یلم پور کے لڑکے وطن پرست ہوگئے
پہلے وہ بھوکے تھےاور بیروزگار
اور گھر سے، گھروالوں سے، ناک سکوڑے ہوئے
سماج اور ملک سے بیزار
انہیں نہیں سمجھ میں آتا تھا
کہ کیا کریں
زندگی کے تعلق سے کوئی نقشہ ان کے پاس نہیں تھا
نہ ملک کے حوالے سے
وہ جمائیاں لیتے ہوئے آکاش وانی سنتے
اور سمجھ نہ پاتے کہ یہ کس کے بارے میں کیا کہا جارہا ہے
نصابی کتابوں کی تحریریں انہیں اجنبی معلوم ہوتیں
فرض شناس اساتذہ ظالم دکھائی دیتے
اور پڑھاکو جو محلے کے آسمان میں فانوس کی طرح لٹکے رہتے
ان کے ہر کھیل کا نشانہ بنتے
تعلیم ان کے لیے ایک سرکاری کام تھا
جس کا سب سے بہتر استعمال
سرکاری نوکری حاصل کرنا تھا
لیکن وہ بہت اونچا آدرش تھا
جس کے لائق وہ خود کو نہیں سمجھتے تھے
یوں ہی بس بائی ڈیفالٹ!
پڑوسی کے ٹی وی پر اتوار کی فیچر فلم
ان کا اکلوتا ٹھکانہ تھی
جہاں وہ کچھ دیر رہ سکتے تھے
اور جسے بعد میں ایک بڑی دنیا کا
دروازہ بننا تھا
برسوں وہ اسے کھولتے بند کرتے رہے
پھر جب وہ آخر کار کھلا
اور نوے کی دہائی
محاورہ بننے سے پہلے
چار سو برس پرانی
ایک مسجد کی دھول
ہواؤں کو سونپ کر
کھڑکیاں کھولنے میں جٹ گئی
وہ اپنے اندھیرے سے
اوب چکے تھے
پھر روشنی ہوئی
سب طرف اجالا
سب صاف دکھنے لگا
یہ بھی کہ جن مرادوں کو بلیوں پر ٹانگ کر
نایاب کردیا گیا تھا
سب کےلیے پایاب تھیں
جنہیں دھرم گرنتھ ترک کرنے کے لائق بتاتے تھے
وہ بھی
دنیا روز ایک ٹٹکے قالین کی طرح
تھرر سے کھلتی
روز افق تھوڑا اور نزدیک آجاتا
روز آتما کی گرہیں
تڑ تڑ ٹوٹتیں
روز ریڑھ کا ایک سن ہوچکا حصہ
جاگ اٹھتا
روز پتہ چلتا
کہ پیسہ بری چیز نہیں ہے
روز معلوم ہوتا کہ نہ پریم پاپ ہے، نہ مٹھ ماری
رام اور یدھشٹر
جب اپنی گمبھیرمُدرائیں
کیمرامین کو سونپ کر
ہنستے ہوئے چلے
اور ان سے زیادہ ہنستے ہوئے
کچھ اور لوگ
دوڑ کر سٹیج پر آگئے
کہ آگے کی تفریح ہم فراہم کرائیں گے
وہ جان چکے تھے کہ
سچ وہی ہے جو سامنے ہے
اور یہ بھی
کہ وہ ڈراونا تو بالکل بھی نہیں
برسوں سے ہوا میں لٹکے
ان کے نہتے اور اناتھ ہاتھ
ایک ایک موبائل پکڑ کر
جس دن واپس لوٹے
انہیں پتہ چل چکا تھا
کہ کچھ تو ہوتا رہا ہے
انہیں بغیر بتائے
کہ لڑکیاں ان پر ہنس رہی ہیں
اور ہر سال انہیں کے فوٹو
پہلے پنے پر چھپتے ہیں
اور ہر دن
وہ اور زیادہ جنسیت سے عاری دکھائی دیتی ہیں
ہر دن اور زیادہ پرکشش ، لیکن اور بھی زیادہ بیزار
کہ جیسے انہیں پتہ ہی نہ ہو
کہ دنیا کو مرد چلاتے ہیں
غصہ اور بدلے میں انہوں نے
لاکھوں ڈاکٹروں،انجینیروں، ججوں اور وزیراعظموں کو
نالیوں کے حوالے کردیا
انہیں یہ ملک نہیں چاہیے تھا
جس میں قدرتی چیزوں کی اتنی بے عزتی ہو
کندھے تک ہاتھ ڈال ڈال کر
موبائل کی سکرین میں
مسل ڈالا انہوں نے دور دیس کی جانے کتنی عورتوں کو
جنہیں وہ دن بھر
محلے کی پڑھاکو لڑکیوں کی ٹانگوں میں
مسکراتے دیکھتے تھے
اور آگے جاکر تھوک دیتے تھے
منی اور لہو کی بالٹیاں کندھوں پر ٹانگے
وہ رات رات بھر گھومتے
حسرتوں کی تصویریں بناتے
بسوں، ریلوں، پیشاب گھروں میں
اور پلوں کے نیچے
لکھ لکھ کر چھوڑتے رہے اپنے پیغام
جن کا کوئی جواب ان تک نہیں پہنچا
رام لیلا میدان میں جب وہ بوڑھا
گاندھی کی طرح مرنے بیٹھا
قربانی کا بھارتی آدرش ان کے لیے مذاق بن چکا تھا
وہ ناامیدی کی حدوں پر منڈرا رہے تھے
وہ جینے کی بھوک تھی
جو انہیں وہاں لے کر گئی
کئی دن وہ سڑکوں پر دندناتے گھومے
کئی دن انہوں نے ہر سوال کا جواب
موٹر سائیکل سے دیا
اور جس وقت یہ طے ہوا
کہ ملک کو صرف طاقت سے چلایا جاسکتا ہے
وہ خود ہی جان چکے تھے کہ مردانگی ہی ایک واحدراستہ ہے
پھر ہزاروں رنگ اترے
دل پر الگ، جسم پر الگ
اور ہزاروں خواہشیں
جو الگ الگ بولیوں میں
دراصل طاقت کی خواہش تھی
وہ وجہیں ڈھونڈنے نکلے
جو ایک ناخوش ملک کے
ہر نکڑ پر میسر تھیں
مگر انہوں نے جو چُنا
وہ صرف اس لیے نہیں کہ وہ آسان تھا
اس لیے بھی کہ اس میں جسمانی سندرتا کی نمائش کی گنجائش تھی
عقیدے کے تقدس اور غیرانسانیت کی قانونی اہمیت کو
ثابت کرنے کی
گارنٹی بھی
وہ سچ کے لیے
جنگل نہیں جانا چاہتے تھے
ان کے لیے اتنا ہی کافی تھا
کہ آدھی رات جگا کر کوئی نہ کہے
کہ جو تم چھاتی سے چمٹا کر سو رہے ہو
دیکھ لو وہ کتنا سچ ہے
آخری بار یقین کرنے کے لیے
وہ کافی تھک چکے تھے
ان کی ہڈیاں اب چادر مانگ رہی تھیں
سو پہلے انہوں نے طاقت کو زیب تن کیا
پھر پیسے کو
اور سب سے اوپر ملک کو
جس نے سب شکایتیں
سب دکھ
سونکھ لیے
وہ کہتے گھوم رہےتھے کہ کیا ہوا جو مرتے ہیں لوگ
لوگ تو مرتے ہی ہیں اصلی بات ہے ملک
اور ملک کی ترقی
اور جس دن وہ اچانک کندھے پر بیٹھا دکھائی دیا
وہ آدمی جس نے جس نے نہ جانے کس کس طرح بتایا
کہ چھاتی چوڑی ہو اور ٹانگوں پر بال ہوں
اور ہاتھ میں لاٹھی ہو
اور دل میں سچ کو پالینے کا یقین
شک سے پاک رہنے کی طاقت
تب کچھ بھی کیا جاسکتا ہے
لیکن وہ پہلے ترقی کرے گا، اس نے کہا
اور سیلم پور کے لڑکے مستعد ہوگئے
کہنے لگے کہ اب جو سامنے آیا توڑدیں گے
توڑ دیں گے جو پیچھے سے ہنسا
توڑ دیں گے جو اوپر سے مسکرایا
توڑ دیں گے جو نیچے کلبلایا
اور اس منتر کو جپتے ہوئے بیٹھ گئے
ایک آنکھ بند سمادھی میں
اور دوسری آنکھ کھول کر
تیاری میں
٭٭٭
آر چیتن کرانتی اتر پردیش کے سہارنپور ضلع کے گاؤں اُمری کلاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ میرٹھ سے انہوں نے ایم اے کیا۔شاعری انہوں نے بچپن میں ہی شروع کردی تھی۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘شوک ناچ’2004 میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ ان کے دو مزید شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔فی الحال وہ دہلی میں مقیم ہیں اور راج کمل پرکاشن سے پچھلے کئی برسوں سے بطور ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ان کی یہ نظم ان کی کتاب ‘ویرتا پر وِچلِت’ سے لی گئی ہے۔
آر چیتن کرانتی کی طویل نظم’ سیلم پور کے لڑکے’ ایک کمال کا سیاسی اور سماجی نقشہ ہماری آنکھوں کےسامنے لاتی ہے۔ یہ ان نظموں میں سے ہے جو گزشتہ پندرہ سال کی سیاسی اتھل پتھل کو ہندوستان کی راجدھانی کے پیٹ میں پلتی ہوئی مفلسی سے بہت اچھی طرح جوڑ کر ایک تاریخ بیان کررہی ہے۔اس میں بہت سے سیاسی حوالے بھی آئے ہیں۔جیسے انا ہزارے کے آندولن اور بی جے پی کے برسراقتدار آنے کی بات۔ مگر جو بات اس نظم کو غیر معمولی بناتی ہے، وہ ہے ایک حساس آئنے میں ہندوستانی سماج کے گزشتہ اور آئندہ کو دیکھنے والی شاعر کی آنکھ، جو مہین سے مہین چڑچڑاہٹ اور غربت سے نکلتی ہوئی پھڑپھڑاہٹ کو بھی عمدہ طریقے سے کیپچر کرتی ہے۔آرچیتن کرانتی کی یہ نظم ایک دستاویزی اہمیت کی حامل ہے۔انہوں نے اس میں ہندوستان کی طاقت کہی جانے والی ‘نوجوان نسل’ اور اس کو دھوکے میں رکھنے والی سیاست کے جس کھیل پر سے کمال مہارت سے پردہ اٹھایا ہے، وہ دیدنی بھی ہے اور لائق داد بھی۔