Edit Content

زبیر سیفی کی نظمیں

ماں عرف افریقی کہاوت

 

وہ میری ماں تھی جو کہاوتوں میں موجود تھی

میرا باپ کہاوتوں سے ندارد تھا

‘اندھی پیس رہی ہے، کتے کھارہے ہیں!’

لیکن میری ماں اندھی نہیں تھی

بس کم دکھائی دیتا تھا اسے اور

اس سے بھی کم مجھے دکھائی دیتے رہے

تمام عمر ماں کے دکھ!

 

‘غریب کی جورو، سب کی بھابھی’

میں باپ ہوکر بھی نہیں موجود تھے

اس میں بھی ناموجود طور پر ماں ہی تھی

اور نہیں لکھا تھا باپ کے آگے غریب!

 

اور ایک دن

میرا بہنوئی بھی گھسیٹ لایا گیا کہاوت میں

وہ ہونا جو نہ ہونے کے برابر تھا

رانڈ کے جمائی میں چلاآیا

ماں داماد کے چکر میں زندہ گالی بن کر رہ گئی

۔۔

میں جو الگ تھلگ محسوس کرتا تھا خود کو

شاعر ہونے کے غرور میں بدمست

مجھے بھی ‘رنڈی کا جنا’ کہہ کر پکارا گیا تو

ماں رو دی

اور باپ مند مند مسکان دبائے اپنے کیے گئے عمل کے زندہ نتیجے کو دیکھ کر کچھ نہ بولا

 

وہ میری ماں تھی

جسے کسی کتاب میں، کسی گرنتھ میں لانے کے بجائے

ساری دنیا کہاوتوں میں لے آئی

سڑک پر کسی نے کہا

ہوس کا کھوپڑا اور رنڈی کا بھوسڑا کبھی نہ بھرا

میری ماں کو  پروس کر رکھ دیا گیا

تمام  برابریوں کے پرے ایک جملے میں

مغربی اتر پردیش کے کسی سائنس داں نے نہیں خارج کیا یہ اصول!

۔۔

بچپن سے جوانی تک آتے ہوئے

کہاوتیں سنیں اور ماں ہر کہاوت میں تھی

وہ ماں جو کبھی پھاٹک سے باہر نہ گئی

وہ ہر کہاوت میں رہی!

 

ایک دن کہیں آگئی افریقی کہاوت سامنے

عورت شیطان کو بھی دھوکا دے سکتی ہے!

میں  حیران تھا کہ ماں نے افریقہ کا دورہ کب کیا

براعظم کے اس طرف میری ماں ایک  کہاوت میں تھی!

۔۔

تب جانا

میری ماں نے تمام عمر ان شیطانوں کو دھوکا دیا

جو کہاوتیں رچتے تھے

ماں شیطان نہیں تھی، ماں ایک کہاوت تھی

جس نے مجھے دودھ پلایا

 

اور ماں اکثر کہتی تھی

عورت کی زبان ہڈیاں توڑ دیتی ہے!

پچھلے کچھ منٹوں سے وہ یہی تھی

اور

ماں نے آپ سب کی ہڈیاں توڑ دی ہیں!

٠٠٠

 

کُکر متّوں کا درس

 

ان کے بیچ ہی جنم پایا تھا میں نے

میں وہیں بڑا ہوا

میں انہیں کے اسکول میں پڑھا

انہیں کے اسکول میں پڑھی زبان میں یہ سب کہہ رہا ہوں آج

میں ان سے الگ نہیں تھا

میرے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ حاوی تھے میرے اوپر

وہ اسکولوں میں بھی تھے، گھر پر بھی

بازاروں میں بھی

بس اپنے بھیتر نہیں تھے

وہ اتنے کھلے ہوئے تھے کہ ان سے بو نہیں آتی تھی موریوں کی

ان سے ناک کے بال جھلسادینے والے عطر کی بو آتی تھی

وہ مسواک رکھے ڈولتے تھے

وہ ٹانگوں کے درمیان کھجلاتے تھے بات چیت کے دوران

اور دماغ کھجاتے تھے دلائل مانگنے پر

وہ خود تو ‘والضالین’ کے بعد زور سے آمین کہتے تھے

مگر ان کی عورتیں بول نہیں سکتی تھیں!

