اوکتاویو پاز کی نظمیں

پرندہ

 

ایک شفاف خاموشی کے سائے میں

پسرا ہوا تھا دن

اور مقام کی پاکیزگی

خاموشی کو آئینہ بنائے ہوئے تھی

آسمان میں ٹھہری روشنی

اگتی گھاس کے کلیجے میں ٹھنڈک انڈیل رہی تھی

زمین کی ننھی چیزیں

پتھروں کے درمیان

اسی روشنی میں

دم سادھے پڑی تھیں

اس گھڑی

وقت محو آرام تھا

اور اس ٹھہرے  لمحے میں

دوپہر خود سے گزر گئی

پھر اک پرندے کو آن لگا اک نکیلا تیر

تو آسمان کا زخمی سینہ چھٹپٹایا

پتے ہلنے لگے

اور گھاس کی آنکھ کھل گئی

اور میں جان گیا کہ موت اک تیر ہی تو ہے

اک انجانے ہاتھ سے نکلا ہوا

ہم پلک جھپکتے ہی مرجاتے ہیں

٠٠٠٠٠

 

دو جسم

 

دو جسم روبرو

موج ہیں کبھی کبھی

اور رات ان کا سمندر

 

دو جسم روبرو

پتھر ہیں کبھی کبھی

اور رات ان کا ویرانہ

 

دو جسم روبرو

دو جڑیں  کبھی کبھی

جڑی ہوئی ہیں رات میں

 

دو جسم روبرو

تلوار ہیں کبھی کبھی

رات چنگاریوں کا جنگل

 

دو جسم روبرو

ٹوٹتے ستارے ہیں

اک سپاٹ آسمان میں

٠٠٠٠٠

 

گلی

 

اک لمبی سنسان گلی

میں چل رہا ہوں سیاہی میں گرتا پڑتا

اٹھتا اور ٹامک ٹوئیاں مارتا

میرے قدم گونگے پتھر اور سوکھے پتوں کو روند ر ہے ہیں

میرے پیچھے کوئی اور بھی ہے

اس کے قدم بھی میرے ذہن میں کوند رہے ہیں

میرے رکتے ہی وہ بھی تھم سا جاتا ہے

میں پلٹوں تو کوئی نہیں ہے

کسی کرن یا دروازے کا پتہ نہیں ہے

میں سارے کونوں کھدروں میں پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہوں

اور ابد تک اسی گلی میں بھٹک رہا ہوں

جس میں راستہ دیکھنے والا کوئی نہیں ہے

جس میں پیچھے آنے والا کوئی نہیں ہے

جس کے اندر میں خود بھی پیچھے چلتا ہوں

ایسے شخص کے جو خود بھی گرتا پڑتا ہے

اور اٹھتا ہے

مجھ کو دیکھ کر یہ کہتا ہے

کوئی نہیں ہے، کوئی نہیں ہے

٠٠٠٠٠

 

حکایت

 

آگ اور ہوا کے دور

پانی کی جوانی

سبز سے زرد

اور زردسےسرخ

خواب سے منظر تک

اور خواہش سے عمل تک کی مسافت

ایک سہولت بھرا قدم تھی

کیڑے مکوڑے تھے

کھلی ہوا میں اڑتے موتی

اڑتے ہیرے

اور گرمی بھی ندی کنارے سوئی پڑی تھی

اور بارش بھی اپنی زلفیں کھولے کھڑی تھی

اور ہتھیلی کتنے پودے اگارہی تھی

اور وہ پودے ہنستے تھے اور گاتے تھے

اور کل کی خبریں لاتے تھے

ان کی مایا پوراجنگل بھردیتی تھی نرم پروں سے

سارے کرشمے محض پرندہ کہلاتے تھے

ساری چیزیں سب کے لیے تھیں

اور سب ہی تھے ساری دنیا

ایک ہی انمٹ شبد کا راج تھا دنیا بھر میں

شبد بھی مانو  سورج جیسا

اک دن ٹوٹ کے پرزہ پرزہ بکھر گیا وہ

وہ ٹکڑے ہیں جن شبدوں میں ہم تم باتیں کرتے ہیں

ان ٹکڑوں کا جڑنا اب ناممکن ہے

وہ ٹکڑے ہیں ٹوٹے درپن

جس میں دنیا خود کو بکھرا ہوا دیکھتی ہے

٠٠٠٠٠

 

سویرا

 

ٹھنڈے جلد باز ہاتھوں نے

ایک ایک کرکے میری آنکھوں سے

اندھیرے کی پٹیاں ہٹائیں

آنکھیں کھول کر میں نے دیکھا

کہ بدستور

میں ایک ہرے زخم کے بیچوں بیچ زندہ ہوں

٠٠٠٠٠

 

یہیں

 

میرے اس گلی میں پڑتے قدم

ایک دوسری گلی میں گونجتے ہیں

اس گونج میں سنائی دیتے ہیں مجھے

میرے اس گلی میں پڑتے قدم

جس میں بس دھند ہی دھند ہے

٠٠٠٠٠

 

یقین

 

اگر لیمپ سے نکلتی روشنی حقیقی ہے

اور لکھنے والے ہاتھ بھی

تو کیا وہ آنکھیں بھی سچ ہیں

جو میرا لکھا دیکھ رہی ہیں

ایک لفظ سے دوسرے لفظ تک

میرا لکھا مٹ جاتا ہے

مجھے پتہ ہے میں زندہ ہوں

بے گانے قوسین کے بیچ

٠٠٠٠٠

 

لمس

 

میرے ہاتھ

تمہارے وجود کے پردے اٹھاتے ہیں

اور لپیٹتے ہیں تمہیں اک باہری عریانی میں

تمہارے جسم کے جسموں کو آشکار کرتے ہیں

میرے ہاتھ

تمہارے بدن میں اک نیا بدن بناتے ہیں

٠٠٠٠٠

 

اوکتاویو پاز کی  ان نظموں کو اسامہ ذاکر نے ترجمہ کیا ہے۔یہ مختصر اور خوبصورت نظمیں، جن میں لفظوں کی ایسی ملائم روشنی ہے ، جذبات کی ایسی دبیز لہر ہے کہ یہ پڑھنے والے کو کچھ دیر کے لیے ایک پراسرار رومانی دنیا میں گم کردیتی ہیں۔اسامہ ذاکر فی الحال عارضی طور پر شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ بھی ہیں اور پی ایچ ڈی بھی کررہے ہیں۔ان کے ترجموں میں لفظ کی میزان پر برابر سے تولے گئے پتھروں کی جگہ معنویت کی نازک پنکھڑیوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔جیسا کہ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