سپنا بھٹ کی نظمیں

حوا کی بیٹیاں

 

ہم حوا کی بیٹیاں

آدم زاد کی طلسمی چالوں سے نہیں

بھاشا کی راجنیتی سے چھلی گئی ہیں

 

ایشور کے لیے

ہمیں ہرنی، کوئل، چڑیا نہیں

بلکہ ایک انسان سمجھیے

 

آپ ہمیں چوطرفہ لڑائیوں میں دھکیل کر

ہماری ہی چھاتی پر کنڈلی مارکر

کر تو رہے ہیں

نسائیت اور نسائی شعور پر کھوکھلی بحثیں

پھُلا رہے ہیں چھاتی، ٹھوک رہے ہیں خود کی ہی پیٹھ

مگر جان لیجیے

آپ کی عورت ہنستی ہے

آپ کے تمام تمغوں اور اسناد پر

آپ کے پیٹھ پیچھے

 

ہمیں کمزور کہنے سے پہلے

اپنی ٹُچّی ہوس کو دھتکاریے جناب

 

ہم عورتوں نے ہی ڈال رکھی ہے

آپ کی اصول پسند مردانگی اور وحشی پن پر

لاج اور جھجھک کی چادر

ہم سے ڈھکے رہتے ہیں آپ کے مظالم

اور خطرناک جہالتیں پردے میں

 

ہم بس جسم ہی جسم تو نہیں ہیں

ہمیں صرف کامنی صورت اور لچکتی کمر کے روپ میں مت دیکھیے

ممکن ہو تو

ہمیں وجدان، خیال

اور ذہن کی کسوٹی پر کسیے

اور خود بتائیے کہ

ہم آپ سے کس لحاظ سے کمتر ہیں!

 

ہم آپ کے انا پرست اور جھوٹے

مردانہ زہر سے نیلی پڑی ہوئی عورتیں ہیں

ہمیں اپنا زہر آپ چوس کر تھوکنے دیجیے

 

یہ دنیا صرف آپ کی نہیں ہے

ہمیں بھی جی بھر کر اپنے من سے جینے دیجیے

٠٠٠

 

رعایت

 

رسوئی گھر میں ایک دم ٹھیک مقدار میں ذائقے کا خیال

کہ دال میں کتنا ہو نمک

کہ لبھائے مگر چبھے نہیں،

کتنی ہو چینی چائے میں

کہ پھیکی نہ لگے اور زبان تالو سے چپکے بھی نہیں

اتنے سلیقے سے اوڑھے دوپٹہ

کہ چھاتی ڈھکی رہے

مگر منگل سوتر دکھتا رہے؛

چہرے پر ہو اتنا میک اپ

کہ تِل تو دکھے ٹھوڑی کا

مگر رات پڑے تھپڑ

کا سیاہ داغ چھپ جائے

چھوئے اتنے ٹھیک طریقے سے کہ پتی خواب میں بھی نہ جان پائے

کہ اس کے کاندھے پر دیا تازہ گرم بوسہ اسے نہیں

دراصل اس کے پریم کی یادکے لیے ہے

اتنی ہی حاضری دکھے کہ

رسوئی گھر میں رکھی ماں کی دی پرات میں اس کا نام

لکھا ہو

مگر گھر کے باہر نیم پلیٹ پر نہیں،

کہ گھر کی قسطوں کی ساجھے داری پر اس کا نام ہو

مگر گھر گاڑی کے مختار ناموں پر کہیں نہیں

کچھ اتنا سدھا اور حساب سے ہے عورت کا من

کہ کوئی ماتھے پر چھاپ گیا ہے

‘تریا چرترم’

جسے دیوتا بھی نہیں سمجھ پاتے، آدمی کی کیا بساط!!

اور اس طرح عورت کو

‘آدمیوں’ کے رتبے اور درجے سے بے دخل کردیا گیا ہے

اتنی ناقابل برداشت ڈرامائیت

اور میکانکی عمل سے تھک کر

اتنے سارے سلیقوں، ترتیبوں اور ٹھیک حساب کے درمیان

ایک عورت تھوڑا سا بے ڈھب، بے سلیقہ  ہوجانے

اور بے حساب جینے کی رعایت چاہتی ہے

٠٠٠

 

اے مری موت

 

اے مری موت!

