چمڑے کا احاطہ

شہر کی سب سے پرانی ہائیڈ مارکٹ ہماری تھی۔ ہمارا احاطہ بہت بڑا تھا۔

ہم چمڑے کا بیوپار کرتے تھے۔

مرے ہوئے جانوروں کی کھالیں ہم خریدتے اور انہیں چمڑا بناکر بیچتے۔

ہمارا کام اچھا چلتا تھا۔

ہماری ڈیوڑھی میں دن بھر ٹھیلوں اور چھکڑوں کی آواجاہی لگی رہتی۔ کئی بار ایک ہی سمے پر ایک طرف اگر کچھ ٹھیلے ہمارے گودام میں دھول سنی کھالوں کی لدانیں اتار رہے ہوتے تو اسی وقت دوسری طرف تیار، پرت دار چمڑا ایک ساتھ چھکڑوں میں لدوایا جا رہا ہوتا۔

ڈیوڑھی کے عین اوپر ہمارا دومنزلہ مکان تھا۔ مکان کی سیڑھیاں سڑک پر اترتی تھیں اور ڈیوڑھی اور احاطے میں گھر کی عورتوں اور بچوں کا قدم رکھنا تقریباً ممنوع تھا۔ پتا کی دو پتنیاں رہیں۔

بھائی اور میں پتا کی پہلی پتنی سے تھے۔ ہماری ماں کی موت کے بعد ہی پتا نے دوسری شادی کی تھی۔

سوتیلی ماں نے تین بچے جنے لیکن ان میں سے ایک لڑکے کو چھوڑکر کوئی بھی اولاد زندہ نہ رہ سکی۔

میرا وہ سوتیلا بھائی اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ اس سے شدید محبت کرتی تھیں۔ مجھ سے بھی ان کا سلوک ٹھیک ٹھاک ہی تھا۔ لیکن میرا بھائی ان کو پھوٹی آنکھ نہ سہاتا تھا۔

بھائی شروع سے ہی جھگڑالو طبیعت کا رہا۔ اسے لڑائی جھگڑا اور تکرار بہت مرغوب تھی۔ ہم بچوں کے ساتھ تو وہ توتو میں میں کرتا ہی، پتا سے بھی بات بات پر تنکتا اور حجت کرتا۔ پھر پتا بھی اسے کچھ نہ کہتے۔ میں یا سوتیلا اسکول نہ جاتے یا اسکول کی پڑھائی کے لیے نہ بیٹھتے یا رات میں پتا کے پیر نہ دباتے تو پتا سے خوب گھڑکی کھانے کو ملتی، مگر بھائی کئی کئی دن اسکول سے غائب رہتا اور پتا پھر بھی بھائی کو دیکھتے ہی اپنی زبان اپنے تالو کے ساتھ چپکا لیتے۔

راز ہم پر اچانک ہی کھلا۔

 

بھائی نے ان دنوں کبوتر پال رکھے تھے۔ ساتویں جماعت میں وہ دو بار فیل ہو چکا تھا اور اس سال امتحان دینے کا کوئی ارادہ نہ رکھتا تھا۔

کبوتر چھت پر رہتے تھے۔

احاطے میں کھالوں کے خمیر اور مانس کے نُچے ٹکڑوں کی وجہ سے ہماری چھت پر چیلیں اور کوّے اکثر منڈلایا کرتے۔

بھائی کے کبوتر اسی لیے بکسے میں رہتے تھے۔ بکسا بہت بڑا تھا۔ اس کے ایک سرے پر الگ الگ خانوں میں کبوتر سوتے اور بکسے کے باقی پسار میں اڑان بھرتے، دانا چگتے، پانی پیتے اور ایک دوسرے کے ساتھ گٹرگوں کرتے۔

بھائی صبح اٹھتے ہی اپنی کاپی کے ساتھ کبوتروں کے پاس جا پہنچتا۔ کاپی میں کبوتروں کے نام، میعاد اور انڈوں اور بچوں کا لیکھا جوکھا رہتا۔ سوتیلا اور میں اکثر چھت پر بھائی کے پیچھے پیچھے آجاتے۔ کبوتروں کے لیے پانی لگانا ہمارے ذمے رہتا۔ بغیر کچھ بولے بھائی کبوتروں والی خالی بالٹی ہمارے ہاتھ میں تھما دیتا اور ہم نیچے ہینڈ پمپ کی طرف لپک لیتے۔ انیس سو پچاس والے اس عشرے میں جب ہم چھوٹے رہے، تو گھر میں پانی ہینڈ پمپ سے ہی لیا جاتا تھا۔

گرمی کے ان دنوں میں کبوتروں والی بالٹی ٹھنڈے پانی سے بھرنے کے لیے سوتیلا اور میں باری باری سے پہلے دوسری دو بالٹیاں بھرتے اور اس کے بعد ہی کبوتروں کا پانی چھت پر لے کر جاتے۔

’’آج کیا لکھا؟‘‘ بالٹی پکڑاتے سمے ہم بھائی کو ٹوہتے۔

’’کچھ نہیں۔‘‘ بھائی اکثر ہمیں ٹال دیتا اور ہم دل مسوس کر کبوتروں کو دور سے پلکیں جھپکے بغیر نہارتے رہتے۔

اس دن ہمارے ہاتھ سے بالٹی لیتے سمے بھائی نے بات خود چھیڑی، ’’آج یہ بڑی کبوتری بیمار ہے۔‘‘

’’دیکھیں،‘‘ سوتیلا اور میں خوشی سے اچھل پڑے۔

’’دھیان سے،‘‘ بھائی نے بیمار کبوتری میرے ہاتھ میں دے دی۔

سوتیلے کی نظر ایک ہٹے کٹے کبوتر پر جا ٹکی۔

’’کیا میں اسے ہاتھ میں لے لوں؟‘‘ سوتیلے نے بھائی سے التجا کی۔

’’یہ بہت چنچل ہے، ہاتھ سے نکل کر کبھی بھی بےقابو ہو سکتا ہے۔‘‘

’’میں بہت دھیان سے پکڑوں گا۔‘‘

بھائی کا ڈر صحیح ثابت ہوا۔

سوتیلے نے اسے ابھی اپنے ہاتھوں میں دبوچا ہی تھا کہ وہ چھوٹ کر منڈیر پر جا بیٹھا۔

بھائی اس کے پیچھے دوڑا۔

خطرے سے بے خبر کبوتر بھائی کو چڑاتا ہوا ایک منڈیر سے دوسری منڈیر پر بِچرنے لگا۔

تبھی ایک بڑی سی چیل نے کبوتر پر جھپٹنے کی کوشش کی۔

کبوتر پھرتیلا تھا۔ پوری طاقت لگا کر فرار ہو گیا۔

چیل نے تیزی سے کبوتر کا تعاقب کیا۔

بھائی نے بڑھ کر پتھر سے چیل پر بھرپور وار کیا، لیکن ذرا دیر پھڑپھڑاکر چیل نے اپنی رفتار بڑھالی۔

دیکھتے ہی دیکھتے کبوتر اور چیل ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔

تاؤ کھاکر بھائی نے سوتیلے کو پکڑا اور اسے بے تحاشہ پیٹنے لگا۔

گھبراکر سوتیلے نے اپنی ماں کو پکارا۔

سوتیلی ماں فوراً اوپر چلی آئیں۔

سوتیلے کی یہ بری حالت ان سے دیکھی نہ گئی۔

’’اسے چھوڑ دے،‘‘ وہ چلائیں، ’’نہیں تو ابھی تیرے باپ کو بلا لوں گی۔ وہ تیرا گلا کاٹ کر تیری لاش اسی ٹنکی میں پھینک دے گا۔‘‘

’’کس ٹنکی میں؟‘‘ بھائی سوتیلے کو چھوڑکر، سوتیلی ماں کی طرف مڑ لیا۔

’’میں کیا جانوں کس ٹنکی میں؟‘‘

سوتیلی ماں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ احاطے کے دالان کے آخری سرے پر پانی کی دو بڑی ٹنکیاں تھیں۔ ایک ٹنکی میں نئی آئی کھالیں، نمک، نوسادر اور گندھک ملے پانی میں ہفتوں پھولنے کے لیے چھوڑ دی جاتی تھیں اور دوسری ٹنکی میں خمیر اٹھی کھالوں کو کھرچنے سے پہلے دھویا جاتا تھا۔

’’بولو، بولو،‘‘ بھائی نے قہقہہ لگایا، ’’تم چپ کیوں ہو گئیں؟‘‘

’’چل اٹھ،‘‘ سوتیلی ماں نے سوتیلے کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔

’’میں سب جانتا ہوں،‘‘ بھائی پھر ہنسا، ’’لیکن میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ میں نے ایک باگھنی کا دودھ پیا ہے، کسی چمگیدڑی کا نہیں…‘‘

’’تم نے چمگیدڑی کسے کہا؟‘‘ سوتیلی ماں پھر بھڑکیں۔

’’چمگیدڑی کو چمگیدڑی کہا ہے۔۔۔‘‘ بھائی نے سوتیلی ماں کی سمت میں تھوکا، ’’تمہاری ایک نہیں، دو دو بیٹیاں ٹنکی میں پھینکی گئیں، پر تمہاری رنگت ایک بار نہیں بدلی۔ میری باگھنی ماں نے جان دے دی، مگر جیتے جی کسی کو اپنی بیٹی کا گلا گھونٹنے نہیں دیا…‘‘

’’تو بھی میرے ساتھ نیچے چل،‘‘ کھسیا کر سوتیلی ماں نے میری طرف دیکھا، ’’آج میں نے ناشتے میں تم لوگوں کے لیے جلیبی منگوائی ہیں…‘‘

جلیبی مجھے بہت پسند تھیں، لیکن میں نے بیمار کبوتری پر اپنی پکڑ بڑھا دی۔

’’تم جاؤ،‘‘ سوتیلے نے اپنے آپ کو اپنی ماں کی آغوش سے چھڑا لیا، ’’ہم لوگ بعد میں آئیں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے،‘‘ سوتیلی ماں ٹھہری نہیں، نیچے اترتے ہوئے کہہ گئیں، ’’جلدی آ جانا۔ جلیبی ٹھنڈی ہو رہی ہیں۔‘‘

’’لڑکیوں کو ٹنکی میں کیوں پھینکا گیا؟‘‘ میں بھائی کے نزدیک — بہت نزدیک — جا کھڑا ہوا۔

’’کیونکہ وہ لڑکیاں تھیں۔‘‘

’’لڑکی ہونا کیا خراب بات ہے؟‘‘ سوتیلے نے پوچھا۔

’’پتاجی سوچتے ہیں، لڑکیوں کی ذمہ داری نبھانے میں مشکل آتی ہے۔‘‘

’’کیسی مشکل؟‘‘

’’پیسے کی مشکل۔ ان کی شادی میں بہت پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔‘‘

’’پر ہمارے پاس تو بہت پیسہ ہے،” میں نے کہا۔

’’پیسہ ہے، تبھی تو اسے بچانا ضروری ہے،” بھائی ہنسا۔

’’ماں کیسے مریں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ماں کے بارے میں میں کچھ نہ جانتا تھا۔ گھر میں ان کی کوئی تصویر بھی نہ تھی۔

’’چھوٹی لڑکی کو لے کر پتاجی نے ان سے خوب چھینا جھپٹی کی۔ انہیں بہت مارا پیٹا۔ پر وہ بہت بہادر تھیں۔ پورا زور لگا کر انہوں نے پتاجی کا مقابلہ کیا، پر پتاجی میں زیادہ زور تھا۔ انہوں نے زبردستی ماں کے منھ میں ماں کا دوپٹہ ٹھونس دیا اور ماں مر گئیں۔‘‘

’’تم نے انہیں چھڑایا نہیں؟‘‘

’’میں نے بہت کوشش کی تھی۔ پتاجی کی بانہہ پر، پیٹھ پر کئی چٹکیاں بھریں، ان کی ٹانگ پر چڑھ کر انہیں دانتوں سے کاٹا بھی، لیکن ایک زبردست گھونسا انہوں نے میرے منہ پر ایسا مارا کہ میرے دانت وہیں بیٹھ گئے…‘‘

’’پتاجی کو پولس نے نہیں پکڑا؟‘‘

’’نہیں! پولس کو کسی نے بلایا ہی نہیں۔‘‘

’’وہ کیسی تھیں؟‘‘ مجھے تجسس ہوا۔

’’انہیں موتیوں کا بہت شوق تھا۔ موتی پرو کر انہوں نے کئی مورتیں بنائیں۔ بازار سے ان کی پسند کے موتی میں ہی انہیں لاکر دیتا تھا۔‘‘

’’انہیں پنچھی بہت اچھے لگتے تھے؟‘‘ سوتیلے نے پوچھا، ’’سبھی مورتوں میں پنچھی ہی پنچھی ہیں۔‘‘

گھر کی لگ بھگ سبھی دیواروں پر مورتیں ہیں۔

’’ہاں۔ انہوں نے کئی مور، کئی طوطے اور کئی کبوتر بنائے۔ کبوتر انہیں بہت پسند تھے۔ کہتیں، کبوتر میں عقل بھی ہوتی ہے اور وفاداری بھی… کبوتروں کی کہانیاں انہیں بہت آتی تھیں…۔۔‘‘

’’میں وہ کہانیاں سنوں گا،‘‘ میں نے کہا۔

’’میں بھی،‘‘ سوتیلے نے کہا۔

’’پر انہیں چمڑے سے سخت بیر تھا۔ دن میں وہ سیکڑوں بار تھوکتیں اور کہتیں، اس موے چمڑے کی سڑاندھ تو میرے کلیجے میں آ گھسی ہے، تبھی تو میرا کلیجہ ہر وقت سڑتا رہتا ہے…‘‘

’’مجھے بھی چمڑا اچھا نہیں لگتا،‘‘  سوتیلے نے کہا۔

’’بڑا ہوکر میں احاطہ چھوڑ دوں گا،‘‘ بھائی مسکرایا، ’’دور کسی دوسرے شہر میں چلا جاؤں گا۔ وہاں جاکر موتیوں کا کارخانہ لگاؤں گا…‘‘

اس دن جلیبیاں ہم تینوں میں سے کسی نے نہ کھاٗئیں۔

٠٠٠

 

ہندی افسانہ نگار دیپک شرما لاہور میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک برس کی تھیں کہ بٹوارے کے بعد ان کے والدین ہجرت کرکے امرتسر جا بسے۔ پہلی کہانی ’پریت لڑی‘ میں دیپک بھلّرنام سے شائع ہوئی، جو ان کا شادی سے پہلے کا نام تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم پائی اور لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبۂ انگریزی سے وابستہ رہ کر بطور ریڈر سبکدوش ہوئیں۔ ۲۰۲۱ تک ان کی کہانیوں کے ۲۱ مجموعے شائع ہوئے۔وہ سادہ زبان  اور مختصر جملے آلے کے طور پر استعمال کرتی اور چونکانے والے کڑوے سچ کمال سادگی سے پیش کرتی ہیں۔ یہی بات ان کی کہانیوں کو موثر بناتی ہے۔ کہانی ’چمڑے کا احاطہ‘ میں بچییوں کے قتل کو ایک ایسی روایت کی طرح پیش کیا ہے جو سماج کو عمومی طور پر ایک معمولی جرم کی طرح قبول ہے۔ کہانی ایک قصبے کے سادہ اور معصوم سے گھریلو ماحول میں جب اپنی پرتیں کھولتی ہے تو اس سماج کا ایک نہایت سفاک اور گھنونا روپ سامنے آتا ہے۔(مترجم)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *