لالو
میرے بچپن کا ایک دوست تھا جس کا نام تھا لالو۔ یہ کوئی پچاس برس پرانی بات ہے ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں ٹھیک ٹھیک بتا نہیں سکتا کہ کتنی پرانی بات ہےــ ہم ایک چھوٹے سے بنگلہ اسکول میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ اس وقت ہم دس گیارہ برس کے رہے […]
کیونجی اسٹیشن پرٹینگوؔ چیو لائن کی تیز رفتار ٹرین پر سوار ہوا۔ کمپارٹمنٹ خالی پڑا ہوا تھا۔ اس نے آج کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ وہ جہا ں بھی گیا اور اس نے جو بھی کیا ( اور جو نہیں کیا) اپنی مرضی سے کیا۔ صبح کے دس بج رہے تھے۔ یہ گرمیوں کے دنوں […]
(پیدائش 80:11) صبح کے اجالے کے نرم پنکھ، جب اس کی پلکوں کو سہلانے لگے، تب وہ نیند کی نیلی ندی میں اوپر آچکا تھا۔اس کاذہن بھیتر کی یادوں اور ان کی تکرار کو سمیٹ رہا تھا۔ رات کی اداسی اس کی آنکھوں سے جاچکی تھی۔ ان آنکھوں کے بھیتر ایک گزرا ہوا سپنا رکھا […]
اس کے فوراً بعد جیسے سب کچھ بدل گیا۔ مجھے لگا جیسے کوئی زہریلا سانپ دھیرے دھیرے یا تو مجھے نگل رہا ہے یا میرے اندر اتر رہا ہے۔چند لمحوں پہلے کی اورمیری اب کی حالت میں کافی بدلاؤ آگیا تھا۔ جیسے کوئی دیوار گرگئی ہو اور میرا پاؤں اس کے ملبے میں بری طرح […]
اگر کسی شہر میں گُم ہوجانے لائق جگہیں نہیں ہیں تو وہ ایک ادھورا شہر ہے۔ بلکہ وہ کوئی وسیع ریگستان ہے۔ جہاں ریت ہی ریت اڑتی ہے، آنکھوں میں بھرجاتی ہے۔پھر نیند میں اور خوابوں میں گھس جاتی ہے۔جہاں دھوپ ہی دھوپ ہے ، چھاؤں نہیں ہے۔سراب ہے، پانی نہیں ہے۔جیسے درخت تو ہیں […]
تنہائی میں ڈوبتے، ابھرتے مارکُش کا پُلِسیا لائن میں یہ تیسرا سال تھا۔تین سال، جیسے تین پوری صدیاں، لوہے کے بکسے اور بندوق کے ساتھ۔لوہے کے بکسے میں بند زندگی گھسٹتی جارہی تھی۔ یہ گھسٹنا اتنی دور تک نہیں ہوتا اگر مارکُش کے پِتا جنگل چھوڑ کر مزدوری کے لیے اتنی دور تک نہیں آتے۔ […]
تمہید حال ہی میں جب میں نے اخباروں میں ‘امامی اپالم’ ( خالا کے پاپڑ) کا اشتہار دیکھا تو حیران سا رہ گیا کیونکہ مجھے بھاگیر تی امامی یاد آ گئی تھیں۔ جب مجھے ان کے دلارے بیٹے اور اپنے بہترین دوست کیداری کی بے وقت موت کا خیال آیا تو میرے بدن میں بے […]