹی ہوکر ہُل ہُل کرنے لگتی ہے۔یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی میں نے شرارت کی۔چھُٹی کا دن تھا۔میں کالونی کے باتونی لوگوں کو بتاآیا کہ ٹھاکر صاحب بندوق خرید رہے ہیں۔بات جلد ہی سب میں پھیل گئی۔کالونی کا بچہ بچہ جان گیا کہ وہ بندوق خرید رہے ہیں۔جن لوگوں سے ان کی بول چال تھی ان لوگوں نے ان سے پوچھا، سنا ہے آپ بندوق خرید رہے ہیں۔شام کو وہ دفتر سے لوٹیں تو لوگ دیکھیں کہ وہ بندوق لائے ہیں یا نہیں۔کبھی کوئی پوچھ بھی بیٹھتا، آپ بندوق نہیں لائے؟ کب لارہے ہیں، جس دن لائیں، ہوائی فائر ضرور کریں، بہت دنوں سے بندوق کی آواز نہیں سنی۔ہم تو مٹھائی کھائیں گے۔انہیں لوگوں کی ان باتوں نے اتنا پریشان کردیا کہ ایک دن طیش میں وہ میرے پاس آئے اور بولے، آپ نے ٹھیک نہیں کیا، میں آپ کی عزت کرتا ہوں۔ میں نے کہا، اگر آپ بتادیتے کہ اس بات کو چھپا کر رکھنا ہے تو میں اپنی مِسز تک کو نہیں بتاتا۔میں نے سوچا، آپ بندوق لائیں گے تو کھلم کھلا لائیں گے۔اس لیے اس بات کو چھپانے کی مجھے سوجھی ہی نہیں۔

وہ چلے گئے تو میں نے پڑوس میں جاکر بتایا، ٹھاکر صاحب نے بندوق لینے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔اگلے دن کئی لوگوں نے ان سے پوچھا، سنا ہے اب آپ  بندوق نہیں خریدرہے ہیں؟ ٹھاکر صاحب کی پتنی نے چین کی سانس لی اور میری پتنی سے بولیں، اچھا ہوا جو ان کا یہ بھوت اترا، نہیں تو دن رات اسی جگاڑ میں پھرتے تھے کہ کہیں سے قرض مل جائے، کوئی لائسنس دلادے۔میں نے دیکھا کہ ٹھاکر صاحب مجھے بہت غصے سے دیکھتے ہوئے گھر میں گھسے۔میں نے فوراً بچوں کو بھیج کر انہیں  پورے خاندان سمیت گھرپر بلالیا۔میرے اس دوستانہ رویے کا اثر ہوا۔وہ چائے پیتے ہوئے بولے، اس کالونی کے لوگوں کو بڑی چہل چڑھی ہے، بتاؤں گا سب کو۔میں نے کہا، ہاں میری بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو آپ کی بندوق سے کیا لینا دینا ہے۔آپ سے ہی کیا، مجھ سے بھی دن میں دس بار پوچھتے ہیں۔میں نے ایک دن غصے میں کہہ دیا کہ وہ بندوق نہیں خریدیں گے، جائیے۔وہ ایک دم تڑپ کر بولے، بندوق تو ضرور خریدی جائے گی۔تھوڑی دیر رکے اور پھر عزت نفس کی حفاظت کرتے ہوئے بولے، میں نے اپنا ٹی وی تین ہزار میں خریدا تھا، چار مہینے چلایا ہے، آپ اسے ڈھائی ہزار میں خرید لیجیے۔میں  حیران رہ گیا۔ان کی پتنی اور ان کے بچوں نے بھی انہیں ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہوگئے ہوں۔مجھے چونکہ دو دن پہلے ایئریر ملا تھا، اس لیے میری پتنی نے میری طرف دیکھا۔میں نے ٹال مٹول کی،مگر وہ اڑ گئے۔شام کو انہوں نے ٹی وی میرے گھر میں فٹ کردیا۔میں آج نہیں تو کل ٹی وی خریدتا ہی، پانچ سو کی بچت دیکھتی تو نانُکُر کرتے ہوئے لے لیا۔

پتہ نہیں چل پایا کہ باقی کی رقم انہیں کہاں سے ملی، مگر ایک ہفتے بعد اتوار کے دن ٹھاکر صاحب ایک معمولی بندوق لے آئے۔میں بندوق دیکھنے گیا۔میں نے بندوق کی بہت تعریف کی۔میں نے یہ بھی کہا کہ آپ بندوق کے ساتھ ایسے لگیں گے، میں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔وہ بہت خوش تھے مگر ان کے بچوں اور ان کی پتنی کا تو جیسے جہان  ہی لُٹ گیا تھا۔کہاں وہ بولتی گاتی تصویروں والی سُندر مشین اور کہاں یہ دھائیں دھائیں کرنے والا لوہا لنگڑ!

