وہاگ ویبھو کی نظمیں

اسلوب

 

میں جیون کو ایسے جینا چاہتا ہوں

جیسے میرے شاعر نے جی ہے زبان۔۔۔

 

کوئی بھی ایک لفظ اٹھا کر

اسے خوبصورت جملے میں بدل دیا

اور آوازوں کو بنائے رکھا ہمیشہ

 

معنی خیزی، انصاف، مساوات اور محبت کا طرفدار

٠٠٠

 

حلف نامہ

 

پریم میں ہم اتنا خوش نہیں رہے

جدائی میں جتنی اٹھائی تکلیف

 

اب گزرا ہوا پریم

پشتینی قرض کا دکھ ہے

 

سمے کے ساتھ بڑھتا ہی جاتا

 

اصل سے زیادہ چکایا ہے سود

٠٠٠

 

تم ایک عورت کے قتل کا جشن مناتے ہو

 

جو تمہاری ذات اور نسل کی نہیں ہوتیں

تم انہیں ڈائن کہتے ہو

 

تم ایک ایسی کتھا رچتے ہو

جس میں، جو کوئی بھی تم سے اتفاق نہیں رکھتا

تم اس کے قتل کو جائز ٹھہرا دیتے ہو

اس طرح تم ایک عورت کے جلائے جانے کا جشن مناتے ہو

 

دراصل، تم ہمیشہ سے یہی کرتے آئے ہو

تم ہر اُس عورت کو جلادیتے ہو

جو اپنے حق اور انصاف کے لیے لڑنا چاہتی ہے

 

تم لگاتار

ایک بے ایمان اور دوغلی تہذیب کو جنم دیتے ہو

 

تم قتل کے جشن سے اتنا شور پیدا کردینا چاہتے ہو

کہ اگلی پیڑھیاں نہ سن پائیں ایک جھلستی ہوئی عورت کی چیخ

تم انسانی خون پر ہزاروں رنگ ڈال کر اپنے کیے کو چھپاتے ہو

مگر تم نہیں جانتے کہ مقتول کا لہو بولتا ہے

 

تم ہمیشہ سے یہی کرتے آئے ہو

بیدار نسلوں کے قتل پر تم اشرفیاں بانٹتے ہو

تم خود سے تیز چلنے والے انگوٹھے کاٹ لیتے ہو

تم سہہ نہیں پاتے

ایک بے خوف اور خود اعتماد عورت کی موجودگی

تم اسے جلادیتے ہو

 

عہد و تہذیب کے اس دہانے پر

تم اب بھی اتنے ہی ظالم، ویسے ہی قاتل اور اتنے ہی  شیطان ہو

 

اب بھی تم اتنی ہی بے رحمی سے پھونکتے ہو

میری ماں، بہن ، بیوی ، معشوقہ یا دوست کو

تہذیب کے اس دہانے پر اب بھی تم

ایک عورت کے جلائے جانے کا جشن مناتے ہو

٠٠٠

 

ایشور کو کسان ہونا چاہیے

 

ایشور  کمانڈر کی طرح آیا

جج کی طرح آیا

راجا کی طرح آیا

گیانی کی طرح آیا

اور بھی کئی کئی طرح سے آیا ایشور

 

مگر جب اس سمے کی فصل میں

کسان ہونے کی چنوتیاں

ماما گھاس اور کریم ٭کی طرح

ایسے پھیل گئی ہیں کہ

ان کی جینے کی چاہ کو جکڑ رہی ہیں چاروں طرف سے

اور ان کا زندہ رہ جانا

ایک بے مثال کامیابی کی طرح ہے

تو ایسے میں

ایشور کو کسان ہوکر آنا چاہیے

(مجھے لگتا ہے کہ ایشور کسان ہونے سے ڈرتا ہے)

 

وہ جیل میں

محل میں

جنگ میں

جیسے بار بار

لیتا ہے اوتار

ویسے ہی اسے

اب کی بار کھیت میں لینا چاہیے اوتار

 

ایسے کہ

چار ہاتھوں والے اس اوتاری کا جسم

مٹی سے سنا ہو اس طرح کہ

پسینے سے چپک کر اس کے بدن کا حصہ ہوگئی ہو

اس کی کالی چمڑی بمشکل

ڈھک رہی ہو اس کی پسلیاں

اور اس چار ہاتھوں والے ایشور کے

ایک ہاتھ میں ہو پھاوڑا

دوسرےمیں ہنسیا

تیسرے میں مٹھی بھر اناج

اور چوتھے میں مہاجن کا دیا پرچہ ہو

(کتنا دلچسپ ہوگا ایشور کو ایسے دیکھنا)

 

مجھے یقین ہے ایشور مہاجن کا دیا پرچہ

کسی مقدس صحیفے کے طور پر نہیں پڑھے گا

وہ اسے پڑھ کر اداس ہوجائے گا

پھر وہ محسوس کرے گا کہ

اس دیش میں ایشور ہونا

کسان ہونے سے کئی گنا آسان ہے

 

کائنات کے کسی کونےمیں

سچ مچ ایشور کہیں ہے

اور وہ اپنے وجود کے تعلق سے باخبر بھی ہے

تو پھر اب وقت آگیا ہے کہ

اسے اناج بونا چاہیے

کاٹنا چاہیے، رونا چاہیے

ایشور کو کسان کی طرح ہونا چاہیے

٠٠٠

 

(٭ماما،ربیع کی فصلوں جیسے گیہوں، مٹر اور چنے میں اگنے والی خود روگھاس، جس کے اگ آنے سے فصلوں کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔کریم کا تلفظ karemہے۔یہ اس کھیت میں اگتی ہے، جہاں پانی کچھ وقت کے لیے رک گیا ہو۔ مجبوری کے طور پر اس کا ساگ بھی کھالیا جاتا ہے۔مگر زمین پر مضبوط پکڑ کی وجہ سے اس کا پھیلنا فصل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے نظم میں اس کا تاثر منفی ہے۔)

 

اتنے دکھ سے بھرا بیٹھا تھا

 

اتنے دکھ سے بھرا بیٹھا تھا کہ

ذرا اکیلے کی اوٹ لے کر کسی نے حال پوچھا تو پھپھک پڑا

 

اتنا بے عزت ہوا تھا کہ

دوست یار بھی ذرا نظر انداز کرگئے تو بے عزتی محسوس ہوئی

اور گھر چھوڑ کر نکل آیا

 

اتنا غصہ تھا کہ بے وجہ چوراہے کے کھمبے کو دھکا دیا

 

اتنا اداس تھا کہ مجھ تک آنے کے راستے میں ہی

سوکھ گئے سبھی بسنت

 

اتنا اکیلا تھا کہ سناٹے سے بچ کر گزرنے لگی تھی میری پرچھائی

 

اور جیسا کہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں

اتنی راتوں کا جگا ہوا تھا کہ

کئی صدیوں کی نیند کی ضرورت تھی مجھے

٠٠٠

 

شام کے مسلمان بچے

 

اللہ کے باغوں میں جنہیں

ادھم مچاتے ہوئے دوڑ جانا تھا اگلے آنگن

وہ بم سے پھٹی سڑک پر گلا پھاڑ کر روتے ہوئے

اپنی ماں کے پھٹے پستان چوم رہے  ہیں

 

جنہیں اتنی بڑی دنیا کو گیند کی طرح اچھال کر کھلکھلانا تھا ، چہکنا تھا

وہ اپنے گھروں میں بھائی کے جسم کے ٹکڑے بٹور رہے ہیں

 

جنہیں ایک ڈوری کے سہارے زمین کو کھینچ کر اٹھا لینا تھا ہتھیلی پر

وہ اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں، ابدی نیند سے اٹھانے کے لیے

 

شام کے مسلمان بچے

جنہیں اپنے مسلمان ہونے کی بھی خبر نہ تھی

نہ ہی کوئی مطلب تھا شام یا امریکہ کے ہونے سے

 

شام کے مسلمان بچے امریکہ کی تھالی میں پروسے گئے ہیں

ان کا گلا پھٹا جارہا ہے رو تے ہوئے کہ ان کے ابو کی صرف ران کا حصہ ملا ہے

چپک کر بلکنے کے لیے

 

شام کے بچے پاؤں میں اپنی لاش باندھے ہوئے

بدحواس بھٹک رہے ہیں اپنے محلے کے راستوں پر

 

امریکہ ہنس رہا ہے

 

امریکہ بہت بڑا ملک ہے

امریکہ  ملکوں کا راجا ہے

جیسے جنگل کا سب سے خونخوار ، ظالم اور بدمزاج جانور ہوجاتا ہے راجا

 

