جوشنا بنرجی کی نظمیں

پریمی کی موت کا دن

 

کلاس کی ایک سہیلی نے گھر آکر کان میں بتایا کہ ایک حادثے میں پریمی کی موت ہوگئی ہے

وہ اتوار کا دن تھا، چھوٹا بھائی اور میں میگی کھارہے تھے، ابھی کانٹے میں میگی پھنسائی ہی تھی ، واپس پلیٹ میں چھوڑ دی

چھوٹا بھائی منہ پھاڑ کر حیرت سے مجھے دیکھنے لگا

اسے یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی کہ میں نے میگی کیسے چھوڑ دی

ماں نے زندگی میں پہلی بار پیچھے کیاری میں پَروَل اُگائے تھے، مجھ سے پوچھ رہی تھی دیکھنے میں کیسے لگ رہے ہیں؟

پِتا اس دن گھر کے جالے صاف کررہے تھے، ایک موٹی مکڑی پِتا کا بدلہ لینے کے لیے جیسے میرے کان میں گھس کر میرے دماغ میں پہنچ گئی ہو

اس کا رومال اور معاشیات کی کاپی تو میرے بیگ میں ہی رکھی تھی

سنسار کے سبھی ماہرین معاشیات کتنے منحوس ہوئے ہیں

ابھی یہ کیا ہوا اچانک۔۔۔

 

مجھے جیسے کائنات کے کسی کشش ثقل سے عاری سیارے پر پھینک دیا گیا ہو

کل یعنی سنیچر کو ہی تو اس نے صدام حسین کی تصویر بناکر دکھائی تھی

سزا کے طور پر دونوں کو ساتھ ہی کھڑا کیا گیا تھا

سزا میں کھڑے ہوکر بھی تصویر بناتے بناتے پوچھا تھا اس نے، ‘وِل یو میری می؟’

 

اب اس کی پینسل  چھوٹی ہوگئی ہے،

آنے والے ڈرائنگ کومپٹیشن میں اب کوئی دوسرا طالب علم اول آئے گا

پریمی کی موت رشتے داروں کی موتوں سے بالکل مختلف تھی

اس دن چاند زمین کے اور زمین سورج کے گرد بہت تیزی سے گھوم رہی تھی

برگیل، مدھومکھی، مہوکھ ، اس روز کوئی نہ دکھا

 

سہیلی کے ساتھ گھر سے دس کلومیٹر دور ہسپتال پہنچی تو دیکھا

اس کی ماں بے ہوش تھی اور پِتا اس کے پاؤں پر اپنا سر پٹک رہے تھے

مجھے جیسے اس کی عمر جتنی قید کی سزا سنادی گئی ہو

اب اس کے جنم دن پر سینکڑوں بچے سینکڑوں عورتوں کے پیٹ میں اتریں گے ضرور

مگر میرے لیے کوئی تصویر نہیں بنائے گا

 

دیش میں آمدورفت کی تعلیم کسی کو نہیں دی گئی تھی

جس سڑک پر حادثہ ہوا تھا، اس سڑک پر ایک بڑا مندر بھی تھا

ملحدوں کی بھی اپنی لڑائیاں ہیں، مجھے آج احساس ہوا

ٹیوشن جاتا ہوا ایک طالب علم مرگیا، ہم سبھی دوستوں نے ٹیوشن جانا چھوڑ دیا

 

پریمی مر گیا

اس کا بیگ جس کے ایک کونے میں میرا نام لکھا تھا، اس پر خون تھا اب

ایک جوتا اس کا میں اٹھا لائی تھی، بس مجھے اور کچھ نہیں ملا

آواز میری بند ہوگئی ہے

جہاں جہاں جو کچھ کہنا ہوتا ہے، نہیں کہہ پاتی

اس کے بدلے دیر تک باتھ روم میں شاور کے نیچے بیٹھ جاتی ہوں

گھنٹہ ، ڈیڑھ گھنٹہ، دو گھنٹہ

غصے اور کرب میں یہی کرتی ہوں

 

جتنے لوگ حادثے میں مر جاتے ہیں

ان کی محبوباؤں کو ڈھونڈتی ہوں

وہ نہیں ملتیں

محبوبائیں اب کبھی نہیں لوٹیں گی

 

پَروَل کے کھیت، آئی پی ایل کی ٹیمیں، چشمے کی کمانی، تصویریں اور سبھی مصور، ہسپتال وغیرہ، ہر بات کو سنجیدگی سے لیتی ہوں

یہ سب موت سے زیادہ وزنی ہوگئے ہیں

 

کوئی مورچہ، کوئی خبر، رپورٹ کارڈ پر اچھے نمبر کچھ بھی اب چونکاتا نہیں

جیسے پکچروں میں دکھاتے ہیں کہ آتما واپس ملنے آتی ہے، اس طرح وہ کبھی نہیں آیا

میں جان بوجھ کر پیپل، ببول اور املی کے پیڑ کے نیچے بیٹھی رہی

 

دیر دیر تک پڑھائی کی، بارہویں میں خریدی خوشخطی کی کتابیں بھرتی رہی

دیواروں پر تصویریں بنائیں

برف کی ایک سلّی کی طرح گل گیا پریمی میرے سامنے

 

اب کبھی کبھی تصویر بناتے ہوئے کسی چھوٹے بچے سے شرارتاً پوچھ لیا کرتی ہوں، ‘وِل یو میری می؟’

٠٠٠

 

اکثر ہی کم چیزوں میں گزارہ کیا

 

کم ہوا والی سائیکل پر ہی سفر کیا

کم پھولی  ہوئی روٹیاں ہی تھالی میں ملیں

کم روشنی والے بلب میں اندھیرے کاٹے

اپنے من کا سب سے کم حصہ دیا ایشور کو

سنسنان جگہوں پر بیٹھ کر تصورات باندھے

تند خواہشوں نے جب جب جھنجھوڑا

کم سمے میں ہی زمین سے جی بھر کر باتیں کیں

 

اوک بھر پانی پیا

قلت میں جیون جیا

کویتاؤں کو تیرتھ مانا

کم کم ہی لکھا

بہت زیادہ پریم کیا

٠٠٠

 

ایک کتاب پڑھ لینے پر

 

اس کتاب کا ہیرو تمہاری جگہ لے گا

ممکن ہے کہ تم ہیروئن کے پریم میں پڑ جاؤ

کتاب میں جو بچہ تھا وہ تم پر ہنس دے گا

کتاب کا مڑا ہوا پنّا ہی تمہارا بریک اپ ہونے پر تمہاری حفاظت کرے گا

 

دکھ جب تمہیں دیکھ یلغار یلغار چلائے گا

ایک کتاب کے ہی سبب تمہاری فتح کا اعلان ہوسکے گا

 

اے کتابو! تمہاری تعداد بڑھتی رہے!

٠٠٠

 

وداع ہوتے وقت

 

وداع ہوتے وقت

آنکھ، آنکھ میں ڈالوگے تو بہیں گے آنسو

ہاتھ، چھوئے گا ہاتھ کوتو جسم میں جنبش نہ ہوسکے گی

پاؤں پاؤں آگے نہ بڑھے تو راستے مشکل لگنے لگیں گے

 

وداع ہوتے وقت

دکھانا خود کو تھوڑا ضدی

قہقہہ لگانا

 

وداع ہوتے وقت

آدھی لاش نہ بن جانا

٠٠٠

 

کچھ بھی کہیں نہیں جاتا

 

کوئی ڈیٹا ڈیلیٹ نہیں ہوتا

یاترائیں سوٹ کیسوں میں رہ جاتی ہیں

بیزاری دھول کے ذرات میں سستانے لگتی ہے

کچھ زخموں کو دل تک پہنچنے کی

ضرورت ہی نہیں پڑتی

جسم پر ہی پیغمبر بن کر اتر جاتے ہیں

ذلت، غصہ، ماضی ، حقوق

بھی کہیں نہیں جاتے

غلامی  کی

نچلی منزل میں جابستے ہیں

 

روٹھا ہوا دوست بھی کہیں نہیں جاتا

روز دیکھتا ہے تمہیں، بس جتاتا نہیں

سب سے زیادہ خود پرست ہیں تنہائی کے دیوتا

اپنے چنے ہوئے  علاقے میں تمہیں دعوت دیتے ہیں

 

کچھ بھی  کہیں نہیں جاتا

سورج، چاند، مرحوم رشتے دار، تجسس

ساری آنکھیں، گھر

سب  کچھ بلبلوں کی مانند یہیں ہے

یہ بلبلے اڑ رہے ہیں

انہیں پِن سے پھوڑو نہیں

ہتھیلی پر رکھ کر دوبارہ اڑا  دو

رہنے دو اپنے آس پاس

جیسے پڑا رہتا ہے تمہارے کمرے میں پلنگ ، سٹول

پانی کا جگ اور فون کا چارجر

٠٠٠

 

ایک سہیلی کے زندگی میں آنے سے۔۔۔

 

ایک سہیلی کے زندگی  میں آنے سے

آجاتے ہیں کچھ ایک مرد بھی

وہ مرد جو اس کا سابق پریمی رہا ہو

اس کی یادیں، بے وقوفیاں، ضد، تحفے

سب آجاتے ہیں

وہ بینچ، ہوٹل، ٹیلی فون بوتھ جو برتا گیا ہو، سب کچھ آجاتا ہے زندگی میں

 

وہ مرد جو ان دنوں کررہا ہو سہیلی سے پریم

اس کا پریم، بے صبری، پیغام، عادتیں، اس کے کپڑوں کے رنگ، اس کا لکھا، کہا، جیا ہوا سب کچھ چلا آتا ہے

ساتھ ہی آجاتا ہے اس کا استعمال کیا ہوا عطر، بستر اور اگلی بار ملنے کا وعدہ

 

وہ مرد بھی آہی جاتا ہے جسے سہیلی چاہتی ہے تصورمیں، چاہتی ہے کہ مستقبل میں کوئی پریمی ہو تو ویسا ہی ہو

اس کی ان دیکھی عادتیں، تصویریں، سگریٹ، ہم بستری سب کچھ چلا آتا ہے زندگی میں

 

جب بھی ملتی ہے سہیلی آدھے سے زیادہ وقت پریمی کی باتیں ہی کرتی ہے

یہ نہیں بتاتی کہ اس کا پتی ہر رات کروٹ بدل کر سو جاتا ہے

یہ بھی نہیں کہ اپنے لیے ریشم نہ خرید کر اس نے اپنی بچی کے لیے سپورٹس شوز خریدے

یہ تو آج تک نہ بتایا کہ سسرال والے اسے بدکردار کہتے ہیں

چھپالیتی ہے باتیں کہ  کب کب اس کی بے عزتی کی گئی، پیسے مانگنے پر پانچ سو روپے اس کے منہ پر مار کر اسے دھتکارا گیا

بال سکھانے چھت پر کھڑی تھی  تو کاٹ دیے گئے اس کے بال

 

یہ سب کچھ نہیں بتاتی

یہ تو قطعی نہیں بتاتی کہ ہر دن اسے اسی کے گھر والے بدکردار بنانے میں جٹے تھے

 

پریمی کی بات بتاتے ہوئے سہیلی  کنول کا پھول معلوم ہوتی ہے

آنسو چھپانے کی بھرپور کوشش میں آخر کار وہ کود ہی پانی پانی ہوجاتی ہے

اسی پانی میں بہہ بہہ کر مردہ گھر کے قریب چلی جارہی ہے

 

رکو سہیلی ، میں بھی آتی ہوں

٠٠٠

 

میں نیند کی بڑبڑاہٹ میں کہی گئی بات ہوں

 

میں نیند کی بڑبڑاہٹ میں کہی گئی بات ہوں

نیم بے ہوش، خواب کے سینے سے لگی ہوئی

مجھے سننے والا مجھے شک سے دیکھتا ہے

میں ایک سِلائی کھُلے کپڑے کا ادھڑا ہوا حصہ ہوں

مجھے سیے جانے کے لیے مجھے کئی بار چھیدا جائے گا

میں ایک چھوٹے بچے کی شکایت ہوں

نازک روئی کی طرح

مجھے دور کرنے کے لیے بالغ لوگ آمادہ ہیں

میں بدصورتی کے کام میں لائی گئی ہوں

مجھے خوبصورتی سے جان بوجھ کر دور کیا گیا ہے

اس استعمال کے مکمل ہونے پر میری اہمیت ختم ہوجائے گی

میں ایک ایسی پوچھی گئی بات ہوں جس کا کوئی

جواب نہیں

مجھے سوالوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے

 

میں ایک کوشش کا خاتمہ ہوں

اس خاتمے کے بعد میرا کوئی وجود نہیں بچتا

مجھے ہر بار منزل سے تھوڑا پہلے ہی

چھوڑ دیا جاتا ہے

میں ایک رُواس کی رندھی ہوئی آواز ہوں

کمزور، گلے پر ایک بوجھ کی مانند

اس  آواز کو مکمل کرنے کے لیے

اب کوئی آواز نہیں ملائے گا

میں ایک کٹیلے پودے کا جلال ہوں

میری چبھن والے حصے کو چوما نہیں جاتا

میں خوبصورت اور نرم ہاتھوں کے لمس سے محروم ہوں

 

میں ایک مقدمہ ہارا ہوا دل ہوں

ایک برباد کیا گیا امن اور ذلتوں میں جکڑی ہوئی

مجھے سہارا دینے کوئی انصاف کی دیوی نہیں آئے گی

میں گھنے اندھیرے کی ایک بھاشا ہوں

مجھے کہہ دیے جانے کی امید ابھی دکھائی نہیں دے رہی

مجھے گنجلک  رسم الخط  کی چادر میں لپیٹ کر ایک چُپ  کے ساتھ بیاہ دیا گیا ہے

 

میں قبولیت کے دل کی ایک اچھالی ہوئی امید ہوں

مجھ میں ابھی اتھاہ ساگر بھی سما سکتا ہے

اس آس کی عمر بہت چھوٹی ہے

میں ایک غیر حاضری  کا سنسان علاقہ ہوں

مجھ میں ایک ارض مقدس چھپی ہوئی ہے

اس زمین پر کیک کا کولتار پھیلا

پڑا ہے

چلنے پر پیر چپکتے ہیں

میں ایک شوک گیت کی فریاد ہوں

مجھے گانے والا کوئی مشہور ماہر موسیقی نہیں

ایک معمولی آدمی ہے

جو اسی فریاد سے دوسرا جنم لے گا

 

میں ایک چمکدار چیز کا وہمِ محض ہوں

مجھے پائے جانے کے بعد فورا ہی چھوڑ دیا جاتا ہے

کوئی آنکھ دیر تک مجھ پر نہیں ٹھہرتی

میں ایک لاپروا کندھے کی اُچک ہوں

مجھ سے غیر یقینی کی ایک سیل لگی  ہوئی ہے

مجھ پر سر ٹکانے کوئی  بھی نہیں آئے گا

یہی میرا کمال ہے، یہی میری قسمت

میں ایک چوکیدار کی نیند ہوں

میری آنکھیں ہی میرا اندھیراہیں

مجھے آرام دہ بستروں نے شراپ دیا ہے

 

میں ایک بُنکر کی انگلی ہوں

مستقل کام کرتی ہوئی

میں جسم ڈھانپنے کا اوزار ہوں

میرا لمس پہنچے گا اوروں تک، مجھے محبت بھرا لمس

پہنچانے کوئی سوت  کبھی نہیں آئے گا

میں تاریخ  کا قہر ہوں

موجودہ عہد میرے ہونے کو نہیں سمجھے گا مگر

الزام ضرور دھرتا رہے گا

 

میں محض یہی سب ہوں

میں کیا ہوں، کیا نہیں، کیا ہونا چاہتی ہوں

یہ سب مجھ سے کوئی نہیں پوچھے گا

 

میں  بس ایک  جبر ہوں

کہنے کو میں کچھ بھی نہیں

سوچیے تو لاتعداد ہوں

٠٠٠

 

جوشنا بنرجی کا جنم آگرہ اترپردیش  میں ہوا ہے۔فی الحال وہ سپرنگڈیل ماڈرن پبلک سکول، آگرہ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔ابھی تک ان کے دو شعری مجموعے’سُدھان پورنا’ اور ‘انبُدھی میں پسرا ہے آکاش’ شائع ہوچکے ہیں۔انہوں نے سی بی ایس سی کی کتابوں کو ترتیب دینے کا کام بھی کیا ہے۔انہیں ہندی شاعری کے مختلف اعزازات سے نوازا گیا ہے، جن میں دیپک اروڑا سمرتی سمان اور رضا فیلوشپ قابل ذکر ہیں۔ان کی نظموں کے تراجم انگریزی کے علاوہ مراٹھی، پنجابی، تیلگو، میتھیلی ، گجراتی اور نیپالی جیسی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔اردو میں غالباً یہ ان کی نظموں کی اشاعت کا پہلا موقع ہے۔جوشنا نے ترجمے کے لیے ان نظموں کا خود ہی انتخاب کیا ہے۔

جوشنا بنرجی کی نظمیں ایک بہت دھیمے مگر گہرے رنگ کے اثرات کی حامل ہیں۔ان نظموں کو پڑھتے وقت ان کی تیزی سینے میں اترتی ہوئی سی معلوم ہوتی ہے۔وہ زبان کے استعمال سے بھی خوب واقف ہیں۔ ان نظموں میں جو لہجہ استعمال کیا گیا ہے، وہ ایک طرف خاصہ بے نیاز معلوم ہوتا ہے تو دوسری طرف اس کی پرتوں میں چھپی ہوئی جھلاہٹ اور غصے کی تندی اسے بے حد دلفریب بنادیتی ہے۔ایک عورت کی زندگی کے عریاں تجربوں  کے برش سے پینٹ کی گئی یہ نظمیں شاعر کی تخیل اور حقیت دونوں پر یکساں گرفت کی نمائندگی کرتی ہیں۔جوشنا بنرجی کی ان کویتاؤں  کو اردو کے قالب میں ڈھالتے ہوئے اس بات کا احساس شدت سے ہوا۔میں اب تک کی ان کی پڑھی گئی شاعری کی بنیاد پر انہیں ایک بالغ نظر اور باغی شاعر کے طور پر دیکھ سکتا ہوں۔ممکن ہے کہ یہ بات شایدآپ کوبھی  ان ترجمہ شدہ نظموں کے ذریعے محسوس ہوسکے۔شکریہ!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *