Edit Content

حسین عابد کی نظمیں

چہرہ بھر پردہ

ایک مدت اداکاری کرنے کے بعد

میں نے گرتے پردے سے

چہرہ بھر ٹکڑا کاٹا

اور عقبی سیڑھیاں اُتر گیا

سرد ہوتی رات کی

پتھریلی گلیوں میں

مجھے ایک عورت ملی

وہ برہنہ تھی اور کندھے پہ بیگ لٹکائے

ٹہلنے کے انداز میں چل رہی تھی

میں نے پوچھا،’’ تمہیں سردی نہیں لگتی؟‘‘

وہ بولی

’’ لگتی ہے

پر جب سے میں نے خود کو دیکھنا شروع کیا ہے

کپکپی ختم ہو گئی ہے‘‘

دریا کے پُل پہ

ایک ننگا بچہ تاریک پانی میں کنکر پھینک رہا تھا

میں نے کہا

’’ کپڑے پانی میں پھینک دیے؟‘‘

وہ بولا، ’’ میں تو ایسے ہی پیدا ہوا تھا‘‘

ایک بوڑھا ملا

وہ کھلے دروازے کی دہلیز پر

ننگا بیٹھا پاؤں دھو رہا تھا

مجھے دیکھ کر بولا

’’ میں گھر کے ننگے فرش کو

گلی کی کالک سے داغدار نہیں کرتا‘‘

ایک جگہ دیمک کا ایک کنبہ

بھوک سے نڈھال بیٹھا تھا

میں نے چہرہ بھر پردے کا ٹکڑا

اس کے آگے ڈال دیا

***

سیدھی بارش میں کھڑا آدمی

بارش بہت ہے

وہ ٹیِن کی چھت کو چھیدتی

دماغ کے گودے میں

اور دل کے پردوں میں

چھید کرتی

پیروں کی سوکھی ہڈیاں

چھید رہی ہے

میں چاہتا ہوں

چھت پہ جا کر لیٹ جاؤں

اور سوراخوں کو

چھلنی وجود کے بوجھ سے

بند کر دوں

مگر

سیدھی بارش کی میخوں نے

پاؤں

بہتے فرش میں گاڑ دیے ہیں

***

ائیر پورٹ پر

میرے پاس صرف ایک گیت ہے

تلاشی لینے پر

نہیں ملے گا

میرے ساز کے پردے

چاک کرنے پربھی

تم اسے پہچان نہ پاؤگے

وہ تمہارے دل سے نکل گیا تھا

جب تم نے بندوق میں

پہلی گولی بھری تھی

۔۔

یوں بھی

تمہارے جہاز کی منزل

میری منزل نہیں

مجھے صرف ایک گیت کے پار اترنا ہے

***

نیند کے انتظار میں

نیند کے انتظار میں

آج پھر کئی خواب ادھر اُدھر نکل گئے

اُن آنکھوں کی طرف

جنہوں نے اپنی چکا چوند سے دن کو تسخیر کیا

اور شام ہوتے ہی

نیند کی دیوی نے سوئمبر کے پھول

پلکوں پر رکھ دیے

یا بند باندھنے کی عجلت میں

اُن آنکھوں کی طرف

جن کا نور کالے دن کے دریا میں بہہ گیا

یا شاید وہ کہیں نہیں جاتے

ٹہلتے رہتے ہیں

اپنی نیند کے انتظار میں

رستے میں اُگتی گھاس پر

اُن آنکھوں کی انتظارگاہ کے باہر

جہاں رات اور دن

گھڑی کی سوئیوں کی طرح

محض ٹِک ٹِک ٹِک ٹِک کرتے ہیں

***

پھر کوئی پیڑ!

بیٹھے بیٹھے رستے نکل آتے ہیں

چلتے چلتے گُم جاتے ہیں

پھر کوئی پیڑ نکل آتا ہے

جس کے نیچے بیٹھ کے ہم

گُم رستے دوہراتے ہیں

لمحہ بھر سستاتے ہیں

بیٹھے بیٹھے

رستے نکل آتے ہیں

***

بچہ اور بالغ

ممکن ہے

ڈھلتے دن کی دھوپ میں

تم اُسے ایک خالی میدان میں ملو

اور حیرت بھری امید سے

اکڑوں بیٹھ کر

پھٹی جلد والا ہاتھ پھیلا دو

اور وہ اپنے بنٹے چھُپا لے

ممکن ہے

گہری ہوتی شام میں

سِکّوں سے بھری جیب میں ہاتھ ڈالے

قدیم آشنا گلی میں مُڑتے

تم ایک اجنبی پتھر سے ٹھوکر کھاؤ

اور وہیں بیٹھ کر

پھوٹ پھوٹ کر رو دو

ممکن ہے

تم صبح کے الارم پر جاگو

تو گھڑی پر چھوٹا سا

پلاسٹک کا خرگوش بیٹھا ہو

اور وہ

تمہارے موٹے بوٹ پہن کر

تمہاری کُدال اٹھائے جا چکا ہو

***

اُڑتے خُلیے

سائیکل چلاتا ایک روبوٹ آتا ہے

اور چوک میں ریہڑی سے ٹکرا کر

پھٹ جاتا ہے

اس پھٹے لمحے میں

اسکی پھٹی سکرین پر

منجمد منظر چلتا ہے

۔باغ، ندیاں، عورتیں ۔

جس کے لیے اس نے روح کا سودا کیا

روبوٹ کے اُڑتے خُلیے

زندہ بچنے والوں کی کھال میں گھُس جاتے ہیں

اور ان کی روحوں کی رسولیاں بن جاتے ہیں

جن کا علاج

روبوٹ کا مالک اپنے ہسپتال میں کرتا ہے

***

دو کناروں میں رکا دن

ملگجی شام جیسا دن

دیر سے

دو کناروں میں رُکا ہے

سرمئی پانی پہ سفید ہنس

ہلکی پھوار میں تیرتا

میری جانب آتا ہے

مگر میری نگاہ

دوسرے کنارے پہ مرکوز ہے

جہاں خالی کشتیاں

اپنے اپنے کھونٹے سے بندھی

ہولے ہولے ڈول رہی ہیں

***

رات ٹھہر گئی ہے

بالکنی میں بہکتے

گٹار کے گیت میں

دیے کی لَو پر

دہکتے بدن کے نشیب و فراز میں

رات ٹھہر گئی ہے

جھیل کے پانیوں پر

جہاں دو چاند ہلکورے لیتے ہیں

ساحل سے آتی

ڈھول کی تھاپ پر

رات ٹھہر گئی ہے

بھیگے درختوں

شہر کی روشنیوں سے ٹپکتی

بوندوں پر

جزیروں پر

جہاں دوست ملتے ہیں

رات ٹھہر گئی ہے

ایک آدمی کے دل پر

جو دن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتا ہے

ْ***

ایک لمحہ کافی ہے

ایک لمحہ کافی ہے

کسی اجنبی، نیم وا دریچے سے

کھنکتی ہنسی پر ٹھٹھکتے

محبوب آنکھوں میں جھانکتے

پکی خوشبو

اور معصوم آوازوں کے شور میں

بدن سے دن کی مشقت دھوتے

یا کھلے، وسیع میدان میں بہتی

ندی کے ساتھ چلتے

جس کے کناروں کی گھاس

پانی میں ڈوب رہی ہو

وقت کی دھڑکتی تھیلی میں پڑا

ابدی مسرت کا لمحہ

جو سارے مساموں سے پھوٹ نکلے

ایک گہرے دوست جیسا

جو کبھی جدا نہ ہو

ایک جگنو جیسا

جوگمبھیر رات میں چلتے

اچانک تمہارے سامنے آنکلے

ایک لمحہ کافی ہے

***

گونج

تمہاری چال شکستہ ہے

اور کمر خمیدہ

میں تم پر اپنا دیوان نہیں لاد سکتا

ہوسکتا ہے

اس میں آنسو ہوں

اور تمہاری اُدھڑی کھال میں

نمک جم جائے

ہو سکتا ہے پتھر ہوں

اور تمہارا راستہ طویل ہو جائے

ہو سکتا ہے پرندے ہوں

دبکے ہوئے

اور جب تم پنجرے میں چلتے چلتے

گِر جاؤ

تو وہ تمہارا دانہ چُگ جائیں

یہ لفظ اُن کے لیے ہیں

جن کے کان میری چیخ پر بند رہے

***

اوائلِ بہار کا اضطراب

بارش سے بھیگے رستے پر

جہاں چیری کے شگوفے

پتی پتی بکھر گئے ہیں

میں اپنے آپ میں گم چلتا ہوں

اردگرد

تتلیوں کی پرواز میں تمہاری چاپ ہے

شہد کی مکھیوں کی دھیمی گنگناہٹ میں

تمہارے لہجے کا رس ہے

اور پیڑوں کے بھیگے تنے تمہاری اوٹ ہیں

لیکن میں جانتا ہوں

تم یہاں نہیں ہو

میرے اندر، دور دور تک

موسموں کے تغیر سے بے نیاز

تمہارا چہرہ دمکتا ہے

لیکن میں جانتا ہوں

تم یہاں نہیں ہو

یہاں صرف میرا دل ہے

مضطرب

کہ جب تم اس رستے پر آؤ

تو شدتِ انتظار سے جھکتی ایک ٹہنی پر

ایک چیری پوری طرح پک چکی ہو

***

عریاں بدن کا مستور چہرہ

وہ عورت

جو سڑک پر اپنا بدن بیچتی ہے

اس کے کئی چہرے ہیں

تم جس چہرے کے ساتھ مجامعت کرتے ہو

وہ اسے تھوڑی دیر بعد نالی میں بہا دیتی ہے

تم اسے

کبھی بھی پہچان سکتے ہو

بو سونگھ کر

مگر تم ایسا نہیں کروگے

تم اسے جعلی پرفیوم تحفہ میں دوگے

تاکہ وہ اپنا چہرہ کبھی نہ ڈھونڈ سکے

***

سِکوں سے بھرا برتن

دماغ کبھی خاموش نہیں ہوتا

لیکن دل

کبھی کبھی خاموش ہوجاتا ہے

دوری اور نزدیکی کے بیچ

بل کھاتی پگڈنڈی پر

وہ جب مجھے ملی

میرا دل تھوڑی دیر کے لیے

بالکل خاموش ہو گیا تھا

سڑکوں اور شہر کے شور میں

برتنوں، سِکوں

کم پڑتی الماریوں کے شور میں

دل کبھی کبھی خاموش ہو جاتا ہے

دوری اور نزدیکی کے بیچ

بل کھاتی پگڈنڈی پر

***

زندگی نظم نہیں

زندگی نظم نہیں

نظم زندگی میں چھُپی رہتی ہے

گلی میں اترتی سیڑھیوں کے پیچھے

ایک دل سے دوسرے دل تک بنتے

پیچ دار رستے میں

اور ایسی جگہوں پر

جہاں سے وہ دونوں اکٹھے گزرتے ہیں

مجھے زندگی کی پرواہ نہیں

مگر میری نظم

اسی میں کہیں چھُپی ہے

***