دیوار کے پیچھے کی دنیا

انیس ناگی کے ناول ‘دیوار کے پیچھے’ کے تعلق سے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔اس ناول کی تخلیق کے پچاس برسوں بعد اس پر میں کچھ ایسے زاویوں سے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔جس میں لایعنیت کے فلسفے اور انیس ناگی کی جیون کتھا کے ابواب شامل نہ ہوں۔ان دونوں پر بات […]

لالو

میرے بچپن کا ایک دوست تھا جس کا نام تھا لالو۔  یہ کوئی پچاس برس پرانی بات ہے ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں ٹھیک ٹھیک بتا نہیں سکتا کہ کتنی پرانی بات ہےــ ہم ایک چھوٹے سے بنگلہ اسکول میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ اس وقت ہم دس گیارہ برس کے رہے […]

بلیوں کا شہر

کیونجی اسٹیشن پرٹینگوؔ چیو لائن کی تیز رفتار ٹرین پر سوار ہوا۔ کمپارٹمنٹ خالی پڑا ہوا تھا۔ اس نے آج کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ وہ جہا ں بھی گیا اور اس نے جو بھی کیا ( اور جو نہیں کیا) اپنی مرضی سے کیا۔ صبح کے دس بج رہے تھے۔ یہ گرمیوں کے دنوں […]

سپنوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے

(پیدائش 80:11) صبح کے اجالے کے نرم پنکھ، جب اس کی پلکوں کو سہلانے لگے، تب وہ نیند کی نیلی ندی میں اوپر آچکا تھا۔اس  کاذہن بھیتر کی یادوں اور ان کی تکرار کو سمیٹ رہا تھا۔ رات کی اداسی اس کی آنکھوں سے جاچکی تھی۔ ان آنکھوں کے بھیتر ایک گزرا ہوا سپنا رکھا […]

شُبھ آرمبھ

اس کے فوراً بعد جیسے سب کچھ بدل گیا۔ مجھے لگا جیسے کوئی زہریلا سانپ دھیرے دھیرے یا تو مجھے نگل رہا ہے یا میرے اندر اتر رہا ہے۔چند لمحوں پہلے کی اورمیری  اب کی حالت میں کافی بدلاؤ آگیا تھا۔ جیسے کوئی دیوار گرگئی ہو اور میرا پاؤں اس کے ملبے میں بری طرح […]

گُم ہونے کی جگہ

اگر کسی شہر میں گُم ہوجانے لائق جگہیں نہیں ہیں تو وہ ایک ادھورا شہر ہے۔ بلکہ وہ کوئی وسیع ریگستان ہے۔ جہاں ریت ہی ریت اڑتی ہے، آنکھوں میں بھرجاتی ہے۔پھر نیند میں اور خوابوں میں گھس جاتی ہے۔جہاں دھوپ ہی دھوپ ہے ، چھاؤں نہیں ہے۔سراب ہے، پانی نہیں ہے۔جیسے درخت تو ہیں […]

ستیہ جیت رے اور ذائقے کی دنیا

ستیہ جیت رے کی سب سے قابل ذکر عادتوں میں سے ایک، کھانوں کی روایت پر ان کا خاص دھیان تھا۔ رے کو خاص طور پر بنگالی پکوانوں کے  لیے ان کی دلچسپی کے تعلق سے بھی جانا  جاتا تھا۔ وہ بہترین کھانے کے پارکھی تھے اور مختلف پکوانوں اور ذائقوں کا رس لینا جانتے […]

بیج

‘تم نے ہنسنا بند کردیا ہے، تو کیا ساری دنیا منحوسیت میں ڈوب جائے؟’۔۔۔اویناش کے منہ سے نکلے یہ الفاظ اسے اس طرح سُن کرگئے تھے کہ وہ کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔ اس کا دماغ ایسا خالی ہوگیا تھا کہ نہ تو  اس نے پلٹ کر اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے […]

عطر

پتلی سی گلی تھی جہاں گھر ایک دوسرے سے چمٹے کھڑے تھے۔کھڑکیاں اور چھجے اسی گلی میں جھانکتے ، جیسے اب گرے تب گرے۔عورتیں انہیں چھجوں سے لٹک کر، انہیں کھڑکیوں کے پلوں سے جھانکتے ہوئے ایک دوسرے سے گپ لگاتیں۔جو کوئی اس گلی سے گزرتا اس کے سر پر گپوں اور مصالحے دار افواہوں […]

لوہے کا بکسا اور بندوق

تنہائی  میں ڈوبتے، ابھرتے مارکُش کا پُلِسیا لائن میں یہ تیسرا سال تھا۔تین سال، جیسے تین پوری صدیاں، لوہے کے بکسے اور بندوق کے ساتھ۔لوہے کے بکسے میں بند زندگی گھسٹتی جارہی تھی۔ یہ گھسٹنا اتنی دور تک نہیں ہوتا اگر مارکُش کے پِتا جنگل چھوڑ کر مزدوری کے لیے اتنی دور تک نہیں آتے۔ […]