یوٹوپیا

نجو کے ابا نہیں تھے۔

گزرچکے تھے، اس کے پیدا ہونے کے دوہی سال بعد۔ نجو کو یاد نہیں، ابا دِکھنے میں کیسے تھے؟ ایک دھندلی سفید کالی تصویر دیکھی تھی امی کے گلابی پھول، ہرے پتے والے ٹین کے ڈھکن والے بکسے میں کبھی۔ کھیلتے کھیلتے پہنچ گئی تھی وہ، گھر کے آخری کونے کی آخری کالی دم گھونٹو کوٹھری میں۔ کوٹھری ایک دم کالی کالی تھی۔ وہاں کچھ نظر نہیں آتا تھا ، صرف ٹین کے بکسے کا گلابی پھولوں والا ڈھکن نا معلوم دلکشی سے نجو کو اپنی طرف کھینچنے لگا۔ نجو گرتی پڑتی بکسے تک پہونچی اور بکسے پر چڑھ گئی ۔ وہ اس پر چڑھ کر اپنی فراک دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر دائیں بائیں خوب اترائی ۔ پھر اسے لگا اس کے کودنے پر بھی بکسا جھن جھن نہیں کر رہا ہے۔  کیوں؟اس نے زمین پر بکسے کے سامنے پالتی ماری اور بیٹھ گئی۔ اس نے بکسے کے ڈھکن سے زور آزمائی شروع کردی۔ بکسے کا کندا اس کے ہاتھ میں آگیا اور اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے زور لگایا اور بکسا کھل گیا۔ واہ! اس میں تو مزیدار چیزیں تھیں۔ طرح طرح کی۔ چمکدار اور لبھاؤنی۔ اسے ایک چمچماتا موتیا بٹوا نظر آیا، ایک لونگ کا پنکھا، جس میں نیلے لال شنیل کی جھالر لگی تھی اور ڈھیر سارے چاندی کے برتن جو کچھ مٹیالے سفید نظر آ رہے تھے، اور ان سب ٹھسم ٹھس چیزوں کے نیچے، خوب نیچے دبا تھا ایک سیاہی مائل لال لال غرارا سوٹ۔ نجو کی آنکھوں کی روشنی اور چم چم کراٹھی۔ ’’اللہ شادی کا جوڑا ۔ ۔ ۔‘‘ایسے کئی جوڑے اس نے دیکھے تھے، اُن اَن گنت شادیوں میں، جس میں وہ اپنی امی کی انگلی پکڑکر، ان کی پرچھائیں بن جایا کرتی تھی۔ ان شادیوں میں اُس کی اِس اداپر خوب مذاق بھی ہوا کرتا تھا، ’’اے نجو، چھوڑ امی کی انگلی ۔ ۔ ۔ کیا اپنی شادی میں امی کو لے کر جائے گی؟ جہیز بناکر۔۔۔؟‘‘ نجو کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی تھیں۔ اس کے اندر کی ضد ، دیدے پھاڑکر پھبتی کسنے والوں کو جواب دیتی، ’’میں امی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائوںگی؟‘‘

’’اچھا۔ ۔ ۔ !‘‘ عورتیں آنکھیں مٹکاتیں۔ ہاتھ گھماتے نچاتے کہتیں، ’’اور شادی نہ کرے گی۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’نہیں!‘‘ وہ ضد کو غصے میں ڈھال کر چیختی ، ’’کبھی نہیں کروں گی شادی۔ ‘ ‘ عورتیں فحش ہنسی ہنستیں۔ امی فوراً اس کی بلائیاں لینے لگتیں، ’ ’اللہ کرم کرے، ایسا نہیں بولتے ۔ ۔ ۔‘‘ لیکن بچپنے والی ضد نجو کی شخصیت کا دوسرا حصہ بن کر ہر وقت اس کے دل میں بھرپور طریقے سے گونجتی رہی، یہ گھر کے لوگوں کو بہت بعد میں سمجھ میں آیا۔ نجو تو سب جانتی تھی۔ اسی کا کھیلاتھا سب، اسی کا کیا کرایا۔

لال جوڑا نکال کر نجو اسے بے ترتیبی سے الٹنے پلٹنے لگی۔ ایک سرشاری کے ساتھ۔ اسے شادی کرنے کا خیال چڑھاتا تھالیکن شادی کا جوڑا اس کے دل میں نہ سمجھ میں آنے والی ایک خوشی کا احساس پھونک دیتا تھا۔ نجو کاجی چاہتا، لال جوڑا پہن کر خوب ناچے اترائے، مگر امی کا ساتھ نہ چھوٹے کبھی۔ اس کا امی سے لگائو اس قدر بے پناہ تھا کہ اس کے بھائی فکر کرتے، ’امی، مانا اکلوتی ہے، مانا سب سے چھوٹی ہے، مانا ابو نہیں اب، لیکن اس کا آپ سے ایسا لگائو ٹھیک نہیں، اتنی ڈھیل دیتی ہو، ضدی ہورہی ہے۔ ‘ امی باورچی خانہ میں سالن پکاتے ہوئے ٹھٹک جاتیں، رک کر اپنے تین جوان لڑکوں کو دیکھتیں اور ان کا دل بڑھ جاتا۔ اپنے شوہر کے جانے کا غم آدھا ہوجاتا۔ لڑکے ان کے تینوں سمجھدار تھے۔ ان کے پیار کے پپو، گڈواور راجا۔ پپوکو تو اس کے ابو کے انتقال کے بعد انھیں کے آفس والوں نے، وہیں ڈرائیور رکھ لیا تھا، جہاں وہ خود تھے۔ پپونے اپنی جان پہچان کی بدولت گڈو اور راجا کو بھی پرائیویٹ گاڑیوں پر لگوا دیا تھا۔ کل ملاکر تینوں دس بارہ ہزار کی آمدنی ہر مہینے کرلیتے تھے۔ ابھی سب ٹھیک تھا۔ امی جانتی تھیں ، دلہنوں کے آنے پر سارے معاملے دوبارہ جمانے پڑیں گے۔ نجو کی شادی بھی چار پانچ سال میں کہیں کرنی ہوگی۔ ان کے جگر کا ٹکڑا تھی وہ، لیکن زندگی بھر اپنی چھاتی پر تھوڑے بچھاکر رکھ سکتی تھیںاسے۔ بے پناہ لاڈ تھا اس کا اس گھر میں۔ شاید اسی وجہ سے تھوڑی ضدی ہوگئی تھی وہ۔ لیکن امی جانتی تھیں، لڑکیاں بارہ تیرہ سال کی ہوئیں نہیں کہ خود ہی سنبھل جاتی ہیں۔ عقل نہ جانے کیسے ان کی ساری ادائوں ، عادتوں کو چیرکر، ان کے ذہن میں گھس جاتی ہے ۔ پھر انھیں ٹھیک سے دوپٹہ لپیٹنے کو کہنا بھی نہیں پڑتا ہے۔ تھوڑا سا ڈھلکا اور لڑکیاں اپنے آپ ہی چوکنا ہوکر اپنی چیزوں کو سنبھالنے لگتی ہیں۔ امی بھی اسی راستے بڑی ہوئی تھیں۔ اسی طرح دوپٹہ سنبھالنے سے لے کر نماز کی پابندی اور سالن پکانے کا ہنر سیکھا تھاانھوں نے۔ امی اپنے جوان بیٹوں کی فکر کی وجہ سمجھتے ہوئے بھی اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتی تھیں۔ کیا کرنا ہے؟ اَکُوا کے جنگلی جھاڑکی طرح بے قابو ڈھنگ سے بڑھنا ہے لڑکیوں کو، وہ بڑھیں گی ہی کچھ سال اور۔ پھر کہاں چہکے گی نجو اُن کے اِس گھر میں، اسے تو پھیلنا ہوگا کسی دوسرے کی اوٹ میں۔ پوری کی پوری اوٹ میں۔ امی کے اوپر سوچ سوچ کر گھبراہٹ طاری ہو جاتی۔ ان کے میاں نے تو پردہ نہیں کرایاان سے، برقعہ ورقعہ کچھ نہیں ، بس چادر سے ڈھکا انہوں نے اپنے آپ کو، مگرکیا جانے نجو کی سسرال والے کیسے ہوں؟

امی آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراکربیٹوں کو راحت کی بدلی سے بھگودیتیں۔ ’میں ہوں نا۔ ۔ ۔ ‘ کی طرز پر۔ لڑکے امی کا مان رکھتے تھے۔ محنت کش اور کام کاجی تھے ، غیر ضروری حیل حجت سے دور رہتے تھے۔

امی کو سالن بناتے بناتے اپنی بہت دیر سے غائب بٹیا کی یاد آئی۔ امی جانتی تھیں کہ گم بیٹیوں سے گھر ہمیشہ ہی ہولناک اور غمگین ہوجا یا کرتے ہیں۔ ان کے گھر کی پھدکتی چڑیا انھیں ہمیشہ زندگی کے خوبصورت معنی بتاتی تھی۔ اس آواز کے بغیر ان کو ویرانی گھیرنے لگی۔ انھوں نے اپنے چاروں طرف یونہی بن گئے مکڑجالوں کو ہٹاہٹا کر صاف کیااور چلائیں، ’نجو۔ ۔ ۔ نجو۔ ۔ ۔ نجو!‘

نجو بھی لال سوٹ ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پائی تھی کہ محسوس ہوا امی کی آواز کہیں دور کسی پہاڑ کی ترائی کو پکارتی ، گونجتی سی اس تک پہونچی۔ نجونے نہ پہاڑ دیکھے تھے نہ ترائی۔ اس نے گائوں اور کھیت بھی ٹھیک سے نہیں دیکھے تھے۔ اس کی آنکھوں کے دائرے میں تو اس شہر کی پوری حد بندی بھی نہیں بندھ پائی تھی۔ اس کے لیے راجیو نگر محلے سے تھوڑی دور بنا اس کا یہ آدھا پکا اور آدھا کچا گھر ہی اس کی پوری دنیا تھی۔ کبھی کبھی بس وہ شہر کی سیر کو نکلتی تھی، جب بھائیوں کی ڈیوٹی ختم ہوجانے کے بعد بھی گاڑی ان کے ہاتھوں میں رہتی تھی۔ بھائی اسے پیارسے شہر میں گھمالاتے تھے، ورنہ امی کا ہاتھ پکڑکر وہ محلے اور رشتہ داروں میں جانے تک کو ہی اپنا جہان ناپنا مانتی تھی۔

امی کی آواز کا ٹوٹ ٹوٹ کر اس پر آنا، اسے نہ جانے کیوں دہلاگیا۔ اس نے چونک کر غرارا ہاتھ سے گرا دیا۔ غرارا ہاتھ سے چھوٹتے ہی ایک کڑاک کی آواز ہوئی اور آواز کے ساتھ امی کے تیزی سے نزدیک آتے قدموں کی تھاپوں کی جادوئی جگل بندی ہوئی اور وہ نجو کی دنیا میں اچانک ہی کئی جانکاریوں کے ساتھ داخل ہو گئے۔ ’ارے نجوووو۔ ۔ ، یہاں اندھیرے میں کیا کررہی؟ارے کیا توڑا؟اللہ یہ لڑکی نہ جانے کیا گل کھلائے گی؟ارے کہاں مرگئی؟‘ نجو نے پہلی بار اپنی زندگی میںامی کو بیگانی امیوں کی طرح بولتے دیکھا۔ پہلی بار امی کے ہاتھوں کے نرم خرگوش پن کے بدلے کچی کیری کے چٹخنے کا مزہ لیا اور امی کی اس ٹوٹی ہوئی زمین دوز چیز کے اٹھانے پر جانا ، امی کی برسوں سے چھپائی اس اکلوتی چیز کا اس نے نقصان کر دیا تھا۔ اسی دن نجو نے اپنی زندگی کا پہلا دکھ بھرا گیت اپنے دل میں بجتے ہوئے سنا۔ دکھ دل میں اتنے نچوڑ پیدا کرکے آنکھ کے راستے بہتا ہے، یہ بھی نجو نے جانا اس دن ۔ دکھوں کے اتنے سارے زاویوں کے وجود میں آنے کے باوجود نجو نے سمجھا ’امی کا غصہ لازمی تھا اس دن۔ ‘ اس نے اندھیری کوٹھری سے گھسٹتے ہوئے چوندھیاتی روشنی میں پٹخے جاتے ہوئے جانا کہ اندھیرے کے بعد اگر آنکھیں آرام سے کھولنے کے بجائے ہڑ بڑی میں کھول دی جائیں تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ لگتا ہے آنکھوں میں کیلیں ٹھک رہی ہیں۔ انھیں سب دکھ اور جانکاریوں کے درمیان، بتایا تھا امی نے، بار بار دکھا دکھا کر، کیسے اس نے اپنے ابو کی اکلوتی تصویر کا فریم اور کانچ، اپنے کھیل کی خاطر پٹخ کر توڑ دیا تھا۔ اسی دن تو دیکھا تھا اس نے، ابو اس کے کتنے کالے تھے۔ لمبی بھوری داڑھی والے کالے کالے۔ اس نے اپنے نئے کمائے دکھوں کے بیچ ایک چھوٹی سی خوشی محسوس کی تھی، ’وہ ابو جیسی نہیں، وہ تو اپنی امی جیسی گوری خوبصورت ہے۔ ‘ اس نے روتے روتے پیارسے امی کے ہاتھوں سے ابوکی تصویر لے لی اور امی کے ہاتھ خالی کر دیے۔ اب امی کی گود تھی اور امی کے ہاتھ، جسے اس نے اپنے چاروں طرف لپٹوالیا اور انھیں گزرے ہوئے کل سے آج بنا کر، پھر سے بامقصد بنادیا۔

’ارے پگلی۔ ۔ ۔ !‘ امی کی آواز تھی یا سسکی ۔

’ایک ہی تو فوٹو تھی تیرے ابو کی، اب اس میں دوبارہ فریم جڑوانا پڑے گا۔ ‘

’امی‘ اس نے سب کچھ پرے دھکیلتے ہوئے اپنی عمر اور اس عمر کے معصوم تجسس سے پوچھا تھا ، ’تم نے ابو کی تصویر بکسے میں کیوں بند کررکھی تھی، یہاں دیوار پر کیوںنہیں لٹکائی، ان تصویروں کے ساتھ؟‘اس نے ’مکہ مدینہ‘ کی کالی فائبر پر کندہ روشن تصویروںکو دکھاتے ہوئے پوچھا تھا ۔ یہاں تو ان کا کچھ نہیں بگڑتا اور ہم روزابو کو دیکھتے، ان کے یہاں نہ ہونے پربھی۔

’نہیں ۔ ۔ ۔ !‘ امی کی اداسی گہری تھی۔ نجو اس پار جاکر نہیں دیکھ پائی، اس وقت وہ بہت چھوٹی تھی۔

ضد کرکے کچھ اداسی کی پرتوں کو پھلانگتے ہوئے نجو نے پوچھا، ’’امی کیوں نہیں ؟‘‘ امی سوچ میں پڑ گئیں، انھیں لگا کیا سمجھائیں ابھی اسے؟ ان کے اندر کا یقیںپختہ تھاہی، سیکھ لے گی لڑکی ذات زندگی کے سب قاعدے، پابندیاں، روزہ، نماز، سب جلد ہی۔

انھوں نے آہستہ سے نجو کو گود سے اتارا۔ اس کی فراک کھینچ کر اسے گھٹنوں سے نیچے کرنے کی ناکام کوشش کی اور سمجھ گئیں، فراک اب نہیں کھنچ پائے گی۔ لڑکی بڑی ہوگئی ہے، جلد شلوار قمیص پہنانا پڑے گا۔ ٹانگیں تو ایسی لمبی اور چکنی ہوتی جارہی ہیں اس کی۔ رنگ بھی ماشاء اللہ کھلتا گندمی تھا اور موٹی کالی آنکھیں تھیں۔ بال بھی خوب لمبے اور کالے تھے۔ لمبی چوٹی پیٹھ پر پھدکتی رہتی تھی۔ آنکھوں کا کجراراپن سانپ بن کر لوگوں کو ڈستا رہتا تھا۔ تبھی ان کی دیورانی نے پہلے ہی کہہ دیا تھا، ’باجی نجو ہمارے یہاں ہی آئے گی۔ لڑکے تو اس خاندان کے لٹے پٹے دِکھے ہیں، اس لڑکی سے ہی رونق ہوگی۔ نسلیں سدھریں گی۔ ‘ امی اپنی دیورانی کی شوخی کے اندر چھپی سنجیدگی سے بہت پہلے سے باخبرتھیں۔ سوچ سوچ کر ان پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی کہ ان کی لاڈو کی، ایسی گمبھیر ساس کے ساتھ کہیں سانس تو نہ بند ہو جائے گی؟اوپر سے ’ہاں‘  بولتے ہوئے وہ ہمیشہ ’نہ‘ ہی مانتی تھیں۔ ایک دوبار انھوں نے اپنے تینوں جوان لڑکوں سے کہا بھی تھا، ’نجو کا رشتہ خاندان سے باہر ہی ٹھیک رہے گا۔ ‘ لڑکوں نے ایسی بات پر توجہ دینا بند کر دیا تھا۔ وہ جانتے تھے اپنی نجو کے بارے میں تمام باتیں امی اور صرف امی طے کریں گی، پھر بول وہ چاہے کچھ بھی لیں۔

اگلے دن امی نجو کو گھر میں کھیلتا چھوڑکرسخت گرمی کو نظر انداز کرتے ہوئے ’اگروال اینڈ سنس‘ کی دوکان پہونچیں۔ وہیں سیٹھ کی دوکان پر ان کا کھاتہ چلتا تھا۔ سیٹھ امی جیسے کھاتے داروں کو دیکھ کر خوشی سے جھوم جاتاتھا ۔ اس چھوٹے شہر میں اس کا دھندہ انھیں لوگوں کی بدولت چلتا تھا، جو فوری طورپر ادائیگی نہ کرتے ہوئے مسلسل ادھار پر رہتے تھے۔ اس سے گاہکوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوتی تھی اور بھلے ہی فوراً کا نقصان اس کی چھاتی کو دھوبی پچھاڑ سا کوٹتا تھا ، پھر بھی وہ مستقبل کے امکانات کی بارش سے، بے فکر ہوجایا کرتا تھا۔ ’جائیں گے کہاں یہ سارے؟‘ آج نہیں تو کل اس کا ادھار ادا کریں گے ہی، ورنہ پولیس اور پارٹی کے سیوک سب اس کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔ دونوں جگہ وہ اچھا ٹیکس دیتاتھا۔ اس کا شمار بڑے دوکانداروں میں تھا ۔

’بولو کیادیکھنا ہے؟‘ اس نے آواز میں چاشنی گھولی۔ امی کو سیٹھ ٹھیک نہ لگتے ہوئے بھی معقول لگتا تھا۔ ان کی کئی ایک ادھاریوں کے وقت بھی سیٹھ کی چاشنی کم نہیں ہوتی تھی۔ ایک تو ادھار کی فکر، اس پر اگر دوکاندار بدتمیزی سے بات کرے تو اپنے مفلس ہونے کا سچ بے نقاب ہونے کے لیے دھمکاتا تھا اور چونکہ امی فی الحال مغالطوں کو پوسنا چاہتی تھیں، اس لیے مہنگی لیکن میٹھی چاشنی سے ہی وہ بار بار واسطہ بنائے رکھنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے ایک چھوٹے لال پھولوں والے بسکٹی رنگ کے تھان پر ہاتھ رکھ دیا، ’بھیا اس میں سے تین میٹر اوراسی پھول سے میچنگ لال جارجیٹ کا دوپٹہ۔ ‘ ’دوپٹہ کتنا؟‘ دوکان کا نوکر چلاکر پوچھنے لگا۔ ’دوپٹہ ڈیڑھ میٹر کر دو۔ ‘  سیٹھ امی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چاشنی گاڑھی کرکے بولا، ’’اچھا بٹیا رانی کے لیے لے رہی ہو؟ تو یہ کاٹن کیوں؟ ایک بنارسی کپڑا آیا ہے ، اس میں سے لے جائو ۔ ابھی تو شادیاں بھی آرہی ہیں، جچے گی لڑکی اس میں۔ ‘  ’اے لڑکے ۔ ۔ ۔ دکھاان کو نیا والا بنارسی کپڑا۔ ‘ سیٹھ کی چاشنی جھاڑو کی پھٹکار میں بدل گئی تھی۔ امی کو برا نہیں لگا۔ سیٹھ نے امی کا رتبہ نوکر سے اوپر رکھا تھا۔ امی نے بنارسی کپڑے کے تھان پٹخنے کے انداز میں نوکر کی چھپی نافرمانی کو تاڑ لیا۔ ’ارے بھیا ٹھیک سے دکھا‘ انھیں سیٹھ کی چاشنی کا بھروسہ تھا۔ نوکر دوبارہ جھڑکیوں کے درمیان پیروں کے گھٹنے موڑکر بیٹھ گیا، خالص پیشہ ور انداز میں۔ اسے جذبات سے پرہیز کرنے کا سبق بچپن سے بال گھٹی میں گھول گھول کر پلایا گیا تھا۔ ’یہ لو۔ ۔ ۔ کون سا۔ ۔ ۔ دیکھو ۔ ۔ ۔ !‘ امی کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ ’ کیا خوبصورت چمکیلے رنگوں کے کپڑے تھے سارے!‘ سب پر زری کا تانا باناتھا۔ کپڑے کے اندر سے سنہرے پھول اُگ آئے ہوں جیسے۔ انھیں پیلے رنگ والا تھان سب سے عمدہ لگ رہا تھا۔ انھیں لگ رہا تھا اس ہلدی پیلے پر ُاگے یہ سنہرے پھول ان کی گندمی رنگ کی بٹیا پر جب کھلنے لگیںگے تو کیسی پھلواری سی مہک جائے گی۔ ان کی حسرت پوچھ بیٹھی، ’یہ تو مہنگا ہوگا؟‘

’ نہیں ۔ ۔ ۔ بنارسی ہے لیکن اس کے کے آدھے داموںپر۔ ‘ تسلی دینے سے امی کی ہمت بندھی، ’بنارس والے اب ہم جیسوں کے لیے بھی کپڑا تیار کرنے لگے!‘ انھوں نے پیلے بنارسی تھان سے بھی تین میٹر کپڑا کٹوایا اور مٹھی میں بھینچے ایک پرانے سے بٹوے سے دو سوروپئے نکال کر سیٹھ کی طرف بڑھادیے، ’دوپٹا بھی میچ کروادینا اور اگلے مہینے کے کھاتے میں پیسہ لکھ لینا۔ ‘ سیٹھ نے پیسوں پر جھپٹامارا، باقی کے آگے لکھا تین روپئے اور، اپنا کام ختم کرنے کے بعدکی حالت میں اپنا منہ ٹیبل کی درازوں میں گڑا دیا۔

امی بھی نیلی پنّی میں سمٹے اپنے سامان کو لے کر دوکان سے باہر نکلیں۔ ان کے دل میں آیا کہ کاٹن کا سوٹ وہ خود سل لیں، مگر بنارسی والاشکیلہ درزن کو دیں۔ کیا بہترین لیڈیز سوٹ سلتی تھی۔ ابھی حال ہی میں امی کا ایک سوٹ سلا تھا اس نے ۔ اپنے سوٹ کو یاد کرکے امی کو عجیب سی شرمندگی گھیرنے لگی ۔ انھوں نے ایک الٹی سانس کھینچی۔ اتنے برس سے ساڑی کے علاوہ کچھ نہیں پہنا تھا انھوں نے ، لیکن ادھر کچھ عرصہ پہلے ان کے بڑے بیٹے پپو نے نماز کے بعد مسجد میں ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا، ’امی مولوی صاحب کہہ رہے تھے عورتوں کو نماز پڑھتے وقت شلوار قمیص پہننا ہوگا۔ ساڑی میں ننگاپن ہوتا ہے۔ ‘امی عمر کے اس پڑائو پر بیٹے کے منہ سے ایسی بات سن کر ہل گئی تھیں۔ پچپن کی عمر میں ساڑی کے باہر ان کا پیٹ بالشت بھر نظر بھی آجاتا، تو کیا نظر آتا وہاں؟ جھانکتی، چھپتی، کچھ سفید پھٹی لکیریں اور جھولتی ڈھیلی چمڑی؟وہ کیا کسی کی بھی آنکھوں سے دیکھنے پر برہنگی ہوتی؟ وہ تو اتنے بچوں کو پیٹ میں رکھنے کا نتیجہ تھا بس۔ لیکن محلے کی زیادہ تر عورتوں نے مولوی صاحب کی بات کا لحاظ رکھتے ہوئے اب نماز پڑھتے وقت شلوار کرتے پہننے شروع کر دیے تھے۔ امی کے اندر کچھ خوف کاادھ کچرا ہنگامہ اٹھتا۔ کہیں بات نہ ماننے کی وجہ سے انھیں محلہ بدر نہ کردیا جائے، یا کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا جائے تو ۔ ۔ ۔ ؟ لہٰذا بہت جھجکتے ہوئے وہ نماز کے وقت اپنا سوٹ پہن لیا کرتی تھیں۔

شکیلہ درزن نے کپڑا دیکھا تو خوب کھل کر ہنسی۔ ’کیوں نجو کی امّاں، لڑکی کے لیے رشتے آنے لگے کیا؟’

’نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ‘ امی نے مسکراکر شکیلہ کی خوشی کا ساتھ دیا۔ ’اے تمھاری بٹیا تو چندا ہے، کتنے بھی کپڑوں سے ڈھک دوگی، پھر بھی روشنی کھلائے گی۔ اسے سنبھال کر رکھنا ہوگا تمہیں۔ محلے میں لونڈوں کی فوج بڑھتی جارہی ہے ۔ یہ جو ہندوئوں کے لڑکے ہیںنا، یہ آج کل زیادہ ہی چڑھ بڑھ گئے ہیں۔ ویسے بھی لڑکی ذات کے لیے زمانہ خراب ہے، کیا ہندو کیا مسلمان؟‘ یہ سب سن کرامی نامعلوم سی بدخیالیوں میں غرق ہوگئیں۔ ’ابھی تو پانچویں میں ہے، آٹھویں تک سگائی کر دوںگی اس کی۔ ‘ انہوں نے طے کیا اور شکیلہ کو کپڑا کم پیسوں میں سلنے کی دھونس دے کر گھر چل پڑیں۔

سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ امی کومحسوس ہواکہ وہ کہیں چلتے چلتے پگھل نہ جائیں۔ انھوں نے اپنی ساڑی کا کونا سرکے اوپر کھنچ کر سر ڈھانپ لیااور تیز قدموں سے چل پڑیں۔ ان کی چال کی وجہ سے ہلکے رنگ کی ان کی ساڑی بھی ہوا میں پھدر پھدرشور کرتے ہوئے اڑتی پھری۔ امی کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا جب مولوی عثمان علی ان کے سامنے پڑ گئے۔ امی کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئے اور سلام کے بعد امی کو روک کر بات کرنا شروع کردی۔ امی کی نظریں چور ہوگئیں۔ وہ مولوی عثمان علی کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے اپنے بے لباس پیٹ پر جاکر چھپ گئیں۔ مولوی صاحب اپنی دھاردارآواز میں پان تھوک کر کہہ رہے تھے، ’ زمانہ بڑا خراب ہے بی بی، لڑکوں بچوں کو سنبھالنا ہوگا۔ یہ ٹی وی، سنیما کی بدولت سب کچھ۔ ۔ ۔ !اب ہم کتنی تقریریں کریں، جب گھروالے نہیں سمجھتے تو بچوں کو کیا سمجھا یا جائے؟ جوان لڑکوں نے مسجدوں میں آنا بند ہی کردیا۔ اب تو صرف جمعہ کے دن مسجد بھرتی ہے، ٹھیک نہیں سب۔ مولوی نے خفگی آمیز مایوسی سے اپنی لمبی بھوری داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ امی کے سینے میں کیا کچھ برابر ہونے کو مچلنے لگا۔ انھیں مولوی عثمان علی کی باتوں سے پیدا ہوئی ہلچل ناگوار لگ رہی تھی۔ انھوں نے ’جی ، جی کرکے مولوی کے پار جانا چاہا۔ یہ لو ۔ ۔ ۔ مولوی عثمان علی نے ان کے لیے راستہ بنایا اور ساتھ ہولیے۔ وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے امی کہہ اٹھیں، ’میرے لڑکوں کو تو مولوی صاحب جب بھی ڈیوٹی سے فرصت ملتی ہے، نماز کی پابندی کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ چاہے کہیں ہوں۔ ‘

’تمھارے لڑکوں کی بات نہیں کررہا ہوں میں، زمانہ کی کررہا ہوں۔ بی بی- پیسہ!‘مولوی نے پراسرار اندازمیں آواز دھیمی کی، ’شہر کے سارے سیٹھوں کا پیسہ تو ہندوئوں کے تیوہاروں میں پھونکا جا رہاہے۔ اب مسجد کے پاس ہی دیکھ لو’نو درگا سمیتی‘ بناکر بیٹھ گئے ہیں، یہ تو ساری تنگ کرنے والی باتیں ہیں نا۔ لونڈوں کی فوج ہے، وہیں گانا بجانا کریں گے، شور مچائیںگے اور ہماری نماز میں خلل ڈالیں گے۔

‘ ’جی، اچھا۔ ‘ امی نے ٹالنے کی غرض سے ایک ٹکڑا جواب دے ڈالا، لیکن مولوی کہاں ماننے والے تھے – جاری رہے، ’اس بار محلہ کا وہ جوان چھوکرابن گیا ہے، سمیتی کا کرتا دھرتا ، آوارہ کہیں گا۔ ‘

’کون؟‘امی نے ابروؤں کے سوالیہ انداز سے معلوم کرنا چاہا۔

’ارے وہی تمھارے محلے والا۔ وہی جس کا باپ اپنے فاروق میاں کے ساتھ والی دوکان میں پھل لگاتاتھا۔ کتنا بھلا آدمی تھا اس کا باپ۔ فاروق اور اس کی کیسی گُھٹتی تھی۔ اب اس کے لونڈے کو دیکھو ، کچھ کیا کرایا نہیں، بس اسی کرنے میں لگے ہیں۔ فضاخراب کرتے ہیں یہ بی بی۔ ۔ ۔ ‘

امی کی چور نگاہیں اب ان کے من کے بھیتر گھس گئیں۔ جس لڑکے کی بات مولوی کر رہے تھے، انھیں وہ لڑکا کچھ برس پہلے تک بڑا پیارا لگتا تھا ۔ نجو کے ابا سے اس لڑکے کے ابا کے اچھے تعلقات تھے۔ گھر آنا جانا بھی تھا۔ گزرے زمانے کی باتیں تھیں سب، اب کہاں۔ امی نے ایک شرمندہ سانس کو آزاد کیا۔ لگتاتھا ان کے اس چھوٹے سے قصبہ نما شہر کا پورا سماج ہی بدل گیا تھا۔ پچپن میں اس لڑکے کو کئی بار پچکارا تھا انھوں نے، کیسے گلابی ہونٹ تھے اس لڑکے کے، ایک دم لڑکیوں جیسے نرم۔ ہاں، امی کو اس کا نام پسند نہیں تھا، اتنا لمبا اور زبان گھمائوں نام تھا۔ ’اَچُیِتانند گوسائی‘ ان کے گھر کے پاس والے خالی پلاٹ میں کھیلتا تھاوہ۔ محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ۔ اکثر ٹولی بنا کردرگااُتسوکا چندہ لینے آتا تھا ان کے یہاں۔ بس یہی کوئی پچھلے دو سال سے یہ چندہ مانگنے کا سلسلہ، یونہی ٹھپ ہو گیا تھا۔ حالانکہ امی کو چندہ مانگنے والوں سے پریشانی ہوتی تھی، لیکن چندہ مانگنے میں اچانک آئی تبدیلی برسوں سے چلے آئے ایک سلسلے کو کرخت آواز سے توڑتی تھی۔ اس کا تیکھاپن سوئی جیسی تیز چبھن کے ساتھ ایک نئے اگ آئے زخم کی طرف اشارہ کرتا تھا، جسے امی کا دل آسانی سے قبول کرنے کو راضی نہیں ہوتا تھا۔ ان کے بچپن کے زمانہ کے شہر سے کتنا بدل گیا تھا، آج کے زمانے کا شہر۔ ان کے زمانے سے تو کہیں زیادہ بدل رہے تھے مسلمان، پڑھنا لکھنا، نوکری سب میں اضافہ ہو گیا تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک نہ سمجھ میں آنے والی سختی بھی مسلمانوں کے اندر ہی اندر پکتی جارہی تھی۔ اس پکنے کی تاثیر کا اثر ادھر اُھر ہر جگہ ہونے لگا تھا۔ مسلمانوں کے اندرون سے مختلف، ہندوئوں کے اندرون میں بھی۔ امی کے گھر ان کے لڑکے آکر دنیا جہان کی ساری باتیں بتاتے تھے۔ وہ بڑی پارٹیوں کو ٹور پر لے جاتے تھے ، کبھی آگرہ، دلی، میسور۔ وہاں کی باتیں، وہاں کی عمارتیں۔ لال قلعے سے تاج محل تک سب دیکھتی تھیں امی لڑکوں کی باتوں میں، وہ سیاست اور نیتائوں کی بہت سی باتیں بھی سمجھنے لگی تھیں، لڑکوں، ٹی وی اور اخبار کی بدولت۔ وہ جانتی کم تھیں اور سمجھتی زیادہ تھیں۔ ’بچ کے رہنا‘ان کی زندگی کا فلسفہ بنتا جا رہا تھا۔ جب بلا وجہ ہی لوگوں کی نظریں بدلنے لگیں، پلٹنے لگیں، اپنے برسہا برس کے رشتوں کی گرمی گھل کر بہہ جانے سے، توجسم کو ڈھانپ کر، دل کوباندھ کر، سمٹ جانا ہوتا تھا، اپنے اپنے میلے دربوں میں، اپنی طرح نقوش والے بہت سارے بکروںکی طرح۔ ڈرتے، لیکن ایک ساتھ ہونے ہونے کے نقلی حوصلوں سے جیتے جلاتے۔ نہ جانے دربوںکے باہر کون کھڑاہوجھٹکے کے گوشت کے انتظام میں۔ مولوی عثمان علی کی باتیں ناگوار ہوتے ہوئے بھی وقت کے سچے ضروری گھنٹے بجاتے ہوئے فضا میں دھیمے سے بار بار بہنے کا احساس کراتی تھیں۔ ان کا جی چاہتا اس موئے کو یہاں سے کہیں بھگادیں، یہ انسان ان کے اندر کی کشاکش کو اور بڑھاتاتھا۔ ’خدا حافظ‘ بولنا چاہا لیکن رک گئیں۔ بچپن سے ایسے ہی بولتے آئی تھیں، لیکن ادھر لڑکوں کے کہنے پر ’اللہ حافظ‘ کہنے میں آنے لگا تھا۔ ’اللہ‘ اپنے ہونے کا احساس ایک بھاری پن سے کرواتاتھا۔ سماج میں لوگوں کو اب ’خدا‘ لفظ کی خوشنمائی سے زیادہ بھاری پن پسند آنے لگا تھا، لہٰذا جی مار کر شلوار قمیص کے ساتھ ’اللہ حافظ‘ بھی ان کے وجود میں چل نکلا تھا۔ انھوں نے آواز میں پورا ٹھہراؤپیدا کرتے ہوئے ’اللہ حافظ‘ کہا۔ مولوی عثمان علی کو یوں ٹرخادیا جانا اچھا نہیں لگا۔ وہ شکایت کرنے لگے، ’اے کیا، مجھے لگا چائے پلوائوگی؟‘ ’اوہ!‘ امی کا بہانہ اثر دار تھا ، ’ابھی منڈی جانا ہے، سبزی ختم ہے۔ ‘

’اچھا ااا۔ ‘مولوی نے ہوا میں مایوسی ٹانگنے کی کوشش کی، لیکن امی پر اس کا ایک حصہ بھی نہ کھل پایا۔ وہ مولوی کو اپنے ہی گھر کے دروازے پر واپسی کا راستہ بتا، اندر گھس چکی تھیں۔

یہ ان کا باہر کا کمرہ پکی سیمنٹ کا بن گیا تھا اوراس کے ساتھ لگاپپوکا کمرہ۔ ان کا خیال تھا کہ آہستہ آہستہ تین کمرے تو پکے کروا ہی لیں گی۔ تین لڑکوں کی تین دلہنوں کے واسطے۔ نجو تو ’انشاء اللہ ‘ سسرال چلی جائے گی ہی۔ رہی بات ان کی تو ان کا کیا، باہر کے کمرے کے ایک کونے میں ان کا پلنگ بچھ جایا کرے گا۔ ’اللہ‘ کا شکر تھا، نجو کے ابا کے یوں ہی اچانک اٹھ جانے کے بعد ، برے حالات اب آہستہ آہستہ اچھے ہورہے تھے۔

’نجو ۔ ۔ ۔ نجو۔ ‘ انھوں نے پکارا۔ نجو امی کا لایا ہوا لال دوپٹا سرپر ڈال کر اترانے لگی۔ امی نے جھٹ بلائیاں لیں۔ اس لڑکی کے بڑے ہونے سے خطرے بڑھتے جارہے ہیں ۔ انھوں نے طے کیا کہ ڈھیلے سے ڈھیلا کرتا سلیں گی اور شکیلہ درزن کو بھی کل جاکر ہدایت دے آئیں گی۔

محلے کے لڑکوں کی ٹولی نجو کے گھر کے پاس والے خالی پلاٹ میں روز ہی دھمال مچایا کرتی تھی۔ ادھر امی نے نجو کووہاں جاکر ان کے ساتھ کھیلنے سے منع کردیا تھا، کیونکہ وہ روز ہی شکل سے پٹی ہوئی واپس آتی تھی، ورنہ تو نجو روز وہاں کرکٹ کے کھیل میں حصہ لیا کرتی تھی۔ لڑکے اسے دوڑا دوڑا کر فیلڈنگ کرواتے تھے اور اس کے ٹیڑھے میڑھے آڑے ترچھے دوڑنے پر خوب ہنستے تھے۔ وہیں ایک دن اچیتانند گوسائی نے شاٹ مارکر ، بال پکڑنے کے لیے اسے خوب دوڑایاتھا۔ وہیں سب بے حساب ہنستے ہنستے گر پڑے تھے اورنجو اپنی درگت پر گھٹنوں میں سر رکھ کر تھکان اور توہین کے آنسو رو پڑی تھی۔ وہیں پھر اس نے سراٹھایا تھا، گھٹنوں کے درمیان سے، وہیں اچیتانند گوسائی کا پہلا تعارف ہواتھا، دو دہکتے ہوئے اناروں کے ارد گرد ڈستے سانپوں سے۔ وہ یکایک سہم گیا تھا، پھر ایک نہ سمجھنے میں آنے والی اداسی میں دھیرے دھیرے ڈوبنے اُبرنے لگاتھا۔ اسے زور کا رونا آ رہا تھا۔ اس کا جی چاہا، نجو کے گال پر چپکے ان اناروں کو نوچ کر پھینک دے۔ وہ اتنے لال کیوں تھے؟ اس کے جی میں آیا نجو کی آنکھیں ہی پھوڑدیں، وہ اتنی کالی کیوں تھیں؟ وہ اسے اتنی چوٹ کیوں پہنچارہی تھیں؟ اس نے آنکھیں بند کرلیں، اور جب انھیں دوستوں کے ہلانے پر کھولا تو دیکھا نجو غائب تھی۔ اسے لگا سامنے کا منظر پورا خالی ہوگیا ہے۔ اس دن کے بعد سے نجو نہیں آئی اُس خالی جگہ کو بھرنے ۔ اس جگہ کا خالی پن اچیتانند کے دل میں کبھی نہ جانے کی دھمکی کی طرح بیٹھ گیا۔

ایک سال بڑے ہونے میںبیت گیا۔ اچیتانند کی مسیں بھیگ گئیں۔ آواز پھٹ کر مردانہ ہوگئی، اس کے کپڑے چھوٹے ہوگئے ، اس نے خالی پلاٹ پر کرکٹ کھیلنے جانا بند کردیا۔

اچیتانند کو دو متوازی ستاروں نے ایک ساتھ دبوچ لیا۔ باپ کی ناوقت موت نے اسے پھل والی دوکان پر بیٹھنے پر مجبور کرکے، اس کی ساری آوارگی اور آزادی پر لگام کس دی اور اس کے اندر مسلسل بڑھتے خالی پن نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔

ایک دن دوکان میں اداس بیٹھا تھا ، جب پارشد(کاؤنسلر) شری رام موہن اس کی دوکان پر آئے اور اس کے بھیا سے کہنے لگے ، ’لڑکے کو کہاں الجھا رکھا ہے؟‘ارے ہمارے ساتھ لگادو ، کچھ پارٹی کا کام سکھائیں گے، یہاں تو پیسے کا حساب کرتے کرتے یہ بھری جوانی میں بوڑھا ہوجائے گا۔ ‘  بڑے بھائی کو کاروبار کے علاوہ کچھ خاص سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس نے جذباتی اندازمیں ہاتھ جوڑکر کہا، ’لے جائو صاحب ، آدمی بنائو اسے، میں اپنی مدد کے لیے کوئی لڑکا رکھ لوںگا، مگر اسے تو آپ اپنے ساتھ رکھ کر کچھ بناہی دو۔ ۔ ۔ ‘ پارشد رام موہن ہنسے، ’ہاہا۔ ۔ ۔ چل بے اٹھ، آج ہی سے میرے ساتھ چل۔ یہ پھل کا تھیلا پکڑ۔ ‘ تھیلے میں پپیتے ، چیکو ایک دوسرے کے گھاؤسہلارہے تھے۔ اچیتاجھنجھلاگیا ، اسے پھلوں میں آدمی اور آدمیوں میں پھلوں کا روپ کیوں نظر آتاتھا؟ کئی بار وہ آدمیوں کو پھل سمجھ کر کاٹ ڈالنا چاہتا تھا، پہلے دانتوں سے، پھر ان کے ضدی اور سخت ہونے پر چھری سے۔ اسے ساری باتیں دماغ میں ایک کہرے کے اندر چھٹپٹاتی نظر آتی تھیں۔ باپ کے مرنے پر کہرا اور گھنا ہو گیا تھا۔ مسلسل دوبار فیل ہونے پر اسے اسکول سے نکال دیا گیاتھا۔ ویسے بھی سترہ سال کا لڑکا ساتویں کتنی بار پڑھتا؟ ایک دوسال تو داداگیری میں مزہ تھا، پھر اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔ اچیتانند اپنے لیے معقول ٹھکانوں اور مقصدکی تلاش میں یوں ہی بے وجہ بھٹک رہا تھاکہ شری رام موہن اس کی زندگی میں نمودار ہوگئے تھے۔ اسے وہ خاص پسند نہ تھے۔ موٹے تھلتھل ، تربوزجیسے گال۔ دل میں آتا کہ وہیں چاک لگاکر دیکھے، اندر سے سرخ لال ہے کہ نہیں ۔ آدمی لیکن وہ کام کے تھے ، روپیہ پیسا کمانا جانتے تھے، بے روزگار لڑکوں کو کام پر لگانا جانتے تھے، بدلے میں ان سے جم کر کام لینا بھی جانتے تھے ۔ کل ملاجلاکر لڑکوں کو آگے بڑھاتے ہوئے انھیں مقصد دینا جانتے تھے۔

سب سے پہلے وہ خوب زبردست کھانا کھلاتے تھے ، پھر پینے پلانے کے طور طریقوں کی شروعات بیئر سے ہوتی تھی۔ جب لڑکے ان کے ڈیرے پر بیٹھنے کے عادی ہو جاتے تھے تو ان کی باقاعدہ کوچنگ ہوتی تھی ۔ انھیں دھرم ، ہندوستانی کلچر کے پراثر واقعات سنوائے جاتے تھے ۔ شہر میں یگیہ کا انعقاد ، شہر اتسو سمیتی میں شرکت اور تیوہار پربندھ سمیتی کے کارکن تیار کرائے جاتے تھے۔ بے مقصد لڑکے بامقصد ہوکر، شری رام موہن کے پورے مرید ہوجاتے تھے۔ کوچنگ کے آخری مرحلہ میں ادھر دوسال سے شہر میں ویڈیو ٹیپ اور سادھوئوں کے بھاشنوں کے ذریعہ دماغی شدھی کرن کی کوشش تابڑتوڑ جاری تھی، امید تھی نوجوان لڑکوں کے دماغوں میں بات کا اثر، زیادہ مؤثر ڈھنگ سے ہوگااور یہ شہر کی آب وہوا بدلنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

اچیتانند کا پہلا اسائمنٹ تھا، بھارت پاکستان کرکٹ میچ میں پاکستان کی ہار کے لیے، شہر میں یگیہ کرنا۔ اعلان ہوا، شہر میں مائک رکھ کر آٹو گھمایا گیا، سبھی خاص بازاروں اور اسٹیشن پر بینر لگائے گئے۔ شہر میں ہلّا بولا گیا۔ دیش میں آستھا ظاہر کرنے کی سارے شہریوں سے اپیل کی گئی۔ پارٹی کے سارے نوجوان کارکن اکٹھا کیے گئے۔ شہر کے زیادہ تر لوگ جمع ہو گئے، سب بھارت کی جیت کے لیے پرارتھنا کرنے بیٹھ گئے۔ ٹی وی پر ڈائریکٹ ٹیلی کاسٹ تھا۔ سب نے دیکھا’اووووم سواہا۔ ۔ ۔ اوووم سواہا۔ ۔ ۔ اوووم سواہا ‘کے منتر دوہرانے کے درمیان اچیتا نند گوسائی کا چہرہ دہکنے لگا۔ دیش کے تئیں آستھا کی روشنی جگ مگ کرنے لگی۔ اس کی چھاتی پھول گئی، اتنی کہ منہ پر ہاتھ رکھ کر وہ کھانسنے لگا۔ لوگوں نے دوڑ کر اسے پانی پلایا۔ بعد میں جب بھارت نے پاکستان پر پانچ وکٹ سے جیت درج کر لی تو شہر میں اچیتا نند گوسائی کو کندھے پر بٹھا کر گھمایا گیا۔ کھلی جیپ میں بیٹھے لڑکے بھانگڑا جیسا کچھ بلّے بلّے کرتے چلے۔ اچیتا نند ہیرو کا درجہ پا رہا تھا، شہر والے دیکھ رہے تھے۔

راجیو نگر کے خالی پلاٹ کے بغل والے گھر میں بھی سب نے ٹی وی پر دیکھا۔ وہ چھوکرا جو بال لانے کے لیے اس گھر میں رہنے والی ایک لڑکی کو دوڑاتا تھا، اب محلہ کا ادنی کرکٹ کھلاڑی نہیں رہ گیا تھا، اب وہ بال کے بجائے دیش کی چنتا کرنے والے جوان میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس گھر میں اس خبر کو دیکھنے کے بعد ، بے چینی اور گھٹن کے چولہوں پر الٹے توے پر رکھ کر روٹی سینکی گئی جو عجیب دھواں دھواں سواد سے بھری تھی۔ نجو کا جی چاہا اس سواد کو غسل خانہ میں کہیں تھوک آئے اور پانی سے ہر ہرا کر بہا دے۔ اس کے اندرایک غصہ کا جگنو کٹ کٹ کرنے لگا۔ کچھ بھی کہیں بھی اس دھوائیں سواد سے بے عزت نہ ہو، نہ تخت، نہ کرسی، نہ در، نہ دیوار، نہ غسل خانہ۔ چولہوں کو نئے سرے سے دھو دیا جائے اور دروازے کس کے بند کر دیے جائیں ، جو باہر سڑکوں سے آتے وجے گیت کی تال کو وہیں سڑک چھاپ بنا کر چھوڑ دیا کریں۔ زہر کا رنگ گیتوں کو نشیلا بنا رہا تھا۔ اور۔ ۔ ۔ اور نجو نے اپنے بڑے ہونے کے وقت میں پہلی بار کسی ایسی ضد کا اظہار کیا ، جس کی دلیل امی کی عقل بھی نہ سمجھ پائی۔ ’امی۔ ۔ ۔ پردے لگاؤ موٹے موٹے کھڑکیوں پر۔ بہت دھوپ گرمی اور دھول ہوتی ہے۔ خا ص طور سے خالی پلاٹ کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں ڈھکنی ضروری ہیں۔ لو چلتی ہے وہاں سے۔ ‘

اچیتا نند گوسائی منجھ رہا تھا۔ اس کے بھیتر تک اندرونی الکھ جاگتی جا رہی تھی، جس میں کئی گتھم گتھا اڑچنیں تھیں۔ اس میں کئی طرح کے پھل تھے، پھلوں میں آدمی تھے اور آدمیوں میں پھل تھے۔ اس میں کئی طرح کی گندھ تھیں۔ کئی طرح کی غیر واضح یادداشتوں کا کرب تھا اور ان سب سے بنا ایک سانولا جھٹ پٹا تھا۔ یہ الکھ اور  جھٹپٹے کی جنگ تھی ، جس میں شری رام موہن کی ٹریننگ کی بدولت ، جھٹپٹے کے پار جانے کی ایک پر اعتماد سی طاقت تھی۔ اس کے اندر پہلی بار اس الکھ کا زور ہوا، کچھ ویڈیو ریکارڈنگس دیکھ کر۔ وہ سنّ رہ گیا۔ اس کے سر ہاتھ پیر اکڑ کر اسے گٹھری بنا گئے۔ ’ایک پرانی مسجد تھی کہیں ، کہیں کسی شہر ایودھیا میں ، جو شاید اسی بھارت کے کسی کونے کا حصہ تھی۔ ویڈیو میں بتایا جا رہا تھا ، اس مسجد کی بنیادجھوٹ پر رچی تھی۔ ‘ کمنٹری چل رہی تھی اور مسجد ٹوٹ رہی تھی۔ ’ہمیں نیچ سمجھا۔ ۔ ۔ ڈرپوک سمجھا، ہم پر راج کیا۔ ۔ اب تو اکٹھے ہو جاؤ اور اس مسجد کو ختم کرو، ورنہ نا مرد کہلاؤ۔ یہ سندیش دو ، ہماری قوم نا مرد نہیں اور ان لوگوں کو کہہ دو اس دیش میں رہنا ہے تو یہاں کے بن کے رہیں۔ ‘

اچیتا نند نے جیسے ہی ان لوگوں کو ’یہاں  کے بن کے رہیں ‘سنا، اس کی کنپٹیاں گرم ہونے لگیں۔ اسے کچھ برس پہلے کے دہکتے انار کچ مچ ہو کر بار بار نظر آنے لگے۔ اس کا دھیان بار بار اس خالی پلاٹ اور اس کے برابر میں رہنے والوں پر گھوم گھوم کر جانے لگا۔ ویڈیو ریکارڈنگ اور ان لوگوں میں میل ہی کیا تھا۔ ۔ ۔ ؟پھر بھی!اس نے اپنے جسم کی گٹھری کو کھولاا ور شری رام موہن کے ڈیرے سے باہر نکل آیا۔ باہر شام کا دھندلکا گھرنے کو تھا۔ ایک ست رنگی دمک آسمان میں دھیمی چال سے پسر گئی تھی۔ وہ آسمان اور سڑک کے بیچ پتنگ اور ڈور بن گیا۔ وہ اڑ کر سڑک ناپنے لگا، پہلے بازار ، پھر اسٹیشن، پھر نہ سمجھ میں آنے والی للک سے راجیو نگر، اس کے باہر، اس کے نزدیک کا خالی پلاٹ اور وہ خالی جگہ۔ وہ جا کر اس خالی جگہ کے سامنے بیٹھ گیااور اس نے دیکھا کہ پلاٹ کے آخری سرے پر ایک گل موہر کا پیڑ تیزی سے بڑا ہو چکا تھا اور اس میں لال لال پھول بھی آنے لگے تھے۔ یہ اس کے یہاں سے کچھ برس پہلے چلے جانے کے بعد کا واقعہ تھا۔ کچے پیڑ کے لال پھولوں کو دیکھ کر وہ جوش سے بھر گیا۔ اس نے اٹھ کر پھولوں کے کئی گچھے توڑ ڈالے اور واپس لوٹ کر اس خالی جگہ کو ان پھولوں سے بھر دیا، جس خالی جگہ سے وہ اتنے دنوں تک جڑا ہوا تھا اور جو اس کے اندر کے خالی پن کا نہ ختم ہونے والا سبب بنی ہوئی تھی۔ پھولوں کو سامنے رکھ کر وہ پیر جوڑ کر دھول میں بیٹھ گیااور انجانے رس سے بھیگتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، اس بے سود خیال سے کہ اب اس میں کچھ پرانا لوٹتا ہوا دکھائی پڑے گا۔ لیکن آنکھیں بند کرنے پر اسے کالے بھوتیا منظر دکھائی پڑے، جس میں کسی خوفناک بابر کی شکل تھی، ایک بے ترتیب منہدم مسجد تھی، ہزاروں نئی اینٹیں تھیں اور جن پر مریادا پرشوتم کا نہ مٹنے والا نام تھا، اور ان سب کے ساتھ لاکھوں لوگ تھے جو ان اینٹوں کو سر پر ڈھوئے چلے جا رہے تھے۔ خوب ساری چیخ و پکار کے بیچ ایک جملہ تھا جو کروڑوں حملوں کے برابر دم دار اور رسوخ والا تھا، ’ایک دھکا اور دو۔ ‘

اچیتا نند گوسائی کو شدید قسم کا غصہ آ گیا۔ پچھلے تین چار برس سے جس دماغی کہرے کو شری رام موہن پارشدصاف کرنے میں لگے تھے، وہ اس کے دماغ میں اور گہرا ہو گیا تھا۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ باہر کالا پن تھا، بھیتر اس سے بھی زیادہ کالا پن گھر گیا۔ اچیتا نند اپنی آنکھیں کھوجنے میں لگ گیا۔ خوب طاقت لگا کر آنکھیں کھولنے پر اسے دکھائی دیا ایک غیر مرئی سا دائرہ، اس  کے اندر قید ایک ٹھوس خالی جگہ جسے آج اس نے گل موہر کے لال پھولوں سے بھرنا چاہا تھا۔ لیکن کوئی کمال نہیں ہوا، کچھ مزہ بھی نہیں آیا۔ وہ تمتما کر اٹھ کھڑا ہوا۔ پھول ٹوٹنے پر جلد کمھلانے لگے تھے۔ اس نے اپنے جوتوں میں پیروں کی پوری طاقت بھر دی اور ان پھولوں کو اور مسل ڈالا، پھر خالی جگہ پر ایک کک ماری اور ڈھیر ساری دھول کالے پن کے سائے میں اڑاتا ہوا چل دیا۔

امی ٹھیک سمجھتی رہیں۔ نجو کا بڑھنا کوئی کہاں روک پایا، نہ امی کے ڈھیلے ڈھالے کرتے، نہ چادر کی تہیں، نہ روزہ نماز کی پابندیاں، نہ گھر کی چھتوںاور دیواروں کی محفوظ سرحدیں۔ محلے کے باہر، نجو کے اردو اسکول کے کیمپس کے باہر نجو پر لائن مارنے والوں کی لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں۔ مگر نجو سمجھ دار ہو گئی تھی، بہت سمجھ دار۔ اسے روزہ نماز سے لگاؤ ہو گیا تھا۔ نجو کے طور طریقوں کا مسلمان گھروں میں قصیدہ پڑھا جاتا تھا، اسے ایسے گھروں سے اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ اس کا جی ہو تاتھا، اس کے جی میں مچلنے والی ہزاروں خواہشوں کے باوجود وہ اللہ والی بنی رہے اور راہیں موزوں ہوتی رہیں۔ وہ اب فراک اٹھا کر ناچنے والی لڑکی بھی نہیں تھی، اب تو وہ اپنے سبھی کپڑوں کو سلیقے سے دباکر، منہ پر، سر پر دوپٹا باندھ کر چلتی تھی۔ اس کی سہیلیاں خوب لطف اٹھاتی تھیں۔ گھائل مجنوں اسے دیکھ کر اور گھائل ہو جاتے تھے۔ ایک مجنوں تو روز اپنے بالوں کو پیچھے کی طرف کرتا ہوا، گاتا مل جاتا تھا۔ ’جھلک دکھلا جا، ایک بار آجا آجا۔ ۔ ۔ ‘سہیلیاں ہنستی چلی جاتی تھیں، نجو کو چھیڑتی ہوئیں۔ مست اور خوشگوار سی ہوا ان کے جسموں سے فضا میں بکھر جاتی تھی ۔ ان سبھی کو بڑے ہونے میں خاص مزہ آ رہا تھا۔

ایک دن لڑکیوں نے فیصلہ کیا کہ اسکول سے لوٹ کر ، کپڑے بدل کر بازار جائیں گی۔ اس بار ٹیکری والی مسجد کے پاس نو درگا سمیتی نے بہت عمدہ مورتی بٹھائی ہے۔ مورتی پر بہت خوبصورت کپڑے اور گہنے ہیں اور ساتھ میں بجلی سے چلنے والی کچھ جھانکیاں بھی ہیں۔ لڑکیاں شام کو سج دھج کر چلیں۔ بازار میں لڑکیاں خود روشنی ہو گئیں اور جگ مگ کرنے لگیں۔

ٹھسا ٹھس بھیڑ کے بیچ لوگوں کو قطار بند کرکے، پنڈال کی سجاوٹ اور جھانکیاں دکھائی جا رہی تھیں۔ لڑکیاں بھی قطارمیں بندھ، کِھل کِھل کر آگے بڑھ رہی تھیں۔ ’چلیے ، چلیے، زیادہ ٹائم مت لگائیے، بڑھتے جائیے۔ ۔ ۔ ایک جگہ بھیڑ مت بڑھائیے۔ ۔ ‘والنٹئرلڑکے بولے جا رہے تھے اور لوگ آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ ۔ انھیں ملی جلی آوازوں کے بیچ لوگوں کے کانوں نے سنا ایک خالی بھاری آواز کو’پرساد بھی دیتے جاؤ بھائی۔ ۔ ۔ ‘ نجو کے کانوں نے بھی آواز کے منتشر ریشوں کو اپنے تک پہنچتے ہوئے پایا۔ اسے آواز کا خالی پن اور بھاری پن دونوں کھٹک گیا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے سر پر دوپٹا تھا، اس کا صرف چہرہ دِکھ رہا تھا، بدن پر کپڑوں کی مضبوط تالا بندی تھی۔ آس پاس کھڑے لوگوں نے جھلک بھر دیکھا اور اس ایک جھلک میں جان گئے کہ لڑکی کی عمر زیادہ نہیں، پھر بھی زیادہ لگنے کی تیاری میں تھی۔ اس خالی اور بھاری آواز کے جسم میں اچیتا نند گوسائی کا داخلہ ہوا۔ وہ آواز ہوا، پھر جسم ہوا، اس نے بھی سامنے دیکھا اور اس کے اندر کی دیرینہ تلاش بھڑک اٹھی۔ اتنی بھیڑ کے باوجود اس نے بالکل صاف آنکھوں سے دیکھا ، اسے پھل ہی دکھائی دیے۔ دو دہکتے انار اور ارد گرد ڈستے سانپ۔ کچھ برس پہلے جو اس کی زندگی میں دھمال مچا کر اور پھر روٹھ کر چلے گئے تھے اور جن کے جانے سے وہاں ایک خالی جگہ بن گئی تھی، جو نہ معلوم کیوں آج تک خالی ہی تھی۔ اچیتا نند گوسائی کو ایک چپ لگ گئی، اس نے لوگوں کی قطاروں کو چیرتے ہوئے، بھیڑ کو کنٹرول کرنے والی رسی کے اس پار جا کر، اس لڑکی کے بہت پاس جا کر، پھسپھساتے ہوئے کہا، ’نجو۔ ۔ ۔ نجو ہے نا تو؟‘

مختلف ہلچلوں کے ماحول میں ایک نئی ہلچل پیدا ہو گئی۔ اس ہلچل کا رنگ نہ کالا تھا نہ سفید، اس میں جو شور تھا، اس کی بھاشا کو بھی ٹھیک ٹھیک کھولا نہیں جا سکتا تھا۔ وہ ملی جلی تھی، وہ کچھ نیا بنانے کا اشارہ کرتی تھی، وہ ابھی اَن گڑھ تھی، لہذا گیلی گیلی تھی، اس ہلچل میں پانی کی تھپکی نہیں شور تھا، اس میں تراوٹ نہیں، ایک ابال تھااور شاید اسی لیے لڑکیاں بے جوڑ ڈھنگ سے ڈر گئیں۔ انہوں نے ایک دم گھبرا کر نجو کو آگے کی طرف دھکیل دیا، ’نکل یہاں سے نکل۔ ‘وہ بھوتوں کی بھاشا میں بد بدائیں۔ گرتے پڑتے ، ڈری ڈرائی وہ پنڈال سے باہر ہو گئیں۔ اچیتا نند وہاں ٹھگا سا کھڑا رہا۔

لڑکیوں نے آپس میں ہی اچیتا نند کے اس طرح اچانک نزدیک آنے کی بات کو دفن کر دینے کی قسم لی، ورنہ ان سبھی کے گھروالے باہر اکیلے نکلنا بند کر دیتے۔ ’کچھ مت بتانا یار۔ ۔ ۔ ورنہ بھائی لوگ۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں !‘ نجو نے گمبھیر ہو کر اپنے بڑے بھائیوں کو یاد کیا۔ نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ کسی کو نہیں پتا چلنا چاہیے۔ اسی وقت مولوی عثمان علی کا برابر کی ٹیکری والی مسجد سے اس واقعہ کے، اس ایک لمحہ میں داخل ہو جانا کچھ جنات کے ظاہر ہونے جیسا لگا ان لڑکیوں کو۔ مولوی کی موجودگی نے ان کی بولتی بند کر دی۔ بڑی مشکل سے انہوں نے اپنی آواز کہیں سے ڈھونڈی اور کہا، ’السلام علیکم۔ ‘ ان کے رازوں میں مولوی عثمان علی کی گھس پیٹھ وقت کا تقاضا بن گئی اور لڑکیاں سہم کر جھک کر دوہری ہو گئیں۔

خالی پلاٹ کے برابر والے گھر میں اگلے دن ساری باتوں کو سمجھ داری سے اپنے دماغ سے خارج کرتے ہوئے نجو نے سنا، وقت اس کی خارج کردہ باتوں کو اپنی جھولی میں لپک چکا تھا، اور اسے کچھ سزائیں دینے پر آمادہ تھا، کیونکہ اس کے جیسی لڑکیاں سزا سے ہی پاک بنی رہ سکتی تھیں۔ ٹی وی پر ایک پریوار کا جھگڑا چل رہا تھا، ٹی وی سے بھی زیادہ اونچی آواز میں پپو بھائی کو بولنا پڑ رہا تھا، کیونکہ ضدی نجو کبھی ٹی وی کی آواز کم نہیں کرتی تھی اور امی اسے کبھی کچھ نہ کہتی تھیں۔ ’امی!مولوی عثمان علی بتا رہے تھے یہ لڑکیاں کل دیوی دیکھنے گئی تھیں۔ یہ کفر ہے، اس مورتی کے سایہ سے لڑکیاں خراب ہو جائیں گی۔ ایک دم ناپاک۔ ‘

نجو بچپن کے بعد آج پھر اسی طرح دہل گئی جیسے کبھی کچھ نئی جانکاریوں کے زندگی میں داخل ہونے سے دہل جایا کرتی تھی۔ امی کا جواب سننے کی شدید خواہش سے اس کے جسم میں ایک سکڑن پیدا ہو گئی۔ اس کے دماغ نے ساری نماز پرستی کے باوجود ، مورتی کے سایہ اور اس سے خراب ہوجانے کے دباؤ کو چھوٹتے ہی مسترد کر دیا۔ ’کیوں بے جان چیزیں کسی کو خراب کر سکتی ہیں؟‘وہ دم سادھ کر بیٹھ گئی۔ دم سادھنے پر بچپن والا چھپا چھپائی کا کھیل اس کو اوردھڑکنوں کی آواز کو اپنی مٹھی میں قیدی بنا گیا۔ اسے اس اندر کے سناٹے سے بہت دن بعد روحانی تعلق بناتے ہوئے، جانا پہچانا احساس ہوا، اتنے دنوں کے بعد ملنے کے اٹ پٹے پن سے کچھ الگ۔ وہیں اسے امی کی آواز ریشہ ریشہ کرکے پاس آتی سنائی پڑی۔

’میں سمجھا دوں گی۔ اکیلے آنا جانا نہیں کرے گی اب۔ ‘سناٹا کچی مٹی کا گھڑا بن کر کہیں بھیتر ٹوٹ گیا۔ وہاں ایک کرکٹ کی گیند آ کر لگی تھی اور سب کچھ اتنا چپ چاپ ہوا تھا کہ مٹی سمیٹنے کا نہ تو وقت رہا تھا نہ موقع۔ اگر سسکی سے کچھ بکھرے ٹکڑے سمیٹے جا سکتے تھے ، تو سسکی بھی اپنے پورے پن کے شباب پر آنے سے انکار کر رہی تھی۔ ذلت، صرف ذلت اور۔ ۔ اور ذلت کے علاوہ اس اچیتا نند گوسائی نے نجو کی زندگی کو کوئی اور رنگ نہیں دیا تھا۔ اس کا نجو سے کیا کہیں کوئی رشتہ تھا؟وہ تو اس سے اتنا دور تھا لیکن پھر بھی زندگی تباہ کرنے پر تلا تھا۔ وہ کیوں ہر جگہ تھا؟وہ کیوں خالی پلاٹ پر تھا، ٹی وی پر تھا، بازار میں تھا، نو درگا سمیتی کے پنڈال میں تھا؟ اس کی سہیلیوں کے بیچ، اس کی امی کے اور اس کے بیچ، اس کے اور اس کے بھائیوں کے بیچ، اور یہاں تک کہ مولوی عثمان علی اور اس کے بیچ روڑا بنتا ہوا، اس کے اندر کانٹے اگاتا ہوا، نہ ہونے پر بھی اس کو اس کے لوگوں سے کھینچ کر دور کرتا ہوا۔ نجو کی مٹھیاں بھنچ گئیں، طیش سے بدن تھرتھرانے لگا۔ اٹھ کر اس نے گھر کے باہر جانے والا میرون پھولوں والا پردہ سرکایا اور منہ میں اٹھ رہے ذلت کے بگولے کو حقارت اور نفرت سے تھوک دیا۔

ادھر نجو کے اندر ایک نئے سلیقے نے زور دار دستک دی۔ مستقل رہائش کے سبز باغ میںچندن کے لوبان کی موسیقی تھی۔ نجو نے موسیقی کو لفظ دیے اور زور سے من کہہ اٹھا، ’نفرت بنام اچیتا نند گوسائی۔ ‘وہی وہ دوسرا تھا، اس سے الگ، جس دوسرے کی ہواؤں میںگپ چپ باتیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ بھی جانتی تھیں، کل ایک مسجد کی کہانی سے شروع ہوئی تھیں باتیں سب، اس کے شہر میں۔ ٹی وی پر تو سب دکھاتے تھے، کیسے اس کے پیدا ہونے کے دو سال بعد کوئی مسجد تھی، جسے اچیتا نند جیسے لوگوں نے کسی ایودھیا شہر میں گرا دیا تھا اور اس کے گرنے کی تھرتھراہٹ سے اس کا یہ شہر بھی کانپا تھا، اس دیش کے اور باقی شہروں کے ساتھ، اور ایک سلسلہ سا بن گیا تھا۔ اس کے پیدا ہونے کے ٹھیک دو سال بعد جو آج تک برس در برس جاری تھا، اور وہ انھیں برسوں میں بڑی ہوتی جا رہی تھی اور اب پختہ ہو رہی تھی، اس جانکاری کے ساتھ کہ نفرت جیسے رویہ سے وابستہ ہونا اسے اپنے لوگوں کے بیچ کتنا محفوظ اور اپنا بناتا ہے۔ چھ دسمبر کو، ہر برس جب سے اس نے پڑھنا سیکھا تھا، اس نے جانا تھا، اس کے شہر کی دیواریں کیسے گیروئے حرفوں سے پتی رہتی تھیں۔ ’رام للا ہم آئیں گے، مندر وہیں بنائیں گے۔ ‘یہ جملہ کبھی پرانا نہیں ہوتا تھا، ہر برس یونہی نیا اور تازہ ہو کر دیواروں پر دمک اٹھتا تھا۔ اس کے اپنے گھر میں بھی چھ دسمبر سے پہلے تیاریاں کر لی جاتی تھیں۔ گھر کے پردوں کو کھینچ کر تانا جاتا تھا، دروازوں پر تالے جڑ دیے جاتے تھے۔ مٹی کے تیل کے کنستر بھروا لیے جاتے تھے اور چھروں میں دھار بڑھائی جاتی تھی۔ امی ایسے سمے میں کچھ غم کھا جاتی تھیں۔ وہ کسی بابر کو نہیں جانتی تھیں۔ انھیں ایودھیا کی سرحدوں اور اس کے ہونے کے بارے میں بھی بہت کم ہی پتا تھا۔ یہاں اس شہر میں بیٹھے بیٹھے کیا فرق پڑتا تھا، اگر کہیں کوئی مسجد بچے یا ڈھہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟مگر پپو، گڈو اور راجا کو فرق پڑتا تھا۔ مولوی عثمان علی فرق پڑواتے تھے اور اس طرح پورے محلے میں فرق ایک نہایت ضروری جذبہ کی طرح ہواؤں کے ہاضمے میںپھونک دیا جاتا تھا۔ ۔ ۔ بے حد زندہ اور پوشیدہ طریقے سے۔

شری رام موہن کے گھر پر لکڑی کے سوفے پر اونگھتا پڑا تھا، اچیتا نند گوسائی۔ شہر کے آرچیزشو ر وم میں ٹنگے، غبارے، کارڈس اور گڈے گڑیاں بار بار اس کی آنکھوں میں کوند رہے تھے۔ لال، سفید، گلابی غبارے نما دل۔ پھٹ پھٹ کر ٹوٹ جانے والے اصلی دل! اصلی دل ٹوٹ جانے والے!سبھی کو پھوڑا تھا، توڑا تھا، اس نے اپنے انھیں ہاتھوں سے، اسی برس چودہ فروری کی دوپہر جب، پرچار ہو رہا تھا، کسی ویلنٹائن ڈے کا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ محبت کا دن ہے اور اس دن کھلی چھوٹ ہوتی ہے، اظہار محبت کی۔ شری رام موہن کے حکم پر اچیتا نند اپنے چھ شاگردوں کے ساتھ لاٹھی اور چینوں کے ساتھ اس دکان پر پہنچا تھا اور انتہا ہو گئی تھی۔ اظہار محبت پر خوب مار پڑی اس دن۔ اس نے اپنے انھیں ہاتھوں سے گلا گھونٹا تھا ان سب کا۔ لیکن آج لگ بھگ آٹھ مہینے بعد اسے وہ غبارے، غباروں کو تھامے گڈے گڑیاں خوب یاد آ رہی تھیں۔ وہ ٹوٹتی پھوٹتی دکان، وہ ہاتھ میں دبوچے گئے ، پھٹاک کی آواز کے ساتھ ٹوٹتے دل۔ ۔ ۔

یار لوگ اچیتا نند گوسائی عرف اَچّو بھیا کے اس غمگین مزاج سے نا واقف تھے۔ انہوں نے بھیا جی کو ٹھنڈی بیئر کی کئی بوتلیں کھول کر دینی چاہیں لیکن بھیا جی نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ بھیا جی کی بات بھی رام موہن کو بتائی گئی تو وہ ایک آنکھ شرارت سے دبا کر ہنسے، لڑکوں کی سب ضرورتوں سے نہ صرف واقف رہتے تھے وہ، بلکہ ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بیدار بھی۔ ’’جاؤ پکچر وغیرہ دکھاؤ اسے، اچھی شراب پلاؤ یا کچھ انتظام کرو۔ ۔ ۔‘‘ انتظام کا نام رینا، سائرہ یا مینا ہو سکتا تھا اور وہ شہر کے دوسرے سرے پر اسٹیشن کے پاس والے محلے میں ہو سکتا تھا۔ شاگردوں نے بھیا جی کو کندھے پر اٹھایا ، ٹھیک اس طرح جس طرح جشن مناتے وقت اٹھا کر ’جے ہو‘کرتے تھے اور بھیا جی ہنس بنے ہوئے، گردن سکوڑ مروڑ کر اپنی جے کار کو قبول کرتے تھے۔ لیکن بھیا جی نے آج حیرت انگیز طور پر اپنا بدن ڈھیلا چھوڑ، گرا دیا اور عجیب لنج پنج انداز میں جیپ پر سوار ہو کر سکھ کی تلاش میں نکل پڑے۔

رینا، سائرہ، مینا۔ ۔ ۔ ۔ کی فہرست لمبی تھی۔ ’انتظام‘ کی کئی خصوصی قدریں تھیں۔ ایک چمکتی دمکتی تھالی میں پروس کر پیش کی گئیں۔ بھیا جی کاجسم لو کی تپش کی طرح جل رہا تھااور بھیا جی کے من کا سورج اَستاچل (مغرب کی سمت واقع وہ مفروضہ پہاڑ جس کے پیچھے سورج غروب ہونا مانا گیا ہے۔)کی طرف آرام کرنے چل پڑا تھا۔ انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی سامنے پروسے گئے پرسادوں کو نہیں دیکھا۔ اب شاگردوں کو چنتا نام کا کیڑا کاٹنے لگا، وہ مایوس ہو گئے۔ انہوں نے بھیا جی کو، اتنے دنوں بعد ان کے گھر چھوڑ دیا، بھیا جی کے بڑے بھائی اور بھابھی کے پاس۔ بھابھی جی نے اپنے چھوٹے دیور کو دیکھ کر فکر مندی سے اتنا ہی پوچھا، ’کیا ہوا اچو کو؟

طبیعت ناساز ہے بھابھی، کچھ تاپ چڑ ھ آیا ہے۔ کل ہم لوگ ڈاکٹر کو یہیں لا کر دکھوا دیں گے۔ ‘

بھابھی نے اچو کی تیمار داری کی، ہاتھ پیروں میں ٹھنڈا تیل ملا، سر سہلایا، لیکن اچو کے جسم میں چستی پیدا نہیں کر سکی۔ اچو کا چہرہ مرجھایا ہی رہا، پیلا، نچڑا۔ بھابھی نے اچو بھیا کے شاگردوں کو فون کر دیا، ’لگتا ہے کچھ بھوت پریت کا سایہ ہے، کوئی اوجھا بلا کر جھڑوا دیا جائے۔ رات بھر کچھ نج۔ ۔ ۔ ۔ نج۔ ۔ کر بڑبڑاتا رہا۔ ‘

ـ               ’اچھا۔ ۔ ۔ ‘شاگردوں کو وہ زرد پیلا چہرہ جو نج کی رٹ میں اور نچڑ رہا تھا اور کمھلاتی جاتی جان کا تعلق اب سمجھ میں آنے لگا۔ انھیں اچو بھیا سے شکایت ہونے لگی، کیا بھیا؟‘ نمبر ایک بولا۔

’کیا بھیا۔ ۔ ۔ ؟‘نمبر دو بولا۔

’کیا بھیا۔ ۔ ۔ ؟ اشارہ کیا ہوتا۔ ‘نمبر تین نے جوش کا مظاہرہ کیا۔

’بھیا وہی چاہیے تو کبھی کہتے آپ۔ اٹھانا مشکل تھوڑے ہی تھا۔ ویسے بھی ان لوگوں کی لڑکیاں اٹھانے کا مزہ کچھ اور ہے، سالے ہماری لڑکیوں کو آئے دن بھگا لے جاتے ہیں۔ ‘اچیتا نند گوسائی کے لنج پنج بدن میں اس بات پر آڑی ترچھی حرکت ہوئی اور آ گ کے شعلے اس کی آنکھوں میں سواری کرنے لگے۔ وہ تپش سے ویسے ہی لال ہو ئی جا رہی تھیں، اب جلنے لگیں۔ بولنے والا شاگرد سٹپٹا گیا، اس نے تو اپنی ٹریننگ کے نتیجہ سے پیدا ہوئی باتوں کو ہی دوہرایا تھا۔

اچیتا نند گوسائی کے کہرے پر لپٹیں پرجوش انداز میں اچھلنے لگی تھیں۔ اس میں کئی منظر یونہی گھل مل جاتے تھے ۔ وہ منظروں کو الگ کرکے انھیں ان کے الگ وجودوں کے ساتھ چھونا چاہتا تھا اور شری رام موہن سے پوچھنا چاہتا تھا ، ’صاحب! ان ویڈیوزمیں بار باردکھائے گئے منظروں کا خالی پلاٹ کے برابر میں رہنے والی لڑکی سے کیا تعلق؟‘ لیکن وہ کبھی نہیں پوچھ پاتا تھا، کیونکہ ان مناظر کو کبھی چھانٹ کر الگ ہستیوں والا نہیں بنا پاتا تھا۔

سارے شاگردوں نے اپنے تازہ دم دماغی گھوڑے دوڑائے اور ان کی آنکھوں کے آئینوں میں ان کی شخصیتوں کی بچی کھچی بھولے پن کی ٹمٹماہٹ چمک گئی۔ ’’اچو بھیا کا دل کہیں اس میائین میں اٹک گیا تھا۔ اس بار اس شہر میں چھ دسمبر کی برسی شاندا ر طریقے سے منائی جائے گی اور اس میائین اور اس کے پریوار والوں اور اس کی قوم والوں کی ایسی کی تیسی کی جائے گی۔ سالے، اچو بھیا کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ سالوں کو سبق سکھانے کے مقصد سے مسجد گرائی گئی تھی، پھر بھی نہیں سدھرتے، ڈسٹربنس پیدا کرتے ہیں۔ ۔ ۔‘‘

شری رام موہن پارشد نے کارکنوں کی میٹنگ بلائی اور ایک مہینہ پہلے سے ہی چھ دسمبر کا دن زور دار ڈھنگ سے منانے کا فیصلہ کیا گیا۔

فکر مندی کے دور میں، امی کا من بوجھل ہو کر دُکھنے لگا تھا۔ نجو کی شادی ٹھہرانے کا خیال دبش ڈالتا جوان ہو رہا تھا۔ امی نے من ہی من اگلے برس کے کچھ دن طے کر لیے منگنی اور شادی کے لیے۔ نجو کے لیے پیغاموں کی کمی نہیں تھی۔ بس امی کو ہی سب سوچ سمجھ کر طے کرنا تھا۔ ساتھ ہی شادی کی تیاریاں کرنی تھیں۔ انھیں لگا ایک ساتھ تو سب کر نہیں پائیں گے، دھیرے دھیرے کچھ کپڑے سلواتی جائیں گی، بیٹوں سے کہہ کر دلی ممبئی سے گھر کے لیے مکسی، گیس منگواتی چلی جائیں گی، تو ایک برس کافی ہوگا اور ایک دم سے پیسوں کی ضرورت نہیں ستائے گی۔ وہ ’اگروال اینڈ سنس‘ کے سیٹھ سے تقریباً روز ملنے لگیں۔

پروگرام طے ہوا تھا پانچ دسمبر کی رات کا۔ شری رام موہن نے خفیہ احکامات دیے تھے، زیادہ نہیں، بس دو چار گھر، وہی جن کے لونڈے، دوسری پارٹیوں کے اسٹیج سے جھوٹے سیکولرازم کادعوی کرتے ہیں، انھیں ہی ٹھکانے لگانا ہے۔ سالے ہر برس ہفتہ بھر پہلے سے ہی ہتھیار اکٹھا کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔

نجو کے گھر کچھ خاص تیاری نہیں تھی اس برس۔ پپو، گڈو بھائی دونوں ڈیوٹی پر تھے۔ شہر کے مزاج میں ٹھنڈا پن تھا۔ ، ‘شوریہ دیوس‘اپنے پورے رنگوں کے باوجود اس برس تھوڑا کم چمک دار دکھائی پڑ رہا تھا۔ اس سے امی کے من میں تھوڑی ٹھنڈک پڑی ہوئی تھی اور راجا دو دن کی چھٹی مناتے ہوئے بستر پر خوب سونے کا موڈ بنا رہا تھا۔

امی’اگروال اینڈ سنس‘کے سیٹھ کو پیسے دینے جانے کا موڈ بنانے لگیں۔ یہ دیکھ کر نجو ضد کرنے لگی ، وہی بچپنا۔ ۔ ۔ امی نے بس آنکھوں کے کونے ترچھے کرکے دعوت دے دی۔ وہی نجو، خوش خوش اپنی امی کی پرچھائیں بن کر چل پڑی۔ دکان پر بھاری بھیڑ تھی۔ شری رام موہن پارشد کے لڑکے کھڑے تھے وہاں، بتا رہے تھے سیٹھ کو کہ کل دکان بند کرکے شہر میں نکلنے والے جلوس میں شامل ہونا ہوگا۔ سیٹھ ساری باتیں غور سے سن کر، تائید میں سر ہلا رہا تھا۔ اس سب کے درمیان بھی سیٹھ نے امی کو دیکھ لیا، امی سے اس کا برسوں کا ناتا جو تھا۔ وہ تاجرانہ گرم جوشی کے ساتھ بولا، ’راستہ خالی کرو بھائی۔ ۔ ۔ آنے دو۔ ۔ ۔ گاہک کو آنے دو۔ ‘  لڑکے جھک سفید کرتے پاجامے پہنے ہوئے تھے ۔ کچھ کی چمکتی پیشانیوں پر لال دہکتا سنگار تھا، تِرپُنڈ(تین آڑی لکیروں والا ایک طرح کا تلک)کی شکل کا۔ وہ خوب مگن لگ رہے تھے، خوب نہائے دھوئے اور تندرست۔ انہوں نے ایک پل ٹھٹھک کر سیٹھ کی بات سنی اوربالشت بھر جگہ خالی کر دی، جس میں سے پہلے امی کسمسا کر جوجھیں اور اندر گدی کی طرف دھکیل دی گئیں اور پیچھے سے بچپن والی نجو امی کی انگلی نہ چھوڑنے کی قسم سے بندھی، سیدھی گدی پر ٹھیل دی گئی۔ اچو بھیا کے کسی نامعلوم بھکت کے ہی لمس سے آگے ٹھیلی گئی تھی نجو۔ نا معلوم نام کے بھکت نے نجو کو غور سے دیکھا، گویا طے کر رہا ہو، سامنے ٹھیلی گئی چیز، چیز تھی یا چیز میں بھری جان۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں اٹک گیا، جب اس نے دیکھا چیز میں بھری جان، نرم جان تھی اور وہ وہی نرم جان تھی ، جس کی وجہ سے بیچارے اچو بھیا کو بخار چڑھ آیا تھا۔

ادھر نجو کے اندر ایک ابال سنسنانے لگا۔ اس کے سر سے دوپٹا ڈھلک کر کندھوں پر جھول رہا تھا۔ اسے وہاں موجود شکلوں کے بیچ نہ جانے کیوں ہر شکل میں نا موجود اچیتا نند گوسائی کی شکل نظر آنے لگی۔ اس کا جی چاہا اندر کے ابال کو اس ٹھگنے چکلے سفید کرتے پاجامے پر الٹ دے، جس نے اسے بھیتر ٹھیلا تھا۔ اچیتا نند ہی تھا، اس شخص میں بھی گھسا ہوا کہیں۔ اچیتا نند کے کتنے سر تھے۔

حقارت گھُٹ کر کہیں چھپ گئی، جب اگروال اینڈ سنس کا سیٹھ پیسے بٹورنے کے بعد جھلمل سوٹ کے کپڑے دکھانے لگا۔ رنگ اور ڈیزئن نے من کا سارا میل پونچھ دیا۔ نجو کے چہرے پر رنگ اور ڈیزائن ٹنک گئے اور اتنی رونق بڑھ گئی کہ سیٹھ کے من میں بھی ایک بار کچھ ممتا جیسا اُگ آیا۔ ، پھر فوراً اس کی دکانداری نے حاوی ہو کر اپنے سامنے بیٹھے گاہکوں سے گاہکوں جیسا سلوک کیا اور کھاتے میں امی کے نام کے آگے اس نے جھٹ لکھ ڈالا۔ ۔ ۔ باقی روپیے پچیس۔

امی اور نجو اب’اگروال اینڈ سنس‘ سے باہر نکلے تو جھٹپٹا پھیل گیا تھا۔ بازار اپنے  دروازے بند کرکے سردیوں میں جلدی گھر جانے کو بے چین دِکھتا تھا۔ رام رتن برتن والا،

دکان کے باہر رکھے گلاس، ڈونگے اور جگ ہڑبڑا کر سمیٹ رہا تھا۔ گڑیا، چوڑی اسٹور کے باہر لگ بھگ تالا بند ہونے کی تیاری تھی۔ البتہ’او کے ڈیلی نیڈس‘اور ’جین بک اسٹور‘پر تھوڑی بھیڑ ڈٹی تھی۔ الپنا سنیما کے باہر کچھ کم بھیڑ تھی، رات کے نو بجے والے شو میں ابھی کافی وقت تھا، لیکن چاٹ پاپڑی والے اپنے گھر جانے کے لیے مڑ رہے تھے۔ نو بجے والے شو میں اب کم ہی لوگ جاتے تھے۔ سردی کی بارش کا نم احساس ہواؤں کو اور سرد بنا رہا تھا۔ کچھ دھندلائی سی سرد چپی شہر کی سڑکوں پر بچھ رہی تھی۔ امی کے قدم تیز چال میں تبدیل ہو رہے تھے ۔ اسے یاد آیا بچپن میں اسی طرح وہ امی کے ساتھ کئی بار اکیلی جایا کرتی تھی اور قصے کہانیوں کی فرمائش کرکے امی کو تنگ کر دیتی تھی، اس کا جی چاہا، واپس اسی بچپن میںکود کر داخل ہوجائے ، امی کے ساتھ۔ ’امی یہیں پر سوار آتا تھا نا؟‘ امی سوار کی بات سن کر ڈر گئیں۔ انہوں نے اپنی چال دھیمی کرکے ناراضگی سے نجو کی طرف دیکھا، ’اس وقت یہ بات کیوں اٹھا رہی ہے؟پاگل ہے کیا تو؟‘ نجو کو امی کا انداز بیگانہ لگا۔ ’کیا وہ اب اتنی بڑی ہو گئی کہ بچپن کی باتیں دوہرائی بھی نہ جا سکیں۔ ‘اسے یاد آیا، امی کتنے چاؤ سے سناتی تھیں، ٹھیک اسی سنسان سڑک پر چلتے، کسی پیر کی کہانی جو آج بھی سردیوں کی رات میں گھوڑے پر سوار اس سڑک سے گزرتے ہیں۔ ’اللہ معاف کرے‘ کئی لوگوں نے انھیں رو برو دیکھا تھایہیں۔ سوار کی کہانی کئی سو برس سے چلی آ رہی تھی اور آج بھی کئی راہ گیر دعوی کرتے تھے کہ انھیں روک کر پوچھا تھا سوار نے، ’کون؟ کون ہو تم؟جاؤ ٹھیک سے جاؤ۔ ‘

’کون؟کون ہو تم؟‘بولتا ہوا ایک ٹھگنا چکلا سفید کرتا پاجامہ نزدیک آیا۔ نجو کا دماغ پلٹیاں کھانے لگا، اسے لگا اس کے بچپن کی کہانی کا سوار یہاں کیسے آ موجود ہوا۔ کہانی زندہ کیسے ہو گئی؟اس نے کن انکھیوں سے دیکھنے کی کوشش کی، سوار گھوڑے پر نہیں، ایک بند جیپ میں آیا تھااور اس کی صورت کسی پیر سے نہیں ملتی تھی، بلکہ اس گدلی صورت سے ملتی تھی جو کچھ دیر پہلے’اگروال اینڈ سنس‘کے بھیڑ بھرے ماحول میں نظر آیا تھا۔ اس کے حلق میں ایک کانپتی ہوئی سنسنی پھیلی جو چیخ کے بجائے محض چیخ کا احساس بن پائی اور اس کے سینے میں دبک کر، کہیں ہمیشہ کے لیے کھو گئی۔ اسے لگا اسے چکر آ رہا ہے اور اس کی خوف زدہ آنکھیں ڈر سے بھاگنے کی بے چینی میں مند گئیں ۔ ۔ پوری کی پوری۔ امی نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا، ’کیا کسی نے انھیں پکارا تھا؟‘ پیچھے مڑ کر دیکھنے پر نہ پکار تھی، نہ آواز، نہ منظر، نہ سچائی۔ انھیں لگا بچ کے رہنے کا فلسفہ بھی آج انھیں دھوکا دینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ یہ کیا ہے؟ان کی نجو کہاں ہے؟یہ کسی اور دنیا کی باتیں ہیں اور انھیں کسی اور دنیا میں ہونا چاہیے۔ انھیں لگا ۔ ۔ ۔ ٹھیک انھیں مر جانا چاہیے۔ خواہش کرتے ہی موت ملے۔ ۔ ۔ امی کو لگا مل گئی، وہ پڑھنے لگیں کلمہ، ’لاالہ الا اللہ‘، جب ان کے ماتھے پر کچھ زور کی چیز ٹکرائی ۔ گرتے گرتے لیکن انہوں نے اتنا ضرور دیکھ لیا، کہ نجو کو ان لوگوں نے اٹھا کر اس بند جیپ میں بھر دیا تھا، اور خوب سارا دھواں اور ہا ہا کار چھوڑتی ہوئی جیپ اس سرد ہوا کے چپی بھرے اندھیرے میں کہیں معدوم ہو گئی تھی۔

’نئی دنیا‘لاج کا واچ مین شری رام موہن پارشد کے سب لڑکوں کو پہچانتا تھا۔ شہر سے پچیس کلو میٹر دور تھالاج۔ لڑکوں کا اڈہ تھا وہ، اور شری رام موہن کا شہر سے دور ایک خفیہ ٹھکانہ۔ وہاں بس دو چار نوکر تھے، وہ بھی پورے ٹرینڈ۔ ان کا کام تھا، لڑکوں کو آتے دیکھ کر، نگاہیں دوسری طرف کر لینا، بنا نظروں میں آئے، کمرے کھول دینا۔ بستروں کے چادر، تکیوں کے غلاف بدل دینا۔ باتھ روم میں صاف تولیہ لٹکا دینا۔ کمرے میں صاف پانی کا جگ اور گلاس رکھ دینا اور اس کے بعد اپنے وجودوں کو لے کر کہیں غائب ہو جانا، اگلے حکم تک۔ اس کے بعد کی خالی جگہوں میں نہ ان کی موجودگی بھری جاتی تھی، نہ اس کی ضرورت تھی۔ سب طے شدہ تھا۔

اچیتا نند گوسائی ’نئی دنیا لاج‘کے کمرہ نمبر ایک میں لیٹا ہو اتھا۔ اس کے سامنے ایک گول میز پر پلاسٹک کا ایک پھول دار ٹیبل کلاتھ بچھا ہوا تھا، جس پر لال لال پھول کھلے ہوئے تھے۔ میز کے اوپر وہسکی کی آدھی خالی بوتل اور ایک آدھا خالی گلاس اس کے برابر میں ٹیڑھا سا پڑا ہوا تھا۔ اچیتا نند انھیں بار بار وہیں لیٹے لیٹے دیکھ رہا تھااور سوچ رہا تھا، اسے آج کل وہسکی اچھی کیوں نہیں لگتی تھی، اور پینے پر نشہ چڑھتا کیوں نہ تھا؟وہی ہلکے ہلکے سرور والا گنگنا نشہ!تبھی اس کے کمرہ میں بھڑبھڑاتے ہوئے داخل ہوئے دو شاگرد اور ان کے ہاتھوں اور کندھے کے سہارے، ایک گرتا پڑتا سایہ، جو اسے اپنے خیالوں میں چھائے نجو کے سایہ سے ملتا جلتا لگ رہا تھا۔ لیکن کیسے؟وہ لپک کراٹھ بیٹھا، تو دیکھتا کیا ہے، سایہ اس کے بغل میں سر کے نیچے تکیہ رکھ کر لٹا دیا گیا۔ اسے زور کا نشہ چڑھنے لگا۔ اس نے اپنی نشہ سے چڑھی آنکھوں کو نیچے کرکے دیکھا، دہکتے انار ویسے ہی تھے، اسے لگا سایہ میں جان تھی، دھک دھک کرتی ہوئی۔ اسے لگا کیسے؟سب اس کی دماغی کرامت ہے، یہ سایہ کا کھیل سب۔ وہ اداسی میں وحشی ہنسی ہنسنے لگا، سب وہم تھا، سارے کا سارا۔ اچو بھیا کو اتنے دنوں بعد ہنستے دیکھ کر شاگردوں کا حوصلہ بلند ہو گیا اور وہ گد گد ہو کر بولے، ’’بھیا!آپ کے لیے تحفہ ہے، کل کی تاریخ میں کھولیے گا اسے، گڈ نائٹ۔‘‘

اچو بھیا نے بچوں کے بھولے پن سے ہاتھ پٹخا پلنگ پر اور لٹپٹائے، ’’سالے۔ ۔ بہن۔ ۔ ۔ یہ سچ ہے کہ سپنا؟کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے؟‘‘

’’بھیا جی، سچ ہے سچ، بھیا جی قسم سے سچ، آپ ذرا چھو کر تو دیکھو۔ ۔ ۔‘‘اور اتنا بول کر شاگرد کمرے سے باہر چلے گئے۔

ان کے جانے کے بعد اچیتا نند گوسائی نے اپنے دماغی کہرے کے پاس جا کر، سارے واقعہ کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یہ یاروں نے کیا کر ڈالا؟کیا سچ مچ ہی؟آہ!اس نے بغل میں لیٹے سایہ کو چھو چھو کر یقین کرنا چاہا، یہ سچ ہے یا سپنا؟کیا۔ ۔ ۔ ؟سب سے پہلے اس نے دہکتے اناروں کی تپش پرکھنے کی کوشش کی۔ اس کی انگلیوں میں جنبش ہوئی اور اناروں کو چھوتے وقت اس کے ہاتھ جل گئے۔ اسے جھنجھلاہٹ نے گھیر لیا، ایک تو ہاتھ جل گئے، دوسرے اناروں کے اردو گرد جو سانپ ہوا کرتے تھے، وہ دکھائی نہیں پڑے۔ اس نے تلاش شروع کر دی۔ کس کے انگلیاں سمیٹ کر اس نے سایہ کی بانہہ پر چٹکی لی۔ ’آہ۔ ۔ ‘ایک آواز کہیں باہر ہو جیسے، ویسی ہی دھیمی ، دھندلی سی سنائی پڑی جوکمرے کی دیواروں پر مکڑی بن کر چپک گئی۔ اچیتا نند خوش ہو گیا، اس کا سپنا بولتا سپنا تھا، وہ لمبی دوریاں پار کرکے اس تک پہنچا تھا اور سچ ہو گیا تھا۔

امی کو ہوش، اس سنسان راستے میں چلنے والے راہ گیروں نے دلایا۔ امی گری سڑک پر تھیں، اٹھیں تو سڑک کنارے تھیں۔ ان کی بے بسی اذیت پیدا کر رہی تھی۔ وہ چیخنا چاہتی تھیں، ’ہائے میری نجو۔ ‘لیکن لڑکی ذات کی عزت کا خیال کرکے وہ دھیرے دھیرے رو رہی تھیں۔ اپنے اندرون کو ڈبوتے، ایک ایسے گڈھے میں ، جو نجو کے ابا کے گزر جانے کے وقت ان کے اندر ایک بڑی جگہ گھیر چکا تھا، لیکن وقت نے جسے رفتہ رفتہ سکھا دیا تھا، وہ آج پھر بے حیائی سے گہرائی تک کھد گیا تھا۔ وہ اپنے ہونے کے احساس سے امی کو جھنجھوڑ رہا تھا، امی کی سسکیوں کے ساتھ۔

’کیا ہوا؟‘’ارے دیکھو کیاہوا؟‘’بہن جی کیا ہوا؟‘’کون تھے بدمعاش؟کچھ چرایا کیا؟‘’ہاں۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ‘

ایک دوپہیے والے کو روک کر راجیو نگر تک پہنچا دیا گیاامی کو۔ امی بدحواس گھر کی طرف دوڑیں۔ راجا باہر یاروں کی منڈلی جمائے بیٹھا تھا۔ ’نجوووووو۔ ‘ کہہ کر گر پڑیں امی۔ جب تک ماجرا سمجھ میں آتا، لڑکے تیار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ہتھیاروں سے لیس۔ امی بوکھلا کر چلانے لگیں، ’ارے لڑائی جھگڑے سے میری نجو کیسے ملے گی؟پہلے اسے ڈھونڈو، پولیس میں چلو۔ ۔ ۔ ‘لڑکے بپھرنے لگے۔ تمتماہٹ اور توہین کے احساس سے راجا کی آنکھیں بھیگنے لگیں، وہ گرجا، ’سب کو ختم کرو۔ ۔ سالوں کو۔ ۔ ‘امی اپنی دلیلوں کے وزن کے باوجودہارنے لگیں اور منمنائیں، ’پولیس۔ ۔ ۔ پولیس کی مدد۔ ۔ ۔ ‘لڑکے انھیں وہیں چھوڑ کر راجیو نگر کے گھروں میں چل دیے، جوانوں کو اپنی مہم میں شامل کرنے۔ تیاری تو پہلے سے تھی ہی۔ امی خالی الذہن، ڈگمگاتے قدموں سے اپنے گھر کے آخری دم گھونٹو کمرے میں چلتی چلی گئیں ۔ وہاں ایک گلابی پھول اور ہری پتیوں والا ٹن کا بکسا ابھی بھی رکھا ہوا تھا، جس پر چڑھنے کی ضد میں نجو ایک بار گم ہو گئی تھی۔ امی نیم تاریکی میں وہیں نجو کے پیروں کے نشان تلاش کرنے لگیں۔

اچیتا نند اپنی قسمت پر رشک کرتا ہو اچیخنا چاہتا تھا، بے قابو خوشی سے ۔ ’نجو تو سچ مچ یہاں ہے، میرے اتنے پاس؟‘لیکن وہ چیخ نہیں پایا۔ اسے اچانک ہی دو کالے سانپ نظر آئے جن کی تلاش میں وہ کچھ دیر پہلے ہی بھٹک گیا تھا۔ وہ اس کے سامنے کنڈلی مارے بیٹھے تھے ۔ ۔ اسے ڈسنے کو تیار۔ حالانکہ وہ ابھی جیت کے گھوڑے پر سوار تھا، لیکن پھر بھی وہ سہم گیا، اس نے جھک کر اپنا منہ اس چہرے کی طرف کیا جو نجو کی پرچھائیں کا چہرہ تھا، اور اب نجو کی پرچھائیں سے نکل کر پورے کا پورا نجو کا چہرہ بن چکا تھا۔ اس کے ایسا کرنے پر اپنے منہ پر کچھ لجلجا سا گندے احساس والا پھیلتا محسوس ہوا ، جو اس کے اپنے منہ سے اس کے اندر تک جانے کو آمادہ تھا۔ اسے خراب خراب لگنے لگا۔ اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور پہلے نجو کا منہ پونچھا ، پھر اپنا۔ اسے نجو کے منہ سے کچھ ٹوٹے پھوٹے لفظ نکلتے سنائی پڑے۔ اس نے دماغ اور کانوں کو اس سمت موڑا جہاں سے لفظ نکل رہے تھے۔ اس نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو جوڑا تو اس سے نفرت آمیز جذبوں سے سنے لفظوں کے معنی سمجھ میں آئے۔ اس میں کچھ زہریلے تیر بھی تھے۔ اسے حیرت ہوئی، اتنی نازک لڑکی اتنا میل اپنے اندر کیسے رکھ پائی تھی؟وہ اتنی ساری باتیں دیکھ کر انھیں سمجھنے کی کوشش میں تھک گیا۔ سستانے کی غرض سے اس نے تھوڑی دیر کے لیے اپنی حالت تبدیل کی۔ وہ پلنگ کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا اور وہیں سے نجو کے بھیتر کے بھیدوں کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کے کان میں ایک گھڑی کی ٹک ٹک سنائی پڑی۔ اسی آواز کے ساتھ اسے یاد آ گئے ویڈیو فلم کے وہ مناظر جو شری رام موہن کے یہاں اس بار بار دکھائے گئے تھے۔ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی سی مسجد، اس کے آ س پاس ہزاروں کار سیوک، مسجد کے اوپر چڑھے لوگ، چیختی آوازیں، ’ایک دھکا اور دو۔ ۔ ‘ جوش سے اس کا جسم پھڑکنے لگا، اس نے اپنا مورچہ سنبھالا، اس کے کانوں میں انھیں آوازوں کی ریل پیل مچ گئی۔ گھڑی کی ٹک ٹک، وقت کا بدلنا، ایک نئے دن کا آغاز، نئی دنیا کی ایجاد۔ ۔۔ کی آواز سے آواز ملا کر ساری زمین تھرتھرائی اور علی الصبح’ شوریہ دیوس‘ کا سورج استقبال میں اٹھلاتا چلا آیا۔

٠٠٠

ہم نے نفرت کی جو فصل بوئی ہے، اس نے محبت جیسے لطیف اور نازک جذبے کو بھی کس طرح اپنے نرغے میں لے لیا ہے، اس کی بے حد عمدہ مثال ہے وندنا راگ کی  یہ کہانی۔اس آگ نے صرف ہمارے حریفوں کے گھر نہیں جلائے، ان کے بدن نہیں پھونکے، ہم کو بھی بھسم کرڈالا ہے۔ اب ہم ہر بات کو صرف اسی ایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔یہ نفرت  کبھی سرحد، کبھی مذہب، کبھی نسل، کبھی جنس  یا کبھی جاتی کا چوغہ پہن کر ہمارے سامنے آتی ہے اور ہم اس کا شکار ہونے کے بعد زندگی بھر خود کو یہ جھوٹا بھروسہ دلانے میں مگن رہتے ہیں کہ ہم نے جو کیا وہ صحیح تھا اور جو ہم کررہے ہیں، وہ بھی ٹھیک ہے۔وندنا راگ نے مذہب یا اپنی نام نہاد بہترین تہذیب  کی طرف ہندو مسلمانوں کی مراجعت کے دور میں شدت پسندی کے اس چہرے سے جس آہستگی سے نقاب اتاری ہے،  اس نے ان کی فکشن نگاری کے جوہر کو اور چمکادیا ہے۔یہ کہانی احسن ایوبی کے طویل ہندی کہانیوں کے انتخاب ‘کہانی سفر میں ہے۔۔’سے لی گئی ہے۔اسے یہاں شائع کرنے کی اجازت دینے کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

ہندی فکشن کی خواتین کہانی کاروں میں وندنا راگ کا نام اہم ہے۔ ان کی پیدائش 10مارچ1967کو اندور میں ہوئی۔ یوٹوپیا، ہجرت سے پہلے اور خیال نامہ ان کی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ حال ہی میں ان کا ناول ’بساط پر جگنو‘شائع ہوا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *