ہرے پرکاش اُپادھیائے کی نظمیں

آگرے سے آیا راجو

 

گورکھپور میں فیمس دکان ہے چائے کی

مئو سے آکر بسنے والے گورکھ رائے کی

وہیں برتن دھوتا ہوا آگرے سے آنے والا راجو

بیٹھ گیا جاکر ایک دن اس کے بازو

 

برتن دھوتا جاتا تھا

کیا خوب سریلا گاتا تھا

عمر محض بارہ کی تھی

مگر وہ کھینی کھاتا تھا

 

کھینی کھاکر بولا، بھیا

دس سال کی عمر رہی

مر گئی کھانس کھانس کر میا

 

باپو کے بدن پر پھٹی بنیان تھی

ہم تین بھائی بڑے تھے

بہن مری نادان تھی

 

باپو کیسے اب بھوک مٹاتا سب کی

گیّا تو ہم لوگوں کی بِک گئی تھی کب کی

 

ماموں کلکتے سے

گھر میرے آٹپکا ایک بار

اس نے ہی کیا ہم سب کا بیڑا پار

لگ گئے سب اپنے کام سے

بھلے بکھر گیا اپنا پریوار

 

بڑکا رہتا ہے ایک صاحب کے گھر

جا کر اب بنگال میں

اس سے چھُٹکا کام کرتا ہے آسامی چائے کے بگان میں

بہن کی ہوگئی شادی

جیجا کا چلتا ہے ٹرک

دیکھ رہے ہیں بھیا، ہم لوگوں کا لَک

 

باپو کی عمر چھیالیس سال

پک گئے ہیں اس کے سارے بال

ٹوٹ گئے ہیں دانت سب

پچک گئے ہیں اس کے گال

آگرے میں ٹیسن پر رکشا چلاتا ہے

بابو جی وہ بھی اچھا کماتا ہے

 

میرا تو دیکھ ہی رہے ہیں حال

رائے سسُر آدمی ہے وبال

بابوجی ادھر آئیے

کان میں بولا، بابوجی اس کی ٹھیک نہیں ہے چال

رات میں مجھے بھی جبراً پِلاتا ہے

مرغا اپنے ہاتھ سے کھلاتا ہے

بابوجی لیکن اپنی کھٹیا پرہی

اپنی کھٹیا پر

مجھے بھی ساری رات سُلاتا ہے

٠٠٠

زندگی اپنی تھوڑی کڑک ہے

 

نہیں جانتے کون باپ کون مائی ہے

مجھے کیا پتہ میری زندگی کہاں سے آئی ہے!

 

بابوجی شہر کے باہر

گندے نالے سے آگے

جو بستی جھگی ہے

وہیں تو رہتی میری نانی ڈگڈگی ہے

 

کہتے ہیں لوگ وہی مجھے

بھگوان جی سے مانگ کر لائی ہے

بابو جی وہ بڑھیا بھی بہت قصائی ہے

 

مگر کیجیے گا کیا

اس پر بھی مجھے آتی ہے دَیا

بابو جی لگتا ہے مجھے وہ بھی زمانے کی ستائی ہے

اس نے بھی نہ جانے کس کس سے مار کھائی ہے

 

چھوڑئیے خیر اب اس کی بات

دن بھیک مانگتے ہوئے اور فٹ پاتھ پر کٹتی ہے میری رات

کبھی کبھی تو ایک ہی چدّر میں ہم لونڈے ہوتے ہیں سات

ہنس کر کہنے لگا، بابوجی ہے نا یہ انوکھی بات

 

زندگی اپنی تھوڑی کڑک ہے

مگر مت سمجھیے بس یہی سڑک ہے

جینے پانے کو اور بھی کوئی پتلی گلی ہے

بابو جی یہ دنیا بھی بہت بھلی ہے

 

کیا جاڑا کیا گرمی کیا برسات

ہم تو ٹھہرے بابو جی مانگنے والی ذات

ہمیں نہیں کوئی شکوہ کسی سے

جتنا ملے پیٹ بھرتے ہیں اسی سے

 

بابو جی کہاں دیتا ہے کوئی کام

گرے ہوئے ہیں سب جن کے ہیں بڑے نام

خوشبو سے مہکتے ہیں جن کے چام

منہ سونگھنا ان کا آپ کسی شام

 

بابو جی اچھا لگا

آپ نے کر لی عزت سے تھوڑی بات

ورنہ تو اپن کھاتے ہی رہتے ہیں لات

قصہ بہت ہے

کبھی فرصت سے کرتے ہیں ملاقات!

٠٠٠

 

رفیق ماسٹر

 

ہردوئی سے بھاگ کر آئے ہیں رفیق ماسٹر

پنڈت کھیڑا میں ڈیڑھ کمرے کا ہے کرایے کا گھر

برتن باسن کپڑا لتّا اور بستر

ہنس کر کہتے ہیں، دیکھ رہے ہیں نوابوں کا شہر

 

کچھ اپنوں نے مارا کچھ غیروں نے مارا

کب تک سہتے ، چھوڑے آئے نِج گھر سارا

زندگی ایسی دکھارہی دن میں ہی تارا

سی کر ڈھک رہے ہیں غیروں کے تن، پھٹا ہوا ہے لباس ہمارا

 

پُلیا سے آگے فُٹ پاتھ کے کنارے

تانی ہے پنّی بانس بلّی کے سہارے

یہی جھوپڑیا لگائے گی نیّا کنارے

پھٹی سب کی سئیں گے ٹوٹی مشین کے سہارے

 

سنورے بھیا کہانی ان کی تم سچی

کبھی کبھی فاقہ ، کبھی پکی، کبھی کچی

نیک ہے بغل والی اپنی کلاوتی چچی

دے جاتی  ہے صبح میں رات کی روٹی ان کی بچّی

 

گھر میں مرغی نہ بکری بس بیوی اور بچے

سمے پر چکے کرایہ، مولیٰ دے نہ غچے

 

صبح سے شام کرتے ہیں کام

کبھی نہ ان کی چھٹی ، نہ آرام

بڑے چھوٹے سب کو کرتے ہیں سلام

 

ہفتے کے سو رپے لیتا چوراہے کا سپہیا

کبھی آجاتا رنگدار منوجوا چلاتا ہوا دو پہیا

پھٹی ادھڑی سب کی سیتے، دیکھتے سُکھوا کی رہیا

قینچی چلاتے سوچتے جائے گا دکھ ای کہیا

 

پیڈل مار مار پھول رہا دم ٹوٹہی سڑک پر چلنا مشکل

کہتے رفیق ہوکر اداس، کیسے چلے  گی جیون کی سائیکل

کہیے بھیا اب آپ ہی کہیے

لگتا ہے پنچر بھی ہیں  اس کے دونوں پہیے

٠٠٠

 

بال کاٹتے سنجے بھائی

 

تیلی باغ سبزی منڈی میں بال کاٹتے ہیں سنجے بھائی

رام رام! کیسے ہو کہو اپنی کچھ پیارے بھائی!

 

بھیا دن بھر کاٹت ہیں تو ہے پانچ چھ سو کمائی

چھوٹا ہے ادھر شادی بیاہ مرنی جینی میں آواجائی

پاپا کی چل رہی پی جی آئی میں چار مہینے سے دوائی

ہر تین دن پر ڈاکٹر صاحب لیتے ہیں انہیں بلائی

یہیں لے لیے ہیں بگلے (بغل) میں بڑھیا ایک کمرے کا ڈیرا

بھیا دیکھیے کب تک چھٹ پاتا ہے جو دکھ کا ہے گھیرا

دن بھر کھٹتے بیتتا ہے اندیشوں کے ساتھ ہوتا سویرا

کیا کرسکتے ہیں مالک نے لکھا یہی بھاگ ہے میرا

 

گاؤں میں رہتے میرے پپو، رِنکو، چھوٹو اور ان کی مائی

گھر چھوڑ کر سورت کمانے چلاگیا ہے چھوٹا بھائی

برسات میں گھر گرا تو مہری، اسے قرض لے کر بنوائی

روز اس کی وصولی کے لیے گھر آتا ہے شنکر سنگھ کا بھائی

 

مہری نے کل فون کیا تھا، چڑھ کر بول رہی تھی

گاؤں کی حالت سہی نہیں ہے ، سب کی پول کھول رہی تھی

پلے کچھ نہ آیا جیسے پیٹ وہ بے سُرا ڈھول رہی تھی

پوچھا کھایا، کیا معلوم کہ روز وہ ستوا گھول رہی تھی

 

بچے چھوٹے چھوٹے ہیں مگر وہ بھی اب کچھ نہ کچھ کماتے ہیں

بڑکا تو پنڈی جی کی بھینس، چھوٹکے سب بکری چراتے ہیں

اب یہ نہ کہیے گا کہ سکول بھیج کر کیوں نہیں پڑھاتے ہیں

ارے وہاں تو جاتے ہی ہیں، انہیں سب مڈڈے میل کھلاتے ہیں

 

بھیا کوئی خاص دقت نہیں ہے، سرکار بھی راشن دیتی ہے

یہی قرض ، ورض ہاری بیماری جونک جیسی خون چوس لیتی ہے

بہت ہے قرض بھر دیں گے کچھ بکریا اب کی بچہ دیتی ہے

میری اس  بے چاری کا کیا، وہ تو پھٹا پرانا بھی پہن لیتی ہے

 

راشن کارڈ، آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ، شرمک کارڈ، آیوشمان کارڈ

بہت بنے ہیں بھیا طرح طرح کے کارڈ ہم کو تو بولنا بھی لگتا ہے ہارڈ

ان کو سنبھال کر رکھنا تو اور بھی ہارڈ ہے، جب ضرورت ہو جس کی نہیں ملتا وہی کارڈ

بھیا! ویڈیو مت بنائیے، اچھا نہیں لگتا ہم کو یہ ریکارڈ

٠٠٠

 

رام اکیلا

 

یہ ہے میرا ٹھیلا

نام لکھیے رام اکیلا!

 

بازار ہو یا میلا

ملتا ہوں لگائے میں اپنا ٹھیلا

کبھی ترکاری بیچتا ہوں کبھی کیلا

 

اس ٹھیلے کے بل پر اپنے دکھ کو ٹھیل رہا ہوں

موسم کی مار

جیون کا بھار

بارہوں ماس خوب بڑھیا طریقے سے جھیل رہا ہوں

زندگی کھیل نہیں ہے بھائی

مگر دیکھیے اڑا ہوا ہوں اور کھیل رہا ہوں

 

کوئی کیا کچھ دے گا مجھ کو

کہتے سب کیا پڑی جینے کی تجھ کو

رونے سے نہیں چلے گا صاحب

لڑنا ہوگا

 

بھلے نہ مانو

لاکھ بھویں تم اپنی تانو

ہم بھی تو انسان ہیں

چھوڑ رہے اس تہذیب کا نشان ہیں

 

تیرے پیسے سے نہیں چلتا یہ سنسار

سب کو لوٹ رہے ہو بن کر دنیا کا بھار

ہم اپنی محنت سے ناؤ کھے رہے ہیں

اس دنیا کو ہم اپنا پسینہ دے رہے ہیں

 

میرا یہ ٹھیلا ہو

یا تیرا محل اکیلا ہو

سب ٹھاٹھ تو یہیں رہ جائے گا

ہر آدمی ایک ہی باٹ سے آیا

ایک ہی باٹ کو جائے گا

 

ایسے نہ اپنی گاڑی کی پیں پیں بجاؤ

شرم کرو شرم کرو

اپنے بھرم کو نہ ایسے اوڑھو بچھاؤ

اسے سمیٹ کر کنارے دھرو

٠٠٠

 

آپ کے جوتوں پر قسمت ہماری

 

عمر چودہ کی بھی نہیں ہے

مگر دیکھو باتیں کرتا کتنی بڑی بڑی ہے

کہہ رہا، صاحب کرالیجیے بوٹ پالش

کہاں بھاگے جارہے

زندگی لمبی ہے،ایسی کیا ہڑبڑی ہے

ان جوتوں کو بھی دیکھیے، کتنی دھول پڑی ہے

 

اتنے پیار سے ، دلار سے بولا کہ میں رک گیا

نہ جانے اس کی آنکھوں میں کیا تھا، جھک گیا

 

کہا آپ کے جوتوں پر قسمت ہماری

آپ سمجھتے تو ہوں گے ہی ہماری لاچاری

آپ کے جوتوں کے سہارے ہی

کٹتی ہے زندگی ہماری

 

مار کر پالش جوتے نئے بنادیے

اس کی چمک میں چہرے دکھا دیے

کہنے لگا، صاحب دس روپے دیجیے

بوہنی بھی نہیں ہوئی ہے، ٹوٹے ہی دے دیجیے

 

جب کہ دن کے بارہ بجنے والے تھے

سورج دادا سر پر آنے والے تھے

کون بے رحم ہاتھ، اس کا بھاگیہ لکھنے والے تھے

 

کہنے لگا صبح سے کچھ کھایا نہیں ہے

آیا ہے کمانے صبح سے مگر گھر میں بتایا نہیں  ہے

دوپہر تک کچھ بھی تو کمایا نہیں ہے

کل جو کچھ کمایا تھا، وہ بچایا نہیں ہے

 

کل ایک صاحب نے مارا تھا

پتہ نہیں کیا غلطی تھی میری

لگتا ہے، کہیں اور کا غصہ اتارا تھا

جانے دیجیے، یہی بھاگیہ ہمارا تھا

 

چلتے چلتے کہنے لگا، صاحب پھر آئیے گا

کوئی کام ہو میرے لائق تو بتائیے گا

٠٠٠

 

ہرے پرکاش اپادھیائے کا جنم ریاست بہار کے ایک گاؤں بیساڈیہہ میں ہوا ہے۔ وہ ہندی  کویتا میں اپنا نام بناچکے ہیں اور ہندی کے بہت سے اہم ویب پورٹلز اور رسائل میں جگہ بناچکے ہیں۔2009 میں بھارتیہ گیان پیٹھ سے ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘کھاڑی دوست تتھا انیہ کویتائیں’ شائع ہوا۔پھر وہیں سے 2014 میں پہلا ناول ‘بکھیڑاپور’ بھی چھپ کر سامنے آیا۔2021 میں ان کا ایک اور  نظموں کا مجموعہ ‘نیا راستہ ‘کے نام سے شائع ہوا۔وہ ہندی کے کئی اہم اعزازات سے نوازے گئے ہیں۔

مندرجہ بالا نظمیں ایک ویب سائٹ ‘آلوچنا میگزین’پر شائع ہونے والے ان کے ایک انتخاب سے لی گئی ہیں۔ان تمام نظموں میں ایک ایسی چیز موجود ہے، جو اپنی طرف توجہ کھینچتی ہے۔ہرے پرکاش نے ان نظموں کو نہ صرف سماج کے  دبے کچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی  پر مرکوز کیا ہے، بلکہ یہ نظمیں ان کی عام بول چال ، زبان اور لہجے میں ہی لکھی بھی گئی ہیں۔اسی لیے میں نے ان نظموں کو محض اردو میں ٹرانسفر کیا ہے اور ممکنہ حد تک اس کی زبان سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے احتراز کیا ہے۔اس نظمیہ اسلوب میں ہرے پرکاش کا یہ تجربہ محض اسی سچائی کی بنیاد پر خاصا پرکشش بن جاتا ہے۔اردو شاعری اور ادب کا موجودہ منظر نامہ عام طور پر ایسی نظموں کو دیکھ کر ناک بھوں ضرور چڑھا سکتا ہے اور اپنی برسوں پرانی نرگسی غنائیت و نفاست کے دامن میں پناہ لے سکتا ہے۔ مگر ہرے پرکاش کی یہ کویتائیں نہ صرف اہم ہیں، بلکہ یہ ہمارے لوگوں کو بھی ایک بہتر دِشا دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔امید ہے کہ انہیں اس نظریے کے ساتھ پڑھا اور سمجھا جائے گا۔شکریہ!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *