Edit Content

صبح کی سرخی

یہ میرے دوست ایوان ساووف کی کہانی ہے جو بلغاری فوج کی تھرڈ بٹالین میں ایک سینئرماتحت افسر تھا اور میری نگاہوں کے سامنے سرویائی سلسلۂ کوہ میں ایبار اور موراوا کے درمیان قائم کردہ محاذ پر کام آیا۔جنگِ عظیم کے دوسرے سال کے اواخرِ خزاں میں میری سالگرہ سے اگلے روز کا قصہ ہے کہ میں سفیدے کے دو مُردہ درختوں کے بیچ جھاڑیوں میں اپنی سالگرہ کی خوشی منا رہا تھا۔ کیمپ کے جلتے الاؤ اور اُن کے بھڑکتے شعلوں میں سرمئی آسمان سے کبھی کبھار گرتے اکا دکا برف کے گالے مکمل تنہائی کے احساس کو مزید گہرا کر رہے تھے۔یاد پڑتا ہے کہ یہ منظر مجھے اچانک ذرا مزاحیہ سا لگا تھا۔ کسی معرکے سے ایک دن قبل محاذ پر سرگرم ایک سپاہی کے لئے صرف چوبیس برس قبل پیدا ہونے کا واقعہ آخر کیا اہمیت رکھتا تھا؟ پھر بھی موت کا خیال اتنا ہی لغو تھا۔ بھلا کوئی اپنی سالگرہ سے ایک دن پہلے بھی مرتا ہے! لہذا میں نے خود کو لمبے کوٹ میں مزید سختی سے لپیٹتے ہوئے جھنڈ کی آڑ میں پناہ لی اور مانوس درختوں کی بل کھاتی ننگی شاخوں کے بیچ سے جھانکتے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھنے لگا۔

صبح تین بجے الارم بج گیا۔ بویریائی دستے کی فرسٹ انفنٹری بٹالین نے حملہ کرنا تھا۔ نیند میں گیلے جھنڈ سے باہر سرک رہا تھا کہ میں نے ایوان ساووف کو ایلپائن کور کے سٹاف افسروں کے ہمراہ گزرتے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں جی ایچ کیو کا ایک نقشہ تھا اور وہ شمال کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔میں چھلانگ مار کر اس کی جانب بڑھتے ہوئے یہ کہنے ہی والاتھا کہ ’’ایوان ساووف، کیا میں تمہیں یاد ہوں؟ کیا جینا یاد نہیں، جب ہم ملے تھے؟ میں جانتا ہوں تم افسر ہو اور میں صرف ایک سپاہی لیکن مجھے آگے بڑھ کر ہاتھ تو ملانا ہی چاہئے۔‘‘دوسرے افسر شاید چونک کر پیچھے ہٹ جاتے کیوں کہ دو دستوں کے لئے کئی سالوں کی جدائی کے بعد کسی معرکے کی صبح ملنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔

لیکن میں ان دو درختوں کے درمیان سے باہر نہ نکلا۔وہیں دونوں گیلے تنوں کو ہاتھوں سے دبائے کھڑا رہا۔ میں سپاہی تھا اور آخر انتظار کرنا تو سیکھ ہی چکا تھا۔ایوان ساووف دوسروں کے ہمراہ دھند میں غائب ہو گیااور بٹالین آگے بڑھ گئی۔

لیکن صبح کی پہلی کرنوںمیں بے گیاہ اونچائیوں پر بکھری ہوئی پست قامت جھاڑیوں کے منور ہوتے سمے، جب وہ سرمئی سپاہی ایک بھوری ندی کو پار کرتے ہوئے ایک اجاڑ تنگنائے میں نیچے اتر رہے تھے تو مجھے ایک بار پھر ایوان ساووف کا خیال آیا۔

جینا کی و ہ پُرکیف راتیں میرے ذہن میں نہیں تھیں جب ہم بادۂ احمر سے لطف اٹھاتے، ملی ترانے گنگناتے ، ایک دوسرے سے بغل گیر، فلسفہ آمیز گپ شپ لگاتے آس پاس کے مطمئن شہری راہگیروں کے اضطراب کا باعث بن رہے تھے۔ نہیں ، میں اس فولادی نیلے بالوں، زیتونی چہرے پر اکڑی ہوئی پلکوں اور مضبوط مخروطی ہاتھوں والے نوجوان بلغاری مصور کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہا تھا۔ ہمارے ان دوسرے رفیقوں کے نزدیک جن کے ساتھ ہم آسمان پر تاروں کے مدھم ہو جانے اور پرندوں کے گیت چھیڑنے تک ہم رقص رہتے، وہ کام میں صبح شام ایک کر دینے والا ایک خوش مزاج بانکا تھا جو سارا دن تو زایس اور شاٹ کی فیکٹریوں میں دو پیسے کمانے کے لئے اپنی تکنیکی تصویروں کے ساتھ مشغول رہتا اور رات کا پہر دو پہر بس نیند کے حملوں سے نبرد آزما رہنے میں گزار دیتا۔ میرے ذہن میں تو وہ خوش نصیب لمحہ تھا جب مجھے اس کا دوسرا روپ دیکھنے کا موقع ملا۔

ایک دن وہ مجھے اپنی مخصوص گوشۂ تنہائی میں لے گیا، ایک مخدوش سا چوبارہ جہاں ساری جگہ بس پلنگ ، میز، کرسی اور نقاش تپائی نے ہی گھیر رکھی تھی۔میری طرف بے توجہی سے ایک ایسی خاکہ کشی کی کتاب پھینکنے کے بعد جو بس عام سے فطری مناظر،انسانی شبیہوں اور عمارتوں پر مشتمل تھی، اس نے ایک پردہ سرکایا جس کے پیچھے چنی ہوئی سفید دیوار پر ایک بہت بڑا کینوس نظر آ رہا تھا۔میری آنکھوں کے سامنے اس کی زندگی کی محنت تھی، بلاشبہ وہ خود کو جتنا بھی صرف کر سکتا تھا۔ نوکیلے پہاڑوں کے خدوخال کے عقب میں موجود ایک سرخ آسمان کے مقابل دو پہلوان اپنی آخری سانس تک کشتی میں مشغول تھے۔ دیومالائی قوت و جسامت والے دو برہنہ آدمی جو گنبد افلاک کو اپنے شعلہ آگیں غیظ و غضب سے بھڑکائے دے رہے تھے۔زمین اپنی آب و تاب میں آسمان کو چُھو رہی تھی اور لڑنے والوں کے اعضاء ایک ایسے کرّے پر پھیل رہے تھے جو محور سے کٹ کر دو حصوں میں جدا ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ اب یاد آتا ہے کہ اس منظر نے مجھے کتنا متاثر کیا تھا لیکن ایوان ساووف بول پڑا: ’’جوسن یہ سب کچھ غلط ہے! یہ سرخ رنگ شعلہ آتشیں ہونا چاہئے، صبح کی سرخی ۔۔۔‘‘

صرف میں ہی جانتا ہوں کہ ساووف نے اس رنگ کے لئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ اُس کی اذیت آسیبی تھی، غیرمعقول اور ناامید کر دینے والی۔ وہ اپنے حقیر سے تختۂ مصوری سے اس قسم کا سرخ رنگ تخلیق نہیں کر سکتا تھا اور باالآخر ایک دن اس نے مجھے کہہ ہی دیا کہ وہ اپنے وطن بلغاریہ میں ایک اور طلوعِ سحر دیکھے بغیر اس تصویر کو مزید ہاتھ نہیں لگا پائے گا۔ انہی گرمیوں میں جنگ شروع ہو گئی ۔میں نے خود کو اپنے دوست اور اُس کی اُس نامکمل تصویر سے جدا کیا جو یک لخت تقدیر کی لکھی ایک زمانی علامت میں ڈھل چکی تھی ۔۔۔او راب۔۔۔

چار دن بعد اُس سے دوبارہ ملا قات یوں ہوئی کہ میں ایک سرویائی گاؤں کے آگے نصب حفاظتی چوکی پر کھڑا تھا جب دو بلغاری افسران اپنے گھوڑوں پر سامنے سے آتے دکھائی دئیے۔ وہ ایک دوسرے کے پہلو میں سست رفتار دُلکی چال سے ہم رکاب تھے اور ایک کا بازو دوسرے کے کاندھوں پر تھا۔ ان کے سامنے سے گزرنے کے بعد ہی میں نے ایوان ساووف کو پہچانا۔ اسی صبح جب ہم ایک نامعلوم منزل یعنی آمسل کے معرکے کے لئے نکل رہے تھے تو میں نے اسے دوبارہ دیکھا لیکن کچھ نہیں بولا۔

پیش قدمی کا نقارہ بجتے ہی میرا دل بلیّوں اچھلنے لگا۔ ہم ایک پہاڑی کی چوٹی پر قبضہ کر چکے تھے اور ہمارے مقابل وادی کی دوسری جانب سرویائی تھے۔ سنگینیں چڑھاتے ہوئے دشمن کی گامزن گولیاں پرندوں کی طرح ہمارے اوپر سے گزر رہی تھیں کہ اچانک کمان دار کا حکم ہمارے کانوں میں گونجا،’’حملہ!‘‘۔ چلّاتے ہوئے حملے کے لئے بڑھے تو سیٹیاں بجاتی گولیاں ہمارے آس پاس سے گزر رہی تھیں۔ پہاڑوں کے نام کون جانتا تھا، بس اتنا ہی معلوم تھا کہ بلغاریہ اور مقدونیہ ہمارے بائیں جانب ہیں، مونٹی نیگرو دائیں اور دشمن شمال کی سمت میں ہے۔ مکئی کے ایک کھیت کو چیرتے، بھوسے اور جھاڑیوں کو قدموں تلے روندتے ہوئے ایک وادی سے گزرنے کے بعد اب ہم ایک چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ اسی اثناء میں سرویائی ٹوپیوں والے دو جوانوں نے ہینڈ گرینیڈ پھینکے جن میں سے ایک ہمارے ایک ساتھی کو لگا ، لیکن بہرحال ہم نے پہاڑی پر قابض ہوتے ہوئے سرویائی جوانوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ آگے بڑھتے ہوئے لگاتار فائرنگ جاری تھی ، زمین مسلسل لرز رہی تھی اور ہم لڑکھڑاتے ہوئے خالی مورچوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ایک جوان رک کر روٹی یا تمباکو کی تلاش میں ایک مردہ سرویائی کا رسدی تھیلا علیحدہ کرنے لگا۔ آخر کار ہم دوسری پہاڑی تک پہنچ گئے جہاں بھورے سبز سرویائیوں کا ایک لشکر ڈھلوان سے چپکا نظر آ ر ہاتھا۔ اسی جگہ دشمن سے تقریباً تین سو گز پہلے ہمارا رستہ ایک پتھریلی دیوار نے روکا۔حکم ملا کہ اس کے سامنے پوزیشن لیتے ہوئے فائرنگ جاری رکھیں۔دشمن بے تحاشہ فائر کر رہا تھا ، گولیوں کی بوچھاڑ پتھروں کو توڑ رہی تھی اور ہمارے قدموں تلے موجود خود رو جھاڑیوں کے چیتھڑے اڑا رہی تھی۔ ایک دفعہ پھر حملے کا حکم ملا تو ہم ایک وحشیانہ مسرت کے ساتھ جست لگا کر آگے بڑھے۔ سرویائی قطاریں افراتفری کا شکار ہو کر ٹوٹ گئیں،باریش اجنبی چہرے اپنی ٹوٹی پھوٹی ناکارہ بندوقوں کے ساتھ ہمارے ارد گرد موجود تھے۔ نقل و حمل دستے کے سپاہیوں نے قیدیوں کو نرغے میں لے لیا جب کہ ہم فرار ہوتے دشمن کے تعاقب میں دریا تک جا پہنچے۔

اس دن ہم نے سات پہاڑیوں پر پیش قدمی کی۔ ساعتیں شمار کرنے کا موقع کہاں تھا، نہ اماں ابا کا کوئی خیال، شام ڈھلے ہی ہم پر کُھلا کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔یہ ایک اونچی پتھریلی پہاڑی تھی جس پر کسی قسم کی کوئی آڑ موجود نہیں تھی۔ ہمارے مقابل پہاڑی کے پیچھے، افق پر سرویائی فوجیوں کے محفوظ دستے موجود تھے۔ وہ اب بھی مسلسل فائر کررہے تھے لیکن جیت ہماری ہی تھی۔ اب پہلی بار ہمارے افسروں نے نقشے نکالے اور یہ معلوم ہوا کہ ہم احکامات میں دی گئی مطلوبہ سرحد سے آگے نکل آئے ہیں۔لہٰذا ہم نے ایک گھنٹہ واپسی کا سفر کیا اور خیمہ زن ہو گئے۔

اب یہ معلوم ہوا کہ ہم ایک افسر پیچھے بھول آئے ہیں۔ جب ہم اس اونچی پہاڑی کی ڈھلوان پر لیٹے تھے تو کمپنی نمبر ۲ کا کماندار ،نوجوان کپتان ’پی‘صرف ایک جوان کے ہمراہ اس مقصد سے ہاتھوں پیروں کے بل چلتا ہوا وادی میں داخل ہوا تھا کہ ایک ایسی بارودی چرخی پر قبضہ کر لے جس کی مدد سے دشمن مسلسل فائر کر رہا تھا۔شام ڈھلے واپس لوٹتے ہوئے ہم اس بہادر سپاہی کو بھول آئے تھے، لہٰذا کرنل نے کپتان کو واپس لانے کے لئے رضاکار طلب کئے۔ اچانک بجلی سی کوند گئی، جوان اُچک اُچک کر خود کو پیش کر رہے تھے، میں نے دیکھا کہ ایوان ساووف اس پارٹی کی کمان کے لئے خود کو پیش کر رہا تھا اور تھوڑی پس و پیش کے بعد کرنل نے آخر کار اس کی بات مان لی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے اس ساکت و پُراسرار رات میں نکل پڑے۔

ایوان ساووف راستے سے خوب واقف تھا اسی لئے اس نے خود کو راہنمائی کے لئے پیش کیا تھا۔ میں جلد ہی باقی ساتھیوں کے بیچ سے گزرتا ہوا اس کے بازو میں پہنچ گیا۔میں نے ابھی ’’جینا، جوسن،‘‘ ہی کہا تھا کہ اس نے اپنی گہری کھنکھارتی آواز میں قہقہہ لگایا اور ہم ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ رات کی تاریکی میں دور دور سے لپکتی گولیوں کی جھنکارسنائی دے رہی تھی۔ میں اسے چار ہفتے قبل فرانس کے ایک معرکے میں کام آ جانے والے اپنے بھائی کے متعلق بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اب اس ملک میں وہی میرا بھائی ہے۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ،آہستگی سے دھند کی ایک سرنگ میں نشیب و فراز طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، جب گئے دنوں کی طرح ایک بار پھر تفلسف آمیز گپ شپ شروع ہو گئی ۔ اُس تصویر ، ان دو پہلوانوں اور شعلہ آگیں آسمان کا ذکر چھڑ گیا۔ ’’میں نے اب تک اسے پینٹ نہیں کیا،‘‘ اس نے میرے ہمراہ ایک ہیولا نما اونچائی طے کرتے ہوئے سرگوشی کی۔۔۔’’جنگ کے بعد ہم ایک بار پھر اکٹھے ہوں گے، جینا، میونخ یا صوفیہ میں۔‘‘

اچانک پتہ چلا کہ ہم ایک غلط پگڈنڈی پر ہیں۔ مکمل ابر آلود آسمان سے ہمیں ذرا سی روشنی بھی میسر نہیں تھی اور جب ہم نے سمت نما کے مطابق چلنے کی کوشش کی تو پہاڑی نالوں اور کھائیوں تک تو پہنچے لیکن اس گہری وادی کا کوئی نشان نہ تھا جہاں بارودی چرخی نصب تھی۔ دشمن کے فائر کی گونج ہمیں اِدھر اُدھر بھٹکاتی رہی، دھند روشن ہوتی گئی ، یہاں تک کہ صبح کے تقریباً پانچ بجے ہمیں اپنے نیچے ا س منحوس سرویائی بارودی چرخی کے پہیے نظر آئے۔

دور اونچائی سے آتی سرویائی گولیوں کی مسلسل سیٹیوں تلے ، ہم بہت دھیان سےہاتھوں پیروں کے بل نیچے جانے لگے۔ عجیب بات تھی کہ چرخی جنگلی پہاڑی چشمے کےتیز دھارے کی قوت سے اب بھی چل رہی تھی۔ ہم رینگتے ہوئے قریب پہنچے ، کوئی حرکت تو نہیں تھی لیکن ہمیں پہیے کے نیچے ایک آدمی بیٹھا نظر آیا۔ اپنی بندوقوں سے حفاظتی قفل ہٹاتے ہوئے ہم نے اسے للکارا۔ وہ کمپنی نمبر ۲ کا حوالدار ’کے‘ تھا جس کے قدموں میں کپتان ’پی‘ پڑا تھا جو ران میں گولی لگنے کے باعث زیادہ خون بہہ جانے سے مر چکا تھا۔ لاش کی حفاظت کرتے جوان کو ہوش میں لانے میں کافی وقت لگا۔ پھر ہم نے ایک قبر کھودی اور مردہ آدمی کو اس طرح اُس میں لٹا دیا کہ چہرہ دشمن کی طرف تھا اور ٹانگیں شمال میں بنجر پہاڑ کی ڈھلوان کی جانب۔ زمین سخت اور پتھریلی تھی اور ہماری کدالیں چل رہی تھیں کہ صبح کاذب کی روشنی دکھائی دی۔قبر کے دامن میں صلیب نصب کرتے کرتے مردہ جوان کی ہیلمٹ ایک لطیف سی سرخی میں نہا گئی۔ ہمیں فوراً دوڑتے ہوئے آڑ لینی چاہئے تھی لیکن سورج ہم سے زیادہ طاقت ور تھا۔ وہ مشرق میں موجود دندانی پہاڑیوں کے عقب میں ہمارے خوابیدہ وطن بلغاریہ سے آہستگی سے ابھرا اور مقدونی پہاڑیوں کو اپنے سیلِ نُور میں بہا کر لے گیا۔ایبار اور موراوا کے بیچ صبح کی سرخ چمک نے ہم پرانے ، سخت جان سپاہیوں کو اپنے گھٹنوں پر گرا دیا۔

اسی لمحے میں نے ایوان ساووف کو عبادت کی سرشاری میں ڈوبے ہوئے ایک انسان کے رُوپ میں دیکھا۔ اُس کی تجسس سے لبریز آنکھوں پر ایک پردہ سا پڑا تھا، ایک ایسا پردہ جو نزدیک ہوتی موت کو آنکھوں سے اوجھل کر دے۔ وہ موت کو آتے نہیں دیکھ سکتا تھا کہ اس لمحے موت اس کے لیے قطعی نامانوس تھی۔ لیکن میں، اس کا دوست، موت کو بخوبی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ایوان ساووف اوپر اٹھا تو چہرہ اُس کے وطن کی جانب تھا۔ صبح کی کرب انگیز ، پرسکون سرخی دیکھتے ہوئے وہ میری جانب مڑا اور کہا:’’تم نے دن نکلتے دیکھا۔ یہ ہوتا ہے سرخ۔۔۔‘‘ اسی لمحے پہاڑی کے بالائی کنارے سے ایک گولی آ کر اسے لگی۔ میں نے اس کے لبوں پر ایک متکبرانہ سی مسکراہٹ دیکھی لیکن گولی اس کا دل چیر چکی تھی۔ اس نے صبح کی سرخی میں اپنا وطن دیکھ لیا تھا۔ کاش وہ اسے پینٹ بھی کر سکتا۔۔۔!

تو اب ہمیں ایک اور قبر کھودنا تھی ۔ لیکن ہم نے ایوان ساووف کو جرمن افسر کے بازو میں ہی دفنا دیا، چند قد م مشترکہ زمین پر موجود دو فوجی کامریڈوں کے بیچ سرحدوں کی ضرورت بھی کیا تھی۔ جرمن قبر کی مٹی ہی بلغاری سینے پر گر رہی تھی سو ہم نے ان کے ہاتھ ایک دوسرے میں تھما دئیے۔ جب ہم صبح کی سرخی میں واپس لوٹ رہے تھے تو مکمل سکوت تھا ۔آخری گولی چل چکی تھی۔

***

ترجمہ: عاصم بخشی