باہر کے کمرے میں بندوق ٹنگی رہتی اور اس کے نیچے تخت پر ٹھاکر صاحب بیٹھے رہتے۔کبھی شام کو بندوق ٹانگ کر کہیں ہوآتے۔ایک دن انہوں نے دو ہوائی فائر بھی کیے۔

 

میں جس مکان میں رہتا تھا۔اس کی داہنی طرف ایک لمبا چوڑا پلاٹ خالی پڑا تھا۔ایک دن وہاں کچھ لوگ آئے، ناپ واپ لی گئی، اگلے دن سے ٹرک آنے لگے، پھر مزدور آئے اور عمارت بنائی جانے لگی۔پتہ چلا کہ کوئی سِسودیا جی اس کے مالک ہیں۔دو ایک دن میں وہ اپنی کار سے آتے، تھوڑی دیر معائنہ کرتے اور چلے جاتے۔ہمارے ٹھاکر صاحب میں ایک نئی اکڑ آگئی۔وہ دفتر جانے سے پہلے اور دفتر سے لوٹنے کے بعد وہیں بنے رہتے گویا  کہ ٹھیکیدار ہوں۔ایک دن کار میں بیٹھے سسودیا جی سے ان کی کچھ بات چیت ہوئی، پھر  تو وہ اور بھی مستعد ہوگئے۔ایک دن کہنے لگے، برادری کے ہیں، ریلوے کے سب سے بڑے ٹھیکیدار ہیں، ان کے دو لڑکے ڈاکٹر اور ایک لڑکا  فورین میں انجینئر ہے، لڑکی کی شادی ایک منسٹر کے یہاں ہوئی ہے۔اب اپن کو کسی سالے سے کوئی مطلب نہیں۔

عمارت اتنی تیزی سے بن رہی تھی کہ روز اس کا منظر بدل جاتا۔ٹھاکر صاحب ایک کرسی پر بیٹھے تیز نظروں سے کام دیکھتے رہتے۔کالونی والوں سے ان کی بول چال بہت کم ہوگئی تھی۔ان کے پاس فرصت ہی نہیں تھی۔صبح سات بجے سے  جو وہاں بیٹھتے تو دس بجے اٹھتے اور دفتر سے لوٹ کر آدھی رات تک وہیں بنے رہتے۔مزدوروں پر ناراض ہوتے تو ان کے چیخنے چلانے کی آواز میرے گھر تک پہنچتی۔کبھی کبھی بندوق لے جاتے تو مجھے اندیشہ ہوتا کہ کہیں جوش میں فائر نہ کربیٹھیں۔مگر ایسا نہیں ہوا۔عمارت بن گئی۔مزدور زندہ سلامت واپس لوٹ گئے۔

جلد ہی فرنیچر اور دوسرے سامانوں سے عمارت بھر دی گئی۔پھر ایک شام اچھی خاصی تقریب ہوئی۔بڑے بڑے لوگ آئے۔کالونی کی ساری سڑکیں اور گلیاں کاروں، سکوٹروں سے بھر گئیں۔ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت، صحت مند اور ایک سے ایک رعب دار اور سنجیدہ پروقار لوگ شامیانے میں  دکھائی دینے لگے۔کالونی والوں کو بھی بلایا گیا تھا۔ٹھاکر صاحب کالونی کے اکیلے خاص مہمان تھے۔وہ بندوق ٹانگ کر پہنچے۔دربان کے علاوہ صرف انہیں کے پاس بندوق تھی، اس لیے وہ الگ سے دکھائی دے رہے تھے۔ان کے چہرے کی چمک اور مونچھوں کی نوکیں دیکھتے ہی بنتی تھیں۔وہ شامیانے میں یہاں سے وہاں بھاگ دوڑ کررہے تھے۔ان کے چہرے پر میزبانوں کی سی  ہڑبڑاہٹ تھی۔وہ لوگوں سے کھانے پینے کی چیزوں کے لیے حد سے زیادہ اصرار کرتے اور اگر کوئی کچھ لے لیتا تو نہال ہوجاتے۔کالونی والوں کا انہوں نے خاص طور پر دھیان رکھا۔ کالونی کے مدعوئین کی فہرست  بنانے کی ذمہ داری چونکہ انہیں کو سونپی گئی تھی، اس لیے کوہلی  یا اس جیسے دوسرے کئی لوگ وہاں نہیں تھے۔کالونی کے وہی لوگ تھے جن سے ٹھاکر صاحب کو نفرت نہیں تھی اور ان کا دھیان رکھنے میں انہیں بڑکپن کا احساس ہورہا تھا۔عمارت کی جانب وہ ایسی تعریفی نظروں سے دیکھتے گویا اپنی پیٹھ آپ تھپتھپارہے ہوں۔میں سمجھتا ہوں، ٹھاکر صاحب کی زندگی کا وہ سب سے فخریہ دن تھا۔آخر کار وہ دن بھی ڈھل گیا۔دھیرے دھیرے لوگوں کا جانا شروع ہوا۔اور انت میں سسودیا جی کے نوکر اور ٹھاکر صاحب ہی بچے۔وہ شاید اس لیے رکے تھے کہ آخر میں خاندان کے لوگ ہی بچیں گے، تب آپسی باتیں اور ہنسی ٹھٹھا ہوگا۔مگر سسودیا جی کے پریوار والے یا تو کاروں میں بیٹھ کر کہیں گھومنے نکل گئے یا بھیتر چلے گئے۔ٹھاکر صاحب نے اب اپنے مکان کی طرف دیکھااور عجیب نظروں سے اسے دیکھتے  ہوئے اس میں گھس گئے۔

اس شام کے بعد عمارت کا بڑا گیٹ بند ہوگیا اور اس پر چوبیسوں گھنٹے ایک بندوق بردار دربار تعینات کردیا گیا۔کار آتی تو گیٹ کھلتا، کار جاتی تو کھلتا، باقی سمے بند رہتا۔ٹھاکر صاحب اپنے دروازے پر کھڑے ہوکر گیٹ کی طرف دیکھتے رہتے۔گیٹ تک جاتے اور دربان سے ہنس کر دو باتیں کرکے  لوٹ آتے۔مگر ان  کا دل نہ مانتا، وہ پھر پھر جاتے اور لوٹ آتے۔کبھی کار سے سسودیا جی نکلتے تو ٹھاکر صاحب بڑے ادب سے انہیں سلام ٹھونکتے اور سسودیا جی ذرا سی گردن ہلا کر نکل جاتے۔عمارت کے لان میں شام کو بچے اور جوان لڑکے لڑکیاں خوب ہنستے، بیڈ منٹن وغیرہ کھیلا جاتا۔ٹھاکر صاحب کی گردن کو نہ جانے کیا ہوگیا تھا کہ جب دیکھو تب اسی طرف کو مڑی رہتی۔وہ مجھ سے بات بھی کررہے ہوتے تب بھی بار بار اس طرف دیکھتے۔ان کے کمرے کی وہ کھڑکی پھٹی آنکھ کی طرح کھلی رہنے لگی جو پہلے بند رہتی تھی اور جس میں سے وہ عمارت دکھائی دیتی تھی۔ٹھاکر صاحب کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات کی تھی کہ ان کا دشمن نمبر ایک کوہلی اکثر شام کو وہاں دکھائی دیتا۔کالونی کے دوسرے بڑے لوگوں کا بھی وہاں آنا جانا تھا۔ٹھاکر صاحب کی ہمت اندر گھسنے کی نہ ہوتی اور نہ انہیں کبھی بلایا ہی جاتا۔

وہ مجھ سے کبھی اس بارے میں بات نہ کرتے۔یعنی وہ گانٹھوں پر گانٹھیں لگاتے جارہے تھے۔اب ان کی آنکھوں کی  بغض بھری چمک اور بھی ابھر آتی ، ان کا چہرہ بے عزتی  کے ہتھوڑے سے کچلا ہوا سا معلوم ہوتا۔وہ بہت کم بولتے۔لوگوں سے ان کا لڑنا بھڑنا قریب قریب ختم ہی ہوگیا تھا۔ وہ ایسے لگتے جیسے کسی نے ان کا حق چھین لیا ہو اور حق چھین کر سامنے کھڑا  ہنس رہا ہو۔ کبھی میرے پاس آبیٹھتے تو معلوم ہوتا کہ کچھ بات کریں گے مگر تمتمایا ہوا سا چہرہ لیے  اپنے آپ میں گم رہتے، کنپٹیاں لال کرلیتے۔میں نے کئی بار سوچا، انہیں سمجھاؤں۔مگر سوچا، کیا سمجھاؤں۔ٹھاکر صاحب کی انا پرگہری ضرب پڑی ہے، ایسے میں انہیں کیا سمجھایا جاسکتا ہے۔اب تو دربان سے بھی ناراض ہیں۔اس کی طرف یا تو دیکھتے ہی نہیں  اور دیکھتے بھی ہیں تو اتنی نفرت اور غصے سے کہ اگر وہ سخت جان نہ ہو تو وہیں ڈھیر ہوجائے۔ٹھاکر صاحب کی پتنی میری پتنی سے پوچھتیں، انہیں ہوا کیا ہے؟ دن بھر غصے میں بھرے رہتے ہیں، جب دیکھو بچوں کو پیٹ ڈالتے ہیں۔

ایک دن میں اپنے باہر کے کمرے میں بیٹھا بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ دھائیں دھائیں کی آواز آئی۔آواز اتنے پاس سے آئی تھی کہ بچے ہی نہیں، میں بھی ڈر گیا۔ڈر کر میں ایک دم کھڑا ہوگیا۔باہر احتیاط کے ساتھ  جھانک  کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ٹھاکر صاحب اپنے دروازے پر بندوق تانے کھڑے ہیں، سامنے گلی میں ایک بھاری بھرکم کتا پڑا ہے، سسودیا جی کا کتا۔کتے کی زنجیر چھوڑ کر بھاگا ہوا نوکر دربار کے پاس کھڑا زور زور سے چلا رہا ہے۔کتے کے بدن سے خون بہہ رہا ہے، وہ تڑپ رہا ہے اور عجیب سی آواز نکال رہا ہے۔ میں نے دروازہ بند کرلیا اور کھڑکی پر جا کھڑا ہوا۔ٹھاکر صاحب نے ایک گولی اور ماری۔کتے کی آواز بند ہوگئی۔

سسودیا جی کے بنگلے کا گیٹ کھلا اور ان کے کئی نوکر باہر آکھڑے ہوئے۔پھر بنگلے میں سے موٹی ادھیڑ عورت نکلی اور کتے کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ٹھاکر صاحب اندر جاچکے تھے۔

عورت نے دکھ سے کتے کو دیکھا اور تڑپ کر بولی، اس آدمی کو ہتھکڑی لگواؤں گی۔وہ چلی گئی۔نوکر کتے کی لاش گھسیٹ لے گئے۔

اور سچ مچ آدھے گھنٹے کے اندر اندر پولیس کی چپ آپہنچی۔میں نے کھڑکی سے دیکھا کہ ٹھاکر صاحب ہتھکڑی باندھے اپنے گھر سے نکلے۔وہ جیپ  میں نہیں بٹھائے گئے، انہیں پیدل لے جایا گیا تاکہ لوگ انہیں اچھی طرح سے دیکھ سکیں۔

٠٠٠

 

ہندوستان میں جاتی کے مسئلے پر لکھی ہوئی کہانیوں میں جب بھی سب سے عمدہ کہانیوں کا انتخاب ہو، نوین ساگر کی اس کہانی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ بدلا، قانون اور ریاست کی شکل بدلی، زمینداری گئی، چھوا چھوت کو مٹانے کی کوششیں بھی ہوئیں، مگر یہ بیماری ہمارے سماج کی جڑوں میں اتنی گہری ہے کہ اس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہے، چاہے اس فخر کا عذاب جھیلتے جھیلتے اور بدلے ہوئے زمانے کی سچائی کو قبول  نہ کرنے کے زعم میں جرم کے راستے پر ہی کیوں نہ چلنا پڑے۔نوین ساگر نے اس مسئلے کو بڑی باریکی اور نازکی کے ساتھ چھوا ہے، اس میں ان کا مخصوص مزاحیہ تخلیقی عنصر بھی شامل ہے، جس نے کہانی میں موجود المناک واقعات کی تیزی کو اور کاٹ دار بنادیا ہے۔اس سے پہلے ‘اور اردو’ کی ویب سائٹ پر نوین ساگر کی ایک کہانی ‘مور’  کا ترجمہ بھی شائع کیا جاچکا ہے اور پڑھنے والوں نے اسے پسند کیا ہے، امید ہے یہ کہانی بھی دوستوں کو عمدہ  اور منفرد معلوم ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *