شہر لاہور کی کہانیاں

اردو کے ادبی منظر نامے پر اظہر حسین کی شناخت کے کئی حوالے ہیں؛ وہ ادب کے پر شوق قاری ہیں، ایک بے لاگ اور تند و تیز ادبی مبصر ہیں، پاکستان اور ہندوستان سے شائع ہونے والے دو کتابی سلسلوں “لاہور” اور “کسوٹی” کے مدیر ہیں اور شاعر ہیں۔ شاعری البتہ ان کا ابتدائی ادبی حوالہ تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے وہ خود کو ایک اچھے فکشن نگار کے طور پر منوانے میں بھی نہ صرف کامیاب ہوے ہیں بلکہ اس وقت یہی ان کا سب سے نمایاں حوالہ ہے۔ میں اس مضمون میں حال ہی میں شائع ہونے والے ان کی کہانیوں کے مجموعے ‘دنیا رنگ بازی پر قائم ہے’ سے متعلق کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

 

اجمل کمال کے ادارے سٹی پریس بک شاپ سے چھپنے والا یہ مجموعہ کل سات کہانیوں پر مشتمل ہے جن میں سے بیشتر کہانیاں اس سے پہلے کتابی سلسلے ‘آج’ کے شماروں میں شائع ہو چکی ہیں۔

 

مجموعے کی پہلی کہانی ‘مشن ڈم ڈم’ ایک مہم جوئی کی کہانی ہے۔ مہم جو کسی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے تین دوست ہیں جو کہ لڑکپن کی عمر سے گذر رہے ہیں۔ کہانی کا مقام یا ان کا علاقہ باقی کہانیوں کی طرح شہر کے پوش علاقے سے پرے آباد ایک پسماندہ اور ناخواندہ محلہ ہے۔ یہ دوست اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق محلے کے کرداروں کو دیکھتے ہیں اور اپنی مہمات سے اپنے تئیں منفی کرداروں اور محلے کی غلط کاریوں کی اصلاح کرتے ہیں۔ دوستوں میں ایک، جو باقی دو سے عمر میں کچھ سال بڑا ہے، کہانی میں ایک جگہ برملا کہتا ہے: “اگر یہ اور آئندہ طے کیے گئے دو تین مشن کامیابی سے مکمل ہو گئے تو صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ ہماری پوری برادری کے مسئلے حل ہو جائیں گے۔” ایک نہایت دلچسپ قصے کے پیرائے میں کہانی پچھڑی ذاتوں سے برتی جانے والی نفرت اور ناانصافی کے ردعمل میں ان ذاتوں کی طرف سے غم و غصے کے اظہار کا ایک بیان ہے۔

 

‘اگڑم بگڑم’ کا مرکزی کردار ٹیڈی کا ابا ہے۔ ٹیڈی کا ابا گردا پیتا اور بیچتا ہے ، پرائز بانڈ کی غیر قانونی اسکیموں میں حصہ لیتا ہے ، گلی محلے کے اکثر و بیشتر لوگوں سے ادھار لے کے کھاتا ہے اور اسی وجہ سے کہیں پہنچنے کے لیے مرکزی رستے کے بجائے ٹیڑھے رستوں کا انتخاب کرتا ہے۔ ٹیڈی کا خیال ہے کہ اس کے ابے کا دل بڑا پکا ہے اور اسے اپنے سوا کسی سے پیار نہیں ۔ ‘اگڑم بگڑم’ کی کہانی میں باپ بیٹا صبح سویرے گھر سے نکل کر پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی میں شامل ہونے کے لیے اڈے کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ ابے کے خیال میں آج اسکا ‘لکی ڈے’ ہے؛ اس لیے آج اس کا بانڈ ہر صورت لگے گا۔ یہی امید اسے اڈے پر پہنچنے سے پہلے مختلف مظاہر میں ہر سو دکھائی دیتی رہتی ہے۔ صبح بالکونی میں کبوتروں کی غٹرغوں اور اڈے پہ جاتے ہوے ایک دوست منشی ٹوکے والے کا خندہ پیشانی سے ملنے کو ابا قرعہ اندازی کے لیے نیک شگون خیال کرتا ہے۔ لیکن کہانی کے آخر میں “لکی ڈے” سے متعلق اس کی امیدیں دم توڑ دیتی ہیں۔

 

‘اگڑم بگڑم’ کو پڑھتے ہوے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یہ کسی بڑی کہانی (یا ناولٹ) کا ایک حصہ ہے۔ ٹیڈی کی ماں ، ٹیڈی کے باپ کا دوست چچا باطل اور اڈے کا مالک آپھی پہلوان ایسے کردار ہیں جن کے متعلق مزید جاننے کی خواہش ہوتی ہے۔ اڈے پر جاتے ہوے رستے میں جیتو کبوتری کا مختصر قصہ ( ؛ اگرچہ اس سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ٹیڈی کے باپ بانڈز کے دھندے سے پہلے کبوتر پالنے کا شغل بھی اختیار کر چکا ہے) ، فضا سازی میں رچاؤ پیدا کرتا ہے۔

