پریا ورما کی نظمیں

کتاب بتاتی ہے

 

بات نہیں کرتی، بتاتی ہے

کیسے اس نے وقت کی پرچھائیں کا لباس پہنا ہے

جسے ایک سے دوسرا ورق الٹتے ہوئے

پڑھنے والا

اتارتا چلا جاتا ہے یا کہ

خود اتر جاتا ہے لباس میں

 

انسان اور چیونٹیوں کی قطاروں سے الگ

یہ کچھ اور

کہانیاں اور قصے

اور من اور باتیں

اور ذہن اور عادتیں

اور اکیلا پن۔۔

اور اکیلے میں خود سے ہونے والی باتیں

 

کتاب بتاتی ہے

اپنے آپ نہیں بن گئی

پیدا نہیں ہوئی

ٹھیک تمہاری اور میری طرح

اس نے نہیں چُنا

وہ کیا ہونا چاہتی تھی

وہ نہیں کرتی شکایت

کیا ہونے کی خواہش تھی اور کیا بن گئی؟

نہیں پکڑی بطن مادر کی راہ

وہ پیڑا اور تنہائی کے وصل سے بنی ہے

نہ سوانح، نہ سرگزشت نہ خاکہ نہ ناول نہ مکمل کہانی ہوئی

اسی طرح تھم کر

پوری ہوجاتی ہے اس کی زندگی

 

اپنی بناوٹ اور بُناوٹ میں

پہلے کے دو پنوں کی

تمہید اور تکمیل کے آدھے پنوں میں

پس نوشت جیسا ادھورا پن ڈھوتی ہے کتاب

 

اتنا سوانگ  نہ ڈھوئے

تو بازار میں نہیں اترتی

 

جو سہا جاتا ہے، لکھا جاتا ہے، بیچا جاتا ہے

کتاب بتاتی ہے

٠٠٠

 

 گرتا ہے تانا شاہ

 

جنتا دیکھتی ہے

راج محل کا ڈھایا جانا

دیکھنے کو چھاپتی ہے لوک  گاتھاؤں میں

ان کے نام

سبق

نسلوں کے لیے

 

اتنی بھی اداس نہیں جنتا

کہ نہ کرے ایک عدد مسیحا کا تصور

کرے بغاوت  اتنی ہمتی بھی نہیں

اتنی وحشی نہیں کہ راجا کا سر قلم کرسکے

مخملی قالین پر بکھیر سکے خونی خواہشیں

 

شدت سے چیختی

روز پرارتھنا میں انڈیلتی

ظلم کی فریاد

 

پھسلتی اگست کی آخری رات

اور ستمبر کی پہلی صبح  جیسے

چپچپاہٹ سے بھرے بدن پر ٹوٹ کر

عام آدمی کے بچوں کے سائیں سائیں کرتے مستقبل

جن کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا

 

بے وقوف تھے بچے

جو قصوں پر نہیں اٹھاتے تھے سوال جن میں

راجا بیٹھتا تخت طاؤس پر

اور کاریگر اپنی جگہ یعنی زمین پر

ایک طرف مخالفت کو دبایا جاتا

ہاتھی کے پاؤں تلے، دوسری طرف

جو راجا کی سوانح  لکھتا، خوش قلمی کی چاشنی میں ڈبو کر

نرم ریشمی عہدہ پاتا

 

سب کا مٹی ہونا

راجا یا تانا شاہ

سونے کے محل پر جنتا کا قبضہ ہونا

ایک سنکی کا اٹھنا

اور سونے کے اتہاس میں انقلابی ہیرو بن جانا

 

اب بھی جنتا تلاش کرکے دیکھتی ہے

شاہی خاندان کے طلسم

اور تانا شاہ کی لاش کے منہ پر پیشاب کیے جانے کے قصے

٠٠٠

 

آخری سطر ایک خنجر کی طرح ہونی چاہیے

 

کہ ہم بنے رہیں زندہ، امر، لافانی

یہ  چاہت ہمارے اندرون میں ہے

مگر حکومت میں رہنے کی خواہش

بھٹکاتی چلی جاتی ہے

 

جبکہ تمہیں بھی پتہ ہے،مجھے بھی

کہ یہ نہیں ہے پیار

سچا بھی نہیں، جھوٹا بھی نہیں

 

پیار کہیں نہیں ہے

وہ دور ہے

اتنی دور کہ نظر نہیں آتا

تصور ہے مگر تراشا ہوا نہیں

سرحدوں کو رسی سمجھ کر محسوس کررہی ہے جو، وہ گرفت

میری اکڑ

میرے خیال  کے بارے میں

 

‘جو کچھ بھی تصوراتی ہے۔۔وہ حقیقت ہے’ کہنے والے پِکاسو کو میں نے نہیں دیکھا

 

سچ ہے!

میں نے بہت کچھ نہیں دیکھا

ان دو آنکھوں اور کچھ میٹر کھال کی زد سے باہر

کچھ دیکھوں گی بھی نہیں

اتنا طے ہے

 

سوچوں گی، اور سوچتے ہوئے ہی طے کرلوں گی کہ پیار کچھ نہیں ہے

مگر وہ ہے

کیونکہ میں اپنا سچ ہی بتاؤں گی

 

تمہارے یا کسی تیسرے کے سچ سے مجھے کیا مطلب!

٠٠٠

 

دور ہونے کے بعد

 

جس جگہ بیٹھ کر لکھنے کی کوشش کرتی ہوں

بھولنے  کا ناٹک

یاد رکھنے کی مشق

شانت دکھنے کی شرم کو چھپاتی ہوں جہاں

 

جہاں میں وہ نہیں ہوتی، جو اصل میں میں سب کے ساتھ ہوتی ہوں

یا جہاں میں وہ ہوتی ہوں جسے میں باقی دنیا سے بچائے رکھ پاتی ہوں

بچے بچائے کو درج کرنا یا بہتے ہوئے لمحات کے بہاؤ میں سِرانا

آرائشی محرابوں، دیوتا کو چڑھائے گئے پھولوں اور دولہوں کے مور مکٹوں کی مانند

 

جب اس جگہ نہیں ہوتی، اسے یاد کرتی ہوں

جب جگہ نہیں ہوتی، لے ٹوٹتی ہے

 

جیسے مشاق رقاصہ کسی نئے طلبچی کی سنگت میں

چار تال کی دُگن/تِگُن پر اپنا پاؤں بٹھانے کی کرتی ہے

ناکام کوشش

کہتی  کچھ ہے اور جانتی ہے کچھ اور

وہ نہیں کہتی جو وہ سوچتی ہے

 

وہ سوچتی ہے کہ پرانی سنگت کا طبلہ یہیں ہے

پر ہتھیلیاں نئی ہیں

 

کیا ان پرانے ہاتھوں کی تھپکی کو آتی ہوگی

ٹوٹی ہوئی لے کی یاد!

 

کیا اس فرش کے جسم کو آتی ہوگی ہچکی

ان پیروں سے دور ہونے کے بعد

٠٠٠

 

سب سے گہری اداسی

 

سب سے گہری اداسی کون سنتا ہے

ہر طرف ہے بولنے کی ہوڑ

جو بول نہیں رہے وہ

گھر کو سب سے بڑے شور سے بھر رہے ہیں

 

ان آنکھوں میں دیکھو

جن میں سب سے اونچی چوٹی سے دھکیل دیے جانے کی ایمانداری ہے

تو سب گررہا ہے

معیشت میں روپے کا بھاؤ

آدرش کے پردے  اور سچائی کے پہرے دار

گنگا جمنا کے پانی کی اہمیت

سرسوتی کے نایاب ہونے کا دکھ

کھلے سمندر میں دنیا بھر کا کچرا

 

کائنات میں خواہش کا جادو گھِر رہا ہے

 

سب سے زیادہ یاد میں تراشا گیا سپنا

جو ایک بار دیکھا دوبارہ نہیں گیا پلک کے بھیتر

سنگیت جو ایک بار سنا دوبارہ نہیں سنا گیا

سنا گیا ان دنوں کہ سارا گاؤں بھاگ گیا ہے

کسی بڑے شہر کی جانب

 

اخبار کی خبروں میں محض وہ عورتیں نہیں ہیں جو بھاگتی ہیں

 

اب نہ وہ عورتیں بھاگ رہی ہیں

نہ آدمی چھپ رہے ہیں عورت کے بھاگنے میں

 

ایک بچہ کہتا ہے کہ قریب ایک سال سے

اسے چٹکلے پر ہنسی نہیں آئی

سنتے ہوئے تمہیں لگتا ہے کہ یہ بچہ تمہی ہو

 

اب ایک گہری اداسی ہے

اب تک کی لانگھی نہ جاسکنے والی سب سے گہری ندی ہے

 

ندی جو کہیں نہیں جاتی

اداسی جو کبھی چھٹتی نہیں

ہنسی جو اب آتی نہیں

 

گونجتے ٹھہاکوں کی آواز

بائبل کی پرارتھنائیں، قرآن کی آیتیں  اور گیتا کے سندیش ہیں

عدالت کے کٹہرے  کے باہر تیز روشنی ہے

اتنی تیز کہ آنکھیں بند ہیں

٠٠٠

 

کمیونسٹ ہوجاؤ لڑکی

 

جتنی بار داخل ہوئی پریم میں

محسوس ہوا کہ تعارف کا رنگ سب سےفریبی رنگ ہے

معلوم ہوا کہ مجھ سے زیادہ ٹیڑھا اشٹاو٭کر نامی مہاتما بھی نہیں ہے

 

اتنا زہر زبان میں سرایت کرگیا کہ راہ سانپ جیسی ہوگئی

جیسے کسی بادشاہ کو خواب میں نظر آئے عجائب گھر

جہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ ہو

 

ہر نام کو ایک پتھر میں بدلا ہوا پایا

جسم نہیں دیوار کا شہرنظر آیا

جس کی بدلتی ریکھاؤں کو کسی دن دیکھوں گی محدب عدسے سے

دیکھوں گی پتھروں میں ڈھلے نام

دیوار میں چن دیے گئے ہیں

دیوار کو سرحد کا نام بھی دے سکتی ہوں

جس کے ایک طرف ایک  ملک ہے

دوسری طرف مہاساگر

ملک میں الحاد کے سبب عاشقوں کی دنیا آباد ہے

اور میرا تعلق اسی سے ہے

لا تعلق کردیے گئے

جسم میں لاتعداد آنکھیں پھوٹ پڑی ہیں

اس جانب مہاساگر میں   بھی میرا بیڑہ پار نہیں

میں چھوٹی مچھلی ہوں، میں ہی بڑی مچھلی

خود کا چارہ بن کر خود ہی کو روشنی کی مہک میں تبدیل کرکے

مونگا کی چٹانوں

پر سستاتی

کررہی ہوں اگلے  پریم کا انتظار

 

جبکہ نیلے ہرے کے علاوہ لال رنگ کی یہ چٹانیں

کررہی ہیں اشارہ۔۔

‘کمیونسٹ ہوجاؤ لڑکی!’

٠٠٠

 

٭اشٹاوکر:ایک رِشی کا نام، جن کے آٹھ اعضائے جسمانی ٹیڑھے میڑھے تھے۔اس لیے انہوں اشٹاوکر(جو آٹھ جگہوں سے ٹیڑھا ہو) کہا گیا۔

 

اگر فون میں سائکیٹرسٹ کا نمبر ہوتا

 

بہت ممکن ہے

دواؤں کے نسخے لکھتے لکھتے تھک کر

پیار  ہوجاتا اسے بھی مجھ سے

 

خاک علاج ہوتا

بہت ممکن ہے کہ وہ ایک آدمی ہوتا

ہوتا شادی شدہ

ایک مرد ہونے کے ناتے

جانتا خالی اور بھرے ہوئے کی ضرورتیں

عورت اور آدمی کے دماغ کی

 

اچھا ہے میں چار مہینے پہلے لکھوائے گئے

نسخے  کی دوا کو

بلا ناغہ

لیے جاتی ہوں

 

اثر ہورہا ہے، اثر کا اثر یہ بھی ہورہا ہے

کہ ضرورت نہیں پڑتی

سائیکٹرسٹ کا نمبر سیو کرنے کی

ڈر ہے

کسی یوروپین کا سا دماغ رکھنے والی

کسی عورت شاعر کی روایت کی امین نہ نکلوں

کر بیٹھوں یقین تیمارداری کے اس بہلاوے کا

کہ اسے پیار ہے

 

اور پیار کے سہارے اس جسم کو خالی چھوڑ دوں

ویران کھنڈر ہونے کے لیے

 

کہیں ایسا ہو کہ اگلے برسوں میں جب بھی ہنسنا چاہوں ان دنوں کی یاد میں

تو میرے جسم میں میری ہی آوازیں گونجیں

اور مجھے نگل جائیں

 

اس طرح

کہ میرے بھی بایوڈیٹا میں لکھا جائے

مرنے کی تاریخ کے ساتھ، سبب

‘خودکشی’

٠٠٠

 

کھُلی ہوئی

 

کتنا کھل سکتے ہو تم میرے ساتھ

اس سے پہلے میں بتادوں کہ میں کتنا کھُل سکتی ہوں

 

میں چمڑی کے پیچھے موجود گوشت کے درمیان بہتے لہو

کی چاپ تک کو اتار سکتی ہوں

علاج کی دنیا میں کوئی بھی نام ہو اس کا

مگر پارہ اپنی زبان  پر رکھ کر میں الفاظ اتارسکتی ہوں

میرا نام یہی جو تم نے ابھی لیا

اس کی کینچلی کے باہر نکل سکتی ہوں

جیسے لکھنؤ کی میٹرو چلتی ہے ، ایک دم خالی خالی

ایسے ہی میں اپنی امید اتار سکتی ہوں

 

اندھیرے میں اتر سکتی ہوں

گھٹے بڑھے چاہے جو

میں خود میں پانی اور پانی میں خود کو ڈبو سکتی ہوں

 

میری آتما تک پہنچنے کی ایک سرنگ ہے

میرے درخت پر نِواس کرتے ہیں میرے روپ کے پرند

میری کوڑی جیسی آنکھیں

میری حسِ شامہ اور ذائقہ

سب اتار کر کہیں رکھنے کے بعد

تم سے مل سکتی ہوں

 

تمہیں بھی تم میں اتارنا جانتی ہوں مگر

میں کہنا چاہتی ہوں کہ میرے اترنے کی کوئی حد نہیں

 

یہ جو خالی پن دیکھتے ہو آس پاس

یہ سب میرا اتارا ہوا ہی سامان ہے

 

شاید ملنے سے پہلے

اپنی نظر کہیں اتار کر رکھ دی ہے تم نے

 

میں کھل کر کلی سے پوری طرح پھول ہوسکتی ہوں

ایک شرط پر کہ مجھے کبھی بہایا نہ جائے

 

میں شکستہ بتوں کی خموشی ٹوٹنے تک کی سمت میں کھل سکتی ہوں

 

میں تو کھل سکتی ہوں

ہاں تم ہی نہیں چل سکتے

میرے کھلے پن کے ساتھ

کھلے ہوئے

٠٠٠

 

پریا ورما کی پیدائش 1983 میں پیلی بھیت، اترپردیش میں ہوئی۔انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کی نظمیں، کہانیاں اور مضامین مختلف ادبی رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ان کی نظمیں تدبھو،واگارتھ، کرتی بہومت، سدانیرا  اور سمالوچن جیسے ادبی رسائل اور ویب پورٹل پرگاہے بگاہے شائع ہوتی رہی ہیں۔

پریا ورما کی نظموں میں ایک قسم کی ذہانت اور تنہائی کے احساس کی ملی جلی بو نے انہیں خاصا اہم بنادیا ہے۔ ان کے یہاں ایک عورت کے زاویے سے بھی کئی بار سماج اور پدر سری نظام پر ایسے لطیف طنز اور سوال مل جاتے ہیں ، جو کہ عام طور پر بہت سیدھے اور سپاٹ بیانوں میں موجود نہیں ہوتے۔ان کی نظموں نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، وہ بہت حد تک شاعر کی اپنی ذہنی اپج، تنہائی پسند زندگی اور خود اعتمادی کو درشاتا ہے۔ان کی یہ نظمیں گزشتہ برس شائع ہونے والے ان کے پہلے شعری مجموعے’ سؤپن (خواب) کے باہر پاؤں’ سے منتخب کی گئی ہیں۔