‘تم نے ٹیکسی میں شیڈز کیوں لگائے ہیں؟ رات میں ان کی کیا ضرورت ہے؟’ اننیا نے جھلاتے ہوئے دونوں کھڑکیوں سے شیڈز ہٹادیے۔کانچ پر کالی کوٹنگ بین ہوگئی ہے پھر بھی یہ لوگ۔۔۔دن میں تو دھوپ ہوتی ہے مگر رات میں کیا ضرورت ہے! اس کی نظر پیچھے والے گلاس پر پڑی۔ کمال ہے۔۔۔یہاں بھی شیڈز۔ اننیا دھیرے سے اٹھ کر انہیں ہٹانے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ مضبوطی سے چسپاں تھے۔
ڈرائیور نے کہا بھی، ‘میڈم انہیں رہنے دیجیے۔وہ آسانی سے نہیں ہٹیں گے۔’
ہٹیں گے کیسے نہیں۔اس نے یہ سوچتے ہوئے پوری قوت صرف کی اور انہیں وہاں سے ہٹا کر ہی دم لیا۔
اننیا نے اپنے چہرے پر بہہ کر آنے والے پسینے کو ہاتھ سے پونچھنا چاہا مگر پسینہ تھا کہاں؟ جنوری کی ہڈی میں سرایت کرجانے والی سردی میں پسینہ ایک وہم ہی تھا ، پھر اسے ایسا کیوں لگ رہا تھا۔ اس نے اپنے سینے کی بائیں جانب، جہاں دل ہوتا ہے، ہاتھ رکھ لیا۔ہتھیلی کے نیچے پھدکتا ہوا دل جیسے ہاتھ سے پھسل جانے کو آمادہ تھا۔ کیوں، اسے خود بھی نہیں معلوم مگر وہ ڈری ہوئی تھی۔ اس نے وقت دیکھا۔ بارہ بج رہے ہیں۔ زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔۔۔مہانگر کے لحاظ سے تو بالکل نہیں۔کتنی بار اپنے شہر میں وہ دیر رات کو لوٹی ہے مگر وہ اپنا شہر تھا۔کیا راستے اور کیا آٹورکشے والے۔۔۔سب جانے پہچانے تھے۔کوئی بھی وقت ہو اسے ڈر جیسی کوئی بات کبھی محسوس نہیں ہوتی۔اپنا شہر برگد کی چھاؤں کی طرح ہوتا ہے جس کے سائے تلے کسی پریشانی کا احساس نہیں ہوتا۔سڑک کا ایک ایک پتھر تک آپ کی بھاشا بولتا سمجھتا معلوم ہوتا ہے۔ وہ بلا خوف و خطر اپنے شہر میں آتی جاتی ہے۔
لیکن یہ شہر۔۔۔بالکل اجنبی تھا۔پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اجنبی شہر میں وہ اس وقت اکیلی ہے۔شہر جو ابھی پچھلے دنوں ہی کتنے خونخوار واقعات کا گواہ بن چکا ہے۔ان واقعات سے دور شہروں میں بیٹھی ان گنت لڑکیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ وہ سب سہم گئی ہیں۔بے یقینی اور خوف اپنے مکمل بھیانک پن کے ساتھ ان کے جیون میں گھل گئے ہیں۔اب وہ مستقل اس تکلیف سے گزر رہی ہیں کہ انسان ہونے سے پہلے وہ ایک مادہ ہیں۔ مادہ جو نر کی خواہش کو پورا کرنے کا محض ایک وسیلہ ہے۔
وہ اس سمے اکیلے نہیں لوٹنا چاہتی تھی مگر وہاں کس سے کہتی۔کیا ہوتا اگر وہ وہیں اس کے اوپر ہنس دیتے۔کیا ہوتا جو وہ کہہ دیتے کہ اب کیاہوا جینڈر ایکولیٹی یا صنفی مساوات کی ساری تقریروں کا کہ ایک گھنٹے کی دوری بھی اکیلے نہیں طے کی جارہی۔ اس نے ٹھہاکے لگاتی مردوں کی بھیڑ کو دیکھا۔ ایسا نہیں کہ لوگ اسے نوٹس نہیں کررہے تھے۔کنکھیوں سے سب اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر ہیلو بھی کہا تھا۔ اور ایک آدھ نے ہاتھ ملانے کے بہانے ہاتھ کو دبا کر چھوڑ دیا تھا۔ وہ ان سارے مصافحوں کا مطلب خوب سمجھتی ہے۔باہری پرت چمک دمک سے لبریز۔۔۔ایک داغ بھی نہیں۔مگر سب کے دلوں کا جوش اور موقع ملتے ہی آگے بڑھ جانے والی ذہنیت اب اسے سمجھ میں آنے لگی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ بہت سے لوگ من ہی من انتظار کررہے ہوں گے کہ وہ ہوٹل تک چھوڑنے کا آفر دے دے۔
لیکن وہ جانتی ہی کس کو تھی! یوں تو اتنی دیر میں بہت سے چہروں سے جان پہچان ہوگئی تھی مگر اتنی بے تکلفی کسی کے ساتھ نہ تھی کہ ساتھ چل کر ہوٹل تک چھوڑنے کے لیے کہا جاسکے۔کون تھا جو رات کو ہوٹل لے جانے کو لڑکی کا کھلی دعوت دینا نہیں سمجھ لیتا۔ کون تھا جو اسے الگ طرح سے نہ لے کر محض مدد مانتا۔ایسا نہیں کہ اس نے سوچا نہیں تھا مگر پورے ہال میں نگاہ دوڑانے کے بعد جو لوگ اسے دکھائی دیے وہ کچھ ڈرنکس کے بعد بحث کرتے ہوئے کنکھیوں سے وہاں موجود عورتوں کو گھوررہے تھے۔نہیں، ان کے ساتھ نہیں۔ان سے محفوظ رہنا ممکن نہیں۔آدمی جب ہوش کھو بیٹھتا ہے تو اپنے پرائے کا بھید ختم ہوجاتا ہے۔ پھر وہ تو ان کی اپنی بھی نہیں۔
پہلے اننیا اتنا ہی دیکھتی تھی جتنا دکھائی دیتا۔ دنیا اس کے لیے تب زیادہ خوبصورت تھی۔ جو کہا جاتا وہی سچ معلوم ہوتا، جو گھٹ رہا ہوتا سچ کی حد اسے وہیں تک معلوم ہوتی۔اسے وہ جھینا پردہ نہیں دکھائی دیتا جس کے پیچھے سچ کسی ٹھہرے ہوئے پانی میں جمی کائی کی طرح دور تک پھیلا ہوتا۔سچ اتنا پھیلا ہوا بھی ہوسکتا ہے یہ اس نے تب جاناجب وہ نوکری پر جانے لگی۔ روز گلے ملنے والے لوگ پیچھے سے کس طرح گلا دبانے کی فراق میں رہتے ہیں یہ جب پہلی بار معلوم ہوا تو ناامید ہوکر آفس سے چھٹی لے کر بیٹھ گئی تھی۔ تب پاپا نے سمجھایا تھا کہ نوکری میں ان سب باتوں سے جوجھنا پڑتا ہے۔پھر دیر تک اپنی نوکری کے قصے سناتے رہے۔ کب کیسے کہاں کتنی تگڑموں سے اپنی نوکری کی مدت پوری کی۔ اس کا لیکھا جوکھا دیتے رہے۔ دماغ کچھ جذب کرسکا، باقی آگے ہونے والے تجربوں پر چھوڑ دیا۔
دھیرے دھیرے اسے عادت ہوچلی تھی۔ اب تو وہ ان سب سے بھی ہنس کر ملتی ہے جن کے بارے میں جانتی ہے کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتے کہتے ہیں۔اس نے اپنے چاروں جانب ایسی نادیدہ جھلی بنالی ہے، جس کے بھیتر آکر کوئی بات اسے پریشان نہیں کرتی۔ کن باتوں کو اس کاشعور جذب کرے گا وہ اس بات کے تئیں سلیکٹو ہوچکی ہے۔جس ماحول میں ہر سانس پر موت کے خوف کا قبضہ ہو وہاں جینے کے لیے یہ طریقۂ کار ضروری ہے۔ لیکن وہ الگ بات ہے۔وہاں زندگی کو خطرہ نہیں ہوتا۔کم سے کم سیدھی طرح تو نہیں۔لیکن کچھ دنوں کے واقعات کو دیکھ کر اس کے جیسی سمجھدار اور بہادر لڑکی بھی خوف سے دور نہیں رہ سکی ۔اسے وہ قصے یاد آئے جن میں پورے چاند کی رات میں انسان بھیڑیے میں تبدیل ہوجاتا ہے اور لوگوں کو اپنا شکار بناتا گھومتا ہے۔ کیا مرد اکیلی عورت کو دیکھتے ہی لہو پسند جانوروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں؟
ڈر عجیب شے ہے۔انسان کے اندر قطرہ قطرہ گھل کر اس کے پورے وجود پر پھیل جاتا ہے۔ کسی بات کے ہونے کا امکان۔۔۔ہاں محض امکان ہی انسان کے جیون کو بری طرح متاثر کردیتا ہے۔ وہ بات نہ ہو تو ڈر فضول معلوم ہوتا ہے اور اگر وہ بات ہوجائے تو ڈر ایک یقین کی طرح جیون میں گہرا اتر جاتا ہے۔ہونے نہ ہونے کے تناسب میں پچاس فی صد کا فرق ہوتا ہے۔جتنے فی صد اس کے نہ ہونے کا امکان۔۔اتنا ہی ہونے کا اندیشہ۔لیکن ڈر خالص سو فی صد ہوتا ہے بنا کسی ملاوٹ کے۔ ڈر کے ہوتے ہوئے کوئی اور احساس چھو بھی نہیں سکتا۔ محض نہتا ڈر اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اچھے اچھوں کو مار گرائے۔
اس نے اپنے کپڑوں کی جانب دیکھا۔ وہ سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی تھی ۔اس بزنس سوٹ کا انتخاب اس نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ یہی سوچ کر کہ واپس لوٹتے لوٹتے دیر ہوگئی تو!ہاں، سب ٹھیک ہے۔ اپنی جانب سے وہ کسی کو دعوت نہیں دے رہی۔سوچتے ہوئے اسے غصہ آیا۔دنیا کی کون سی لڑکی اس بات کے لیے کسی کو دعوت دیتی ہوگی۔ کس بات نے ایسا سوچنے پر مجبور کیا ہوگا ان آدمیوں کو۔ان کے متعصب رویے نے، آدمی ہونے کے اہنکار نے یا عورتوں کو آبجیکٹفائی کرنے کی فطرت نے۔ اس نے کار کا شیشہ کچھ نیچے کردیا۔ اتنا کہ کانچ میں سے پتلی لکیر سی نظر آنے لگی۔اس لکیر سے آتی ہوئی ہوا نشتر کی طرح اس کا چہرہ چیرنے لگی۔ٹھنڈ سے وہ کانپ گئی۔
‘میڈم! کھڑکی بند کردیجیے۔’ٹیکسی ڈرائیور کی آواز آئی۔
‘کیوں؟ اننیا اپنی آواز جبراً سخت کرتے ہوئے بولی۔
‘میڈم، ٹھنڈ بھیتر آرہی ہے۔’
ڈرائیور کی بات ٹھیک تھی۔ لیکن اس نے ان سنی کردی۔اچانک چلانے کی ضرورت پڑگئی تو آواز تو باہر جاسکے گی۔وہ پتلی لکیر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھی۔ کانچ پوری طرح کہرے سے سنا ہوا تھا۔ اس نے دھیرے سے اس پر انگلیوں کی چھاپ بنا دی۔پہلے ایک جگہ، پھر دوسری جگہ، اب کانچ پر جگہ جگہ اس کے ہاتھوں کی مبہم چھاپ نظر آرہی تھی۔ کہرے کے حملے سے وہ جیسے ہی دھندلی پڑنے کو ہوتی اننیا پھر آڑی ترچھی ریکھائیں اس پر کھینچ دیتی۔
اس کی نظر بیک ویو مِرر پر گئی۔ڈرائیور اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اننیا نے اپنا اسٹول گردن میں کس کر لپیٹ لیا۔وہ اسے کیوں دیکھ رہا ہے؟ اس کی آنکھیں اسے عجیب لگیں۔۔۔بہت عجیب۔لال ڈوروں سے اٹی ہوئی۔ کیا وہ شراب پیے ہوئے ہے؟ اس نے گہری سانس لی۔اندر کی ہوا نشیلی تھی لیکن اس کے اپنے پرفیوم میں سنی ہوئی تھی۔شراب کی گندھ کا اور چھور وہ نہیں پاسکی تھی۔وہ سوچ میں ڈوبی تھی کہ ڈرائیور کی آواز پھر آئی۔
‘میڈم کھڑکی بند کردیجیے پلیز۔’ڈرائیور نے سوئیٹر کے نام پر پتلی سی سوئٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔اس کی آواز میں کپکپی بھر گئی تھی۔ خالی سڑک پر اسی کی اسپیڈ سے بھاگتی گاڑی اور جنوری مہینے کی کڑاکے کی ٹھنڈ۔وہ کھڑکی بند کرنے کو ہی تھی کہ اس کی نظر ایک بار پھر ڈرائیور پر گئی۔ وہ مسکرارہا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ اس کے پروفیشن کا حصہ ہو لیکن اسے مسکراتے دیکھ کراننیا اکھڑ گئی۔آواز میں تیزی لاکر بولی۔
‘کھڑی بند نہیں ہوگی۔میرا دم گھٹتا ہے بند گاڑی میں۔’
اس کے بعد ڈرائیور کچھ نہیں بولا۔ اس کی مسکراہٹ بھی کھٹ سے بجھ گئی۔ جیسے ریموٹ کنٹرول سے پھیل رہی تھی۔ اب وہ چپ چاپ گاڑی چلا رہا تھا۔
کار مستقل بھاگ رہی تھی۔ اننیا کے لیے راستہ الجھنوں سے بھر گیا تھا۔ کتنی دیر کا راستہ اور بچا ہوگا؟ اتنی دیر ہوگئی ہے مگر سفر پورا ہوتا ہوا نہیں دکھ رہا۔ اننیا پس و پیش میں تھی کہ ڈرائیور سے پوچھے یا نہیں؟ کیسے منہ پھلا کر گاڑی چلا رہا ہے۔جانے جواب دے گا بھی یا نہیں۔وہ دھیرے سے منمنائی۔
‘اور کتنی دور ہے؟’
ڈرائیور نے سنا نہیں یا سن کر بھی چپ ہی رہ گیا۔یہ دو باتیں تھیں اور دونوں کا الگ مطلب تھا۔ اننیا کا دماغ اب زیادہ تیز چل رہا تھا۔ مان لو اس نے سن ہی لیا تو جواب کیوں نہیں دیا۔ ہوسکتا ہے اس کے کھڑکی کھولنے پر غصے میں ہو یا وہ بتانا ہی نہ چاہتا ہو۔ نہ بتانے کے بھی بہت کارن ہوسکتے تھے جیسے وہ وہاں جا ہی نہ رہا ہو جہاں اسے جانا ہے۔ یہ خیال اسے پریشان کرنے کے لیے بہت تھا۔ اسے معلوم کرنا ہوگا کہ وہ صحیح راستے پر ہے یا نہیں۔
وہ سڑک کو دیکھتے ہوئے کوئی ناممکن پہچان تلاش کر ہی رہی تھی کہ اسے جھٹ سے یاد آیا۔اسے خود پر تھوڑا سا غصہ بھی آیا کہ یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا تھا۔اس نے موبائل نکالا اور گوگل مَیپ میں اپنی منزل کا نام ڈال دیا۔افف! ابھی آدھے گھنٹے کا راستہ اور بچا ہے۔ وہ ایگزٹ کرنے کو تھی کہ اس کی نظر سامنے میپ پر بھاگتی گاڑی پر پڑی۔ یہ کیا! جو راستہ میپ دکھا رہا ہے یہ اس سے کیوں اتر رہا ہے۔ میپ کے حساب سے تو دس منٹ سیدھے چلنے کے بعد بائیں مڑنا ہے۔
‘اے سنو، یہ کس راستے سے لے جارہے ہو؟ یہ راستہ تو نہیں ہے۔’
‘میڈم! دوسرے راستے پر کام چل رہا ہے۔’کہتے ہوئے اس نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھادی۔
اس نے موبائل کی جانب دیکھا۔ میپ خود کو ری ایڈجسٹ کررہا تھا۔ ‘گو سٹریٹ فار فائیو ہنڈریڈ میٹر دین ٹرن رائٹ۔’آواز گونجی تو اننیا ہڑبڑا گئی۔ڈرائیور نے سنا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ راستوں سے انجان ہے اور ڈری ہوئی ہے۔ اس نے جھٹ آواز کم کردی۔
‘گوگل میپ چلا رکھا ہے میڈم آپ نے۔’ڈرائیور آواز سن چکا تھا۔اننیا موبائل کی آواز کم کرکے چپ چاپ باہر دیکھتی رہی۔ ‘میڈم اس گوگل سے زیادہ راستے ہمیں یاد رہتے ہیں۔اپنا شہر ہے۔یہ تو پھر بھی بہت بار غلط جگہ پہنچا دیتا ہے لیکن مجال ہے جو ہم سے کبھی غلطی ہوجائے۔’وہ بولتا جا رہا تھا لیکن اننیا کو اس بات میں بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ وہ جلد سے جلد ہوٹل پہنچ جانا چاہتی تھی۔ڈرائیور نے میوزک کی آواز بڑھادی۔
‘وقت ہے کم اور لمبا سفر ہے، تو رفتار بڑھادے، منزل پہ ہمیں پہنچادے۔’کسی بھولے ہوئے زمانے کا گیت بج رہا تھا۔ ذومعنی بول گاڑی کا سناٹا توڑ رہے تھے۔ گانے کے فحش بول سے وہ چڑگئی۔برسوں پہلے اس نے یہ فلم ٹی وی پر دیکھی تھی۔ انِل کپور اور جوہی چاولہ بے تکےگانے پر بھدے طریقے سے تھرک رہے تھے۔ پاپا نے اچانک آکر ٹی وی بند کردیا تھا۔ وہ غصے میں تھے۔آج وہی غصہ اس کے چہرے پر پرچھائیں بن کر تیر رہا تھا۔
‘میوزک بند کرو۔’اس کے غصے کو شاید ڈرائیور بھانپ گیا تھا۔اس لیے بغیر کچھ کہے اس نے گانا بند کردیا۔
اننیا نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔مین سڑک کو گاڑی چھوڑ چکی تھی۔دوسری کاریں جو وہاں اسے حفاظت کا احساس کراتی معلوم ہورہی تھیں، وہ بھی اس سنسان سڑک پر موجود نہیں تھیں۔لیمپ پوسٹ تھے مگر یا تو ان کے لٹو غائب تھے یا اس علاقے میں بجلی نہیں تھی۔ دور تک اندھیرا پسرا پڑا تھا۔وہاں موجود گھر بھی اندھیرے میں سمٹے ہوئے تھے۔نائٹ بلب کی کمزور روشنی کی امید بھی کسی مکان سے نہیں جھانک رہی تھی۔نہ تو کہیں موم بتی ہی جلتی دکھائی دے رہی تھی۔وہ آنکھیں پھاڑے پردوں کے پار موم بتی کی ہلتی ڈلتی لو تلاش کرنے لگی مگر اسے کامیابی نہیں ملی۔ان دنوں کون موم بتی رکھتا ہے۔ سب اپنے موبائل کی فلیش لائٹ پر انحصار کرتے ہیں۔یوں کوئی روشنی دکھ بھی جاتی تو کیا ہوتا۔روشنیاں آواز نہیں سنتیں۔لیکن روشنی طاقتور ہوتی ہے۔ذرا سی روشنی بھی اندھیرے کے وسیع بھیانک پن کو توڑنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ایک لو کا ہاتھ تھامے لمبا سفر طے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن نہیں، یہاں کچھ نہیں تھا۔
اسے اپنی لوکیشن گھر والوں اور دوستوں کو بھیج دینی چاہیے۔ لیکن وہ لوگ تو اتنی دور، دوسرے شہر میں ہیں۔ کوئی مصیبت آن پڑی تو وہ لوگ بھلا کیا کرسکیں گے۔نہیں، بھیجنا ہی ٹھیک ہوگا۔ کم سے کم انہیں معلوم تو ہوگا کہ میں کہاں ہوں۔ اس نے موبائل اٹھایا لیکن موبائل میں نیٹورک نہیں تھا۔ اس نیٹورک کو بھی ابھی ہی جانا تھا یا یہاں نیٹورک رہتا ہی نہیں۔ یہ سوچتے ہوئے اننیا کی گھبراہٹ اور بڑھ گئی۔
اب اسے سچ مچ ہوا کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس نے کھڑکی کا کانچ نیچے کھسکانا چاہا مگر شاید ڈرائیور لاک لگا چکا تھا۔ کئی بار بٹن دبانے پر بھی کانچ نیچے نہیں ہوا۔اس نے لاک کیوں کیا ہوگا؟ اس نے ڈرائیور کو دیکھا۔ ڈرائیور کا ایک ہاتھ گئیر پر تھا اور ایک ہاتھ سے وہ مضبوطی سے اسٹئیرنگ سنبھالے ہوئے تھا۔اس کے بائیں ہاتھ میں اسٹیل کا کڑا تھا جو سوئٹ شرٹ کی آستین سے جھانک رہا تھا۔وہ کوئی دھن گنگنا رہا تھا۔ اس نے دھن پہچاننے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی۔کیا ڈرائیور کو کہنا چاہیے کہ لاک کھول دو۔ نہیںِ اب وہ ڈرائیور سے کچھ نہیں کہے گی۔ ضرورت پڑنے پر سیدھے کانچ توڑ دے گی۔ مگر کس چیز سے؟ اس نے کار میں ادھر ادھر نظریں گھمائیں۔کوئی نکیلی اور دھار دار چیز نہیں دکھائی دی۔سیٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔اس میں کچھ نہیں تھا۔دوسری سیٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں کچھ تھا۔ایک چھوٹا باکس۔ کیا ہوسکتا ہے؟ کیا ٹول باکس؟ سوچتے ہوئے اس نے باکس باہر نکالا۔ چمڑے کا چھوٹا سا باکس۔ اس نے ٹھہر کر ڈرائیور کو دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ اسے دیکھ تو نہیں رہا؟ نہیں، اس کی نظریں سڑک پر تھیں۔اسے جلدی سے اسے کھول کر دیکھ لینا چاہیے۔کیا پتہ کچھ کام کا ہی مل جائے۔ اس نے موبائل کے اسکرین کی روشنی میں دھیرے سے باکس کھولا تو دیکھ کر جھٹکا لگا۔اس کی نسیں جھنجھنا اٹھیں۔اندر کنڈوم کے پیکٹ تھے۔ یہ کتنی حیران کن بات تھی۔ پیسنجر سیٹ کے آگے کنڈوم۔ اپنا نجی سامان تو ڈرائیور آگے رکھتا ہے۔ کہیں کسی اور سواری کا تو نہیں ہے؟ ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔وہ پھر ہونے، نہ ہونے کے دوراہے پر کھڑی تھی۔
اس کا من ہوا ابھی ٹیکسی سے اتر جائے لیکن باہر کا سناٹا دیکھ کر وہ ٹھہر گئی۔کار کی ہیڈ لائٹ کی روشنی چھوڑ کر اب بھی وہاں اندھیرا تھا۔دور کہیں کتے جھگڑ رہے تھے۔تبھی اچانک ایک بائک ہارن دیتے ہوئے کار کی بغل سے گزر گئی۔ وہ کچھ سوچ پاتی اس سے قبل بائک پلٹ کر واپس آئی، ٹیکسی کے پاس آکر دھیمی ہوئی اور بائک سوار فقرہ کس کر تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ڈرائیور نے ایک لمحہ اسے دیکھا اور پتلی لکیر پر کانچ چڑھادیا۔
‘میڈم ابھی دیکھا ناآپ نے؟’ڈرائیور نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔
اننیا نے کچھ نہیں کہا مگر اندر سے وہ کانپ گئی تھی۔ابھی یہاں اترنا کسی طرح ٹھیک نہیں ہے۔اس نے اپنا پرس ٹٹولا۔اسے وہاں ایک نیل کٹر، جس میں چھوٹا سا چاقو بھی تھا، نظر آیا۔اس نے چاقو کو باہر نکال کر نیل کٹر اپنی مٹھی میں بھینچ لیا۔آمنا سامنا کرنے کی نوبت آگئی تو اس کی بدولت کچھ منٹ تو اسے مل جائیں گے۔کوئی ہتھیار چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔اصل بات یہ ہے کہ ضرورت کے وقت کتنی عقلمندی سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ خود کو ہمت بندھاتی رہی۔
اچانک ٹیکسی کی رفتار کم ہوئی۔ اس کے آگے ہزار ڈر تعینات ہوگئے۔ کیا ہوگا اگر ڈرائیور کے دوست یار اندھیرے سے نکل کر گاڑی میں آبیٹھے یا اسی کو دبوچ کر کہیں لے گئے۔ کہیں بائک سوار بھی تو ملے ہوئے نہیں ہیں۔ اخبار میں روز چھپنے والی خبریں اسے ایک ایک کرکے یاد آنے لگیں۔ کسی میں ٹیکسی والا سنسان راستے پر لے گیا تو کسی میں چلتی گاڑی میں ہی۔۔۔
اس کا اکیلے آنا ہی غلط تھا۔ نہیں آنا چاہیے تھا اسے اکیلے۔اس کے پڑھ لکھ جانے سے لوگوں کی سوچ تو نہیں بدل سکتی۔ لوگ جس سوچ کے غلام ہیں اس کا خمیازہ آج تک عورتوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس نے اپنے پرس میں پڑا پیپر اسپرے ٹٹولا۔ پچھلے سال آرڈر کیا تھا۔ تب سے ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے مگر استعمال کرنے کی نوبت ابھی تک نہیں آئی۔ لیکن آج ذرا بھی کچھ عجیب لگا تو وہ اس کے استعمال میں ہچکچائے گی نہیں۔یہی سوچتے ہوئے وہ ایک ہاتھ سے پیپر اسپرے گھماتی رہی اور ایک ہاتھ میں نیل کٹر تھامے بیٹھی رہی۔ اس نے طے کیا کہ اگلی بار اکیلے سفر کرتے ہوئے ایک بڑا چاقو ساتھ رکھے گی۔ ٹیکسی اب اور دھیرے چل رہی تھی۔
‘کیا ہوا؟’ اس نے اپنے ڈر پر قابو رکھ کر پوچھا۔اس کی آواز میں نہ چاہتے ہوئے بھی ضرورت سے زیادہ ہوشیاری تھی۔
‘کچھ نہیں میڈم۔آگے موڑ ہے۔ یہ موڑ ایکسیڈنٹ کے لیے بہت بدنام ہے۔ ایک بار میرا بھی یہاں ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا۔ تب سے میں اس طرف سے گزرتے ہوئے بہت ہوشیار رہتا ہوں۔’
کار دائیں مڑ چکی تھی۔ ‘پھر تو سیدھے سیدھے ہی چلنا چاہیے تھا۔’
‘اس راستے سے تو آپ اگلے دو گھنٹوں تک کہیں نہیں پہنچ پاتیں۔آدھی سڑک پر کام چل رہا ہے۔ باقی آدھی سڑک پر ٹریفک کا اتنا برا حال ہوتا ہے کہ پیدل آدمی کا کھسکنا مشکل ہے اور پھر گاڑیوں کی بات تو بھول ہی جائیے۔’تبھی اس کے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
‘ما آؤدے چھُو، ایک گھنٹہ ما۔’وہ اب کچھ اور چوکنی ہوگئی تھی۔
ادھر سے کچھ کہا گیا تھا۔جس کے جواب میں ڈرائیور نے کہا۔’ما دیکھچو، ٹھیک چھے۔’فون رکھ دیا گیا تھا۔
کار میں اچانک خاموشی چھاگئی تھی۔ ‘نیپال سے ہو؟’اننیا نے یوں ہی پوچھ لیا۔ ڈر سے نجات پانے کو یا اپنے ڈر کوکوئی بنیاد فراہم کرانے کے لیے۔۔۔وہ خود بھی یہ بتاپانے میں ناکام رہتی۔
‘نا۔نا۔میں نیپال سے نہیں ہوں۔ میری پتنی ہے نا، وہ وہاں کی ہے۔اسی کے ساتھ تھوڑی بہت نیپالی بول لیتا ہوں۔ اسے اچھا لگتا ہے۔’آخری جملہ بولتے وقت ڈرائیور کا لہجہ کچھ ہوس پرستانہ سا ہوگیا تھا، یا شاید اننیا کو ایسا محسوس ہوا۔
‘اسے تیز بخار ہے۔بٹیا الگ بھوک سے روئے چلی جارہی ہے۔ بس یہی پوچھ رہی تھی کہ کتنا سمے لگے گا۔’کہہ کر اس نے بیک ویو مرر میں اننیا کو دیکھنے کی کوشش کی۔’ ویسے میرا گھر پاس ہی میں ہے۔ دو گلیوں آگے۔آپ کہیں تو بھاگ کر بریڈ کا پیکٹ پکڑا آؤں۔ آپ گاڑی میں بیٹھی رہیے گا۔’یہ پوچھتے ہوئے وہ جھجھک رہا تھا مگر پھر بھی شاید پوچھنا اس کے لیے ضروری رہا ہوگا۔’گھر میں کوئی ہے نہیں۔بچی کو چھوڑ کر پتنی کہیں جانہیں سکتی۔’
نیا پینترا۔۔۔کہیں اسی لیے تو یہ اس راستے سے نہیں لے آیا۔کسی بہانے گاڑی روکو اور۔۔۔
وہ کچھ نہیں بولی۔اس نے بھی دوبارہ نہیں پوچھا۔وہ گاڑی چلاتا رہا لیکن اس بار اس کی رفتار بڑھ گئی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ کار کی رفتار کم ہوجائے مگر وہ اب اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سیدھے ہوٹل پہنچا دے۔۔۔صحیح سلامت۔اس نے موبائل میں ڈائل اسکرین پر سو نمبر ٹائب کیا۔ اب ضرورت ہوتے ہی صرف کال ملانی ہوگی۔
تبھی اچانک گاڑی ایک تیز جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔
اننیا کا سر کسی نکیلی چیز سے ٹکرایا۔ دروازے کے ہینڈل سے یا پتہ نہیں کس چیز سے۔۔۔ہاتھ میں کس کر تھامی گئی چیزیں گاڑی کے کس اندھیرے کونے میں بکھر گئیں کہنا مشکل تھا۔درد کی ایک لہر اس کے سر سے ہوتے ہوئے بدن کی طرف دوڑنے لگی۔اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا مگر درد تھا کہ اپنی پوری جارحیت کے ساتھ اس پر حاوی ہوئے جارہا تھا۔ اس نے کسی طرح نظریں اٹھا کر دیکھا۔یہ راستہ پوری طرح سنسان تھا۔نہ کوئی آدم، نہ آدم زاد۔ایک لمبی سڑک جس کے دونوں طرف کبھی نہ ختم ہونے والے پیڑوں کی قطارتھی۔ڈرائیور بیلٹ ہٹارہا تھا۔ اسے چوٹ نہیں لگی تھی۔اب کہیں۔۔۔۔
اسے پولیس کو فون کرنا ہی ہوگا۔موبائل اٹھانے کے لیے اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو دیکھا اس کے دونوں ہاتھ چپچپا گئے تھے۔ خون اس کے سر سے ہوتے ہوئے ہاتھوں پر بہہ رہا تھا۔خون کی بو نے اس کے دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اب کیا ہوگا؟اس بات کا ڈر بہتے ہوئے خون کے ساتھ مل گیا تھا۔ادھر سے ڈرائیور کی آواز آئی۔
‘میڈم! گاڑی کی رفتار تیز تھی کہ اچانک گائے سامنے آگئی۔آپ کو تو پتہ ہے یہاں جانور کس طرح آوارہ پھرتے ہیں۔بریک لگانا پڑا۔آپ کو چوٹ تو نہیں آئی۔’وہ شاید اس کے جواب کا انتظار کررہا تھا مگر درد، ڈر، غصے اور تھکان سے اس کا بدن پست ہوچلا تھا۔وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں بول پائی۔ڈرائیور دروازہ کھول کر پیچھے آیا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس نے کچھ کہا جو اننیا سمجھ نہیں پائی۔وہ آگے جاکر پانی کی بوتل لایا اور اس کے منہ سے لگادی۔کچھ پانی پیا گیا، کچھ باہر گر اس کے کپڑوں کو بھگو گیا۔ اب نہ اس کے پاس چاقو تھا، نہ پیپر اسپرے، نہ موبائل، نہ طاقت۔وہ پوری طرح سے نڈھال پیچھے کی سیٹ پر پڑی تھی۔
‘ارے! آپ کے سر سے تو خون بہہ رہا ہے۔’ایک آواز دور سے آئی۔’میڈم ایسا کریے، آپ تھوڑی دیر لیٹ جائیے۔’ یہ کہتے ہوئے ڈرائیور نے آہستہ سے اسے پیچھے کی سیٹ پر لٹا دیا تھا۔ کیا ایسا کرتے ہوئے اس نے اننیا کی بانہوں پر زیادہ دباؤ ڈالا تھا۔سن ہوتے ہوئے اس کے دماغ کا کوئی حصہ ضرورت سے زیادہ ہوشیار ہواٹھا تھا۔وہ لیٹنا نہیں چاہتی تھی۔ ‘آپ کہیں تو آپ کو ہسپتال لے چلوں یا آپ کے گھر سے کسی کو بلادوں؟موبائل دیجیے اپنا۔’
اسے اس آدمی کے ساتھ کہیں نہیں جانا تھا۔ وہ اسے دھکا دینا چاہتی تھی، چلانا چاہتی تھی مگر نہ اس کے ہاتھ پاؤں کام کررہے تھے اور نہ آواز۔
اس کا ہوش کھونے کو تھا کہ اس نے دیکھا ، ڈرائیور اس کے اوپر جھک گیا ہے۔موبائل لینے کے لیے یا شاید۔۔۔
آگے سب اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔
٭٭٭
اس کی آنکھ کھیلی تو وہ ہسپتال کے بیڈ پر تھی۔۔۔تاروں کے جنجال سے گھری ہوئی۔ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی۔ اس نے سر ہلایا تو سر میں درد محسوس ہوا۔اس نے بستر کے پاس لگی گھنٹی بجائی۔ نرس بھاگتے ہوئے آئی۔ اسے ہوش میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
‘ہاؤ آریو ناؤ ینگ لیڈی؟’
‘سر میں تھوڑا درد ہے۔’اننیا نے سر کو پھر ہلکی سی جنبش دے کر دیکھا۔
‘ہاں، وہ ابھی رہے گا۔پین کلر ڈرپ میں ڈال دیے گئے ہیں۔یو وِل بی فائن۔’نرس نے اس کا گال تھپتھپایا۔
‘سسٹر، کوئی فکر کی بات تو نہیں ہے؟’وہ کسی طرح ان الفاظ کو ادا کرپائی جبکہ وہ پوچھنا کچھ اور چاہتی تھی۔
‘نہیں نہیں، چوٹ لگنے کے بعد آپ بے ہوش ہوگئی تھیں اس لیے سی ٹی اسکین ہوا۔سب نارمل ہے۔ ڈونٹ وری۔’وہ اس کی پلس ریٹ چیک کررہی تھی۔ ‘باقی باتیں ڈاکٹر سے پوچھ لیجیے گا۔ہی وِل بی ارائیوِنگ سُون۔تب تک آپ آرام کریے۔’
‘اور ہاں، آپ کے گھر بھی انفارم کردیا گیا ہے۔’اس کا موبائل اسے پکڑاتے ہوئے نرس نے کہا۔’آپ بات کرنا چاہیں تو کرلیجیے۔’
‘آپ کا باقی سامان یہاں رکھا ہے۔’میز پر اشارہ کرتے ہوئے نرس نے کہا۔اننیا نے گردن گھما کر دیکھا۔چاقو، پیپر اسپرے، پرس سب چیزیں اسے یاد آئیں۔
‘کل ٹیکسی والا آپ کو یہاں چھوڑ گیا تھا۔ جب تک آپ کے ٹیسٹ نہیں ہوگئے یہیں بنا رہا۔’نرس ڈرپ کی اسپیڈ ایڈجسٹ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ یہ سن کر وہ چونکی۔اس کے گھر پر تو اس کی پتنی اور بچے بھوکے تھے۔
‘رات کی ڈیوٹی پر میں ہی تھی۔بے چارہ بہت فکر مند تھا۔خود کو ذمہ دار مان رہا تھا۔’نرس جیسے اس کی پیروی کررہی تھی۔
اننیا چپ تھی۔کیا کہتی! وہ شاید بھلا آدمی تھا۔ اس نے بلاوجہ اس پر شک کیا۔ مان لیا دنیا میں مجرم ہوتے ہیں مگر سبھی تو اس ذیل میں نہیں آتے۔کیا کل وہ ایک شریف آدمی کو مجرم ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی؟ کہیں ڈرائیور بھانپ تو نہیں گیا تھا کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔وہ اچانک شرمندگی کے احساس میں ڈوب گئی۔کہیں اس نے اس کے اندیشے کو سونگھ لیا ہوگا تو اس کے بارے میں کیا سوچا ہوگا۔اپنی بیمار پتنی اور بھوکی بچی کے باوجود وہ صرف اس کے لیے یہاں موجود رہا۔اسے احساس جرم ڈسنے لگا۔
نرس پھر آئی اور اسے دو گولیاں کھلا کر، آرام کرنے کی تاکید کرکے چلی گئی۔
مگر اب اسے آرام کہاں تھا۔ کل ایک گھنٹے میں اس نے خود کو ہی نہیں شاید ڈرائیور کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔ بار بار کھڑکی بند کرنے کا اس کا اصرار اننیا کو یاد آیا۔اس سے غلطی تو نہیں ہوگئی۔کیا اسے فون کرکے شکریہ ادا کرنا چاہیے؟ لاسٹ ڈائل میں اس کا نمبر ضرور ہوگا۔ کل رات ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے آخری فون اسے ہی کیا تھا مگر فون تو بند تھا۔ شاید بیٹری ختم ہوگئی تھی۔ اس نے بیگ میں سے اپنا پاور بینک نکالا اور موبائل پلگ اِن کیا۔ خیالات کی اس ریل پیل میں نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ اننیا نے پاس پڑا ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی آن کرلیا۔ٹی وی پر بریکنگ نیوز بجلی کی طرح چمک رہی تھی۔کل رات شہر میں دو بلاتکار۔دیکھتے ہی اننیا پسینے میں نہا گئی۔
نہیں،شکاریوں کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔
اس نے فوراً فون آن کیا تو بیٹری اسی فی صد تھی۔ دیکھ کر اسے جھٹکا لگا۔ بیٹری تو ہے پھر فون کیسے بند ہوا؟ کہیں ڈرائیور نے جان بوجھ کر تو بند نہیں کیا؟ فون بند تھا تو گھر کا نمبر کہاں سے لیا؟ ہزاروں سوال اس کے دماغ کو پریشان کرنے لگے۔
اس کا خوف صحیح ہے یا بے بنیاد۔کس سے پوچھا جائے، کیا کیا جائے؟
نرس اندر آئی تو وہ یکدم پوچھ بیٹھی۔
‘سسٹر، میرے گھر کا نمبر کہاں سے لیا تھا آپ نے؟میرے موبائل سے؟’
‘نہیں، آپ کے والِٹ میں آپ کے ہزبینڈ کا کارڈ تھا۔وہیں سے لیا۔’لمحے بھر رکی پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی۔’آپ کا موبائل کام نہیں کررہا تھا۔ شاید بیٹری نہیں تھی۔’
‘فون آپ نے کیا تھا یا ڈرائیور نے؟’
‘ڈرائیور نے ہی کیا تھا۔پھر آپ کے پتی کی مجھ سے بات کروائی تھی۔’
‘اوہ اچھا۔’
‘کیوں ، کوئی پرابلم ہے؟’
‘نہیں ایسے ہی پوچھا۔’
کیا نرس سے اس بارے میں کچھ پوچھا جائے یا خود معلوم کیا جائے کہ اس کے بدن پر کوئی نشان وغیرہ تو نہیں؟ مگر وہ تو بے ہوش تھی۔ اس نے کچھ کیا بھی ہوگا تو زور زبردستی کا نشان کہاں سے ہوگا؟
انہیں سب فکروں میں ڈوبی ہوئی وہ نہیں دیکھ پائی کہ کب اس کے سامنے اس کی ماں اور سُہاس آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔اسے تب معلوم ہوا جب ماں نے اس کا سر سہلایا اور سُہاس نے پیار سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
دونوں میں سے کسی نے نہیں کہا کہ دیر رات تک باہر کیوں تھیں۔کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ انجان شہر میں اتنی رات تک باہر رہنے کا مطلب کیا تھا۔بس آئے اور پیار سے اسے بانہوں میں بھر لیا۔گھر کے سب لوگ اس پر کتنا یقین کرتے ہیں، اس کے فیصلوں کی عزت کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس نے اس وقت باہر رہنے کا فیصلہ کیا تھا تو یہ ضروری ہی رہا ہوگا۔ اس نے ان دونوں کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر اس کے لیے چِنتا کی لکیریں تھیں۔ نہیں، وہ انہیں اور پریشان نہیں کرسکتی۔ پھر وہ خود بھی نہیں جانتی کہ سچ کیا ہے۔
‘اننیا۔۔۔’
سُہاس کا کہا ہوا ایک لفظ اسے کتنا سکون آمیز لگا۔یہ لڑکا اسے کتنا پیار کرتا ہے۔چار سال کی محبت کے بعد کچھ مہینوں پہلے دونوں نے شادی کی ہے۔ وہ تو شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔اسے لگتا تھا شادی اس کے ورک اسٹائل کو سوٹ نہیں کرتی۔ سہاس نے اسے سمجھایا کہ شادی اسکول کے ٹائم ٹیبل جیسی نہیں ہوتی کہ ہمیں اسے فالو کرنا ہی پڑے۔ہم شادی کے مطابق نہیں ڈھلیں گے بلکہ شادی کو ہمارے حساب سے ڈھلنا ہوگا۔اور ہوا بھی یہی۔ سُہاس میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا۔ان دونوں کی ترجیحات ان کا کام اور وہ دونوں خود بھی نہیں بدلے۔ایک دوسرے سے محبت کے علاوہ کوئی امید انہوں نے نہیں رکھی۔دونوں اک دوسرے کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔اننیا کی کئی سہیلیاں یا تو نوکری چھوڑ کر بیٹھ گئی ہیں یا گھر باہر کا کام سنبھالتے سنبھالتے اسٹریس میں آگئی ہیں۔وہیں اننیا کا لائف اسٹائل ذرا بھی نہیں بدلا۔ شہر سے باہر اکثر جانا پڑتا ہے۔ آفس سے آنے میں بھی اکثر دیر ہوجاتی ہے۔ واپس لوٹنے پر ہمیشہ سُہاس کا مسکراتا چہرہ ہی اسے نظر آیا ہے۔
ماں کھڑکی کے پردے ہٹانے گئی تو سُہاس نے نظر بچا کر اسے چوم لیا۔
اس کی شرارت پر وہ مسکرائے بِنا نہ رہ سکی۔
ماں نے دونوں کو دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے من ہی من دونوں کے لیے دعا پڑھی اور آکر اننیا کے پاس بیٹھ گئیں۔
‘ماں آپ بیٹھیے۔میں پاپا کو لے کر آتا ہوں۔’
‘پاپا بھی آئے ہیں؟’اننیا کو محسوس ہوا کہ اس کا درد اچانک ختم ہوگیا ہے۔
‘ہاں آئے ہیں۔باہر ڈاکٹر سے بات چیت کررہے ہیں۔ کل سے بہت پریشان ہیں۔’
‘ہاں سچ، ہم سبھی کو فکر ہوگئی تھی۔ وہ تو بھلا ہو ٹیکسی ڈرائیور کا جس نے تمہیں یہاں پہنچا دیا اور ہمیں فون کردیا۔’
ڈرائیور کا ذکر آتے ہی اننیا پھر سوچ میں ڈوب گئی۔ سبھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اچھا آدمی ہے۔ لیکن کیا اتنا اچھا آدمی ہے کہ رات کے بیابان میں کسی لڑکی کا فائدہ نہ اٹھائے۔
ڈاکٹر کے حساب سے سب ٹھیک تھا۔ وہ سفر کرسکتی تھی۔ اننیا بھی اب گھر جانا چاہتی تھی۔ شام تک وہ سب گھر پر تھے۔ تین چار دن کے آرام کے بعد اننیا نے آفس جانا شروع کردیا۔لیکن جو بات اننیا کے دماغ سے نہیں نکلی وہ یہ تھی کہ اس رات اس کےساتھ کچھ ہوا یا نہیں۔ وہ بار بار اس رات کے واقعے کو دماغ میں روائنڈ کرکے دیکھتی۔کہاں کس بات کا کیا مطلب نکل رہا ہے ، وہ اس کا پوسٹ مارٹم کرتی۔ ایک ایک بات کو کئی طرح سے پرکھتی مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتی۔آئینے میں ہر زاویے سے وہ اپنے بدن کو پرکھ چکی تھی۔ کوئی چوٹ، کوئی نشان اسے نہیں ملا تھا۔ عجیب دماغی بحران میں وہ مبتلا ہوگئی تھی۔اپنے بدن کے ہر حصے کو چھو کر وہ دیکھ چکی تھی مگر کوئی وردان تو اس کے پاس تھا نہیں جس کی مدد سے اسے اس بات کا پتہ چل جاتا جو اس کی بے ہوشی کے وقت رونما ہوئی تھی۔
وہ اکثر ایپ پر جاتی اور اس ڈرائیور کی ریٹنگ دیکھتی۔ پورے پانچ ستارے۔اس کی تصویر بڑی کرکے دیکھتی۔ہنستا ہوا اس کا چہرہ کسی بلاتکاری کا چہرہ نہیں لگتا تھا۔ وہ دنیا بھر کے بلاتکاریوں کو گوگل پر سرچ کرنے لگی۔ان کے چہروں کو عام لوگوں کے چہروں سے ملا کر دیکھتی کہ کیا وہ کہیں سے الگ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی عادتوں پر اس نے لگ بھگ ریسرچ ہی کرڈالی تھی۔ ڈرائیور کا نمبر کئی بار نکال کر دیکھتی لیکن کبھی ملا نہیں پائی۔
اس نے اپنے آپ سے کئی بار سوال کیا کہ کیا یہ بات اس کے لیے اتنا معنی رکھتی ہے؟ اگر ہاں تو کیوں؟ کیا وہ بھی بدن کو پاکیزگی کا آئینہ مانتی ہے۔ نہیں، وہ ایسا تو نہیں مانتی۔ کیا اس رات وہ بلاتکار سے ڈر رہی تھی یا بلاتکار کے دوران ہوسکنے والے تشدد سے؟ یہ سوال اس نے جب جب خود سے پوچھا تواس کا جواب اسے ہر بار نینو سکینڈ سے بھی کم میں ملا۔وہ بلاتکار سے زیادہ وہ تشدد سے ڈرتی ہے۔ہاں، وہ بے عزتی بھی جو جبراً اس کی خواہش کے خلاف کسی کے ذریعے اس کے بدن سے کھیلنے پر محسوس ہوگی۔لیکن یہاں نہ تشدد تھا، نہ اس کے علم میں بے عزت ہونے والی کوئی بات ہوئی تھی پھر وہ اس رات کو اپنے ذہن سے محو کیوں نہیں کرپارہی تھی۔وہ پاگل تو نہیں ہوگئی؟
وہ رات اس حد تک اس پر حاوی ہوگئی تھی کہ اس نے رات کو آفس میں رکنا بالکل بند کردیا۔ کبھی ایمرجنسی ہوتی تو پہلے ہی سُہاس کو بتادیتی کہ آج رات لینے آنا ہے۔ سُہاس جو اس کی خود اعتمادی پر فخر کیا کرتا تھا، اس اچانک آئی تبدیلی کا کارن نہیں سمجھ پایا۔ہنستے ہوئے ایک دو بار اس بات کو اس نے نشان زد بھی کیا۔
‘کیوں میری جھانسی کی رانی۔کیا ہوگیا ہے تمہیںَ ان دنوں۔ اکیلے نہیں آتی ہو؟ رات کو آفس میں رہنا بھی کم کردیا ہے۔’
جواب میں اننیا اپنے زرد پڑتے ہوئے چہرے کو چھپا کر کہہ دیتی۔’کیوں، میرا گھر پر رہنا کھٹکنے لگا ہے؟’جس پر دونوں ہنس دیتے۔
کیا وہ سُہاس کو بتادے؟ لیکن وہ خود کچھ نہیں جانتی تو سُہاس کو کیا بتائے گی۔ نہیں نہیں، کچھ نہیں کیا ہوگا ڈرائیور نے۔ ایسا کرنا ہی ہوتا تو وہ اسےہسپتال کیوں لے جاتا ؟اپنے جرم کو ڈھانپنے کے لیے تو نہیں لے گیاہوگا۔کسی بے ہوش عورت کے ساتھ۔۔نہیں نہیں۔۔وہ شاید بغیر کسی بات کے اتنا ڈر رہی ہے۔اب وہ اس بارے میں بالکل نہیں سوچے گی۔ اسے اب اپنے کام پر دھیان دینا چاہیے۔ ان سب باتوں میں پھنس کر وہ پیچھے رہ جائے گی۔
کام میں دل لگانے کی کوشش کی لیکن طے شدہ تاریخ پر پیریڈز نہیں آئے تو دل میں پھر کھلبلی مچ گئی۔وہ اور سُہاس تو ہمیشہ پروٹیکشن استعمال کرتے ہیں۔ وہ حاملہ نہیں ہوسکتی۔پریگ نینسی کِٹ لاکر ٹیسٹ کیا تو ٹیسٹ نگیٹو رہا۔پیریڈز تو ہمیشہ ریگولر رہے ہیں۔ پھر کیا سبب ہوسکتا ہے؟ کچھ دن اور انتظار کے بعد بھی جب پیریڈز نہیں آئے تو اسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہی مناسب معلوم ہوا۔
حاملہ ہونے کا اندیشہ ڈاکٹر پہلے ہی دور کرچکی تھی۔ساری علامتیں سن سمجھ کر اس نے کہا کبھی کبھی اسٹریس کی وجہ سے سائیکل گڑ بڑ ہوجاتی ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ دوا لکھ دے گی۔ اننیا کشمکش میں تھی کہ جب یہاں تک آ ہی گئی ہے تو ڈاکٹر سے ہی کیوں نہ پوچھ لے۔ ساری باتیں صاف ہوجائیں گی۔
‘ڈاکٹر آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔’وہ جھجھکتے ہوئے بولی۔
‘ہاں، پوچھیے نا۔’ڈاکٹر کو لگا کہ سیکس سے متعلق کوئی مسئلہ ہوگا۔اکثر اس عمر کی لڑکیاں یہی سب پوچھتی ہیں۔
‘ڈاکٹر، کسی نے ہمارے ساتھ جنسی تعلق بنایا ہے یا نہیں، یہ کیسے معلوم کیا جاسکتا ہے؟’ سوال پوچھ کر وہ خود کی بے وقوفی کے احساس سے پریشان ہواٹھی۔ یہ کیسا سوال تھا۔شاید وہ اپنی بات ٹھیک سے نہیں رکھ پائی ہے۔’میرا مطلب ہے کہ اگر آپ بے ہوش ہوں اور کوئی اسی بے ہوشی کا فائدہ اٹھا کر کچھ کر بیٹھا ہو۔اسے کتنے دنوں بعد تک معلوم کیا جاسکتا ہے؟’
‘آپ کی مراد آپ کی مرضی کے بغیر بنائے جانے والے جنسی تعلق سے ہے؟ دیکھیے، یہ بلاتکار کے اندر ہی آتا ہے۔ اور ریپ ہوا ہے یا نہیں یہ معلوم کرنے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔سب سے پہلے زور زبردستی کے نشانات دکھ جاتے ہیں۔ بدن کے ہر حصے کی جانچ کی جاتی ہے۔ اندرونی چوٹ کے لیے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ فارینسک جانچ ہونی ہو تو عورت کے بدن سے یا کپڑوں سے بلاتکار کرنے والے کا سیمپل لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیکس کے بعد اندام نہانی میں کچھ کیمکل بدلاؤ آتے ہیں جن کی جانچ کی جاتی ہے۔یہ سب جتنا جلدی ہوجائے اتنا اچھا ہے۔’ ڈاکٹر نے دو سکینڈ کا توقف کیا۔’آپ کے ساتھ کچھ ہوا ہے؟کوئی پریشانی ہو تو آپ مجھے بتاسکتی ہیں۔’
‘ڈاکٹر پچھلے مہینے میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس وقت میں ٹیکسی میں تھی۔ ایکسیڈنٹ کے بعد کچھ سمے تک میں بے ہوش رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں مگر ایک اندیشہ سا دل میں جگہ بنا چکا ہے کہ اس وقت ڈرائیور نے ضرور میرے ساتھ کچھ کیا ہوگا۔’
‘ایسا لگنے کی کوئی خاص وجہ ہے یا یوں ہی؟’
‘اس کی کچھ حرکتیں، جو شک کے دائرے میں آتی ہیں اور نہیں بھی آتیں۔ میں فیصلہ نہیں کرپارہی۔’
‘دیکھیے، اب اتنا وقت گزر جانے کے بعد کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ چیک اپ سے بھی کچھ معلوم نہیں ہوسکے گا۔آپ کو شک تھا تو اسی وقت ہی کچھ کرنا چاہیے تھا۔ اب ان سب باتوں کا اثر اپنے جیون پر مت ہونے دیجیے۔ اتنے سمے بعد ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔’ڈاکٹر اس کی دماغی حالت سمجھ رہی تھی۔
‘ہاں میں آپ کو ایچ آئی وی ٹیسٹ کروانے کا مشورہ ضرور دوں گی۔ کیا آپ نے کسی سے یہ بات شیئر کی ہے؟ کسی دوست، پارٹنر یا ماں باپ سے؟’
نہیں، میں نہیں کرپائی۔’
‘اکیلے ان باتوں سے جوجھنے سے بہتر ہے آپ کسی کو اپنی پریشانی بتائیے۔ جس پر آپ کو یقین ہے کہ آپ اس سے یہ شیئر کرسکتی ہیں۔مورل سپورٹ بہت سی مشکلوں کا حل ہوتا ہے۔ ایسے معاملوں میں پارٹنر کے رویے سے بہت اثر ہوتا ہے۔ اسٹریس کے لیے دوا لکھ دیتی ہوں۔ آپ کو آرام ملے گا۔ پھر بھی کوئی پریشانی ہو تو آپ جب چاہیں مجھے کال کرسکتی ہیں۔ یہ میرا نمبر ہے۔’ڈاکٹر نے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا۔
ڈاکٹر سے بات کرکے آج اسے کافی راحت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے طے کیا کہ گھر جاکر وہ سُہاس کو سب بتادے گی۔ اس سے زیادہ یقین اسے کسی پر نہیں۔ماں بھی پتہ نہیں کیسے ری ایکٹ کریں۔ مگر سُہاس۔۔۔وہ سب سمجھ لے گا۔
گھر پہنچی تو سُہاس باہر تھا۔ آمنے سامنے یہ بات بتاتے ہوئے کہیں وہ ہمت نہ کھو بیٹھے یا سُہاس کے آتے آتے اس کا من نہ بدل جائے اس لیے اس نے طے کیا کہ ساری باتیں اسے میل کردی جائیں۔ وہ کوئی بھی بات چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ تفصیل سے لکھ کر اپنی بات کہے گی۔میل لکھتے لکھتے کئی گھنٹے ہوچلے تھے۔ کتنی بار کچھ لکھتی اور مٹادیتی۔ کبھی لہجہ ٹھیک نہ لگتا کبھی زبان۔لکھتے لکھتے اس رات کے ڈر کو وہ پھر محسوس کر رہی تھی۔ کتنی بار اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہ سُہاس کو کسی طرح کا شاک نہیں دینا چاہتی تھی اور نہ تو وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے غلط سمجھ بیٹھے۔بہت احتیاط سے وہ لکھتی جارہی تھی۔آخرکار جب میل پورا ہوا تو بنا دوبارہ پڑھے اس نے جھٹ سینڈ کا بٹن دبا دیا۔ وہ میل بھیجنے یا نہیں بھیجنے کے بیچ کسی طرح کی الجھن کا دخل نہیں چاہتی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ آخر کیوں اسے پہلے یہ خیال نہیں آیا کہ اپنی تکلیف میں کسی کو شریک کرلے۔ اب میل بھیجنے کے بعد اپنا ڈر، شکوک سب اسے بچکانہ معلوم ہورہے تھے۔ ایک بے سر پیر کی بات کی مانند۔ میل بھیج کر وہ چین کی نیند سو گئی۔۔۔لگ بھگ ایک مہینے کے بعد۔
گھنٹی کی آواز سے اس کی نیند ٹوٹی۔ گھنٹی لگاتار بجے چلی جارہی تھی۔ یہ سہاس ہے، وہی اس طرح آتا ہے۔ سہاس کا ردعمل کیا ہوگا۔ وہ ناراض تو نہ ہوجائے گا یا اسے غصہ تو نہیں آیا ہوگا؟ اگر سہاس نے اسے ہی قصوروار ٹھہرادیا تو؟ یہ خیال آتے ہی دروازہ کھولنے سے پہلے وہ ہچکچائی۔پھر دروازہ کھول کر کسی مجرم کی طرح وہ سہاس کے سامنے کھڑی ہوگئی۔سہاس کچھ لمحوں تک دہلیز پر کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لپٹالیا۔اپنا سارا پیار سہاس نےاس پر انڈیل دیا تھا۔ اس ہم آغوشی میں محبت کے سوا بہت سی چیزیں تھیں۔ ڈر، بے بسی، اننیا کے لیے تحفظ کا احساس۔وہ دیر تک اسے بھینچے کھڑا رہا۔ جب چھوڑا تو اننیا کا چہرہ ہتھیلیوں میں بھر کر دیر تک چومتا رہا۔ اپنے بوسوں سے وہ اس کی تکلیف کو جذب کرلینا چاہتا تھا۔بھلے ہی وہ سب اننیا کا محض خوف ہی رہا ہو، لیکن وہ اکیلے اس تکلیف کو سہتی رہی تھی۔ کتنی اداس تھی اننیا پچھلے کچھ دنوں سے۔وہ سمجھ کیوں نہیں پایا؟ اس کے لیے اننیا سے زیادہ کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے۔ پھر اننیا کو جب سب سے زیادہ اس کی ضرورت تھی تو وہ کیوں انجان بنا رہا؟ وہ خود کو قصوروار ٹھہرارہا تھا۔ وہ لمحے بھر رکتا، اننیا کو دیکھتا، اس کے بالوں میں ہاتھ پھراتا، پھر اسے چوم لیتا۔
اننیا کو ڈر تھا لیکن کہیں نہ کہیں اس بات کا یقین بھی تھا کہ سہاس کا ردعمل ایسا ہی ہوگا۔اب اسے سکون مل گیا تھا۔ سہاس ساتھ ہے تو دنیا چاہے الٹ پلٹ جائے اسے رتی بھر فرق نہیں پڑتا۔ وہی تو اس کی سب سے بڑی طاقت تھا۔پہلے کہہ دیتی تو اتنے دنوں کی کشمکش سے بچ جاتی۔ سوچتے ہوئے وہ سہاس کی چھاتی سے لگ گئی۔
‘پہلے کیوں نہیں بتایا؟’سہاس رندھی ہوئی آواز میں بولا۔
‘بس نہیں بتاپائی۔’اننیا کی آواز بھی بھیگی ہوئی تھی۔
‘مجھے معاف کردو اننیا۔’سہاس کے منہ سے الفاظ مشکل سے نکل رہے تھے۔’میں تمہارا یقین حاصل نہیں کرپایا۔تمہاری اداسی تک نہیں پہنچ سکا۔ میں تمہیں بہت پیار کرتا ہوں لیکن ایسا پیار کس کام کا جس میں تمہیں سمجھ ہی نہ سکوں۔’
‘نہیں سہاس! تمہاری کوئی غلطی نہیں۔ میں خود ہی کچھ نہیں سمجھ پارہی تھی۔ لیکن اب سے وعدہ کرتی ہوں کہ کیسی بھی بات ہو تم سے نہیں چھپاؤں گی۔’
‘مگر تمہیں بتانا چاہیے تھا۔’
‘جانتی ہوں۔’
‘تم اکیلے یہ سب۔۔۔۔’سہاس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔’تمہاری جان کو بھی خطرہ ہوسکتا تھا۔ پہلے بتاتیں تو کچھ ایکشن لیا جاسکتا تھا۔کنفرم کیا جاسکتا تھا کہ کچھ ہوا ہے یا نہیں۔’وہ شاید کہتے ہوئے جھجھک رہا تھا۔
‘کیا تمہیں فرق پڑتا ہے سہاس؟’
‘نہیں، مگر تمہیں تو پڑرہا تھا نا۔تم کسی بات کی وجہ سے پریشان ہو تو ظاہر ہے کہ مجھے بھی تو فرق پڑے گا۔’
‘اب تمہیں بتادینے کے بعد میں بالکل ٹھیک ہوں۔’
‘کیا تم چاہتی ہو کہ اس سے بات کی جائے۔۔ٹیکسی ڈرائیور سے؟’
‘نہیں، بات کرکے کیا حاصل ہوگا۔تم ساتھ ہو تو مجھے اب اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہے۔’اننیا کی آواز میں بے فکری تھی۔
‘اننیا آئی لو یو۔۔لو یو سو مچ۔’یہ کہتے ہوئے سہاس نے اسے پھر گلے سے لگا لیا۔ اوہ! اس کی اننیا۔۔۔کس ذہنی پریشانی سے گزری ہوگی۔ یہ سوچ کر اسے پھر رونا آنے لگا۔ جب میل آیا تب ایک اسائنمنٹ ختم کرکے وہ گھر کے لیے نکل ہی رہا تھا۔آج وہ جلدی پہنچ کر اننیا کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ تبھی میل فلیش ہوا۔اننیا کا میل! اسے کالج کے دنوں کی یاد آگئی جب دن بھر میں وہ بے حساب میل ایک دوسرے کو کیا کرتے تھے۔آج اتنے برسوں کے بعد میل کرکے اننیا نے ہی اسے سرپرائز دے دیا تھا۔اس نے محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر جلدی سے میل کھولا تو ایک ایک لفظ نشتر کی طرح اس کے بھیتر اترتا چلا گیا۔ میل پڑھنے کے بعد وہ سن رہ گیا تھا۔اننیا کی مہینے بھر کی تکالیف ایک لمحے میں اس کی اپنی ہوگئی تھیں۔ نہیں، اس کی اننیا کے ساتھ کچھ نہیں ہوسکتا، کبھی نہیں۔آفس کے باتھ روم میں بند ہوکر وہ دیر تک روتا رہا تھا۔آفس بند ہونے کے بعد بھی وہ گھر جانے کی ہمت نہیں جٹا پارہا تھا۔ گھنٹوں ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد اسے جب ہوش آیا وہ فوراً اننیا کے پاس گھر پہنچ گیا۔
سہاس کے لیے آج کی رات لمبی تھی۔ اننیا کے سو جانے کے بعد بھی وہ کروٹیں بدلتا رہا۔ چاہ کر بھی اسے نیند نہیں آپارہی تھی۔ویسے کچھ ہوا ہوگا یا نہیں؟ اننیا کا ڈر بے بنیاد ہے۔کچھ ہوتا تو ڈرائیور یوں ہی چھوڑ کر چلا آتا۔نہیں، ضروری بھی نہیں۔چھوڑ آتا تو پولیس کیس بن جاتا۔سُہاس کی حالت وہی ہورہی تھی جو پچھلے ایک ماہ سے اننیا کی تھی۔ اننیا کا جیا ہوا ڈر اس پر حاوی ہوچلا تھا۔ پانسے اب اس کے آگے بکھرے ہوئے تھے جنہیں وہ الگ الگ طریقوں سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔
اننیا کے میل کے حساب سے جب حادثہ ہوا تب لگ بھگ ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ڈرائیور نے جب اسے فون کیا تب رات کے تین بج رہے تھے جبکہ وہ اننیا سے حادثے کے وقت ہی موبائل مانگ رہا تھا۔ اتنی دیر کا وقفہ کیوں رہا ہوگا؟ ہوسکتا ہے اس وقت نیٹ ورک نہ رہا ہو یا اننیا کا موبائل اسی وقت آف ہوگیا ہو اس لیے اسے نمبر نہ ملا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی حالت دیکھ کر گھبراگیا ہو اس لیے سیدھا ہسپتال لے گیا ہو۔ لیکن اتنی دیر۔۔۔راستہ تو اتنی دیر کا ہے نہیں۔گوگل میپ اس کے آگے کھلا ہوا تھا اور وہ ایکسیڈنٹ والی جگہ سے ہسپتال تک پہنچنے کا وقت ناپ رہا تھا۔ شک اور تکلیف سے اس کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ وہ کسی شونیہ میں کھوگیا تھا۔ ہو سکتا ہے ہسپتال کی فارمیلٹیز پوری کرنے کے بعد اس نے فون کیا ہو۔ لیکن اننیا نے لکھا تھا کہ جب اس نے موبائل آن کیا تب اس میں اسی فی صد بیٹری تھی پھر موبائل بند کیسے ہوا؟ دو مہینے ہی تو ہوئے ہیں موبائل خریدے ہوئے۔اس نے ایک گہری سانس چھوڑی۔ اتنی بھاری آواز جیسے کسی نے پتھر باندھ کر کسی کو سمندر میں پھینک دیا ہو۔اننیا کی نیند اچٹ گئی۔سہاس کو اس حالت میں دیکھ کر وہ اس کے قریب آبیٹھی۔سہاس نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ تبھی اچانک سہاس کو کچھ یاد آیا۔ یہ بات اس کی سوچ میں چبھ تو بہت دیر سے رہی تھی مگر وہ اسے ان دیکھا کررہا تھا۔ لیکن اب اور برداشت نہیں کرسکا۔
‘اننیا ایک بات بتاؤ۔ تمہیں سیٹ کی جیب سے جو کنڈوم کا باکس ملا کیا وہ تم نے واپس وہیں رکھ دیا تھا؟’
اننیا سوچ میں پڑگئی۔ کچھ دیر سوچ کر اس نے کہا۔’نہیں، واپس تو نہیں رکھا تھا۔وہ دیکھ کر میں لگ بھگ شاک میں چلی گئی تھی۔واپس رکھنے کا خیال ہی نہیں آیا۔’اب چپ رہنے کی باری سُہاس کی تھی۔
‘کیوں، کیا ہوا؟’
‘جب اس نے تمہارا سامان ہسپتال میں جمع کروایا تو کنڈوم والا باکس کیوں چھوڑ دیا؟ اسے معلوم تھا کہ وہ تمہارا نہیں تھا! کیا وہ اسی کا تھا؟ ہوسکتا ہے اس نے وہ جان بوجھ کر وہاں رکھا ہو۔’
ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔کچھ ہونے کی توقع بھی اب اتنی ہی تھی جتنی کہ نہ ہونے کی۔
جس شک کو اننیا چھیل کر باہر پھینک دینا چاہتی تھی وہ اور وہ اس کے اندر اور گہرا اترتا چلا گیا۔
٠٠٠