لالو

میرے بچپن کا ایک دوست تھا جس کا نام تھا لالو۔  یہ کوئی پچاس برس پرانی بات ہے ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں ٹھیک ٹھیک بتا نہیں سکتا کہ کتنی پرانی بات ہےــ ہم ایک چھوٹے سے بنگلہ اسکول میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ اس وقت ہم دس گیارہ برس کے رہے ہوں گے۔  لالو کا دماغ شیطانیوں کا گھر تھا جن سے کام لے کر وہ یا تو لوگوں کو ڈراتا تھا یا پھر ان پر غالب آنے کی کوشش کرتا تھا۔  ایک دن اس نے ربڑ کے سانپ سے اپنی ماں کو اس بری طرح ڈرا دیا کہ اس بے چاری کے پاؤں میں موچ آگئی اور اگلے  سات آٹھ دن تک وہ بیچاری لنگڑا کر چلتی رہی۔ اس واقعے سے  اسے اتنا غصہ آیا کہ اس نے لالو کے لیے ایک ٹیوٹر کا انتظام کرنے کا حکم دے ڈالا تاکہ لالو کی ساری شامیں ٹیوٹر کی نذر ہونے لگیں اور لوگوں کو ستانے کے لئے اس کے پاس وقت نہ رہے۔ 

لالو کے باپ  اس منصوبے سے متفق نہیں تھے اور انہوں نے ٹیوٹر کا انتظام کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے خود کبھی ٹیوٹر سے نہیں پڑھا تھا۔ سخت مشقت جھیل کر اور نہایت جانفشانی سے مطالعہ کر کے انہوں نے  تعلیم پوری کی تھی اور آج ایک کامیاب وکیل تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بھی اسی طرح پڑھے۔ البتہ ان کی ایک شرط تھی وہ یہ کہ اگر لالو اپنی کلاس میں اوّل نہیں آیا تو گھر پر پڑھانے کے لئے ماسٹر لگا دیا جائے گا۔  چنانچہ اس بار تو لالو کو نجات مل گئی لیکن دل ہی دل میں  وہ اپنی ماں سے سخت برہم تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ماں نے اس پر ماسٹر مسلط کرنے کی کوشش کی تھیــ اور ان دنوں گھر پر ماسٹر  بلانا بالکل ایسے ہی تھا جیسے پولیس کو بلانا۔

لالو کے والد ایک اچھے گرہست تھے۔  کچھ ہی برس   بعد انہوں نے اپنا  پرانا گھر تڑوا کر ایک بہت بڑی تین منزلہ عمارت بنوائی۔  جب نیا گھر بن گیا تو لالو کی ماں کی خواہش ہوئی کہ ان کے گھر پر ان کے گرو دَیو پدھاریں اور اپنا آشیرباد دیں۔  فرید پور سے اتنا طویل سفر کر کے آنے میں ان بزرگ کو تامّل تھا لیکن اتفاق سے ایسے  حالات بن گئے کہ گرودیو آ سکیں۔  گرو دیو اسمرتی رتن سورج گرہن دیکھنے کے لیے کاشی گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے انھوں نے چٹھی بھیجی کہ واپس لوٹتے ہوئے نند رانی کو آشیر باد دینے کے لیے وہ ان کے گھر آئیں گے۔ لالو کی ماں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔  انہوں نے جوش و خروش سے تیاریاں شروع کردیں۔ آخر کار وہ دن آ رہا تھا جب  گرو دیو کے قدموں سے یہ گھر  پوتر ہو جائے گا۔

نچلی منزل سے سارا فرنیچر ہٹا دیا گیا۔  ایک نیا نواڑی پلنگ اور نیا بستر گرو دیو کے آرام کے لئے منگا لیا گیا۔ تیسری منزل پر پوجا کے کمرے تک جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے میں چونکہ گرودیو کو دشواری ہو سکتی تھی  اس خیال سے اسی کمرے کے ایک گوشے میں ان کے لئے پوجا پاٹھ کا اہتمام کر دیا گیا تھا۔

چند دن کے بعد گرودیو آ گئے۔ لیکن موسم کتنا خراب ہو گیا تھا! کالے کالے بادل آسمان   پر چھا گئے  اور  اپنے ساتھ طوفان اور موسلا دھار  بارش لائے۔  اس دوران لالو کی ماں مٹھائیاں بنانےاور پھل پھول کا انتظام کرنے میں اس بری طرح مصروف رہیں کہ انہیں دم لینے کی بھی فرصت نہ ملی۔  یہ سب کرتے کرتے بھی انہوں نے گرودیو کا  بستر صاف کرنے اور اس پر مچھردانی لگانے کا وقت نکال ہی لیا۔  کافی دیر باتیں کرنے کے بعد  تھکے ہوئے گرو نے رات کا کھانا  کھایا اور سونے کے لئے لیٹ گئے۔  نوکر چاکر بھی رخصت ہوئے۔  صاف ستھرے اور آرام دہ بستر پر لیٹ کر گرودیو ایک بار پھر اندرانی کو آسیس دیے بغیر نہ رہ سکے۔

لیکن اچانک آدھی رات کو ان کی آنکھ کھل گئی۔  چھت سے ٹپکتی ہوئی پانی کی بوندیں مچھردانی پار کرکے ان کے پیٹ پر گر رہی تھیں۔  اف! پانی کس قدر ٹھنڈا تھا! وہ تیزی سے بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا پیٹ پونچھنے لگے۔ پھر انہوں نے اپنے دل میں کہا،’ نندرانی نے مکان تو اچھا بنوایا ہے لیکن سورج کی  پچھمی تیز کرنوں نے اس میں ابھی سے دراڑیں ڈال دی ہیں۔‘

نواڑی پلنگ بھاری نہیں تھا۔ چنانچہ گرو  دیو نے اسے کمرے کے دوسرے گوشے میں مچھر دانی سمیت  گھسیٹ لیا اور پھر سے سونے کے لئے لیٹ گئے۔  انہیں آنکھیں بند کئے ہوئے ابھی آدھا منٹ ہی گزرا ہوگا کہ ٹھنڈے پانی کی چند بوندیں پھر سے ان کے پیٹ پر ٹپک پڑیں۔  اسمرتی رتن پھر سے اٹھے  اور چارپائی کو کمرے کے دوسرے سرے پر گھسیٹتے ہوئے بولے، ’لگتا ہے چھت پر بڑی بڑی دراڑیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ہیں۔‘

 وہ لیٹ گئے۔ لیکن پانی کی بوندیں پھر سے ان کے پیٹ پر گرنے لگیں۔  پلنگ کو ادھر ادھر  کھسکانے سے مسئلہ کسی طرح حل نہ ہوا۔ پانی کی بوندیں گرتی رہیں۔ تب انہیں احساس ہوا کہ بستر اس قدر بھیگ چکا ہے کہ وہ اس پر اب لیٹ بھی نہیں سکتے۔ گرو واقعی  مصیبت میں تھے۔ وہ بوڑھے آدمی تھے۔ ان کے لیے کمرے میں رکنا حالانکہ خطرے سے خالی نہ تھا لیکن اس اجنبی جگہ پر کمرے سے باہر نکلنے کے خیال سے ڈر بھی رہے تھے۔  یہ چٹخی ہوئی چھت اگر میرے سر پر گر پڑی تو کیا ہوگا؟ موت کا خیال آتے ہی انہوں نے دروازہ کھولا اور برآمدے میں آگئے۔ وہاں گوکہ ایک لالٹین روشن کر دی گئی تھی تاہم  باہر گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور دور دور تک کسی کا اتاپتا نہ تھا۔

 طوفان زوروں پر تھا اور بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ایسے میں سیدھے کھڑے ہونا بھی مشکل تھا۔ گرودیو کو معلوم نہ تھا کہ نوکر کس کمرے میں سو رہے ہوں گے۔ انہوں نے زور سے پکارا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ برآمدے کے ایک گوشے میں لالو کے والد کے غریب موکلوں کے لیے لکڑی کی بنچ پڑی ہوئی تھی جس پر وہ وکیل صاحب سے ملاقات کے انتظار میں  بیٹھا کرتے تھے۔  گرو دیو وہیں بیٹھ گئے حالانکہ انہیں  اس بات کا احساس تھا کہ ایسا کرنا ان کے آتم سمّان کے خلاف ہے۔  لیکن کوئی اور چارا بھی تو نہ تھا۔سرد  شمالی ہوا  نے پانی کی  تھوڑی سی پھوار ان کے اوپر الٹ دی اور وہ  سردی سے کانپ اٹھے۔  انہوں نے اپنے پاؤں اٹھا کر بیچ میں رکھ لیے اور دھوتی کے سرے سے اپنے بدن کو ڈھانپ کر  اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔  دن بھر کی تھکن سے چور اور ٹھنڈ سے سن پڑتا بدن،  دل میں تلخی،  نیند سے بھاری پپوٹے، شام کو کھائے پکوانوں سے پیدا شدہ بے چینی  اور بے خوابی اس پر مستزادــگرو دیو سچ مچ مصیبت میں تھے۔تبھی اچانک ایک اور نئی مصیبت  مسلط ہو گئی۔  موٹے موٹے مچھروں نے ان کے کان کے پاس گنگنانا شروع کر دیا۔  مچھروں نے بڑا جھنڈ بنا کر حملہ کیا تھا۔ اس سے گھبرا کر شروع میں تو وہ  پلک کبھی نہ جھپکا  سکے لیکن دو ہی پل میں انھیں اندازہ ہوگیا کہ مچھر بے شمار ہیں۔  دنیا میں کوئی  آدمی ایسا بہادر نہ ہوگا جو  اس فوج کے مقابل ٹھہر سکے۔  مچھروں کا کاٹنا جتنا ناقابل برداشت تھا اتنا ہی ناقابل برداشت  کھجانا بھی ہو گیا۔

 اسمرتی رتن ترنت وہاں سے ہٹ گئے لیکن مچھر ان کے پیچھے پیچھے چلے آئے۔ کمرے میں پانی تھا اور باہر مچھرــ وہ سچ مچ بڑی مصیبت میں تھے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے اور پھڑپھڑانے شروع کر دیے اور اپنے گمچھے سے مچھروں کو مارنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن سب بے سود۔ کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگ دوڑ کرتے اس ٹھنڈی رات میں بھی وہ پسینے میں شرابور ہو چکے تھے۔  ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے لگیں اور  اس بچکانی حرکت سے انہوں نے خود کو بڑی مشکل سے روکا۔  انہوں نے اپنے تصور میں دیکھا کہ نندرانی اپنے آرام دہ بستر پر مچھردانی لگائے چین کی نیند سو رہی ہیں اور گھر کا ہر فرد آرام سے سویا ہوا ہے، صرف میری مصیبتوں کا کوئی انت نہیں۔  گھڑی نے جیسے  تیسے چار بجائے۔  تن بہ تقدیر ہو کر انہوں نے کہا، ’چلو جتنا چاہو کاٹتے رہوــاب میں اور نہیں لڑ سکتا۔‘

 وہ برآمدے کے دوسرے گوشے میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور ممکن حد تک اپنی پیٹھ کو مچھروں سے بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ 

’اگر میں صبح تک  جیوت رہ گیا تو اس بھیانک استھان پر اب بالکل نہیں رکوں گا، پہلی ٹرین پکڑ کر چلا جاؤں گا۔‘  انہوں نے دل ہی دل میں عہد کیا۔

اب انہیں اندازہ ہوا کہ وہ اس شہر میں کیوں نہیں آنا چاہتے تھے لیکن جلد ہی گہری نیند نے آکر رات کی کلفتوں کا خاتمہ کردیا اور وہ تقریبا بے ہوشی کے عالم میں گہری نیند سو گئے۔ 

