کاتِک کا پہلا پھول

کمرے میں خاموشی کی سرگوشیاں  سی ہورہی تھیں۔سرگوشیوں میں خوابوں کی چھٹپٹاہٹ تھی ، یادوں کی بچی ہوئی کرچیاں تھیں۔

بڑھاپا عمر کا ریسٹ ہاؤس تھا۔اوجھا جی کو لگتا تھا کہ زندگی دھاگے کی ایک ریل ہے۔جس دن پوری ادھڑ جائے گی اسی دن ختم ہوجائے گی۔گھڑی ٹک ٹک کی رفتار سے بڑھے جارہی تھی۔کھڑکی سے سورج کا ایک نرم گرم ٹکڑا  کمرے میں اتر کر پھیل گیا تھا۔باہر ہلکی ہوا کے ساتھ دھول بھی تھی۔کاتِک کی خوشگوار صبح اب دوپہر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اوجھا جی کی ہتھیلیوں کی سوجی ہوئی نسوں میں، جھکی جھکی سی پیٹھ میں، چھاتی اور گھٹنوں کی پیچھے جھولتی چمڑی میں زندگی نے باقاعدہ عمر کے نوے دستخط ثبت کیے تھے۔انہوں نے بالش کے نیچے سے سٹیل کی ایک ننھی ڈبیا نکالی۔

کھینی دھیرے دھیرے رگڑ کر  نچلے ہونٹ کے پیچھے دبا لینے پر وہ مزہ نہیں دیتی تھی، جو بائیں ہتھیلی پر  رکھ کر اسے کس کس کر دوسری ہتھیلی سے پیٹنے کے بعد انگوٹھے سے خوب رگڑ کر ہونٹ میں داب لینے پر آتا تھا۔ روزبروز لگاتار کھینی بنانے کے کارن ہتھیلی کے  عین درمیان ایک کالا مٹ میلا نشان سا بن گیا تھا۔کھینی بناتے ہوئے اکثر ہی اوجھا جی بیتے ہوئے ریزگاری جیسے معمولی دنوں کی جگالی کرنے لگتے تھے۔

زندگی اُن چھُٹّے دنوں کی روٹیاں  کترتی معلوم ہوتی تھی۔یہ روٹیاں خواہشوں کی تھیں۔یاد یں  پتھر کی طرح سینے پر لدی رہتی تھیں۔اوجھا جی نے ان پتھروں کو توڑ تاڑ کر انہیں مٹی کردیا تھا۔اس مٹی میں ڈھیرسارے پودے لگائے تھے۔دروازے پر گلابی پھولوں سے لدی بوگنویلیا کی گھنی بیلیں پھیلی تھیں۔پھر ایک قطار سے گلاب اور چمبیلی کے پودے تھے۔کچھ اور آگے بڑھنے پر دائرے کی شکل  میں گیندے کے پودے لگائے  گئے تھے اور ان کے پاس ہی ہرسنگھار اور امرود کے گملے سجے تھے۔ایک دم آخر میں گڑھُل کا ایک پودا موجود تھا۔ یہ پوا وہ اپنی ناسِک والی بیٹی کے یہاں سے لائے تھے۔پودے فقط پھل پھولوں کے نہیں تھے۔ کچھ جنگلی پودوں کی پتیاں اور ڈالیں اس خوبصورتی سے چھانٹی گئی تھیں کہ ان کے سبب اس ننھے سے آنگن کی خوبصورتی کئی گنا  بڑھ گئی تھی۔ یہ سب کوئی نئی بات نہیں تھی۔

پارس ناتھ میں ریلوے کی اوپن لائن میں جب اوجھا جی تھے، تب بھی ان کے کوارئٹر کا دو ہاتھ بھر کا باغیچہ خوبصورت پھول پودوں سے سجا رہا کرتا تھا۔ایک بار تو جنرل مینجر نے انہیں سو روپے کا  انعام بھی دیا تھا۔ اوجھا جی کو اپنے پودے پر بہت فخر تھا۔ان پر ٹھہرنے والی ایک تعریفی نظر اوجھا جی  کے روئیں روئیں کو سرشار کردیتی تھی۔

کھینی کھاکر وہ اٹھے۔ جنیوو کو آہستہ آہستہ پیٹھ پر رگڑتے ہوئے آنگن میں آئے۔ ایک پودے کے پاس ٹھہرے۔رات بھر جھڑے اور سوکھے ہرسنگھار اور بھوری پتیوں کو انہوں نے صبح سے ہی چن کر صاف کردیا تھا۔ مٹی میں کافی نمی تھی۔گڑھُل کے علاوہ دیگر کسی پودے پر پھول یا کلی نہیں آئی تھی۔ جس انہماک سے مصور کینوس پر رنگ بھرتا ہوگا، جس ممتا سے ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہوگی، اوجھا جی اسی موہ ، ممتا اور محبت سے مٹی کی  نِرائی گُڑائی کیا کرتے تھے۔پودوں میں پانی دیا کرتے۔ان کی دھوتی مٹی میں لتھڑ جاتی۔ناخنوں میں جمی مٹی چبھنے لگتی تھی۔ مگر پودوں سے ان کا موہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ایک ایک پتہ، بوٹا بوٹا ان کے لمس کو جیسے پہچانتا تھا۔ماں کا سب سے کمزور بچہ ماں کی سب سے زیادہ ممتا پاتا ہے۔گڑھُل کا یہ پودا اوجھا جی کی ایسی ہی کمزور اولاد تھا۔اب تک کبھی اس  پر ایک بھی پھول پنپ نہیں سکا تھا۔پتے چکنے چمکیلے اور خوبصورت تھے۔ٹہنیاں بھی سڈول تھیں۔ اوجھا جی اکثر پودے کی چھنٹائی کیا کرتے تھے۔سمے سے کھاد پانی سب دیتے۔اس کی چکنی پتیوں کو پیار سے سہلاتے۔ان کی نسوں میں بہتا ہوا پریم اور جیون جیسے قطروں کی راہ ہوتا ہوا پودوں میں سماتا چلا جاتا۔وہ اس پودے کو کئی منٹوں تک نہارتے  رہتے۔اور دو دن پہلے ہی اوجھا جی نے اس پر گنگناتی ہوئی ننھی کلی دیکھی تھی۔کلی کسی بھی وقت کھل اٹھنے کی حالت میں تھی۔اوجھا  جی  نے آہستہ سے کلی کو چھوا۔مسکرائے اور نہانے کے لیے سیمنٹ کے بنے اونچے فرش پر آگئے۔ بورنگ کی ہتھی چلاتے وقت پیر کی نسیں تڑ تڑ کرتی معلوم ہوتی تھیں۔پورا بدن چٹختا تھا۔ بوڑھا آدمی جسم کی طاقت سے نہیں، ہمت سے چلتا ہے۔ ہمت ہی تھی ، جو ماننے نہیں دیتی تھی کہ ان کا جسم تھک رہا ہے۔حالانکہ وہ سب سے خود کہا کرتے تھے۔’بڑی عمر گئِل با ہمار!'(اب ہماری بہت عمر ہوگئی ہے۔)

مگر یہی ہمت تب چوکنے لگتی جب بخار سر پر چڑھنے لگتا یا پیٹ پریشان کرنے پر آمادہ ہوجاتا۔اوجھا جی اکثر ہی کہا کرتے، ‘جان کو جسم سے بہت لگاؤ ہوتا ہے۔جان جلدی جسم چھوڑنا نہیں چاہتی، مگر جسم تو ادھ موا ہو ہی جاتا ہے۔اسی موہ کے کارن موت کے سمے آدمی کو تکلیف ہوتی ہے۔’

جب تب یہی موہ انہیں باندھنے لگتا۔چھوٹی ہوئی چیزوں اور لوگوں کا موہ۔دوست، رشتہ دار، ساتھی ، پتنی۔اور پودوں کا موہ تو تھا ہی۔اس موہ کا کوئی مطلب ہے کیا؟ چھوٹی ہوئی چیزیں اور لوگ پاس نہیں تھے۔اور جو نہیں چھوٹے تھے وہ بھی آخر کتنی دیر پاس ہیں، اس کا کیا کوئی ٹھکانا ہے؟

‘نمامیش  میشان نِروان روپم’ کا پاٹھ ایک عرصے سے چھوٹا ہوا تھا۔چھوٹا سا شیو لنگ کونے  میں دھکیل دیا گیا تھا۔ان پر اب بیل پتر نہیں چڑھا کرتا تھا۔کمرے میں کاٹھ کا ایک کالا بکسا تھا۔بکسے میں ڈھیر ساری پرانی کتابیں اور رسالے تھے۔بانوے، ترانوے تک  کے ‘کادمبنی ‘ کے شمارے تھے۔کبھی بہت چاؤ سے انہوں نے یہ کتابیں خریدی تھیں۔ان پر دُلار سے اخبار کی جلد مڑھی تھی۔اب تو اس طرف دیکھنے تک کا من نہیں کرتا۔بکسے میں دھول اٹی پڑی تھی۔اوجھا جی کپڑوں سے دھول جھاڑ کر کتابیں سجا رہے تھے۔بہو کھانا لے کر آئی تھی۔’بابو جی کھانا۔’

‘رکھ دو۔’

اوجھا جی پہلے کی طرح کتابیں سجاتے رہے۔بہو کھانا پانی رکھ کر چلی گئی۔کتابیں رکھ کر انہوں نے بکسا بند کردیا۔ سامنے کھانے کی تھالی تھی۔ کھانا دیکھ کر انہیں پتنی بے طرح یاد آتی تھی۔پتنی کو ان دنوں  نام سے پکارنے کا رواج نہیں تھا۔

‘سن تاروُ ہو(سنتی ہو)۔۔۔’کہہ کر ہی کام چلا لیا جاتا تھا۔پتنی خاموشی سے ہی آگے پیچھے ڈولتی رہتی تھیں۔ ان کے آسن پر بیٹھ  جانے کے بعد ہی تھالی میں گرم کھانا پروستیں۔اوجھا جی  جتنی  دیر کھاتے وہ  پنکھا جھلتی جاتی تھیں۔انہیں سبزی تیکھی چاہیے ہوتی تو تیکھی ہی ملتی۔میٹھا کھانے کا من ہوتا تو  میٹھا حاضر ہوجاتا تھا۔اوجھا جی کام میں مصروف رہتے۔پتنی بار بار پہلے کھانا کھالینے پر اصرار کرتیں۔وہ سنی ان سنی کردیتے۔کافی وقت بعد کام سے فارغ ہوتے، اس کے باوجود کھانا ہمیشہ گرم ہی ملتا۔

اس روز بارش ہوری تھی۔باغیچے کے ہر پودے تک پانی جانے کے لیے وہ راستہ بنارہے تھے کہ پتنی پکوڑے لے کر برآمدے میں حاضر ہوگئیں۔پتنی بار بار پہلے گرم گرم پکوڑے کھالینے کی ضد کررہی تھیں۔انہوں نے بری طرح جھڑک دیا۔’ہر سمے کیا کھالیجیے، کھالیجیے کی رٹ لگائے رہتی ہو؟ دیکھتی نہیں کام نمٹا رہا ہوں۔ تمہیں تو بس اپنے پکوڑوں کی  پڑی ہے۔’

پتنی شاید اندر تک سہم گئی تھیں۔دھیرے سے بولی تھیں۔’جب ہم نا رہب نا تب بجھائی تہارا۔'(جب ہم نہیں رہیں گے نا، تب معلوم ہوگا تمہیں۔)

دوپہر کسی اداس پرانی دھن کی طرح سر  چڑھ رہی تھی۔ کھانے پر مکھی بھنبھنانے لگی۔ اوجھا جی نے ہتھیلی ہلاکر مکھی بھگا دی۔دیوار کے کونوں پر مکڑی کے جالے لٹک آئے تھے۔ کھڑکی پر بیٹھا کبوتر پنکھ پھڑپھڑاتا ہوا اڑگیا۔

سویرے اٹھ کر اوجھا جی پودوں کو ‘صبح مبارک’ کہنے آئے تو گڑھُل پر ایک ننھا پھول کھل چکا تھا۔اجلے پھول کی پنکھڑیوں کے نچلے سروں پر کتھئی رنگ کے دھبے تھے۔پورے باغیچے میں موسم کا پہلا پھول شرمایا شرمایا سا مسکرارہا تھا۔ارہر کی جھاڑو سے آنگن بُہارتے ہوئے کئی دفعہ نظر ادھر ہی کو اٹھ جاتی۔جیسے کتھئی سیاہی میں انگلی بھگو کر اجلے پھول پر چھڑک دی گئی ہو۔یہ جس کی بھی کلاکاری تھی، بڑی خوبصورت تھی۔دن پھول کے ارد گرد، اس سے ہی سرابور ہوتے ہوئے گزرا۔کاتِک کی نارنجی شام اب بھاگنے لگی تھی۔ ہوا  میں کہرا سا تھا۔ایک پوتا اوجھا جی کے پاس ہی بیٹھا موبائل چلا رہا تھا۔بچوں کو موبائل چلاتے دیکھ کر اوجھا جی کو جیسے کچھ ہونے لگتا تھا۔کوئی الجھن  کا سا احساس۔

‘کا ٹیپ ٹاپ کررہے ہو؟’

‘کچھ نہیں۔’پوتے نے موبائل میں گردن ڈالے ڈالے کہا۔

کسی کا بھی اپنے آس پاس بیٹھنا اوجھا جی کو  کچھ جوشیلا سا بنا دیتا تھا۔گزرے دنوں کی  پرشور جگالی کرنے کے لیے دل  زور مارنے لگتا۔مگر اب یادیں، سوچیں، تصورات اور خواب آپس میں اس قدر گڈ مڈ ہوگئے تھے کہ ایک  ایک سوت کو الگ کرپانا ناممکن لگتا تھا۔کچھ بھی کہنے سے پہلے من ہی من جیسے کوئی تیاری چلتی تھی۔سوچے ہوئے اور بولے کا فرق معدوم سا ہوتا ہوا نظر آتا۔کئی بار کچھ باتیں اوجھا جی دل میں اتنی بار دوہرا لیتے کہ انہیں ایسا لگتا کہ وہ اسے دوسروں کو کئی دفعہ سنا چکے ہیں۔کئی بار اس کے برعکس بھی ہوتا تھا کہ دوسروں سے کی ہوئی باتیں بھی دل میں دوہرائی ہوئی سی معلوم ہوتی تھیں۔دن بھر کمرے میں اوجھا جی کی سانس کے الاؤکی آواز بس چوہوں کی بھاگ دوڑ جیسے شور کی مانند لگتی تھی۔ایسے میں بولتا ہوا ٹی وی بھی بے جان لگتا تھا۔ اوجھا جی نے کھنکھار کر کچھ جملے اچھالنا شروع کیا تھا۔پوتے نے بیزار لہجے میں کہا۔’سنائی ہوئی کہانی کتنی بار سنائیں گے بابا؟’

اوجھا جی کے پاس آگے کہنے کے لیے کچھ نہیں بچتا تھا۔

دنیا کے ہر آدمی کے پاس ایک  ترشول ہوا کرتا ہے، تیکھا اور نوکیلاترشول۔اوجھا جی کے  اندر بھی کوئی ترشول موجود تھا۔ اوجھا جی اپنے اندر کے ترشول کو لگاتار گھستے رہتے تھے کہ وہ ملائم، نرم اور ریشمی بنا رہے تاکہ جب بھی کسی سے ان کا یہ ترشول ٹکرائے تو سامنے والے کو کم سے کم چوٹ پہنچے۔لیکن دنیا کے پاس نہ تو اتنا صبر ہوتا تھا نہ وقت۔۔۔اس لیے اوجھا جی سے ٹکرانے والے دنیا کے ہر ترشول کی چوٹ بہت کاری ہوتی تھی۔

یادوں کی ریت جدھر جی چاہے پھسل جایا کرتی تھی۔ پانچ بیٹیوں میں جب سب سے بڑی سیانی ہوئی تو اوجھا جی نے منجھلے بھائی سے بر ڈھونڈنے میں مدد مانگی۔بھائی شام کی بتی میں گھی ڈالتے ہوئے بولے تھے،’سیٹھ ٹوڈرمل کہتا ہے کہ بھائی بیٹی اپنے دم پر پالتا ہے کہ بھائی کے دم پر؟’

اوجھا جی چپ ہوگئے۔دھیرے دھیرے ساری بیٹیاں اپنے اپنے گھر کی ہوگئی تھیں۔چھٹیوں میں ان سے ملنے آتیں۔دلار جتایا جاتا۔ شکایتیں درج ہوتیں۔

‘آپ چھوٹی کو زیادہ چاہتے ہیں۔’

‘آپ بڑی کو زیادہ مانتے ہیں۔’

شبد کی کئی تہیں تھیں۔ایک شبد سے کئی معنی سادھے جاسکتے تھے۔اوجھا جی  یہ مانتے مانتے تھک سے گئے تھے۔

ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔سوتی شال بدن پر ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ اندھیرا گاڑا تھا۔ اوجھا جی لالٹین جلانے کمرے میں جانے لگے۔ آنگن کے کونے میں گڑھُل مسکرا رہا تھا۔اوجھا جی اس کے پاس گئے۔اس کی پنکھڑیوں کا موتی سا اُجلا پن چمک رہا تھا۔اوجھا جی دھیمے سے بولے۔’تمہارے پاس تو کوئی ترشول نہیں ہے؟’

کاتِک کے ایک ہلکے جھونکے سے پھول کانپ اٹھا۔

صبح اوجھا جی سب سے پہلے ہرسنگھار کے پاس گئے۔اس کے پھول چن کر اوجھا جی پھینکتے نہیں تھے۔انہوں نے سارے پھول پیڑ کی جڑوں کے چاروں طرف گول گھیرے میں رکھ دیے۔کیاریوں کی اینٹیں ٹیڑھی میڑھی ہوگئی تھیں۔اینٹیں سیدھی کرتے ہوئے اوجھا جی کی نظر اچانک گڑھُل پر پڑگئی ۔ڈال سونی تھی۔اوجھا جی کا دل دھک سے ہوگیا۔کس نے کیا یہ؟ انہوں نے بہو کو آواز لگائی۔۔۔

‘یہ گڑھُل کا پھول کس نے توڑا؟’

‘آج ایکادشی ہے تو پوجا کے لیے میں نے ہی توڑ لیا۔’ بہو دھیرے سے بولی۔اوجھا  جی کا دل روہانسا ہوگیا۔وہ خاموش بیٹھے کیاری کی اینٹیں ٹھیک کرنے لگے۔بوگنویلیا کی شاخوں کے پاس چھت پر کبوتر تھا۔ کبوتر ٹُکر ٹُکر اوجھا جی کو دیکھ رہا تھا۔ گڑھُل کی وہ سونی ڈال کاتِک کے جھونکے سے اب بھی جھوم رہی تھی۔

٠٠٠

 

اب ایسی کہانیاں بہت کم لکھی جاتی ہیں، جن میں زندگی کے معمولی اداس تجربوں کو اتنی خوبصورتی سے قید کردیا جائے، جیسا کہ اس کہانی میں کیا گیا ہے۔اُپاسنا کی یہ مختصر سی کہانی ، ایک بوڑھے آدمی  اور زندگی کے درمیان شرارت بھری رسہ کشی کا ایک عمدہ قصہ ہے۔اس قصے کی سب سے خوبصورت بات، اس  پر چھڑکی گئی وہ افشاں ہے، جسے مرنے سے کچھ پہلے ایک آدمی کی زندگی کے نہایت بور لمحے مان کر محض یوں ہی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔کتنی معمولی اور چھوٹی باتوں سے اس کی خوشی اور غم ، یادیں اور خواب، خوشیاں اور پچھتاوے وابستہ ہوتے ہیں، اس کہانی میں اُپاسنا نے انہیں بہت اچھی طرح پرویا ہے۔میں ان کے انداز نگارش اور علاقائی زبان  کی جڑوں سے ان کے  گہرےتعلق کو بہت اہم چیز مانتا ہوں۔ایسی کہانیاں جب بھی نظر سے ٹکراتی ہیں، زندگی  ایک ہی پل میں کتنی بے معنی مگر پرلطف دکھائی دینے لگتی ہے۔

اُپاسنا کا جنم 8 اکتوبر ، 1984 کو چترنجن ، مغربی بنگال میں ہوا۔ہندی ادب اور تدریس میں ایم اے، بی ایڈ کے ساتھ انہوں نے پینٹنگ میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا ہے۔کچھ برسوں تک وہ سکول میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔بچوں کے لیے بھی انہوں نے عمدہ ادب لکھا ہے۔ان کی مطبوعہ کتابوں میں ‘ایک زندگی۔۔۔ایک سکرپٹ بھر!’ اور’دریا بندر کوٹ’ نام کے دو افسانوی مجموعے، ‘ڈیسک پر لکھے نام  کے عنوان سے بچوں کے لیے لکھا گیا ایک ناول اور’ بینگن نہیں آئے’ کے نام سے بچوں کے لیے ہی ایک ڈراما شامل ہیں۔بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی تحریروں کا مراٹھی میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔انہیں  اپنی کہانیوں کے سبب ‘بھارتیہ گیان پیٹھ نولیکھن ایوارڈ’،’ونمالی وششٹ کتھا سمان’ اور ‘وجے موہن سنگھ کتھا سمان’ سے نوازا جاچکا ہے۔ہندی میں ان کی طویل کہانی ‘ایک زندگی ۔۔۔ایک سکرپٹ بھر’ نے نئی معاصر فکشن نگاری میں ان کے نام کو مستحکم کیا ہے۔یہ کہانی ہندی کے صف اول کے رسالے ‘تَدبھَو’ میں شائع کی گئی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *