عطر

پتلی سی گلی تھی جہاں گھر ایک دوسرے سے چمٹے کھڑے تھے۔کھڑکیاں اور چھجے اسی گلی میں جھانکتے ، جیسے اب گرے تب گرے۔عورتیں انہیں چھجوں سے لٹک کر، انہیں کھڑکیوں کے پلوں سے جھانکتے ہوئے ایک دوسرے سے گپ لگاتیں۔جو کوئی اس گلی سے گزرتا اس کے سر پر گپوں اور مصالحے دار افواہوں کاچھتر تنا ہوا ہوتا۔راہگیر اوپر تاکتے اور مسکراتے۔اگر اسی محلے کا باشندہ ہوتا تو اسے اوپر دیکھنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی، آواز سے ہی معلوم ہوجاتا کہ کون بات کررہا ہے۔اجنبی راہگیر اس کے برعکس ذرا متجسس ہوکر نظریں ادھر ادھر گھما لیتے اور مسکراتے ہوئے نکل جایا کرتے۔

بغیر کسی جاسوسی کے یہ بات معلوم ہوجایا کرتی کہ شکور کی بیوی نے بھیڑ کا شوربہ پکایا ہے یا محسن کی امی نے رات کے لیے سویاں بنائی ہیں یا پھر دس سال کے غفور میاں پتنگ اڑاتے ہوئے چھجے سے گر کر سرتڑوا بیٹھے ہیں یا یہ کہ کرپا کو معیادی بخار ہوگیا ہے۔یہ بھی سب کے علم میں تھا کہ فریعہ کا میاں دبئی گیا اور یہ بھی کہ صبوحی کا بیاہ کسی دور دیس کے لڑکے سے طے ہوا ہے جہاں سے  وہ محض اب تک ایک دفعہ ہی ملنے آیا تھا اور ایک عجیب سا عطر اپنے ساتھ لایا تھا۔

ابان خوب لمبا اور خوبصورت نوجوان تھا۔اس کے چہرے پر ہلکی بھوری داڑھی تھی اور آنکھیں ، ماشا اللہ! ایسی آنکھیں جو نہ جانے کون سی دنیا میں کھوئی ہوئی سی معلوم ہوتی تھیں۔بڑی امی بڑبڑاتی ہیں،’جیسے خود ہی کہیں گم سا ہوگیا ہو۔’

نصرت، صبوحی کی اماں جانی چہرہ سکوڑ کر چپکے سے ایک کونے میں تھوکتی پھونکتی، نظر اتارتی ہوئی کہا کرتیں، ‘نگوڑی بڑی امی میری بنو کی قسمت سے جلتی ہیں، مریں میرے دشمن، کھوئیں میرے دشمن۔’

لیکن پہلی دفعہ جب صبوحی نے یہ سنا تو اس کے بدن پر ایک کپکپکی سی تیر گئی۔ابان کی نظر اسے یاد آئی تھی، بھیدتی، ٹٹولتی، جانکار نظر ۔جیسے اس کے آر پار کی اسے سب خبر لگ گئی ہو۔

ابان دور کا رشتہ دار تھا یا شاید کسی دور کے رشتہ دار کا دوست۔یہ تار اتنا پیچیدہ تھا کہ رشتے کو صاف صاف پہچان لینا ایک دم مشکل تھا۔اس کے لیے زمین  پر کسی لڑکے کے لیے یہ پورا نقشہ بناپانا ممکن نہیں تھا کہ یہ رہے فلاں اور یہ ان کی بیگم، ان کا بیٹا یہ ، اس کی سالی ،وہ سالی کے شوہر کی چچازاد بیٹی کی ممانی ،جس گاؤں میں بیاہی۔۔۔آئیں بائیں شائیں، اور پھر سب اتنا گڈ مڈ ہوجاتا کہ کون بیٹی ، کون ممانی، کس کی خالہ، کس کا بھائی۔۔سب تار الجھ جایا کرتے۔

پھر ابان۔

ابان تو تھا ہی ایسا کہ جیسے نہ جانے کن جہانوں کی دھول پھانک آیا ہو اور اس دور دیش کے نظارے اب بھی اس کی آنکھوں میں ایسے بسے رہتے ہوں کہ اس جہاں کے سب منظر بدرنگ اور پھیکے معلوم ہوتے ہوں۔وہ چپ اور گم سم اپنے آپ میں کھویا کھویا سا رہا کرتا اور بہت کریدے جانے پر ہی کچھ ہوں  ہاں میں جواب دیا کرتا۔صبوحی کا دل کسی گہری کھائی میں  پتھر کی طرح جاگرا تھا۔ہائے، کیسا آدم زاد اس کے پلے پڑگیا تھا۔جو اسے دیکھتا تک نہیں تھا۔جانے کون جہان کی چھایا اس کی نگاہوں میں ڈولتی تھی۔لیکن ایک بار اس کی نظر کسی باز کی طرح اس کے چہرے پر پڑی تھی، جیسے کسی شعلے کی لپک ہو، جیسے ابان نے اسے داغ دیا ہو، تم میری ہو۔افف! کیا تھا ان نگاہوں میں؟ کتنی دفعہ صبوحی سوچتی ہے کہ اس نظر کو پہچان  لے، ان میں محبت تھی یا حقارت؟ پالینے کی شدت تھی یا کیا تھا آخر؟

اور ایسا نہیں تھا کہ صبوحی بدشکل ہو۔ہاں، کوئی ایسی حسین بھی نہ تھی، مگر اس کی گندمی رنگت میں ایک ایسی روشنی جھلکتی تھی کہ اس کا چہرہ دمکتا سا معلوم ہوتا تھا۔اس کی آنکھیں ذرا پھیلی سی تھیں اور ان کی پتلیاں ایسی بھوری ہری تھیں کہ لگتا کوئی نادان ہرن کا بچہ، دنیا کو بہت حیرت سے دیکھ رہا ہو۔

جوان جہان لونڈے پلٹ کر اسے دیکھتے ضرور تھے، سارے کے سارے۔جب وہ مدرسے کو جاتی، کبھی درزی سے کڑھائی وڑھائی کروانے، یا کسی سہیلی کے گھر۔برقعہ اوڑھ تو لیتی مگر چہرہ کھلا رہتا۔آخر اسی کا محلہ تھا، اسی کی اپنی دنیا۔جہاں پیدا ہوئی، پلی بڑھی، جہاں ہر کوئی اس کا اپنا تھا، خالہ، بڑے ابا، چچا، بھائی، آپیاں اور باجیاں۔

اور ہر گھر دوسرے سے جڑا تھا، ہر آنگن دوسرے آنگن سے، چھتیں، چھتوں سے۔کئی بار کسی کے گھر جانے کے لیے گلی میں نکلنا قطعی ضروری نہ ہوتا، بس آنگن کی دیوار میں جڑے کواڑ سے پڑوس میں اور اس سے پھر اگلے گھر میں جایا جاسکتا تھا۔سارے گھر اسی طرح فخریہ انداز میں ایک دوسرے کے خفیہ دوست تھے۔اسی طرح سب خرگوشوں کے بلوں کی طرح ایک دوسرے کے سنگی ساتھی بنے ہوئے تھے۔اور اسی طرح ان کی زندگیاں بھی دودھ میں روح افزا کی طرح گھل مل گئی تھیں۔ان کے بچوں کی ایک دوسرے سے شادیاں ہوجاتیں اور کئی پشتوں سے یہی ہوتا آرہا تھا اس لیے اب کسی کا دوسرے سے رشتہ ڈھونڈ پانا بڑی مغز ماری کا کام تھا۔کوئی کسی کا ماموں اور بھائی ایک ساتھ تھا، کوئی ممانی، آپی اور خالہ۔کسی کا کسی سے ایک سیدھا اکہرا رشتہ نہیں تھا، اس میں دس اتار چڑھاؤ اور پیچ و خم تھے۔

لیکن یہ بھی اس بات کی ضمانت نہ تھی کہ آپس میں سب شیر و شکر ہوکر ہی رہیں گے۔جو ندی اندر اندر بہتی تھی وہ ہمیشہ میٹھی ندی نہیں رہتی تھی، کبھی کبھار  اس میں  جہنمی کڑواہٹ بھی پیدا ہوجاتی۔گاڑھا اندھیرا چھاجاتا، بواٹھتی۔ایسی سڑی ہواؤں کی بھانپ اٹھتی جیسے شیطان نے پیشاب کردیا ہو۔مگر کبھی  کبھی نہ جانے کیوں ایک میٹھی خوشبو بھی تیر جایا کرتی، تازے پھولوں کی سبز مہک، لوبان کی پاک سگندھ کی طرح۔

 

اس گھر میں ایسے کئی خفیہ کمرے تھے جہاں اندھیرے اور مکڑیوں کے جالوں کا راج تھا۔ان کمروں پر قفل لگے ہوئے تھے اور صدیوں سے یوں پوشیدہ تھے کہ اب گھروالوں کو یاد تک نہ تھا کہ گھر میں ایسی کوئی جگہ بھی ہے۔کوئی بھوت یا جن تھا جس نے اندر کی سب ہواؤں کو نگل لیا تھا اور امائیں بچوں کو ڈراتیں، خبردار جو اس طرف دیکھا بھی۔اگر کوئی بچہ ادھر بھٹک کر پہنچ جاتا تو ترنت مٹھی بھر لال مرچ آگ میں جلا کر ، اس کی دھانس والی ہوا کو بچے کے سر پر وار کر بلائیں ٹالی جاتیں۔

بلائیں جانے کہاں جاتیں مگر پورا گھر کھانس کھانس کر بے دم اور بے حال ہوجاتا۔

یہ کمرے آخر بنے ہی کیوں تھے اور کب؟ کس لیے؟ اور یوں تابوت کی مانند انہیں کس نے بند کیا تھا اور آخر کیوں؟

سب سے عمردراز سوبرس کی بی بی تھیں۔ شاید انہیں ہی پتہ تھا۔ اور ان سے  کچھ نکلوالینا ممکن نہیں تھا۔کوئی پوچھ لے تو اپنے کان ایسے ڈھک لیتی تھیں جیسے پگھلا سیسہ ڈال دیا ہو کسی نے۔پھر یوں جھومتیں جیسے کوئی جن سوار ہوگیا ہو۔ان کی آواز پھسپھساتی-بدبداتی ہوئی سی نکلتی، جانے کون سا راز تھا جس  کا اس طرح انکشاف کرتی ہوں، مگر کان سٹاؤ تو معلوم ہوتا کہ اچھا! قرآن کی آیتیں پڑھ رہی ہیں۔

کبھی کبھی جب ہوش میں ہوتیں، تب صاف اور کھنک دار آواز میں کہتیں، اف! کیا ہولناک وقت تھا! سب کو مار کر کمرے میں ٹھونس کر جلادیا کمبختوں نے، ان کمروں میں موت ہے، جلی ہوئی ہڈیاں ہیں، دیواروں کی راکھ ہے، موت کی چیخ ہے۔مت۔۔مت کھولنا ورنہ کمرے میں بند شیطان نکل آئے گا، ہم سب کو نگل لے گا۔

کپکپاتی ہوئی آواز میں بی بی اعلان کرتیں، اس کے بعد ایسے جھومتیں، جیسےجنون ہوگیا ہو، پھر اچانک  رونے لگتیں، سوکھی سی رُلائی جس میں آنسو نہ گرتے ، بس چہرہ ٹیڑھا میڑھا ہوجاتا، جیسے بدن سے جان نکلنے والی ہو۔

پھر یکدم ہنس دیتیں یا گڑگڑاتیں، منتیں کرنے لگتیں کہ اے نگوڑیو! کچھ کھانے کو تو دو، مہینوں سے کچھ میٹھا نہیں کھایا، اے لڑکی جا بھاگ! جلدی سے ، مجھے میٹھے چاول لادے،فیرنی، شیر خرما، شیرمال، باقر خانی۔انگلیوں پر نام گناتیں،ا یسے جیسے کوئی بچہ پہاڑا رٹتا ہو۔

پھر اس طرح بھوک میں سسکیاں بھرنے لگتیں جیسے مہینوں سے کچھ نہ کھایا ہو جبکہ سچائی یہ تھی کہ آدھے ایک گھنٹے پہلے ہی پیٹ بھر کر کھا کر اٹھی تھیں۔

بی بی کی بھوک ان کے جسم کے الٹ بڑی بھاری اور دمدار تھی۔وہ دکھتی تو سوکھے چھوارے کی طرح تھیں، جیسے سب پانی سونکھ کر نچوڑ دیا گیا ہو، اور اب جسم سوکھی درارآمیز زمین کی طرح اینٹھا ہوا بنجر ہوگیا ہو۔ لیکن بی بی کے پاس کہانیاں قصے تھے، شہرزاد کی ہزار راتوں سے بھی بڑھ کر قصے۔ایک سے ایک، جادو بھرے، ایک سے ایک خوبصورت جواں مرد اور حسین بیگمات کے، نوابوں اور بادشاہوں کے ، اس محلے   کے گھروں میں دفن سات پشتوں کے رازوں کے۔یہ اور بات تھی کہ اب ذہن پر جالے لگ گئے تھے اور کوئی بھی قصہ پورا یا ثابت ان کے پاس نہیں بچا تھا۔

صبوحی ان کے پاس دن میں کئی بار بیٹھتی، جب جب کام سے فرصت ہوتی، آجایا کرتی۔کروشیے سے سفید جھاگ جیسی لیس بنتی اور بی بی کی بدبداہٹوں پر دھیمے دھیمے مسکراتی، اوپر آسمان کو تاکتی اور پھُرر سے اُڑ جاتی۔یہ آسمان کا ٹکڑا بھی ویسے ثابت و سالم کہاں بچہ تھا۔نیلے پر بجلی کے تاروں کا تانا بانا تھا۔ پھر ایک طرف وہ بڑا سا پیپل کا پیڑ تھا جس سے دن بھر پتیاں جھڑتیں۔جیسے کوئی دھیما راگ گرتا ہو، جیسے کوئی دلربا  کو چھیڑ دے اور اس کے سر نکل پڑیں، ناچتے کودتے، گرتے پڑتے، دھیمے دھیمے۔پھر دن بھر آنگن میں جھاڑو لگتی، صبوحی دھیرے سے گاتی ہوئی جھاڑو دیتی جاتی، جیسے ناچ رہی ہو۔پرندے چہچہاتے ہوئے شاخوں اور پھولوں پر اتر آتے گویا سنگت دینے کا ارادہ ہو۔

آنگن کی چار دیواری سفید  رنگ سے پتی ہوئی تھی اور دھوپ پیپل کے پتوں سے گزرتے  ہوئے یوں چھن کر گرتی جیسے  سب کچھ نیا نکور اور تروتازہ کردے رہی ہو، اجالے سے بھرپور، ایک ٹھہرتی  سمٹی ہوئی خوشی سب جگہ پھیل جاتی، جیسے کہ اس افراط میں یہ پل کبھی کہیں اور سے نہ گزرے ہوں۔بھیتر کے ٹھنڈے پتھروں اور بھاری لکڑی کی دیواروں والے دم گھونٹو کمبل  جیسے اندھیروں سے بالکل الگ۔

دن بھر کام میں پھنسی صبوحی ابان کے بارے میں سوچتی۔اس کی آنکھیں ایسی مندی چھپی کیوں تھیں، کیا تھا ان کے اندر؟ صدیوں سے ڈھکا ہوا؟

ابان سے اسے اس عطر کی یاد آتی جو وہ لایا تھا۔کتنا گاڑھا ، طلسمی، جادوئی اور سب سے خاص بات یہ کہ جیسے کسی گناہ کی پیداوار ہو، کوئی راز۔اس کی خوشبو نے  دل پر ریشم ساٹن سی کشیدہ کاری کردی تھی، جیسے منتر پھونکا گیا ہو ۔اس میں  ایک ریشہ دھواں تھا اور ایک قطرہ رات کا گھنا سایہ تھا۔اس میں ایک پرت محبت کا جذبہ تھا اور سو پرتوں میں طلب نہاں تھی۔سب سے زیادہ جان لیوا تھی اس کی پاگل بنادینے والی خوشبو جو جانے کس تہہ سے آتی تھی کہ بے ہوش ہی کردیا کرتی، کپکپادیتی، ایسی امید بھردیتی کہ اف، ایسی خواہشوں  کا خیال بوتی کہ جنہیں کبھی  سوچنے تک کا موقع نہ ملا ہو، رات کی گہری نیند کے سپنے تک میں جو کبھی نہ آئی ہوں، اس کا بدن بھاری ہوجاتا، جیسے کوئی گاڑھی شراب اس کی شریانوں میں بہہ رہی ہو، وہ مست خرام ہوجاتی۔اسے لگتا اس کا سارا بدن بہہ جائے گا، اس طرف جہاں وہ سُگندھ ہے، کوئی اسے کھینچے لیے جاتا تھا۔جانے کس سیاہ جادو بھری دنیا میں ،جہاں سرگوشیاں رقص کرتیں، آؤ، آؤ جانِ من! آؤ! اور اس شدت سے اسے ‘وہاں’ ہونا تھا کہ وہاں بس اب اور اسی وقت ‘یہاں” ہوجائے، بس ابھی اسی سمے، ورنہ وہ ٹوٹ کر ہزار ٹکڑوں میں بکھر جائے گی، جیسے ایک سیاہ ندی، ریشم جیسی اس کے اندر اتر جاتی۔اور چونکہ اس ندی  کا کوئی کنارہ نظر نہ آتا تھا، اس کی طاقت ڈراونی معلوم ہوتی تھی، صبوحی ایسی بے چین  ہوجاتی، کہ بے چینی اس کے اندر  کسی مضطرب چیل یا تیکھی تیز کٹار کی طرح غوطے کھانے لگتی۔

اب اس سے بی بی کی بغل میں بیٹھا نہ جاتا۔ وہ کروشیا چلاتی ہوئی سکون  سے بننا نہ جانے کہاں گم ہوگیا تھا، اماں کے ساتھ رسوئی  میں بڑی دیگ میں گوشت اور بگیری پکاتے ہوئے اماں کی لگاتار چک چک پر مسکرانا کہاں گم ہوگیا تھا۔ اب تو جب وہ دال چینی اور لونگ کوٹا کرتی تو دردرے مسالے سے اٹھتی ہوئی خوشبو اسے وہیں لے جاتی جہاں ابان تھا، جہاں عطر کی کستوری مہک تھی۔

 

اس کے پاس عطر کا ایک ڈبا  ہے، عطر دانی، چندن کی لکڑی  اور اس پر پیتل کے سنہرے تاروں کی نقاشی ، ساتھ ہی کونوں پر سنگ مرمر ۔ان کے اندر نیلے ساٹن پر عطر کی شیشیاں سوتی ہیں۔ جب عطر والا آتا، صبوحی سب سے پہلے بھاگتی، اس بار کون سی نئی خوشبو لائے ہیں بابا میاں۔

بابا میاں سفید داڑھی والے بزرگ تھے۔ بڑی دور سے آتے تھے، جہاں سمندر بھی تھا اور پہاڑ بھی۔ ان کے ٹھکانے کے پاس دیودار، بِیار، شیگُل، بن پیپل، کنُور اور بانج کے اونچے پرانے درخت تھے۔اور ان سب کی خوشبو کا عرق وہ اپنے ساتھ لیے آتے، کیسر،اخروٹ، انجیر، چلغوزوں اور رس بھریوں کی مہک اس کی عطر دانی میں گھُس پیٹھ کرتیں۔سمندر کے جھاگ کی نمکین ہوا، سمندری بنسپتیاں، شنکھ اور بھیگی ریت طوفان مچاتے، لہروں کی گرج، مچھلیوں کی تیراکی، کچھوؤں کی سانس اور گلابی سیندھا نمک سمندر سے نکل کر عطر میں سما جاتے۔

اور جیسے جیسے وہ عطر دانی کھولتے ایک ایک کرکے، جمع  شدہ افراد اس جگہ پہنچ جاتے۔ جہاں ہوا صاف، ٹھنڈی اور کُرکُری تھی، جہاں فضا میٹھی اور معصوم تھی، جہاں پھول اور پتیاں  جلد پر کھلتی اور کھلکھلاتی تھیں۔

یہ رہا گلاب اور یہ سرخ نارنگی، اور یہ رہافردوس عطراور یہ۔۔۔ان کی آواز بھاری ہوجاتی، بانہیں کھل جاتیں، جیسے جنت کو آغوش میں لے رہی ہوں، الحرمین، جنت فردوس، یہ کستوری، یہ مشکِ حنا ، یہ زرد آفتاب، بتول، فارسی شفاعت، ایرانی گُل یاس اور۔۔۔ان کی آواز اب پھسپھسانے لگتی، جیسے کوئی ناٹک کا اہم حصہ ادا ہونا ہو۔۔۔یہ رہا سفید دھتورا۔۔۔افیون کافوری۔

کبھی ان کا ایک عطر بھی نہ بِکتا، کبھی ابا مان جاتے تو صبوحی اپنی پسند کی کوئی شیشی اٹھالیتی۔دھیرے دھیرے سال در سال اس کی عطردانی بھرتی گئی۔ننھی شیشے کی ہیرےکی کنی سی چمکتی عطردانی ، جس میں سبز، فیروزی، سرخ عطر جھلملاتے۔ان شفاف جھلمل شیشیوں میں جگنو چمکتے، تارے چمچماتے، یاقوت اور زمرد کی کنی لشکارے مارتی۔

صبوحی مہک سے آشنا تھی۔سچ مچ جانتی تھی، اس کا ریشہ ریشہ پہچانتی تھی۔اس کو خبر تھی کہ اس عطر میں کیا سامان ڈالا گیا ہے۔اسے پتہ تھا کہ اس سامان کا اثر کس قدر گہرا ہے۔ ہاں، اسے مہک کی پہچان تھی، اس کی ہر حرکت کو وہ جانتی تھی، اس کے اندھیروں اجالوں کو دیکھ سکتی تھی، ہر خوشبو سے بات کرسکتی تھی جیسے درختوں، پھولوں سے بات کرتی اسی طرح مہک کو چھوتی، سونگھ سکتی تھی، زبان پر اس کا ذائقہ محسوس کرسکتی تھی۔

 

رات ہوتے ہی صبوحی ایک ایک کرکے عطرکی شیشیاں کھولتی، ہولے سے ناک کے پاس  لا کراپنے ہونٹوں کے اوپر پھراتی۔ہر ایک عطر الگ تھا، ہر ایک خاص تھا، مگر کوئی بھی ابان کے لائے ہوئے عطر جیسا نہیں تھا۔

ابان کا عطر الگ دنیا سے تعلق رکھتا تھا جو نہ جنت تھا نہ دوزخ۔ بیچ رات جب چاند ٹہنیوں پر جھک کر کھڑکیوں کے راستے کمرے میں جھانکتا، تب صبوحی اس عطر کو نکالتی، اپنی نبض پر دھرتی جہاں سے اس کا دل جڑا ہوا تھا، اپنے کان کے پیچھے کی نازک چھپی ہوئی جگہ پر ملتی ، اپنی کہنی کے بھیترننھے گڈھے پر ٹپکاتی اور انتظار کرتی۔ایک حرارت آمیز لہک جاگتی، جیسے لوبان جلایا گیا ہو، اس کا دھواں چھلے بناتا ہوا اٹھتا اور اس کے بدن کے ہر ایک پور، جلد کے ہر چھید، بدن کے ہر خفیہ کونوں مساموں سے ہوتا ہوا اندر سیندھ لگاتاہوا  اسے ڈھک لیتا۔

پھر ہر ایک سوراخ کے بھیتر بہتا، اس کی ناک کے اندر پہلے ، پھر جلد کے بھیتر کسی ندی سا بہتا اور پھر ایک ایسا دھماکہ ہوتا کہ اس کی چیخ نکل جاتی۔اس کو پٹخ ڈالتا، اٹھاتا، گراتا، دھمال مچاتا، اس کے اندر ون کو چیتھڑے چیتھڑے کردیتا کسی بندوق کی گولی سا دندناتا ہوا پھٹ پڑتا۔اس کے اندر ایک لاوا دہکتا، سرخ لال اور پھر اسی تیزی سے ایک ٹھنڈا نیلا گلیشیئر اسے جکڑنے لگتا، پھر رنگوں کی برسات ہونے لگتی، ہر رنگ قدرت کی الگ خوشبو  بکھیرتا۔

جنگلی آگ سا دہکتا، شیطان ، نٹ کھٹ، رنگیلا ، چنچل، ہوس پرست۔ہر احساس کو وہ اپنے اندر گزرنے دیتی ، ایک کے بعد ایک اور کبھی سبھی کو ایک ساتھ۔اور جب یہ وقفہ گزرجاتا تب خوشبو اس کے کانوں میں داخل ہوتی۔

تب اسے پرندوں کے رات کو رونے کی ، ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی، آدی واسیوں کے پورن ماسی کی رات کو نقارے بجا کر روحوں کو بلانے کی، لہروں کے گزرنے کی،وہیل مچھلیوں کے گانے کی، ہوا کے کسی چڑیل کی طرح بیچ دوپہری کے سناٹے میں چیخنے کی، جنگلوں میں  پیڑوں کی پراسرار سرگوشیوں کی، بھیگے ، پھسلن بھرے، سالن کے داغوں کے ابلنے کی، کھلی آگ کے چرمرانے کی، اور صوفیوں کی کسی قدیم محفل سماع کی آواز سنائی دیتی اور جیسے اتنا کافی نہ تھا، خوشبو اس کی آنکھوں میں جھلملاتی اور پھر اسے صرف سماع میں ناچتے جنونی درویش دکھائی دیتے۔

پھر وہ بھی انہیں میں ایک ہوجاتی، گول گول ناچتی، بے قابو، بے ہوش  سی ہوکر اور پھر وہ اس کے ہنوٹوں کو سہلاتے، اس کی زبان پر ٹھہرتے، اس کے منہ میں آب حیات کا ذائقہ گھل جاتا، اتنا تیکھا مگر بے حد ملائم، ہلکا  ہلکا جیسے کوئی نور،ململ کی طرح جھلملاتا، پھر بھی گاڑھا جیسے شہد اور آخر میں وہ اس کے باغ و بہار کو چھوتا، ملائمت  کے ساتھ جیسے جھجھکتا ہوا اندر آرہا ہو۔اس کا میٹھا کنواں، اس کی گیہوں کی بالی، اس کی بھربھری نرم سرسبز مٹی، اس کا اندرون جگمگاتا ہوا کوہ نور بن جاتا۔اس کا بدن کسی درد کی اینٹھن میں اور کسی ایسی لذت سے بل کھاتا جیسے یہ دنیا یہیں ختم ہوگئی اور دوسری کی جھلک دکھائی دینے لگی۔درد کسی تیکھے پن سے اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر پٹخ دیتا۔

وہ اس درد کی لہر پر ناچتی، رقص کرتی کسی سرور  کی سواری پر سوار ہوکر جھومتی ہے،جبکہ  ریشم ، ساٹن، ململ کے تتلیوں والے پنکھوں کے دھاگوں اور کروڑوں تاروں سے رات کی سیاہ چادر بنی ہوئی ہے۔اس کا بدن دھڑکتا ہے، ایک لہر  پھر ایک اور پھر ایک اور۔دال چینی کا دھواں کسی نے دیا، بلوط کسی نے جلایا ، آگ رات میں پیلی گرم سلگنے لگی۔اس کا بدن اینٹھتا ہے، ایڑیاں کتنی دہکتی لال ہوگئی ہیں، چہرہ کتنا تمتمایا ہوا ہے، اس کا بدن، افف کس قدر گرم ہے، جسم میں ندی سی رواں ہے، لذت کے اس کنارے پر کھڑی اس کے اندرون کی چڑیا ایک انتم اڑان بھرتی ہے۔

اوہ! کیسی تھکان ہے، پسینے اور عطر کی خوشبو اس کے شریر پر پھیل گئی ہے۔گاڑھی نیند اس پر حملہ آور ہوتی ہے، اپنی آغوش میں دبوچتی اس کی پلکیں بند کرتی، جیسے  کوئی عاشق بانہوں میں سمیٹ لیتا ہے۔خوابوں سے  عاری ایک گہری نیند۔اور جب بھور کا جھٹپٹا ہوتا ہے  وہ خود کو اس کمرے کے کواڑ کھولتے دیکھتی ہے، جو سو برسوں سے بند پڑا تھا۔وہ داخل ہوتی ہے اور ترنت کمرہ اسے اپنے اندر سونکھ لیتا ہے۔ اس کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوکر، قطرہ قطرہ سماتا کمرے کے بیچو بیچ کھنچتا جاتا ہے۔ یہ ابان ہی تھا جو اسے کھینچتا بلاتا تھا۔ یہ کمرہ لذت کا تھا، شہوت کا، بی بی ٹھیک کہتی تھیں، یہاں شیطان کا ہی تو گزر تھا، پُرشہوت شیطان۔

 

نصرت کو حیرت ہوتی ہے۔آج اس لڑکی کا رویہ کچھ الگ ہے۔ کچھ ہے جو اس کی نظر میں آتا ہے پھر اوجھل ہوجاتا ہے۔دن بھر ماتھے  میں جڑی ایک کیل اسے پریشان کرتی ہے۔

پھر بی بی کے پاس بیٹھتے ہی نصرت کہتی ہے، بی بی آج جی ہلکان ہے، اچھا نہیں لگ رہا۔

بی بی دائیں بائیں جھومتی  ہیں ، کچھ نہیں بولتیں۔

بی بی صبوحی کی بات ہے۔

بی بی اب بھی جھومتی ہیں۔

نصرت کچھ دیر بیٹھتی ہے، اس کا ماتھا چنتا کی سلوٹوں سے سجا ہوا ہے۔پھر ایک آہ بھرتی ہوئی وہ اٹھ جاتی ہے۔ صبوحی کے ابا سے تو یہ بات کرنا ہی بے کار ہے، مردوں کو یہ باتیں کہاں سمجھ میں آتی ہیں۔موٹی کھوپڑی والے، عورتیں الگ ہوتی ہیں، ان کے اندر جو دل دھڑکتا ہے وہ کسی دوسرے سنگیت پر تھپکتا ہے۔انہیں تب بھی سنگیت سنائی دیتا ہے جب کچھ نہ بج رہا ہو۔

انہیں بنجر زمین میں بھی پانی مل جاتا ہے، سوکھے میں وہ اناج تلاش کرلیتی ہیں، کالی اندھیاری راتوں میں بھی امید کی کرن دیکھ لیتی ہیں۔وہ خوفزدہ ماحول میں سکون بوتی ہیں، درد میں مرہم ہوجاتی ہیں، وہ پوری کائنات کی دشواریوں اور خوشیوں کا کوہسار ہوتی ہیں۔تو اس طرح وہ مقدس اور سزایافتہ دونوں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔

 

دن گزرتے ہیں، ایک دوسرے میں گھلتے ملتے، بغیر رکے، بنا بدلے کہ ہر دن بالکل ایک سا بیتتا ہے اور سارے دن ایک لمبی یکساں چادر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ سب کچھ بالکل ویسا ہی  ہے جیسا ہونا چاہیے۔کھانا پکتا ہے، گھر کی صاف صفائی ہوتی ہے، کپڑے دھلتے ہیں، آنگن بُہارا جاتا ہے۔پھر بھی یہ بیتتا بہتا ندی جیسا دن جو اوپری سطح پر شانت اور پرسکون دکھائی دیتا ہے، بھیتر کیا طوفان چھپائے ہے، کون جانے اور پہلی بار اس طوفان سے انجان ہے نصرت۔کچھ ہے کا اندیشہ ہے اسے مگر کیا ہے کی بے چینی بھی۔کس سے کہے ، کس سے بانٹے یہ حال دل۔

بس بی بی با ہوش ہوتیں، ان کا ذہن صاف ہوتا، کاش ، پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔سب ان کے مشورے سے ٹھیک کرلیا جاتا۔بی بی تو سب جانتی تھیں،  اندر کی سو پرتوں اور پیٹ کے پیچوں کو بھی پکڑلیتیں، پھر تعویذ بناتیں جس کا ایسا اثر ہوتا کہ سب پریشانیاں اڑن چھو ہوجاتیں۔مگر اب تو بی بی چند لمحوں کے لیے ہی ہوش میں آتی ہیں۔

نصرت فاتحہ پڑھتی ہے، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ یا اللہ یہ جو کالا بیج میرے دل میں دھنسا ہے، کوئی ہولناک درخت نہ بن جائے، بس ایک سایہ ہی ہو، سچ نہ ہو، دور ہوجائے مجھ سے بہت دور، کسی سے کہہ کر آیت الکرسی لکھواکر تعویذ بنواتی ہے۔

اللہ میں تیری امان میں ہوں۔

لیکن یہ نہیں پتہ کہ اس تعویذ کو پہنے گا کون؟ پھر کچھ سوچ کر صبوحی کے کمرے کی طاق میں چھپادیتی ہے۔

 

صبوحی جانتی ہے ہر رات عطر لگانے سے وہ ختم ہوجائے گا۔ایک گھبراہٹ اس پر طاری ہوتی ہے۔ابان نے اسے اس سیاہ نشیلی دنیا میں کسی عیار کے کمند سا اٹکا کر اندر کھینچ لیا ہے، گُڑپ سے، ایک شدید جنسی خواہش سے اس کا جسم کانپتا ہے، ایسے احساسات اسے لپیٹ لیتے ہیں ، جنہیں خواب میں بھی سوچنا گناہ ہے۔ لیکن جب رات گرتی ہے، اس کے بدن کا کنول کھلتا ہے۔ابان اپنی ڈھکی مندی آنکھوں سے اسے اشارہ کرتا ہے۔

اوہ ابان تو یہاں چھپے تھے تم، ابان، ابان۔۔صبوحی کی آواز تھرتھراتی ہے۔

اگلے دن آنگن میں جھاڑودیتے وقت اسے بی بی پکارتی ہیں۔

اے لڑکی، ادھر آ۔

ان کی آواز صاف اور مضبوط ہے۔

صبوحی جھاڑو روک کر بھونچکی سی انہیں دیکھتی ہے۔

بی بی کے چہرے پر کسی جانکار کی سی نظریں ہیں، صبوحی کی ہتھیلی کو وہ اپنی ہتھیلیوں میں زور سے دبا کر مسکراتی ہیں۔ دال چینی کی مہک ان کے درمیان ناچتی ہے۔

میں بھی  تیری طرح کبھی لڑکی تھی۔ عطر کے اندھیرے راز ہیں، جادو ٹونا ہے۔میرے پاس بھی تھا۔ مگر دیکھو وہ کمرہ اب بند ہے۔

صبوحی کی سانس جال میں پھنسی چڑیا کی مانند پھڑپھڑاتی ہے۔

بی بی اپنی کمر میں اڑسی ہوئی ایک چابی نکالتی ہیں۔

لو یہ تمہارا ہوا اب سے۔

چابی پیتل کی ہے، بھاری اور نقاشی دار، اکیلی۔

اے لڑکی کچھ میٹھا کھلاؤ، کتنی دیر سے کچھ کھایا نہیں ، جا لے آ میرے لیے۔

پھر جھومنے لگتی ہیں، منہ ہی منہ کچھ اٹ پٹ گنگناتی ہیں، صبوحی کو ان دیکھی آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔ بے ہوشی کی چادر پھر سے تن جاتی ہے۔ان کے جھومنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے، پاگلوں کی مانند۔

رات جب پورا گھر نیند کی گپھا میں دفن  ہے، صبوحی دبے پاؤں اٹھتی ہے۔ اوپری منزل کے گلیارے کے انتم سرے پر کمرہ برسوں سے انتظار میں گم سم کھڑا ہے۔ تالا کب سے نہیں کھلا۔بکری سال، ہاتھی سال، چیل سال، مگر غضب کی بات ہے، چابی ایسے تالے میں گھومتی ہے جیسے ہر روز بیس مرتبہ کھولا بند کیا جارہا تھا۔

اگلے دن ابان اچانک بنا خبر کیے آدھمکتا ہے۔

اپنے ساتھ ایک خوبصورت ڈبا لایا ہے، عطردانیوں سے بھرا  ہوا۔صبوحی اسے دیکھتی ہے اور نظریں بچا بچا کر مسکراتی ہے۔

اس کا بدن ایک الگ لے میں ڈولتا ہے، اس کے کولہے آج الگ گولائی لیے ہوئے ہیں، اس کی گردن تنی ہوئی ہے جیسے ایک ہرنی، اس کی کلائیاں، اس کی بانہیں ، ہوا میں ایسے پھیلتی ہیں جیسے کسی کو آغوش میں بھر لینے  پر آمادہ ہوں۔اس کی چھاتی پھیل کر کرتے پر تن جاتی ہے۔اس کے گال پکے ہوئے پھل کی طرح تمتما جاتے ہیں، گلابی، دمکتے  ہوئے پھٹ پڑنے کو تیار انار کی مانند۔

اس  کاڈر نکل گیا ہے۔ ابان کو دیکھتی اس کی نظریں بے خوف ہیں۔ابان اسے اپنی بھاری آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ان کے بیچ آگ رقص کرتی ہے۔

نہیں، اب اسے کوئی خوف نہیں۔

کہیں اور ، کوئی اور جگہ یا سمے نہیں، بس یہی جگہ، یہی سمے ہے۔جیسے اس بند کمرے سے ڈرتی تھی کہ موت کا کمرہ ہے، بیماری اور پاگل پن کا کمرہ ہے۔مگر نہیں، وہ تو صرف ایک کمرہ تھا، بی بی کے کمرے کی طرح، گہنے اور خوبصورت چیزوں سے اٹا ہوا، ان کی بڑی کاٹھ کی صندوق  جس میں ساٹن کی شلوار، ریشم کا شرارہ، مخمل کی چادر، چاندی اور سونے کی پازیب، کامدار چوڑیاں وغیرہ تھیں۔وہ سب جو انہوں نے شوق سے اپنی جوانی میں اوڑھا، پہنا ، لپیٹا ہوگا۔

اس کمرے میں پھسپھساتا اندھیرا تھا، نیم بے ہوشی تھی، عطر کی خوشبو سے دمکتی، پازیب کی رُن جھن جگاتی۔کسی کی گاڑھی شہد بھری، اصرار بھری آواز دھیمے سے ٹکراتی، نشیلی اور سرور آور۔

میں نے لاکھوں کے بول سہے، ستمگر

تیرے لیے

 

وہ کمرہ نشے اور سرور کی جگہ تھا، ڈولتی انگڑائیوں کی جگہ تھا۔پوری اور ادھوری حسرتوں کی، اس ممنوعہ پھل کی، سانپ کی، پسینے اور حرارت کی، کسی کے ہونٹوں کے لمس کی، ایک من موہک احساس کی اور دیوانہ وار محبت کی جگہ تھاایک نیلا نشہ وہاں ڈولا کرتا جس میں بدن اپنی حدیں  پار کرلینا چاہتا، بانہیں گرپڑتیں، آنکھیں مند جاتیں اور پلکیں بھاری ہوجاتیں۔ایک نیند کا احساس، بے ہوشی، چھپی ہوئی چاہت کہ کوئی چھو لے، کہ سب ٹوٹ پھوٹ اور بکھر جائے، بس۔ابان کا بدن اس کے بدن سے لگا ایک سانس اور ایک لے میں ہلتا، کانپتا، تھرکتا۔یہ سچ تھا کہ جھوٹ، چھلاوہ تھا کہ جادو۔افف! کوئی جسم ایسا ہوتا ہے؟ کٹھور اور نرم ایک ساتھ؟ یہ کس کا بدن ہے؟ یہ ہانپتی بھاگتی ریل کس کی ہے؟ کون ہے؟ یہ بجتی ہوئی سیٹی، یہ میری چٹانوں سے ٹکراتا سمندر، یہ ہوا جو پورے جسم کو سہلاجاتی ہے، یہ خواب اور اس خواب میں ابان کا ہونا، اس کی جلتی آنکھوں کی لپٹ؟ اس کے گلے کی صاف جلد، اس کی انگلیاں، اس کے کان کی سرخ لو، اس کے جسم کی مردانی خوشبو، اس کی بانہوں کی کساوٹ؟ یہ سب حقیقت ہے یا خواب کی دنیا؟

یہ کمرہ اس کے پاگل پن کی پوشیدہ دنیا ہے، یہاں ابان ہے، اس کا عطر ہے، سب چھپا ہوا ہے دنیا سے، سب کھلا ہوا ہے،اس پر۔تو یہ تھا اس کمرے کا راز؟

وہ پھر ابان کو دیکھتی، شرمیلے پن سے نہیں، لاج اور جھجھک کے ساتھ نہیں بلکہ اس نظر سے جس میں اسے اپنی خواہشوں کی تکمیل کی لذت کا اندازہ ہو۔

مجھے لے چلو، جلدی، یہاں سے دور، جانے کس  کے کان میں وہ پھسپھساتی ہوئی ابان کی بغل سے گزر جاتی ہے۔

سارے عاشق قربان اور برباد ہوئے محبت میں۔ پھر بھی جس نے اس ممنوعہ پھل کو نہ چکھا اسے دنیا میں آکر کیا حاصل ہوا؟

٠٠٠

 

پرتیَکشا ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھتی ہیں۔اب تک دونوں زبانوں میں ان کی بارہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔’جنگل جا دوتِل تِل،پہردوپہر ٹھمری، ایک دن مراکیش، تم ملو دوبارہ، تیمور تمہارا گھوڑا کدھر ہے، بارش گر، گلوب کے باہر لڑکی، نینوں بیچ نبی، جال، پارہ پارہ’ ہندی میں شائع شدہ ان کی کتابیں ہیں۔مندرجہ بالا کہانی ان کے تازہ افسانوی مجموعے ‘عطر: دنیا میں کیا حاصل’ سے لی گئی ہے۔

پرتیَکشا کی یہ کہانی  بڑی خوبصورتی سے ہندوستان کے مسلم گھرانوں، خاص طور پر مشترکہ خاندانوں کی زندگیوں کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ اس بھیڑ بھاڑ میں ایک طرف من کی مٹھاس ہے تو دوسری جانب باتوں کی کھٹاس۔گھر ایک دوسرے سے ملے ہیں، کہنے کو سب آس پاس ہیں، ہر وقت ایک شوربپا ہے مگر اس  کے اندر کہیں دور لڑکیوں کی ایک تنہا اور خاموش دنیا ہے، جہاں خوشبوؤں کا نواس ہے۔اور یہ خوشبو روزگار کی تلاش میں دوسرے ملکوں بھٹک رہے نوجوانوں کے ہجر کے ساتھ ، خود لذتی کا گہرا اور بھید بھرا عمل ساتھ لائی ہے، اس کی کہانی بہت پرانی ہے، نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی۔نئے زمانوں میں بھی اتنی ہی قدیم۔یہ عورتوں کی تاریخ کا ایک ان چھوا باب ہے، جسے پرتیکشا نے بڑی خوبی سے رقم کیا ہے۔