نندرانی صبح تڑکے جاگ گئیں۔ انہیں اپنے گرودیو کی سیوا کرنی تھی۔  انہوں نے رات کو حالانکہ بھرپیٹ کھانا کھایا تھا لیکن  وہ محسوس کر رہی تھیں کہ  گرودیو نے کم کھایا۔  انہوں نے دل ہی دل میں عزم کیا کہ آج دن بھر ان کی خدمت میں طرح طرح کے کھانے پیش کرکے وہ اس کی تلافی کرلیں گی۔ جب وہ نیچے اتر کر آئیں تو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے۔ انہیں شرمندگی ہوئی کہ میرے اٹھنے سے پہلے ہی گردیو جاگ چکے ہیں۔ انہوں نے کمرے میں جھانکا تو پایا کہ وہ کمرے میں نہیں ہیں۔ لیکن کچھ تو گڑبڑ ہوئی تھی!  انہوں نے دیکھا کہ پلنگ جو جنوبی سرے پر پر تھا اب شمال کی جانب بچھا تھا۔  گرودیو کا کینوس کا تھیلا جو کھڑکی کے نیچے رکھا تھا اب کمرے کے بیچوں  بیچ تھا۔ اور ان کی پوجا کے لیے جو برتن رکھے گئے تھے وہ سب کمرے میں بکھرے پڑے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ کمرے سے  باہر آ کر انہوں نے ملازموں کو آواز دی لیکن ابھی تک کوئی نہیں جاگا تھا۔ گرودیو آخر اکیلے کہاں گئے؟ ان کی نظر کسی شے پر پڑی۔ یہ کیا ہے؟ اندھیرے میں ڈوبے برآمدے کے ایک سرے پر کوئی آدمی نما شے پڑی ہے؟ ہمت کرکے اس کے قریب گئیں اور جھک کر دیکھا۔ وہ گرودیو ہی تھے۔  ناقابل بیان خوف کی گرفت میں آکر وہ چیخ پڑیں، ’ ٹھاکر موشائی !  ٹھاکر موشائی!‘

اسمرتی رتن جاگ گئے۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور دھیرے دھیرے اٹھ بیٹھے۔  تکلیف اور شرم کے مارے نندرانی نے رونا شروع کردیا۔ انہوں نے گرودیو سے پوچھا، ’ٹھاکر موشائی!  آپ یہاں کیسے؟‘

اسمرتی رتن کھڑے ہو گئے اور بولے، ’ساری رات میرے کٹھنائیوں کا کوئی انت ہی نہ تھا ماں۔‘ 

’ کیوں بابا؟‘

’بے شک تمہارا مکان نیا ہے لیکن اس کی چھت ہر جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ بارش ساری رات باہر نہیں،  میرے بدن پر ہوتی رہی۔  میں اپنے پلنگ کو جدھر بھی لے گیا بارش وہیں ہوتی رہی۔ میں اس ڈر سے کمرے سے باہر چلا گیا کہ چھت ہی میرے سر پر نہ گر پڑے۔ میں کبھی ادھر جاتا تھا تو کبھی ادھر۔  میرا خیال ہے کہ میرے بدن میں آدھا بھی خون نہیں بچا ماں۔‘

اپنے گرودیو کی یہ قابل رحم حالت دیکھ کر نندرانی رو ہی  پڑیں، جنھیں وہ لاکھ جتن کرکے، خوشامد درآمد کے بعد اپنے گھر بلانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ 

’ لیکن بابا گھر تو تین منزلہ ہے،‘  وہ بولیں، ’آپ کے کمرے کے اوپر دو کمرے اور ہیں۔ تو تین کمروں کی چھتیں بھید کر بارش کا پانی کیسے آسکتا ہے؟‘ کہتے کہتے انہیں اچانک احساس ہوا کہ اس معاملے کے میں کہیں بدمعاش لالو کی  کوئی شرارت تو نہیں۔  وہ دوڑ کر بستر کے پاس پہنچیں اور دیکھا کہ بستر کی چادر بیچوں بیچ  تربتر تھی اور پانی کی بوندیں اب بھی مچھر دانی سے ٹپک رہی تھیں۔  انہوں نے جلدی سے مچھردانی اتاری اور دیکھا کہ کپڑے میں لپٹا ہوا برف کا ٹکڑا اس پر رکھا ہے جس کا بیشتر حصہ پگھل چکا تھا لیکن چھوٹا سا ٹکڑا ابھی باقی تھا۔

وحشت زدہ وہ دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر آئیں اور جو بھی پہلا ملازم نظر آیا اس پر چیخنے لگیں، ’وہ بدمعاش لالو کہاں ہے؟  سب کام چھوڑ کر پہلے اسے ڈھونڈو اور جہاں کہیں بھی یہ راکشس نظر آئے اسے پیٹتے ہوئے یہاں لے کر آؤ۔‘

لالو کے والد اسی وقت  سیڑھیوں سے اتر رہے تھے۔ اپنی بیوی کا حال دیکھ کر پریشان ہو اٹھے اور بولے، ’کیا کر رہی ہو؟ کیا ہوا بھئی؟‘

نندرانی روتی ہوئی بولیں، ’یا تو تم اپنے لالو کو گھر سے نکال دو یا پھر میں ہی اس پاپی سے نجات کے لئے آج ہی گنگا میں جا ڈوبوں گی۔‘

’اس نے کیا کر دیا؟‘

’جائیے اور خود ہی دیکھ لیجئے کہ اس نے بلاوجہ گرودیو کے ساتھ کیا کیا ہے۔‘

وہ سب کمرے میں آئے۔ نندرانی نے ساری کہانی سنائی اور انہیں ہر چیز دکھائی۔ پھر وہ اپنے شوہر سے بولیں، ’اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے راکشس کے ہوتے ہوئے میں اس گھر کو کیسے سنبھالوں؟‘

گرودیو کی سمجھ میں سارا معاملہ آچکا تھا۔ اپنی بیوقوفی کا اندازہ کرکے وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ لالو کے باپ نے اپنا چہرہ  دوسری طرف گھما لیا۔

ملازم کمرے میں داخل ہوا اور اس نے اطلاع دی تھی کہ لالو گھر میں نہیں ہے۔  دوسرے نے آ کر بتایا کہ لالو اپنی ماسی کے گھر میں  بیٹھا کھانا کھا رہا ہے۔ ماسی اسے یہاں نہیں آنے دے رہی ہے۔ 

ماسی نندرانی کی چھوٹی بہن تھی۔ اس کا شوہر بھی وکیل تھا اور وہ لوگ دوسرے محلے میں رہتے تھے۔

 

اس واقعے کے بعد کوئی 15 دن تک لالو اپنے گھر کے آس پاس بھی نہیں پھٹکا۔

٠٠٠٠٠

 

’دیوداس‘ اور ’پرینیتا‘  کے خالق کے طور پر شہرت پانے والے شرت چندر چٹوپادھیائے 15 ستمبر 1876  مغربی بنگال کے ضلع ہُگلی کے گاؤں  دیونند پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی بچپن کا بیشتر حصہ اپنی ماں کے ساتھ نانہیالی شہر  بھاگلپور میں گزرا۔   وہیں دو سال تک یونیورسٹی میں تعلیم پائی لیکن  مکمل نہیں کی۔  27 برس کی عمر میں  رنگون چلے گئے اور 1916 میں لوٹنے کے بعد  پہلے ہاوڑہ اور پھر کلکتے میں رہائش اختیار کی۔  16جنوری 1938 میں انتقال ہوا۔ شرت چند کی پہلی کہانی 1903 میں ان کے چچا سریندرناتھ گانگولی کے نام سے شائع ہوئی  لیکن طویل مختصر افسانہ یا ناولٹ ’بارا دیدی‘  1907 میں اپنے ہی نام سے شائع کرایا۔  بھاگلپور کے زمانۂ قیام میں ہی انھوں نے لکھنا شروع کر دیا تھا۔  ناول ’دیوداس‘  1901 میں لکھا لیکن وہ 1917 میں شائع ہوا۔ ’ دیوداس‘ پر تین اور ’پرینیتا‘  پر دو کامیاب ہندی فلمیں بن چکی ہیں۔  زیرنظر کہانی ’لالو‘دراصل  ان کے بچپن کے دوست راجندر ناتھ مجومدار  کی  شرارتوں کی ایک جھلک  پیش کرتی ہے۔ 

 ارجمند آرا معروف اردو ادیب و مترجم ہیں۔انہوں نے بہت سی اہم کتابوں، کہانیوں، مضامین کا انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔شرت چند کی یہ کہانی مختصر ہونے کے باوجود دلچسپ اور ایک لڑکے کی تخلیقی شرارت کی ایسی عمدہ تصویر دکھاتی ہے کہ اس کے آگے اچھے اچھے استاد اپنے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ ارجمند آرا نے کہانی کو انگریزی سے ترجمہ کرنے کے باوجود اس کے بنگلہ وصف کو قائم رکھنے کے لیے ترجمہ کرتے وقت زبان کا استعمال بڑی مہارت سے کیا ہے۔جس کی وجہ سے اس کی علاقائی چمک ماند نہیں ہوئی ہے۔