پراگ پاون کی نظمیں

میں تمہاری بھوک سے خوفزدہ ہوں

 

میں تمہارے ملک سے

اور تمہاری دنیا سے

بری طرح تھک چکا ہوں

تاج کی طرح چنڈال ہنسی

اپنے سر پر سجائے

تمہاری آتماؤں کے بدبو دار رسم و رواج

اب سہے نہیں جاتے

 

تمہارے ترازو پر اپنی زندگی رکھ کر

سانسوں کا آواگون دیکھنا

بہت ہی شرمناک لگتا ہے

 

کون نہیں جانتا کہ خدا تمہارا گڑھا گیا ایک فحش تصور ہے

مذہب کائنات کا سب سے بڑا گھوٹالا

اور جاتی بہت بڑا گہرا کنواں

جس کی ہولناکی کو پانی ڈھانپ لیتا ہے

 

میں تمہارے فن سے

اور سائنسی علوم سے

بری  طرح اوب چکا ہوں

 

یہاں خون کو تھوک کا متبادل مان لیا جاتا ہے

چیخوں کو مندر کے بھجن کیرتن میں دفن کردیا جاتا ہے

یہاں سچ کو پارلیمان میں ٹوائلٹ پیپر بنا کر

لٹکا دیا جاتا ہے

جن میں عوام کے خوابوں کو جذب کرکے تشریف پونچھی جاتی ہے

 

میں اس ملک کی اس غذائی نالی سے آیا ہوں

جس نے صدیوں تک اناج کا چہرہ نہیں دیکھا

 

میں تمہاری بھوک سے خوفزدہ ہوں

 

مجھے بخش دو

میرے ان تال ۔تالابوں کے لیے

جہاں مانگُر مچھلیاں میرا انتظار کررہی ہوں گی

کسی دلدار دوست کے ساتھ

ساون کو اپنی قمیص بناکر

میں ان سمتوں میں تیرنے چلاجاؤں گا

جہاں میری بکریاں بھیگ رہی ہوں گی

جہاں کسی آم کے پیڑ پر

اب بھی میرا دو ہتھا اٹکا ہوگا

اور پاس ہی میرے مچھر جال کی الجھنیں

میری انگلیوں سے گُہار لگارہی ہوں گی

 

مکتی بودھ کے بارے میں میری کوئی رائے نہیں ہے

مارکس کو میں پہچانتا تک نہیں

امبیڈکر کا نام  پہلی بار سنا ہے

اگیے ہونا شاید تمہاری تہذیب کا سب سے بڑا انعام ہے

اب مجھے جانے دو

 

میں غالب کا نام زبان پر بھی نہیں لاؤں گا

اور جائسی کو جنگ کے بے  معنی احساس کا پہلا شاعر ماننے کی

ضد بھی چھوڑ دوں گا

مجھے جانے دو

 

مجھے بھیرُو کہو

بھگوڑا کہو

مگر جانے دو

 

میرے چلے جانے پر میرے زیر زمین ہونے کا مطلب

شاید تم سمجھ سکو

شاید تم کبھی سمجھ سکو

اس موڑ دی گئی بانس کی پھنگی کی پرآشوب تھرتھراہٹ

جس نے مجھے سکھایا تھا

شائستگی کو بے چارگی میں تبدیل ہونے سے پہلے

بغاوت میں بدل دینا ہی

زندہ ہونے کا ثبوت ہے

٠٠٠

 

اس لڑکی کا کوئی  پریمی نہیں تھا

 

اس لڑکی کا کوئی پریمی نہیں تھا

یہ کتھا والمیکی کے جنگلوں میں

لِسور کے پیڑوں سے

اب بھی سنی جاسکتی ہے

 

وہ لڑکی برسات کو چھو کر

گیلا کردینا چاہتی تھی

چاند کو تاک کر

ذرا اور چٹک پیدا کردینا چاہتی تھی

مگر انیس برساتوں میں پاؤں کی انگلیوں کو

سڑنے سے بچا لینے کی ترکیب ہی اس کی کمائی تھی

اور پونم کے چاند سےاسے بس یہ معلوم ہوا

کہ چاندنی رات  میں فصل کی کٹائی

دن کی کٹائی سے زیادہ آرام دہ ہوتی ہے

 

اس لڑکی کا کوئی پریمی نہیں تھا

وہ ارہر کے لال پھولوں کو ہولے سے سہلاتی

کئی دفعہ مچھلیوں کو پکڑ کر چھوڑ دیتی

اور ایک مہینے مسکان گھر لیے آتی

جامُن کے بوڑھے پیڑوں پر چڑھ کر بیٹھی رہتی

اترتی تو اپنے جامنی ہونٹوں  کو دیکھ کر اداس ہوجاتی

تیسرے پہر فرصت میں پڑوسن بھابھیوں سے سرگوشیاں کرکے

ٹھٹھے لگایا کرتی تھی وہ لڑکی

مگر تب تک اس لڑکی کا کوئی پریمی نہیں تھا

 

وہ بھٹکنے لگی بھیتر ہی بھیتر

اگرچہ بھٹکنا راستوں کا دیا ہوا

ایک خطرناک وردان ہے

مگر بھٹک کر والمیکی کے جنگلوں تک جا پہنچی

لڑکی کو اس کا علم نہیں تھا

 

گورا چٹا، مضبوط، جاذب نظر ایک تیر انداز میں

جھلکتا سا لگا پریمی

لڑکی نے سونپ دیا اپنی برساتوں کو

جنہیں چھو کر گیلا کردینا چاہتی تھی

اس پونم والے چاند کو

جسے تاک کر ذرا اور چٹک پیدا کردینا چاہتی تھی

ارہر کے پھولوں کو

مچھلیوں کو

جامن کے پیڑوں کو

بے روزگار کی عرضی کی طرح رکھ دیا

تیر انداز کے سامنے

 

مگر لِسور کے پیڑوں کی روایت کے مطابق

تیر انداز نے لڑکی کے سینے سے

برساتوں کو نوچ لیا

مچھلیوں اور جامن کے پیڑوں کو

نگل گیا تیر انداز کا غصہ

تیر انداز کی آنکھوں  کی آگ میں بھسم  ہوگئی

ایک لڑکی  کی سالم عزت

 

اسی برس شادی کے کنوئیں میں کود کر مر گئی وہ لڑکی

کئی برسوں سے اس کنوئیں میں تیرتی  ہے اس لڑکی کی لاش

وقت کے گدھ کا نوالہ بننے تک

اس کی لاش سے بھبھکے اٹھتے رہیں گے

 

اس کہانی  کے آخر آخرتک

اس لڑکی کا کوئی پریمی نہیں تھا

٠٠٠

 

صرف کشمیر نہیں

 

صرف کشمیر نہیں

یہ تمام ملک تمہارا ہو

لیکن کیا قیامت ہے دوست!

تمہارا بدن اتنا چھوٹا ہے

کہ محض ایک بسترمیں لپٹ کر سو پاؤگے

تمہاری تھکان ایک عدد پیڑ کی چھایا میں سمٹ جائے گی

تمہاری بھوک دو آلوؤں کے مقابلے بھی بونی ہے

اور ساری زندگی چل کر بھی

تمہاری پیاس اپنا ہی کنواں لانگ نہیں پائے گی

 

کیا آخری آدمی کے قتل ہونے کے بعد ہی

تم سمجھ پاؤ گے

کہ تمہارے پاس  بھی ایک گردن ہے

کیا آخری آدمی کے قتل ہونے کے بعد ہی

تم محسوس کرپاؤ گے

کہ بانجھ دھرتی پر اکیلے چیختے آدمی کی

وہ پرارتھنا بھی ان سنی رہ جائے گی

جس میں موت کی بھیک مانگی جاتی ہے

 

جو دھرتی کو جیتنے نکلے تھے

دھرتی انہیں بھی جیت کر چپ چاپ سورہی ہے

جہاں تم کھڑے ہو

وہیں دبے ہوئے کسی سکندر کی راکھ سے

میرے بیان کی تصدیق کرلو

 

یہ سرحدوں کے الجھے مسئلے ان کی ضرورت ہیں

جو جھڑتے ہوئے کنیر کے جشن سے

بہت دور چلے گئے ہیں

اور جن کے دل کی لغت سے

محبت او رحمدلی جیسے لفظ

کب  کے نکالے جاچکے ہیں

 

صرف کشمیر نہیں

تمام ملک کو اپنی جیب میں رکھ کر گھومنے والے  دوست!

سرکاری جشن سے فرصت ملے تب سوچ کر بتانا

کہ معمولی انجکشن  کی قلت سے

مرگئے باپ کی یاد کو

کس  جیب  میں چھپاسکوگے؟

٠٠٠

 

اصلی ہتیارے

 

اصلی ہتیارے بندوق کی بے بسی کو جانتے ہیں

وہ پہچانتے ہیں تلوار کی مجبوریوں کو

اصلی ہتیارے لفظوں  سے قتل کرنے کا کام لیتے ہیں

 

اصلی ہتیارے انجام میں نہیں ،  عمل میں مصروف ہیں

 

وہ مرگھٹ کے مُہانے پروصل کے گیت بیچ رہے ہیں

بھیانک بارش کے موسم میں

چھتریوں کو بدنام کررہے ہیں

اصلی ہتیارے محفل  کے بیچ میں بیٹھے ہوئے

محفل کے مرکز کو گالی دے رہے ہیں

کہ محفل کا مرکز سلامت رہے ان کی روایت قائم رکھنے کے لیے

 

چاقو کی مذمت کرنے کا کام

اور کچے لوہے کی دکان کھولنے کا کام

وہ برابر بھولی مسکراہٹوں کے ساتھ کرتے چلے جارہے ہیں

 

اصلی ہتیارے آپ کی بغل میں کھڑے ہوکر چائے پی رہے ہیں

اور خون کے چائے سے بھی سستے ہوجانے کی شکایت کررہے ہیں

 

اصلی ہتیاروں کی عمر ہزار سال ہے

وہ مذہبی صحیفوں کی اوٹ میں بیٹھے ہیں

وہ روح نہیں، روح کی تعریف کی شکل میں موجود ہیں

ہوا انہیں سکھا نہیں سکتی

آگ جلا نہیں سکتی

پانی بھگو نہیں سکتا

 

اصلی ہتیارے  کتاب گھروں کو جاتے ہیں

پارلیمنٹ بھی جاتے ہیں

دوست کی دعوت اور ٹیلیویژن  کی بحث سے لوٹ کر آتے ہیں

اور سو جاتے ہیں

اصلی ہتیارے سونے سے پہلے یاد دلانا نہیں بھولتے

کہ سب کچھ اچھا چل رہا ہے

 

اصلی ہتیارے بانس بوتے ہیں

اس بانس سے سب سے عمدہ قسم کی لاٹھی

اور سب سے بری قسم کی بانسری بناتے ہیں

 

اصلی ہتیاروں کی شناخت کرنی ہو

توکتاب کو آخر تک پڑھنے کی ضرورت نہیں

وہ  تمہید میں اپنا کام کرچکے ہوتے ہیں

٠٠٠

 

جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا

 

کسی نے نہیں دیکھا جنگل میں ناچتے ہوئے مور کو

تو اس کا ناچ ضائع نہیں ہوجاتا

 

اس کا ہنر محض اس لیے شک کے گھیرے میں نہیں لایا جاسکتا

کہ اس نے تماشا نہیں کیا

آپ کی اجازت اور مشورے کا انتظار کیے بغیر

وہ ناچ اٹھا

 

انعام  پانے کی  ہوس

تنقید کے خوف

یا نظر انداز کردیے جانے کے دکھ سے بہت دور

مور صرف اس لیے ناچا

کہ اس کی روح کا قدیم جشن

اس کے پیروں کو آزاد کررہا تھا

ایک اندرونی ہلچل نے اسے محض کھڑے رہنے سے باز رکھا

 

ناچنا ، دوسرے تمام فنون کی طرح

سب سے پہلے اس دنیا کے ادھورے پن کے خلاف

ایک اعلان ہے

تو کہیے کہ مور اپنی ادھوری دنیا کے لیے ناچا

 

آپ کے خاص  بنادیے جانے کے احساس سے پیداشدہ

مقبولیت بخشنے کی تاریخی عادتوں

اور بانٹے گئے حقوق کے خلاف

مور شاید جنگل کے لیے ناچا

 

یُگ بیت  جاتے ہیں

آپ نہ محاورے بدلتے ہیں نہ ان کے معانی

تو ایک دن جنگل، مور اور رقص

ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں

کہ آپ کا جاننا باقی ہے

جنگل کے بارے میں

مور کے بارے میں

ناچ کے بارے میں

٠٠٠

 

پراگ پاون کا تعلق جون پور، اتر پردیش سے ہے،ان کا جنم1994 میں ہوا۔حال ہی میں دہلی میں موجود جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔نظموں کا مجموعہ بھی جلد ہی منظر عام پر آنے والا ہے۔پراگ پاون کی نظمیں ہندی کے بیشتر تمام بڑے ڈیجیٹل اور نان ڈیجیٹل رسالوں میں شائع ہوتی رہی ہیں۔

پراگ پاون کے لہجے کی دھمک اور زبان کا کساؤ اپنی جانب توجہ کھینچتا ہے۔یہ نظمیں محض دلت چیتنا یا پھر مظلوم اور گمشدہ لوگوں کی تصویر کشی کے طور پر نہیں پڑھی جانی چاہییں۔ان میں خیالوں کی وہ تازگی ہے، جس نے حاشیے پر پڑے  ہوئے مضامین کو بہت چابکدستی سے مرکزی صفحے پر لانے کا کام کیا ہے۔پراگ پاون ہندی کے نوجوان شعرا میں اس لیے بالکل مختلف طور پر پہچانے بھی جاسکتے ہیں، کیونکہ وہ سماجی طور پر مقبول رویوں اور باتوں کو نہ صرف اپنی نظموں میں الٹ کر دیکھتے ہیں، بلکہ ان کے  کھوکھلے اور جھوٹے ہونے کو مکمل طور پر ثابت بھی کرتے ہیں اور اس میں ان کا فن ، طنز کی لہر، سچ کے چابک اور لفظ کی ضرب سے مزید چمکدار نظر آتا ہے۔یہ نظمیں سیاست اور سماج دونوں سے اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر گزرنا جانتی ہیں ، یہاں تک کہ فن کی غیر مقصدیت اور غیر سیاسی ادب پر ایسی تیزی سے پرہار کرتی ہیں کہ پڑھنے والا اپنے نظریات پر نظر ثانی کیے بنا نہیں رہ سکتا۔یہ اردو میں غالباً ان کی نظموں کے ترجمےکا پہلا موقع ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *