گل دوگانہ: لمس اور دوسرے ذائقے

انسانی لمس بدنی احساس سے بہت آگے کی چیز ہے۔ انسانی لمس زبان ہے۔ ایک مکمل اظہار ہے جو لفظوں اور آوازوں پر انحصار نہیں کرتا۔ بے یقینی کے لمحات میں تسلی دینے والی ہاتھ کی گرفت سے لے کر غم غلط کرنے والے راحت بخش معانقے تک، لمس ایسے تمام موقعوں پر بہت کچھ کہہ جاتا ہے جہاں الفاظ ناکام و بے بس ہو جاتے ہیں۔ لمس تحفظ، ہمدردی، گہرے تعلق، ڈھارس اور خلوص کا استعارہ ہے۔ یہ دوا اور دعا کا متبادل ہے۔ سیانے طبیبوں کے مطابق لمس تناﺅ کے ہارمونز مثلاً کورٹیسول کو کم کرکے آکسی ٹوسن اور سیروٹونن جیسے خوشی کے کیمیکلز کا اخراج کرتے ہوے تناﺅ زدہ اعصاب کے لیے ایک طاقتور مرہم کا کام کرتا ہے جس سے جذباتی استحکام کو فروغ ملتا ہے۔ حیاتیاتی ہم آہنگی کی یہ مدہوش کرنے والی دُھن صرف ہمارے موڈ کو ہی بلند نہیں کرتی؛ ہمارے مدافعتی نظام کو بھی مضبوط بناتی ہے، جسمانی درد کو بھی کم کرتی ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم الگ تھلگ رہنے والی تنہائی زدہ مخلوق نہیں بلکہ نرم گرم تعلقات رکھنے والے وجود ہیں۔ کسی اداس بچے کو پرسکون کردینے والی نرم تھپکی ہو، کسی رشتے پر مہر ثبت کرنے والا مضبوط مصافحہ ہو یا عاشق و معشوق کی باہم گڈمڈ انگلیاں، انسانی لمس کی کیمیا سادہ سے تعلق کو ایک ایسی زندہ قوت میں بدل دیتی ہے جو ہمارے جسم کو غذائیت اور ہمارے دماغ کو اصلی اور سُچا سکون فراہم کرتی ہے اور ایک بڑھتی ہوئی غیر مربوط دنیا میں انسان ہونے کی ہماری مشترکہ حقیقت کی تصدیق کردیتی ہے۔

لمس کی حرکیات حیرت انگیز طور پر پیچیدہ مگر جمالیاتی نشاط کا وافر سامان رکھتی ہیں۔ ان حرکیات سے شناسائی اگر عمدہ شاعری کی بدولت ہوجائے تو ملنے والا سرور، چند گھنٹوں ہی کے لیے سہی، فکشن سے حاصل ہونے والی ایکسٹیسی سے کم درجے کا نہیں ہوتا۔

سید کاشف رضا کی “گلِ دوگانہ” کی منتخب غزلیہ شاعری کو لمسیاتی شاعری ( Haptic Verse) کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہاں لمس تعلق کی ہمیشگی کا استعارہ ہے۔ محبت کی سچائی کی علامت ہے۔ ایک معجزہ ہے۔ ایک ایسی دوا ہے جس سے دوری اور ہجر کے سارے زخم مندمل ہو جاتے ہیں۔ ایسا پاگل پن ہے جو عشق کو زیبا ہے۔ ایک دھیرجتا ہے جو غصے اور اشتعال کی قاتل ہے۔

وہ جو اک آتشِ پامال تھی ہونٹوں پہ مرے

مطلعِ لب پہ ترے جا کے شفق ہوگئی تھی

 

میں نے تصویر بنائی تو مخاطب بھی ہوئی

حرف کو ہاتھ لگایا تو وہ زندہ بھی ہوا

 

معاف کردیے اس کے دیے ہوے سبھی زخم

اتر گیا مرے بوسے میں اشتعال مرا

 

مجھے وہ بدن کے علاوہ بھی مرغوب ہے

میں عورت کے ہر رنگ سے آشنا مرد ہوں

 

مرے لہو میں دھڑکتے ہیں مدّو جزر اس کے

مری رگوں میں سمندر ہے موج زن اس کا

گھٹی گھٹی تھی بہت رات اور اس کے بعد

شمیمِ شب بھی کھلی جب کھلا بدن اس کا

یہاں ہر شعر میں لمس اپنے مختلف مفہوم دے رہا ہے۔ تاہم یہ مختلف ہونا محض شعر کو پڑھ کر سیدھے اس کے معنی کی کھوج میں نکل پڑنے سے سمجھ میں نہ آسکے گا۔ شاعری محض سمجھنے کی چیز ہے بھی نہیں۔ یہ لطف لینے اور تخیل کو گرمانے کا ذریعہ ہے۔ شاعری پڑھنے والا یہ کام تین طریقوں سے کرسکتا ہے: شعر کو محسوس کرکے، شعر میں مستعمل امیجری کی بدولت ذہن کے پردے پر چلنے والی فلم دیکھ کر یا شعر میں پیش کردہ خیال کو اپنے جیے ہوے تجربے میں سے گزار کر۔ ظاہر ہے اس کام کے لیے پڑھنے والے کو تھوڑی سی مشقت کرنا ہوگی۔ تو آئیے، تھوڑی سی مشقت کرلیتے ہیں:

مرے لہو میں دھڑکتے ہیں مدّو جزر اس کے

مری رگوں میں سمندر ہے موج زن اس کا

شعر کو ایک بار تحت الفظ پڑھیے اور دوسری بار گنگنا کر پڑھیے۔ گنگناتے ہوے اپنے یا اپنی “اس کا” تصور بھی کرلیں تو شعر گہرے معانی دے سکنے کی حالت میں آجائے گا۔ دماغ میں تصویر بنائیے اور گنگناتے رہیے: اب آپ اپنی/اپنے پسندیدہ شخص کے بدن کے اتار چڑھاؤ (مدوجذر) کو آنکھوں (کے لمس) سے ذہن پر اتار رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوے اپنے دل کی دھڑکنوں کو تیز تیز چلتا محسوس کررہے ہیں۔ اس تصور کو پکائیے۔ مزید پکائیے۔ اب یہ احساس اتنا شدید ہوگیا ہے کہ آپ کی رگ رگ میں خون کی طرح دوڑنے لگ گیا ہے۔ خون کے اس موج زن سمندر میں اتار چڑھاؤ تب شدید تر ہو جائے گا جب آپ اپنی گنگناہٹ، اپنے تصور اور اس کے ساتھ چلتے خیال میں ہم آہنگی لے آئیں گے۔ جیسے ہی آپ یہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، شاعر کا شعری تجربہ آپ کا ذاتی تجربہ بن چکا ہوگا۔ اگر بفرض محال اس سارے پروسیس کے تکمیل کے لمحے تک پہنچنے میں آپ کامیاب نہیں بھی ہوتے، تب بھی اس عمل کے دوران بروئے کار لائی گئی مشقت آپ کو جمالیاتی مسرت کا انعام ضرور دے گی۔

ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ اس میں لمس اور اس سے متعلق ذخیرۂ الفاظ کے غیاب( absence )کے باوجود شعر میں لمس کی کیفیت کو کس گہرے رنگ میں نقشایا گیا ہے:

مری جلد پر عورتوں کا بدن نقش ہے

کئی عورتوں کا بنایا ہوا مرد ہوں

بظاہر یہ شعر اپنی تفہیم اور حظ آوری میں زیادہ مشقت کا متقاضی دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا جمالیاتی شعور اس کے معنی کی فوری ترسیل میں پوشیدہ نظر آتا ہے۔ لیکن یہ فوری ترسیل صرف اس قاری کے حصے میں آئے گی جو برِصغیری ثقافت کی حرکیات سے کچھ نہ کچھ آشنا ہو۔ اس کلچر میں بچے سے لڑکا اور لڑکے سے مرد بننے یا بنانے کے عوامل میں درجن بھر عورتوں کی کنٹری بیوشن ہوتی ہے: ماں، خالہ، بہن، پھوپھو، دادی، نانی، چچی، تائی، پڑوسن، استانی اور بیوی۔ ان عورتوں کے بدنی، روحانی اور احساساتی ملامس، جن کا ذائقہ ایک دوسرے سے جدا جدا ہے، مرد پر ایسے ایسے نقش چھوڑتے ہیں جن کے اثرات پیار، خلوص، چمکار، سخاوت، دھیرجتا اور راحت جیسے جذبات کی صورت میں اس کی ذات کا دیر تک حصہ بنے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ محض جینیات سے آگے کا تصور ہے؛ یہ اس ماتری ورثے، ثقافتی تعلیمات، جذباتی پرورش اور خاموش قربانیوں کی تسلیم ہے جو اس شخص کے وجود کے تانے بانے میں بُنی ہوئی ہیں۔ یہ عورتوں کے اس اجتماعی گروہ کی قبولیت کا چرچا ہے جنھوں نے نسلوں کے تعامل سے مرد کو پہچان دی۔

اس شعر سے ایک اور طرح سے بھی لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے: “کئی عورتیں” کلچر کی وہ دادیاں اور پھوپھیاں نہیں بلکہ مرد کے آئینۂ حیات میں قرب و دور سے اپنے کچے پکے عکس اتارنے والی وہ دوشیزائیں ہیں جن کے سایوں اور خوشبؤوں نے اس کے نین نقشے سنوارے۔ جن کی محض موجودگیاں ہی اس کی شناخت، قدر اور روح کی تشکیل کا باعث بنیں۔ چنانچہ یہ متکلم کا صاف لفظوں میں اعتراف ہے کہ عورت کی تعمیر میں مرد کے کردار کی تشہیر تو بہت ہولی، اب کھلے دل سے عورت کے احسان کو بھی تسلیم کرلیا جائے۔ چونکہ یہ اعتراف بند کمرے میں نہیں، کھلے صفحے پر کیا گیا ہے۔ اب یہ پڑھنے والے کا بھی اعتراف ہے اور اپنے آخری پڑاؤ میں گلوبل مرد کا اعتراف بھی ہے۔ مفہوم کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ عورتیں محض ذہن میں یادداشت کی صورت میں نہیں رکھی جاتیں بلکہ بدن پر محسوس کی جاتی ہیں، یعنی ان کی موجودگی مرد کے جسمانی وجود میں کندہ ہے۔ چنانچہ یہ حسی زبان شعر کو مادی دنیا سے جوڑ دیتی ہے اور تعلق کو غیر منفصل، گہرا اور ناشکستنی بنا دیتی ہے۔ یہ ایک طاقتور استعارہ ہے اس بات کا کہ ورثہ محض وراثت میں نہیں ملتا بلکہ اسے پہنا جاتا ہے، یہ ذات کا ایک مستقل اور متصل حصہ ہے جو فرد اور مشترکہ کُل کے درمیان ہم آہنگی کے تصور کا غماز ہے۔

“گلِ دوگانہ” کے شاعر کو طبیعیاتی لمس کے سو طرح کے رنگ اور انگ تو مرغوب ہیں ہی، لمس کے غیر طبیعیاتی کھیل سے بھی وہ گہرا شغف رکھتا ہے۔ چنانچہ اپنی طویل ترین غزل میں، جسے “سایہ غزل” کہنا چاہیے، وہ جہاں سائے کو چھلاوے، دھوکے، پرچھائیں، چھایا۔صورت ،وہمیہ، طفیلیا۔ بن بلائے مہمان، بھوت، ہمزاد، اشارے، پیش خبری، یادداشت اور وقت کے استعارے کے طور پر پیش کرتا ہے، وہاں سائے کے لغوی مفہوم سے بھی ایسی ایسی معنی خیزی پیدا کرتا ہے کہ ذہنِ قاری پر شعر اپنی تاثیر اور تصویر ابھارنے میں کامیاب رہتا ہے:

دھوپ میں یہ کھیل ہے مجھ کو پسند

اپنا سایہ اس سے لپٹاتا ہوں میں

اتنا اندھا ہوں کہ اب اس شہر میں

اپنے سائے سے بھی ٹکراتا ہوں میں

“گلِ دوگانہ” کی شاعری میں لمس ایک موٹف بن کر آتا ہے مگر کتاب میں یہ واحد موٹف نہیں جو کئی صورتوں اور کئی مفاہیم میں بار بار جلوہ گر ہوتا ہو۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ شاعری کا یہ مجموعہ متوازن شعری زبان، تخیل کی قوت، حسی امیجری اور استعاروں سے مالا مال ہے۔ کتاب کی اضافی خوبی انسانی رشتے اور اس کی حرکیات جیسا موضوع ہے جو اس میں اتنے رنگوں اور روشنیوں میں دستیاب ہے کہ پڑھنے والے کو ہر صفحے پر مختصر قیام کرنا پڑجاتا ہے۔ میں اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے یہاں ان چند اشعار کو آپ کے ملاحظے کے لیے درج کرنا چاہوں گا جن کا موضوع تو رہ و رسم ہے مگر اشعار میں انسانی تعلق کی پیشکش کے لیے شاعر نے جس فنی ریاضت اور جس قوتِ تخیل سے کام لیا ہے وہ ان اشعار کو موضوع سے بہت آگے لے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، یہ انسانی رشتے لمس کے ساتھ ساتھ بصری، شمی اور سمعی حسوں کے تعلق سے بھی اپنی نقوش ابھارتے ہیں:

اس نیند کے درخت میں پیوست ہو کے وہ

اک شاخچے پہ خواب کی کونپل کھلائے گا

 

جانے کس لہر کی آوارہ خرامی کے سبب

چشمِ خونناب میں اک باغ کا منظر آیا

 

تری چشمِ تلطف میں کرن ایک اجنبی تھی

چھپا کر تیر یہ تو نے کہاں رکھا ہوا تھا

 

شرار خوں کو میں اتنا تو تیز کر رکھوں

کہ اس کے رخ پہ جھلکنے لگے گلال میرا

۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *