انجام کار

اس بار کیا ہوا کہ عین درگا پوجا کے دوران ایک خاص کام سے مجھے دلی آنا پڑ گیا۔آپ بنگالی نہ بھی ہوں لیکن شروع سے کلکتے میں رہے ہوں تو آپ کو بتانا نہ پڑے گا کہ درگا پوجا میں کلکتے سے کہیں اور کے لیے نکل پڑنے کی مجبوری کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا، یہ پہلا موقع تھا کہ اس وقت کلکتے میں نہ ہوکر دوردراز دلی کی سوکھی سڑکوں کی خاک چھان رہا تھا۔اور قدرت کا کمال دیکھیے کہ میری غیرموجودگی میں اسی دوران ایک ایسی گھٹنا گھٹ گئی جس کا کبھی کسی نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔دراصل یہ کہانی اسی گھٹنا(یا دُرگھٹنا، جو بھی کہیں) کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ہے۔  خبروں کے ٹکڑے بٹور کر، ان کے بیچ کی دراروں کو بھر کر اپنے تصورات یا تعصبات سے بھر کر یہاں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔اس کے باوجود  یہ ممکن ہے کہ میری تمام کوششوں کے بعد بھی کہانی کا کوئی حصہ بے ربط یا بے ترتیب رہ گیا ہو۔ اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔

22سِدھو بابو لین، کلکتہ-7 میں شری چنڈی پرساد رکشِت  کا اپنا دو منزلہ مکان ہے۔ چنڈی بابو ساری زندگی پاس ہی کے ایک جونیئر سیکنڈری اسکول میں ماسٹری کرتے رہے اور چار سال پہلے ہی ریٹائر ہوئے ہیں۔پاڑے(محلے) کے سبھی لوگ عزت سے انہیں ماسٹر موشائی کہتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا پریوار ہے۔ پتنی بارہ سال پہلے کینسر سے سدھار گئیں۔ میری یاد میں ان کی ایک آدھ جھلک سی بچی ہے۔خوب گوری اور سندر تھیں۔ ماسٹر موشائی کی بڑی بیٹی اُما اپنی سسرال بدّھرمان میں سکھ سے رہ رہی ہیں۔منجھلی لڑکی رما، شادی کے دو سال بعد ہی بیوہ ہوکر اب یہیں پر رہا کرتی ہیں۔ بالکل اپنی ماں پر گئی ہیں۔چہرے پر ماں درگا کی عظمت اور کشش کے آثار۔رما کو پاڑے کے ہم سبھی لڑکے میج دی (منجھلی دیدی) کہتے ہیں۔ ان کے بعد ایک لڑکا نوییندُو ہے جو پارک اسٹریٹ میں کہیں کام کرتا ہے۔ ہمیشہ بجھا بجھا دکھتا ہے۔کام کا پریشر اور ماسٹر موشائی کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اس سے چھوٹی ایک لڑکی شیاما (جسے سب ٹُسی کہتے ہیں)بالی گنج شِکشا سدن میں آٹھویں کی طالبہ ہے۔نوییندو کی شادی اس کی ماں کی زندگی میں ہی ہوگئی تھی۔پتنی جھُمپا خوبصورت اور مزاج کی تھوڑی تیز ہے۔نوییندو سے ایک نو سال کا لڑکا بھی ہے جسے سب میٹھو کہتے ہیں۔

یہ رہا اس پریوار کے لوگوں  کامختصر تعارف، جسے درگا پوجا سے پہلے تک موٹے طور پر ایک سکھی پریوار کہا جاسکتا تھا۔چنڈی بابو، رمادی، نوییندو، جھُمپا، ٹُسی اور میٹھو۔یہ چھ لوگ ان چھوٹی موٹی کھینچ تان، جو لگ بھگ ہر پریوار کا ایک اٹوٹ انگ ہوتی ہے، کے بعد بھی بڑے میل ملاپ سے رہتے آئے تھے۔پریوار میں سب سے زیادہ  معصوم اور ملنسار ہیں میج دی۔دیکھا جائے تو وہی گھر کی اصلی مالک ہیں۔ تجوری کی چابیاں انہیں کے پلو میں بندھی ہوتی ہیں اور نوییندو جو بھی کماکر لاتا ہے، سیدھا انہیں کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔اس کے باوجودبھی غرور ان کو چھو تک نہیں گیا ہے۔ ویسے پریوار کے سبھی لوگ شانت اور سیلقہ مند تھے۔اسی وجہ سے پاڑے میں سبھی لوگ ان کے ساتھ عزت  اورمحبت  سےپیش آتے تھے۔لیکن درگا پوجا کے دوران ہونے والے اس چھوٹے سے واقعے نے اس پریوار کے لوگوں کے آپسی رشتوں کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور بڑے دردناک طور پر اس خاندان کے لوگوں کے درمیان رشتوں کے سبھی تانے بانے ایک دوسرے سے الجھ کر ٹوٹ  اوربکھر گئے۔

میرے ایک دوست کے مطابق پَشٹھی پوجا سے دو دن پہلے پوجا کے موقع پر نوییندو کے آفس سے ملنے والے بونس کے سلسلے میں نوییندو اور جھمپا میں ایک چھوٹی سی جھڑپ ہوئی تھی۔ جھپما چاہتی تھی کہ پورا کا پورا بونس اب کی نوییندو اس کے ہاتھ میں دے۔ اس کی خواہش تھی کہ اس بار وہ پوجا میں نئی نئی آئی دیوداس اسٹائل کی ساڑی پہنے۔ ہوا یہ کہ اسی دوران چنڈی بابو کو  حسب معمول چیک اپ کے لیے جانا تھا۔چنانچہ نوییندو نے اپنی سادہ مزاجی کے تحت سارا کا سارا بونس میج دی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔وہ میج دی کا مزاج اچھی طرح سے جانتا تھا۔ میج دی اتنی بھی بے حس نہیں تھیں کہ بونس کا ایک ٹکڑا بھی جھمپا کو نہیں ملتا۔یہ بھی ہوسکتا تھا کہ پورے پیسے ہی جھمپا کو مل جاتے۔ آخر پوجا سال میں ایک ہی بار آتی ہے۔لیکن جھمپا کو اس بات سے تکلیف تھی کہ پہلے سے کہہ دیے جانے کے باوجود نوییندو نے پیسے میج دی کو کیسے دے دیے۔

ویسے میج دی اور جھُمپا  میں شروع سے ہی نہیں بنتی تھی۔دونوں میں ایک آدھ بار کہا سنی کی نوبت بھی آگئی تھی۔جب نوییندو نے پورے پیسے میج دی کو دے دیے تو وہ کافی خفا ہوگئی اور اول جلول بکنے لگی۔حالات کافی بگڑ گئے۔کہا جاتا ہے کہ نوییندو نے جھمپا پر ہاتھ بھی اٹھا دیا تھا جو کہ اس کے شانت اور معاملہ فہم مزاج کو دیکھتے ہوئے ناممکن سا معلوم پڑتا تھا۔لیکن یہ تو محض شروعات تھی۔ اصل گھٹنا اس کے بعد کی تھی۔

دو دن بعد پشٹھی پوجا کی شام کونوییندو اور جھمپا خریداری کے لیے نکلے تھے۔اب آپ یہ نہ پوچھیں کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی جھمپا کیسے سب کچھ بھول بھال کر خریداری کے  لیے نکل پڑی۔پوچھنے پر شاید بتابھی نہ پاؤں گا۔مجھے جو پتہ چلا، وہ یہی ہے۔ویسے بھی کہاوت ہے، بنگالی عورتوں کے دل کی بات ایشور بھی نہیں جان سکتا۔تو سچ یہی ہے کہ پشٹھی پوجا کے دن نوییندو اور جھمپا پوجا کی خریداری کرنے نیو مارکیٹ کی طرف آئے تھےاور اسی دن وہ گھٹنا گھٹی جو دراصل کسی کے ساتھ بھی گھٹ سکتی تھی۔

۔۔۔بات یہ ہوئی کہ نیو مارکیٹ کی ایک دوکان سے کچھ کپڑے لے کر جیسے ہی نوییندو اور جھمپا باہر فٹ پاتھ پر آئے، پوجا کے دوران بھیڑ کافی ہونے کے کارن جھمپا کو ایک ہلکا دھکا لگا۔ دھکے سے وہ سنبھل نہیں پائی اور اس کے ہاتھ میں تھما ہوا تھیلا نیچے گرپڑا۔وہ اسے اٹھانے کے لیے جھکی  ہی تھی کہ پیچھے سے ایک بھکاری نما چھوکراآیا اور اس کے جسم سے کافی  غیر شائستگی سے جاٹکرایا۔یہ جان بوجھ کر کی گئی بدمعاشی تھی۔ جھمپا کو غصہ آیا۔ پیچھے مڑی تو وہ پلٹ کر جارہا تھا۔وہ بجلی کی تیزی سے اس پر جھپٹی اور اس سے پیش تر کہ وہ کچھ سمجھ پاتا، اس کے گال پر جھمپا کا ایک زناٹے دار طمانچہ پڑچکا تھا۔نفرت سے کانپتی ہوئی جھمپا پوچھ رہی تھی۔۔۔’تومارلجا کرے نا؟'(شرم نہیں آتی تجھے؟)

اس بیچ نوییندو دس ایک قدم آگے بڑھ چکا تھا۔ پیچھے شورو غل سن کر اور جھمپا کو اپنے آس پاس نہ پاکر وہ دوڑا ہوا آیا۔ تب تک وہ چھوکرا کسی بگڑیل  دبنگ کی طرح جھمپا کے بال پکڑ کر کھینچ رہا تھا اور جھمپا لگاتار اسے طمانچے مارتی جارہی تھی۔ بھیڑ میں جٹے ہوئے مہذب تماشائی ماجرے کو سمجھ نہیں پارہے تھے اور دور سے ہی ہئی چئی (لگاتار شورو غل) کررہے تھے۔نوییندو فوراً جھپٹا اور کسی طرح دونوں کو الگ کرتے ہوئے جھُمپا سے پوچھا۔۔’کی ہولو، بیاپار ٹاکی؟’ (کیا ہوا؟ معاملہ کیا ہے؟)

اب چھوکرا الگ کھڑا جھمپا کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرارہا تھا۔جھمپا غصے سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ نوییندو کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اس نے جھمپا سے پوچھا کہ کیا یہ لڑکا تمہاررا پرس لے کر بھاگ رہا تھا؟۔۔جھمپا خاموش،آنکھیں تریرتے ہوئے مستقل اس چھوکرے کو گھور رہی تھی اور ہانپ رہی تھی۔اس سے پہلے کہ نوییندو اور کچھ پوچھتا یا کرتا، اچانک اس فقِٹّے لڑکے نے جھپٹ کر جھمپا کے چہرے کو چوم لیا اور بھیڑ کو چیرتا ہوا مخالف سمت میں بھاگ کھڑا ہوا۔یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ سب ہکابکا رہ گئے۔ نوییندو صدمے سے چپ ، بھیڑ میں گم ہوگئے اس لڑکے کی طرف تاکتا ہوا کھڑا رہ گیا۔ جھمپا کچھ دیر حیران کھڑی رہی، پھر وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔

جس گھٹنا کی چرچا میں کرتا آیا تھا، وہ اتنی سی ہی تھی۔کلکتہ ، دلی جیسے مہانگروں کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی بڑی بات نہیں کہی جاسکتی۔بس، ٹرام یا لوکل ٹرینوں کی بھیڑ میں روزانہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لڑکی اچانک محسوس کرے کہ پیچھے والا آدمی اس کے بدن سے سٹ گیا ہے یا اغل بغل کا کوئی شخص بھیڑ کا فائدہ اٹھا کر اس کے بدن پر اپنی لجلجی انگلی پھیرنے  لگا ہے۔ کچھ چپ چاپ تھوڑا پرے ہٹ کر بے عزتی کے اس کڑوے گھونٹ کو پی لیتی ہیں تو کچھ تھوڑا بہت سامنا کرتے ہوئے اس کی ہلکی پھلکی مخالفت بھی درج کراتی ہیں۔جھمپا بھی چپ چاپ اپنا تھیلا اٹھا کر آگے بڑھ سکتی تھی۔ وہ چھوکرا تو پلٹ کر واپس جارہا تھا۔ اس کے بعد سب کچھ معمول پر آجاتا۔نوییندو کسی فلم کا ٹکٹ لے آتا اورجھمپا نقلی غصے سے بھر جاتی کہ وہ بڑا فضول خرچ ہوگیا ہے۔ واپسی میں وہ کہیں رک کر پھُچکا (بتاشے) یا جھال مُڑی کھاتے اور گھر کے محفوظ خول میں جادبکتے۔کہیں کوئی  پریشانی نظر نہ آتی۔بستر میں مصنوعی تکبر کرتے ہوئے جھمپا بھول ہی جاتی کہ نیو مارکیٹ میں اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا بھی ہوا تھا۔

میرا ماننا ہے کہ اگر جھمپا کے ساتھ اس دن نوییندو کی جگہ ٹُسی یا گھر کا کوئی اور فرد ہوتا تو شاید جھمپا سہہ بھی لیتی۔نوییندو اس کا پتی تھا۔اسی وجہ سے بھلے جو کچھ ہوا، اس میں نوییندو کا کوئی قصور نہیں، اس کے باوجود وہ جھمپا کی نگاہ میں گنہگار بن گیا تھا۔ کم سے کم آگے جو کچھ بھی ہوا، اس سے اسی بات کی تصدیق ہوتی ہے۔

نیو مارکیٹ سے نوییندو اور جھمپا کیسے گھر لوٹے، اس بات کی تفصیل میں جانا بے کار ہے۔لوٹنے کے بعد جھمپا گھنٹوں اپنے کمرے میں بند پڑی  روتی رہی۔ نوییندو، میج دی، ٹسی، میٹھو۔۔یہاں تک کہ خود چنڈی بابو آئے اور دروازہ کھولنے کے لیے آواز لگا لگا کر ہار گئے۔اندر وہ روتی رہی اور کسی کی نہیں سنی۔آج دنیا میں کوئی اسے اپنا نہیں لگ رہا تھا۔بستر پر تکیے میں منہ ڈال کر وہ روتی رہی اور روتے روتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔دوسرے دن صبح کے اجالے میں وہ ایک دوسری ہی جھمپا تھی۔ آنکھیں سوجی ہوئی اور بہت زیادہ پھول گئی تھیں۔بال بکھرے ہوئے تھے۔میج دی نے زبردستی اسے دو نوالے بھات (چاول) کھلایا۔رات میں وہ بغیر کھائے ہی سو گئی تھی۔ اس  کے  کچھ بھی نہ پوچھنے کے باوجود میج دی نے اطلاع دی کہ نوییندو آج جلدی ہی آفس کے لیے نکل  گیا ہے اور یہ بھی کہ جھمپا کی اسے بہت فکر ہورہی تھی۔ نوییندو کا نام آتے ہی جھمپا کے چہرے پر نفرت اور ہمدردی کا ایک ملا جلا تاثر پیدا ہوا اور ایک عجیب سی طنزیہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔یہ دیکھ کر میج دی کسی انہونی کے اندیشے سے اندر تک کانپ گئیں۔

دوپہر ڈیڑھ پونے دو بجے کی بات ہے، جھمپا نہا کر برآمدے میں بیٹھی اپنے بال سکھا رہی تھی۔ ہاتھ میں ایک کتاب تھی، جس کے پنے ہوا میں پھڑپھڑا رہے تھے۔ اپنی آنکھیں چھت سے لگائے وہ کہیں کھو سی گئی تھی۔ تبھی نیچے اسکوٹر کی جانی پہچانی آواز اس کی یکسوئی میں خلل انداز ہوئی۔نوییندو آج دوپہر میں ہی گھر لوٹ آیا تھا۔ جھمپا اٹھی اور بھیتر چلی گئی، جہاں میج دی بیٹھی اپنے بلاؤز میں بٹن ٹانک رہی تھیں۔ جھمپا نے کہا۔’ایئجے میج دی، آپنار بہادربھائی تو آج کے ایئی بیلائے پھرے ایشیچھے!'(سنتی ہیں منجھلی دیدی، آج تو آپ کا بہادربھائی اسی پہر لوٹ  آیا  ہے۔)

یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔میج دی اس کے اس رویے سے حیران اس کی طرف دیکھتی رہ گئیں۔اس کے ہونٹوں پر وہ صبح والی طنزیہ مسکان رینگ رہی تھی۔ اوپر آکر نوییندو سیدھا  اپنے کمرے میں ہی چلاآیا۔جھمپا کتابوں کی ریک کے پاس کھڑی اسے نہار رہی تھی۔گھونسلے کے پاس پڑی کرسی پر ہیلمٹ رکھتے ہوئے نوییندو نے ایک نظر جھمپا کو دیکھا۔ وہ اب بھی مسکرا رہی تھی۔نوییندو کو امیدوں کا ایک پُل نظر آیا۔آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھتا ہوا وہ اس کے پاس آیا۔ وہ وہیں کھڑی مسکراتی رہی۔اسے چھونے کے لیے نوییندو نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔وہ یونہی اٹل کھڑی رہی۔نوییندو اور پاس آگیا تھا۔ اس کی سانسیں بھاری ہوتی جارہی تھیں اور انگلیاں اب جھمپا کے چہرے کو ٹٹول رہی تھیں۔ کچھ پل ایسے ہی بیتے۔پھر جیسے ہی اپنے چہرے کو پاس لاکر وہ اسے چومنے کو بڑھا، یکایک ایک دھکے سے پیچھے بستر پر جاگرا۔اس نے دیکھا، جھمپا کے چہرے پر وہی نفرت رقص کررہی تھی جو کل رات نیو مارکیٹ میں اس چھوکرے کے خلاف اس کے چہرے پر ابھر آئی تھی۔

میرے خیال سے جھمپا نے اس کے لیے ٹھیک انہیں الفاظ کا استعمال کیا ہوگا۔’تومار لجا کرے نا؟’بے عزتی اور حقارت کے احساس سے چوٹ کھاکر نوییندو ایک جھٹکے سے باہر برآمدے میں چلا آیا ہوگا۔برآمدے میں کچھ دیر کھڑا رہا ہوگا۔پیچھے وہی کمرا کھلا پڑا تھا جہاں جھمپا   اپنے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکان سجائے کھڑی ہوگی۔وہ کوئی دوسری ہی جھمپا تھی جس کی طرف دیکھنے کی بھی آج اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ اس کے بعد کیا بچا رہتا ہے؟ وہ دھڑدھڑاتے ہوئے سیڑھیاں اتر گیا۔اسے اس بات کا پچھتاوا ہورہا تھا کہ آج وہ دفتر سے جلدی کیوں آگیا؟چلا بھی آیا تو کیا ضرورت تھی جھمپا کو چھونے کی۔۔۔لیکن جو بھی ہو، اس نے کیا غلط کردیا؟ جھمپا نے اس کا اپمان کیا ہے۔چاہے جس طرح ہو، اس جھمپا کے غرور  کو چور چور کرنا ہی ہوگا۔

حالات دھیرے دھیرے اور بگڑتے چلے گئے۔یہ خوش فہمی سبھی کو تھی کہ جھمپا کے تحت الشعور میں اندر تک دھنسے کانٹے  کو گزرتا ہوا وقت باہر نکال پھینکے گا۔۔اس کے الٹ وہ کانٹا کہیں اندر ہی اٹکا ہوا سڑنے لگا اور زخم کی شکل میں  روز بروز بگڑتا چلا گیا۔نوییندو اور جھمپا کے درمیان  کوئی بات چیت  کا عمل باقی نہ رہا۔دیکھا جائے تو پورے پریوار  پرہی کسی منحوسیت کی کالی پرچھائیں رینگ رہی تھی۔ چنڈی بابو اپنا زیادہ تر وقت گھر کے باہر رہ کر گزارنے لگے۔میج دی پوجا پاٹھ،مالا اورمشیت ایزدی کا مستول پکڑے کسی طرح  بچاؤ کی امید رکھتی تھیں اورپورے قضیے سے باہر کردیے جانے کے سبب ٹُسی اور میٹھو کے دن بھی بھاری ہوگئے تھے۔گھر کی حالت کچھ ایسی ہوگئی تھی جیسی کالے  گہرے بادلوں سے گھری دھرتی کی ہوتی ہے۔دم گھونٹ لینے والی اُمس سے بے چین  چرند وپرند ایک زوردار بارش کی امید میں آسمان کی طرف ٹکٹکی لگائے رکھتے ہیں۔بھلے ہی اس بھاری بارش میں سیلاب کا خطرہ ہو مگر کسی طرح اس حبس سے تو جان چھوٹے۔

ایک دن بڑی ہمت کرکے ٹسی ، جھمپا کے پاس جا بیٹھی۔اب تک تو ٹسی اور میٹھو کو اس گھٹنا کے بارے میں بتایا نہیں گیا تھا، لیکن گھر کے ماحول سے وہ بھی آشنا تھے۔ خاص کر ٹسی اتنی بچی نہیں تھی کہ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آئے۔ کچھ دیر وہ  بنا کوئی حرکت کیے چپ چاپ بیٹھی رہی۔جھمپا بھی چپ لیٹی چھت کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پہلو بدلنے کے لیے ٹسی بستر کے پاس رکھی تپائی پر پڑی ایک میگزین اٹھا کر الٹنے پلٹنے لگی۔ بنگلہ کا کوئی رسالہ تھا۔ پڑھے بغیر وہ بس یوں ہی پنے پلٹتی رہی کہ اچانک اس کا جی دھک سے رہ گیا۔ بجلی کی تیزی سے اس نے میگزین بند کر  کے  جیسے کا تیسا رکھ دیا۔ شرم سے اس کا منہ لال ہورہا تھا۔ دیکھا، جھمپا کے ہونٹوں کی کور میں ایک مسکان اٹکی ہوئی تھی۔ہاں، آج بہت دنوں بعد جھمپا ہنسی تھی۔ وہی پرانی اجلی ہنسی۔ٹسی بھی ہنسنے لگی۔ ہنستے ہوئے ہی  اس نے کہا۔’ایسی کوئی میگزین اوپر نہیں رکھنی چاہیے۔اگر میٹھو کے ہاتھ لگ جاتی تو؟’

جھمپا نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔’اور تو کیا بہت بڑی ہوگئی ہے ری؟’

ٹُسی شرما گئی۔ بولی۔’بچی بھی تو نہیں رہی۔سب سمجھتی ہوں۔’

لیکن ٹُسی نہیں  سمجھ سکی کہ اس بیچ جھمپا کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔اس کی ہنسی غائب  ہوگئی تھی۔ اچانک اس نے ٹُسی کو اس کے کندھوں سے پکڑ  لیا اور جھنجھوڑتے ہوئے پوچھنے لگی کہ آج تک اسے کسی نے چھیڑا ہے؟ کیا کسی نے اسے چوما ہے؟

ٹسی خاموش تھی، جیسے اس کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا ہو۔اب وہاں سے ہٹ جانا ہی اس کے لیے بہتر تھا۔

جھمپا اسے بے طرح جھنجھوڑ رہی تھی۔ ‘کیا کسی نے تمہارے جسم کو نہیں چھوا؟ کیاکسی نے تمہیں۔۔۔’

وہ اول فول بکنے لگی تھی۔’سنو ٹسی، وہاں ہوسکتا ہے تمہارا بھائی ہو۔۔ہوسکتا ہے تمہارا پتی ہو۔۔لیکن کسی سے کوئی  امید نہ رکھنا۔وہ تمہیں چھیڑے گا اور وہ کچھ نہیں کرپائیں گے۔وہ تمہیں اس طرح۔۔۔’

اس سے پہلے کہ ٹسی وہاں سے اٹھنے کا جتن کرتی ،جھمپا نے اسے بستر پرگرا دیا اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگی۔۔۔کیا آج تک کسی نے تمہیں۔۔۔جھمپا نے اب اپنے دانت گاڑنا شروع کردیے۔ادھر اس کے ہاتھ ٹسی کے بدن کے اب تک  کے تمام ان چھوئے حصوں کو روندنے لگے۔ٹُسی ، جھمپا کو پرے دھکیلنا چاہتی تھی، چیخنا چاہتی تھی۔لیکن جھمپا اس پر بھاری پڑ رہی تھی۔ٹسی کو لگا۔ اب  کوئی امید نہیں، اس کا دم گھٹنے  والا ہے۔۔کہ اچانک کسی نے جھمپا کو بستر سےنیچے گراکر اسے جیسے زندگی واپس لوٹادی۔۔ٹُسی کو سنبھلنے میں کچھ وقت لگا۔اس کے ہونٹوں پر خون کی بوندیں چھلک آئیں تھیں۔ ادھر جھمپا چیخ رہی تھی اور نوییندو اسے بے تحاشاپیٹ رہا تھا۔

یہ سب اشٹمی کے دن ہوا۔ جھمپا وحشت  کی ان اندھیری گھاٹیوں میں تھی جہاں اس کے سوا ، اس کے جسم تک ابھی کسی کی رسائی نہیں ہوپارہی تھی،چنانچہ اس کے بدن پر نوییندو کے حملے بس کچھ نامعلوم قسم کی حرکتیں پیدا کرکے ہوا میں تحلیل ہوتے جارہے تھے۔ان کا جھمپا پر کہیں کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔وہ چیخ رہی تھی تو اس لیے کہ اسے نیم بے ہوشی کے اس اندھیرے میں اپنے بدن کی کمی کھل رہی تھی۔کیا ہماری سو خواہشوں  سے بڑی خواہش یہ نہیں کہ ہم اس دھرتی کو بدن سمیت الوداع کہیں؟ لیکن دھرتی کی سطح  کو چھوڑتے ہی ہمیں جسم بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔کیا اس لیے ہمارے پرکھوں کی روحیں ہم میں بار بار لوٹنا چاہتی ہیں؟ جسم سے پرے بھی تو محض جسم کی ہی خواہش باقی بچتی ہے۔جھمپا چیخ رہی تھی تو صرف اس لیے کہ وہ اپنے بدن کو پکار رہی تھی۔ وہی بدن جو اجالے میں نوییندو کے حملوں کے نیچے لتھڑ رہا تھا۔

۔۔۔جھمپا کو جب ہوش آیا تب تک نوییندو پست ہوکر بستر پر جاپڑا تھا۔میج دی، جھمپا کے پاس بیٹھی اپنے آنچل سے ہوا کررہی تھیں۔ٹُسی اور میٹھو وہیں کہیں آس پاس تھے  اور چنڈی بابو لاچار اپنے  کمرے میں پڑے تھے۔

اس گھٹنا کا سیدھا اثر جس پر ہوا، وہ تھی ٹُسی۔جو کچھ بھی ہوا، اس کی تہہ میں جاکر اس کے اسباب کی پڑتال کرنے کے لحاظ سے تو وہ ابھی بچی ہی تھی،لیکن جو کچھ بھی ہوا تھا، اس کو جھیلنے کی مناسبت سے وہ اتنی بھی بچی نہیں تھی کہ اس پر کوئی اثر ہی نہ پڑتا۔ اس کی تمام لاعلمی کے باوجود اس کی رگوں میں ایک عجیب سی سازش انگڑائی لے رہی تھی۔اچانک ہی اسے ایک ایسی چابی مل گئی تھی جس سے اس کے جسم کے اب تک کے تمام بند دروازے کھل  رہے تھے۔جھمپا کا وحشت آمیز لمس  اب بھی اس کے بدن کی سطح پر لرزش پیدا کررہا تھا۔ وہ  تھوڑا رک کر دیکھنا چاہتی تھی کہ یہ زہر آخر کہاں تک چڑھتا ہے۔ آخر کہاں چبھتی ہیں اس  عمل ممنوعہ کی سوئیاں۔

جھمپا کے ہوش میں آنےتک ٹُسی اور میٹھو وہاں سے کھسک چکے تھے۔نوییندو دوسرے کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ کچھ دیر تک میج دی، جھمپا کے پاس ہی بیٹھی رہیں۔آج جو ہوا، اس کے بارے میں سوچ سوچ کر بار بار ان کا کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ یہ سب اچانک کیا ہوگیا؟ سینکڑوں میں ایک  سکھی پریوار تھا ان کا۔جانے کس کی نظر لگ گئی اس کے امن چین کو۔ٹسی کے لیے کیسی محبت تھی جھمپا کے دل میں۔بیٹی کی طرح مانتی تھی اسے ۔ اور آج وہی جھمپا، ٹسی کے ساتھ  اس طرح کا سلوک کر بیٹھے گی، یہ بھلا کس نے سوچا تھا۔

میج دی کو سب سے زیادہ کسی پر ترس آرہا تھا تو وہ ان کے پِتا چنڈی بابو تھے۔ بڑھاپے میں یہ سب دیکھ سن کر کیا کچھ بیت رہی ہوگی اس شریف انسان پر۔اس جھمپا کے کارن جو نہ ہو، وہ کم ہے۔اسے لوگوں کا بھی کچھ خیال نہیں، بس اپنے میں گم ہے۔ ارے کس کے ساتھ نہیں ہوتا ایسا؟ کون ایسی خوش قسمت عورت ہے جو اس عذاب سے چھوٹی ہو؟ عورتوں کو تو گھر میں اپنے بھائیوں وائیوں سے بھی خود کو بچاکر چلنا پڑتا ہے۔ لیکن کون سمجھائے اسے؟ میج دی کا دل بے چین ہورہا تھا۔ پاس لیٹی جھمپا کے لیے من میں کبھی غصہ ابلتا تو کبھی ہمدردی۔وہ جھمپا کے ماتھے کو سہلانے لگتیں۔بار بار جانے کیا سوچ کر ان کی آنکھیں بھر آتی تھیں۔

ہوش آنے کے بعد جھمپا بڑی دیر تک چپ رہی۔ اس کے اندر کا سب کچھ اچانک شونیہ ہوگیا تھا۔یاد کے ایک بہت مہین دھاگے سے بندھا پیچھے چھوٹ چکا  سارا کچھ دھیرے دھیرے گھسٹتا آرہا تھا اور جھمپا کی ذہنی ابتری کی کوئی حد نہیں تھی۔ٹُسی کے ساتھ اس نے جو کچھ  بھی کیا ، وہ اس کی واحد بدتہذیبی تھی۔ اس کے منہ میں چھچھورے پن کا ایک بجھتا سا سواد گھل رہا تھا جسے وہ فوراً تھوک دینا چاہتی تھی۔ جب وہ تھوکنے کو اٹھی تو مضمحل بدن کو میج دی نے سہارا دیا۔کمر کے پاس ایک ہلکی سی چمک اٹھی اور اس نے فرش پر تھوک دیا۔ لِسلِسی رال میں خون کے چھوٹے چھوٹے تھکے تیر رہے تھے۔ جھمپا کو یاد آیا کہ نوییندو نے اس کے بدن پر اپنی مردانگی کے ثبوت کے طور پر کچھ چوٹیں چھوڑی ہیں۔ تھوڑی طاقت سے اس نے دوبارہ تھوکا۔ میج دی کہاں سمجھ سکیں کہ اس بار اس کے تھوکنے  کا سبب کیا تھا۔

ادھر دوسرے کمرے میں لیٹے نوییندو کا من بھی کچھ بے چین ہورہا تھا۔شروع شروع میں اسے  تشفی ہوئی کہ بہت دنوں سے ٹھہرے ہوئے تشدد کو آج جھمپا پر انڈیل کر اس نے جھمپا کے تکبر کو پاش پاش کردیا ہے۔مگر بعد میں پچھتاوے نے گھیر لیا۔اپنے ماں باپ، عزیز رشتہ داروں سے دور جھمپا یہاں پر آخر اسی کی پتنی بن کر تو آئی تھی۔ اور آج اگر اسی نے اسے پیٹ کر رکھ دیا ہے تو اس بے چاری پر کیا بیت رہی ہوگی۔اسے یہ سوچ کر بھی افسوس ہو رہا تھا کہ کہ جھمپا کے ساتھ اس برے برتاؤ کا سبب  ہی شایدیہ تھا کہ وہ اس کے گھمنڈ کو اپنے پیروں تلے کچلنا چاہتا تھا۔

پھر ٹھہرے پانی والے پوکھر میں جس طرح کوئی کنکر مار دیتا ہے اور لہریں پانی کا حلیہ بدلنے لگتی ہیں ۔ وہ سوچتا کہ جھمپا نے ٹُسی کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ کیا غیر انسانی نہیں تھا؟ ٹُسی تو خیر بچی ہے، لیکن میج دی کیا سوچیں گی؟ یہی نا کہ نوییندو اب مردکہلانے کے لائق نہیں رہا، تبھی تو جھمپا ٹسی کے ساتھ۔۔۔اففف۔۔۔جانے بات کہاں سے کہاں جائے گی! جھمپا کی ایک حرکت کی وجہ سے آج وہ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہا۔ آخر جھمپا نے اس میں کون سی ایسی کمی دیکھی کہ ٹُسی پر اپنی ہوس انڈیلنے لگی؟ اور ایسی عورت کے ساتھ اگر اس نے غیر انسانی سلوک کیا  بھی تو کیا غلط کیا؟

علاقے کے پارشد چِنیم دا (جو نوییندو کے دوست ہیں) نے مجھے بتایا کہ اس دن شام کو نوییندو ان کے یہاں آیا تھا۔وہ خاندان سمیت پوجا دیکھنے کے لیے نکل رہے تھے، اس لیے نوییندو کو زیادہ وقت نہیں دے پائے۔ کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی۔ چِنیم دا نے بتایا کہ نوییندو ان سے کچھ نہیں چھپاتا۔اس شام وہ یہی مشورہ کرنے آیا تھا کہ ایسے عجیب و غریب حالات میں کیا کرنا اس کے لیے بہتر ہوگا۔چِنیم دا نے اسے سجھاؤ دیا تھا کہ گھر والوں کا آشیرواد لے کر وہ اور جھمپا کچھ دنوں کے لیے شہر سے دور کسی لبھاونی جگہ پر چلے جائیں۔ نوییندو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا، حالانکہ اسے یہ مشورہ ایک حد تک ٹھیک لگا۔ اصل پریشانی تو یہ ہے کہ جھمپا کو راضی کرنے  کے لیے اس سے بات تو کرنی ہی  پڑے گی۔ اور وہ تو کسی ادھ کچلی ناگن کی طرح پھن پھیلائے بیٹھی ہوگی۔کسی کی مداخلت سے بھی کام نہیں چلنے والا۔پھر بھی کوئی ترکیب تو نکالنی ہی پڑے گی۔

نومی کے دن ہمت بٹور کر نوییندو، جھمپا کے پاس گیا۔ جھمپا چپ اسے ایک ٹک دیکھے جارہی تھی۔ نوییندو کمرے میں تو آگیا تھا، مگر اب اس کی ہمت نہیں  ہورہی تھی کہ جھمپا سے کچھ کہے۔ وہ جھوٹ موٹ کتابیں الٹنے پلٹنے لگا۔ جھمپا کی نظریں اس کے بدن میں سوئی کی طرح چبھ رہی تھیں۔ نوییندو کو اپنے آپ سے ناامیدی محسوس ہوئی۔ایسے کیسے کام چلے گا؟ کچھ تو کہنا ہی ہوگا۔برف کی اوپری ٹھوس سطح کسی طرح ہٹ جائے تو نیچے کا سب کچھ نرم ہوگا۔نوییندو پلٹا اور کچھ نہ سوجھا تو یہی کہہ بیٹھا کہ جھمپا اسے اس طرح کیوں دیکھ رہی ہے۔ماحول کو ہلکا بنانے کے لیے اس نے یہ بھی کہا کہ اس طرح دیکھنا اسے کچھ عجیب لگ رہا ہے۔ایسا لگ رہا ہے، جیسے وہ چڑیا گھر سے ابھی چھوٹ کر آیا ہوا کوئی انوکھا جانور ہو۔۔۔یہ کہنے کے ساتھ ہی  اسے محسوس  ہوا کہ اس نے غلط الفاظ چن لیے ہیں اور باتوں کی شکل ٹھیک وہ نہیں بن پائی جو بننی چاہیے تھی۔ جھمپا نے کسی طرح کا رد عمل نہ دیا۔نوییندو کے پاس یہ دوسرا موقع ہے۔ اس نے من ہی من سوچا کہ اس بار وہ سیدھا وہی بولے گا جو اسے بولنا چاہیے۔ ادھر ادھر کی کوئی بات نہیں کرے گا۔

لیکن نہیں۔نوییندو کی بات خالی نہیں گئی۔اسے افسوس ہوا۔ جھمپا کے ہونٹ ہلے۔۔جانور تو تم ہو ہی۔۔جھمپا نے جیسے ہر شبد کو تول کر کہا۔ نوییندو ہکا بکا رہ گیا۔ اسے ہرگز ان الفاظ کی امید نہیں تھی۔ایک پل آیااور چلا گیا۔ اس پل نوییندو اگر سنبھل جاتا تو بات ٹل جاتی۔ لیکن نصیب کے پھسلونے راستے پر نوییندو  کا خود پر کوئی قابو نہ رہا تھا۔ ایک اچانک پیدا ہونے والا اضطراب اور کہانی میں سب کچھ امید کے بالکل برخلاف۔۔۔۔

‘کیا کہا؟ میں جانور ہوں؟’

‘ہاں، اس میں کوئی شک ہے؟’

نوییندو نے غصے میں اس کے بال پکڑ لیے۔’ذرا پھر سے کہنا۔۔۔’

اس سے پہلے کہ جھمپا اپنا منہ کھولتی، نوییندو اس کے منہ پر تھپڑوں کی بارش کرچکا تھا۔جھمپا کی آنکھوں سے شعلے ابلنے لگے۔وقت جیسے رک سا گیا۔اور تھوڑی دیر میں ہی ایک دھماکہ سا ہوا۔جھمپا نے حقارت سے نوییندو کے چہرے پر تھوک دیاتھا۔

‘تم ۔۔۔تم نامرد ہو۔’

نوییندو کی  روح بلبلا اٹھی۔ دماغ سن رہ گیا۔جذبات مشتعل ہواٹھے۔ اس کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ اس جھمپا کا وہ کیا کرے۔ غصے سے اس کی بھنویں تن گئیں۔

‘ہاں ہاں، تم نامرد ہو۔۔سنا تم نے؟ مجھے مارنے پیٹنے کے سوا تم کچھ نہیں کرسکتے۔ ہیجڑے ہو تم۔’

‘دکھاؤں میں؟ دکھاؤں تمہیں اپنی مردانگی؟ دیکھنا چاہتی ہو؟’

جھمپا بس پھنکارتی رہی۔ نوییندو کی پکڑ اور تیز ہوگئی۔ یوں لگا گویا وہ جھمپا کے سارے بال اکھاڑ پھینکے گا۔ جھمپا بری طرح چیخ رہی تھی۔۔۔جھمپا چیختی رہی اور نوییندو کسی بے رحم راکھشس کی طرح اسے مسلتا رہا۔ شادی کے بعد یہ پہلی بار ہوا تھا کہ جھمپا کی مرضی کے بغیر نوییندو اس کے بدن کو بری طرح روند رہا تھا۔ ہر حملے پر جھمپا کراہ اٹھتی اور نوییندو غصے کی حالت میں کہتا کہ دیکھو میری مردانگی۔۔چیخو، اور چیخو۔چیخو اور مرجاؤ۔مرنے کے بعد بھی آج تمہاری مکتی نہیں۔میں تمہاری لاش  پر بھی دکھاؤں گا اپنی مردانگی۔

پتی پتنی کے بیچ رشتوں  کی ساری مریادا اور عزت آج تار تار ہوگئی۔اس وقت برآمدے میں ٹُسی اور میٹھو موجود تھے۔ ٹُسی نے میٹھو کی آنکھیں موند دی ہوں گی۔ اور کچھ دیر بعد دونوں وہاں سے ہٹ بھی گئے ہوں گے۔۔۔دوسرے کمرے میں چنڈی بابو آنکھیں بند کیے بیٹھے ہوں گے۔ آوازیں یہاں تک آرہی ہوں گی اور چنڈی بابو کی بند آنکھوں کی کوریں پھیل رہی ہوں گی۔میج دی شاید رسوئی میں یا ادھر ادھر کہیں ہوں گی۔ جھمپا کے بدن پر ہورہے  حملوں کو اپنے بھیتر تک محسوس کرتی میج دی کہیں غائب ہوجانا چاہتی ہوں گی۔

تھوڑی دیر بعد نوییندو گھر سے نکل کر باہر چلا گیا۔ کمرے میں بستر پر جھمپا یوں ہی بے جان پڑی رہی۔اس کے کپڑے نچے کھچے اور بدن ادھڑا پڑا تھا۔چھاتی پر نوییندو کے دانتوں کے نشان بنے تھے اور وہاں خون کی بوندیں چھلک آئی تھیں۔بائیں کہنی کا نچلا سرا بری طرح چھل گیا تھا۔ پورے کمرے کی ہوا میں ایک سنسنی دوڑ رہی تھی۔

چنڈی بابو کی دوا کا وقت ہورہا تھا۔ میج دی دوائیوں کو لے کر چنڈی بابو کے پاس گئیں۔وہ کوشش کررہی تھیں کہ سب کچھ پہلے جیسا ہی دکھائی دے۔انہوں نے کئی بار اپنے چہرے کو دھویا تھا تاکہ کسی کو نہ لگے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ رو رہی تھیں۔ ساڑی کا پلو ٹھیک کیا اور بے حد نارمل  ہوکر چنڈی بابو کے پاس گئیں۔چنڈی بابو بھی اس طرح بیٹھے اپنا چشمہ صاف کررہےتھے جیسے کچھ جانتے ہی نہ ہوں۔ میج دی نے انہیں دوا دی۔دوا کھاکر وہ گلاس پکڑا رہے تھے کہ میج دی کے ٹھنڈے ہاتھوں کا لمس انہیں اندر تک بھگو گیا۔میج دی کی آنکھیں پہلے سے ہی نیچے فرش پر گڑی تھیں۔ چنڈی بابو انہیں دیکھتے رہے جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔چھوٹا سا سونا ماتھا، کھنچی ہوئی تھوڑی گھنی بھنویں، بھرے گال اور گردن پر گوشت کی دھاریاں۔۔۔تھوڑا پاس جانے پر میج دی بالکل اپنی ماں کی طرح لگتی ہیں۔

چنڈی بابو نے اپنی نظریں پھیر لیں۔میج دی دھیرے دھیرے جانے لگیں۔ دروازے تک پہنچیں تھیں کہ چنڈی بابو نے پکارا۔ وہ رکیں اوربنا مڑے وہیں کھڑی رہیں ۔چنڈی بابو پاس آئے اور بولے۔’تمہاری شادی مانِک تلّا کے پرانے زمیندار گھرانے میں  یہ سوچ کر کروائی تھی کہ اپنی بڑی بہن کی طرح تم بھی اپنی سسرال میں سکھ شانتی سے رہوگی۔ میں بدنصیب کیا  جانتا تھا کہ دو سال بعد ہی تمہیں یہ سفیدلباس پہن کر ہمیشہ کے لیے یہاں آنا پڑے گا۔۔۔جب سے تم آئیں، میری سیوا میں ہی دن رات لگی رہیں۔میں نے بھی ایک لالچی کی طرح کبھی جاننا نہیں چاہا کہ تمہاری بھی کچھ ضرورتیں ہو سکتی ہیں۔بیٹا ، اب بھی وقت ہے، اور یہ زمانہ بھی پہلے جیسا نہیں۔تم چاہو تو کسی کے ساتھ۔۔۔میں قطعی برا نہیں مانوں گا۔’

یہ سن کر میج دی یکبارگی کانپ اٹھیں۔اپنے کمرے میں آکر کچھ دیر چپ چاپ کھڑی رہیں۔۔۔اور اچانک ان کے بالکل اندر ، عرصے سے بند کواڑوں کو توڑتے ہوئے آنسوؤں کا ایک سیلاب امنڈ آیا۔وہ رونے لگیں۔۔ایک ایسی رُلائی ، جو کئی چھوٹی چھوٹی رُلائیوں کو ملتوی کرتے رہنے کے بعد سر اٹھاتی ہے۔بھیتر کی ساری تھکان جیسے بہہ کر سنسار میں اپنی جگہ کھوجنے نکل پڑی ہو۔سب عہد گزشتہ لوٹ آئے اور پریت بن کر بین کرنے لگے۔میج دی کا بیتا ہوا وقت بھی ان کے ساتھ ہچکیاں لے رہا  ہے۔اوپر طاق پر رکھی میج دی کے مرحوم شوہر کی تصویر رو پڑی ہے اور آسمان ان پر ترس کھارہا ہے۔

‘پِسی ماںِ کادچھو کینو؟’ میٹھو کھڑا تھا۔میج دی روتے روتے رکیں۔لیکن یہ رقت کا تھمنا نہیں تھا۔جیسے ہم چلتے چلتے دم لینے کے لیے ٹھہرتے ہیں اور پھر چلنے لگتے ہیں، کچھ ایسا ہی تھا۔میج دی نے میٹھو کو اندر لے کر دروازے کو بھیڑ دیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے ایک ٹک دیکھنے لگیں۔میج دی کے مرحوم شوہر کی تصویر کے شیشوں میں دکھ رہا ہے  میٹھو کا معصوم چہرہ۔میج دی کے اندر امنڈتا آرہا ہے ایک جوار اور میٹھو اس تصویر کی گہرائی میں ڈوبنے لگتا ہے۔ میج دی بے تحاشا میٹھو کو چوم رہی ہیں اورسب سنسار انتظار کررہا ہے۔سب کی طرف سے میج دی جدوجہد کررہی ہیں۔ان کی چھاتی میں  پوری دھرتی کے لیے دودھ اتر آیا ہے۔

میٹھو ایک ہزار سال بڑا ہوکر اپنے  کمرے میں پہنچا۔یہ کمرا ٹُسی اور اس کا مشترکہ کمرہ تھا۔ٹُسی کھڑکی سے باہر بڑا بازار کی گرد آلود سڑکوں کو دیکھ رہی تھی۔میٹھو چپ چاپ جاکر اس سے لپٹ گیا۔ ٹُسی چونکی نہیں۔مڑی بھی نہیں۔اسی طرح کھڑی باہر دیکھتی رہی اور میٹھو اس کے جسم سے پھسلتے ہوئے بے اندازہ برسنے لگا۔تھوڑی دیر بعد ٹُسی مڑی اور بستر پر آکر اپنی چوٹی کھولنے لگی۔آنکھیں کہیں اپنے اندر بجھی ہوئیں سی۔میٹھو کے بدن سے بھاپ کے نیلے روئیں اڑ رہے تھے۔ وہ ٹُسی کو نہار رہا تھا اور منظر میں دوسری طرف دنیا سونے کی تیاری کررہی تھی۔

آدھی رات کو ٹُسی کو ایک کھٹکا سا محسوس ہوا۔جاگتے ہی وہ جان گئی کہ وہ کہیں باہر نہیں، اس کے بدن کے اندر کی کھٹکھٹاہٹ تھی۔دوسری طرف میٹھو گہری نیند سو رہا تھا۔ ٹُسی اٹھی اور بنا آواز کیے کمرے میں ایک طرف چلی گئی۔باہر کی روشنی ، یہاں تک آرہی تھی۔ٹُسی نے دیکھا، اس کی ٹانگوں میں ہلکی کپکپاہٹ سی تھی۔وہ حیرت زدہ تھی۔صدیوں سے تنے جسم کی  چادر سے رِس کر لسلسے خون کا ایک گندا سا اُبال اس کی رانوں میں رینگ رہا تھا۔ ٹُسی نے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور کس کر آنکھیں موند لیں۔ کسی بخار کی شدت میں جیسے اس کے بدن کے ہر حصے کی  گرہیں کھل رہی ہوں۔۔۔وجیہ دشمی کی اس رات پورا کلکتہ گہری نیند میں   کروٹ لے رہا تھا۔کوئی نہیں جان سکا اس رات ٹُسی نے کتنی  خوف زدہ نظروں سے میٹھو کی طرف دیکھا تھا۔نیند میں غافل میٹھو اس کی کوئی مدد نہیں کرسکا۔

۔۔۔وہ رات دلی میں میری آخری رات تھی۔

٠٠٠

 

زندگی کی غیر یکسانیت  کہیں کہیں اتنی بھیانک اور تکلیف دہ ہوتی ہے کہ اس میں چکر گھنی ہو کر رہ جانے والے افراد کے بارے میں اچھے برے  یا صحیح غلط کا فیصلہ کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا۔یہاں ظالم  کبھی مظلوم دکھائی پڑتا ہے تو مظلوم کبھی ظالم۔زیر نظر کہانی میں بھی ایک ایسے چھوٹے سے خطرناک واقعے  کو بنیاد بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے ایک گھر کا پورا نفسیاتی، جنسی اور سماجی نظام تہس نہس ہوکر رہ جاتا ہے۔ کہانی یہ سوال بھی پوچھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ شہروں میں عام طور پر  پیش آنے والی ذلیل حرکتوں کو اگر کوئی فردیکدم نظر انداز کرنے سے انکار کردے تو صورت حال  کیا ایسی کروٹ بھی لے سکتی ہے؟

کُنال سنگھ ہندی کے کہانی کار اور مشہور ہندی رسالے ‘ون مالی کتھا’ کے مدیر ہیں۔ وہ 22 فروری 1980 کو  کلکتہ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے کلکتہ شہر سے ہی ہندی میں ایم اے کیا اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، دہلی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔’اُتّر جیوی’، ‘رومیو جولیٹ اور اندھیرا’ نام کے دو ناول لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ’ اتوار نہیں’، ‘سناتن بابو کا دامپتیہ’ اور ‘انیہ کہانیاں تتھا جھوٹ’ کے نام سے ان کے افسانوی مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔ یہ کہانی ان کے اسی موخرالذکر مجموعے سے لی گئی ہے۔