شام کے بچے آج بھٹک رہے ہیں

شام کے بچ جانے والے بچے

ایک روز جوان  ہوجائیں گے

ان سے مہاتما کے برتاؤ کی امید نہ کرنا

 

یہ بچ جانے والے بچے ایک روز بڑے ہوجائیں گے

 

وہ خدا کا کلیجہ چباجائیں گے پلک جھپکتے ہی

وہ تمہاری عالیشان آسمانی عمارتوں کو ایک پھونک سے اڑا دیں گے

تمہاری پرچھائیوں تک کی راکھ بھی نہیں دیں گے تمہاری نسلوں کو

وہ تمہارے قلعے میں گھستے ہی خون اور پانی کا فرق مٹادیں گے

 

یہ لوریوں کی عمر میں مرثیہ گاتے ہوئے بچے

ہر سانس میں زہر پیتے ہوئے بچے

ہر چیخ میں موت روتے ہوئے بچے

تم دیکھنا

ایک دن جوان ہوجائیں گے

یہ شام کے مسلمان بچے

٠٠٠

 

تہذیب کی عدالت میں غیر جانبداری ایک جرم ہے

 

اگر آپ قاتل کی مخالفت کو نہیں چُنتے

تو قاتل آپ کو اپنا ہمنوا مان لیتے ہیں

 

اگر آپ بھوکے کا ساتھ نہیں دیتے

تو آپ عیاش  امارت کے ساتھ ہولیتے ہیں

 

اگر آپ انسان ہونے پر نہیں ہوتے آمادہ

تو شیطانوں کی ٹولی آپ کو شمار کرلیتی ہے خود میں

 

اگر آپ محبت کو نہیں چُنتے

تو نفرت آپ کو چن لیتی ہے

 

تہذیب کی عدالت میں جانبداری ایک جرم ہے

 

اگر آپ نہیں کھڑے ہوتے آزادی، برابری، انصاف اور محبت کے حق میں

تو تمام مردہ دلائل کے باوجود

آپ ان کے مخالفین میں ہوچکے ہوتے ہیں شامل

٠٠٠

 

سپنے کی مشکل

 

میرے سپنے میں ایک ناؤ تھی

جس پر سوار ہوکر

میں تمہیں بھگا لے جاتا تھا

 

مگر ہر سپنے کی ایک مشکل تھی

 

کنارے پر لگنے سے پہلے

 

نیند ٹوٹ جاتی تھی

ناؤ ڈوب جاتی تھی

٠٠٠

 

وہاگ ویبھو کی نظمیں ہمارے دور کی ناانصافی، سماجی نابرابری، حاشیے پر دھکیلے گئے لوگوں کے ساتھ ہورہے مظالم اور حکومت کی دھاندلیوں کے خلاف کھل کر بات کرتی ہیں۔ اس مشکل دور میں جہاں بہت سے فنکاروں نے خود  پر ایک قسم کی غیرجانبداری کو لپیٹ کر خاموش رہنے اور اندر ہی اندر کڑھنے کو ترجیح دی ہے، وہاں وہاگ ویبھو کی نظمیں اپنے چبھتے ہوئے الفاظ اور حق گوئی کے مضبوط طمانچوں کی آواز کو اپنے جلو میں لے کر چلتی ہیں۔وہ اس بزدل اور بے ہمت دور میں  ایک زندہ آواز کی مانند صاف طور پر اپنی شناخت بناچکے ہیں اور اسے مسلسل مضبوط کرتے جارہے ہیں۔

وہاگ ویبھو کا جنم 30 اگست 1994 کو اپنے ننھال اوُد پور (جون پور) میں ہوا۔ہندی کے تقریباً سبھی اہم رسائل و جرائد میں ان کی نظمیں  شائع ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ مراٹھی، بنگلا، آسامی، اُڑیا اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ان کی نظموں کے تراجم شائع ہوکر لوگوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ہم ‘اور اردو’ کی جانب سے ان کی چند مزید نظموں تک اپنے قارئین کی رسائی کروارہے ہیں۔ امید ہے کہ یہ نظمیں آپ  کو بہت کچھ سوچنے اور کہنے پر آمادہ کرسکیں گی۔ان کی یہ نظمیں  گزشتہ برس شائع ہوئے ان کے پہلے شعری مجموعے ‘مورچے پر وداع گیت’ سے لی گئی ہیں۔