اگست کی گرم، سرمئی شام شہر پر چھا چکی تھی اور ایک ہلکی گرم ہوا، جو موسم گرما کی یادگار تھی، سڑکوں پر رواں تھی۔ سڑکیں، اتوار کی چھٹی کے لیے بند تھیں اور وہاں رنگین کپڑوں میں ملبوس لوگوں کا ہجوم تھا۔ اونچے کھمبوں کے اوپر لیمپ موتیوں کی طرح روشن تھے اور نیچے زندہ ہجوم پر اپنی روشنی بکھیر رہے تھے، جو بغیر رکے اپنی شکلیں اور رنگ بدل رہا تھا، اور سرمئی شام کی ہوا میں ایک مستقل سرگوشی جیسی گونج پیدا کررہا تھا۔
دو نوجوان رٹلینڈ اسکوائر کی پہاڑی سے نیچے آرہے تھے۔ ان میں سے ایک اپنی طویل روداد کو ختم کرنے پر تھا۔ دوسرا ، جسے اپنے ساتھی کی ناشائستگی کے سبب فٹ پاتھ کے کنارے کنارے چلنا پڑ رہا تھا اور کبھی کبھی سڑک پر بھی اتر آنا پڑتاتھا، مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ ٹھگنا اور سرخی مائل رنگت کا حامل تھا۔ اس کی ایک نوک دار ٹوپی اس کی پیشانی سے بہت پیچھے کھسکی ہوئی تھی اور جس کہانی کو وہ سن رہا تھا اس کے سبب اس کے چہرے پر اس کی ناک، آنکھوں اور منہ کے گوشوں سے مختلف تاثرات پھوٹ رہے تھے۔ اس کے جسم سے ہنسی کے دھیمے دھیمے فوّارے ایک دوسرے کے بعد پھوٹ رہے تھے۔۔ اس کی آنکھیں، جو چوکسی اور لطف اندوزی سے چمک رہی تھیں، ہر لمحے اپنے ساتھی کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ایک دو بار اس نے اپنے ہلکے برساتی کوٹ کو، جو اس نے بیل فائٹر کے انداز میں ایک کندھے پر لٹکا رکھا تھا، دوبارہ درست کیا۔ اس کی سرین، اس کے سفید ربڑ کے جوتے اور اس کا لاپرواہی سے لٹکا ہوا برساتی کوٹ ، سبھی اس کی نوجوانی کے غماز تھے۔ لیکن اس کی کمر فربہ تھی، اس کے بال کم اور سرمئی تھے، اور جب تاثرات کی لہریں اس کے چہرے پر سے گزر جاتیں تو اس کا چہرہ ویران نظر آتا تھا۔
جب اسےاس بات کا یقین ہو چکا کہ کہانی ختم ہو گئی ہے تو وہ تقریباً آدھے منٹ تک خاموشی سے ہنستا رہا۔ پھر اس نے کہا:
“واہ!… یہ تو حد کر دی!”
اس کی آواز میں کوئی جوش نہیں تھا، پھر اپنے الفاظ پر زور دینے کے لیے اس نے مزاحیہ انداز میں اضافہ کیا:
“یہ تو بالکل منفرد اور لاجواب ہے!”
یہ کہہ کر وہ سنجیدہ اور خاموش ہو گیا۔ اس کی زبان تھک چکی تھی کیونکہ وہ ڈورسٹ اسٹریٹ کے ایک پب میں ساری دوپہر بولتا رہا تھا۔ زیادہ تر لوگ لینہین کو ایک جونک کی طرح سمجھتے تھے، لیکن اس بدنامی کے باوجود، اس کی ہوشیاری اور فصاحت نے ہمیشہ اس کے دوستوں کو اس کے خلاف کوئی خاص حکمت عملی بنانے سے روکے رکھا تھا۔ اس کا انداز بہادرانہ تھا، اور وہ کسی بھی محفل میں چپکے سے شامل ہو جاتا اور محفل کے کنارے پر بیٹھ جاتا جب تک کہ کوئی اسے شراب کے کسی دور میں شامل نہ کر لیتا۔ وہ ایک آوارہ گرد تھا، جس کے پاس کہانیوں، لطیفوں اور پہیلیوں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ وہ کسی بھی قسم کی بے عزتی سے بےنیاز تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے، لیکن اس کا نام مبہم طور پر گھڑدوڑ کے ساتھ وابستہ تھا۔
“وہ تم کو ملی کہاں، کارلی؟” اس نے پوچھا۔
کارلی نے اپنے اوپری ہونٹ پر تیزی سے زبان پھیری۔
“ایک رات، یار،” اس نے کہا، “میں ڈیم اسٹریٹ جا رہا تھا تومیں نے واٹر ہاؤس کی گھڑی کے نیچے ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھا۔ میں نے اسے ‘شام بخیر’ کہا، جانتے ہو۔ پھر ہم دونوں نہر کی طرف چہل قدمی کے لیے نکل گئے؛ اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ بیگٹ اسٹریٹ کے ایک گھر میں ملازمہ ہے۔ میں نے اس کے گرد اپنا بازو ڈال دیا اور اس رات اسے تھوڑا سا بھینچا۔ پھر اگلے اتوار، میں اس سے ملاقات کے لیے گیا۔ ہم ڈونی بروک گئے اور میں اسے وہاں ایک کھیت میں لے گیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک ڈیری والے کے ساتھ تعلق میں رہ چکی تھی… یہ سب زبردست تھا، یار۔ ہر رات وہ میرے لیے سگریٹ لاتی اور ٹرام کے آنے جانے کا کرایہ دیتی۔ اور ایک رات وہ میرے لیے دو عمدہ سگار لائی – او، وہ اصلی مال، جو اس کا مالک پیتا تھا… مجھے ڈر تھا، یار، کہ کہیں وہ حاملہ نہ ہو جائے۔ لیکن وہ اس چیز کے ساتھ چالاکی سے نمٹتی ہے۔”
“شاید وہ سمجھتی ہو کہ تم اس سے شادی کرو گے،” لینہین نے کہا۔
“میں نے اسے بتایا کہ میں بے روزگار ہوں،” کارلی نے کہا۔ “میں نے اسے بتایا کہ میں پِم ملازم میں تھا۔ وہ میرا نام نہیں جانتی۔ میں نے ڈر کے مارے اسے بتا یا ہی نہیں ہے۔ لیکن اسے لگتا ہے کہ میں اچھے گھرانے کا ہوں، جانتے ہو۔”
لینہین دوبارہ خاموشی سے ہنسا۔
“جو بھی بہترین کہانیاں میں نے سنی ہیں،” اس نے کہا، “یہ ان میں بلا شبہ سب سے زبردست ہے۔”
کارلی نے لمبے لمبے قدم اٹھا کر گویا لینہن کی اس تعریف کا شکریہ ادا کیا ۔ اس کے بڑے جثے کی ٹکر نے اس کے دوست کو فٹ پاتھ سے سڑک پر اور پھر واپس فٹ پاتھ پر پھدکنے پر مجبور کر دیا۔ کارلی ایک پولیس انسپکٹر کا بیٹا تھا اور اس نے یہ جسامت اور عادات اپنے باپ سے ورثے میں پائی تھیں۔ وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے پہلو میں رکھ کر چلتا تھا، اپنے آپ کو سیدھا رکھتا اور اپنے سر کو ایک طرف سے دوسری طرف ہلاتا رہتا تھا۔ اس کا سر بڑا، گول اور تیل سے چپڑا ہوا تھا۔ ہر موسم میں اسے پسینہ آتا رہتا تھا، اور اس کی بڑی گول پھندنے والی ٹوپی، جو وہ کنپٹیوں تک کھینچے رکھتا تھا، ایسی معلوم ہوتی تھی جیسے بڑے سے بلب کے اوپر دوسرا بلب رکھا ہو۔ وہ ہمیشہ سیدھا دیکھتا تھا جیسے پریڈ میں ہو، اور جب اسے سڑک پر کسی کو دیکھنا ہوتا، تو اسے اپنا دھڑ گھمانا پڑتا، نہ کہ صرف سر۔ اس وقت وہ بے روزگار تھا۔ جب بھی کوئی جگہ خالی ہوتی، اس کا کوئی دوست ہمیشہ اسے سخت الفاظ میں بتا دیتا۔ اکثر اسے سادہ لباس میں پولیس والوں کے ساتھ گھومتے اور سنجیدگی سے بات کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔ اسے تمام معاملات کے اندر کی خبریں معلوم ہوتی تھیں اور اسے ہر بات پر رائے زنی کا شوق تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کی بات سنے بغیر بولتا رہتا تھا۔ اس کی باتیں زیادہ تر اس کے اپنے بارے میں ہوتی تھیں کہ اس نے فلاں شخص سے کیا کہا اور فلاں شخص نے اسے کیا کہا اور اس نے بات کیسے نمٹائی۔ جب وہ یہ باتیں دوسروں کو سناتا، تو اپنے نام کے پہلے حرف کا تلفظ فلورنس والوں کی طرح “ہ” سے کرتا۔
لینہین نے اپنے دوست کو سگریٹ پیش کی۔ جب دونوں نوجوان بھیڑ میں چل رہے تھے تو کارلی بیچ بیچ میں گزرتی ہوئی لڑکیوں کی طرف مڑ کر دیکھتا اور مسکراتا تھا، ، لیکن لینہین کی نظریں بڑے سے مدھم چاند پر جمی تھیں، جو دو ہالوں میں گھرا ہوا تھا۔ وہ سنجیدگی سے چاند کے چہرے پر سےشام کے مدھم جال کے گزرنے کا نظارہ کرتا رہا۔ آخر اس نے کہا:
“اچھا… بتاؤ، کارلی، میرا خیال ہے کہ تم اس معاملے کو ٹھیک طریقے سے سنبھال لو گے، ہے نا؟”
جواب میں کارلی نے معنی خیز انداز میں اسے آنکھ ماری۔
“کیا وہ اس کام کے لیے تیار ہے؟” لینہین نے شک بھری نظر سے پوچھا۔ ” عورتوں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔”
“وہ بالکل تیار ہے،” کارلی نے کہا۔ “مجھے پتہ ہے کہ اسے کیسے قابو کرنا ہے، یار۔ وہ مجھ پر لٹّو ہوچکی ہے۔”
“میں تو تمہیں عاشق باز کہوں گا،” لینہین نے کہا۔ “اور وہ بھی صحیح قسم کا عاشق باز!”
طنز کی ایک ہلکی سی لہر اس کے چاپلوسانہ روّیے کو کچھ کم کر گئی۔ خود کو بچانے کے لیے اس کی عادت تھی کہ اپنی خوشامدی باتیں اس انداز سے کرے کہ اس کو مزاح سمجھا جائے۔ لیکن کارلی کی سمجھ اتنی باریک نہ تھی۔
“ایک اچھی لونڈی جیسی کوئی چیز نہیں،” اس نے زور دے کر کہا۔ “میری بات یاد رکھو۔”
“یہ بات ایسا شخص ہی کہہ سکتا ہے جو ان سب کو آزما چکا ہے،” لینہین نے کہا۔
“پتہ ہے، پہلے میں اچھے گھر کی لڑکیوں کے ساتھ دوستی کرتا تھا،” کارلی نے گویا دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہوئے کہا، “ساوتھ سرکلر کی لڑکیاں۔ میں انہیں گھمانے پھرانے لے جاتا اور ٹرام کا کرایہ بھی دیتا، یا انہیں کسی بینڈ یا تھیٹر میں ڈرامہ دکھانے لے جاتا، یا انہیں چاکلیٹ اور مٹھائیاں خرید کر دیتا، یا اس طرح کی کوئی چیز۔ میں واقعی ان پر پیسے خرچ کرتا تھا،” اس نے قائل کرنے والے انداز میں کہا، جیسے اسے یقین ہوکہ اس کی بات پر یقین نہیں کیا جا رہا۔
لیکن لینہین بخوبی یقین کر سکتا تھا؛ اس نے سنجیدگی سے سر ہلایا۔
“مجھے وہ کھیل معلوم ہے،” اس نے کہا، “اور یہ حماقت بھرا کھیل ہے۔”
“اور کبھی کچھ بھی حاصل نہیں ہوا،” کارلی نے کہا۔
“یہاں بھی یہی حال رہا،” لینہین نے کہا۔
“صرف ایک ہی سے کچھ ہاتھ آیا،” کارلی بولا۔
اس نے اپنے اوپری ہونٹ کو زبان پھیر کر تر کر لیا۔ اس یاد نے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کردی تھی۔ اس نے بھی چاند کے مدھم دائرے کی طرف دیکھا، جو اب تقریباً چھپ چکا تھا، اور سوچ میں ڈوبا ہوا لگ رہا تھا۔
“وہ… کچھ ٹھیک ٹھاک تھی،” اس نے افسوس کے ساتھ کہا۔
وہ دوبارہ خاموش ہو گیا۔ پھر اس نے مزید کہا:
“وہ اب دھندے پر ہے۔ میں نے ایک رات اسے ارل اسٹریٹ پر دو آدمیوں کے ساتھ ایک گاڑی میں جاتے دیکھا تھا۔”
“مجھے لگتا ہے کہ یہ تمہاری ہی کارستانی ہے،” لینہین نے کہا۔
“مجھ سے پہلے بھی بہت سے لوگ اس کے پیچھے تھے،” کارلی نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
اس بار لینہین کا یقین کرنے کا جی نہیں چاہا۔ اس نے اپنا سر ہلایا اور مسکرایا۔
“تم جانتے ہو کہ تم مجھے چکمہ نہیں دے سکتے، کارلی،” اس نے کہا۔
“خدا کی قسم!” کارلی نے کہا۔ ” اس نے خود مجھے بتایا تھا۔”
لینہین نے افسوس کا اشارہ کیا۔
“بے وفا محبوب!” اس نے کہا۔
ٹرینٹی کالج کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے، لینہین سڑک پر کودا اور گھڑی کی طرف دیکھا۔
“نو بج کربیس منٹ ہوئے ہیں،” اس نے کہا۔
“کافی وقت ہے،” کارلی نے کہا۔ “وہ لازماً وہیں ملے گی۔ میں ہمیشہ اسے تھوڑا انتظار کرواتا ہوں۔”
لینہین خاموشی سے ہنسا۔
“قسم سے! کارلی، تم خوب جانتے ہو انہیں کیسے قابو کرنا ہے،” اس نے کہا۔
“میں ان کے تمام چھوٹے چھوٹے حربوں سے واقف ہوں،” کارلی نے اعتراف کیا۔
“لیکن بتاؤ،” لینہین نے پھر کہا، “کیا تم یقین سے کہہ سکتے ہو کہ تم یہ کام ٹھیک طرح سے کر لو گے؟ تم جانتے ہو کہ یہ ایک نازک کام ہے۔ لڑکیاں اس معاملے پر بہت حساس ہوتی ہیں۔ … نہیں؟”
اس کی چھوٹی چھوٹی چمکیلی آنکھیں یقین دہانی کی تلاش میں کارلی کے چہرے پر گھومتی رہیں۔ کارلی نے اپنا سر ادھر ادھر جھٹکا جیسے کسی ضدی کیڑے کو اڑا رہا ہو، اور اس کی بھنویں سکڑ گئیں۔
“میں اسے راضی کر لوں گا،” اس نے کہا۔ ” یہ مجھ پر چھوڑ دو، بھروسہ نہیں کر سکتے؟”
لینہین نے مزید کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنے دوست کے مزاج کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا، کہیں ایسا نہ ہو وہ اسے کہہ دے کہ بھاڑ میں جاؤ، مجھے تمہاری صلاح کی ضرورت نہیں۔ اس نے سوچا تھوڑی حکمت سے کام لینا پڑے گا۔ لیکن کارلی کی بھنویں جلد ہی دوبارہ ہموار ہو گئیں۔ اس کے خیالات کسی اور طرف جا رہے تھے۔
“وہ ایک اچھی اور شریف لڑکی ہے،” اس نے تعریف کے انداز میں کہا، “ہاں، وہ بالکل ایسی ہی ہے۔”
وہ ناسو اسٹریٹ پر چلتے رہے، اور پھر کِلڈیئر اسٹریٹ میں مڑ گئے سڑک پر کلب کے پورچ کے پاس ایک ہارپ بجانے والا کھڑا کچھ سامعین کے لیے ساز بجا رہا تھا۔ وہ ساز کے تاروں کو بے دھیانی سے چھیڑ رہا تھا، بیچ بیچ میں کسی نئے تماشائی کی طرف ایک نظر دیکھ لیتا تھااور کبھی تھکی ہوئی حالت میں آسمان کی طرف تاکتا رہتا۔ اس کا ساز بھی گویا اس بات سے لاپروا تھا کہ اس کا خول سرک کر گھٹنوں تک آ گیا ہے، وہ بھی ناظرین کی نظروں اور بجانے والے کی انگلیوں سے خفا معلوم ہوتا تھا۔ بجانے والے کا ایک ہاتھ نچلے سروں میں ‘سائلنٹ، او موئل’ کی دھن بجا رہا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ ہر سر کے بعد ‘ٹریبل’ میں چلتا تھا۔ گیت کے سر گہرے تھے اور صاف سنائی دے رہے تھے۔
دونوں نوجوان سڑک پر بغیر بولے چلتے رہے، اداس موسیقی ان کا پیچھا کرتی رہی۔ جب وہ اسٹیفن گرین پہنچے تو انہوں نے سڑک پار کی۔ ٹراموں کا شور، روشنیاں، اور لوگوں کی بھیڑ — ان سب نے مل کر دونوں کو اب تک کے خاموشی بھرے سناٹے سے نجات دی۔
“وہ رہی!” کارلی بولا۔
ہوم اسٹریٹ کے کونے پر ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی۔ اس کا لباس نیلے رنگ کا تھا، اور سر پر سفید گول ٹوپی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں چھتری تھی جسے وہ گھما رہی تھی۔ لینہن جوش سے بھر گیا۔
“مجھے بھی اسے دیکھنے دو، کارلی،” اس نے کہا۔
کارلی نے اپنے دوست کو ترچھی نظر سے دیکھا اور اس کے چہرے پر ایک ناپسندیدہ مسکراہٹ ظاہر ہوئی۔
“تم میرے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے ہو؟” اس نے پوچھا۔
” لعنت ہے!” لینہن نے تلخی سے جواب دیا، “میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میرا اس سے تعارف کراؤ۔ میں تو بس ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں۔ اسےکھا نہیں جاؤں گا ۔
” اوہ اچھا… بس دیکھنا چاہتے ہو؟” اب کی بار کارلی نے نرمی سے کہا، “دیکھو، میں بتاتا ہوں کیسے۔ میں جا کر اس سے باتیں شروع کرتا ہوں۔ تم پاس سے گزر جانا۔”
“ٹھیک ہے!” لینہین نے کہا۔
کارلی نے ابھی پاؤں فٹ پاتھ کے کنارے لگی زنجیر کے پار رکھا ہی تھا کہ لینہین نے اسےآواز دی:
“اور بعد میں؟ بعد میں کہاں ملیں گے؟”
“ساڑھے دس بجے،” اپنا دوسرا پاؤں اس پار رکھتے ہوئے کارلی نے جواب دیا۔
“کہاں؟”
“میرین اسٹریٹ کے کونے پر۔ ہم لوگ واپس آ رہے ہوں گے۔”
“اب صحیح طریقے سے نمٹنا،” لینہین نے الوداع کے طور پر کہا۔
کارلی نے جواب نہیں دیا۔ آرام سے اس نے سر کو دائیں بائیں ہلاتے ہوئے سڑک پار کی۔ اس کے بڑے جثے، اس کی اطمینان بھری چال، اور اس کے جوتوں کی ٹھوس آواز میں فاتح کا سا تاثر تھا۔ لڑکی کے پاس پہنچ کر اس نے بغیر کسی دعا سلام کے فوراً بات شروع کر دی۔ وہ اپنی چھتری اور بھی تیز تیز ہلانے لگی اور اپنی ایڑیوں سے زمین پر آدھے دائرے سے بناتی رہی۔ ایک آدھ بار جب وہ اس کے بہت قریب آ کر بولا، تو وہ ہنس پڑی اور سر جھکا لیا۔
کچھ دیر تک لینہن ان کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ اسی فٹ پاتھ پر کچھ دیر تیز تیز چلتا رہا پھر ترچھے رخ سےسڑک پار کرگیا۔ ہوم اسٹریٹ کے کونے پر پہنچتے پہنچتے اسے ہوا میں تیز مہک کا احساس ہوا اور اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں نوجوان لڑکی کے حلیے پر غور کیا۔ اس نے اپنی سب سے اچھی پوشاک پہن رکھی تھی۔ اس کی نیلے رنگ کی اونی اسکرٹ کمر پر کالے چمڑے کی بیلٹ سے بندھی تھی۔ بیلٹ پر چاندی کے رنگ کا بڑا سا بکل لگا تھا جس نے اس کی کمر کو کس رکھا تھا اور اس کے مہین سفید بلاؤز کو کسی کلپ کی طرح سنبھالا ہوا تھا۔ اس نے ایک چھوٹا کالا کوٹ پہن رکھا تھا جس میں سیپیوں سے بنے بٹن لگے تھے اور اس کے گلے کے گرد ایک پرانا اسکارف لٹکا ہوا تھا اور باریک ریشم کے کپڑے سے بنا ایک گلوبند جان بوجھ کر بکھرا بکھرا کر پہنا گیا تھا۔ اس کے سینے پر سرخ پھولوں کا ایک بڑا سا گچھا ڈنٹھل کے حصے پر لگی پن سے ٹکا تھا۔ لینہن نے توصیفی نظروں سے اس کے چھوٹے قد اور مضبوط جسمانی ساخت کا جائزہ لیا۔ واضح اور فطری صحت مندی اس کے چہرے، اس کے گول اور سرخ رخساروں، اور اس کی بے جھجھک آنکھوں سے جھلک رہی تھی۔ اس کے ناک نقشے تیکھے نہیں تھے — نتھنے چوڑے، جوش سے بھراچھوٹا سا دہانہ، مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ پھیلے ہوئے ہونٹ۔ سامنے کے دو دانت ذرا اونچے تھے۔ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے لینہن نے اپنی ٹوپی اٹھا کر سلام کیا۔ کوئی دس سیکنڈ بعد کارلی نے ہوا میں ہاتھ ہلا کر جواب دیا — جواب میں اس نے یونہی، کھوئے کھوئے ہاتھ اٹھایا اور اپنی ٹوپی کا زاویہ بدل دیا۔
لینہن شیلبرن ہوٹل تک چل کر رک گیا اور انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں آتے دکھائی دیے۔ جب وہ دائیں مڑ گئے تو وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چلا — سفید جوتوں کوپہنے آرام سے چلتا ہوا وہ میرین اسکوائر کے راستے پر بڑھا۔ ان دونوں کی چال کے حساب سے اپنی رفتار دھیمی کرکے وہ کارلی کے سر پر نظر جمائے رہا — محور پر گھومتی کسی گیند کی طرح اس کا سر بار بار لڑکی کے چہرے پر جھک جاتا تھا۔ لینہن نے ان دونوں پر اپنی نظر تب تک جمائے رکھی جب تک وہ ڈونی بروک جانے والی ٹرام کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نہ دکھائی دیے؛ پھر وہ مڑ گیا اور اسی راستے سے واپس چلا گیا۔
اب جب وہ اکیلا تھا تو اس کا چہرہ عمر رسیدہ لگ رہا تھا۔ اس کی خوش مزاجی جیسے اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی اور جیسے ہی وہ ڈیوکس لان کی ریلنگ کے پاس آیا، اس نے اپنا ہاتھ اس پر گھما دیا۔ ہارپ بجانے والا جو گیت بجا رہا تھا اس کی دھن نے گویا اس کی رفتار کو قابو کرلیا۔ اس کے نرم تلووں والے جوتے گانے کی دھن پر چلنے لگے، اور اس کی انگلیاں سرگم کی تانوں کے مطابق ریلنگ پر حرکت کرنے لگیں۔
وہ لاپرواہی کے انداز میں پہلے اسٹیفنز گرین کے گرد، اور اس کے بعد گرافٹن اسٹریٹ پر چلتا رہا۔ اس کی آنکھوں نے گزرنے والی بھیڑ کے کئی حصوں کا جائزہ لیا، لیکن بے دلی اور بیزاری کے ساتھ۔ جو کچھ اس کی دلجوئی کے لیے سڑک پر موجود تھا، وہ اسے بیکار لگا؛ اس نے ان نظروں کا جواب نہیں دیا جو اسے گفتگو کی دعوت دے رہی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ کہانیاں گھڑنے اور دلجوئی کے لیے باتیں کرنے کے لیے بہت بولنا پڑے گا، اور اس کا دل اتنا مرجھایا ہوااور گلا اتنا خشک تھا کہ یہ کام اب اس کے بس کا نہیں تھا۔ کارلی سے دوبارہ ملاقات تک کا وقت کیسے کاٹا جائے، مسئلہ یہ تھا۔ چلتے رہنے کے علاوہ اس سے ملنے کا کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ رٹلینڈ اسکوائر کے کونے پر وہ بائیں جانب مڑ گیا جہاں اندھیری، خاموش گلی میں اسے سکون کا احساس ہوا۔ گلی کی اداسی اس کے دل کی حالت سے میل کھارہی تھی۔ آخر کار وہ ایک بوسیدہ سی دکان کی کھڑکی کے سامنے رک گیا، جس پر سفید حروف میں “مشروبات و طعام” لکھا ہوا تھا۔ کھڑکی کے شیشے پر دو کاغذ آویزاں تھے، جن پر”جنجر ایلی” اور “جنجر بیئر” لکھا تھا۔ ایک بہت بڑی رکابی پر سور کی ران اور اس کے برابر پلیٹ میں میٹھا رکھا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر تک ان کھانوں کو دیکھتا رہا، پھر احتیاط سے گلی کی دونوں طرف دیکھتا ہوا جلدی سے دکان میں داخل ہوگیا۔
وہ بھوکا تھا کیونکہ، سوائے کچھ بسکٹ کے جو اس نے دو بیزار نظر آنےوالے ملازموں سے مانگے تھے، اس نے ناشتے کے وقت سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ وہ دو محنت کش لڑکیوں اور ایک میکینک کے سامنے ایک بغیر میز پوش کے لکڑی کی میز پر بیٹھ گیا۔ ایک بھدی سی لڑکی نے اس کا آرڈر لیا۔
” پھلیوں کی ایک پلیٹ کتنے کی ہوگی؟” اس نے پوچھا۔
“ڈیڑھ پنس کی، جناب،” لڑکی نے کہا۔
“ایک پلیٹ پھلیاں لاؤ،” اس نے کہا، “اور ایک بوتل جنجر بیئر۔”
اس نے درشت لہجے میں بات کی تاکہ اس کی شائستگی کا تاثر زائل ہو جائے، کیونکہ اس کے داخل ہوتے ہی وہاں بات چیت میں ایک وقفہ آ گیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ پرسکون نظر آنے کے لیے اس نے اپنی ٹوپی کو سر پر پیچھے دھکیل دیا اور اپنی کہنیاں میز پر رکھ دیں۔ میکینک اور دونوں محنت کش لڑکیوں نے اس کا باری باری معائنہ کیا، پھر وہ پہلے سے کچھ دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگے۔ ویٹرلڑکی نے اسے مصالحہ دار پھلیاں، ایک کانٹا، اور اس کی جنجر بیئر لا کردی۔ وہ جلدی جلدی کھانے لگا۔ ذائقہ اسے اتنا اچھا لگا کہ اس نے دکان کا نام ذہن نشین کر لیا۔ پھلیاں ختم کرکے وہ بیئر کی چسکیاں لینے لگا اور کچھ دیر تک کارلی کی مہم کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے تخیل میں اس نے جوڑے کو کسی تاریک راستے پر چلتے دیکھا؛ اس نے کارلی کی گہری جذباتی باتیں سنیں اور ایک بار پھر نوجوان عورت کے منہ کی مسکراہٹ دیکھی۔ اس نے تصور میں عاشق و معشوق کو کسی اندھیری گلی میں چلتے دیکھا؛ وہ خیالوں میں کارلی کی کی بے باکانہ آواز سن رہا تھا، اور اسے ایک بار پھر لڑکی کی وہی جوشیلی مسکراہٹ دکھائی دی۔ اس خیالی منظر نے اسے اس کی اپنی جیب اور روح کی غربت کا شدید احساس دلایا۔ شیطان کی دم پکڑے یوں مارے مارے پھرنے اور دھوکے بازی کی زندگی سے وہ اکتا چکا تھا۔ اس نومبر میں وہ اکتیس سال کا ہو جائے گا۔ کیا اسے کبھی ڈھنگ کی نوکری میسر آئے گی؟ کیا اس کا اپنا گھر خاندان ہوگا؟ اس نے سوچا، کتنا خوشگوار ہوتا ہوگا آتش دان کے آگے بیٹھ کر آگ تاپنا اور تازہ پکا ہوا کھانا کھانا! دوستوں کے ساتھ آوارہ پھرتےاور لڑکیوں کو ادھر ادھرگھماتے ہوئےسڑکوں کی خاک بہت چھان لی ۔ اسے اچھی طرح پتا تھا کہ وہ دوست کتنے مخلص تھے، یا لڑکیاں کس قماش کی تھیں۔ ان سب تجربوں نے اس کے دل کو دنیا کے لیے تلخی سے بھر دیا تھا۔ لیکن امید پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ کھاناکھانے کے بعد وہ پہلے کی نسبت زیادہ بہتر محسوس کر رہا تھا، زندگی سے نسبتاً کم بیزار، کم مغلوب۔ اب بھی وقت ہے — کاش اسے کوئی بھلی، سیدھی سادی، اور پیسے والی لڑکی مل جائے جس کے ساتھ وہ دنیا کے کسی آرام دہ گوشے میں گھر بساسکے!
اس نے بھونڈی لڑکی کو ڈھائی پنس ادا کیے اور پھر سے ادھر ادھر گھومنے کو باہر نکل آیا۔ وہ کیپیل اسٹریٹ گیا اور سٹی ہال کی طرف چلنے لگا۔ پھر وہ ڈیم اسٹریٹ کی جانب مڑ گیا۔ جارجز اسٹریٹ کے کونے پر اسے اپنے دو دوست مل گئے۔ وہ ان سے بات کرنے کو ٹھہر گیا۔ اسے اچھا لگا کہ اتنا گھومنے کے بعد ذرا آرام ملا ہے۔ اس کے دوستوں نے پوچھا کہ کیا اس نے کارلی کو دیکھا ہے اور یہ کہ نیا کیا چل رہا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ اس نے سارا دن کارلی کی صحبت میں گزارا ہے۔ دوستوں نے زیادہ بات نہیں کی۔ بھیڑ میں آتے جاتے لوگوں کو وہ بے تاثر انداز میں دیکھ رہے تھے، اور بیچ بیچ میں کسی پر منفی تبصرہ بھی کر دیتے تھے۔ ایک نے کہا کہ اس نے گھنٹے بھر پہلے میک کو ویسٹم لینڈ اسٹریٹ پر دیکھا تھا۔ اس پر لینہن نے بتایا کہ وہ خود پچھلی رات میک کے ساتھ ایگن کے شراب خانے میں تھا۔ جس نوجوان نے میک کو ویسٹم لینڈ اسٹریٹ پر دیکھا تھا، اس نے جاننا چاہا کہ کیا یہ سچ ہے کہ میک نے بلئرڈ میچ میں پیسے جیتے تھے۔ لینہن نے کہا، معلوم نہیں: اس نے بتایا کہ ایگن کے شراب خانے میں ہولہین نے سب کو شراب پلائی۔
پونے دس بجے اس نے دوستوں سے رخصت لی اور جارجز اسٹریٹ پر چلنے لگا۔ سٹی مارکیٹ کے پاس وہ بائیں مڑ گیا اور گرافٹن اسٹریٹ پر آ گیا۔ نوجوان مرد و زن کا ہجوم کم ہو گیا تھا۔ راستے پر چلتے ہوئے اسے کئی لوگ یا جوڑے ایک دوسرے سے رخصت لیتے دکھائی دیے۔ وہ کالج آف سرجنز کے گھنٹہ گھر تک گیا، اس وقت ٹھیک دس بج رہے تھے۔ وہ میدان کے شمالی کنارے پر تندہی سے چلنے لگا، اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ دونوں وقت سے پہلے نہ آ جائیں۔ میرین اسٹریٹ کے کونے پر پہنچ کر وہ ایک سٹریٹ لیمپ کے نیچے اندھیرے میں کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا۔ بچا کر رکھی سگریٹوں میں سے ایک سگریٹ اس نے جلا لی۔ وہ لیمپ پوسٹ سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہو گیا اور اپنی نظر ادھر جما لی جدھر سے اسے کارلی اور لڑکی کے لوٹنے کی امید تھی۔
اس کا دماغ پھر چلنے لگا۔ اسے فکر ہوئی، کارلی کام کر بھی پایا یا نہیں؟ پتا نہیں اس نے اب تک لڑکی سے پوچھا بھی یا نہیں، یا آخر میں پوچھنے کے لیے چھوڑ رکھا ہو۔ اسے اپنی اور اپنے دوست کی حالت کے سبب عجیب سی بےچینی اور خوف کا احساس ہورہا تھا۔ لیکن اسے کارلی کا دھیرے دھیرے ڈولتا ہوا سر یاد آیا اور وہ پرسکون ہوگیاا: اسے یقین تھا کہ کارلی گوہرِ مقصود حاصل کرکے ہی لوٹے گا۔ اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں کارلی لڑکی کو کسی اور راستے سے گھر پہنچا کر اسے چکمہ تو نہیں دے گیا۔ اس نے سڑک پر نظر دوڑائی: وہ دونوں کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ کالج کے گھڑیال کو دس بجائے آدھا گھنٹہ تو گزر چکا ہوگا۔ کیا کارلی ایسا کر سکتا ہے؟ اس نے اپنی آخری سگریٹ جلائی اور بے چینی کے ساتھ کش لینے لگا۔ وہ آنکھوں پر زور دے کر ہر ٹرام سے چوک کے کونے پر اترنے والے مسافروں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں کسی اور راستے سے گھر چلے گئے تھے۔ سگریٹ کا کاغذ پھٹ گیا، لینہن نے گالیاں دیتے ہوئے اسےسڑک پر پھینک دیا۔
اچانک وہ دونوں لینہن کی طرف آتے دکھائی دیے۔ بیک وقت حیران اور خوش لینہین لیمپ پوسٹ کے ساتھ چپک کر کھڑا رہا اور ان کی چال سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ کامیابی ملی ہےیا نہیں۔ وہ تیز ی سے چل رہے تھے، لڑکی سرعت کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی اور کارلی لمبے لمبےڈگ بھرتا اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ دیکھنے سے لگتا تھا کہ وہ آپس میں بات نہیں کر رہے ہیں۔ نتیجے کا اندازہ کرکے اسے جیسے انی سی چبھی۔ وہ جانتا تھا کہ کارلی ناکام ہو جائے گا؛ اس نے جان لیا کہ کام نہیں بنا۔
وہ دونوں بیگٹ اسٹریٹ میں مڑ گئے ۔ وہ دوسری فٹ پاتھ سے ان کا تعاقب کرتا رہا۔ جب وہ رکے تو وہ بھی رک گیا۔ وہ کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے، اس کے بعد لڑکی ایک گھر کے تہہ خانے کی طرف جانے والی سیڑھیاں اتر گئی۔ کارلی گھر کو جانے والے راستے کے کنارے کھڑا رہا۔ کچھ لمحے یونہی گزرگئے۔ پھر کسی نے گھر کا مرکزی دروازہ احتیاط اور آہستگی کے ساتھ کھولا ۔ وہ لڑکی سامنے کی سیڑھیوں سے دوڑ کر اتررہی تھی، پھر اس نے کھانسنے کی آواز نکالی۔ کارلی مڑا اور لڑکی کے پاس چلا گیا۔ کچھ ساعتوں کے لیے وہ کارلی کے بڑے جثے کے پیچھے لینہین کی نظر سے اوجھل ہو گئی، پھر یکایک نمودار ہوئی اور تیزی سے سیڑھیوں کے اوپر چڑھتی دکھائی دی۔ دروازہ بند ہو گیا اور کارلی تیز تیز قدموں سے اسٹیفنز گرین کی سمت روانہ ہوگیا۔
لینہین بھی اسی سمت تیز قدموں سے چل پڑا۔ ہلکی بارش کی کچھ بوندیں گرنے لگیں۔ اس نے اسے انتباہ سمجھا اور یہ جانچنے کے لیے کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا پیچھے اس گھر کی طرف دیکھا جس میں لڑکی گئی تھی۔ پھر اس نے بے صبری سے دوڑ کر سڑک پار کی۔ بے تابی اور تیز چلنے کی وجہ سے وہ ہانپنے لگا تھا۔ آخر اس نے آواز دی:
“ہیلو، کارلی!”
کارلی نے سر گھما کر دیکھا کہ کس نے اسے پکارا ہے، اور پھر پہلے کی طرح چلتا رہا۔ لینہین ایک ہاتھ سے برساتی کوٹ کو کندھوں پر سنبھالتا اس کے پیچھے دوڑا۔
“ہیلو، کارلی!” اس نے دوبارہ آواز دی۔
وہ اپنے دوست کے برابر آ گیا اور اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اسے وہاں کچھ نظر نہیں آیا۔
“اچھا؟” اس نے کہا۔ “کام بنا؟”
وہ ایلی پلیس کے کونے پر پہنچ چکے تھے۔ اب بھی جواب دیے بغیر، کارلی بائیں طرف مڑ گیا اور چھوٹی گلی میں چلنے لگا۔ اس کے چہرے کے عضلات سخت دکھائی دیتے تھے۔ لینہن اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، اس کی سانسوں میں بے چینی تھی، وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ آخر اس کی آواز میں دھمکی در آئی۔
“کیا تم کچھ بتاؤ گے؟” اس نے کہا۔ “کیا تم نے اسے آزمایا؟”
کارلی پہلے لیمپ کے نیچے رکا اور سنجیدگی سے سامنے دیکھنے لگا،پھر ایک سنجیدہ اشارے کے ساتھ اس نے روشنی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور مسکراتے ہوئے اپنے ساتھی کے سامنے آہستہ آہستہ اپنی مٹھی کھولی۔ ایک چھوٹا سا سونے کا سکہ اس کی ہتھیلی پر چمک رہا تھا۔
—
انعام ندیم جتنے بہترین شاعر ہیں، ویسے ہی باکمال مترجم بھی ہیں۔انہوں نے جیمز جوائس کی کہانی Two Gallants کا یہ شاندار ترجمہ کیا ہے۔کہانی آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کے دو ایسے دوستوں کی شبیہہ پیش کرتی ہے، جو مشکل دور سے گزرتے ہوئے بھی زندگی میں اپنی ظاہری ٹھسک کو کسی بھی طور آنچ نہیں پہنچنے دیتے۔ان کی یہ ظاہر داری ہی اس کہانی کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔اس طرح اس کہانی میں جیمز جوائس نے اپنے دور کے جوانوں کی تصویر کشی کی ہے۔اس میں موجود تجسس اور محرومی، تدبیر اور تقدیر کے ملے جلے عناصر کہانی میں ایک طرف مزاح اور دوسری طرف المناک پہلوؤں کو ساتھ ساتھ اجاگر کرتے چلتے ہیں۔