ابھی ٹال دے اپنی آمد

 

کہ ابھی میں نے دیکھا نہیں ہے سمندر کوئی

ابھی کسی برساتی جنگل میں بھٹکی نہیں

نمی سے بھرپور خالی من کو لے کر

 

ابھی کسی ایسی یاترا کی خوش رنگ یاد میرے پاس نہیں

کہ جس میں ریل گاڑی میں ہوتی ہوں

تین صبحیں اور دو راتیں

 

ابھی ہُگلی کے ریتیلے تٹ پر

نہیں چھوڑی میں نے اپنے تھکے ہوئے پیروں کی بھٹکن

ابھی نوکا میں بٹھا کر لے جاتے

کسی ملاح کی  ملائم ہانک نے مجھے باندھا نہیں

 

ابھی میرے پاس نہیں ہے دوستوئیفسکی کا سارا ادب

ابھی میں نے کیروستامی کو پورا جانا نہیں

 

ابھی ماجد مجیدی کی ایک فلم

راہ تکتی ہے میری فون کی گیلری میں چپ چاپ

 

ابھی میرا ایک دوست جوجھ رہا ہے ہر سانس کے لیے

ابھی اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں نہیں رکھیں

اسے دلاسا نہیں دیا

 

ابھی میری بیٹی بچی ہی ہے ننھی سی

ابھی میں نے اسے دوست نہیں بنایا

ابھی پوچھا  بھی نہیں ہے کہ تجھے عشق ہوگیا ہے کیا میری بچی؟

 

ابھی اپنے پیار کے موضوع پر کچھ کہنے کی ہمت نہیں جٹائی

اور تو اور

ابھی اس پاگل سے بھی ہے ایک ہی ملاقات

ادھوری اور جھجھک سے بھرپور

ابھی اس نے میرا ہاتھ نہیں تھاما

ابھی اس نے مجھے چوما نہیں۔۔۔

٠٠٠

 

حاصل

 

رات آتما کے

جس سیلے اندھیرے میں پریم کا جھگڑا تھا

تپتی ہوئی کایا کی اسی تنہا زمین پر

ٹھنڈی سنہری بھور اتر رہی ہے

کیسی اننت شانتی ہے!

 

سانس کے ہر دھاگے میں

جس کے نام کا منکا بندھا ہے نا

ایک دن وہ مالا بھی ٹوٹ جانی ہے

 

ہر رسد کی ایک معیاد ہوا کرتی ہے

جیسے اپنے ہی  لہو سے کم ہوجائیں سفید خونی خلیات

دل سے جذبۂ عشق گُم ہوتا رہتا ہے دھیرے دھیرے چپ چاپ

 

کبھی پرانے ستار سے بھی زخمی ہوجاتی ہیں انگلیاں

اندھیرے پر بھی اجالے کا داغ لگتا ہے

 

بے انتہا خوبصورتی سے بھی

کمہلاتا ہے آنکھ کا پانی

بہت دکھ سے ہی آتما کھوکھلی نہیں ہوتی

بہت پیار بھی عمر کھاجاتا ہے

 

کوئی کروٹ بدلوں

ساتھی دکھ میری طرف ہی منہ کرکے سوتے ہیں

آنکھ کھلتے ہی مسکرا کر کہتے ہیں

کہ ‘جیسے ہمیشہ نہیں رہتی کوئی یاد، کوئی خواہش،

کوئی لمس یا جسم کی بو اس مادی دنیا میں

عشق کا یہ غم بھی نہیں رہے گا’

 

جب کچھ نہیں سوجھتا

تب عشق کاندھے پر ہاتھ نہیں دھرتا

دلاسہ نہیں دیتا

 

یہ تو موت کا کرم ہے

جو ایک دن کان میں آکر دھیمے سے کہتی ہے

کہ اٹھو!

اس کی یادوں کی پوٹلی باندھ لو

 

زمین پر رونے کا یہ تمہارا آخری دن ہے

اور میرے ساتھ چلو۔۔۔

٠٠٠

 

لوٹنا

 

چلتی تھمتی سانسوں کی ترتیب میں نہیں

آتما میں مسلسل بجتے سنگیت کی

بے ڈھب لے میں لوٹنا

 

کس ترکیب سے پکاروں تمہیں

کہ کوئی پکارخالی نہ جائے!

 

لوٹنا ممکن نہ ہو، تب بھی

وادی میں گونجتی اپنے نام کی بازگشت میں لوٹنا

 

اس کایا میں نہیں ہوں میں

نہ ہی اس  کویتا میں

بھاشا میں نہیں ، اشاروں میں ڈھونڈنا مجھے

میں ایک چپ ہوں دھیرے دھیرے مرتی ہوئی

مجھ میں گم آواز کی سند کی طرح لوٹنا

 

گھنی اداسیوں سے اٹھتی ہوئی

اس روہانسی کوندھ میں لوٹنا

جس کی چھایا جسم پر نہیں من کی دیوار پر پڑتی ہو

میرے من میں کھلتی چمپا کی پنکھڑیوں میں لوٹنا

 

پریم سے مُکت ہونا، سانس کا چوک جانا ہے

اور پریم کی خواہش ، یادوں کی پیٹھ پر

بیٹھی ہوئی ایک سست پپلی تتلی ہے

جو کہیں اڑتی ہی نہیں

 

تم نجات کی خواہشوں میں نہیں

زندگی کی حسرتوں میں لوٹنا

 

ابھی ایک جنم لگے گا

تمہاری خواہشوں سے دور ہونے میں

تم میری نہیں اپنی خواہشوں میں لوٹنا

 

میرے عشق!

تم ایک دن،

اپنے من کے پنچانگ سے میل کھاتے

میرے من کے بارہ ماسی موسموں میں لوٹنا۔۔۔

٠٠٠

 

کتابیں

 

میں نے ایمان کی طرح برتیں کتابیں

کتابیں ہی میری ساتھی رہیں

میں نے کتابوں سے پیار کیا

 

جیون کی گھنگھور  اداسی میں

میں نے ایشور کو نہیں پکارا

مندروں میں گھنٹیاں نہیں بجائیں

پرارتھنا میں بندھے رہ کر دیپک نہیں جلائے

میں نے  ہمدرد کتابوں کے صفحات پلٹے

 

میں نے ان لوگوں سے کبھی ہاتھ نہیں ملایا

جن کے ہاتھوں میں نہیں تھی

کتابوں کو چھولینے کی صلاحیت

جن کے گھروں میں کتابیں نہ تھیں

وہ گھر میرے لیے انجان اور اجنبی ہی رہے ہمیشہ

 

میں نے بابا سے بیاہ میں مانگا

ان کا وہ بڑا فوجی صندوق

جس پر لکھا تھا

اوم پرکاش، 1623 پائنیئر کمپنی

نہیں،زیورات رکھنے کے لیے نہیں

کتابیں ہی میرے لیے زیورات ہیں

انہیں رکھنے کے لیے آج بھی میرے پاس الماری نہیں ہے

الماری خریدنے نکلتے ہی ہمیشہ مجھے دکھا

کسی نایاب کتاب کا نسخہ میری راہ تکتا ہوا

 

میں نے کتابوں سے عشق کیا، کتابوں سے لپٹ کر روئی

کتابیں ہی میری رازدار رہیں

میرے اندر گوشت پوست نہیں

کتابوں کی سیلی گندھ ہے،

کتابوں کی ہی بھوک اور پیاس بھی

 

میں نے ماں سےنہیں کتابوں سے سیکھی دنیا داری

کتابوں نے  مجھے بہتر انسان ہونے میں مدد دی

میں نے اکیلے چلتے ہوئے کاٹے

سب سے کٹھن دن، سب سے خراب موسموں میں انہیں کے سہارے

 

کتابیں ہی میری زندگی کا سرمایہ ہیں

 

میرے بعد میرا سب کچھ بٹ جائے گا بچوں میں

کتابیں مگر چودہ برس کی اس پہاڑی بچی کو ملیں گی

جو چار کوس آندھی پانی میں چل کر

پرانی کتاب لوٹا کر

مجھ سے نئی کتاب مانگ لے جاتی ہے

٠٠٠

 

سُکھ کا سوانگ

 

ہے دیوتا!

دکھ ہی دکھ گمکتا ہے

پرانے باسمتی بھات جیسا

میرے جسم کی کوٹھری میں

 

آتما کے روشندانوں سے

ٹپ ٹپ اندھیرا ہی گرتا ہے

پل پل عمر کا بسنت بیت رہا ہے

ادھر سانسوں کا مبہم رسم الخط

زندگی کے پیلے کاغذ پر

ماند پڑتا جاتا ہے

ادھر من پر لگا

سوگ کا موسم ختم ہونے پر ہی نہیں آتا

 

یادیں خود کو دوہرانے کی زبان جانتی ہیں

عشق گزر کر مرجھائے ہوئے

پھولوں میں بدل جاتا ہے

 

سچ ہے کہ

آتما کی قید سے کوئی مُکتی نہیں

اس پر یہ معلوم ہونا کہ

عشق کا طلسم کیسا ہی نازک کیوں نہ ہو

ایک روز ٹوٹ جاتا ہے

عاشق کا لمس کتنا ہی پرکشش کیوں نہ ہو

ایک دن جسم اس کی یاد سے آزاد ہو ہی جاتا ہے

 

اُفف!

کتنی گھنی اوب سے بھرے ہوئے ہیں یہ دن

ایسے میں سفر کی تکان نہیں

منزل کی قربت کا احساس مایوس کرتا ہے

 

اچھی طرح جانتی ہوں

کہ سب چھل فریب انت میں مٹ جاتے ہیں

کوئی جادو سر پر ہمیشہ سوار نہیں رہتا

 

پھر بھی چاہتی ہوں کہ

عشق کا یہ دکھ زندگی بھر بنا رہے

 

بھلے ہی میری زندگی میں اس کا ہونا

پیاس کی ایک الاپ کی مانند زندہ رہے

 

بھلے ہی اس کا ساتھ ہونا

دکھ کے سراب کی مانند

سکھ کے کچے پکے سوانگ جیسا ہی ہو

٠٠٠

 

سوگ

 

اس کی تانبئی جسمانی بو

دانتوں سے کاٹ کر  الگ کردی

پھر بھی زبان پر ایک کھارا داغ رہ ہی گیا

 

اب کوئی چارہ نہیں

کوئی علاج نہیں

ان بے ڈھب نظموں میں کوئی موسمی راگ نہیں

 

یہ نظم پر نہیں

من پر طاری سوگ ہے

 

نہیں، یہ اس کی یاد نہیں ہے

میری چھاتی پر میرا ہی بے حرکت ہاتھ اوندھا پڑا ہے

 

وہ کہیں نہیں ہے۔۔۔

٠٠٠

 

سپنا بھٹ کی نظمیں عورتوں کے انسانی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں، وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ان کے تعلق سے دھواں دار مباحث اور حقوق کی بات کرنے سے بہت بہتر ہے کہ انہیں جیتا جاگتا انسان سمجھا جائے۔ان کے یہاں کسی قسم کی تقدیس کے پہلو تلاش کرنے اور پیدا کرنے سے اچھا ہے کہ ان سے وہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں، جو انہیں انسان سے بڑھ کر فرشتہ ہونے یا بنادیے جانے کے امکانات پیدا کرتی ہیں۔یہ نظمیں ایک ایسی نظم نگار کی ہیں، جس کے یہاں عورت عشق کرتی ہے، صرف خیالی اور ہوائی نہیں بلکہ اپنے جسم کے ساتھ بھرپور اور بے پناہ۔وہ عشق کو کسی گنتی، کسی عمر، کسی عظمت  کے آئینے میں قید کرکے نہیں دیکھنا چاہتی اور عورت کے حوالے سے دنیا سے بھی وہ یہی چاہتی ہے کہ وہ اسے جینے دے، عشق کرنے دے اور اپنے اوپر بیت رہے تمام موسموں سے اسی طرح آزادانہ طور پر لطف اندوز ہونے دے، جیسے کہ مرد عام طور پر ہوا کرتے ہیں۔اور وہ اس کیفیت کو لکھنے کی بھی آزادی چاہتی ہے۔

سپنا بھٹ کا جنم 25 اکتوبر کو کشمیر میں ہوا۔اتراکھنڈ میں ان کی تعلیم مکمل ہوئی۔ انہوں نے انگریزی اور ہندی سے ایم اے کیا ہے اور فی الحال اتراکھنڈ میں ہی تدریس کے کام سے وابستہ ہیں۔ان کی دلچسپی خاص طور پر ادب، سنیما اور سنگیت میں ہے۔ہندی کے بہت سے موقر ادبی جریدوں میں ان کی نظمیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ان کے اب تک دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ایک ‘چپیوں میں آلاپ ‘ اور دوسرے’ بھاشا میں نہیں۔’