اردو کی قدیم ترین لغت

ایک سیاح کی نوٹ بک:

ببلیو تک ناسیونال پیرس کے اردو کے مخطوطات میں ایک نوٹ بک میری نظر سے گزری۔یہ نوٹ بک شارل دوشوا(Charles d’Ochoa)کی ہے۔ دوشوا کے بارے میں زیادہ معلومات مجھے نہ مل سکیں۔نوٹ بک سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دوشوا ایک سائنٹفک مشن کا انچارج تھا جسے حکومت فرانس کے وزیرِ تعلیم نے 1843 ؁ء میں ہندوستان بھیجا تھا۔ یہ نوٹ بک کافی دل چسپ ہے۔اس نوٹ بک کے صفحہ147پر دوشوا نے اردو قواعد لکھنی شروع کی، لیکن صرف ایک صفحہ لکھا۔ابتدائی نوٹ کا ترجمہ یہ ہے:

’’ہندوستانی زبان کو ہندی، اردو اور ریختہ کہتے ہیں۔یہ زبان ہندی اور برج بھاشا سے بنی ہے جو اب بھی بعض جگہ بولی جاتی ہے۔مثلاً قنوج میں جو ایرانی اور عرب فاتحین کا دارالحکومت تھا۔ہندوستان کے جزیرہ نما کے مغرب میں ہندوستانی نئی دکھنی زبان بولی جاتی ہے جو عربی اور دیوناگری دونوں حروف میں لکھی جاتی ہے لیکن زیادہ تر عربی رسم الخط استعمال کیا جاتا ہے۔ دیوناگری رسم الخط صرف برج بھاشا اور ہندوی بولیوں کو لکھتے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

 

اردو قواعد کے مخالفین کے جواب میں:

اردو مخطوطات میں ایک فرانسیسی اردو ڈکشنری ہے جسے اوساں(Aussant)نے 1784 ؁ء میں لکھا تھا۔ اس ڈکشنری کے شروع میں نوٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اوساں بنگال میں شاہی مترجم تھے۔ انہوں نے اردو زبان سیکھنے میں کافی کاوش کی تھی۔چنانچہ مخطوطات میں ایک کتاب موسومہ’ کتاب آموز المنشی‘ بھی ہے جو اوساں کے لیے 1782 ؁ء میں لکھی گئی تھی ۔قواعد، الفاظ، محاورے، کہانیاں وغیرہ درج ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اوساں نے زبان سیکھنے کے لیے بہت کاوش کی اور صرف دو سال کے عرصے میں زبان پر اس قدر عبور حاصل کرلیا کہ 1784 ؁ء میں فرانسیسی اردو ڈکشنری لکھ دی۔

اس ڈکشنری کے شروع میں ایک طویل نوٹ ہے جس میں اوساں نے اردو زبان کے ان مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیا ہے جو کہتے تھے کہ اردو زبان اس قابل نہیں کہ اس کی قواعد وغیرہ بنائی جاسکے۔ اوساں کے نوٹ کا خلاصہ یہ ہے:

’’گریمرکے بغیر کسی زبان کو سیکھنے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص موسیقی کے اصول سے واقف ہوئے بغیر کوئی ساز بجانا شروع کردے۔ اردو زبان پر جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس زبان میں قواعد کے اصول متعین کیے جانے کی صلاحیت نہیں ہے اور یہ کہ اردو زبان فارسی زبان سے اس قدر منسلک ہے کہ اسے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ اردو زبان میں قواعد کے اصول متعین کیے جانے کی پوری پوری صلاحیت ہے، اور اگر کوئی شخص اردو اور فارسی کی زبانیں سیکھنا چاہے تو بہتر ہوگا کہ وہ اردو قواعد سے ابتدا کرے۔اس اعتراض میں بھی کوئی جان نہیں کہ اردو میں فارسی کے الفاظ کی بہتات ہے اس لیے اردو سیکھنے کی ضرورت نہیں ، صرف فارسی کافی ہے۔انگریزی زبان میں یونانی الاصل الفاظ کی بہتات ہے لیکن اس کے باوجود انگریزی زبان پر یہ اعتراض نہیں کیا جاتا اور یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جو فارسی الفاظ اردو میں آگئے ہیں وہ زیادہ تر اردو قواعد کے اصولوں کے لحاظ سے استعمال ہوتے ہیں نہ کہ فارسی میں قواعد کے اصولوں کے لحاظ سے۔‘‘

میں نے اوساں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے لیے مزید وقت کی ضرورت ہے۔میں نے ببلیوتک ناسیونال کے ماہر ہندوستانیات سے کہا ہے کہ وہ اوساں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔

 

اردو کی قدیم ترین لغت:

اسی کتب خانے کے مشرقی شعبے میں مجھے ایک لغت ملی۔یہ لغت چار زبانوں لاطینی، ہندی، فرانسیسی اور اردو میں لکھی گئی تھی۔اس لغت کے پیرس میں آنے کی داستان دلچسپ ہے۔مخطوطے کے شروع میں ایک نوٹ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

’’1758 ؁ء میں ،میں سورت میں تھا اور پہلوی زند کتابوں کا ترجمہ کررہا تھا۔مقامی پارسی عالموں سے بات چیت کرنے کے لیے جدید فارسی زبان استعمال کرتا تھا لیکن روز مرہ کی گفتگو کے لیے اور سورت اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں مثلاً کارومنڈل، مالابار، بنگال وغیرہ میں سیر وسیاحت کے لیے مور(Maure)یا ہندوستانی زبان بولنا پڑتی تھی۔میں نے سورت میں ایک کاپوچین مشنری کے ہاں ایک پرانا لیکن نہایت بیش قیمت مخطوطہ دیکھا۔یہ ایک’مور۔فرانسیسی‘ لغت تھی۔میرا ارادہ تھا کہ اس کی نقل کرلوں لیکن میری علالت،مصروفیات اور سورت میں بعض دیگر پریشانیوں کی وجہ سے میں یہ کام نہ کرسکا۔اس کے بعد مجھے سخت افسوس رہا کہ میں نے اس بیش قیمت لغت کی نقل نہ کی۔آخر1778 ؁ء میں ، میں نے ایک کتاب (Alphabetum Brahmanicum)دیکھی جو 1771 ؁ء میں روم سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا کہ روم کے صیغۂ تبلیغ واشاعت کے کتب خانے میں ہندوستانی زبان کی لغت کا ایک نسخہ موجود ہے جو سورت میں ایک مشنری نے لکھا تھا۔اس نسخے کے بارے میں جو تفصیل تحریر کی گئی تھی اس سے مجھے شبہ ہوا کہ غالباً یہ وہی مخطوطہ یا اُ س کی نقل تھی جو میں نے سورت میں دیکھا تھا۔

پاپائے روم کو جب یہ معلوم ہوا کہ میں ایک ہندوستانی ڈکشنری لکھنا چاہتا تھا، موصوف نے مربیانہ مدد فرمائی اور 14اکتوبر 1782 ؁ء کو یہ مخطوطہ ملا۔اس عنایتِ خسروانہ نے میری بے انتہا ہمت افزائی کی اور میری رگوں میں جوانی کا خون دوڑادیا اور مجھے ایک بار پھر وہی جوانی کی طاقت بخش دی جس کے بل پر میں نے ہندوستان کے قیام کے دوران میں مغربی ساحل کے دشوار گزار گھاٹوں کا سفر کیا تھا، بادو باراں اور طوفانوں کی مصیبتیں برداشت کی تھیں اور تمام مشکلات کا مقابلہ کرکے تین مردہ زبانیں زند، پہلوی اور سنسکرت سیکھی تھی۔

اور میں نے اس پورے مخطوطے موسومہ’ ہندوستانی زبانوں کا خزانہ ‘کو نقل کرلیا اور یہ احتیاط برتی کہ اصل و نقل میں ایک نقطے کا بھی فرق نہ رہے۔چنانچہ میں نے نقل کا اصل مخطوطے سے تین مرتبہ مقابلہ کیا۔یہ کتاب اس لغت کی بنیاد ہوگی جو میں لاطینی، فرانسیسی، مور، فارسی اور فرانسیسی میں مرتب کررہا ہوں۔‘‘

اس کے بعد اس مخطوطے کے بارے میں کچھ تفصیلات درج ہیں۔آخر میں لکھا ہے۔

’’۔۔۔۔جناب پاپائے روم کا یہ فیصلہ کہ یہ مخطوطہ میرے پاس پیرس میں بھیج دیا جائے، یورپ کے لیے ایک مثال ہے اس امر کی کہ تمام اہلِ علم ایک خاندان کی طرح ہیں۔میں استدعا کرتا ہوں کہ موصوف اس لطف وکرم کے لیے میرا سپاسِ عقیدت قبول فرمائیں۔

 

پیرس، 10مارچ، 1784

انکتل دوپروں(Anquetil Duperron)سیاح، رکن اکادمی ادبیاتِ عالیہ و مترجم شاہی براے السنۂ مشرقیہ۔‘‘

دوپروں نے اپنے نوٹ میں چند اور اہم باتیں بھی بیان کی ہیں۔اس نے لکھا ہے کہ اس لغت کا اصل نسخہ جو سورت میں لکھا گیا تھا، 1704 ؁ء میں روم کے شعبۂ تبلیغ و اشاعت کے کتب خانے میں داخل کیا گیا۔اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ لغت سترھویں صدی میں لکھی گئی تھی ۔دوپروں کو جب یہ نسخہ 14اکتوبر 1783 ؁ کو پیرس میں ملا تو اس کی عمر 52سال کی تھی۔اس عمر میں بھی اس نے اس کام میں بہت ہمت کا ثبوت دیا اور صرف پانچ مہینے میں اس ضخیم لغت کی نقل کی اور اس کا اصل نسخہ وزیر اعظم وقت نت ورژن کو واپس کردیا تاکہ وہ اسے روم واپس بھیج دیں۔

اس لغت کی اہمیت تاریخی حیثیت کے علاوہ علمی بھی ہے۔اس وقت کوئی فرانسیسی اردو لغت موجود نہیں ہے۔ میں نے پیرس میں ڈاکٹر حمیداﷲ سے کہا تھا کہ وہ ایک فرانسیسی اردو لغت تیار کرنے کے بارے میں غور فرمائیں۔لیکن انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ انہوں نے کچھ کام اپنے سر لیے ہیں اس کے لیے وقت نکالنا ممکن نہ ہوگا۔بہرحال ببلیوتک ناسیونال کے اس مخطوطے کو فرانسیسی اردو ڈکشنری کی اساس کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چار مشرقی اور مغربی زبانوں میں اس پائے کی لغت شاید ہی دنیا میں کہیں اور موجود ہو۔کاش اردو زبان کے قدردان اس طرف توجہ کریں۔

اس لغت کو دیکھ کر مجھے دوپروں کی شخصیت سے دل چسپی پیدا ہوگئی اور مجھے اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی جستجو ہوئی۔چنانچہ میں نے ببلیوتک ناسیونال کے صیغۂ مطبوعات (مغربی) اور ایکول ناسیونال وے لانگزو غیانتال ویوانت پیرس کے کتب خانوں میں دوپروں کے حالات کی تلاش شروع کی۔مجھے خوشی ہوئی کہ مجھے نہ صرف دوپروں کی زندگی کے دلچسپ حالات مل گئے بکہ اس کی تصانیف بھی مل گئیں۔مشہور فرانسیسی دوگانے لکھا ہے۔

’’نوجوانی کے زمانے میں زند زبان کے چند مخطوطات انکتویل دوپروں کے ہاتھ لگ گئے۔اس نوجوان کو یہ زبان دیگر مشرقی زبانیں لکھنے شوق پیدا ہوا۔آخر کار یہ بحریہ میں بھرتی ہوکر ہندوستان آگیا، جہاں اس نے ہندوستان کے محتلف علاقوں کا دورہ کیا۔زند زبان سے پارسیوں کی مذہبی کتابوں کا ترجمہ کیا۔اپنشد کے ایک فارسی نسخے سے فرانسیسی میں ترجمہ کیا اور ہندوستان کی تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات وغیرہ پر تحقیق کی۔جب واپس فرانس آیا تو دوپروں مال و زر کے اعتبار سے خالی ہاتھ تھا، لیکن قدیم ہندوستانی مخطوطات کا ایک بیش قیمت خزانہ مخطوطات کی صورت میں اپنے ساتھ پیرس لایا اور ان مخطوطات کی صورت میں اپنے ساتھ پیرس لایا اور ان مخطوطات کو شاہی کتب خانے(جسے اب ببلیوتک ناسیونال کہتے ہیں)میں داخل کیا۔اور ہندوستان کے بارے میں تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگیا۔کچھ عرصے بعد وہ مشرقی زبانوں کے لیے شاہی مترجم مقرر ہوا اور اس کے بعد فرانس کی اعلیٰ ادبیات کی اکادمی کا رکن منتخب ہوگیا۔1805 ؁ء میں پیرس میں اس کا انتقال ہوگا۔‘‘

انکتویل دوپروں کی زندگی میں اور بہت سے حالات کافی دلچسپ ہیں۔ مثلاً یہ کہ انگریزوں نے پچاس ہزار فرانک کی رقم دوپروں کو زند زبان کے اس مخطوطے کے لیے پیش کی جس سے اس نے پارسیوں کی مذہبی کتاب کا ترجمہ کیا تھا، لیکن دوپروں نے یہ پیش کش قبول نہ کی۔اس کی تصنیفات بھی بہت دلچسپ ہیں۔اس نے اپنی کتابوں میں اٹھارہویں صدی میں ہندوستان کی سیاست پر بہت محققانہ بحثیں کی ہیں۔زبان کے بارے میں اس کا ایک بیان نقل کرتا ہوں۔اپنی کتاب’ہندوستان کی تاریخ اور جغرافیہ پرتحقیقات میں دوپروں لکھتا ہے:

’’ہنددستان میں اس وقت سب سے زیادہ اہم زبان جسے کافی حد تک عمومیت حاصل ہے جدید فارسی زبان ہے۔ہندوستان کے نواب، ان کے وزرا اور ان کے سیکریٹری یہی زبان بولتے اور لکھتے ہیں۔یہ زبان مال دیپ اور مشرقی سال میں (کذا)بھی بولی جاتی ہے۔فارسی کے ساتھ ساتھ دوسری زبان’ہندوستانی‘ (Industani)ہے جو شمال سے لے کر خلیج بنگال ، کھمبایت ، دکن اور دونوں ساحلوں میں بولی جاتی ہے۔یورپینیوں نے اسے ’مور‘(Maure)کا نام دیا ہے۔ہندوستانی ناگری (سنسکرت)حروف میں بھی لکھی جاتی ہے اور فارسی حروف میں بھی۔فارسی حروف میں لکھتے وقت بعض حروف میں کچھ نقطوں کا اضافہ کردیا جاتا ہے، تاکہ تلفظ میں وہ آوازیں نکالی جاسکیں جن کے لیے فارسی زبان میں حروف موجود نہیں۔اس زبان میں عربی، فارسی، ترکی، بنگالی، مرہٹی وغیرہ سب زبانوں کے الفاظ موجود ہیں۔‘‘

 

 

حواشی:

1۔آغا صاحب کی کتاب ’’یورپ میں تحقیقی مطالعے‘‘(مجلس ترقی ادب، لاہور1967) میں ایک طویل مضمون ’’اردوکی بابت فرانسیسیوں کی چند تحریریں‘‘ شامل ہے۔اس میں سے لغات سے متعلق حصہ پیشِ خدمت ہے۔(ڈاکٹر رؤف پاریکھ)

2۔ببلیوتک ناسیونال، پیرس، اردو مخطوطات کیٹلاگ نمبر 832(آغا افتخار)

3۔ببلیوتک ناسیونال پیرس، فہرست ردو مخطوطات نمبر843(آغا افتخار)

4۔Thesaurus Linguae Indiane(آغا افتحار)

5۔افسوس ہے کہ انکتول دوپروں اپنے ارادے کی تکمیل نہ کرسکا اور یہ لغت نہ لکھ سکا جس کا غالباً سبب یہ ہے کہ پانچ سال بعد یعنی 1789 ؁ء میں انقلابِ فرانس رونما ہوا اور اس کے بعد ہنگامی حالات نے اسے اس کام کی مہلت نہ دی۔1805 ؁ء میں دوپروں کا انتقال ہوگیا۔(آغا افتخار)

6۔دوپروں کی تاریخِ پیدائش 7اکتوبر1731 ؁ئبیان کی گئی ہے۔ملاحظہ ہوکتابVoyage Aux Indes Orientalesمصنفہ انکتویل دوپروں صفحہ8، ببلیوتک ناسیونال پیرس، کیٹلاگ نمبرOK2 104(آغا افتخار)

7۔ملاحظہ ہوDugat(Gustave)کی کتابHistoire Des Orientales-de L’Europe du XVIII-IX Siecle(کتب خانہ ایکول ناسیونال دے لانگزوغیانتال دیوانت پیرس)صفحہ29(آغا افتخار)

8۔ملاحظہ ہوRecherches histoirique et Geographique Sure I’Indenببلیوتک ناسیونال پیرس۔کیٹلاگ نمبر(O2K27)۔صفحہ نمبر 10۔اس کتاب کا ایک اور نسخہ کیٹلاگ نمبرO2K1136بھی موجود ہے۔یہ نسخہ شاہی محل Fontainblueکے کتب خانے سے حاصل کیا گیا تھا۔اس نسخے میں کچھ صفحات غائب ہیں اور وہ حصہ بھی غائب ہے جس میں ہندوستان کی زبانوں کے بارے میں لکھا گیا ہے۔اس لیے محققین کیٹلاگ نمبر O2K271ملاحظہ فرمائیں۔(آغا افتخار)