 

‘فیصلہ’ دو ایسے بہن بھائیوں کی کہانی ہے جن کا بچپن گھر کے کشیدہ ماحول کی وجہ سے غارت ہو رہا ہے۔ گھر میں غیر معمولی حالات پیدا ہو جائیں تو بچے بعض اوقات اپنی عمر سے پہلے بڑے ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسا تب ہوتا ہے جب بچوں کا سکول چھوٹ جائے اور انھیں گھر کا خرچ چلانے کے لیے کچی عمر میں کام پہ لگنا پڑ ے۔ یا تب جب بچے اپنے گھر کے بجائے کسی قریبی رشتے دار کے گھر پل کر بڑے ہوں اور گارڈین کے رویے کے اس فرق کو محسوس کریں جو وہ اپنے سگے بچوں اور ان پلنے والے بچوں میں روا رکھتا رہتا ہے۔

 

‘فیصلہ’ میں ماں باپ گھریلو کشیدگی کی وجہ سے الگ ہو چکے ہیں۔ سکول سے چھٹی کے وقت بڑا بھائی اپنی سائیکل پر سکول کے باہر موجود ہے۔ اس نے بہن کو سکول سے گھر پہنچانے والے رکشے والے کو چلتا کیا ہے کیونکہ وہ آج خود سے چند سال چھوٹی بہن، جسے ننھی کہہ کر مخاطب کرتا ہے ، سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہے۔ بھائی بہن کو بتاتا ہے کہ کچھ دن بعد نانی اور باقی سب بڑے لوگ مل کر بیٹھیں گے اور اسکا فیصلہ ہو گا کہ بچے ماما کے پاس رہیں گے یا پاپا کے پاس۔ بھائی چونکہ ماما کے پاس رہ رہا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ ننھی بھی ماما کے پاس رہے۔ لیکن ننھی ماں کے سخت رویے سے خائف ہے۔ وہ ماں کے گھر رہنا تو درکنار اس ٹھیلے والے سے گولہ تک نہیں کھانا چاہتی جو ماں کے گھر کے قریب موجود ہے۔ کہانی بتاتی ہے کہ ایک کنبے کا ٹوٹنا بچوں کے لئے کس قدر تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ بچے ماں باپ کے سخت رویے سے جذباتی طور پر کس قدر متاثر ہوتے ہیں۔ اور ضد اور انا کی بنیاد پر لئے گئے یکطرفہ فیصلے کس طرح ان کے اپنے ہی بچوں کا بچپن غارت کر دیتے ہیں۔ کہانی کی بنت شاندار ہے۔ بہن بھائی کی ملاقات اپنی جزئیات نگاری میں معصومیت سے بھری پڑی ہے۔ لازم ہے کہ ایسی شاندار کہانی کو انگریزی ، پنجابی ، ہندی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کر کے ایک بڑی ریڈرشپ تک پہنچایا جائے۔

‘کانا منافق’ ضیاع دور کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ ایک ایسے غریب مولوی گھرانے کی ہڈ بیتی جو بوجوہ حکومت مخالف ہے۔ مولوی اور اسکے کم سن بیٹے ، دونوں کا اپنے پڑوس میں ایک ایک ضیاع نما سے واسطہ ہے ؛ اپنی ہی برادری کے ایک مولوی اور اسکے بیٹے سے جو ان کے خیال میں جھوٹے اور منافق ہیں اور جن سے کسی کا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کہانی خاص طور سے بچپن کی یادوں کی کانٹ چھانٹ سے بنائی گئی معلوم ہوتی ہے۔ کہانی کا کردار جو سب سے زیادہ پڑھنے والے کو متوجہ کرتا ہے وہ غریب مولوی کی بیوی اور راوی کی بدقسمت ماں کا ہے ؛ اسکا کڑھنا سڑنا ، سر باندھنا اور مرے ہوئے بھائی کو یاد کر کے حال دہائی مچانا ۔۔۔ پھر راوی کی اپنے حریف حنیفے کیساتھ چشمک ، حنیفے کی شیطانیت بھری چالیں ، ایک آنکھ بند کر کے کنچے کا نشانہ باندھنا اور ہارنے والے کے حال پہ ہنسنا ۔۔۔ یہ سب رویے کہانی میں حقیقت کا رنگ بھر دیتے ہیں ۔ یہ کہانی خاص طور سے اپنے قصے سے زیادہ اپنی بنت کی وجہ سے متوجہ کرتی ہے۔

کتاب کی ٹائٹل کہانی ‘دنیا رنگ بازی پر قائم ہے’ فتح گڑھ اور فتح گڑھیوں کی کہانی ہے۔ فتح گڑھ مغلپورہ رام گڑھ سے مشرق کی سمت چند کلومیٹر کی مسافت پہ آباد ایک قدیم آبادی ہے۔ یہی علاقہ مصنف کی جم پل ہے۔ فتح گڑھ کی اکثریتی آبادی اوسط تعلیم و تربیت رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ ایسے لوگ زیادہ ہیں جن کا بیشتر علم سنی سنائی اور سینہ گزٹ باتوں پہ مشتمل ہے، جن کے ہاں توہمات اور قیاس آرائی پر کثرت سے یقین کیا جاتا ہے۔ یہاں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے کسی حقیقی چودھراہٹ کے حصول کی قطعا کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس تھوڑی رنگ بازی درکار ہے۔ لوگوں کی اوسط ذہانت سے بڑھ کر کوئی بات کہہ دو اور مطلب سمجھانے کے بجائے اسے بھید میں ڈال دو۔ جیسا کہ اس کہانی کا ایک کردار مانا کہتا ہے: “کالا چٹا سب اوکے۔”

 

کہانیوں کا لوکیل فتح گڑھ اور اس سے ملحقہ شمالی لاہور کے دیگر علاقے (مغلپورہ ، رام گڑھ ، سنگھ پورہ ، باغبانپورہ بھوگیوال ، گڑھی شاہو وغیرہ) ہیں۔ یہی مقام اور یہاں کے مخصوص کردار کہانیوں کی مخصوص زبان کو متشکل کر رہے ہیں اور اسی علاقے کے بیشتر کرداروں کے رویوں سے ‘رنگ بازی’ کا عنوان اخذ کیا گیا ہے. مجموعے میں شامل قریب قریب سبھی کہانیوں کے کردار بچپن اور لڑکپن کی عمر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کم سن کرداروں کے خلاقانہ برتاؤ نے کہانیوں میں حقیقت پسندی اور معصومیت کے رنگ بھر دیے ہیں۔ ذیل میں ٹائٹل کہانی ‘دنیا رنگ بازی پر قائم ہے’ سے ایک ذرا طویل اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ فکشن کے پیرائے میں ‘لہوریوں’ کی اس سے زیادہ vivid description بہت کم دیکھنے کو ملے گی:

“ایک موہنی صبح کو مشہور کبوتر باز استاد اکی بھین یا لاہور شہر کے محلے محلے سے آئے ہوئے پورے پانچ درجن کبوتر بازوں کے گھیرے میں کھڑا تھا۔ سب کی نظریں اکی کے پیچھے کھڑے اعلی نسلی کبوتروں سے بھرے جال پر ٹکی ہوئی تھیں۔ صبح سویرے کا وقت تھا۔ اکی اپنی تین بار چیمپین بننے والی جوسریوں کا شوق کرانے والا تھا۔ ان جوسری کبوتریوں کو لوگوں نے اب تک صرف پروازی حالتوں میں دیکھا تھا۔ سب کو آس تھی کہ جیتو کبوتریوں کو استاد اکی کے ہاتھوں میں دیکھیں۔ استاد کے دکھانے اور سادہ دیکھنے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ استاد جال سے دانا پکڑتے ہی اس کی ساری رمزوں کو محسوس کر کے بیان کر سکتا تھا۔ جلد ہی استاد اکی جال میں سے ایک پیور مادی نکال کر شوق کرا رہا تھا۔ شوق کراتے ہوئے وہ مانے کا ذکر اس انداز سے کر رہا تھا جیسے وہ اس پر صدقے واری جا رہا ہو :

“ہاں یہ دیکھو بھئی. دیکھتے ہی ماشاءاللہ ضرور کہنا ، چاہے دل ہی میں کہہ لینا۔ رب نظر بد سے بچائے میری بختو کو۔ سب سے پہلے تو اس کی جسامت دیکھو؛ نہ بھاری ہے نہ پنجری۔ درمیانی ہے ، بالکل درمیانی۔ جسے متوازن کہتے ہیں۔ یہاں میری جند جان رحمانا موجود ہے۔ وہ میری بات سے اتفاق کرے گا کہ جوسری کا وزن اتنا پورا پورا ہے کہ یہ بڑے سے بڑے کبوتر پرور کے لیے بھی مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ جتنی بہتر پرواز برابر وزن والا پرندہ کر سکتا ہے ، موٹا یا جہازی پرندہ نہیں کر سکتا۔ اور یہ توازن پرندے کے وزن سے لے کر اس کے پروں پنجوں دم اور خوراک میں بھی ہونا چاہیے۔ جوسری میں ایسا ہی توازن ہے۔ یار ، تھوڑا سا پیچھے ہٹ جاؤ ، تم سب تو میرے اوپر ہی چڑھ آئے ہو۔ بڑے چھوٹے کا بھی تو خیال رکھو ناں۔ ہاں اب ٹھیک ہے۔ تو میں بات کر رہا تھا توازن کی۔ اب جوسری کے ان پنجوں ہی کو دیکھ لو۔ ہیں ناں ہمارے وزیروں کے مزاجوں کی طرح خشک ؟ کہیں بھی اوپر نیچے تری یا نرمی نہیں نظر اتی۔ پنجوں کی انگلیاں دیکھو۔ آشا پوسلے کی انگلیوں جیسی ہیں؛ نہ زیادہ موٹی نہ بہت پتلی۔ ناخنوں کا رنگ بھی ایک سا ہے۔ درمیانی انگلی سولہ دھاری ہے۔ سولہ دھاری کا مطلب جانتے ہو؟ کوئی خلیفوں کا خلیفہ ہی بتا سکتا ہے کہ پنجے کی درمیانی انگلی پر سولہ دھاریوں کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ ایک قسم کی یہ گیدڑ سنگھی ہے جو ہر چھوٹے بڑے کے کان میں نہیں بتائی جا سکتی۔ مگر اج جی خوش ہے ، اج کوئی گیدڑ سنگھی چھپائی نہیں جائے گی۔ یوں بھی رحمانے سے کیا چھپا ہے۔ مانا ہنس رہا ہے کہ اکی بھین یا بجھارتیں ڈال رہا ہے۔ ایسا نہیں، یار مانے۔ آج کل کے بچے سونے جیسی بات کو کھوہ میں پھینک دیتے ہیں۔ کچھ باتیں تیس تیس سال لگا کر کھٹی وٹی ہوتی ہیں۔ انہیں ضائع ہوتے دیکھ کر دل بیمار کبوتری کی طرح اؤں اؤں کرنے لگتا ہے۔ لیکن اج کا دن ایسا نہیں کہ اپنے یاروں اور نئے لڑکوں سے چھپن چھپائی کھیلی جائے۔ لو پھر سنو۔ درمیانی انگلی پر کم سے کم پندرہ دھاریاں ہوں تو پٹھا یا پٹھی پرواز کے لیے اہل قرار پاتی ہے۔ اسے قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ پندرہ سے کم ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ کچھ کمی ہے ۔ پرندے میں اور پروازی پرندے میں چھوٹی سے چھوٹی کمی کا مطلب جیت سے ایک قدم پیچھے کھسکنا ہے۔ ہزاروں پرندوں میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے کہ اس کی بیچ والی انگلی کی دھاریاں پوری سولہ ہوں۔ جوسری ان ہزاروں میں سے ایک ہے۔ پوری سولہ دھاری۔ سب مالک کی عطا ہے۔ جند جان مانے کی دعا ہے”

 

اظہر حسین کی یہ کہانیاں نہ صرف یہ کہ شہر لاہور اور اسکے کرداروں کو دلچسپ قصوں کے پیرائے میں بیان کرتی ہیں بلکہ یہ اپنے اسلوب ، زبان اور کردار نگاری کے لحاظ سے شائع ہونے والی دیگر معاصر کہانیوں سے اپنا امتیاز بھی قائم رکھے ہوے ہیں۔ جس کی وجہ سے سنجیدہ ادب کے قارئین نہ صرف انہیں پڑھیں گے بلکہ ایک عرصے تک یاد رکھیں گے۔

٠٠٠

 

طاہر رسول لاہور، پاکستان سے تعلق رکھنے والے ادب کے پرشوق قاری ہیں۔ فکشن کا مطالعہ اور تبصرہ نگاری ان کا خاص میدان ہے۔ فلم اور ادب سے متعلق ان کی تحریریں ‘ہم سب’ اور ‘لاہور’ میں شائع ہو چکی ہیں۔طاہر رسول کا یہ مضمون دراصل حال میں ہی اظہر حسین کے شائع ہونے والے افسانوی مجموعے ‘دنیا رنگ بازی پر قائم ہے’ پر ایک تبصرہ ہے۔ اسے تبصرے سے زیادہ مصنف اور کتاب کے  ایک تعارف کے طور پر پڑھا جانا چاہیے ۔کتابوں پر ایسی باتیں ایک طرف تخلیقی کاموں کی خبر دیتی رہتی ہیں تو دوسری طرف ان پر مزید گفتگو اور تنقید کی راہیں بھی استوار کرتی ہیں۔امید ہے  کہ اس تحریر کے ذریعے بھی دوست اظہر حسین کی کہانیوں  کے ساتھ ساتھ اس تبصرے پربھی  اپنی رائے پیش کریں گے۔شکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *