مہیش ورما کی نظمیں

اگر یہ  ہتیا تھی

 

وہ کہنے میں اتنی آسان بات تھی

کہ اسے لکھتے ہوئے میری زبان شرماتی تھی

وہ پانی تھی اپنی روانی میں

اور ہوا تھی اپنی پکار میں، صاف دلی میں

اس کے ریشے سلجھے ہوئے تھے

ہونے کی وجہیں بھی صاف تھیں

 

اگر دکھ تھی یہ بات تو

یہ سنسار کے سب سے سادہ آدمی کا دکھ تھی

اگریہ بھوک تھی تو ان لوگوں کی تھی

جو مٹی کے بسکٹ بنا کر دے رہے تھے اپنے بچوں کو

جو بیچ بیچ میں دیکھ لیتے تھے آکاش

 

اگر یہ ہتیا تھی

تویہ ایک آدی واسی کی ہتیا تھی

٠٠٠

 

چہرہ

 

پتہ نہیں تم کتنے انتم سنسکاروں میں شامل ہوئے

کتنی لاشیں دیکھیں لیکن پھر زور دیتا ہوں اس پر

کہ موت انسان کا چہرہ حیران کرنے کی حد تک بدل دیتی ہے

چہرے کا یہ رنگ تم نے اس کے جیتے جی  کبھی نہیں دیکھا ہوگا

یہ اپنے من کا راز لے کر جارہا ہے اور یقیناً نہیں لوٹے گا

پتہ نہیں کیا کرتا  اس راز کااگر کچھ اور دن رک جاتا  کہ

کون سی چھون اس کی کھال میں کپکپاہٹ اتار دیتی تھی اور اس کی سانسوں میں آگ

کون سی یاد اس کی آتما کو بھر دیتی تھی خالی پن سے

کن گپھاؤں سے آتی تھی اس کی ٹھنڈی خموشی اور اس کی دھول بھری  آواز

یہ اس کی دل لگی  ہے، اس کی کشمکش، اس کا دکھ اور اس کا احساس گناہ

جو اس راز سے لازمی طور پر جڑا ہے۔۔جسے لے کر یہ جارہا ہے

یہ اس کامعاف کردینے کا انداز ہے

اور بدلہ نہ لے پانے  پر اینٹھتی اس کی آتما کی پرچھائی ہے اس کے چہرے پر

جو اسے بناتی ہے   اٹوٹ اور امر

ایک فریادِ عشق جو نہیں کی گئی

ایک ہتیاری خواہش، بے لگام ہوس

موقع گنوادینے والی ہمدردیاں اور حاضر جوابیاں

یہ اس کی آتما کی بے چین تہوں میں سوتے تھے آج تک

اب انہیں ایک اندھیرے بکسے میں رکھ دیا جائے گا

پرارتھنا کا کوئی بھی سفید پھول

ہمدردی کا کوئی بھی بول ان تک نہیں پہنچ پائے گا

اور تمہیں یہ تو ماننا ہی ہوگا کہ

تمہاری شاعرانہ اداسی سے بڑی چیز تھا

اس کے من کا بھید

 

باقی سنسار آج اس سے چھوٹا ہی رہے گا

٠٠٠

 

آدی واسی عورت روتی ہے

 

آدی واسی عورت روتی ہے پتھروں کے دور کے آہنگ میں

اس میں جنگل کی آوازیں ہیں اور پہاڑی جھرنے کے گرنے کی آواز

اس میں شکار پر نکلنے سے پہلے جانور کی تصویر پر ٹپکایا گیا

قدیم لہو ٹپک رہا ہے

تیز  ہواؤں کی صدائیں ہیں اس میں اور آگ چٹخنے کی آواز

بہت صاف اور اجلی اس عمارت کے  شکوہ سے بے نیاز

اس کے گریے سے یہاں جنگل اتر آیا ہے

 

لمبی ہچکیوں کے بیچ اسے یاد آتے جائیں گے

مردے کے ساتھ بیتے برس، اس کے بول، اس کا غصہ

انہیں وہ پروتی جائے گی اپنی آواز کے دھاگے میں

مردے کی آخری مالا کے لیے

یہ موت کے بعد کا پہلا گیت ہے اس مرنے والے کے لیے

اسے وہ زندہ رہتے نہیں سن سکتا تھا

 

ہم بہرحال ان لوگوں کے ساتھ ہیں

جن کی نیند خراب ہوتی ہے۔۔۔ایسی آوازوں سے

٠٠٠

 

ایک دن

 

ایک دن ستارے جھوٹ بولنے لگتے ہیں

اور ہر رات ، اپنی جگہ بدل لیتے ہیں

 

ستارے دیکھ کر مقدر بتانے والے

اپنا چشمہ پونچھ کر آسمان دیکھتے ہیں

کہ جیسے یہ کوئی جھوٹا پنّا ہے

ابھی پلٹ جائے گا

 

جب ستارے جھوٹ بولنے لگتے ہیں

اور آدھی دنیا کو لگنے لگتا ہے

آگے کیا آنے والا ہے؟

 

میں پیچھے کی جانب دیکھتا ہوں

اور پرانی راتوں کے آسمان کو

یاد کرنے کی کوشش  کرتا ہوں

کہ ان دنوں  کہاں ہوا کرتے تھے

یہ جھوٹے ستارے

 

اس آنسو بھری رات کے بارے میں

کہاں کوئی پہلے بتاپایا تھا؟

 

یہ رات ایک نیلے دریا کی طرح

میرے ساتھ بہتی ہے

ستارے اسی میں اپنا عکس دیکھتے ہیں:

٠٠٠

 

کسی صبح

 

برتن کو الٹ کر دیکھا

وہاں پانی نہیں تھا

اتنا خالی کہ خلا کی بھی جگہ نہیں تھی

 

میں نے اس برتن کو آنکھ کے نزدیک لاکر

دھوپ کی جانب پیٹھ کرکے، اس کے بھیتر

کئی طرح سے دیکھا

 

بھیتر نیلا وِش تھا، سوکھ کر

چمکدار ہوکر، اندر چِپکا تھا

 

باقی سب کچھ نادیدہ تھا

چھل کی طرح، گویا میرے ہی خلاف

 

ایک طرف کو چلنے کی لگاتار آواز تھی

جو صرف مجھے سنائی دیتی تھی

 

گیت، دھوپیلی سادہ باتیں، تکلیف دیتے شبد

سب نے اپنے بدن چھوڑ دیے تھے

اندرونی دیوار سے باریک ذرات کی طرح چپکے ہوں گے

 

وشواس نہیں ہوا یہ برتن

رات کو پانی سے بھرا تھا

 

میں نے اس کو الٹ پلٹ کر

بھیتر دیکھنے کی کئی اور کوششیں کیں

٠٠٠

 

کوئی ایک دن

 

کوئی ایک دن ایسے ہی چھوٹ گیا تھا

 

ہوسکتا ہے وہ جاکراور اپنی طرح کے

اور چھوٹے دنوں کے ساتھ مل کر

کوئی بڑی شے بن گیا ہو

 

یہ ایک خالی دن تھا: بالکل غیر اہم

جیسے کوئی ٹھہرا ہوا سا، دھوپ ، ہوا، درجۂ حرارت والا عام دن ہو

اسی طرح اس کی رات ہو تاروں بھری

ہمیشہ سے موجود مکان اور راستے

اس میں بے گانگی بھرتے ہوں

بہرحال اس طرح کے دنوں کی

کہیں کوئی تفصیل محفوظ نہیں ہے

 

اچانک ایک چمکتے ہوئے تلفظ والی تاریخ

آپ کو ان دنوں کے بارے میں بتاتی ہے

کہ وہ یہیں تھے، اس پل کے

ٹھیک پہلے تک

 

آپ مڑ کر دیکھتے ہیں

وہاں دھول بھی نہیں اڑرہی ہوتی

کہ موسم کا ہی کچھ اندازہ ہوسکے

٠٠٠

 

آج کل

 

آج کل فریب نظر بہت  عام ہے

نام لے کر پکار لینے سے

ایک ہی پل پہلے پتہ لگتا ہے

یہ تو کوئی اور ہی ملتا جلتا

بالکل اجنبی ہے! شاید وہ بھی

ایسے ہی فریب نظر کا شکار ہوکر چیزوں کو

دیکھنے کے دور سے گزر رہا ہو

 

ٹریفک لائٹ کا رنگ بدل جاتا ہے

اور لاشعور پر وہی ٹھہرے رہنے کا پرانا رنگ

ٹھٹھکا سا رہتا ہے

 

کبھی ایک بیتا ہوا دن

آج کے پورے دن پر

کاربن کی طرح چپکا ہوتا ہے

کبھی آنے والا وقت پہلے آکر

ہڑبڑاجاتا ہے

 

ایسے میں  فریب نظر بہت عام ہے

 

پرانے لوگ یادوں سے باہر آکر

فون ملانے لگتے ہیں، نئے لوگ

اپنی زبان، حلیے اور

پرانے جڑاؤ دار خنجر پر

دھار چڑھاتے ہیں

 

مردے، سپنوں میں

بہت جوان ہوکر نمودار ہوتے ہیں

مجھے ہمیشہ لگتا ہے

وہ ہوشیار کرنے آتے ہیں

 

کبھی لگتا ہے بہت سی باتیں ہوچکیں

گھٹنائیں گھٹ چکیں

لیکن کیا پتہ سچ میں انہیں ہونے میں

برسوں لگ جائیں

 

فریب نظر بہت عام ہے

ہونے، نہ ہونے، ہوچکے ہونے کی دیوار

مٹ جاتی ہے، کہیں بھیتر

خواب، خواہشیں، یاد اور آمد

آمد اور یہ گھڑکتا ہوا پل

پگھل کر ایک جھوٹ رچتے ہیں

یا اعجاز؟

 

آج کل فریب نظر بہت عام ہے

٠٠٠

 

اس دن

 

اس دن تم کسی

آگ کے بارے میں سننا چاہتے تھے یا

مجھے واہمہ ہوا: وہ کوئی اور چیز تھی

 

جیسے صبر، چُپٗی یا کاٹھ کی

طرح ہوجانے کے ہنر کے بارے میں

 

تم نے بہت باتیں کہیں

ان میں سے کچھ میرے بارے میں تھیں

کچھ ایسی باتیں کہ کیوں میں ایسا نہیں تھا

وہ بے اطمینانی، ، پریم  اور بیر

کی باتیں تھیں، ان میں پرتیں ہوا کرتیں

اور کھو جانے کی جگہیں: بہت ساری تعبیریں

 

میں اپنا ہونا چھوڑ ہی چکا تھا

کہ مجھے اپنے نہیں ہونے کا سراغ ملا

 

میں ایک خالی جگہ تھا یا کوئی شفاف چیز

جیسے ہوا، کانچ، پانی اور بھی کچھ

 

مجھے چیزیں کم سمجھنی چاہییں

مجھے چیزیں کم ہی سمجھ میں آتی ہیں

 

لیکن اس دن کی بات یاد ہے

تم کسی چیز کے بارے میں سننا چاہتے تھے

شاید آگ یا اور کوئی چیز

٠٠٠

 

مہیش ورما امبیکاپور،چھتیس گڑھ میں 1969 میں پیدا ہوئے۔وہ بیک وقت شاعر، کہانی کار اور مصور ہیں۔ان کی نظمیں گاہے بگاہے ہندی کے معیاری ڈیجیٹل اور نان ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپنی جگہ بناتی رہتی ہیں۔ پاکستان کے رسائل دنیازاد اور نقاط میں ان کی نظموں کے اردو تراجم پہلے بھی شائع کیے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ اردو کے ساتھ ساتھ مراٹھی، انگریزی اور کروشیائی زبانوں میں بھی ان کی نظمیں شائع ہوکر قارئین سے پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ان کا شعری مجموعہ ‘دھول کی جگہ’ راج کمل پرکاشن سے شائع ہوچکا ہے۔

مہیش ورما کی زیر نظر نظموں میں سے تین ہندوی ویب سائٹ سے لی گئی ہیں، جو کہ ان کے شعری مجموعے’ دھول کی جگہ’ میں شامل ہیں۔ جبکہ بقیہ پانچ نظمیں انہوں نے براہ راست مترجم کو بھیجی ہیں، جو کہ اب تک ہندی میں بھی کہیں شائع نہیں ہوئی ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ مہیش ورما ہندی شاعری میں  اپنی ایک خاص جگہ بنا چکے ہیں اور  اپنی اہمیت بھی منوا چکے ہیں۔ان کے شعری اسلوب کی بنیاد پر کئی شاعروں نے ان کے آسان مگر گہرے لفظی طلسم کے اثر میں آ کر ان کا تتبع بھی کرنے کی کوشش کی ہے۔