۔۔

اتنی پرہیزگاری تھی ان کے لباس میں کہ فرشتے معلوم پڑتے تھے

مگر چھوٹے بچوں کی تاک میں لگی رہتی تھی ان کی پرہیز گاری

وہ چھوٹی بچیوں کو مغرب سے کچھ ساعت پہلے تک پڑھاتے تھے

اور چھوٹے لڑکوں سے صاف کراتے تھے وضوخانہ!

 

وہ داڑھیوں میں خلال کرتے تھے

وہ بڑبولے تھے

اتنے بڑبولے کہ جب بولنے بیٹھتے تو پاتال میں دھنسا دیتے

قصبوں میں ان دنوں بس دوردرشن آتا تھا

اور آتے تھے دھوپ میں ایلمونیم کا اینٹینا دو ٹافی میں ایک گھنٹہ پکڑ کر کھانے والے بچے

لیکن وہ دوردرشن کے باپ تھے!

ہر کسی لڑکی کا چکر پتہ تھا

اور برا کا ناپ بھی

وہ جانتے تھے کس عورت کے کولہوں پر کس نمبر کی پینٹی پھنستی ہے

۔۔

ان کو ہی کہتے سنا تھا کہ فلاں گرلز اسکول کے ٹینک کی صفائی میں ایک کوئنٹل مولی اور گاجر نکلے

محلے میں مالا ڈی کی گولیاں سب سے زیادہ شبو دودھ والے کی لڑکی مانگتی ہے

وہی بتلاتے تھے کہ ایک مالن عورت کے بینگن سے مشت زنی کرتے وقت بینگن کا اگلا حصہ اندر ٹوٹنے پر

آپریشن سے نکلوانے میرٹھ جانا پڑا تھا

وہی چٹخارے لے کر کہتے تھے کہ سگریٹ کی جڑ میں اور عورت کے دھڑ میں مزہ ہی مزہ ہے

وہی محلے کے بچوں سے پوچھتے تھے ‘آج تو تیری امی نہائی ہوگی، جمعہ ہے آج؟’

تیرے باپ نے جمعرات منائی ہوگی!

اور بھدی ہنسی ہنستے تھے

وہ بچوں کے نیکر اتار دیتے تھے

وہی گلی کے کونے پر بیٹھتے تو نگاہوں سے آنے جانے والی عورتوں کے کپڑے اتار دیتے

وہ بکریوں، بھینسوں کے گپت انگوں کے بارے میں بھی بات کرتے

وہ اتنے خالی تھے (اسے بھرے ہوئے پڑھا جائے)

کہ کہیں بھی خالی ہوجانا چاہتے تھے

اور اتنے بھرے ہوئے کہ حد درجہ خالی لگتے تھے

ان کی باتیں چھیدوں کے ارد گرد گھومتیں

اور دھڑوں، چوتڑوں کے آس پاس!

وہ مشت زنی کے بارے میں بھی بات کرتے تھے

اور سدومیت کے بارے میں بھی

وہ بچوں کو بہکا کر باغ میں لے جانے والے چھلاوے تھے

۔۔

وہ موبائل کی چپوں میں پورن بھرواکر لاتے، داڑھی رکھتے

اور اشاروں میں کہتے ڈاؤن لوڈنگ کی دکانوں پر ‘گھوڑے والی ڈالو، گھوڑے والی، تگڑی سی’

اور پھر گھوڑے کی شکل میں خود کا تصور کرتے تھے

۔۔

ان پر ہر جمعہ نہانا عین  واجب نہ تھا

لیکن ان کی عورتیں روز نہاتی تھیں

وہ خو کو گرم رکھنے کے لیے طرح طرح کی غذائیں اور گوشت بسم اللہ پڑھ کر کھاتے تھے

اور بنا بسم اللہ کے کھاتے تھے ٹھنڈا گوشت!

