ڈی مینشیا ( Dementia ) اور جینیاتی رفوگر
اگلے وقتوں کے اک قصہ گو پیرِ کہنہ نے پھر
دشتِ بے ماجرا سے گزرتے ہوئے
نرم رو مہرباں خضر قامت مشینی فرشتے سے
یوں عرض کی
اے مشیں زاد !
اب میری پیرانہ سالی کے موسم میں
اُن داستانوں کی چادر دریدہ ہوئی
وہ جنھیں میں نے اپنی جوانی کے
رنگیں تخیل کی کھڈی پہ بُن کر
کسی نیلمیں آنکھ میں
نذر کے واسطے رکھ دیا
یک بہ یک میرے چاروں طرف
وقت کی گرد ایسی اڑی
طاقِ نسیان پر
زرد ہوتی ہوئی
ہر حکایت دھری کی دھری رہ گئی
الغرض
بھول جانے کا اک عارضہ
جو مری جینیاتی وراثت میں لکھا گیا
مثلِ دستِ عدو
اب مجھے زیر کرنے کو ہے
اے مشیں زاد !
مدت ہوئی
دشتِ بے ماجرا کی خموشی میں
کہنے کو کچھ بھی نہیں
بس یہی عرض ہے
اِس خطا کار کو
ہفت اقلیم کے
باہنر ،خوش زباں ،
جینیاتی رفوگر سے جلدی ملا دے
کہ میں اپنی بوسیدہ یادوں کی چادر مرمت کراؤں
اور اپنے قدیمی محلے کے
اک نیم تاریک سے قہوہ خانے میں
پھر اگلے وقتوں کے قصے سناؤں
٠٠٠
اگلی ہجرت کا دکھ
بستی پر شب خون پڑا تھا
رات کو دریا خوب چڑھا تھا
جب میں نکلا
گھر سے تنہا
اپنے دکھ کا بوجھ اٹھائے
بغچہ باندھے
اک روٹی ،
چقماق کا پتھر ،
اک مشکیزہ ،
ٹوٹا خنجر
نازک سرکنڈوں کی ناؤ
لہروں لہروں مجھ کو لے کر
سات سمندر پار گئی تھی
بہہ نکلا تھا
وقت کا دھارا ،
ایک نیا گھر
ساتھ ہمارا ،
—— یادوں کا پشتارہ
جانے کتنے موسم گزرے
پھر اک شب کو میں نے دیکھا
—— اک دُم دار ستارہ
صبح ہوئی تو
گونج رہاتھا
—— سادھو کا اکتارہ
جادو نگری اجڑ چکی تھی
زرد پڑا جاتا تھا لاغر
اجڑا بوسیدہ سیارہ
سنتا ہوں اب
پاس ہی جیسے
کوچ کا بجتا ہے نقارہ
اڑنے کو تیار ہے شاید
ایلومنئم کا راکٹ ،
—— پیتل کا طیارہ
میں اپنی تنہائی لے کر
بغچہ باندھے
اک روٹی
چقماق کا پتھر
اک مشکیزہ
ٹوٹا خنجر
یادوں کا پشتارہ
اگلی منزل دور کہیں ہے
—— کالے پتھر کا فوارہ
اگلی ہجرت
عالم بالا میں اگلا سیارہ
—— وقت کنارہ
٠٠٠
بائی پولر
شہرِ جاں
آج ویران ہے
جیسے گہری سیہ رات ہو
درد کی تیز آندھی میں سارے دیئے بجھ گئے
ہر طرف تیرگی
ایک جگنو بھی باقی نہیں
بس اندھیروں کی دیوار ہے
یاس کے دشت میں
نارسائی کی یلغار ہے
حسرت وغم کی زنجیر ہلتی ہے ، جھنکار ہے
کوئی مونس نہیں
زندگی بار ہے
صبح دم
یک بہ یک
جیسے جادو نگر ،
سارا منظر بدلنے لگا
ایک شیشے کا پنجرہ کہ میری اناگیر نظروں کے منتر کی حدت سے
جیسے پگھلنے لگا
پھر چھناکے سے ٹوٹا مرے سامنے
اب تو احساس کی سب فصیلوں سے باہر
مرا اسپِ تازی وفادار ہے
اور مرادوں کا اک دلربا قرطبہ سامنے میرے تیار ہے
آج میں ہی سکندر ہوں اور
آج میرے ہی دستِ جنوں میں چمکتی ہوئی ایک تلوار ہے
٠٠٠
ملٹی ورس اور وحدت الوجود
دو آئینے
آمنے سامنے ہوں
تو ان میں
عکس در عکس
کتنی کائناتیں سانس لیتی ہیں
یونی ورس سے
ملٹی ورس کا
ظہور کیسے ہوتا ہے
طبق در طبق ماہیت
ایک دنیا یا بہت سی دنیائیں
ایک کائنات یا بہت سی کائناتیں
ایک عالم یا بےشمار عالم
مگر میں ازل سے
ان میں صرف تم کو ڈھونڈتا ہوں
پھر بھی شاید یہ ممکن نہیں
کہ میں
دو آئینوں کے درمیان
لاتعداد کائناتوں میں
تمھارا عکس پا جاؤں ،
اور پھر اسے نوچ کر علیحدہ کردوں
٠٠٠
ایک قصہ گو کا قتل
دن ڈھلا
شام ہوئی
شہرِ ناپرساں کی منحوس گھڑی
قصہ گو قتل ہوا ، شام ہوئی
سرخ اینٹوں کی حویلی کہ بڑی دلکش تھی
آج تاراج ہوئی
ایک الزام تھا گستاخی کا
اور بلوائی ہزاروں میں
وہاں خون کی بو سونگھتے آ پہنچے تھے
لشکری اپنی کمیں گاہوں میں محفوظ کھڑے ہنستے تھے
گُرگِ آوارہ کو اک لقمۂ تر ڈالتے تھے
سرخ اینٹوں کی حویلی میں نقب لگتا تھا
چوب داروں کو نیا حکم یہ تھا
اس قدر زور سے نقّارہ بجے
کوئی بھی چیخ ،
کوئی آہ ،
سماعت کے قریب آ نہ سکے
خلقتِ شہر کہ آزردہ و بیمار و نحیف
اپنی قسمت پہ بس افسوس کیا کرتی تھی
ہاں ، کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا
شہرِ ناپرساں کی آشوب زدہ گلیوں میں
وقت کی دھول جمے گی
تو کئی قصہ گو
اس کہانی کو پھر اک بار سنانے کے لیے اتریں گے
شہر ناپرساں کی منحوس گھڑی
قصہ گو قتل ہوا
شام ہوئی
٠٠٠
گنبدِ حیات (Bio-Sphere) ۔ ایک اسطور
بہت دن ہوئے
دیوتاؤں کی اک محفلِ رنگ و مستی میں
جب سرمدی زمزمہ سا اٹھا
کیف میں نیلگوں سا پیالہ
کہ جس میں مئے ارغوانی انڈیلی گئی تھی
کسی دستِ قدرت سے چھُوٹا ،
الٹ کر زمیں پر گرا
اور
یہ آسماں بن گیا
ایک بے انت گنبد
کہ جس میں
کئی مہر و مریخ و مہتاب ٹانکے گئے
کہکشائیں بنائی گئیں
پھر اسی کاسۂِ دہر سے
بادلوں کی نمی
خاک میں بھی نموگیر ہونے لگی
زندگی اپنے خلیات میں کسمساتے ہوئے
خاک زادوں کے پیکر میں ڈھلنے لگی
اس زمیں کے جزیرے پہ
یہ خاک زادے تھے
جو دیکھتے دیکھتے
شاہ زادے ہوئے
چند ہی روز میں
کارگاہِ جہاں
ان کی ٹھوکر میں آنے لگی
معتدل زندگی کوئے افراط کی سمت جانے لگی
اک توازن جو پہلے تھا ،
بے ربط ہوتا گیا
گاڑیوں ، انجنوں ، کارخانوں کی آلودگی سے دھکتے ہوئے
گرم صحرا میں
کثرت کی خواہش کہاں لے چلی
کیا ہوس ہے کہ نادان قابو میں آتی نہیں
دل قناعت کے رستے پہ رکتا نہیں
ایک لشکر کشی ہے یہاں
ہر طرف پھیلتا جا رہا ہے دھواں
اب کوئی دم میں بس
زہر آلود بادل برسنے کو ہیں
اس خرابے میں
ہر سمت اک بادِ مسموم چلنے کو ہے
دیوتا اپنے معبد میں محصور
مبہوت ہیں
اور ادھر
ابنِ آدم کا اگلا قدم
آسماں کی عمودی جہت توڑ دینے کو تیار ہے
دیکھنا اب یہ ہے
زندگی اپنے گنبد سے نکلی تو آخر کہاں جائے گی
اس غبارے سے باہر
یہ رہ پائے گی؟
٠٠٠
عابد رضا کا شعری مجموعہ گزشتہ برس ہی ‘روزنِ سیاہ’ کے نام سے شائع ہوا ہے۔اس مجموعے میں ان کی غزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی موجود ہیں۔انہوں نے کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے گریجوشن کے بعد امریکہ میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب پچھلے کئی برسوں سے وہیں مقیم ہیں۔ان کے خاندان کا تعلق یوپی کے ایک سادات گھرانے سے ہے۔فی الحال وہ پریکٹس کے سا تھ ساتھ ورجینیا ٹیک یونیورسٹی کی میڈیکل فیکلٹی میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
عابد رضا کی ان چند نظموں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے یہاں ایک ہی وقت میں سائنسی، سماجی اور سیاسی بصیرتیں شعر کا روپ دھارن کرکے اتر آئی ہیں۔وہ بہت باریکی سے اپنے آس پاس ہونے والے ذہنی اور مادی انقلابات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اور ان کی ایسی تصویریں اتارتے چلے جاتے ہیں کہ انہیں مختلف سمتوں سے دیکھنے پر مختلف معانی برآمد کیے جاسکتے ہیں۔یہ نظمیں قاری کو جہاں ایک طرف اپنے گرد و پیش میں مذہب کے نام پر پیدا کی جانے والی اور اکسانے والی سیاست کے بھیانک انجام سے روبرو کرواتی ہیں، وہیں اس ترقی کے نت نئے پیرہن پہننے والی جدید دنیا میں ہمارے ذہن و دل پر گزرنے والی افتاد کو بھی بڑے سلیقے سے سامنے لاتی ہیں۔یہ نظمیں ہمیں مطالعے کی سنجیدہ دعوت دیتی ہیں۔ شکریہ