امِت تیواری کی نظمیں

ایک تھوڑا ایماندار دن

 

ایک تھوڑا ایماندار دن بتانے کی خواہش میں

پڑوسی کے نمسکار پر سر جھکا لیا

بازار گیا اور ایک بڑے سیٹھ کو للکارا

سہولیت یافتہ شہروں کی سست رفتاری پر

تیکھی رائے زنی کی

واچ مین کا حال چال لیا

اور بہت دیر تک ہنستا رہا

اپنی اس اوچھی حساسیت پر

بڑے جوش سے ایک بحث طلب موضوع پر کہانی پڑھی

اور چٹھی لکھ کر مصنف کو بے وقوف کہا

محبوبہ سے بحث کی اور چھپ کر رویا

ایک بے حد میٹھے، کھوکھلے وعدے کی یاد میں شرمندہ ہوا

اور انت میں گاؤں والوں کے کائیاں پن پر لکھی ایک نظم

٠٠٠

 

جوکھم

 

‘ایک دیش کو بچائے رکھتی ہے’۔۔۔جیسی باتیں

مطلب کھوچکی ہیں

چاروں جانب لوگ گھوم رہے ہیں

اور پوچھ رہے ہیں کہ کس طرف ہو

ایسے سوالوں پر آدمی گھر کی طرف

دیکھنا چاہ رہا ہے

وہ جوابوں سے بچنا چاہ رہا ہے

سوالوں سے تو پہلے ہی پیچھا چھڑا چکا ہے

ایکتا کی پُکار سے لبریز اس عہد میں

اس کے فکر مند ہونے کی بات

اس کو اقلیت میں لا کھڑا کرے گی

وہ ایکتا کے بیچ

اپنی  انفرادیت بچانا چاہ رہا ہے

جبکہ یہ ایک بہت جوکھم بھرا کام ہے

٠٠٠

 

اس اس طرح تم تک پہنچا

 

یہ محض کوئی لمحہ بھر کا ‘کن’نہیں

یا کسی سم سم کا طلسم

یہ سب پورے منصوبے کے ساتھ ہوا

میں ایک عطر کی تلاش میں تھا

جس کو بنانے والا قنوج سے بھاگ کر

جوتیاں بنانے لگا تھا آگرہ میں

سڑک پار سے اڑ کر آتی ہوئی دھول  سے چڑتا ہوا میں

ہوتے ہوتے رہ گئی ایک بارش کا دکھ لے کر نکلا تھا

اور ایک لمبی چیتی ٭سننے کی لالچ میں گرفتار تھا

اس اس طرح تم تک پہنچا میں

ایک بہت اداس نظم کی تلاش میں

٠٠٠

 

٭چیتی: چیت کے مہینے میں گایا جانے والا ایک لوک گیت

 

میری نظمیں

 

میں گائی جانے والی نظمیں نہیں لکھ سکا

سب سنگیت پیچھے چھوٹ چکا تھا

پیڑوں کے کھوکھلے تنے، کھنکھناتی ہوئی پتیاں چھوٹ چکی تھیں

جانور چھوٹ گئے تھے اور ڈر نہیں چھوٹ رہا تھا

چھوٹی گھنٹیاں سائرن کی طرح سنائی دے رہی تھیں

جل تھل تو نہیں اور نہ کوئی کل کل ہی تھی

ہوا اٹھتی تھی اور پانی سے با ادب مل کر نکل جاتی تھی

لہر کا اٹھنا اب ایک بدتمیزی تھا

جھومنے کے لیے آس پاس کندھے اور گلے بھی نہیں تھے

میں نے ایسی نظمیں لکھیں جو چاقو کی طرح دھیان سے چھوئی جاسکیں

ان کی ضرب سے اداس ہواجاسکے

پھر ان کو موڑ کر جیب میں رکھ لیا جائے

اور تشنہ خواہشوں کے شور شرابے کے درمیان

نظام الدین کے آس پاس گونجتی شہنائی کو یاد کیا جاسکے

٠٠٠

 

بھیگنا

 

بارش آتی ہے تو

بارش کے آنے سے پہلے

آجاتا ہے بھیگنا

بھیگنے میں سوکھنا کہیں نہیں بچتا ہے

دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب بھیگتا ہے

جو بچ کر کہیں چھپ جاتے ہیں

وہ بھی بھیگتے ہیں

بے فکر ہوکر بھیگ پانے کی خواہش سے

اسی طرح  جب سے تمہارے ہونٹ ہیں نظروں میں

چومنا بھی بنارہتا ہے میرے ارد گرد

نہ چومنے کے سمے میں بھی

میری جلد پر برستی ہے

تمہارے ہونٹوں کی خواہش

ایسی بارش میں میرا جسم ہوتا ہے

ایک نیا درخت

جو جھومتا ہے جھکولوں سے

بھیگنا تو اصل ہے

اور ابد تک رہتا ہے

٠٠٠

 

غزہ کے جوتے

 

بھاگتے، اجڑتے غزہ میں

بکھرے پڑے ہیں جوتے

بے لگام ہوس سے بے خبر نوجوانوں کے جوتے

پھولوں اورنظموں سے محروم لڑکیوں کے جوتے

آدمیوں، عورتوں، بچوں کے جوتے

بوڑھوں، نرسوں، درزیوں  اور باغیوں کے جوتے

جو بڑے ارمان سے، منصوبہ بنا کر

ایک لمبے  دور کی سرمایہ کاری کی  مانند خریدے گئے وہ جوتے

غزہ میں اب یتیم پڑے ہیں

اور اس پوری دنیا میں کہیں نہیں ہیں

ایسے پاؤں

جو ان میں بالکل ٹھیک ٹھیک سما سکیں

٠٠٠

 

دوست کو خط

 

بہت  وحشت آمیز دور ہے میرے دوست

کچھ کتابیں پڑھنا

اور ایشور کو یاد کرنا

ویسے نہیں جیسے سرکاریں اور ان کے ہرکارے کررہے ہیں

ایک محلے کے دادا کی طرح نہیں

ایک دوست کی طرح

 

کچھ سینما دیکھنا

اور رُلائیوں کو یاد کرنا

کیمرہ پاکر پھوٹنے والی نہیں

وہ جو کیمرہ دیکھ کر سٹپٹا کر خاموش ہوجاتی ہیں

اور پروڈکٹ اورسیلز مین کے درمیان پھیلے

بازار کے جل ترنگ کو بیزاری کے انداز میں دیکھتی رہتی ہیں

 

چہروں کو کنارے سے ذرا سا کھرچنا

اور پہچان کر واپس چپکادینا

 

کچھ اچھا سنگیت سننا

اور ان میں بہتے یوٹوپیا پر سوکھی ہنسی ہنسنا

تھوڑی تھوڑی باتیں کرنا

ڈرنا بہت بہت لیکن ظاہر کم کم کرنا

 

سیکھنا اس دسمبر میں بچ گئے لوگوں سے

اور اس جنوری ویسے ہی بچے رہنا

 

خوب فحش لطیفے سوچنا

اور مجھے سنانا

تم فروری میں مجھ سے ملنا

٠٠٠

 

امت تیواری سوفٹ ویئر انجینئر ہیں۔فی الحال دہلی سے نزدیک نوئیڈا میں مقیم ہیں۔وہ ہندی میں اپنی کویتاؤں کے علاوہ خطوط اور نظموں کے ترجموں کی بنیاد پر بھی اپنی ایک پہچان بنا چکے ہیں۔ ابھی تک ان کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے، مگر ہندی کے بہترین رسائل جیسے سدانیرا، سمالوچن، یُوا وانی اور کرتی بہومت میں ان کی نظمیں شائع ہوچکی ہیں اور بہت سے اہم اور سنجیدہ کوی سمیلنوں میں شرکت بھی کرتے رہے ہیں۔اردو میں ان کی نظموں کے ترجمے کا یہ اولین موقع ہے۔

امِت تیواری کی یہ نظمیں اس وقت دیش اور دنیا میں  دولت  کی مچی ہوئی ہوڑ اور اس ہوڑ کی نذر ہوتی انسانی جانوں کے المیے کو بڑی اچھی طرح بیان کرتی ہیں۔وہ پوری ہمت اور دلیری کے ساتھ ان موضوعات سے آنکھیں چار کرتے ہیں اور بڑی فنکاری سے انہیں نظم میں پرودیتے ہیں۔آج کی افراتفری اور ہاہاکار سے بھرے  ہوئے اس دور میں کس طرح جیا جائے اور ایک حساس ذہن کا ان ساری اوچھی حرکتوں پر کیا ردعمل ہونا چاہیے، یہ باتیں ان نظموں کا خاص حصہ ہیں۔ریاکاری کے اس دور میں ایک ایماندارنہ دن کو لکھتے ہوئے ان کا قلم سفاک سچائیوں کی تصویر بھی اتارتا ہے اور غزہ میں  جانیں گنوارہے لوگوں  کے دکھ اور ان کے الگ تھلگ کردیے گئے وجود کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔امِت اس دور میں، جبکہ ہر کوئی سٹیج پر دوڑتے ہوئے روشنی کے ہالے میں آنے کے لیے بے تاب ہے، خود کو روپوش کر لینے کا جو فن جانتے ہیں، وہ ان نظموں میں پوری شدت سے کھنکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔یہ نظمیں ایمانداری  اور فنکاری کا ملا جلا استعارہ ہیں۔شکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *