غلط پتے کی چٹھیاں

ایک تھی  صاندلی رانی۔کھاتی سنار کی تھی، گاتی کمہار کی تھی۔ سنار دن بھر پسینہ بہاتا۔ اس کے لیے سندر جھمکے اور بالیاں گڑھتا۔ پھر اسے پہناتا۔ ہر بار بالی اور جھمکے کے لیے اسے کانوں میں نئے چھید کرنے پڑتے۔کان چھدوانے کی تکلیف میں اس کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔مگر وہ  چھدوائے جارہی تھی۔کمہار مٹی اکٹھی کرتا۔ اسے چاک پر چڑھاتا۔گول گول گھومتے چاک پر مٹی ناچنے لگتی،۔کمہار صاندلی رانی سے پوچھتا کہ بتاؤ کیا بناؤں۔اس کی مٹی سے وہ کبھی میٹھے شربت کی صراحی بنواتی، کبھی پوجا کا دیا اور کمہاربنادیا کرتا۔

اب چونکہ وقت بدل رہاتھا۔ ذات پات کے قلعے مسمار  ہورہے تھے۔ پیشے بدل رہے تھے۔ اس لیے اب سنار، سنار نہ تھا۔ وہ ملٹی نیشنل کمپنی کا ایک قابل ملازم تھا کنک کپور۔کمہار بھی کمہار نہ تھا، وہ کالج میں پڑھاتا تھا کبیر کمار۔کالج سے آتے جاتے کبھی کبھار کبیر اس بس اسٹاپ کے پاس سے گزر جاتا جہاں صاندلی رانی یعنی منجری اپنے بچوں کو اسکول بس میں چڑھانے جاتی تھی۔ تو یوں ہی تکلفاً بات چیت ہوجاتی اور یوں ہی وہ پوچھ لیتا،’صحت کیسی ہے؟’، ‘کچھ ضرورت ہو تو بتائیے گا۔’دن بھر کی  دوڑ بھاگ میں اکثر منجری کی صحت کے ساتھ کچھ نہ کچھ لگا  ہی رہتا تھا، سو یہ دونوں سوال اس کے دل کے سب سے زیادہ نرم سوال بن گئے تھے۔جن کا وہ اکثر یہی جواب دیتی، ‘اچھی ہوں، ‘نہیں نہیں، تھینک یو۔’

صاندلی رانی یوں تو راجپوتانے سے تھی، مگر ذات پات کے قلعے کے مسمار ہونے  سے بہت پہلے ہی راجپوتانے کے بھاری بھرم بھی ٹوٹنے لگے تھے۔ جاگیروں کے کھو جانے کے بعد بھی جو حکومت کرتے رہنا چاہتے تھے، ان کے لیے نیا کورس شروع ہوگیا تھا، ایم بی اے۔سو اس ہونہار لڑکی کو پریوار نے ایم بی اے کروادیا۔فرصت میں ‘فار فرام میڈنگ کراؤڈ’اور’گریٹ ایکسپکٹیشن’ جیسی عالمی شہرت یافتہ کتابیں پڑھنے والی منجری نے بہترین گریڈ کے ساتھ ایچ آر میں ایم بی اے مکمل کیا۔پھر کنک کپور سے شادی کی۔ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم کنک کپور پہلے ہی لاکھوں کمارہا تھا، سو ایم بی اے کی ڈگری پر چالیس پچاس ہزار کی نوکری کروانے سے بہتر تھا کہ گھر میں ہی پتنی کے علم اور رکھ رکھاؤکا فائدہ اٹھایا جائے۔یوں بھی آج کل گھر میں فل ٹائم میڈ رکھو تو وہ دس ہزار سے کم نہیں لیتی۔اس پر پتنی اگر روز آفس جائے گی تو ساڑی گاڑی کے ساتھ اور بہت سے خرچ بڑھ جاتے ہیں۔ پھر پریوار کو باندھنے والا ایک شیرازہ بھی تو چاہیے۔ جو پچاس ہزار اور خرچ کرنے پر بھی نہیں ملنے والا تھا۔ یہ سارا حساب کتاب کرتے ہوئے کنک کپور نے ڈگریاں سنبھال کر اسٹڈی روم  کی ایک دراز میں رکھ دیں اور منجری کو گھر بھر کے  کام پر لگا دیا۔

منجری جب کنک کپور کی زندگی میں آئی وہ بے حد خوبصورت اور سڈول تھی۔ اکثر ویسٹرن ڈریسز پہنا کرتی تھی۔ شادی میں کنک کپور اور ان کے پریوار نے منجری کے لیے بھاری بھاری ساڑیاں اور لہنگے خریدے۔ لیبر قانون اور کمپنی ایکٹ پڑھ کر آئی منجری کو کھانا وانا بنانا کچھ نہیں آتا تھا۔ ساسو ماں نے انگریزی میں لکھی گئی بھارتیہ پکوانوں کی ریسیپی بُکس بہو رانی کو تحفے میں دیں۔ کچھ روایتی پکوان پہلے کھلائے، پھر بنانا سکھائے۔منجری دھیرے دھیرے سیکھ رہی تھی۔ ساس نے بڑی محبت سے منجری کو سمجھایا کہ سپریڈ شیٹ پر ‘کاسٹ ٹو کمپنی’ کیلکولیٹ کرنے سے زیادہ مشکل ہے ساری روٹیاں ایک ہی وزن اور ایک ہی طرح کی گول بنانا۔لیکن چونکہ منجری ایک قابل  اور ہونہار لڑکی  ہے، سو دیکھیے اس نے روٹی گول بنانا بھی سیکھ لیا۔ ملٹی نیشنل کمپنی کے قابل افسر کنک کپور کو اکثر میٹنگوں، کانفرنسوں میں جانا ہوتا۔وہاں اسے بفے میں طرح طرح کے پکوان کھانے اور کھلانے ہوتے۔ انڈین، کانٹی نینٹل، چائنیز، اٹیلین، پنجابی، بنگالی اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔جو سواد، جوانداز اسے لذیذ لگتے، انہیں وہ گھر لے آتا۔پتی کے مزے کا خیال  رکھنے والی منجری نے اب چائنیز اور اٹیلین ڈشیز کی ریسیپی بُکس خریدیں۔کنک کپور شادی کی پہلی سالگرہ پر منجری کے لیے ایک ٹیبلیٹ لے آئے۔اس پر وہ انٹرنیٹ پر اور بھی کئی طرح کی ریسیپیز سرچ کرسکتی تھی۔کھلانےا ور پروسنے کے اور بھی کئی انداز سیکھ سکتی تھی۔ وہ دیکھ سکتی تھی کہ اب لان میں ہینگنگ فلاور پاٹ لگانے کا چلن ہے یا کیاریوں میں کارنیشن کے پودے لگانے کا۔اسٹڈی روم میں جو کرسی منجری نے اپنے پڑھنے کے لیے لگوائی تھی اس پر اب اکثر پریس کیے جانے والے کپڑوں کا ڈھیر پڑا رہتا۔ جب بھی اسے فرصت ہوتی وہ اسٹڈی ٹیبل پر موٹی چادر بچھا کر اس ڈھیر کے  کچھ کپڑے پریس کردیتی۔باقی کا ڈھیر کسی کو نظر نہ آجائے اس کے لیے اس نے اسٹڈی روم کی کھڑکیوں پر موٹے کپڑے ڈال دیے تھے۔ اسٹڈی روم پر زیادہ تر تالا پڑا رہتا۔بھاری، مہنگی ساڑیوں کا پلا کمر میں کھونسے وہ سرچنگ، سرفِنگ اور سروِنگ میں بزی رہتی۔فری سائز ساڑیوں میں اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کی جینز کا سائز اٹھائیس سے بتیس اور بتیس سے چھتیس ہوگیا۔ اب وہ اور بھری بھری، اور سندر دکھنے لگی تھی۔گود بھی بھری۔ گول مٹول دو بچوں سے۔کتنا سندر پریوار ہے نا۔۔۔جو دیکھتا فدا ہوجاتا۔پرفیکٹ فیملی۔ پڑھی لکھی ایچ آر میں ایم بی اے کی ڈگری والی لڑکی رسوئی میں مزیدار ، مقوی پکوان بنارہی ہے۔لاکھوں روپیہ کمانے والا کنک کپور پتنی کی پل پل کی خبر رکھتا ہے۔ ہر فیشن کی ساڑیاں اس کے وارڈ روب میں شامل کرتا جاتا ہے۔ اور بچے اپنی شرارتوں کے ساتھ دادا دادی اور رشتے داروں کی شفقت کی چھاؤں میں بڑے ہورہے تھے۔

مگر کبھی کبھار صاندلی رانی یعنی منجری کے جسم سے چندن کی خوشبو آنے لگتی۔پتہ نہیں کیوں! مگر جب بھی یہ خوشبو آتی منجری کا من عجیب سا ہوجاتا۔ اس کے بھیتر  کچھ کھونے، کچھ نہ کرپانے کا دکھ انگڑائی لینے لگتا۔ایسی کون سی خوشبو ہے جو مہنگے سے مہنگے روم فریشنر سے بھی زیادہ اسے پریشان کردیتی ہے۔ اسی تلاش میں منجری کبھی کبھی بہت اداس ہوجاتی۔اس اداسی کے درمیان بھی کچھ کہاں رکنے والا تھا۔ بچے بڑے ہورہے تھے، ان کی ضرورتیں بڑھ رہی تھیں۔منجری بچوں اور پریوار کی ضرورتوں کے حساب سے خود کو ڈھال رہی تھی۔ مثلاً اب اسے سمجھ میں  آنے لگا تھا کہ بڑے والے سونو کو پڑھانے سے پہلے اسے خود ساری کتابیں پڑھنی ہوں گی۔اور اگر یہی لاپرواہی جاری رہی تو کوئی ٹیوشن ڈھونڈنی ہوگی۔

یوں ہی ایک دن اداسی کے باوجود مسکراتے ہوئے منجری نے کبیر سے بچوں  کے لیے ہوم ٹیوٹر ڈھونڈنے کو کہہ دیا۔منجری کے گدگدے بچوں کو جب مسکراتے دیکھتا تو کبیر کمار کو اپنے بچوں کا فولادی  نظم و ضبط  میں گرفتار بچپن پریشان کرنے لگتا۔

اصل میں بس اسٹاپ پر منجری اور دونوں بچوں کا مسکراکر استقبال کرنے والے کبیر کمار کو کالج میں پڑھاتے ہوئے  اپنے ساتھ کی ایک لڑکی سے پیار ہوگیا تھا۔ جو عہدے میں ان سے جونیر مگر حوصلے میں سینیر تھی۔ وہ لڑکی جیسے بالکل لوہار تھی۔ اس کے بھیتر غضب کا لوہا تھا۔وہ کسی سے بھی لوہا لے سکتی تھی۔اپنے پریوار سے بھی۔ اب پیار تو پیار ہے۔یہ ایسی دھند ہے جس کی آغوش میں سب ڈھک جاتا ہے۔ پیار کی دھند میں کبیر کی مٹی اور اسمِتا کا لوہا بھی ایک ہوگیا، لمبے وقت تک ایک ہی رہا اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ مگر مٹی تو مٹی ہے، کتنا بھی ڈھک دو، اپنا کچا پن کہاں چھوڑ پاتی ہے۔یہی کچا پن جب بہت بڑھ جاتا تو اسمِتاکو الجھن ہونے لگتی۔اسے لگتا کہ اس نے مٹی کے مادھو سے پیار کرلیا ہے۔اس مٹی کے ساتھ گرہستی بسا کر اس نے اپنے اندر کے لوہے کو زنگ لگادیا ہے۔اس چڑچڑے پن میں اس کا لوہا اور زیادہ کٹھور ہوکر اس کے برتاؤ میں اتر آتا۔وہ لوہے کی باتیں کرتی۔بچوں کو لوہے کی زنجیروں جیسے نظام میں باندھنے کی کوشش کرتی۔یہیں کبیر بے بس ہوجاتا۔پتہ تو اسمتا کو بھی تھا کہ وہ اپنے  پریوار کے ساتھ زیادتی کررہی ہے، مگر اسے ڈر تھا کہ اگر اس نے ذرا بھی ڈھیل دی تو کبیر کی مٹی اس کے اندر کے لوہے کو زنگ لگا دے گی۔ وہ دن  میں بار بار فون کرتی۔پوچھتی کہ کہاں ہو؟ کیا کررہے ہو؟ کب لوٹوگے؟اب تک کیوں نہیں لوٹے؟ کبیر جب کتابیں پڑھ چکا ہوتا، وہ انہیں بے وجہ الٹتی پلٹتی۔عشق کے نشے میں غچہ کھائی ہوئی اسمتا کو اب ہر کتاب سے نفرت ہوچلی تھی۔ اب کچھ بھی پڑھنے کو اس کا جی نہیں چاہتا تھا۔ ان گمشدہ پھولوں سے بے پروا کبیر شاعری کے چکر میں پڑگیا تھا۔ کبھی  یوں ہی اسمتا اس کی نظموں کی تعریف بھی کردیا کرتی۔ مگر زیادہ تر نظموں میں سے خود کو گم ہی پاتی۔وہ ان نظموں میں کوئی گمشدہ پھول ڈھونڈ رہی تھی۔یوں ہی کبھی کبھی اسے لگتا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر پیار ویار میں پڑے بغیر اس نے دماغ سے کام لیا ہوتا۔اور اس بزنس مین سے شادی کی ہوتی، جس کے پاس فولادی اوزار بنانے کی بڑی بڑی مشینیں ہیں۔یہاں شاید وہ ٹھگی گئی۔ یہی سوچتے سوچتے اس کے سر میں ڈپریشن کا ایک کیل برابر لوہا اتر آتا اور وہ درد سے پریشان ہواٹھتی۔

کبیر اپنی دنیا میں مگن  تھا۔ اسے کہاں پتہ تھا کہ اس کا مٹی پن اسمتا کے لوہے کو زنگ لگا رہا ہے۔مگر ہاں، اتنا ضرور سمجھتا تھا کہ اسمتا کا کٹھور من اب اس کی نرم بھاشا سمجھ نہیں پارہا ہے۔مگر یہ دو بچے ہیں نا، جن میں ابھی تھوڑی سی مٹی باقی ہے اور جن کو  ابھی چنوتیوں سے تھوڑا لوہا لینا ہے، ان کے لیے وہ بے پروائی کی ایک مسکان اپنے ہونٹوں پر لیے گھومتا۔وہ پڑھتا پڑھاتا۔لکھتااور لکھواتا۔بس مٹی کو زنگ بتائے جانے کی مایوسی کو خود پر حاوی ہونے سے بچاتا۔

یوں ہی مایوسی کو اپنے بھیتر دبوچے وہ بس اسٹاپ کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اسے یاد آیا کہ وہ منجری کے بچوں کے لیے ابھی تک کوئی ہوم ٹیوٹر نہیں ڈھونڈ پایا ہے۔ منجری کے پاس تو سو کام تھے، اسے کہاں کسی ایک کام کی کوئی خاص خبر رہتی تھی۔ آج بھی منجری صبح کی جلدباز بدحواسی میں بچوں کو لیے بس  کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ اصل میں ہوا یوں کہ کل سونو اسکول سے گھر لوٹتے ہوئے پانی کی بوتل کہیں گُم کرآیا۔بوتل کا خیال اسے تب آیا جب رات کے آٹھ بج گئے تھے۔ اب اس سمے اگر واٹر بوٹل لینے بازار جاتی تو ڈنر ڈسٹرب ہوجاتا۔ڈنر بہت ضروری تھا۔ بڑھتے بچوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ وقت پر اچھا کھانا کھائیں۔ وہ بھی سونے سے کم سے  کم دوگھنٹے پہلے۔ تاکہ ہاضمہ بھی ٹھیک بنا رہے۔ورنہ اور سو طرح کی مشکلیں بچوں کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔چھوٹا والا مونو اگر رات کو سوتے سمے دودھ نہ پیے تو اسے صبح فریش ہونے میں دیر ہوجاتی ہے۔ اب اس تاخیر کا مطلب مسلسل  اور کئی کاموں میں تاخیر ہونا تھا۔سونو اور مونو دونوں وقت پر کھانا کھائیں، وقت پر ہوم ورک کریں اور وقت پر سو جائیں تاکہ صبح وقت پر اٹھ سکیں، یہ سب ذمہ داریاں منجری کی تھیں۔ انہیں ذمہ داریوں  کی ریل پیل میں وہ اکثر کچھ نہ کچھ بھول ہی جاتی تھی۔ جیسے اس بار ہوا۔ سونو واٹر بوٹل اسکول میں  گم کرآیا اور اسے خیال ہی نہیں رہا۔اب صبح فرج کی پلاسٹک بوٹل کو صاف کرکے، اس پر سونو کے نام کی سلِپ لگا  کرفلٹرڈ واٹر بھرنے میں لگ بھگ سات منٹ زیادہ لگ گئے۔ پلاسٹک کی بوتل پر کوئی بھی پین ڈھنگ سے کام نہیں کرتا۔اس لیے منجری نے سفید کاغذ پر اسکیچ پین سے سونو کا نام اور کلاس لکھ دی اور پھر سیلو ٹیپ سے اسے بوتل پر چپکا دیا۔سونو اتنا  لاپرواہ ہے کہ اس کے ساتھ اسے خاص احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ ورنہ پانچویں کلاس تک پہنچتے پہنچتے تو بچے بہت سمجھ دار ہوجاتے ہیں۔ سونو کی لاپرواہیاں بھی منجری کو بے وجہ الجھائے رکھتیں اور وہ جھنجھلااٹھتی۔اسی جھنجھلاہٹ میں اکثر سونو پِٹ جاتا۔پھر ساسو ماں سے منجری کو ڈانٹ پڑتی۔ اس سب ملی جلی کھینچ تان میں بس چھوٹ گئی اور منجری اس چھوٹتی ہوئی بس کو آواز دیتے ہوئے دوڑ رہی تھی۔ اگر بچوں کے پاپا ہوتے تو اسی بس کو اگلے اسٹاپ پر پکڑا جاسکتا تھا۔ مگر پاپا تو اب یہاں  تھے نہیں نا۔

کنک کپور کو لگنے لگا تھا کہ پریوار کا خرچ بڑھ رہا ہے۔جس حساب سے ایجوکیشن مہنگی  ہوتی جارہی ہے، اس حساب سے انہیں اگلے بارہ برس کی ضرورتوں کی تیاری ابھی سے کرنی پڑے گی۔ اسی سوچ کے ساتھ انہوں نے ایک نئی کمپنی میں اپلائی کردیا۔ اس کمپنی نے انہیں نہ صرف پہلے سے اونچا عہدہ دیا، بلکہ سیدھے کینیڈا میں پوسٹنگ کردی۔ تنخواہ پہلے والی تنخواہ سے لگ بھگ دوگنی اور رہنا کھانا سب کمپنی کے کھاتے میں۔کل  ملا کر تنخواہ پوری کی پوری بچی ہوئی۔ اتنا اچھا آفر بھلا کوئی ہاتھ سے کیسے جانے دیتا۔ سو کنک کپور کینیڈا چلے گئے۔

گھر کی ذمہ داریوں اور بچوں کی شیطانیوں کے بیچ منجری کو چھوڑ کر۔نہیں، اصل میں چھوڑا بھی نہیں تھا۔وہ بالکل منجری کے ٹچ میں تھے۔ اکثر ان کی اسکائپ پر باتیں ہوتیں۔ٹیبلیٹ کا فرنٹ کیمرہ آن کرواکر وہ گھر بھر کا اور منجری کا بھی جائزہ لیتے رہتے۔

مگر بچوں کو اسکول کون چھوڑتا۔کبیر نے اس بار جب ‘ہائے ہیلو’کی تو منجری پیاسی مینا کی مانند بول اٹھی۔’آپ پلیز بچوں کو تھوڑا آگے تک چھوڑ دیں گے؟ ان کی اسکول بس چھوٹ گئی ہے۔ابھی اگلے اسٹاپ پر مل جائے گی۔’کبیر ٹھہرا مٹی کا آدمی۔ اس نے گاڑی کا لاک کھولا اور دونوں بچوں کو اس میں بٹھا لیا اور بول پڑا۔’آپ بھی ساتھ بیٹھ جائیے۔ مجھے پتہ نہیں چلے گا، بس کے روٹ کے بارے میں۔’

بچوں میں الجھی الجھی سی منجری نے بکھر آئے بالوں کو پھر سے کلَچر میں کسا اور اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی  ہی دور پہنچ کر بچوں کی اسکول بس تو مل گئی مگر کچھ چیزیں اس ملاقات کے بعد اٹک کر رہ گئیں۔ کبیر کی گاڑی کے ڈیش بورڈ پر شیکسپیئر کی کتابیں پڑی تھیں۔ ان کتابوں پر منجری نے کچھ نہیں کہا ، مگر ایک کسک منجری کے من میں رہ گئی کہ اگر اس نے ڈرائیونگ سیکھ لی ہوتی تو آج اسے یوں کسی انجان آدمی کا احسان نہ لینا پڑتا۔

کنک کے کینیڈا جاتے ہی گاڑی پر کنک کے چھوٹے بھائی آرَو کا حق ہوگیا تھا۔ماں پِتا جی جس کو بھی ضرورت ہوتی وہ آرو کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر چلے جاتے۔ بچوں کو بھی چاچو بہت پیارے تھے۔ بس چڑ منجری کو ہی تھی۔ جبکہ دونوں لگ بھگ ہم عمر تھے، لیکن منجری اس سے بچتی ہی  رہتی۔ایم بی اے کرنے کے بعد بھی منجری کے اندر سے راجپوتانے کا بھرم اور ٹھسک کم نہیں ہوئی تھی۔وہ ہر رشتے میں ایک خاص طرح کی دوری بنائے رکھنا چاہتی تھی، اور آرو  دوریوں کو جلد پاٹنے  پر یقین رکھتا تھا۔بھائی کی گاڑی اور بھابھی کی ساڑی اس کے لیے لگ بھگ برابر ہی تھے۔ گھر کی ذمہ داریاں تو وہ سنبھال ہی رہا تھا، لیکن اپنے اوچھے مذاق  اور غیر ضروری روک ٹوک کے کارن کئی بار منجری سے ڈانٹ بھی کھاچکا تھا۔ مگر ہر بار بعد میں پریوار سے منجری کو ہی ڈانٹ پڑتی تھی۔ کبھی بچپنا کہہ کر، کبھی ذمہ داری کہہ کر آرو کی بات صحیح ثابت کردی جاتی۔ایسے میں گھر میں گاڑی ہوتے ہوئے بھی اسے بچوں کو چھوڑنے کے لیے کبیر کو کہنا پڑا۔

کینیڈا جانے کے بعد سے کنک کچھ زیادہ ہی پازیٹو ہوگئے تھے۔ رات میں لمبی بات چیت کرتے۔ دن بھر کا حال چال جاننا چاہتے۔ ماں پِتا جی کی زیادہ فکر کرتے اور سب ہدایتیں منجری پر منڈھتے جاتے۔شروع کے پانچ دس منٹ منجری بھی پورے من سے بات کرتی۔ دن بھر کا حال بیان کرتی۔بچوں کی شرارتیں بتاتی، گھر والوں کے برتاؤ کے بارے میں اطلاع دیتی۔بس یہ شروع کے پانچ دس منٹ تو اچھے چلتے ، اس کے بعد وہ یا تو کنک سے اپنے برے برتاؤ پر ڈانٹ کھاتی رہتی یا یہ سنتی رہتی کہ اس کام کو جیسے ان سُنا کیا، ویسے نہ کیا جاتا تو اور بہتر ہوتا۔دن بھر کی تھکی ماندی منجری جب پتی کی باتوں میں ہمدردی کے حرف تلاش کررہی ہوتی، اسے کھردری سچائیاں بتائی جاتیں۔وہ آنسوؤں میں بھیگ جاتی۔ اس کے گلے کے اندر بہت کچھ رندھ جاتا۔آج بھی جب اس نے سونو کے واٹر بوٹل گم کردینے، بچوں کے لیٹ  ہوجانے اور پھر کبیر کی گاڑی سے بچوں کو اگلے اسٹاپ تک چھوڑنے کی بات کنک کو بتائی تو اسے لگ رہا تھا کہ اپنی ڈگریوں کو اسٹڈی کی دراز میں ڈلواکر گرہستی کے ڈانسنگ فلور پر بنا تھکے تھرکنے والی منجری پر کنک کا دل باغ باغ ہواٹھے گا۔ لیکن ہوا ٹھیک اس کا الٹ۔منجری کو خوب ڈانٹ پڑی۔کنک نے بتایا کہ فرج کی پلاسٹک کی بوتلیں بچوں کے لیے کتنی ‘ان ہائی جینک ‘ ہیں۔گرمیوں کے ٹمپریچر میں ان میں کیمیکل بننے لگتا ہے جو بچوں کی صحت کے لیے بالکل ٹھیک نہیں۔ پھر اسے ڈانٹ پڑی کہ کسی انجان آدمی، بس ایک دو بار ہائے ہیلو کرنے والے کے ساتھ اس طرح گاڑی میں بیٹھنا اور بچوں کو بٹھا کر اسے اسکول بس کا روٹ بتادینا کتنا ‘ان سیف ‘ ہے۔اس سے کہا گیا کہ اس نے اپنی پڑھائی لکھائی ہی نہیں اپنی سوجھ بوجھ بھی گوبر کرلی ہے۔کنک نے جب یہ کہا کہ مجھے تو شک ہورہا ہے کہ ایم بی اے کی یہ ڈگری تم نے اپنی محنت سے لی ہے یا باپ کے رعب اور پیسے سے خریدی ہے تو منجری جھر جھر رونے لگی۔

بچے جب گہری نیند میں سو رہے تھے اور ان آنسوؤں کو پونچھنے والا آس پاس کوئی نہیں تھا، تبھی کنک  کے کچھ اور شبد منجری کو کھروچتے چلے گئے۔ اس نے کہا۔’اتنے سال ساتھ رہنے کے بعد بھی منجری پریوار سنبھالنا نہیں سیکھ سکی۔گھر میں دیور ہے، لیکن اس سے بات کرتے ہوئے تو شاید تمہاری ایگو ہرٹ ہوتی ہے۔’

بات چیت اسکائپ پر ہورہی تھی اور منجری اپنی  ہچکیاں پلو میں سمیٹ رہی تھی تاکہ بیڈروم کے باہر کسی کو اندر کی آوازوں کے بارے میں اندازہ نہ ہوسکے۔کنک کو اس بات پر اور غصہ آیا کہ منجری اتنی پھوہڑ کیسے ہوسکتی ہے کہ اس کے انٹرنیشنل وقت اور کال کو وہ یوں رو کر برباد کررہی ہے۔اصل میں اسے منجری کے اس ‘لکڑی پن’ سے ہی کوفت ہوتی تھی۔’ذرا سی نرمی ملے تو بھیگ جاتی ہے، تھوڑا سا تاپ دو تو سلگنے لگتی ہے۔ابھی ابھی پڑی ڈانٹ سے منجری گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہی تھی۔کنک اس سب ‘بے وجہ’ کے رونے دھونے کو ‘تریا چرتر’کہتا تھا۔اس کا ماننا تھا کہ پتنی تو بالکل ‘سونے کے کنگن’جیسی ہونی چاہیے۔جس میں بھلے ہی کھوٹ ملا ہو مگر ایک بار جس سانچے میں ڈھال دو، تاعمر ویسی  کی ویسی بنی رہے۔کنک کی سونے کے ہرن کی سی خواہشیں سونے کے کنگن جیسی جیون ساتھی کے لیے مچل اٹھتیں۔

کچھ دن بعد ایک صبح منجری کو پھر بچوں کی اسکول بس کے اسٹاپ پر کبیر کمار گزرتے ہوئے دکھے۔اس بار دونوں نے ایک دوسرے کااور زیادہ اپنائیت سے  خیر مقدم کیا۔جیسے اب پہچان پختہ ہوگئی ہے۔مگر آج کی اس پختہ مسکان کے بارے میں منجری نے کنک کو کچھ نہیں بتایا۔پچھلی ڈانٹ ابھی وہ بھول نہیں پائی تھی۔

رات کو جب ٹیبلیٹ کا فرنٹ کیمرہ آن کرکے منجری کنک سے باتیں کررہی تھی  تو کنک کو محسوس ہوا کہ منجری آج تھکی ہوئی کم اور خوش زیادہ ہے۔منجری کو بھی لگا کہ کنک کی باتوں میں آج ہدایت کم اور امنگ زیادہ ہے۔ باتوں ہی باتوں میں کنک کپور نے بتایا کہ ان کے آفس میں  ایک نئی امپلوئی آئی ہے۔بنیادی طور پر پاکستان سے ہے، مگر  ہے سندھ کی اور پچھلے کئی برسوں سے کینیڈا میں ہی رہ رہی ہے،۔’ہائلی کوالیفائڈ’ یہ لڑکی ویسٹرن ڈریسز پہنتی ہے اور بہت سندر لگتی ہے۔سندھ کی اس لڑکی کی یہ تعریف منجری کو اچھی نہیں لگی۔مگر وہ سنتی رہی۔اصل میں منجری جب اٹھائیس سے چھتیس ہوتی جارہی تھی، کنک کو تبھی احساس ہونے لگا تھا کہ منجری اب اس کے ساتھ چلتی بالکل اچھی نہیں لگتی۔اس کا بڑھا ہوا وزن اور گھریلو ٹائپ کے کپڑے انٹرنیشنل کانفرنسوں میں اس کے ساتھ چلنے لائق نہیں رہ گئے ہیں۔  جسے کنک کپور نے برسوں پہلے پسند کیا تھا وہ منجری آج کی منجری سے زیادہ خوبصورت تھی اور کنک کپور کا تب کا اسٹیٹس آج کے اسٹیٹس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا۔ منجری جب یہ سب سنتی تو ایک الگ طرح کی  حسد سے بھر جاتی۔آج وہی حسد ایک بار پھر سے اس کے من میں اتر رہی تھی جب کنک سندھ کی اس لڑکی کی تعریف کررہا تھا۔اس بار اس نے اپنا وزن کم کرکے خود کو ویسٹرن ڈریسز میں کنک کے ساتھ انٹرنیشنل ڈیلی گیٹ سے ملنے لائق بنانے کی ٹھانی۔

اگلے دن شام کو منڈی سے سبزیاں لاتے ہوئے منجری نے آدھا کلو نیبو، ڈھائی سو گرام شہد کا ڈبا اور ایک کودنے والی پلاسٹک کی رسی خرید لی۔گھریلو سامانوں کے تھیلے اٹھائے منجری آٹو رکشا کا انتظار کر رہی تھی، اسی وقت کبیر اپنی پتنی اسمِتا کے ساتھ وہاں سے گزر رہا تھا۔ کبیر نے منجری کو دیکھا اور منجری نے کبیر کو۔ منجری نے ایک پل کو راحت کی سانس لی کہ اب اسے اور آٹو کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، لیکن کبیر نے اسے دیکھ کر بھی ان دیکھا کردیا۔ منجری ٹھگی سی کھڑی رہ گئی۔اسی ٹھگی ہوئی حالت میں اس نے بنا کچھ پوچھے آٹو لیا اور گھر چلی آئی۔ آج اس کا من بے چین سا تھا۔ کنک کے واٹس ایپ پر کئی میسج آئے مگر منجری نے اسکائپ آن ہی نہیں کیا۔وہ بجھی بجھی سی سو گئی۔ مگر کبیر کی اس حرکت کی وجہ نہیں ڈھونڈ پائی۔

منجری جلد سے جلد کبیر سے ملنا چاہتی تھی اور پوچھنا چاہتی تھی کہ کیا اس نے سچ مچ اسے نہیں دیکھا یا جان بوجھ کر ان دیکھا کیا۔ دونوں ہی حالتیں منجری کو قبول نہیں تھیں۔

کچھ دن بعد کبیر کمار بس اسٹاپ پر ملے۔ انہوں نے پھر استقبال میں اپنی مسکراہٹ بکھیری مگر منجری نے اس انداز سے کہ وہ بہت مصروف ہے ، آدھی مسکراہٹ لی اور آدھی وہیں چھوڑ دی۔ اگر سچ مچ اس شام کو کبیر نے اسے نہ دیکھا ہو تو وہ بھی کیوں غیر ضروری جوش دکھائے۔ لگاتار دو چار دن یوں ہی آدھی  آدھی مسکانوں والی مصروف سی ملاقات ہوتی رہی۔مگر آج بچوں کی پی ٹی ایم تھی  اور منجری کو بچوں کے ساتھ اسکول جانا تھا۔ منجری آٹو رکشا کا انتظار کررہی تھی کہ تبھی کبیر کمار وہاں سے ہوکر گزرے اور انہوں نے بس یوں ہی تکلفاً گاڑی روک دی۔ بچے چہک  کر حق سے گاڑی میں بیٹھنے پر آمادہ ہوگئے۔لیکن ابھی کچھ فاصلہ رکھنا ضروری تھا۔کنک نے بتایا ہے کہ یہ سب حفاظت کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔کبیر نے اصرار کیا کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔دونوں کا روٹ ایک ہی ہے۔مگر پھر بھی اگر منجری کو ٹھیک نہ لگے تو وہ زیادہ کچھ نہیں کہے گا۔جب تک کبیر کی بات کا مطلب اور گہرا ہوتا، منجری اور بچے گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔راستے بھر ہلکی پھلکی خوب باتیں ہوئیں۔ کنک کے کینیڈا جانے کے بعد سے منجری کے  پاس خوب ساری باتیں تھیں جو اب تک سنی نہیں گئی تھیں۔ وہیں اسمِتا  کی فولادیت سے کبیر جب تب مضروب ہوتا رہتا تھا، سو اسے بھی ایک نرم آواز کی تلاش  نہیں، لیکن کمی تو تھی ہی۔دونوں نے خوب باتیں کیں۔

کبیر نے بتایا کہ وہ کالج میں پڑھاتا ہے۔

منجری نے بتایا کہ وہ بھی ایم بی اے ہے اور پریوار کی ذمہ داریوں کو اس نے ترجیح دی ہے۔

کبیر نے بتایا کہ اس کے دو بچے ہیں جو اسے بہت پیار کرتے ہیں اور اسے رول ماڈل مانتے ہیں۔

منجری نے بتایا کہ ان دونوں کی شیطانیوں میں اس کی آدھی سے زیادہ مت ماری جاچکی ہے۔

کبیر نے کہا کہ آپ کو جب بھی ضرورت ہو آپ مجھے بے جھجھک کہہ سکتی ہیں۔

اور دونوں نے ایک دوسرے کے موبائل نمبر ایکسچینج کیے۔

منجری نے کہا کہ گھر میں گاڑی ہوتے ہوئے بھی اسے آٹو کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

کبیر نے کہا کہ اب اسے بھی گاڑی چلانا سیکھ لینا چاہیے۔

منجری نے بتایا کہ ابھی وہ سونو کے لیے کوئی اچھی کتاب ڈھونڈ رہی ہے، کیونکہ اس کی گرامر بہت کمزور ہے۔

باتیں ختم نہ ہوئیں  اور بچوں کا اسکول آگیا۔منجری کی آواز میں ایک چہک تھی۔وہ کچھ کچھ ہلکی ہورہی تھی۔ گاڑی سے اترتے ہوئے اس نے کہا۔’تھینک یو!’

کبیر نے کہا۔’سوری!’

منجری نے پوچھا کیوں؟

‘وہ اس دن بازار میں۔۔اسمِتا ساتھ تھی۔۔آپ کو دیکھ کر بھی گاڑی روک نہیں سکا۔’

کانوں کا بھی منہ ہوتا ہے، یہ احساس منجری کو اس وقت ہوا،جب اس نے بچوں کے سامنے کبیر کے ان الفاظ کو اپنے کانوں میں جلدی جلدی انڈیل لیا۔بنا کسی ردعمل کا اظہار کیے۔

جب تک منجری اسکول کے اندر داخل ہوئی اس کے واٹس ایپ پر میسج آچکا تھا۔

‘اچھالگاآپ سے بات کرکے۔’

یہ روشن دان تھا، کھڑکی تھی یا گیٹ وے تھا۔۔۔جو بھی تھا، کبیر نے منجری کے لیے کھول دیا تھا۔

منجری لکھنا چاہ رہی تھی۔’مجھے کتنا اچھا لگا، یہ میں بتانہیں سکتی۔’مگر نہیں لکھا۔اور وہ سیدھے بچوں کے ساتھ ٹیچرز سے ملنے چلی گئی۔

 

اگلی ہی صبح بچوں کے اسکول جانے کے بعد منجری نے پلاسٹک کی رسی کودنی شروع کی۔پیروں کی دھمک ابھی اپنا کورس بھی پورا نہیں کرپائی تھی کہ نچلے کمرے سے ساسو ماں کی آواز آئی، ‘منجری بیٹا کیا ہورہا ہے؟’

‘کچھ نہیں مما۔’کی دھیمی آواز کے ساتھ منجری نے رسی لپیٹتے ہوئے واپس ٹیبل کی دراز میں رکھ دی۔اور تولیا اٹھائے باتھ روم چلی گئی۔

ادھر منجری صبح خالی پیٹ گنگنے پانی میں نیبو اور شہد ملا کر پی رہی تھی کہ اسی دوران دیور آرو کا رشتہ طے ہوگیا۔ ابھی پچھلے دنوں جس آرو کو اس نے اپنا موبائل فون چھیڑنے پر بے تحاشہ ڈانٹا تھا، اسی کی شادی کے لیے اسے بھرپور تیاریاں کرنی تھیں۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو پھر کنک کی ڈانٹ  کا سامنا کرنا ہوگا کہ اسے پریوار سنبھالنا نہیں آیا۔

کہ اس کی ایگو  ہمیشہ ناک پر سوار رہتی ہے۔

 

اس دن کی باتیں نہ منجری بھولی تھی، نہ کبیر۔ کبیر نے منجری کو میسج کیا۔’میرے پاس گرامر کی کچھ اچھی کتابیں ہیں۔آپ چاہیں تو لے سکتی ہیں۔’

منجری ان کتابوں کو لینے کہیں اور جانا چاہتی تھی مگر اس نے بچوں کی اسکول بس کے اسٹاپ پر ہی تین میں سے دو کتابیں کبیر سے لے لیں۔ اسے  کبیر کے ڈیش بورڈ پر رکھی شیکسپئر کی کتابیں یاد تھیں۔اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے ان کتابوں کے بارے میں پوچھا۔

کبیر نے اگلے ہی دن شیکسپئر کی دو کتابیں منجری کو دے دیں۔ کنک کپور کی گرہستی کے ساتھ ہی ایک اور زندگی تھی جو اب منجری جینے لگی تھی۔

شاید کنک بھی۔

شاید کبیر بھی۔

کبھی کبھی ان دونوں راستوں میں زبردست ٹکراؤ ہوجاتا۔جب کنک کے فون کے بیچ ہی کبیر کا میسج آجاتا۔منجری کا من کبیر کے میسج پر اور آواز کنک کے فون پر اٹک جاتی۔ جیسے جیسے منجری کنک سے لاپرواہ ہورہی تھی ، کنک کی چوکیداری منجری   کے لیے بڑھتی جارہی تھی۔وہ دن میں کئی بار میسج کرکے چیک کرتا کہ منجری آن لائن ہے یا آف لائن۔منجری بھی آن لائن ہوتی، کبھی آف لائن۔ کبھی موبائل آن رہ جاتا اور وہ کام میں مصروف ہوجاتی۔ ایسے سمے میں کنک کا غصہ چوتھے آسمان پر پہنچ جاتا کہ منجری کی اتنی ہمت کہ آن لائن  ہونے کے باوجود وہ اس کے میسجز کا جواب نہیں دے رہی ہے۔ آخر یہ ٹیبلیٹ ، یہ موبائل، یہ گھر سب اسی کا ہے۔اس سب  کے ساتھ ہی منجری پر بھی اس کا مالکانہ حق بنتا ہے۔ اور پھر دونوں کے بیچ ٹھیک ٹھاک تکرار ہوتی۔

یہ تکرار بھی جب وہ کبیر کمار کو سناتی تو کبیر کے بھیتر کی مٹی کچھ اور نرم ہوجاتی۔ اسے منجری کی بیزاری سے ہمدردی ہونے لگتی۔ دل یہ سوچ کر بھی پھول جاتا کہ وہ جس ڈالی کو سہلا رہا ہے، وہاں چھاؤں بھلے ہی کم ہے پر کانٹے بھی تو لگ بھگ نہیں کے برابر ہیں۔

ادھر کبیر کی مٹی میں بڑھتی ہوئی نمی کو دیکھتے ہوئے اسمِتا کو اس میں  فنگس لگنے کا ڈر ستانے لگا تھا۔ وہ کبیر کی کال اور میسج ڈیٹیل چیک کرتی۔ کبیر یوں تو سیدھا سادا تھا مگر ‘نہ جانے کس روپ میں مل جائیں بھگوان’ کی طرز پر اسمتا کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ منجری کے میسج کبھی بھی اسمتا کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں، یہی سوچ کر وہ ہر میسج دل میں بسا لیتا اور موبائل سے فوراً ڈیلیٹ کردیتا۔

کالج میں لڑکیوں سے گھرے رہنے والے پروفیسر کا ان باکس خالی کیسے ہوسکتا ہے، یہی سوچ کر اسمتا کی شک کی سوئی ہمیشہ کبیر پر گڑی رہتی۔ یوں ہی اداسی میں اپنے شک کی سب کہانیاں وہ دکھی ہوکر کوشل کو سناتی۔کوشل وہی بزنس مین تھا جس سے شادی نہ کرپانے کا دکھ اکثر اسمتا کو سالتا رہتا تھا۔ اسمتا خالی پیریڈ میں کبیر کے ٹوئیٹ اور ایف بی اکاؤنٹ کھنگالتی۔اس کے لکھے شبدوں سے نئی معنی کھوجنے کی کوشش کرتی۔ مگر ہر بار اسے پہلے سے زیادہ لجلجا پن محسوس ہوتا۔ وہ نفرت سے بھر جاتی۔ پھر اسے بچوں کا خیال آتا۔وہ چپ ہوجاتی۔اپنے نظم و ضبط کو اور سخت بنا لیتی، کہ اگر یہ بھی باپ جیسے ہوگئے تو اس کی زندگی بے کار محض ہوکر رہ جائے گی۔

گھر میں گہما گہمی کا ماحول تھا۔ادھر بچوں کے امتحان شروع ہونے والے تھے اور ادھر آرو کی شادی کے دن بھی نزدیک آرہے تھے۔ ایک ماں اور بھابھی ہونے کے ناطے منجری پر بہت سی ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں۔بچوں کے رِویجن کے ساتھ ہی اسے ساسو ماں کے ساتھ نئی بہو کے لیے بری بنانے پر دھیان دینا تھا۔ کنک کچھ خاص سامان کینیڈا سے ہی خرید کر لانے والا تھا۔ تیاریوں میں اس نے جب منجری کی خواہش پوچھی تو منجری نے ریڈ کلر کا خوب پھولا ہوا ویسٹرن گاؤن منگوالیا۔ خواہش بہت بری نہیں تھی، لیکن ان حالات سے میل نہیں کھاتی تھی، جو کنک کپور گھر پر چھوڑ گئے تھے۔ وہ لڑکی جو ذرا سی ڈانٹ پر جھرجھر آنسو بہاتی  ہے۔۔۔اور ذرا سے پیار میں  جس نے ایم بی اے کی ڈگریاں بھلادیں، اس میں آج لال رنگ کا ویسٹرن گاؤن پہننے کی خواہش کیونکر جاگ اٹھی۔

سوالوں کی یہی پڑتال کنک کپور کا دماغ چھلنی کیے دے رہی تھی۔ ویک اینڈ پر سندھ والی لڑکی کے ساتھ کافی پیتے ہوئے بھی اسے یہی بات بار بار یاد آرہی تھی۔ وہ چاہتا تو شیئر کرسکتا تھا، لیکن اس سے اس کے آؤٹ ڈیٹڈ خیالات کی پول کھل سکتی تھی۔ جن خیالات  کی بنیاد پر وہ سندھ کی اس لڑکی کے ساتھ کئی ڈیٹس مناچکا تھا۔ اس کے چاکلیٹی ہونٹوں کے بیچ فروٹس اینڈ نٹس جیسی کھلتی مسکان سے اسے احساس ہوتا کہ اس نے اگر شادی کے لیے تھوڑا اور انتظار کر لیا ہوتا تو ممکن ہے کہ ایسی کوئی لڑکی آج مستقل اس کی بانہوں میں ہوتی۔

 

کنک کپور جب ڈھیر سارا سامان لے کر بھائی کی شادی کے لیے اپنے گھر واپس لوٹا تو اس سامان میں خوب پھولا ہوا ریڈ ویسٹرن گاؤن تو نہیں تھا مگر دہکتے سوالوں والی آنکھیں تھیں۔ وہ اور ہوشیار ہوگیا۔منجری کی  شوخی اس میں  عجیب سی چڑ بھر دیتی۔وہ جب  کسی بھی چھوٹی بڑی غلطی کے لیے منجری کو ڈانٹتا تو وہ ہلکی مسکان کے ساتھ اس کام کو پھر سے درست کردیتی۔ کنک کو پہلے منجری کے رونے سے کوفت تو ہوتی تھی مگر ایک تحفظ کا احساس بھی تھا کہ منجری جب بھی روئے گی، کنک کا کاندھا ڈھونڈے گی۔مگر اب اس کا یوں مسکرا دینا اسے چھیل دیتا تھا۔ وہ گھما پھرا کر منجری سے کئی سوال پوچھتا۔ منجری اپنی کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتی۔ کنک کا من کرتا کہ وہ اس کی کتابیں اٹھا کر پھینک دے۔ کنک نے جو ٹیبلیٹ منجری کو ریسیپیز سرچ کرنے کے لیے دیا تھا منجری اب اس سے آن لائن کتابیں سرچ کرتی اور پڑھتی رہتی۔ کنک منجری کے تن من کی تلاشی لینا چاہتا تھا کہ کون ہے جس نے اس لاچار سی، بے سدھ سی لڑکی میں پھر سے شوخی کوٹ کوٹ کر بھردی ہے۔مگر منجری نے پاسورڈ سیٹ کردیا تھا،  جس کا پتہ نہ بچوں کو تھا ، نہ ساس سسر کو اور نہ تو کنک کو۔منجری کی یہ تالابندی کنک کی برداشت  سے باہر تھی۔ اس نے موبائل اٹھایا، پاسورڈ ڈالا۔۔اس بار پاسورڈ نہ ‘سونوناٹی مونو’ تھا، نہ’کنک مائی لو’۔کنک کپور تیسرا پاسورڈ ٹرائی کر ہی رہے تھے کہ منجری نے جھٹ سے ان کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا اور موبائل چھینتے ہوئے منجری کے شارپ، پینٹیڈ ناخن کنک کپور کی ہتھیلی چھیل گئے۔

تڑاق! کنک کپور نے جھلاہٹ میں ایک زوردار طمانچہ منجری کے گال پر جڑ دیا۔ جب تک کنک دوسرے چانٹے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھاتا، منجری مسکراتے ہوئے کتاب اور موبائل ہاتھ میں لیے کمرے سے باہر چلی گئی۔ اور مسکان بھی ایسی کہ جیسے لکھا ہو۔’رانگ پِن اینٹرڈ۔’

۔۔۔آج پھر صاندلی رانی کے جسم سے چندن کی خوشبو اٹھ رہی ہے۔ یہ خوشبو کس کی ہے، سنار کی۔۔۔کمہار کی۔۔۔یا پلکیں کھول رہی رانی کی ادھوری خواہشوں کی۔۔۔!

٠٠٠٠٠

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *