دنگا بھیجیو مولا

دھوپ اتنی تیز تھی کہ پانی سے اٹھتی بھاپ جھلسا رہی تھی۔کیچڑ کے بیچ کوڑے کے اونچے ڈھیر پر ایک قطار میں چھ ایک دم نیے،چھوٹے چھوٹے تابوت رکھے ہوئے تھے۔سامنے جہاں تک مومن پورہ کی حد تھی،سیور کے پانی کی بجبجاتی جھیل ہلکوریں مار رہی تھی،کئی بلّیوں اور ایک گدھے کی پھولی لاشیں تیر رہی تھیں۔

ہوا کے ساتھ چلتے جل کمبھی اور کچرے کے ریلوں کے آگے کافی دوری پر ایک ناؤ پانی میں ہل رہی تھی جس کی ایک طرف اناڑی لکھاوٹ میں لکھا تھا’دنگے میں آئیں گے‘ اور ناؤ کی نوک پر زری کے چمک دار کپڑے کا ایک چھوٹا جھنڈا پھڑپھڑا رہا تھا۔

بدبو کے مارے ناک پھٹی جا رہی تھی،بچوں کے سوا سب نے اپنے منھ گمچھوں اور کافیوں (یہ لفظ کتاب میں دیکھ لیجئے)سے لپیٹ رکھے تھے۔پیچھے برقعے اور سلوکے گھٹنوں تک کھونسے عورتوں کا جھنڈ تھا جس میں رہ رہ کر ہچکیاں پھوٹ رہی تھیں۔کبھی کبھار رُلائی کی مہین آواز،کپکپاتی کوئی بھٹکی ہوئی ترنگ۔۔۔اور ہوا اُسے اڑا لے جاتی۔

یہ سب لوگ بستی کے اُس پار قبرستان جانے کے لیے ناؤ کا انتظار کر رہے تھے۔ہوا میں اٹھلاتے جھنڈے والی ناؤ تھی کہ جیسے چڑھا رہی تھی کہ دنگا ہوگا تبھی اِس پار آئے گی، ورنہ اسے یقین نہیں ہے کہ تابوتوں میں لاشیں ہیں یا لاشوں کے نام پر کچھ اور۔

تیر کر تھک جانے کے بعد،ایک ننگ دھڑنگ نوجوا ن نا ؤ میں اکیلا بیٹھا،منھ کھولے اس بھیڑ کو تاک رہا تھا۔چھ تابوت، منھ باندھے کوئی پچاس لوگوں کی بھیڑ،چوندھیاتا سورج اور پانی پر سائیں سائیں کرتی برسات کی دوپہر۔بستی کے آدھے ڈوبے مکانوں میں سے کسی چھت پر ریڈیوسے گانا آ رہا تھا۔

اچانک لوگ جھنجھلا کر ناؤ اور لڑکے کو گالیاں دینے لگے۔لڑکا غیر مرئی بھاپ سے چھن کر آتی بھنبھناہٹ کو کان لگائے لگائے سننے کی کوشش کرتا رہا لیکن بھیڑ تھپڑ،مکے لہرانے لگی تو وہ ہڑبڑا کر ناؤ سے کود پڑا اور پھر تیرنے لگا۔بھیڑ پھر خاموش ہو کر دھوپ میں لڑکے کی کوندتی پیٹھ تاکتے ہوئے انتظار کرنے لگی۔

کافی دیر بعد تین لڑکے یاسین،شعیب اور لڈن ناؤ لے کر اِس پار آئے اور کئی پھیرے لگا کر تابوتوں کو اُس پار کے قبرستان میں لے گئے۔ناؤ دن بھر بستی کے ناقابل برداشت دکھ ڈھوتی رہی۔

شام ہوتے ہی کناروں پر بسی کالونیوں کی بتیاں جلیں اور سیور کی جھیل جھلمل روشنیوں سے سج گئی۔لگتا تھا کہ یہ کوئی خوبصورت سا پرسکون جزیرہ ہے۔دیر رات ان چھ بچوں کو مٹی دے کر منھ باندھے لوگ جِنّوں کے قافلے کی طرح اِ س پار واپس لوٹے۔

