دیوار کے پیچھے کی دنیا

انیس ناگی کے ناول ‘دیوار کے پیچھے’ کے تعلق سے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔اس ناول کی تخلیق کے پچاس برسوں بعد اس پر میں کچھ ایسے زاویوں سے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔جس میں لایعنیت کے فلسفے اور انیس ناگی کی جیون کتھا کے ابواب شامل نہ ہوں۔ان دونوں پر بات کرنے میں ایک رسک یہ بھی ہے کہ میں ان کے بارے میں خود بھی زیادہ نہیں جانتا۔ میں خود کو محض ناول، اس کی بنت، اسلوب اور ایسے ہی چند دوسرے موضوعات تک محدود رکھوں گا۔میرے خیال سے اس ناول کا مرکزی کردار ایک ‘ذہن ‘ ہے۔یہ ذہن اور اس کی بڑبڑاہٹ ہی اس ناول   کی پوری فضا پر اتنی حاوی ہے کہ اس میں کسی شخص اور اس کے معاشرتی، جنسی اور جذباتی سروکار کے لیے اتنی گنجائش باقی ہی نہیں ہے۔دیوار کے پیچھے کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ شخص جو کہ خود کو پورے ناول میں پروفیسر کے نام سے منسوب کروانا چاہتا ہے، دنیا کو محض ایک آنکھ سے دیکھنے کا قائل ہے اور وہ ہے اس کے ذہن کی آنکھ۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے، ہم میں سے کچھ لوگوں کا یہ ہمہ وقتی کام ہے۔مگر میرے خیال سے یہی اس ناول کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی۔اسی بات نے ناول کو کئی جگہ تقویت بخشی ہے اور کئی جگہوں پر کمزور بھی کیا ہے۔یہ ذہن  نیند سے ناواقف ہے اور زندگی کی دیگر راحتوں میں اس نے اپنے لیے ایسے اعلیٰ اخلاقی اصول بنارکھے ہیں، جن کی پاسداری وہ تمام قیمتیں چکا کر بھی کرنا چاہتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ذہن کچھ اونچائی سے اپنے آس پاس موجود لوگوں کو دیکھتا ہے اور انہیں اپنے ہم پلہ نہ پاکر خود کو ایک ایسے سیارے کی مخلوق گردانتا ہے، جس کا اس تنزل پسند معاشرے سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اور وہ یہاں محض زندگی بسر کرنے آیا ہے۔ اس میں بس اتنی آگہی ہے  کہ وہ اس معاشرے کو بدل نہیں سکتا اور یہی بات اسے خود کو خدا ماننے سے روکتی ہے۔بصورت دیگر اس کے تمام عوامل، افکار اور بغاوتیں اشارہ تو اسی طرف کرتی ہیں۔یہ چیز ناول میں اس قدر حاوی ہے کہ دوسرے کرداروں کو تو جانے دیجیے، خود پروفیسر کا کردار بھی پوری طرح قاری پر نمایاں نہیں ہوپاتا ہے۔اس ذہن میں اتنا انتشار ہے، اس کی اپنی اتنی ضدیں ہیں اور ایسا جھکی پن اس پر طاری ہے کہ کسی اور کی آواز سنائی ہی نہیں دیتی۔بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے والد نہیں ہیں، گھر پر ایک ماں، دو بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ایک بھائی شادی شدہ ہے۔اس کے علاوہ پروفیسر کے دو ایک دوست ہیں، ایک چودھری اور دوسرے ملک کا کردار ہے، جو کہ دونوں ہی بدمعاش ہیں۔چودھری کا کام جھوٹی گواہیاں دلوانا ہے۔پروفیسر کو کالج میں ایک احتجاج  کا حصہ بننے کی پاداش میں برخاست کردیا گیا ہے اور وہ بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر چودھری کے لیے گواہ کا کام کرنے لگا ہے۔یہ پلاٹ دلچسپ ہے۔بیسویں صدی میں پنپتی ہوئی بے روزگاری، بدلتے ہوئے دور میں فرد کی تنہائی ، اس کی ذہنی الجھنوں اور اسے اپنی پسند اور ضمیر کے برخلاف کام کرنے کے لیے مجبور کرنے والے حالات کو درشانے کے لیے بے حد کارآمد بھی۔اس بے روزگاری میں پروفیسر کے بھائی کا اپنی بیوی کا ساتھ گھر چھوڑ کر چلے جانا، ساری ذمہ داریوں کا پروفیسر کے سر پر آن پڑنا، بیمار بہن  اور دوسرے بھائی بہن کی پڑھائی کے خرچ کی فکر کے ساتھ ساتھ اپنی محبت سے محروم ہوجانا، یہ ساری باتیں بہت اچھی طرح اس دور کے فرد کی سرگزشت کو بیان کرنے کے لیے کافی تھیں ، ساتھ ہی ساتھ معاشرے کے اسے استعمال کرنے، اس کا استحصال کرنے اور اس کو کچل دینے کی تمام تصاویر کو زوم ان کرکے دکھاسکنے کی اہل تھیں۔مگر بیانیے میں فلسفے کے زبردست گھول نے، وجودیت  اور لایعنیت کے مباحث کو ٹھونسنے کے چکر میں یہ ناول کئی جگہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کرداروں کے عوامل  اور ان عوامل کے اسباب  کو کسی بھی طرح توجہ نہیں دی گئی ہے۔کسی بھی ناول میں ہر کردار کی ایک اپنی جذباتی حیثیت اور اس کا فکری وجود ہوتا ہے۔ضروری نہیں کہ اس کو بہت اچھی طرح اور تفصیل سے بیان کیا جائے، مگر اس کی طرف اشارے تو کیے ہی جاسکتے ہیں۔مگر ایسا لگتا ہے کہ انیس ناگی نے ان باتوں کے بجائے اپنی ساری توجہ ذہن میں ہونے والی اس عالمانہ کھلبلی  پر دی ہے، جس نے ناول میں شعوری طور پر مصنف کی جانب سے بس ایک کردار  کو اس کے ذہن تک سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ یہ ناول ڈھائی سو تین سو صفحات کا ہے، دیکھا جائے تو ضخامت بھی اتنی نہیں ہے، مگر اسے پڑھنا کافی دشوار ہے اور اس کے متن میں جو الجھاؤ اور جو پیچیدگیاں ہیں، وہ کافی حد تک شعوری کاوش کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔الفاظ کا انتخاب ہو یا نثر کی کھردراہٹ۔متن کی روانی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔اس ایک ذہن کی بڑبڑاہٹ کے ساتھ بہتے جانا بہت آسان نہیں ہے، بلکہ بعض جگہ بری طرح بیزار بھی کرتا ہے۔انیس ناگی کا یہ ناول  سماج میں فرد کے آگے کھڑی کی گئی دیواروں کے پیچھے جھانکنے کی جو دعوت دیتا ہے، وہی اسے ناول سے زیادہ ایک فلسفیانہ کتاب بنانے کے عمل میں معاون ثابت ہوتی ہے۔پروفیسر  پورے ناول میں  اپنی گھیرا بندی اور تعاقب سے جتنا جھنجھلایا ہوا ہے، ناول پڑھنے پر کئی دفعہ ایسا لگتا ہے کہ وہ خود اپنی بنائی گئی تھیوریز کا پیچھا کرنے سے باز نہیں آنا چاہتا۔اس طرح دیکھا جائے تو وہ خود اپنے ہی تعاقب میں سرگرداں ہے، خود کی ہی نگرانی پر مامور ہے۔اس کے کوئی انسانی افعال نہیں ہیں، دلچسپیاں نہیں ہیں، جنس سے وہ ماورا ہے اور جذبات تو اسے چھو کر نہیں گئے۔اس ناول میں ایک جگہ پروفیسر کو زدوکوب کرنے کی واردات لکھی گئی ہے، مگر وہ بھی اس قدر گنجلک ہے کہ اس میں  دماغی شور کا عنصر انسانی تکلیف کے احساس تک پر حاوی ہوگیا ہے، یہ بات ناممکن بھلے نہ سہی، مگر غیر فطری ضروری معلوم ہوتی ہے۔مجھے اس موقع پر عبداللہ حسین کے ناول باگھ کے مرکزی کردار  کی یاد آئی، جسے کال کوٹھری میں اپنے قبض ہونے کی شرمندگی جس طرح گھیرتی ہے، وہ پڑھنے والے کو اس کی دوگنی تکلیف کا احساس دلانے میں بے حد کامیاب معلوم ہوتی ہے۔پروفیسر گھر میں ہو، بستر میں ہو، عدالت میں، سڑک پر یا کسی جسم فروش کے کمرے میں۔اس کی یہ ‘سنکیت’ جسے خود انیس ناگی نے اسی لفظ کے ساتھ بیان کیا ہے، کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔تبھی تو یہ کردار بعض جگہوں پر اوور انٹلکچوئل معلوم ہونے لگتا ہے۔ان تمام چیزوں کے باوجود اس ناول میں کئی ایسے حصے ہیں، جن سے انسان کے حوالے سےمذہبی عالموں، سیاسی نظریہ بازوں، فلسفیوں اور نفسیات دانوں کے تراشے ہوئے نظریات  کو پلٹ کر دیکھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس ناول کو ایک’خاص ذہنی ناول’  بھی کہا جائے تو اس میں فرد اور معاشرے کے بارے میں مصنف کی سوچی اور کہی ہوئی باتیں بہت حد تک قاری کو ان معاملات پر از سر نو سوچنے پر اکساتی ہیں۔چند مثالیں حاضر ہیں۔

‘ہوبز کی تھیوری محض ایک مغالطہ ہے کہ عدم تحفظ کے خوف نے گروہوں کی صورت میں زندگی کرنے کی بنیاد رکھی، یہ مغالطہ انسانی تاریخ کے کسی دور کے بارے میں شاید سچائی کا حامل ہو، لیکن موجودہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔آج کے دور کی سراسیمگی اداریاتی شکست و ریخت کا نتیجہ ہے۔بعض اسے اقدار کے زوال کا نتیجہ سمجھتے ہیں، لیکن ان سے پوچھا جائے کہ انسان کس دور میں نیک نیت رہا ہے؟ کس دور میں اس نے پامالی اور انارکی کی بنیاد نہیں رکھی؟ کس دور میں اس نے اپنے ہم نفسوں کو سراسیمہ نہیں کیا؟ عدم تحفظ کے بھوت نے تحفظ کی خاطر انسان سے بہت سی توقعات وابستہ کردی ہیں، انسان انسان کا تضاد ہے۔’

‘قناعت ضرورتوں کا پیٹ نہیں بھرسکتی۔اگر قناعت واقعی قابل عمل فسلفہ ہے تو میرے ارد گرد کی مخلوق ہوس کی خاطر دیوانہ کیوں ہوگئی ہے، کوئی بھی اپنی حالت پر مطمن نہیں ہے۔جس کے پاس تھوڑا ہے وہ زیادہ چاہتا ہے اور جس کے پاس زیادہ ہے وہ اور زیادہ چاہتا ہے۔ میں کس طرح قناعت سے پیٹ بھرلوں؟ قناعت بے بسی کا اخلاقی نام ہے،قناعت کا مطلب ہے موت۔جسے میں سردست قبول کرنا نہیں چاہتا۔نظام زر میں قناعت کا فلسفہ اقتصادی محرومی کا بدلا ہوا نام ہے۔’

‘ضرورت نے مجھے انسان کی طرح کمینہ بنادیا ہے۔’

ان مثالوں میں بھی غور کیجیے تو پروفیسر کا انداز فکر بہت عمدہ سہی، مگر اپنے آس پاس کے انسانوں کے بونے پن کو نمایاں کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتا ہے۔بلکہ موخرالذکر مثال سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ انسانوں میں رہتے ہوئے بھی، خود کو ان سے بڑا اور برتر ماننے اور منوانے پر مصر ہے۔

کسی ناول کو پڑھنے اور سمجھنے کی کئی جہات ہوسکتی ہیں۔انیس ناگی کے اس ناول پر ان کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی کافی کچھ لکھا گیا ہوگا۔قاضی جاوید کا ایک مضمون تو اس ناول کے انت میں موجود بھی ہے۔مگر میں دوسروں کی کہی ہوئی بات کو دوہرانے کے بجائے ، آج کے دور میں اس ناول کے ریلونس پر گفتگو کرنا چاہتا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہم اس دور کے مقابلے میں ہر وقت جس طرح مختلف ڈوائسز سے گھرے ہیں، اس نے ہماری نگرانی کو زیادہ آسان بنادیا ہے۔میں کسی خاص توقع کے ساتھ کسی ناول کو نہیں پڑھتا۔ہر مصنف کا اپنا ایک ذاتی تخلیقی تجربہ  ہوتا ہے۔انیس ناگی کے ناول پر میں نے جو باتیں لکھی ہیں۔وہ اس کے شخصی کردار کو کتنا بھی میکانکی اور اس کے آس پاس کے لوگوں اور حالات کو جیسا بھی دھندلا بنائے۔مگر ایک سوچنے والے ذہن کے اندر ان حالات اور خیالات سے پیدا ہونے والی جو اٹھاپٹک ہے، اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے زیادہ ضروری ہے کہ دیوار کے پیچھے کے اس ناول کو اس دور کے ایک سوچتے ہوئے ذہن کے اندرونی انتشار کے طور پر پڑھا اور دیکھا جائے۔یقینی طور پر مصنف کے حالات اور اس کا انداز فکر بھی اس میں بہت حد تک دخیل رہا ہوگا، جسے میں اچھی طرح نہیں جان سکا ہوں۔پھر بھی مجھے جو باتیں ضروری معلوم ہوئیں، وہ میں نے لکھ دی ہیں۔

٠٠٠٠٠