پِتا جب مایوس ہوتے ہیں
پِتا جب مایوس ہوتے ہیں
تب سلنے بیٹھتے ہیں
اپنا ادھڑا ہوا کرتا
ٹیڑھے میڑھے ٹانکے لگاتے ہوئے
وہ اتنا ڈوب جاتے ہیں
کرتے کا گھاؤ بھرنے میں
کہ اس وقت وہ سل سکتے ہیں سب کچھ
جہاں جہاں جو کچھ بھی کٹا پھٹا ہے
جو پھٹا کٹا نہیں ہے وہ بھی
وہ رفو کرسکتے ہیں ساری کھرونچیں
اندر سے لے کر باہر تک
درزی! کس گھٹن کا نتیجہ ہے کہ وہ
محض کرتا ہی سِل پاتے ہیں
٠٠٠
رات
رات میں جاگنا منع تھا
رات میں پڑھنا منع تھا
رات میں باتیں کرنا منع تھا
رات میں دہلیز پار کرنا سخت منع تھا
رات میں بہت خطرے تھے
رات کو خطرناک بنایا گیا تھا
میں رات سے دور تھی
اسی طرح جیسے دنیا کی زیادہ تر لڑکیاں
مجھے دن دیا گیا تھا
اسی طرح جیسے دنیا کی زیادہ تر لڑکیوں کو دیا جاتا ہے
شدید سرد راتوں میں
میں رات کی طرف بڑھی
جس رات جامعہ کی لائبریری میں
سرکاری پولس بل کے جوان
لاٹھیاں توڑ رہے تھے
میں ممانعت کی ساری رسیاں
جبر کے سب قلعے توڑ کر
رات میں اتر گئی
میں دن کی حد کے پار گئی
رات کے آنگن میں رقص کرتی ہوئی
رات میں رات سے باتیں کرتے ہوئے
میں نے کئی بار چاہا بس رات ہی رات رہے
اور بات ہی بات رہے
میں رات پر کھلی
رات مجھ پر کھلی
اس نے مجھے دن کے اجالوں میں
اجلی دکھائی پڑنے والی چیزیں دکھائیں
وہ اب اپنی اصل شکل میں تھیں
عریاں، بے لوث، سستاتی ہوئی
اس نے مجھے چور-اُچکوں، جگولو
ویشیاؤں اور ان کے گاہکوں سے ملوایا
سوتے ہوئے مزدوروں، جاگتے کتوں سے ملوایا
تنگ آچکے تیمارداروں، شکرگزاری سے مرتے
مریضوں کی اکتاہٹ دکھائی
پتنیوں کے پتیوں ، پتیوں کی بیٹیوں اوربیٹیوں کے پریمیوں سے ملوایا
مٹھوں میں سادھوؤں۔سادھویوں کی
شب گزاری سے متعارف کروایا
رات مجھے
ان ان تہوں
ان ان تلوں پر لے گئی
جہاں میری رسائی دن میں ناممکن تھی
یعنی میرا دن بھی کٹا پھٹا تھا
اس میں رات کے بہت سے پیوند تھے
رات میں حد ہوئی
حد سے بڑھ کر رات
میں نے پریم کو سب سے زیادہ رات میں محسوس کیا
سب سے زیادہ بے قرار میں رات میں ہوئی
سب سے زیادہ میں رات میں روئی
دن میں ملی خوش خبری رات میں زہر کی مانند چڑھی
دکھ رات ہی مجھ سے نہ سنبھلا
سب سے تیز بھوک رات میں لگی
روح کو طمانیت رات میں ملی
سب سے زیادہ آزادی میں نے رات میں محسوس کی
سب سے زیادہ ڈر رات میں دور ہوئے
سب سے زیادہ جھوٹ میں نے رات کے کارن بولے
سب سے زیادہ سچ میں نے رات کے سبب جیے
کبھی کبھی میں نے رات کو بدن سمیت پانا چاہا
اس کی آنکھوں میں اترنا چاہا
ختم ہوتے ہوئے جنگلی جانور کی طرح بچا لینا چاہا
جلتے انگارے کی طرح پکڑلینا چاہا
اور جگنوؤں کی طرح چھوڑنا چاہا
مجھے رات سے زیادہ حسین
رات سے زیادہ باغی کچھ نہیں معلوم ہوتا
بھارت مہان!
میری راتیں مجھے سونپ دو
میری ان گنت طویل زندہ راتیں
تم پر یُگوں سے ادھار ہیں
٠٠٠
نہیں
بٹیا کے سکھ اور سکھی سنسار کے لیے
بابل مغزماری نہیں کرتے
وہ بلا ٹالتے ہیں
‘بابل کی دعائیں لیتی جا۔۔۔’جیسے گیت
بیٹیوں کو مورکھ بنانے کے لیے لکھے گئے
جو باپ اپنی بیٹیوں کو سکھی سنسار نہ دے سکے
وداع کرتے ہوئے ان کے منہ سے
سکھی سنسار کی دعا گالی کی طرح لگتی ہے
انہیں فکر رہی اپنے نسب انساب کی
سماج اور عزت کی
یہ تو کوئی ہم لڑکیوں سے پوچھے
ہم اپنے پِتا سے کس طرح زچ ہوئی ہیں
وہ لذت و عیش میں ڈوبے ہوئے
کبھی نمبردار تھے
کبھی ‘نمبردارکا نیلا’
ہم نے ان کی عزت کی
جن کا برتاؤ چوکیدار، ٹھیکدار
مرد کی حمایت میں بات کرتے ہوئے لگ بھگ دلالوں جیسا تھا
زمین ان کی
گھر ان کا
سماج ان کا
قانون ان کے
پھر سکھی سنسار ہمیں کیسے ملتا
ان کے اصولوں کی پاسداری نہ کرنے کا مطلب تھا
رشتہ توڑلینا
ان سے رشتہ بھی کیا تھا
خوف کا؟
غصہ کا؟
لحاظ کا؟
کوئی عیارآدمی تھا وہ
نہایت مکار
محبت کرتی ہوئی بیٹی کی تاب نہ لاسکا
اس کی آزادی
اس کی شخصیت
کچل کر
بنایا اسے جذباتی مورکھ
اعلان کیا۔۔۔
پِتا سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں بیٹیوں سے
اس چھل کو چھپانے کے لیے
لکھے جاتے ہیں لاڈ پیار کے گیت
یہ طلسم اب ٹوٹنا چاہیے
اس مکاری سے پردہ اٹھانا چاہیے
نہیں کرتے پِتا اپنی بیٹیوں سے پریم
نہیں کرتے
نہیں کرتے
٠٠٠
گمنامی
گمنامی بچاتی ہے
مقابلے کی کلفت سے
خوبصورت، افضل ترین بنے رہنے کی بوجھل لالچ سے
قابلیت کی کرونی کو
دیسی گھی ثابت کرنے سے
وہ بچالیتی ہے عالم و فاضل کے نیلے انگوٹھوں کے خبط سے
گُٹوں میں محفوظ بیٹھ کر
رایوں کو ووٹوں کی طرح گننے سے بچاتی ہے گمنامی
بچاتی ہے وہ شرمندہ نہ ہونے بھر جتنی ایمانداری
تعریفوں کے سیلاب میں
خودشناسی کی کسوٹی کا
چولہا جوڑنے بھر بخشتی ہے ایندھن
انا کی ‘ناک’ پر
گمنامی آبیٹھتی ہے
مکھی کی طرح
مہانتا کو معمولی بناتی ہوئی
وہ رکھتی ہے
کسی دن گمنام ہوجانے
یا کردیے جانے کے ڈر سے آزاد
بازار شہرت کے چڑھتے شیئر مارکیٹ میں
رشتوں کی خطرناک میکانکیت
اور کردار کی روزانہ ریہرسل سے بچ کر
گمنام رہنے کا پرزور جتن کرتا
شرمیلا پن
انسانی فطرت سے مجبور ہوکر کس طرف جائے؟
نہ جائے بیچ لوگوں کے تو
جہاں
پنجے جھاڑ کر بیٹھی ہے
شہرت
٠٠٠
یقین
جنگل دھوں دھوں کرتا جل رہا ہے
جانور چیخ رہے ہیں
ایک ضدی بلبل
اپنے بچوں کی چونچ میں
رکھ رہی ہے پپیتے کا میٹھا گودا
پِتا کا ابھیمان
راکھ بن کر اڑ رہا ہے
ماں کا ایشور پر یقین بڑھ رہا ہے
چیلیں نئے سیاروں پر ہجرت کررہی ہیں
بھادوں کے غراتے بادل
جنوب سے چڑھتے آرہے ہیں
سواہا ہورہی میں
بے تاب ہوں
سُگبُگاہٹ ہوگی
جنم ہوگا
نئے روئیں آئیں گے
وہ دوبارہ مجھے پیارے لگیں گے
انہیں میں
٠٠٠
آرام سے پڑھوں گی تمہیں
آرام سے پڑھوں گی تمہیں
کہیں کوئی رواں باقی نہ رہے گا
آہستہ چکھوں گی تمہارے ہونٹوں پر رکھی ہوئی بات
ملتی ہوئی بھنووں کے گھنے جنگلوں میں بھٹکوں گی
مجھ سے پوچھتے ہو،
میں تم سے آنکھ ملانے سے کتراتی کیوں ہو؟
تمہارے اس سوال کا کیا جواب دوں تمہیں؟
تم چاہتے ہو: میں تمہیں پڑھتی جاؤں
تمہاری کتابوں کے قارئین کی طرح
بلکہ اس طرح جیسے دل سے دیکھنے والے پڑھتے ہیں بریل لپی
تمہارے ماتھے کے شفاف آسمان میں جھومتے کالے بادل
جب گرج برس کر تھک جاتے ہیں
تب کنپٹی پر نمودار ہوتی ہیں پسینے کی ننھی بوندیں
انہیں اپنی انگلیوں کی سطح پر محسوس کرنا
مجھے زندگی سے بھر دیتا ہے
تمہاری ہتھیلیاں ربر کی پتیاں ہیں
جن میں اگی لال دھاریوں کی دھُن
کان لگا کر سننے کو جی چاہتا ہے
تمہیں اپنی طرف آتے دیکھنا یا
کسی سٹیشن پر میرے انتظار میں کھڑے ہوئے پانا
میری دھڑکنوں کی رفتار بڑھا دیتا ہے
تمہارا وجود میری دنیا کے سُندر ہونے کی گواہی ہے
تم لفظوں کے خدا ہو
میں تم پر ایمان لانے والی واحد لڑکی
مجھ پر فرض ہے کہ میں تمہیں حفظ کرلوں
٠٠٠
یشسوی پاٹھک مزاجاً عزلت نشیں ہیں۔انہوں نے کم لکھا ہے، مگر جتنا لکھا ہے، وہ ان کی گہری فکر اور تخلیقی ہنر کاری کا ثبوت ہے۔ ان کے یہاں بغاوت بھی ہے اور سماج کے دوہرے رویوں پر جھنجھلاہٹ بھی اور وہ اسے بیان کرنے کے لیے کسی بھی طرح کی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیتیں۔پریم بھی ان کی شاعری میں محض پھول کا استعارہ بن کر نمودار نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے راہ پرخار کی طرح ہی قبول بھی کرتی ہیں اور پسند بھی۔ریاست کے جبر، خاندانی سیاست کا دوہرا پن اور شہرت پسند سماج میں اکیلے ہوجانے کے ڈر سے مکالمہ کرتی ہوئی ان کی نظمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔انہوں نے عورت دشمن سماج پر اکثر اپنی نظموں میں کھل کر دھاوا بولا ہے۔
یشسوی پاٹھک اترپردیش کے شہر سلطان پور میں 5 ستمبر کو پیدا ہوئیں۔ان کی بنیادی تعلیم سلطان پور میں ہوئی، جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ دہلی آگئیں اور دلی یونیورسٹی سے انہوں نے پہلے جرنلزم میں اور بعد ازاں پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا۔ان کی نظمیں ہندی کے موقر ادبی جرائد ‘سدانیرا’،’کرتی بہومت’ ،’پوشم پا’ اور’ون مالی کتھا’ میں شائع ہوچکی ہیں۔