یہ چار لڑکے اور دو لڑکیاں آج صبح تک پانی میں ڈوبے ایک گھر کی چھت پر کھیل رہے تھے۔ڈیڑھ مہینے سے پانی میں آدھا ڈوبا مٹی کے گارے کا مکان اچانک بھر بھرا کر بیٹھ گیااور وہ ڈوب کر مر گئے۔تھوڑی ہی دیر میں ان کی کومل لاشیں بلّیوں کی طرح پھول کر بہنے لگیں۔مکان کی صحیح سالم کھڑی رہ گئی ایک منڈیر پر ان کا کھانا جوں کا توں رکھا رہ گیا اور جو رام جی کے سُگّے(ڈریگن فلائی)انھوں نے پکڑ کر کرگھے کے ریشمی دھاگوں سے باندھے تھے،وہ اب بھی وہیں اڑ رہے تھے۔

ان رنگ برنگی ریشمی پونچھ والے پتنگوں کے پروں کی سرسراہٹ جتنی زندگی وہ چھوڑ گئے تھے،وہی اس سڑتی کالی جھیل کے اوپر ناچ رہی تھی۔باقی بستی سُنّ تھی۔پانی میں ڈوبے گھروں میں ان بچوں کی ماؤں کی سسکیوں کی طرح کُپِّیاں بھبھک رہی تھیں۔

ندی کے کنارے بسے شہر کے باہری نچلے حصہ میں آباد مومن پورہ کا ہر سال یہی حال ہوتا تھا۔برسات آتے ہی پانی کے ساتھ شہر بھر کا کوڑا کچرامومن پورہ کی طرف بہنے لگتا اور جولاہے تانا بانا،کرگھے سمیٹ کر بھاگنے لگتے۔اسی وقت مسجد کے آگے جمعہ کے دن لالٹینیں،نیم کا تیل،پلاسٹک کے جوتے اور بانس کی سیڑھیاں بیچنے والے اپنا بازار لگا لیتے تھے۔

سب سے پہلے مکانوں کے تہہ خانوں میں کرگھوں کی کھڈیوں میں پانی بھرتا اور گلیوں میں مسلسل گونجنے والا’کھڑک کھٹ کھڑک کھٹ کھڑک‘کا روٹی کی مٹھاس جیسا سنگیت گھٹنے بھر پانی میں ڈوب کر دم توڑ جاتا۔لوگ برتن بکریاں،مرغیاں،بُنے ادھ بُنے کپڑوں کے تھان اور بچوں کو سمیٹ کر شہر میں اوپر کے ٹھکانوں کی طرف جانے لگتے،پھر بھی ایک بڑی آبادی کا کہیں ٹھور نہیں تھا۔وہ مکانوں کی اوپر کی منزلوں میں چلے جاتے۔ایک منزلہ گھروں کی چھتوں پر سِرکِیاں،چھولداریاں لگ جاتیں۔

یہی وہ وقت ہوتاجب مومن پورہ کی بجلی کاٹ دی جاتی کیونکہ پانی میں کرنٹ اترتے ہی پوری بستی کے قبرستان بن جانے کا خطرہ تھا۔پاورلوم کی مشینیں خاموش ہو کر ڈوبنے لگتیں کیونکہ انھیں اتنی جلدی کھود کر کہیں اور لے جانا ممکن نہیں تھا۔تبھی دوسرے کنارے پر سیلاب زدہ ندی کے دباؤ سے پورے شہر کی سیور لائینیں اُبل کر مخالف سمت میں بہنے لگتیں۔مین ہولوں پر لگے ڈھکن اچھلنے لگتے اور بیس لاکھ آبادی کا پیشاب پاخانہ برساتی ریلوں کے ساتھ ہہراتا ہوا مومن پورہ میں جمع ہونے لگتا۔

چتُر ماس(٭نیک کام کرنے کے لیے چارشبھ مہینے، اساڑھ سے کاتک)میں جب سادھو سنتوں کے پروچن شروع ہوتے،مندروں میں دیوتاؤں کے شرنگار اُتسو ہوتے،کنجری کے دنگل ہوتے اور ہری تالیکا تیج(٭بھادوں مہینے میں اس دن عورتیں بغیر پانی کے ورت رکھتی ہیں اور گوری شنکر کی پوجا کرتی ہیں) پر مارواڑیوں کے شاندار جلوس نکلتے،تبھی یہ بستی ایک پوِتر شہر کا کموڈ بن جاتی تھی۔مومن پورہ کو پانی سپلائی کرنے والے ملازم پمپنگ اسٹیشن پر تالا ڈال کر چھٹی پر چلے جاتے کیونکہ کٹی پھٹی لائینوں کی وجہ سے مومن پورہ پورے شہر میں مہا ماری پھیلا سکتا تھا۔

مومن پورہ والے چندہ کرکے ملاحوں سے دس بارہ ناویں کرایے پر لے آتے اور وہاں کی زندگی،اچانک شہر کی بنکر بستی کی کھڑک تال سے بدک کر،سیلاب میں ڈوبے،تاریک نشیبی گاؤں کی چال چلنے لگتی۔ملاح ناویں تو دے دیتے تھے لیکن یہاں آ کر چلانے کے لیے راضی نہیں ہوتے تھے۔تھوڑی زیادہ آمدنی پر گو موت میں ناؤ کھینے پر انھیں اعتراض نہیں تھا،ڈر تھا کہ کئی ایکڑ کی جھیل میں اگر مسلمان کاٹ کر پھینک دیں گے تو کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔

ہر گھر کی چھت تک،کیچڑ میں دھنسا کر بانس کی ایک سیڑھی لگا دی جاتی۔راشن،سودا سلف لوگ قریب کے بازاروں سے لے آتے۔ایک ناؤ دن رات قریب کے محلوں سے پینے کے پانی کی پھیری کرتی رہتی تھی۔لوگ کپڑوں کی پھیری کرنے ناؤ سے آس پاس کے گاوؤں،شہروں میں جاتے،بچے دن بھر پانی میں چھپاکا مارتے یا خواہ مخواہ مچھلی پکڑنے کی بنسیاں ڈال کر بیٹھے رہتے۔چھتوں پر ٹنگے لوگ ہر شام سڑتے پیروں اور جان لیوا کھجلی والے حصوں پر نیم کا تیل پوتتے۔لنگی،ٹوپی،بدھنا ہر چیز میں جھنڈ کی جھنڈ چیونٹیوں سے جوجھتے اور پانی جلد اترنے کی منتیں کرتے۔مہینہ پچیس دن میں کالی جھیل سکڑنے لگتی اور بستی پر بیماریاں ٹوٹ پڑتیں۔ہیضہ،گیسٹرو،ڈائریا سے سیکڑوں لوگ مرتے جن میں زیادہ تر بچے ہوتے۔انھیں دفنانے کے کئی مہینے بعد کہیں جا کر روٹی کی مٹھاس والا سنگیت پھر سنائی دینے لگتا اور زندگی دھیرے دھیرے پٹری پر لوٹ آتی۔

اس سال ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے بعد بھی پانی نہیں اترا۔شیطان کی آنت کی طرح کالی جھیل کا دائرہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔چھتوں پر ٹنگے لوگ حیرت اور خوف سے پانی کو گھورتے رہتے۔ایک دن اچانک بڑھتا پانی بولنے لگا۔۔۔

بستی کی زندگی اور اس پانی کا رنگ روپ،تقدیر ایک جیسے تھے۔آچمن(٭پوجا،پرارتھنا اور یگیہ وغیرہ سے پہلے منتر پڑھتے ہوئے پانی پینا۔آچمن میں صرف اتنا پانی لیا جاتا ہے جو دل تک پہنچ سکے) کرنے اور ہاتھ میں پانی لے کر گنگا جمنی تہذیب کا حوالہ دینے کے دن کب کے لد چکے تھے۔یہ شہر اب اس پانی اور بستی دونوں سے چھٹکارہ پانا چاہتا تھا۔اس بار پانی کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔ڈَمبھک ڈَمبھاک۔۔۔ڈَمبھک ڈَمبھاک۔۔۔بستی کے لوگ سنتے تھے لیکن سمجھ نہیں پا رہے تھے۔

بھور کی نیم تاریکی میں جب مومن پورہ کے لوگ ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے،کوؤں کی طرح پنجوں سے منڈیروں کو پکڑے رفع حاجت کر رہے ہوتے، ٹھیک اسی وقت آگے موٹر سائیکلوں،پیچھے کاروں پر سوار لوگوں کی پربھات پھیری شہر سے نکلتی۔شنکھ،گھنٹے،تُرہِیاں بجاتے کئی غول بستی سے سٹ کر گزرتے ہائی وے کی پلیا پر رکتے،فلک شگاف نعروں کے بیچ وہ ٹارچوں کی روشنیاں چھتوں پر ٹنگے جولاہوں پر مارتے اور قہقہے لگاتے۔پھر بوڑھے،جوان اور نوجوان ایک ساتھ مل کر گلے بیٹھ جانے تک چلاتے رہتے۔۔۔

”پاکستان میں عید منائی جا رہی ہے۔“

 

”ڈل جھیل میں آتش بازی ہو رہی ہے۔“

صبح سورج نکلنے تک گھنٹے گھڑیال بجتے رہتے۔

 

جھیل کا پانی بولتا رہا۔اس سال کئی اور نئی بد شگونیاں ہوئیں۔ملاحوں نے ناویں دینے سے انکار کر دیا،ان کا کہنا تھا کہ جس ناو سے بھگوان رام کو پار اُتارا تھا،اسے بھلا گو موت میں کیسے چلا سکتے ہیں۔میونسپلٹی نے اس سال پانی نکاسی کے لیے ایک بھی پمپ نہیں لگایا،افسروں نے لکھ کر دے دیا سارے پمپ خراب ہیں،مرمت کے لیے پیسا نہیں ہے،سرکار پیسا بھیجے گی تو پانی نکالا جائے گا۔پی ڈبلیو ڈی نے اعلان کر دیا کہ ہائی وے کی پلیا سے ہر سال کی طرح اگر پانی کی نکاسی کی گئی تو خستہ حال سڑک ٹوٹ سکتی ہے اور شہر کا رابطہ باقی جگہوں سے کٹ سکتا ہے۔قدرتی آفات راحت رسانی محکمہ نے اعلان کر دیا کہ یہ ’باڑھ‘ نہیں معمولی ’جل بھراؤ‘ ہے،اس لیے کچھ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

اسپتالوں نے مومن پورہ کے مریضوں کو ایڈمٹ کرنے سے منع کر دیاکہ جگہ نہیں ہے اور انفیکشن سے پورے شہر میں وبا پھیلنے کا خطرہ ہے۔پاورلوم کی مشینیں اور مکانوں کا ملبہ خریدنے کے لیے کباڑی چکر لگانے لگے۔پانی میں ڈوبے مکانوں کا طے توڑ ہونے لگا۔رئیل اسٹیٹ کے دلال سمجھا رہے تھے کہ ہر سال تباہی لانے والی زمین سے مسلمان اونے پونے میں جتنی جلدی پِنڈ چھڑا لیں، اتنا اچھا ہے۔یاسین کی خالہ نے اپنے دولہا بھائی کو پیغام بھیجا تھا کہ مومن پورہ میں اب کی نہ گھر بچے گا نہ روزگار،اس لیے بلا وجہ چوکیداری کرنے کے بجائے جلدی سے کنبے سمیت یہاں چلے آئیں،ان کے رہنے سہنے اور روٹی کا انتظام ہو جائے گا۔پرویزا ور اِفِّن کے پورے خاندان کو ان کے ماموں زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹ لے گئے تھے۔

پرویزا ور اِفِّن،یہ دونوں بھائی مومن پورہ کے مشہور اسپنر تھے۔یاسین اس نرالی ٹیم کا کپتان تھا جس کا کوئی نام نہیں تھا۔اس کے زیادہ تر کھلاڑی ڈَھرکی(٭ناؤ کی شکل کا وہ آلہ جس سے بُنکرکرگھے میں بانے کا سوت ایک طرف سے دوسری طرف پھینکتے ہیں)اور تانی(٭کرگھے میں استعمال ہونے والے دھاگوں کا مجموعہ)بھرنے کی عمر پار کر چکے تھے۔اب وہ بِنکاری،ڈیزائننگ اور پھیری کے وقت گاہکوں سے ڈھائی گنا دام بتا کر آدھے پر طے توڑ کرنا سیکھ رہے تھے۔لیکن یہ سب وہ ابوؤں اور پھوپھیوں سے کافی پھٹکارے دھتکارے جانے کے بعد ہی کرتے تھے۔

زیادہ تر وقت وہ تانوں کے رنگ برنگے دھاگوں سے گھرے میدان میں کھپچیاں گاڑ کر کرکٹ کی پریکٹس کیا کرتے تھے۔کِٹ تھی لنگی،ڈھاکا سے آئی ربر کی سستی چپلیں اور گول نمازی ٹوپی۔غذا تھی بڑے کا گوشت اور آلو کا سالن۔ریاض تھا تین دن پچاس گاوؤں کی سائیکل پھیری اور کوچ تھا ٹیلی ویژن۔شعیب اختر،سنت جے سوریہ،سچن تیندولکر،جونٹی روڈس،ڈیریل ٹفی،شین وارن سبھی دن میں ان کی رگوں میں بجلی کی طرح گردش کرتے تھے اور راتوں کو خواب میں آ کر ان کی پسند کی لڑکیوں اور محبوباؤں کو ہتھیا لے جاتے تھے۔

مومن پورہ کی لڑکیاں بھی کیسی بے حیا تھیں جو چھتوں سے چھپ چھپ کر اشارے انھیں کرتی تھیں،تالیاں ان کے کھیل پر بجاتی تھیں لیکن ہرجائی ہنسی ہنستے ہوئے ان چکنوں کی لمبی لمبی گاڑیوں میں بیٹھ کر پھُرر ہو جاتی تھیں۔

اب یہ بلاسٹر،سوِنگر اور گگلی باز چھتوں پر گم سم لیٹے آسمان میں منڈلاتی چیلوں کو تاکتے تھے،بھیتر کہیں اُمڈتی مسجد کی اذان سنتے تھے اور نیچے بجبجاتے پانی سے بتیاتے رہتے تھے۔

خبر آئی کی سیلاب زدہ میں پمپ لگائے جا رہے ہیں،جن کا پانی بھی اِدھر ہی پھینکا جائے گا۔ایک دن ہوا کے تھپیڑوں سے پگلائے پانی نے یاسین سے پوچھا،”تمھارے اللہ میاں کہاں ہیں؟کیا اب بھی۔۔۔۔؟“  یاسین نے کڑھ کر سوچا،اب یہاں کا بدبو دار پانی نکالنے کے لیے بھی کیا اللہ میاں کو ہی آنا ہوگا۔

ملاحوں کے ناؤ دینے سے منع کردینے کے بعد بستی کے جیسے ہاتھ پاؤں ہی کٹ گئے تھے۔ایسے میں پتا نہیں کہاں سے پیسے اکٹھا کرکے یاسین اور اس کے نکمے دوست ایک پرانی ناؤ خرید لائے۔ٹیم کام پر لگ گئی۔لڑکوں نے پرانی ناؤ کا رنگ روغن کیا،زری کے ایک ٹکڑے پر ایم سی سی لکھ کر ڈنڈے سے ٹانگ دیا۔اس طرح اس گمنام ٹیم کا نام مومن پورہ اسپورٹنگ کلب پڑ گیا اور دو چپوؤں سے بستی کی زندگی سیور کے پانی میں چلنے لگی۔پھر ٹیم مدد مانگنے باہر نکلی۔

پہلے وہ ان نیتاؤں،سماج سیویوں اور اخبار والوں کے پاس گئے جو دو برس پہلے دنگے کے دوران بستی میں آئے تھے اور انھوں نے ان کے بزرگوں کو پرسہ دیا تھا۔وہ سبھی گردن ہلاتے رہے لیکن جھانکنے نہیں آئے۔پھر وہ سبھی پارٹیوں کی نیتا جیوں،افسروں، حاکموں،این جی اوز کی بھائی جیوں اور میڈیا کی بھائی لوگوں کے پاس گئے۔

ہر جگہ ٹیم کے گیارہ منھ ایک ساتھ کھلتے،”جناب! خدا کے واسطے بس ایک بار چل کر دیکھ لیجیے ہم لوگ کس حال میں جی رہے ہیں۔پانی ایسے ہی بڑھتا رہا تو سارے لوگ مر جائیں گے۔“

کسی نے سیدھے منھ بات نہیں کی۔یہ معلوم ہوتے ہی کہ مومن پورہ والے ہیں،انھیں باہر سے ہی ٹرخا دیا جاتا تھا۔وہ گو موت میں لتھڑے مہاماری تھے جن سے ہر کوئی بچنا چاہتا تھا۔فلاں کے پاس جاؤ،پہلے کاغذ لاؤ،دیکھتے ہیں۔۔۔دیکھ رہے ہیں۔۔۔دیکھیں گے۔۔۔ایسا کرتے ہیں،ویسا کرتے ہیں۔۔۔سنتے سنتے وہ بیزار ہو گئے۔

دیر رات گئے جب وہ اپنی سائیکلیں ناؤ پر لا د کر گھروں کی طرف لوٹتے،اندھیری چھتوں سے آوازیں آتیں،’کیا یاسین میاں وہ لوگ کب آئیں گے؟“

اندھیرے میں لڑکے ایک دوسرے کو بے بسی سے تاکتے رہتے اور ناؤ چپ چاپ آگے بڑھتی رہتی۔ٹیم کے لڑکے دوڑتے رہے اور بستی پوچھتی رہی۔ایک رات باڑھ کے پانی نے گھر لوٹتے لڑکوں سے کہا،”بیٹا،اب وہ لوگ نہیں آئیں گے۔“

”کاہے؟“یاسین نے پوچھا۔

تجربے کی بات ہے،اُس دنیا کے لوگ یہاں صرف دو وقت آتے ہیں، دنگے میں یا الیکشن میں۔غلط فہمی میں نہ رہنا کہ وہ یہاں آ کر تمھارے بدن سے گو موت پونچھ کرتم لوگوں کو دولہا بنا دیں گے۔

اگلے ہی دن یاسین نے دانت بھینچ کر ہر رات،سیکڑوں آوازوں میں پوچھے جانے والے اس ایک ہی سوال کا جواب ناؤ پر سفید پینٹ سے لکھ دیا۔۔۔”دنگے میں آئیں گے۔“  تاکہ ہر بار جواب نہ دینا پڑے۔

کالا پانی کب سے لوگوں سے یہی بات کہہ رہا تھا لیکن وہ نہ جانے کس سے اور کیوں مدد کی امید لگائے ہوئے تھے۔بھور کی پربھات پھیری میں پاکستانیوں کو عید کی مبارک باد ینے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔گھنٹے گھڑیال اور شنکھ کی آوازیں قاعدے قانون کے ساتھ ہر صبح اور فلک شگاف ہوتی جا رہی تھیں۔

چھ بچوں کو دفنانے کے بعد ایم سی سی کے لڑکوں نے گھر جانا بند کر دیا تھا۔تین چار لوگ ناؤ پر رہتے تھے،باقی ایک اونچے مکان پر چوکیداری کرتے تھے۔دو مہینے سے پانی میں ڈوبے رہنے کے بعد اب مکان آئے دن گر رہے تھے۔رات میں گرنے والے مکانوں میں پھنسے لوگوں کی جان بچانے کے لیے یہ انتظام سوچا گیا تھا۔

دن گزرنے کے ساتھ بد بودار ہوا کے جھونکوں سے ناؤ جھیل میں ڈولتی رہی،تین طرف سے بستی کو گھیرے کالونیوں کی روشنیاں کالے پانی پر ناچتی رہیں،ہر رات بڑھتے پانی کے ساتھ بادلوں سے جھانکتے تاروں سمیت آسمان اور قریب آتا رہا۔ساون گزرا،بھادوں کی پھوار میں بھیگتے شہر سے گھرے دَنڈ دیپ(٭وہ جزیرہ جس پر سزا یافتہ لوگوں کو بھیجا جاتا ہو۔)پر اکیلی ناؤ میں رہتے کافی دن بیت گئے اور تب لڑکوں کے آگے راز کھلنے لگے۔

پانی،ہوا،گھنٹے گھڑیال،مر کر تیرتے جانور،گرتے مکان،روشنیوں کا ناچ،ستاروں اور چیونٹیوں کے جھنڈ سبھی کچھ نہ کچھ کہہ رہے تھے۔ایک رات جب پوری ٹیم بادلوں بھرے آسمان میں آنکھیں گڑائے پربھات پھیری کا انتظار کر رہی تھی،پانی بہت دھیمے سے بدبدایا،”دنگا تو ہو ہی رہا ہے۔“

”کہاں ہو رہا ہے بے؟“ یاسین کے ساتھ پوری ٹیم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔

رندھی ہوئی مدھم آواز میں پانی نے کہا،”یہ دنگا نہیں تو اور کیا ہے۔سرکار نے افسروں کو ادھر آنے سے منع کر دیا ہے۔ڈاکٹروں نے علاج سے منھ پھیر لیا ہے۔جو پمپ یہاں لگنے چاہئیں، انھیں ندی میں لگا کر پانی اِدھر پھینکا جا رہا ہے۔کرگھے سڑ چکے،گھر ڈھہہ رہے ہیں،بچے چوہوں کی طرح ڈوب کر مر رہے ہیں۔سب کو اسی طرح بنا ایک بھی گولی چھرا چلائے مار ڈالا جائے گا۔جو بے گھر بے روزگار بچیں گے،وہ بیمار ہو کر لا علاج مریں گے۔

ناؤ کی پیٹھ پر سر پٹختے ہوئے پانی رو رہا تھا۔

ٹیم میں سب سے چھوٹے گگلی باز مراد نے سہم کر پوچھا،”یاسین بھائی ہم سب کو کیوں مار ڈالا جائے گا۔“

”کیونکہ ہم لوگ مسلمان ہیں بے۔اتنا بھی نہیں جانتے۔“یاسین تمتما گیا۔

”ہم لوگ جن کے پاس گئے تھے،کیا وہ لوگ بھی ہمیں بچانے نہیں آئیں گے؟“

”آئیں گے،آئیں گے۔ جب آمنے سامنے والا دنگا ہوگا تب آئیں گے۔

اس رات کے بعد پانی سے ٹیم کی ایک ساتھ کوئی بات نہیں ہوئی۔سب الگ الگ لہروں کو گھورتے اور بتیاتے رہے۔

اگلے جمعے کو ایم سی سی کی ٹیم کے سبھی گیارہ کھلاڑیوں نے فجر کی نماز کے وقت ناؤ میں سجدہ کرکے ایک ہی دعا مانگی،”دنگا بھیجیو میرے مولا،ورنہ ہم سب اس جہنم میں سڑ کر مر جائیں گے۔گو موت میں لتھڑ کر مرنے کی ذلت سے بہتر ہے کہ خون میں ڈوب کر مریں۔“

دو دن بعد مومن پورہ میں بھرتے پانی کے دباؤ سے ہائی وے کی پلیا ٹوٹ گئی۔کالی جھیل،کئی جگہوں سے سڑک توڑ کر ابل ابل کر پاس کے محلوں اور گاوؤں کے کھیتوں میں بہہ چلی۔گھنٹے گھڑیال شنکھوں کا مجموعی شور برداشت سے باہر ہو گیا۔

پربھات پھیری کرنے والوں کی قیادت میں شہر اور گاوؤں سے نکلے جتھے مومن پورہ پر چڑھ دوڑے۔سیور کے بجبجاتے پانی میں ہندو اور مسلمان گتھم گتھا ہو گئے۔اللہ نے مایوس لڑکوں کی دعا قبول کر لی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *