شبھا کی کویتائیں

ہمزاد

 

دکھ مجھ سے پہلے بیٹھا تھا

ماں کی کوکھ میں

ہم ساتھ ساتھ پیدا ہوئے

وہ مجھ سے بڑا تھا

٠٠٠

 

ایک خیال

 

وہ ٹیلا وہیں ہوگا

جھربیریاں اس پر چڑھ جانے کی کوشش میں ہوں گی

چیونٹیاں اپنے انڈے لیے بلوں کی جانب گامزن ہوں گی

ہرا ٹِڈا بھی مٹھی بھر گھاس پر بیٹھا ہوگا کچھ سوچتا ہوا

دوپہر کو اور سفید بنارہی ہوگی آسمان میں پاؤں ٹھہراکر اڑتی ہوئی چیل

کیکر کے پیڑوں سے ذرا آگے رکی کھڑی ہوگی ان کی پرچھائیں

کوے پیاسے بیٹھے ہوں گے اور بھی سب جاندار غیر جاندار ہوں گے وہاں

ایسے اٹھیں گے پتھر جیسے کوئی جلسہ کررہے ہوں

ہوا آرام کررہی ہو گی شیشم کی پتیوں میں چھپی

ہوسکتا ہے یہ سب میری یادوں میں ہی زندہ ہو

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میری یادہی نہ بچے

اور یہ سب اسی طرح قائم رہیں

٠٠٠

 

آخری انسانی دکھ

 

اتنا دکھ آنسوؤں سے نہیں اٹھایا جاتا

وہ ہار گئے کب کے

چیخ اسے اور بھیانک بناتی ہے

غصہ تو صرف راکھ پیدا کرتا ہے

کچھ دیر اسے خاموشی نے اٹھایا

کبھی ڈھویا کویتا نے

وچار نے جھیلا اسے

اور لادا دوستوں نے

مل کر گیت گاتے ہوئے

کمیونسٹ پارٹیاں بکھریں

کتنی بار اسے اٹھاتے ہوئے

اسے ڈھونے کے لیے

کچھ اور چاہیے

ان سب کے ساتھ

کوئی نیا طریقہ

اتہاس نے اسے اٹھایا کبھی کبھی

اب اس کی  دھجیاں بکھری ہیں

انہیں بچے ڈھو رہے ہیں

یہ پہنچ رہا ہے قدرت تک

طوفان اور گھپائیں

اٹھائیں گی اس کا بوجھ

اگر دھرتی اسے نہ اٹھا سکی

خلا میں ناچیں گی اس کی دھجیاں

٠٠٠

 

مکالمہ

 

اس دنیا کا سب سے آسان کام رہا ہے

یا یوں کہیے کہ سب سے مشکل

اصل میں سب سے آسان کام ہی

سب سے مشکل ہوتے ہیں

آسان کام ہوتا ہے ایسے

جیسے خود ہورہا ہو

اور جب وہ خود نہیں ہوتا

تو وہ سب سے مشکل کام ہوتا ہے

بسنت میں مکالمہ جاری رہتا ہے

ہر ذرے کے درمیان

جتنی کونپلیں اتنی بھاشا

جتنی تتلیاں اتنے رقص

جتنی اوس اتنی کرنیں

کچھ کم نہیں ہوتا

کچھ زیادہ نہیں ہوتا

جیسے سب اپنے آپ ہوتا ہے

اس کا مطلب نہ ہونا نہیں ہے

اس کا مطلب ساتھ ہونا ہے

جڑیں زمین میں چلتی ہیں

کونپلیں آسمان میں

گہرائی اور اونچائی

ایک ہی سمت ہوتی ہے

کیسے بنتی ہے ایک ہی سمت

جس میں ہوتی ہیں اتنی ہی بھاشائیں

جتنی ہوتی ہیں چڑیائیں

جتنی چیونٹیاں

اتنے ہی سانپ

گنتی میں نہیں تناسب میں

٠٠٠

 

گینگ ریپ

 

عضو تناسل کی عام نمائش

جسے ہم گینگ ریپ کہتے ہیں

باقاعدہ ٹیم بناکر

اتحاد کے جذبے کے ساتھ لگائی جاتی ہے

اکیلے میں عورت کے ساتھ

زور زبردستی تو خیر

تہذیب کا حصہ رہی ہے

جنگوں اور دشمنیوں کے معاملے میں

مردانگی دکھانے کے لیے بھی

بلاتکار ایک ہتھیار رہا ہے

مگر یہ نئی بات ہے

لگ بھگ بغیر کسی بات کے

عضو تناسل کی جنگی نمائش

مرد جب اٹھتے بیٹھتے ہیں

تب بھی ایسا لگتا ہے

جیسے وہ اس ہتھیار کی نمائش لگانا چاہتے ہیں

کھجلی جیسے بہانوں کے ساتھ بھی

وہ ایسا بڑے پیمانے پر کرتے ہیں

ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوئے بھی

 

وہ اپنے اس عضو پر اترا رہے ہوتے ہیں

آخر اسے دیکھ کر ہی

ماں باپ تھالی بجانے لگتے ہیں

دائیاں ناچنے لگتی ہیں

لوگ مٹھائی کے لیے منہ پھاڑے آنے لگتے ہیں

یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے

جب فرائڈ مہاشے

اس عضو پر اتنے فدا ہوئے

کہ وہ ایک پیچیدہ ڈھانچے

کو سمجھ نہیں سکے

اس کے روپ پر مبہوت

وہ اسی  طرح ناچنے لگے

جیسے ہماری دائیاں ناچتی ہیں

سرمایے اور ہمہ گیریت کے ملاپ سے

ساخت اور طاقت میں گٹھ جوڑ ہوگیا ہے

ظاہر ہے کہ معیار کا سوال

مفلسوں اور محروموں سے ہونا تھا

ہمارے شاستر، پُران، عظیم مذہبی اعمال اور نفسیات

مٹھائی اور ناتے رشتوں کے یوگ سے

عضو تناسل کو اس طرح قائم کیا گیا

جیسے عظیم طاقتور خدا کو کیا جاتا ہے

عجب نہیں کہ ماں  کی تعریفیں

کئی بار عضو تناسل کے قصیدوں کی طرح سنائی دیتی ہیں

اس کی جنگی نمائش

اس وقت ضروری ہوجاتی ہے

جب مرد انگی کی عظیم عمارت ڈھہ رہی ہو

فرج، بچہ دانی، انڈہ دانی، چھاتیاں، دودھ کی گلٹیوں

اور ضمیر زدہ جسم کے ساتھ

طے شدہ معیار سے الگ انسان

جب مردوں کے سماج میں داخل ہوتا ہے

تو وہ ایک چنوتی ہے

عضو تناسل پر فدا

بے ضمیر مرد اجتماعی طور پر اپنا

ڈگمگاتا اقتدار قائم رکھنا چاہتا ہے

٠٠٠

 

مستقبل کی طرف

 

بچے زہریلی گیس سے اچھی طرح

نیلے پڑگئے ہیں

ان پر بیماریوں کے جراثیم کی بارش  بھی کی گئی ہے میزائلوں سے

پہلے وہ بھیک مانگ رہے تھے

انہوں نے بچہ مزدور بنے رہنے کی بھی کوشش کی

سیکس بازار میں وہ دھیمی آواز میں روئے

رفیوجی کیمپ میں وہ سردی سے

ادھ مرے ہوگئے اور بس آہستہ سے کنمنائے

انہوں نے کچھ کہا نہیں

ان کی معصومیت

کسی کام نہ آئی

پنکھڑیوں جیسے دل

ایک دھماکے سے خون میں غرق ہوگئے

رات کو سوتے ہوئے وہ

بارود سے ڈھک دیے گئے ہیں اچھی طرح

وہ ہمارا مستقبل ہیں

٠٠٠

 

مجبور

 

کبھی پھیپھڑے بھر جاتے ہیں

گونگے دکھ سے

دل کا کہیں پتہ نہیں ملتا

وہم کی پیٹھ دکھائی دیتی ہے

چہرہ نہیں

٠٠٠

 

دلربا کے سُر

 

ہمارے کندھے اس طرح بچوں کو اٹھانے کے لیے

نہیں بنے ہیں

کیا یہ بچہ اس لیے پیدا ہوا تھا

تیرہ سال کی عمر میں گولی کھانے کے لیے

کیا بچے ہسپتال، جیل اور قبر کے لیے بنے ہیں

کیا وہ اندھے ہونے کے لیے بنے ہیں

اپنے دریا کا پانی ان کے لیے بہت تھا

اپنے پیڑ گھاس۔پتیاں اور ساتھ کے بچے ان کے لیے بہت تھے

چھوٹا موٹا سکول ان کے لیے بہت تھا

ذرا سا سالن اور چاول ان کے لیے بہت تھا

آس پاس کے بزرگ اور معمولی لوگ ان کے لیے بہت تھے

وہ اپنی ماں کے ساتھ پھول، پتے، لکڑیاں چنتے ہوئے اپنا جیون بتا دیتے

میمنوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے

وہ اپنی زمین پرتھے

اپنوں کے سکھ دکھ میں شریک تھے

تم بیچ میں کہاں سے آگئے

سارے معاہدے توڑدینے والے

جیل میں  ڈالنے والے

گولیاں چلانے والے

تم بیچ میں کہاں سے آگئے

ہمارے بچے باغی ہوگئے

نہ کوئی ٹریننگ، نہ ہتھیار

وہ خالی ہاتھ  تمہاری طرف آئے

تم نے ان پر چھرے برسائے

اندھے ہوتے ہوئے انہوں نے پتھر اٹھائے جو

ان کے ہی خون اور آنسوؤں سے تر تھے

 

سارے معاہدے توڑنے والو

گولیوں اور چھروں کی

برسات کرنے والو

دریا بچوں کی طرف ہے

اگنا اور بڑھنا

ہوائیں اور پت جھڑ

جاڑا اور بارش

سب بچوں کی طرف ہے

بچے اپنی کانگڑی نہیں چھوڑیں گے

ماں کا دامن نہیں چھوڑیں گے

بچے سب ادھر ہیں

 

معاہدے توڑنے والو

سارے معاہدے درمیان میں رکھے جائیں گے

بچوں کے نام ان کے کھلونے

درمیان میں رکھے جائیں گے

عورتوں کے پھٹے دامن

درمیان میں رکھے جائیں گے

مارے گئے لوگوں کی بے گناہی

درمیان میں رکھی جائے گی

ہمیں وجود میں لانے والی دھرتی

درمیان میں رکھی جائے گی

مقدمہ تو چلے گا

شناخت تو ہوگی

حشر تو یہیں پر اٹھے گا

سکول بند ہیں

شادیوں کے شامیانے اکھڑے پڑے ہیں

عید پر ماتم پسرا ہے

 

بچوں کو قبرستان لے جاتے لوگ

گردن جھکائے ہیں

ان پر چھروں اور گولیوں کی برسات ہورہی ہے

٠٠٠

 

آدم خور

 

1

آدم خور اٹھالیتا ہے

چھ سال کی بچی

لہولہان کردیتا ہے اسے

اپنا ہتھیار پونچھتا ہے

اور گھر پہنچ جاتا ہے

منہ ہاتھ دھوتا ہے اور

کھانا کھاتا ہے

رہتا ہے بالکل شریف آدمی کی طرح

شریف آدمی کو بھی لگتا ہے

بالکل شریف آدمی جیسا

٠٠٠

 

2

 

ایک عورت بات کرنے کی کوشش کررہی ہے

تم اس کا چہرہ الگ کردیتے ہو دھڑ سے

تم اس کی چھاتیاں الگ کردیتے ہو

تم اس کی رانیں الگ کردیتے ہو

تم اکیلے میں اسے کھاتے ہو

آدم خور تم اسے تشدد بھی نہیں مانتے

٠٠٠

 

خوش قسمتی

 

یکمُشت

بدن کا درد محسوس کرنا

جیسے گھر لوٹنا ہواہو

آتما کی اداسی دیکھنا

جیسے کسی عزیز سے ملنا ہواہو

٠٠٠

 

احتجاج کی نسائی آوازیں (پرتی رودھ کا اِستری سؤر)  جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے،سویتا سنگھ کی ترتیب دی ہوئی ایک ایسی کتاب ہے، جس میں موجودہ دور کی ایسی باغی ہندی شاعروں کی  کویتائیں جمع کی گئی ہیں، جنہوں نے  ریاست اور سماج کے جبر کو خاموشی سے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔وہ اپنی بات کہہ رہی ہیں۔دنیا بھر کے ساتھ ساتھ اپنے ملک اور اپنے خطے میں موجود اپنی ہم جنسوں، بچوں اور مظلوموں کی حمایت  میں کھل کر بول رہی ہیں۔یہ نڈر اور حساس آوازیں ہیں، جن کو کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اس کتاب میں شامل سبھی شاعروں کی نظمیں جستہ جستہ اردو میں ترجمہ کرکے آپ سبھی کے سامنے لائی جاتی رہیں گی۔ترجمے کی اجازت دینے کے لیے میں سویتا سنگھ کا خاص طور پر شکرگزار ہوں۔یہ کتاب راج کمل پرکاشن کی جانب سے 2023 میں پہلی بار شائع ہوئی ہے۔اس  سے آپ ان نظموں کے اپنے عہد سے موجود گہرے تعلق کا اندازہ کرسکتے ہیں۔کتاب میں موجود تمام شاعروں کا تعارف کتاب سے ترجمہ کرکے یہاں پیش کیا جائے گا۔شکریہ

‘احتجاج کی نسائی آوازیں’ نامی  کتاب میں شامل شُبھا پہلی شاعر ہیں۔وہی شُبھا جنہوں نے آج تک اپنا ایک مجموعہ بھی شائع نہیں کروایا، لیکن جن کی کویتائیں اس آدم خور تہذیب کی جائز تنقید کرتی  رہی ہیں، ہمیں جھنجھوڑتی  رہی ہیں۔ان کی جہدآمیز زندگی سے نکلنے والی یہ کویتائیں ان موتیوں کی طرح ہیں جن سے اس کتاب  میں ہم ایک ایسی مالا تیار کرنا چاہتے ہیں، جس کی خوبصورتی سے لوگ مبہوت ہوجائیں۔ان کی کویتائیں گینگ ریپ سے لے کر ‘سخت دل مستقبل کی جانب’جانے تک پھیلی ہوئی ہیں،اور  جن کے حقائق کا یہاں تجزیہ بھی موجود ہے ۔ ان سب سے باہر نکلنے کا راستہ بھی انہی کویتاؤں میں سجھایا گیا ہے۔یہ سب کتنا مشکل ہے یہ ان کی کویتاؤن کو معلوم ہے۔’آدم خور اٹھالیتا ہے/چھ سال کی بچی کو/لہو لہان کردیتا ہے اسے۔۔۔’ایسے حالات میں کویتا بھی تو لہو لہان ہوتی ہے جسے شُبھا دیکھتی اور محسوس کرتی ہیں۔ اور اس پر اپنا احتجاج درج کرواتی ہیں۔(سویتا سنگھ)

شُبھا 6 ستمبر 1953 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں ، آٹھویں دہائی کی اہم شاعر ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پڑھائی کے بعد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے مکتی بودھ کے وِچاروں اور شاعری پر پی ایچ ڈی کی۔سیاسی طور پر سرگرم شُبھا ہریانہ کے سانپلا کے راجکیہ مہیلا ودیالیہ میں پرنسپل  کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔وہ ‘سرچ’ راجیہ سنسادھن کیندر، ہریانہ اور ‘بھارت گیان ۔وگیان سمِتی’ سے بھی جڑی رہیں۔شُبھا ‘ایڈوا(آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنس ایسوسی ایشن)’ نامی نسوانی تنظیم کے بنیاد گزاروں  میں شامل رہی ہیں۔ہریانہ میں مختلف ناٹک منڈلیوں کی تشکیل کرکے انہوں نے گاؤں میں حاشیے پر موجود دلتوں، محروموں اور عورتوں میں بیداری پیدا کرنے کا کام بھی کیا ہے۔’پہل’،’نیا گیان اُدے’،’ورتمان ساہتیہ’،’کتھن’،’نیاپتھ’،’شُکروار’، ‘نئی دنیا’ وغیرہ جیسے باوقار رسائل میں ان کی کویتائیں شائع ہوچکی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *