تختیاں

1

سیپ پر کان دھرے ہیں اسنے

وہ سب سننے کے شوق میں

جو اسے نہیں بتایا گیا

 

2

بس ایک انچ کا فاصلہ ہے

دونوں کے بیچ

تصویر میں

ایک فریم کی ہوئی مسکان

ملبے تلے دفن ہے

 

3

جب بھی تم

سمندر میں پتھر اچھالتے ہو

وہ میری لہروں میں

ترنگیں جگا دیتا ہے

 

4

کتنا چھوٹا دل ہے میرا

کتنی جلدی بھر جاتا ہے

 

5

پانی کو پانی سے ملکر

خالی جگہیں بھرنے کی خاطر

جنگ کی ضرورت نہیں ہے

 

6

پیڑ نہیں پوچھتا

کہ وہ دوسرے جنگل کا سفر کیوں نہیں کرتا

نہ دوسرے  بیکار کے سوال

 

7

وہ ٹی وی دیکھ رہا ہے

اور اسنے ناول پکڑا ہے

ناول کے سرورق پر

ایک آدمی ٹی وی دیکھ رہا ہے

اور اک عورت ناول تھامے ہے

 

8

نئے سال کی

پہلی صبح

ہم سب نظر اٹھا کر

پرانا سورج دیکھیں گے

 

9

سر اس کے سینے پر رکھا

کچھ نہیں بولا

وہ مر دہ تھا

 

10

وہ شخص جو مجھے دیر تک تکتا رہا

جسے پلٹ کر میں بھی دیر تک دیکھتی رہی

جس نے مجھے کبھی گلے نہیں لگایا

اور جس سے میں بھی کبھی ہم آغوش نہیں ہوئی

بارش نے اسکے آس پاس رنگ پھیلا دئے

پرانے کینوس پر

 

11

وہ ایسا شوہر  نہیں تھا

جو کھوکر دریافت کر لیا جائے

نہ ہی وہ جنگی قیدیوں کے ہمراہ واپس لوٹا

نہ اس پتنگ کے ساتھ جو اسے

خواب میں

کہیں اور لے گئی

جب کہ وہ کھڑی رہی

اپنی مسکراہٹ کے

پاسپورٹ میں چپکنے کے انتظار میں

 

12

سڑک کنارے

کھجوروں کا ڈھیر پڑا تھا

تمہارے مجھے چومنے

کا منظر سجائے

 

13

رپنزل کے

کھڑکی سے

زمین تک لٹکتے بال

ہمارے انتظار کا

منظر دکھا رہے ہیں

 

14

جیل کی دیواروں پر

قیدیوں کی پرچھائیوں  نے

جیلر کو گھیر کر

اسکی  تنہائی پر روشنی ڈالی

 

15

میری دھرتی، میں تیری اماں تھوڑی ہوں

کیوں تو میری گود میں گر کر

زار زار روتی ہے دکھیا

جب بھی کوئی

تجھ کو ضرر پہونچاتا ہے

 

16

اس پرندے کو سر مت چڑھاوٗ

یہ روز آکر

ڈال پر بیٹھتا ہے

اور گھنٹہ دو گھنٹہ

گیت گا کر

اپنا جی نہال کرتا ہے

بس اور کچھ نہیں کرتا

 

18

گھر کی چابیاں

شناختی کارڈ

ہڈیوں میں گلتی تصویریں

یہ سب کچھ

ایک مشترکہ قبر میں بکھرا پڑا ہے

 

18

عربی زبان کو

لمبے جملے

اور لمبی جنگیں

بھاتی ہیں

لمبے گیت

رات کے آخری پہر

اور ویرانوں کا گریہ

اسے نہال کر دیتے ہیں

لمبی زندگی

اور لا متناہی موت کی تیاری

اس کامن پسند شغل ہے

 

19

گھر سے بے حد دور پڑے ہیں

باقی ہم میں کیا بدلا ہے

 

20

سنڈریلا اپنا جوتا

عراق میں چھوڑ آئی

اور چائے دانی سے اٹھتی

دار چینی کی مہک

اور وہ بڑا پھول

جسکا منہ

موت کی طرح کھلا ہے

 

21

ہنگامی پیغام

انقلاب کی لو روشن کرتے ہیں

نئی زندگیاں بیدار کرتے ہیں

جو منتظر رہتی ہیں کہ

کوئی ملک انہیں  ڈاؤن لوڈ کرے

اس دھرتی کا مان اس وقت بس ایک مٹھی ریت بن جاتا ہے

جب اس کا سامنا ان الفاظ سے ہو

’کوئی بھی نتیجہ آپکی تلاش سے میل نہیں کھاتاـ‘ـ

 

22

مالک کو چھڑی لوٹاتے وقت

کتے کا جوش

اس لمحہ کی تصویر ہے

جسمیں خط کھولا جاتا ہے

 

23

بادلوں کی طرح

ہم خاموشی سے سرحد پار کرتے ہیں

ہمیں کوئی نہیں لے جاتا

بلکہ ہم

بارش

بولی

اور ایک دوسری دنیا کی یادیں

ہمراہ لیکر آتے ہیں

 

24

اسکی آنکھوں میں جھلکنا کتنا اچھا لگتا ہے

وہ کیا جانے کہ وہ کیا کہ رہا ہے

اسے اسکی آواز چومنے سے کہاں فرصت ہے

وہ اس چہرے کو تکتی ہے

جسے چومنے کا سکھ وہ کبھی نہ بھوگ پائے گی

اس کاندھے کو

جس پر سر رکھنے کی خوشی

اسے کبھی نصیب نہیں ہوگی

اس ہاتھ کو

جسے تھامنے کی خوشی

اسے نہیں ملنے والی

اور زمین پر اس نقطے کو

جہاں انکے سائے ہم آغوش ہیں

٠٠٠

 

دنیا میخائل کا جنم بغداد ، عراق میں 1965 میں ہوا۔انہوں نے بغداد یونیورسٹی سے بی اے کیا اور کچھ عرصے تک ‘دی بغداد آبزرور’نامی اخبار میں بطور مترجم کام کیا۔1995 میں وہ عراق سے پہلے اُردن اور پھر امریکہ چلی آئیں، جہاں ان کی شادی ہوئی اور وہ اب وہیں مقیم ہیں۔وہ بنیادی طور پر عربی زبان میں لکھتی ہیں۔ان کی نظموں کے کئی مجموعے  شائع ہوچکے ہیں۔یہاں پیش کی گئی نظمیں دنیا میخائل کے شعری مجموعے ‘عراقی راتیں’ میں موجودہ  ان کی تخلیق کردہ ‘لوحات’ کا ترجمہ ہیں۔ان نظموں کو اسامہ ذاکر نے براہ راست عربی سے اردو  کے قالب میں ڈھالا ہے۔ نظموں کی زبان نہایت لطیف ہے، ساتھ ہی ساتھ ان میں  موجود خوبصورت اشاروں کو سمجھنے کے لیے نکتہ رسی کی ضرورت ہے۔یہ نظمیں اپنی مختصر جادو بیانی اور حیران کردینے والے زیرک مصرعوں کی بدولت قاری کے ذہن پر ایک فرحت انگیز تاثر چھوڑتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *