ہم سے رابطہ کریں
- info@awrurdu.com
پرندہ
ایک شفاف خاموشی کے سائے میں
پسرا ہوا تھا دن
اور مقام کی پاکیزگی
خاموشی کو آئینہ بنائے ہوئے تھی
آسمان میں ٹھہری روشنی
اگتی گھاس کے کلیجے میں ٹھنڈک انڈیل رہی تھی
زمین کی ننھی چیزیں
پتھروں کے درمیان
اسی روشنی میں
دم سادھے پڑی تھیں
اس گھڑی
وقت محو آرام تھا
اور اس ٹھہرے لمحے میں
دوپہر خود سے گزر گئی
پھر اک پرندے کو آن لگا اک نکیلا تیر
تو آسمان کا زخمی سینہ چھٹپٹایا
پتے ہلنے لگے
اور گھاس کی آنکھ کھل گئی
اور میں جان گیا کہ موت اک تیر ہی تو ہے
اک انجانے ہاتھ سے نکلا ہوا
ہم پلک جھپکتے ہی مرجاتے ہیں
٠٠٠٠٠
دو جسم
دو جسم روبرو
موج ہیں کبھی کبھی
اور رات ان کا سمندر
دو جسم روبرو
پتھر ہیں کبھی کبھی
اور رات ان کا ویرانہ
دو جسم روبرو
دو جڑیں کبھی کبھی
جڑی ہوئی ہیں رات میں
دو جسم روبرو
تلوار ہیں کبھی کبھی
رات چنگاریوں کا جنگل
دو جسم روبرو
ٹوٹتے ستارے ہیں
اک سپاٹ آسمان میں
٠٠٠٠٠
گلی
اک لمبی سنسان گلی
میں چل رہا ہوں سیاہی میں گرتا پڑتا
اٹھتا اور ٹامک ٹوئیاں مارتا
میرے قدم گونگے پتھر اور سوکھے پتوں کو روند ر ہے ہیں
میرے پیچھے کوئی اور بھی ہے
اس کے قدم بھی میرے ذہن میں کوند رہے ہیں
میرے رکتے ہی وہ بھی تھم سا جاتا ہے
میں پلٹوں تو کوئی نہیں ہے
کسی کرن یا دروازے کا پتہ نہیں ہے
میں سارے کونوں کھدروں میں پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہوں
اور ابد تک اسی گلی میں بھٹک رہا ہوں
جس میں راستہ دیکھنے والا کوئی نہیں ہے
جس میں پیچھے آنے والا کوئی نہیں ہے
جس کے اندر میں خود بھی پیچھے چلتا ہوں
ایسے شخص کے جو خود بھی گرتا پڑتا ہے
اور اٹھتا ہے
مجھ کو دیکھ کر یہ کہتا ہے
کوئی نہیں ہے، کوئی نہیں ہے
٠٠٠٠٠
حکایت
آگ اور ہوا کے دور
پانی کی جوانی
سبز سے زرد
اور زردسےسرخ
خواب سے منظر تک
اور خواہش سے عمل تک کی مسافت
ایک سہولت بھرا قدم تھی
کیڑے مکوڑے تھے
کھلی ہوا میں اڑتے موتی
اڑتے ہیرے
اور گرمی بھی ندی کنارے سوئی پڑی تھی
اور بارش بھی اپنی زلفیں کھولے کھڑی تھی
اور ہتھیلی کتنے پودے اگارہی تھی
اور وہ پودے ہنستے تھے اور گاتے تھے
اور کل کی خبریں لاتے تھے
ان کی مایا پوراجنگل بھردیتی تھی نرم پروں سے
سارے کرشمے محض پرندہ کہلاتے تھے
ساری چیزیں سب کے لیے تھیں
اور سب ہی تھے ساری دنیا
ایک ہی انمٹ شبد کا راج تھا دنیا بھر میں
شبد بھی مانو سورج جیسا
اک دن ٹوٹ کے پرزہ پرزہ بکھر گیا وہ
وہ ٹکڑے ہیں جن شبدوں میں ہم تم باتیں کرتے ہیں
ان ٹکڑوں کا جڑنا اب ناممکن ہے
وہ ٹکڑے ہیں ٹوٹے درپن
جس میں دنیا خود کو بکھرا ہوا دیکھتی ہے
٠٠٠٠٠
سویرا
ٹھنڈے جلد باز ہاتھوں نے
ایک ایک کرکے میری آنکھوں سے
اندھیرے کی پٹیاں ہٹائیں
آنکھیں کھول کر میں نے دیکھا
کہ بدستور
میں ایک ہرے زخم کے بیچوں بیچ زندہ ہوں
٠٠٠٠٠
یہیں
میرے اس گلی میں پڑتے قدم
ایک دوسری گلی میں گونجتے ہیں
اس گونج میں سنائی دیتے ہیں مجھے
میرے اس گلی میں پڑتے قدم
جس میں بس دھند ہی دھند ہے
٠٠٠٠٠
یقین
اگر لیمپ سے نکلتی روشنی حقیقی ہے
اور لکھنے والے ہاتھ بھی
تو کیا وہ آنکھیں بھی سچ ہیں
جو میرا لکھا دیکھ رہی ہیں
ایک لفظ سے دوسرے لفظ تک
میرا لکھا مٹ جاتا ہے
مجھے پتہ ہے میں زندہ ہوں
بے گانے قوسین کے بیچ
٠٠٠٠٠
لمس
میرے ہاتھ
تمہارے وجود کے پردے اٹھاتے ہیں
اور لپیٹتے ہیں تمہیں اک باہری عریانی میں
تمہارے جسم کے جسموں کو آشکار کرتے ہیں
میرے ہاتھ
تمہارے بدن میں اک نیا بدن بناتے ہیں
٠٠٠٠٠
اوکتاویو پاز کی ان نظموں کو اسامہ ذاکر نے ترجمہ کیا ہے۔یہ مختصر اور خوبصورت نظمیں، جن میں لفظوں کی ایسی ملائم روشنی ہے ، جذبات کی ایسی دبیز لہر ہے کہ یہ پڑھنے والے کو کچھ دیر کے لیے ایک پراسرار رومانی دنیا میں گم کردیتی ہیں۔اسامہ ذاکر فی الحال عارضی طور پر شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ بھی ہیں اور پی ایچ ڈی بھی کررہے ہیں۔ان کے ترجموں میں لفظ کی میزان پر برابر سے تولے گئے پتھروں کی جگہ معنویت کی نازک پنکھڑیوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔جیسا کہ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