کیداری کی ماں

تمہید

حال ہی میں جب میں نے اخباروں میں ‘امامی اپالم’ ( خالا کے  پاپڑ)  کا اشتہار دیکھا تو حیران سا رہ گیا کیونکہ مجھے بھاگیر تی امامی یاد آ گئی تھیں۔  جب مجھے ان کے دلارے بیٹے اور اپنے بہترین دوست کیداری کی بے وقت موت کا خیال آیا تو میرے بدن میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔  کون سوچ سکتا تھا کہ کیداری کا یہ انجام ہو گا!  جب کبھی ایسے واقعات یاد آتے ہیں تو انسانیت پر سے ہمارا ایمان ڈگمگانے لگتا ہے اور تقدیر کے جبر پر یقین پختہ ہونے لگتا ہے۔ 

جب کیداری بیمار پڑا تو چینئی کا کون سا مشہور ڈاکٹر تھا جس نے اس کی جانچ نہ کی ہو۔  لیکن کوئی بھی کیداری  کا مرض تشخیص نہ کر سکا۔  وہ ہر طرح کی بیماریوں اور ان کی پیچیدگیوں کا بیان کرتے رہے اور علاج بھی کرتے رہے لیکن کیداری کو نہیں بچا سکے۔  وہ مر گیا۔ اپنے تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو معلق چھوڑ کر۔  اس کی وجہ سے ڈاکٹروں تک کی بڑی بدنامی ہوئی۔  کہاں کی ڈاکٹری! کیسے اس کے اصول! اور کیسے ڈاکٹر!  سب بکواس ہے!  سب کی زبان پر یہی تھا۔

میں یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ہر شخص پر یہ واضح ہوجائے کہ کیداری کے معاملے میں نہ تو ڈاکٹر کی کوئی غلطی تھی اور نہ ہی میڈیسن کے اصول غلط تھے۔  اس کی جسمانی بیماری کا تعلق اس کی ذہنی بیماری سے تھا،  اور اس کی ذہنی بیماری  ان سب  مجموعی بیماریوں کا نتیجہ تھی جن میں ہمارا معاشرہ مبتلا ہے۔  یہ بات ڈاکٹروں کی سمجھ میں کس طور آتی؟  اس کی پیاری اماں اور اس کی جواں سال بیوی تک کو اس کی  خبر نہ تھی۔  اس کا لنگوٹیا یار ، اس کا یارِجانی ، یعنی میں ہی اکیلا آدمی تھا جو اس راز سے واقف تھا۔  کیداری کی موت کے وقت میں اس قدر مغموم اور شاکی تھا کہ  اس کے متعلق بات کرنا یا لکھنا میرے بس میں نہ تھا۔

جی ہاں اس کی کہانی نہایت  دلدوز ہے۔  ہم میں سے بعض لوگ ڈراما دیکھنے اس لیے جاتے ہیں کہ المیہ جذبات کو محسوس کر سکیں۔ لیکن حقیقی زندگی میں ہماری نگاہیں ان الم انگیز واقعات کا مشاہدہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے سے حادث ہوتے رہتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ایسے لوگ کیداری کی کہانی  نہ پڑھیں۔

 

۱

 کیداری کے حافظے میں اس کے باپ کی کوئی تصویر محفوظ نہیں تھی۔ کیداری صرف تین سال کا تھا کہ اس کا باپ اپنا گھر اور  شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔  ایک من موہنی ڈراما  آرٹسٹ کے دام میں پھنس کر اس کا باپ اپنی نوجوان بیوی اور تین سالہ بیٹے کو بے یارومددگار چھوڑ کر  فرار ہو گیا۔  ایک لمبے عرصے تک ہمیں اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہ تھا۔ جب کیداری کی شادی کے بارے میں باتیں ہونے لگیں تو یہ سب باتیں اس کی ماں کی زبانی معلوم ہوئیں۔ 

 بھاگیرتی امامی نے جب کیداری سے کہا کہ جاؤ اس لڑکی کو دیکھ آؤ جس سے تمہاری شادی ہونے والی ہے تو اس نے جواب میں کہا، ’اگر لڑکی تم نے ڈھونڈ لی ہے اور اسے میرے لیے پسند کر لیا ہے  تو پھر ٹھیک ہی ہے۔  اگر تم کہو گی تو میں بیوہ سے بھی شادی کرلوں گا۔‘

میں نے ٹوکا،’آپ کو اور کیا چاہیے امامی!  اس کلجگ میں کوئی دوسرا آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا۔ اب آپ ہی فیصلہ کر لیں۔‘

  بھاگیرتی اماں نے ایک نہیں سنی۔ بولیں، ’جب کیداری لڑکی کو دیکھ لے گا اور کہے گا کہ لڑکی اسے پسند ہے، میں تبھی شادی طے کروں گی۔‘  اس کے بعد انہوں نے وہ سب سنایا جس میں کیداری کے باپ کی کہانی بھی تھی۔

’ہمارے ہاں ایسی شادیاں آئے دن ہوتی رہتی ہیں جن میں لڑکے اور لڑکی کی مرضی نہیں پوچھی جاتی۔  اس کے نتیجے میں ان کی زندگی میں بھی طرح طرح کی پریشانیاں کھڑی ہوتی رہتی ہیں۔  جب اس کے (کیداری کے) باپ نے ہمیں چھوڑا تو سارے محلے نے  برا بھلا کہا۔  اس وقت غصے کے مارے میرا بھی دم گھٹا جا رہا تھا۔  چالیس دن تک میں بستر سے نہ اٹھ سکی۔ بعد میں جب اٹھی اور حالات پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ اس میں ان کا کچھ قصور نہ تھا۔  میرا خیال ہے کہ وہ مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ انہوں نے اپنے خیالات ظاہر بھی کر دیے تھے، اور مجھے یقین ہے کہ ان کو مجھ سے شادی کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔  ہم لوگوں نے جیسے تیسے چار پانچ برس ساتھ گزار لیے،  دانت پیس پیس کر۔  پھر وہ حرافہ آگئی اور وہ چلے گئے۔‘

 جب وہ از خود اتنا سنا چکیں تو میں نے ذرا  محتاط ہو کر کچھ سوال پوچھے جس سے مزید تفصیلات سامنے آگئیں۔  مجھے لگتا ہے کہ کیداری کے باپ  سندراراما ائیر  ایک خوبرو اور وجیہ شخص تھے،  اور عمدہ گاتے بھی تھے۔  ان دنوں وہ ترو منگلم کے ڈاک خانے میں بطور کلرک ملازم تھے۔  رنگامنی نام کی ایک ڈراما ایکٹریس قصبے میں ان دنوں اپنے ڈرامے اسٹیج کر رہی تھی۔  ایک دن خبر چھپی کہ  ڈرامے میں ایان (ایک داستانوی راجا)  کا پارٹ جس اداکار کو نبھانا تھا وہ بیمار ہو گیا ہے،  اور یہ کہ اس دن وہ ڈراما نہیں کھیلا جا سکے گا۔ کیداری کے باپ کو کھیل دیکھنے کا جنون تھا۔  ڈرامے کو بار بار دیکھنے کی وجہ سے اسے یہ زبانی یاد ہو چکا تھا، اور وہ اس کے تمام گیتوں کو الٹا بھی گا سکتا تھا۔  چنانچہ وہ ان کے پاس جا کر بولا،’میں راجا کا پارٹ ادا کروں گا۔‘  اس نے ڈرامے کے بعض گیت بھی گا کر سنا دیے۔  رنگامنی مان گئی۔ ڈراما کھیلا گیا۔ اپنی ایکٹنگ سے کیداری کے باپ نے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔  امامی بھی بہت فخر محسوس کر رہی تھیں۔  یہ ڈراما کمپنی جب تک ترومنگلم میں رہی کیداری کے باپ کمپنی کے ساتھ ہی رہے۔  بستی میں افواہ اڑ رہی تھی کہ  اس نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا ہے۔  لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ  ڈرامے والی نے اس کو اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر بنا لیا ہے  اور یہ کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے گی۔  لیکن بھاگیرتی امامی  نے اس سب پر یقین کرنے سے  انکار کر دیا۔ آخر ایک دن ڈراما کمپنی چلی گئی۔ اگلے ہی دن سندرا راما ائیر بھی غائب ہو گئے۔  بعد میں یہ خبر آئی کے ڈراما کمپنی سری لنکا چلی گئی ہے اور یہ کہ وہ اس کی پیچھے وہیں جا پہنچے ہیں۔

اس کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ڈراما کمپنی سری لنکا، برما، سنگاپور اور پنانگ وغیرہ کے دورے کرتی رہی۔  کئی برس بعد وہ چینئی بھی آئی تھی لیکن اس وقت تک بھاگیرتی امامی ان کے بارے میں سوچنا یکسر موقوف کر چکی تھیں۔  ان کی تمام محبتوں کا مرکز اب کیداری ہی تھا۔

جب بھاگیرتی امامی کے والدین نے سنا کہ انہیں چھوڑ دیا گیا ہے تو وہ ترومنگلم آئے اور انہیں اپنے ساتھ گاؤں لے گئے۔  ان کی آمدنی کے وسائل محدود تھے اور بھاگیرتی کے سوا ان کی کوئی اولاد بھی نہ تھی۔  اپنے گاؤں میں وہ مزید پانچ چھ برس رہے، پھر کیداری کی تعلیم کے خیال سے تریچورا پلی آ بسے۔ 

 

2

یہ سب کل کی  باتیں معلوم ہوتی ہیں۔  اس وقت میں اور میرے والدین  تریچورا پلی کے متروبوتم اسٹور میں رہتے تھے۔  میں پہلی کلاس میں پڑھتا تھا۔  اسٹور میں ہمارے گھر کے سامنے والے مکان پر کچھ عرصے سے تالا پڑا ہوا تھا۔ پھر ایک دن خبر ملی کہ وہاں کوئی آنے والا ہے۔ اور میں ان کے آنے کا تجسس کے ساتھ انتظار کرنے لگا۔  ایک عدد نانا نانی، ایک امامی اور ایک لڑکے کی  صورت میں  یہ لوگ ٹن کے پرانے بکسوں، تھیلوں اور دوسرے اسباب کے ساتھ آن پہنچے۔  مجھے یہ بات خاص طور سے یاد ہے کہ سونے کا کڑا پہنے،  گندھی ہوئی چوٹی والے سر پر ٹوپی جمائے  اس لڑکے کو دیکھ کر مارے حیرت کے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔

 یہ لڑکا کیداری تھا۔ جب اس سے پہلی بار بات ہوئی، تبھی سے وہ مجھے اچھا لگنے لگا۔  دیہات کا ہونے کی وجہ سے وہ بات بات پر حیرت ظاہر کرتا تھا۔  پائپ سے نکلتے ہوئے پانی کو دیکھ کر قہقہہ مار کر ہنستا تھا۔ صبح کے وقت اس نے  تھایومانا سوامی کے تیرومنجنم  کے واسطے پانی لانے والے ہاتھی کو اس طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تھا  کہ لگتا تھا کہ اس کے دیدے حلقوں سے باہر ہی آجائیں گے۔  وہ ہر بات پر بنا رکے  سوال کرتا تھا اور میں بے تکان اس کے سوالوں کے جواب دیتا تھا۔ 

انہوں نے کیداری کو میرے ہی اسکول میں داخل کرایا، اور اسی کلاس میں جس میں میں پڑھتا تھا۔ اس طرح ہم پکے دوست بن گئے۔  میں آپ کو سچ سچ بتا دوں کہ میں پڑھائی میں اوسط درجے کا تھا لیکن کھیل کود اور گپ بازی میں ہمیشہ اوّل رہتا تھا۔  اس کے برعکس کیداری پڑھائی میں  سب سے آگے تھا،  اور دوسری باتوں میں بالکل اوسط درجے کا۔  ہر اسکول میں دبنگ دھونسیا لڑکوں کا ایسا گروہ ضرور ہوتا ہے جو پڑھاکو لڑکوں کا مذاق اڑاتا اور انہیں ستاتا ہے۔  لیکن میرے اسکول میں، میرے خوف سے کیداری کو ستانے کے لیے کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔

تیرویچی آنے کے کوئی تین سال بعد کیداری کے نانا کا انتقال ہوگیا۔  ان کے پاس جتنا روپیہ تھا تب تک وہ بھی ختم ہو لیا تھا۔   کیداری کو وظیفہ ملتا تھا جس سے اس کے اسکول کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔  گاؤں کے کھیت سے جو دھان ملتا تھا وہ ان کی غذا کے لیے کافی ہوتا تھا۔  اب رہ گیا گھر کے کرایے  اور دیگر اخراجات کا مسئلہ۔  اس کو حل کرنے کے لئے امامی اور نانی نے پاپڑ بنانے اور بیچنے شروع کر دیے تھے۔ 

بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بالکل اجنبی لوگوں کی جانب ہمارا دل کھنچا چلا جاتا ہے۔  نہیں جانتا کہ ایسا شاید اس وجہ سے ہوتا ہو کہ پہلی ملاقات  گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔  لیکن ہوا یہ کہ بھاگیرتی امامی کے لئے میں ایسی انسیت محسوس کرنے لگا کہ اپنی ماں کے لیے بھی نہیں کرتا تھا۔  ہمارے پڑوسی انہیں ’واژا ویٹی‘  کہتے تھے،  یعنی ایسی بدبخت عورت جس کا شوہر اسے چھوڑ گیا ہو۔  ان باتوں نے میرے دل میں ان کی عزت اور بڑھا دی تھی۔ میں اپنے دوستوں سے بھاگیر تی امامی کے اپالم (پاپڑ) خریدنے کی سفارش کرتا اور اس طرح ان کی فروخت میں امامی کی مدد کرتا تھا۔ 

کچھ عرصے کے بعد نانی بھی مر گئیں۔

ماں بیٹے اسی مکان میں رہتے رہے۔ کیداری اپنی ماں کا ہر طرح کہنا مانتا اور یوں ان کی ساری کلفتیں دور کر رہا تھا۔ پوری چینئی راجدھانی میں وہ ہر کلاس میں اوّل آتا تھا۔ اس کی کامیابی پر ایک بار میں اتنا خوش ہوا کہ اس سال خود امتحان میں فیل ہو جانے کی شرمندگی کو بھی بھول گیا۔ 

 

3

جیسے ہی کیداری نے کالج میں داخلہ لیا، شادی کے لائق بیٹیوں کی ماؤوں نے اس کی ماں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔  ان کی جگہ کوئی اور ہوتی تو سوچتی کہ اب پاپڑ بنانے کی مصیبت سے نجات مل جائے گی، اور یہ سوچ کر کسی لڑکی سے اس کی شادی کردی ہوتی۔  لیکن زندگی کی سختیوں نے بھاگیرتی امامی کو جو سبق سکھائے تھے ان سے وہ خوب دانش مند ہو گئی تھیں۔  اس لئے مصر رہیں  کہ کیداری جب تک بی اے نہیں کر لیتا شادی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ 

چناچہ کیداری کے بی اے کرتے ہی وہ اس کی شادی کے بارے میں سوچنے لگیں۔  کیا آپ منی پورم کے زمیندار کو نہیں جانتے!  ان دنوں وہ اسٹوڈنٹس کلب کے منتظم تھے۔  وہ دیکھ رہے تھے کہ کیداری ہمیشہ اوّل آتا ہے،  اس نے بہت سے تمغے حاصل کیے ہیں۔  شکل صورت کے اعتبار سے بھی کیداری انہیں پسند تھا  اور قد کاٹھی کے اعتبار سے بھی۔  چنانچہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی منشا ظاہر کرنا شروع کر دی کہ وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ کیداری کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں۔  جب کیداری سے اس کی رائے معلوم کی گئی تو اس نے جواب دیا  کہ یہ فیصلہ اس کی ماں کریں گی۔  بھاگیرتی امامی مگن ہو گئیں کہ اتنا بڑا رشتہ مل رہا تھا،  لیکن ان کی نگاہ اپنے ہدف پر ہی لگی رہی۔  کوئی دوسری عورت ہوتی تو وہ پانچ یا دس ہزار روپے نقد کا مطالبہ کر بیٹھتی۔ لیکن بھاگیرتی امامی نے کہا، ’روپے پیسے کی ضرورت نہیں، آپ بس شادی کر دیں اور جو تحفے تحائف یا جہیز دینا چاہتے ہیں اپنی مرضی سے دے دیں۔ لیکن آپ کو اتنا کرنا ہے کہ میرے بیٹے کو ولایت  بھیج دیں اور آئی سی ایس بننے میں اس کی مدد کریں۔‘

مجھے معلوم تھا کہ امامی کے ذہن میں آئی سی ایس کا خیال پل رہا ہے کیونکہ وہ ایک بار مجھ سے اس کے بارے میں تفصیلات طلب کر چکی تھیں۔  سارے ہمسائے حیران رہ گئے۔ بعض نے تو یہ کہہ کر لتاڑا بھی کہ دیکھو تو یہ عورت کتنی مغرور ہے! ایک ہی بیٹا ہے،  اسے بھی سمندر پار بھیج رہی ہے۔

زمیندار نرسمہا ایئر ایک راسخ العقیدہ شخص تھے۔  اس لئے پہلے تو وہ  قدرے ہچکچائے لیکن بعد میں کچھ اہم شاستریوں اور عالموں سے مشورہ کرکے،  نیز اس بات کی تصدیق کرکے کہ سمندر پار سفر پر جانے والوں کے لئے شاستروں نے تلافی گناہ کے راستے بھی بتائے ہیں، وہ اس رشتے پر راضی ہوگئے۔  لیکن میرا خیال ہے کہ ان کے راضی ہونے کی اصل وجہ یہ تھی: کیا مجھ میں اتنی بھی ذہنی قوت نہیں ہونی چاہیے جتنی اس عورت کے پاس ہے!‘

معاملات طے ہونے کے بعد امامی نے کیداری سے کہا کہ جاؤ اور اس لڑکی کو دیکھ آؤ جس سے تمہاری شادی ہونے والی ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ گیا۔ اسے دیکھ کر مجھے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ کیداری کا اپنی ماں پر  بھروسا کرنا کس قدر درست تھا۔  لڑکی بالکل طوطے جیسی سندر تھی۔  کیا ہی حسین دوشیزہ تھی۔  اس کی عمر کوئی تیرہ چودہ برس کی رہی ہوگی۔

اب قصے گڑھنے میں کیا رکھا ہے۔ مختصر یہ کہ بڑی  آن بان سے  شادی ہوئی۔ اگلے ہی برس کیداری انگلینڈ کے لیے روانہ ہو گیا۔  اسے جہاز پر سوار کرانے کے لیے میں بمبئی تک گیا۔ 

منی پورم کے لوگوں نے چاہا کہ بھاگیرتی امامی لوٹ آئیں اور ان کے ساتھ رہیں لیکن امامی نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کے رشتے کی ایک خالہ یا پھوپی اپنے دو بچے چھوڑ کر مر گئی تھیں، امامی نے ان بچوں کو گاؤں سے اپنے پاس بلوالیا،  ایک علیحدہ مکان کرائے پر لے کر ان کی پرورش کرنے لگیں۔  لیکن اپنے بیٹے کے گھر پریوار کی عزت آبرو کا خیال کر کے اب انھوں نے پاپڑ بنانے اور بیچنے چھوڑ دیے تھے ۔

 

4

کیداری کو  ولایت گئے ابھی  سات آٹھ مہینے ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک دن منی پورم  میراث دار کے گھر سے  ایک آدمی مجھے بلانے آیا۔ میں وہاں پہنچا تو نرسمہا ایئر نے مجھے ایک چٹھی دی اور پڑھنے کو کہا۔  یہ خط رنگون سے کسی سندرا راما ائیر نے بھیجا تھا۔  خط میں اس بات پر خوشی ظاہر کی گئی تھی کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی راقم کے بیٹے سے کی ہے۔  خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ تریچی سے کوئی آدمی رنگون گیا تھا جس سے سارے حالات کا علم ہوا،  اور یہ  درخواست کی گئی تھی کہ  اگر کچھ رقم بھیج دی جائے تو وہ اپنے وطن لوٹنا اور سب سے ملنا چاہتا ہے۔ 

 نرسمہا ایئر نے مجھ سے پوچھا، ’تمہارا کیا خیال ہے شنکر!  کیا یہ سچ ہوگا؟‘

’ لگتا تو سچا ہی ہے۔ پھر بھی میں یہ  لے جا کر امامی سے پوچھتا ہوں۔‘  یہ کہہ کر میں نے خط رکھ لیا اور امامی سے ملنے چل دیا۔

 میں نے امامی کو چٹھی دکھائی۔  میرا یہ خدشہ کہ خط کو دیکھ کر وہ  رو پڑیں گی اور بکھیڑا کھڑا کریں گی، خیالِ خام ثابت ہوا۔  کیا یہ وہی عورت نہ تھی جس نے سینے پر پتھر رکھ کر اپنے اکلوتے بیٹے کو ولایت بھیج دیا تھا؟  خط پڑھنے کے بعد وہ بولیں، ’ہاں یہ انہی کی تحریر ہے۔‘  پھر وہ خاموش ہوگئیں اور کچھ دیر سوچ بچار کرتی رہیں۔  ایک آدھ بار آہ بھی بھری لیکن ان کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ ٹپکا۔

میں بولا، ’ امامی، نرسمہا ائیر کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کو پیسہ بھیج دیں گے۔‘  امامی جلدی سے اٹھیں اور اندر جا کر اپنے صندوق سے کچھ کرنسی نوٹ نکال لائیں۔  وہ انہوں نے میرے ہاتھ میں تھما دیے۔  ان کی کل جمع پونجی اسّی روپے تھی۔

’شنکر یہ وہ روپیے ہیں جو میں نے  اپالم بنا کر کمائے ہیں۔ یہ سب میرے نام سے انہیں بھیج دو۔ یہاں کا پتا بھی بھیج دو اور کہو کہ وہ براہ راست یہیں آئیں۔‘  انہوں نے کہا۔

امامی کی آواز ٹوٹی ہوئی سی معلوم ہوئی، جب کہ میری آنکھیں بھر آئی تھیں۔

جب جب ان واقعات کو یاد کرتا ہوں تو آج بھی میری دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں اور ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔

دس دن کے اندر منی آرڈر واپس آ گیا۔ جس پتے پر ہم نے منی آرڈر بھیجا تھا وہاں سے جواب آیا تھا۔  کسی نے لکھا تھا کہ منی آرڈر ملنے سے پہلے ہی سندر اراما ایئر کا انتقال ہو گیا اور ان کا داہ سنسکار ان رسوم کے مطابق کر دیا گیا جو لاوارث لاشوں کے لیے مخصوص ہیں۔

بھاگیرتی امامی نے ایک ایسے شوہر کے لیے سوگ منایا جس کی صورت انہوں نے اپنی آنکھوں سے گزشتہ اٹھارہ برس سے نہیں دیکھی تھی۔ دسویں دن برہمن بے بیواؤں کے لیے مخصوص رسومات ادا کی گئیں، اور ان کے بال منڈواکر پھینک دیے گئے۔ 

امامی نے ہم سے سختی سے کہہ دیا تھا کہ ہم اس سلسلے میں کیداری کو کچھ نہ لکھیں اور یہ کہ جب وہ وطن لوٹ آئے تو ہم اسے بتا سکتے ہیں۔

 

5

جیسا کہ توقع تھی آئی سی ایس میں بھی کیداری سرخ رو ہوا۔ ہم نے اس کو اس کے والد کی موت کی اطلاع کی تفصیلات اس طرح لکھیں کہ اسے صدمہ نہ پہنچے اور خط کو بمبئی بھیج دیا جہاں وہ پہنچنے والا تھا۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ خط اس تک پہنچا ہی نہیں کیوں کہ جہاز سے اتر کر اس نے براہ راست گھر کے لیے ٹرین پکڑ لی تھی۔

 اپنی واپسی کا ٹیلیگرام وہ مجھے بھیج چکا تھا۔ چنانچہ میں گھر کے دروازے پر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے میری گردن میں بانہیں ڈال کر مجھے بھینچ لیا۔ پھر بے تابی سے مجھے گھسیٹتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔ میں نہیں جانتا کہ برآمدے میں بیٹھی ہوئی امامی کو اس نے دیکھا تھا یا نہیں،  یا پھر وہ انھیں پہچان نہیں پایا، لیکن ’ماں! ماں!‘  کی ہانک لگاتا ہوا  آگے بڑھا۔

میں نے پہلی بار امامی کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے دیکھے۔ میں بولا، ’ارے کیداری کیا بات ہے۔ اماں تو یہیں ہیں۔ تم انہیں کہاں ڈھونڈ رہے ہو۔‘

 کیداری لوٹ آیا۔ اس نے بھاگیرتی امامی کو بغور دیکھا جو سفید ساڑی پہنے اپنے منڈے سر کو اس میں لپیٹے بیٹھی تھیں۔ 

’ایّو امّا!‘   زور سے چیخ مار کر وہیں بیٹھ گیا اس نے اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔

کیداری کو زور کا بخار چڑھ آیا۔ تروچراپلی کا کوئی ڈاکٹر نہیں بچا جس نے کیداری کو نہ دیکھا ہو،  کوئی دوادارو نہ تھی جو اسے دینے سے بچ گئی  ہو۔ لیکن افاقہ نہ ہوا۔ اس کے دل میں بھی ویسی ہی آگ لگی تھی جیسی اس کے بدن میں لگی تھی۔  اس کا ذہن ایک ہی خیال پر اٹک گیا تھا اور ایک ہی بات اسے یاد تھی۔ میں جب بھی اس کے ساتھ تنہا رہ جاتا وہ شروع ہو جاتا، ’شنکر، یہ کیسے شاستر ہیں؟ یہ شاستر جو ایسے شوہر کی موت پر ان سے سر مونڈنے کو کہتے ہیں  جس نے انہیں لاوارث چھوڑ دیا اور اٹھارہ سال تک واپس نہیں آیا۔ چلو ایسے شاستروں کو آگ میں جھونک دیں۔‘  وہ یہی رٹ لگائے رہتا تھا۔

’دیکھو شنکر! میری ماں بڑی  عقلمند ہیں۔ وہ اس  احمقانہ رسم کو ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتیں۔  لیکن صرف میری وجہ سے انہوں نے ایسا کیا ہے۔  کیا میری شادی ایک بڑے خاندان میں نہیں ہوئی؟؟؟__  ایک ایسے خاندان میں جو دقیانوسیت کا دم چھلا ہے۔  ان کی ملامت اور مذمت کے خوف سے ہی اماں یہ سب کرنے کو راضی ہوئی ہوں گی۔‘

 ایک دن دو دیہاڑی مزدور آپس میں باتیں کرتے ہوئے ادھر سے گزرے۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا، ’انی، آج میں جب گھر سے نکلا تو راستے میں موتائی پاپاتی ( سر منڈی برہمن بیوہ)  پر نظر پڑی تھی اسی لیے ہم کو کام نہیں ملا ہے۔‘   ان کی یہ گفتگو کیداری کے کان میں بھی پڑی۔ 

’شنکر! سنا تم نے ؟  لوگ کہتے تھے کہ میری ماں کا منہ دیکھ کر سارے دلدّر دور ہو جاتے ہیں۔  اب کیا اس کو دیکھنا  بدشگونی ہے؟‘  اس نے روتے ہوئے پوچھا۔

 میں نے اسے سکون پہنچانے کے لیے بہت سی  تسلی آمیز  باتیں کیں لیکن اس موضوع سے اس کا دھیان  بالکل نہیں ہٹا۔

’ میری بات سنو شنکر۔ بس میں نے نوکری بھی بہت کرلی اور یہ سب  خرافات بھی بہت برداشت کر لیں۔  اگر میں ٹھیک ہوگیا تو بس ایک کام کرو ں گا۔ میں انقلاب لاؤں گا اور بیوہ ہونے والی  برہمن عورتوں کے سر مونڈنے کی رسم کو ختم کرانے کی مہم چلاؤں گا۔ برادری میں ان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک اب ہم اور برداشت نہیں کریں گے۔‘  اس نے کہا۔

 شاید یمدوت کی خود یہ خواہش نہ تھی کہ ایک ایسا آدمی جس کا تعلق آئی سی ایس زمرے سے ہو اس قسم کی حرکتوں میں ملوث پایا جائے۔ کیداری ٹھیک نہیں ہوا اور اپنے لوٹنے کی بعد ، اکیسویں دن مر گیا۔

اس دلدوز داستان میں صرف ایک بات اور بتانی ہے۔ کیداری کے سسر نے مجھ سے کہا کہ کیداری کی ایک تصویر ان کو لا دوں۔  میرے پاس ایک ہی تصویر تھی جس میں کیداری اور میں ساتھ تھے۔ میں نے اس میں سے تصویر کاٹی، اسے فریم کرایا اور لے کر ان کے گھر گیا۔  محض اتفاق سے کیداری کی بیوی سے سامنا ہو گیا۔ اس پر نظر پڑی تو میرا بدن لرز اٹھا اور سر کے بال کھڑے ہو گئے۔ آپ کو یاد ہے کہ میں نے اسے طوطا کہا تھا؟ لوگوں نے اس طوطے کا سر مونڈ دیا تھا اور اس کا سر ڈھکا ہوا بھی تھا۔

٠٠٠

 

 کرشنا مورتی 9 ستمبر  1899  کو ضلع تنجاور کی ایک بستی پتامنگلم میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور پھر تروچی کے نیشنل ہائی اسکول میں داخل ہوئے جو ان کے گاؤں سے تقریبا سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔  اس دور کے بہت سے نوجوانوں کی طرح انہوں نے بھی انیس سو اکیس میں گاندھی جی کی عدم تعاون کی تحریک سے متاثر ہو کر تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہو گئے۔ تحریک  آزادی میں شامل ہونے کی پاداش میں 1922 میں  وہ ایک سال کے لئے جیل بھیج دیے گئے  جہاں ان کی ملاقات  کانگریس کے ایک بڑے رہنما سی راج گوپال آچاریہ سے ہوئی۔  نیز پی سدا شیوم کی صورت میں انہیں اپنا عزیز ترین دوست اور صحافی، نیز مہم جوئیوں کا ساتھی بھی ملا۔  انہوں نے 1923 میں کہانیاں لکھنی شروع کیں  اور ان کا پہلا مجموعہ 1927 میں شائع ہوا۔  انہوں نے تامل زبان کے کئی اخباروں میں کام کیا اور لکھنے کے لیے کئی قلمی نام اختیار کیے۔ بالآخر کالکی ان کا  قلمی نام ٹھہرا۔ 1931  اور1941  میں بالترتیب چھے اور تین مہینے کے لیے جیل گئے۔  1941 میں جیل سے چھوٹنے کے بعد سداشیوم کے ساتھ ’کالکی‘  نام کا ہفت روزہ نکالا جو 1954 میں  ان کے انتقال تک تواتر سے نکلتا رہا۔  ان کے ناول ’آلائی اوسائی‘   کے لیے انہیں بعدازمرگ ساہتیہ اکیڈمی  انعام سے نوازا گیا۔ ان کے  ناولوں اور کہانیوں کا موضوع عام طور سے تاریخ اور سماجی مسائل ہیں۔  وہ فلم اور موسیقی کے اچھے پارکھ بھی تھے۔