 

ایک دن ان کا نکاح بھی ہوگیا

ان کا دبدبہ ایسا تھاکہ  اگر آپ ان سے کہتے، نکاح؟

تو وہ بتلاتے انگریزی میں

‘وی کریئیٹڈ یو اِن پیئرز’

لیکن ان کے جوڑ کا کوئی نہ تھا

وہ مولانا تھے

اتنے کہ ان کے ناڑے  صرف ایک سرا پکڑ کر کھینچ دینے  سے ہی کھل جایا کرتے تھے

۔۔

میں نے انہیں مولانا سے درس پایا  ہے

پیغمبر کی حدیث ہے، ضعیف ہی سہی

‘علم حاصل کرنے کے لیے اگر چین بھی جانا پڑے تو جاؤ’

میں چین نہیں جاسکا اور حدیث بھی مجھے مولانا کے سوا کہیں نہیں لے جاسکی!

مگر

دین انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے!

٠٠٠

 

ایک  مہان بھاشا میں بولتے ہوئے

 

یہ کوئی عام بھاشا نہیں ہے

اس بھاشا کی نظمیں سود مند ہیں  شاعر قنوطی

یہ بھاشا اکادمیوں کے دروازوں پر پڑی رہتی ہے

اس کے ادیب ریڑھ جھکائے حکومت کے جوتے چاٹتے ہیں

یہ بھاشا ‘لُٹین زون’ کے غلام شاعروں کی پیاری بھاشا ہے

۔۔

اس بھاشا کے شاعروں کے لیے  اناج کھانا پہلا عمل نہیں

سب سے پہلا کام ہے ایڈیٹروں کے چوتڑوں میں گھسنا

یہ مہان بھاشا مشاعروںمیں پائی جاتی ہے، عورتوں اور صرف عورتوں پر اوچھے مذاقوں اور پھبتیوں میں

یہ بھاشا شاعر عہد کے قدموں میں وقف ہے

۔۔

اس بھاشا کا کوئی سُر نہیں ہے

اور دنیا کی تمام بھاشاؤں کی طرح ہوتے ہوئے بھی ایسی محض ایک بھاشا ہے یہ

جو سرکار سے ڈرتی اور انعاموں سے خوش ہوتی ہے

اسی بھاشا میں قاتلوں کی مدح لکھی جاتی ہے

اسی بھاشا میں بولا جاتا ہے ‘جے!’

اسی بھاشا میں بولتا ہے لال قلعے سے دیو

اسی بھاشا میں ادھیڑی جاتی ہے تھانوں میں چمڑی!

اس بھاشا پر قابض ہوگئے ہیں بزرگ اور اشراف

یہ وزارتوں کی بھاشا ہے اور وزیروں کی بھاشا اس سے کہیں گئی گزری ہے

یہ بھاشا ڈھانچوں کی بھاشا ہے

سمادھیوں کی بھاشا ہے

قتل کی بھاشا بھی یہی ہے!

اسی بھاشا میں ہیں ہندی شعبوں پر گدھ کی طرح پنجے گڑائے پروفیسر!

اسی بھاشا میں جان بوجھ کر زندگی برباد کرتے ہوئے زیادہ تر طلبا ہیں

یہی بھاشا بلاتکاریوں کو مہان ثابت کرتی ہے

اسی بھاشا میں پیڈوفائل غریبوں کا شاعر ہے

۔۔

بھارت کا استحصال بھی اسی بھاشا میں ہوا!

اسی بھاشا میں دیا گیا بے لگام سرکار کا پارلیمنٹ میں پہلا بھاشن

اسی بھاشا میں ادیبوں نے چاٹی اقتدار کی ملائی!

۔۔

یہ بھاشا محض بھاشا نہیں

یہ استحصال کی پہلی ندا ہے!

یہ بھاشا بولنا چاہتی ہے

مگر سرکار نے اس کا ٹینٹوا پکڑا ہوا ہے!

٠٠٠

 

سروں کی بھیڑ میں ایک نظم

 

یہ جتنے سر دکھائی دیتے ہیں

ابھی کچھ دیر بعد ان کے سروں سے ٹوپیاں اتر جائیں گی

جب یہ نکلیں گے تو ان میں سے کچھ ایک سر متشدد بھیڑ کی شکل لے لیں گے

ایسی قاتل بھیڑ  جو خدا کے نام پر قتل کرتے ہوئے نہیں ہچکچائے گی!

 

ان نکلنے والوں میں، ان اترتی ٹوپیوں میں سے، ان جھکتے ہوئے سروں سے ابھی کچھ دیر بعد ہی نکل آئے گا کوئی بلاتکاری

انہیں میں سے کوئی جاکر نمک تیز ہونے پر بیلٹ سے ادھیڑ ڈالے گا بیوی کی کمر

انہیں میں سے ایک نکلے گا جو قوم کے رہبر کی شکل اختیار کرے گا اور بینروں پر چھپے گا

 

انہیں میں سے نکلے گا زمین کا دلال

انہیں میں سے نکلیں گے روغن گر اور کلال

انہیں میں سے ہوں گے، ہوگا جن کے پاس حرام کا مال!

انہیں میں ہیں، چیخنے والے رنڈی اور چھنال!

 

ابھی اس بھیڑ کو نگاہ گڑائے دیکھتے رہو،

ان میں  ہی شامل ہیں وہ آنکھیں بھی جو عورتوں کا ایکسرے مفت میں کرتی ہیں

انہیں سیڑھیوں سے اترتے قدموں میں ہوگی وہ لات

جس کے نشان ایک بچے کی کمر سے نہ جائیں گے عمر بھر

 

اس بھیڑ کو جانچتے رہو

ابھی یہ صفوں سے باہر آئے گی اژدہوں کی طرح

لپلپاتی جیبھیں لیے دوڑتے ہوئے گوشت کی تلاش میں

ابھی یہ سروں کی بھیڑعبادت میں گم ہے!

 

ابھی اس بھیڑ سے کوئی نکلے گا!

جس کے فقط کچھ لفظ کہنے پر یہ سر ہتھیار ہوجائیں گے!

ابھی یہ مار دیں گے مجھے

فقط کچھ گھڑیوں بعد

ٹوپیاں اترنے کے بعد!

٠٠٠

 

یہ ایک لنڈ کویتا ہے

 

ہر ایک بات کے بیچ، ہر ایک جھگڑے میں

ہر زمین کے بٹوارے میں

ہر ایک کھیت کی مینڈ کے مسئلے میں

ایک چیز ہمیشہ رہی

ہر گلی محلے کی کشتم کشتگی میں

لنڈ!

 

محلے کے دبنگوں نے کمزور لوگوں کے کندھوں پر ہمیشہ رکھا جسے

مرد ہمیشہ اپنے ماتھے پر ٹانگے گھومتے رہے اسے

دوستوں نے بات بات پر پکڑا دیا لنڈ

چھوٹے بھائی نے مانگا پشتینی مکان میں حصہ تو بڑے بھائی نے کہا کہ ‘لنڈ لے لو!’

اور کچھ نہیں بگاڑ سکا عدالتی نظام اس کا!

 

بزرگ شاعروں نے کہا نوجوان شعرا کو پیٹھ پیچھے

‘وہ ! میرا لنڈ شاعر ہے!’

اور یہ بات ہندی ادب کے اتہاس میں نہیں لکھی گئی!

 

کوئی ایسی جگہ نہیں ہے دنیا کے نقشے میں جہاں لنڈ نہ پایا جاتا ہو اور بھارت کے سوا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اسے عام بول چال کی بھاشا میں اتنا برتا گیا ہو!

 

جذبات کے بہاؤ میں ‘لنڈ چپ کرو! رلاؤ گے کیا؟’

غصے میں ابلتے ہوئے ‘لنڈ دے دوں گا تمہارے منہ میں’

حیرت کی انتہا پر ‘لنڈ آدمی ہو یار’

تعجب سے منہ کھولے ہوئے’اجی میرا لنڈ!’

قواعد  کا کوئی ایسا فعل نہیں رہا

جسے لنڈ کے ساتھ وابستہ نہ کیا جاسکتا ہو

کوئی جملہ ایسا نہیں جہاں اسے گھسایا نہ جاسکے

مگر ہم مردوں نے اسے کہاں کہاں گھسانے کی کوشش کی

زندہ چلتے پھرتے انسانوں میں!

 

کئی صدیوں سے لنڈ ہاتھوں میں لیے گھومتا رہا مرد

یہ تہذیبوں کے ارتقا سے بھی پہلے کا واقعہ ہے

تاریخ دوبارہ لکھی جانی چاہیے کہ

پہیے کو گول گھمائے جانے سے قبل مرد نے لنڈ پکڑنا سیکھا تھا  ہاتھ میں!

 

ہمارے باپ اس کے دم پر ‘سپر مین’ بنے گھومتے رہے

جیسے یہ کوئی نادیدہ میڈل ہے، جو گردن کے بجائے ٹانگوں کے بیچ پہنایا گیا تھا ازل سے

اسی نرگسیت کا شکار ہوکر انہوں نے سنسار بھر کو اپنے آگے معمولی گردانا!

انہوں نے ناپ لیں غائب زمینیں، جیت لیے ہوائی قلعے

اس تختی کو ٹانگے  ہوئے کہ’ہمارے لنڈ میں دم ہے’

اور جب کہ حقیقت میں انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا، جس سے دم لفظ کے ساتھ انصاف کرسکیں!

 

ادیبوں کو جان لینا چاہیے کہ

لنڈ کی کوئی تعریف نہیں ہوسکتی، کوئی تنقید نہیں ہوسکتی

کیونکہ تعریفیں اور تنقیدیں

خود میں ایک مکمل لنڈ ہیں

 

پاخانوں میں کی جانے والی  اور بیڈروم میں ہونے والی حرکتوں کے  پرے بھی موجود رہا لنڈ

انسانی زندگی کے ہر ایک لمحے میں

اتنا کہ ذرا سا تناؤ ڈھیلا ہوا تو شہر بھر کی دیواروں پر ‘ہفتے کے روز ملیں’کے اشتہار چھپ گئے جن کے ساتھ شرطیہ علاج سائلنٹ رہا!

 

‘ان لنڈ والے آدمیوں نے لنڈ کے زور پر بنادیا دنیا کو ایک دن لنڈ

اور لنڈ پر لکھی کویتا بھی لنڈ ہی جیسی کویتا ہوئی’

(بقول بزرگ شاعر)

 

اور اسے پڑھنے سے پہلے

نگاہ گھمائیے اپنے نیچے کی جانب

دنیا کو اس کے آپ کے پاس ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا

اس حالت میں یہ بس ایک لٹکی ہوئی بے جان چیز ہے!

٠٠٠

 

زبیر سیفی 1993 میں گلاوٹھی، بلند شہر یں پیدا ہوئے۔ہندی  شعرا کی نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی نظمیں سدانیرا، ہندوی اور دوسرے ویب پورٹلز کے ساتھ رسائل کی زینت بھی بنتی رہی ہیں۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے  میڈیا میں گریجویشن اور ہندی میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔اور فی الحال وہ جامعہ میں ہی’ پی جی ڈپلومہ ٹرانسلیشن کے طالب علم ہیں۔ریختہ فائونڈیشن  کی ویب سائٹ صوفی نامہ سے وابستہ ہیں اور کئی اہم اردو کی کتابوں کو ہندی میں منتقل کرنے کا کام کررہے ہیں۔

گالی دنیا کی تمام تہذیبوں میں احتجاج کی ایک بڑی علامت کے طور پر سامنے آتی رہی ہے۔زبیر سیفی کا تعلق ہندوستان کے اس معاشرے سے ہے، جسے مدت سے اس سماجی نظام نے حاشیے پر رکھ چھوڑا ہے۔ ایسے میں اپنے  معاشرے کے سچ کو بیان کرنے کے لیے انہوں نے جو زبان اختیار کی ہے، وہ اشرافیہ اور زبان کے سکہ بند ٹھیکیداروں کو ضرور چبھ سکتی ہے، مگر وہ اپنی روش میں بالکل سچے اور کھرے معلوم  پڑتے ہیں۔ وہ سماج کو اپنی کویتاؤں میں اس قدر نڈر اور نئے طور پر دکھاتے ہیں  کہ ہمارے اپنے ننگے وجود اور بھیانک شکلیں ہماری کھلی اڑاتی معلوم پڑتی ہیں۔ ‘اور اردو ‘ کے لیے ان نظموں کا انتخاب انہوں نے خود کیا ہے۔