شُبھ آرمبھ

اس کے فوراً بعد جیسے سب کچھ بدل گیا۔

مجھے لگا جیسے کوئی زہریلا سانپ دھیرے دھیرے یا تو مجھے نگل رہا ہے یا میرے اندر اتر رہا ہے۔چند لمحوں پہلے کی اورمیری  اب کی حالت میں کافی بدلاؤ آگیا تھا۔

جیسے کوئی دیوار گرگئی ہو اور میرا پاؤں اس کے ملبے میں بری طرح پھنس گیا ہو۔

گڈی کو  پوری ہوشیاری اور تسلی سے پکڑ کر میں نے دراز میں ڈال دیا۔ ڈال تو دیا، لیکن میری  دھونکنی نے بڑے زور سے پھڑپھڑانا شروع کردیا تھا۔ایک بارگی تو لگا کہ فوراً چپراسی کوئی فائل تلاش کرنے کے بہانے میری دراز کو کھینچے گا اور پل بھر میں ہی مجھے ننگا کردے گا۔ کیا کرلوں گا میں اس کا؟ کیا عزت رہ جائے گی میری؟ وہ اب تک جو وقت بے وقت میرا گن گان کرتا پھرتا تھا کہ اس کا صاحب بہت ‘راجاآدمی’ہے اور غلط پیسے کو ہاتھ لگانا تو دور، دیکھتا تک نہیں ہے، اب کیا کیا نہیں کہے گا؟

عمر بھر کی پونجی، چند کاغذوں کی وجہ سے اس قدر گڑگوبر ہوجائے گی!

میں نے تُرنت گھنٹی  پر ہاتھ مارا اور چپراسی کو پانی لانے کے لیے کہا۔

دراصل میں چاہ رہا تھا کہ گڈی کو دراز سے نکال کر کسی گندی سی فائل کے درمیان کھونس دیا جائے۔کوئی شک ہی نہیں کرپائے گا۔ لیکن اس سے بھی کیا ہوگا؟میرے باس نے کسی وجہ سے وہی فائ مانگ لی تو! یوں بھی وہ بڑا شکی اور کافی جھکی آدمی ہے۔ پتہ نہیں کس کس طرح کے لوگوں سے اس کا پالا پڑا ہے۔کوئی دلیل بھی نہیں سنے گا۔

اور کیوں سنے؟

منی لال پانی لے آیا۔ اس دوران میں جو کرنا چاہ رہا تھا، اسی  پس و پیش میں کرہی نہیں پایا۔بوکھلاہٹ میں پانی حلق میں انڈیلتے ہوئے کنکھیوں سے چپراسی کو دیکھا۔ایسا لگا جیسے وہ کمرے کا معائنہ  کررہا ہے۔تو کیا اسے بھنک لگ گئی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے سو پچاس روپے اسے بھی تھما دیے ہوں کہ ‘لے! تیرے صاحب کو وہاں خوش کردیا، تو یہاں خوش رہ؟’ میرا سوچنا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ ایسے آدمیوں کی کوئی کمی ہے بھلا؟ اس دن وکُل ہی تو کہہ رہا تھا کہ پرمار کو جس آدمی نے  پیسے دیے تھے وہ اب پورے شعبے میں بتاتا پھرتا ہے کہ  پرمار صاحب تو بہت شریف آدمی ہیں۔۔بہت سستے میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اور کیا کہہ رہا تھاوکُل۔۔ارے ہاں، کہ کوئی آدمی پیسے دیتا ہے تو اس کا پرچار تو کرتا  ہی ہے۔لینے والا چاہے کبھی نہ مانے، مگر جو اپنی جیب سے خرچ کرے گا، وہ تو گائے گا ہی۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہیں باہر کھڑا سلُوجا سب کو ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرکے بتارہا ہو کہ بھائیو! آج، ابھی ابھی میں دِکشت صاحب کو دس ہزار دے کر آرہا ہوں۔ نہ مانو تو خود اندر جاکر۔۔۔۔

میں نے حلق سے پانی نیچے اتار کر منی لال کو باہر جانے کا حکم دیا اور پھر سوچنے لگا کہ اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا ملے۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ منی لال اس کے منہ سے ہی آنکھوں دیکھا حال سن رہا ہو۔ایسا کرتا ہوں کہ اس منی لال کو کسی کام کے بہانے یہاں سے چلتا کرتا ہوں۔ ویسے بھی اس کے لیے میرے پاس فی الوقت کوئی کام نہیں ہے۔لیکن باہر بھی تو  کسی نہ کسی کو رہنا پڑے گا۔ کم سے کم میں اس سے فی الحال یہ تو کرا ہی سکتا ہوں کہ باہر سے کسی کو بھی گھنٹے آدھے گھنٹے اندر نہ آنے دے اور تب تک میں اس گڈی کو ٹھکانے لگانے کا راستہ نکال لوں۔

مجھے دوسرا ڈر یہ بھی تھا کہ جیسے جیسے وقت بیت رہا ہے، مصیبت اور گہری ہوتی جارہی ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ سی بی آئی والوں کو وہ ساتھ ہی لایا ہوگا اور کسی بھی لمحے گواہوں سمیت دوبارہ اندر گھس پڑے گا۔گڈی کو دیکھ کر تو ویسے لگ بھی رہا ہے کہ نوٹ نئے اور باقاعدہ ویسے ہی ہیں جیسے کسی کا جرم پکڑنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔لیکن یہ میں نے کیا کیا؟ میں نے تو انہیں اٹھاکر رکھنے کے لیے چھو بھی لیا۔یعنی اب تو وہ مخفی سیاہ پاؤڈر بھی میرے پوروں میں لگ گیا ہوگا، جسے کسی گھول میں ڈال دینے سے رنگ لال ہوجاتا ہے۔ اگر کسی وقت سی بی آئی والوں کی ٹیم دندناتی میرے کمرے میں گھس آئے اور میرا ٹیسٹ کرلے تو مجھے بھگوان بھی نہیں بچا سکتا۔سارے شعبے میں خبر پھیلے گی۔ سرکار فوراً برخاست کرے گی اور سماج اور خاندان میں بے عزتی بھی بے شمار ہوگی۔میں یہ سب کہاں برداشت کرپاؤں گا؟ نیلُو  بھی بتارہی تھی کہ اس کے ایک شناسا کے انکل بارہ سو روپے لیتے پکڑے گئے۔رنگے ہاتھوں۔محلے سماج میں ایسے مزے مزے سے ان کا ذکر چھڑتا تھا کہ عزیزوں دوستوں کے سامنے پڑنے سے بھی وہ کترانے لگے۔بچوں نے بھی شرم کے مارے آس پڑوس میں آنا جانا تک بند کردیا۔تین برس تک کیس کورٹ میں کھنچتا رہا۔ تھک کر، مایوس ہوکر خودکشی کی ناکام کوشش کرڈالی۔کسی طرح بچ تو گئے، مگر عارضی طور پر ذہنی مریض تو بن کر رہ ہی گئے۔

ہے رام! اگر میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا تو نیلو کاکیا ہوگا؟

اچھا، ایسا کرتا ہوں کہ نارمل ہوکر باتھ روم چلا جاتا ہوں اور وہاں صابن سے ہاتھ دھو لیتا ہوں۔یہ کرنا بہت ضروری ہے۔کم سے کم رنگے ہاتھوں تو نہیں پکڑا جاؤں گا۔ بعد میں جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔ ارے، جب آدمی رنگے ہاتھوں پکڑا ہی نہیں گیا تو کوئی بھی عدالت اس سے بہت سخت رویے کے ساتھ کیسے پیش آسکتی ہے۔پکڑے جانے پر تو کچھ کیا ہی نہیں جاسکتا۔دَھوَن انکل بھی کچھ نہیں کرسکیں گے۔سی بی آئی کا چکر بہت برا ہوتا ہے۔ سب اپنی جان بچاتے ہیں۔ دوسروں کی آفت میں کوئی کیوں سر پھنسانے لگا۔

میں نے فوراً ہی، آہستہ سے اٹھ کر صابن کا کیس نکالا اور برابر میں رکھ لیا۔اٹھ کر دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ خیال آیا کہ یہ میں کیا کرنے جارہا ہوں؟ سی بی آئی کے لوگ اگر باہر ہی گھات لگائے، جال بچھائے کھڑے ہوئے تو میں بے موت مارا جاؤں گا۔سنا ہے بڑی مکاری اور بے ادبی سے پیش آتے ہیں۔ضرورت پڑنے پر ان کا ایک انسپکٹر بھی بڑے سے بڑے افسر کو طمانچہ جڑ دیتا ہے اور پھر وہاں باتھ روم میں ہی کوئی انسپکٹر انتظار میں تعینات ہوا تو؟

میرا دماغ اب سچ مچ کام نہیں کررہا ہے۔مجھے خود ہی پتہ نہیں  ہے کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔  یہ کروں یا وہ کروں۔کروں بھی یا نہ کروں۔ اسی کو تو کہتے ہیں وِناش کالے وپرِیت بدھی  یعنی جب کسی کی موت نزدیک ہوتو اس شخص کی عقل بھی اسے الٹے مشورے دینے لگتی ہے۔

تبھی برابر میں رکھا ہوا فون بجنے لگا۔کس کا ہوگا؟ باس کا تو نہیں ہے؟ ہوسکتا ہے سلوجا کا بچہ کمرے سے نکلتے ہی سیدھا باس کے پاس گیا ہو، اور سب اگل دیا ہو۔باس کی تیوریاں چڑھ رہی ہوں گی۔ تبھی اس نے فون کیا ہے۔کیا جواب دوں گا؟میری ذہنی حالت ویسے بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کچھ اناپ شناپ بک دیا تو۔۔۔’نہیں نہیں سر، میں نے نہیں مانگے۔”نہیں ۔۔’وہ پھڑاک سے کہے گا۔’میں مانگنے یا نہ مانگنے کی بات ہی نہیں کررہا ہوں مسٹر کمل کانت دِکشت۔۔۔یہ بتائیے کہ آپ نے لیے یا نہیں ؟’ جواب میں اگر ‘نا’ کہہ بھی دوں تو سیدھا میرے کمرے میں چڑھا چلا آئے گا۔وہ منحوس سلوجا تو ساتھ ہوگا ہی۔میرا کمرہ ہے ہی کتنا بڑا۔فوراً ڈھونڈ نکالیں گے۔’ہاں’کہہ کر ہوسکتا ہے وہ میری سادگی کو کچھ نمبر دے بھی دے۔

میں نے جھپٹا مارکر، دھڑکتے دل سے  فون اٹھایا اور ایسے بناوٹی اطمینان کے ساتھ ‘ہیلو’ کہا جیسے کسی کام میں بہت مصروف تھا۔ناحق ہی فون نے ڈسٹرب کردیا۔

ادھر وَکُل تھا۔

‘کیا ہورہا ہے بھائی؟’ اس نے ہمیشہ کی طرح ہلکی ہنسی بکھیر کر پوچھا۔

‘کیا کہوں؟’ کہہ دوں کہ یار ذرا دیر کے لیے میرے پاس آجا۔ ان نوٹوں کو میرے پاس سے لے جا اور میری زندگی بچالے؟

‘کچھ نہیں یار، بس یوں ہی روٹین ورک۔۔۔’

‘تم نے کچھ سنا؟’ اس نے تھوڑے پراسرار لہجے میں خود کو سمیٹنے کی کوشش کی۔

سنا نہیں بابا، میرے ساتھ ہی تو ہوا ہے۔کوئی اور نہیں میں ہی تھا۔ مت ماری گئی تھی میری۔صاف صاف بتادیتا ہوں اسے سب کچھ۔ دوست ہے۔ اس کی نگاہ میں تھوڑا سا گربھی جاؤں گا تو کیا ہوا۔ زمانے بھر کی ذلت سے تو بچ جاؤں گا۔اور پھر اس کے بھی تو کئی راز میرے سینے میں محفوظ ہیں۔ کبھی بلیک میل کرےگا تو خود بھی بھگتے گا۔

‘کس بارے میں؟’ میں نے تشویش ناک لہجے میں پوچھا۔

میں سوچنے لگا، اسے خواہ پتہ لگ گیا ہو، مگر سب کچھ تھوڑا ہی پتہ ہوگا۔۔۔کس نے دیے، کتنے دیے، کیوں دیے۔وہ سلوجا کا بچہ اپنی طرف سے مجھے لاکھ بدنام کرے، میرے بیان کی بھی تو کوئی اہمیت ہوگی۔سب اسی کی تھوڑی سنیں گے۔تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ رشوت لینا جرم ہے تو دینا بھی تو ہے۔

‘موہانتی کا ٹرانسفر یہیں ہوگیا ہے۔’وَکل نے ایک منٹ پہلے چھپائے راز پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا۔

میری جان میں جان آئی۔

یعنی ایسی ویسی کوئی بات اسے معلوم نہیں تھی۔ جس کا مجھے ڈر تھا۔

‘اس وقت!’

میں نے حیرت سے پوچھا۔ شاید میں کہنا چاہ رہا تھا کہ اس وقت یہ بات بتانے کے لیے تجھے میں ہی ملا ہوں بے وقوف؟ یہ وکل بھی عجیب انسان ہے۔جب فرصت ملتی ہے ، فون کھڑکا دیتا ہے۔

‘دراصل اس کی وائف تو پہلے سے ہی یہاں تھی۔سینٹرل اسکول میں پڑھارہی تھی نا۔(اسی نا کے ساتھ ساتھ میں نے جواباً ہاں ہاں کہا۔)وہی بے چارہ اندور میں اٹکا پڑا تھا۔’

اس نے تھوڑی ہمدردی جتاتے ہوئے جملہ پورا کیا۔ مجھے لگا جیسے میں بے کار میں ہی اس بات چیت میں اپنا قیمتی وقت گنوا رہا ہوں۔ادھر میرے خلاف ایک منصوبہ بند سازش منہ کھولے کھڑی ہے اور میں ادھر اس بے وقوف کے ساتھ فون سے چپکا ہوا  ہوں۔ ایسا کرتا ہوں کہ فون کاٹ دیتا ہوں۔ بعد میں کہہ دوں گا لائن ہی کٹ گئی تھی۔ کریڈل اٹھا کر الگ رکھ دیتا ہوں۔ آگے کے لیے بھی بلا ٹلے گی۔

‘کب جوائن کررہا ہے۔’میں نے بے دلی سے پوچھا۔

اور پھر تو جیسے ایک چمتکار ہی ہوگیا۔وَکُل نے خود ہی معافی مانگتے ہوئے کہا۔’ابھی رکھتا ہوں یار، ذرا باس نے بلایا ہے۔لنچ پر ملتے ہیں۔’

اب کیا کیا جائے؟ نیلو ہی آجائے کہیں سے۔ ویسے بھی تو وہ کتنی بار، بنا بتائے، اچانک بینک سے سیدھے میرے دفتر آدھمکتی ہے۔ لیڈیز کے پاس تو اپنے ہی محفوظ ٹھکانے ہوتے ہیں۔ساری مشکل حل ہوجائے گی۔ میں آتے ہی، اسے گڈی پکڑاکر آنکھوں کے اشارے سے واپس بھیج دوں گا۔ گھر جاکر جو بھی بھلا برا کہے گی، سن لوں گا۔اپنی بیوی ہی تو ہے۔اس سے کیا شرم۔ ارے سکھ دکھ کے ہی تو ساتھی ہوتے ہیں پتی پتنی اور ویسے بھی ان روپیوں کا استعمال تو زیادہ تر اسی  کو کرنا ہے۔کتنے دنوں سے ایک پینڈنٹ کی مانگ کررہی ہے۔ میں بھی کیسا آدمی ہوں۔ بے چاری کو سہاگ رات کے دن بھی کوئی تحفہ نہیں دیا تھا۔

‘مجھے پتہ ہی نہیں تھا اور نہ کسی نے مجھے سمجھایا تھا۔’

کہہ کر میں نے اپنے احساس جرم کو ‘کھی کھی’ میں اڑادیا تھا۔

‘سارے ہزبینڈز دیتے ہیں۔’

اس نے شانت مگر بجھے  ہوئے لہجے میں کہا تھا۔

‘چلو شادی کی سالگرہ پر دلا دیں گے۔’

اسے پتہ تھا ، تب بھی میں نے ‘دلا دیں گے’کہا تھا۔۔۔یعنی اس کے اور اپنے پیسوں کو جوڑ جاڑ کر ۔محض اپنی جانب سے کچھ نہیں۔اب سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔

ارے پینڈنٹ چاہے آئے نہ آئے، پہلے یہ گڈی تو یہاں سے کھسکے! دراصل غلطی میری ہی تھی۔کیا میں لاشعوری طور پر یہ نہیں سوچتا رہتا تھا کہ کہیں سے کچھ ‘جُگاڑ’ ہوجائے تو مزا آجائے۔ماں کے لیے ایک دو بڑھیا کَوٹن کی ساڑیاں خریدلوں۔پِتاجی کے لیے ایک دو اچھے سفاری سوٹ سلوادوں۔گھر کے ڈرائنگ روم کو، کچھ اضافی پیسے ملنے پر، کچھ ڈھنگ کا کرلوں اور کچھ نہیں تو اپنی پرسنل لائبریری میں کچھ کلاسیکس یا ماسٹر پیس ہی سجاسکوں۔اس بندھی بندھائی تنخواہ میں کوئی کیا کیا کرے؟

اسی بے وقوفانہ اڑان کا ہی تو پھل اب جی بھر کے مل رہا ہے۔

میرے فیصلہ  نہ لے پانے کی کمزوری  ہی تو مجھے مہنگی پڑرہی  ہے۔ اس کے گڈی کو نکالتے ہی مجھے اس پر برس پڑنا چاہیے تھا۔ کڑک ہوکر دہاڑتا اس پر کہ ابے او لالے کی اولاد ، تو نے ہر آدمی کو اپنی طرح گرا ہوا اور بِکاؤ سمجھ رکھا ہے کیا؟ چپ چاپ شرافت سے واپس رکھ لے اپنا یہ پیسہ اور دفع ہوجا یہاں سے، نہیں تو حوالات کی سیر کرنی پڑ جائے گی۔

لیکن ہوا کچھ اور ہی۔

‘اس سب کی کوئی ضرورت نہیں۔’

میں نے نرمی سے کہا۔کہنے کے ساتھ ہی کچھ بڑکپن کا احساس مجھے ہوا۔

‘میں نے کب کہا، ضرورت ہے یا ان سے آپ کا کچھ ہونے والا ہے دِکشت صاحب! ہم یہ اپنی خوشی اور دل سے کررہے ہیں۔’

سلوجا زیر لب مسکراتا رہا اور گڈی کو میری طرف کھسکاتا رہا۔

‘دیکھیے! آپ مجھے اوروں جیسا مت سمجھیے۔۔۔میں نے جو بھی کیا ہے، بنا کسی مقصد۔۔۔’میں نے گڈی کو ہاتھ سے کھسکائے بغیر صفائی پیش کرنی چاہی۔

مگر اس نے جملہ بیچ میں ہی اچک لیا۔

‘کیسی بات کرتے ہیں دِکشت صاحب۔۔۔کیا انسان کے برتاؤ سے اس کی نیت کا پتہ نہیں چل جاتا ہے۔۔پریکٹس کے اتنے دنوں بعد آدمی آدمی کی کچھ تو سمجھ ہمیں بھی ہوگئی ہے۔’

اس نے مجھے یقین دلاتے ہوئے کہا تھا۔

‘پھر بھی ، پتہ نہیں کیوں، کچھ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔’

میں نے لگ بھگ نڈھال ہوکر کہا۔

اب میں پورے طور پر اس کے قابو میں تھا۔

‘آپ اسے کسی بوجھ ووجھ کی طرح نہ مانیے۔لکشمی ہے۔ہاتھوں کا میل ہے۔کوئی آپ کی قیمت تھوڑا ہی ہے۔آپ چاہیں تو کیا نہیں کرسکتے۔۔۔’

اور پھر اپنی پلکوں کو موند کر،لگ بھگ گھگھیاتے ہوئے اس نے کہا۔’خوشی سے کررہے ہیں، تھوڑا ہمارا بھی مان رکھیے۔’یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ پھرتی سے ملانے کو ہاتھ آگے بڑھایا اور ‘اب چلوں گا، کوئی کام ہو تو بتائیے گا۔’کہہ کر پل بھر میں ندارد ہوگیا۔

لیکن اب میرے پچھتانے سے کیا فائدہ؟ جو ہونا تھا، ہوگیا۔میں نے اپنے آپ کو بیچ ہی دیا تھا۔ اس کی چال کا شکار بن ہی گیا تھا۔ مگر اس سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ تو ہوگا۔ہوگا، کیوں نہیں ہوگا۔میں تو کسی کے بارے میں کچھ برا بھی نہیں کہتا۔ایشور کیا یہ سب نہیں دیکھتا ہے۔ ٹھیک ہے اس نے مجھ سے ایک غلطی کروائی، مگر اس سے نجات بھی تو وہی دلوائے گا۔ میں کہتا ہوں ایشور ہے اور ہر جگہ ہے۔ وہی سب کا امتحان لیتا رہتا ہے۔ہر ایک کے عمل کا حساب رکھتا ہے۔ میں تو جب بھی ٹرین میں سفر کرتا ہوں، شاید ہی کسی اپاہج یا غریب بچے کو خالی ہاتھ جانے دیتا ہوں۔ ارے، ان غریب غربا کی مدد سے جو ذہنی سکون ملتا ہے، وہ کتنا شاندار  ہوتا ہے۔بھوکی نگاہوں کو جب کچھ مل جاتا ہے تو بے چارے کس قدر دل سے دعا دیتے ہیں۔ مجھے تو آج تک کتنی ہی دعائیں ملی ہوں گی۔ کیا کوئی بھی دعا آج کام نہیں آئے گی پربھو؟ بس آج رحم کردو۔ آگے سے تو کبھی سوچوں گا بھی نہیں اور ان پیسوں کو بھی جتنا ہوسکے گا، غریبوں میں بانٹ دوں گا۔’جتنا’ کیا سارے سارا تقسیم کردوں گا۔ ہوسکتا ہے پربھو نے اسی لیے یہ سب مجھ سے کروایا ہو۔

پندرہ منٹ سے بھی زیادہ سمے بیت گیا ہے اور میں ابھی تک کچھ بھی نہیں کرپایا ہوں۔ سر بھنائے جارہا ہے۔وہ تو غنیمت ہے کہ کوئی میرے کمرے میں آیا نہیں ہے۔ آجائے تو میری حالت دیکھ کر کیا کیا نہ سوچ بیٹھے گا۔ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ ٹینشن سے میری زبان  ویسے بھی لڑکھڑانے لگتی ہے۔

مجھے اسی وقت کچھ ہوجائے تو حال چال دیکھنے کے بہانے دس لوگ کمرے میں گھس جائیں گے۔ گڈی دیکھ کر کس کو شک  نہیں ہوگا کہ یہ رشوت کے پیسے ہیں۔میرا خواہ ہارٹ فیل ہورہا ہو، پھر بھی کوئی میرے ساتھ ہمدردی سے پیش نہیں آئے گا۔الٹے، سب  میرے دوغلے پن پر حیران اور بھونچکے رہ جائیں گے۔

‘بنتے تو بہت آدرش وادی اور ایماندار تھے۔۔۔کیسے لیکچر پلایا کرتے تھے کہ ضرورتوں کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔۔۔ارے ان لوگوں کے بارے میں سوچو جو بے روزگار ہیں اور پانچ پانچ سو روپے کی نوکری کے لیے در در بھٹکتے ہیں۔۔۔غلط پیسہ کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور ڈالتا ہے۔۔۔اور پتہ نہیں کیا کیااناپ شناپ۔۔۔’مہتا لجلجا کر کہے گا۔

‘میں یقین نہیں کرسکتا کہ دکشت صاحب بھی، ایک گئو جیسے دکھتے تھے۔ہمیشہ شانت اور نرم گفتار۔محنتی اور ملائم۔’

سِلوراج بے چین ہوکر کہے گا۔

اس روز ایک صاحب نے کسی تقریب میں مجھ سے ایک سوال کرلیا تھا۔’دکشِت صاحب، تھوڑا بہت معاملہ تو آپ کے یہاں بھی چلتا ہوگا۔۔۔”معاملہ’ اور ‘آپ کے یہاں’ گہری مگر مطلبی پراسراریت اور بے باکی لیے ہوئے تھے۔

‘آپ کے یہاں ‘ سے مراد تھا’آپ’یعنی میں اور ‘معاملے’ سے مطلب تھا وہی سب کچھ جو اس وقت میری چھاتی پر کسی سانپ کی طرح سوار ہے۔

سِلوراج نے دخل اندازی کرنے کی ہمت کرڈالی تھی۔

‘مہتا صاحب، یہ سوال آپ ایک ایسے آدمی سے کررہے ہیں جسے ‘اس طرف’ کی دنیا کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔ہمارے دکشت صاحب اس نایاب ہوتی ہوئی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، جن پر پورا شعبہ فخر کرتا ہے۔ ‘مہتا کو ٹکا سا جواب دے کر سِلوراج نے مجھے فخریہ انداز سے دیکھا تھا۔میں زمین سے کوئی انچ بھر اوپر اٹھ گیا تھا۔ نہ مہتا کے سوال کا جواب دیا، نہ سِلوراج کے بیان کی حمایت کی۔ہاں، اس وقت اندر کچھ لرزش سی ضرور تھی ۔ اردو میں شاید ‘اخلاق’ اسی کو کہتے ہیں۔

سِلوراج بھی کتنا بھولا ہے۔ اسے اپنی سمجھ اور پرکھ دونوں کے بارے میں دوبارہ غور و خوض کرنا پڑے گا۔

مجھے لگ رہا ہے جیسے چھاتی کے نیچے والے حصے میں ہلکی سی کپکپاہٹ ہورہی ہے۔ کہیں ہارٹ اٹیک جیسا تو کچھ نہیں۔۔۔پہلے کبھی ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا۔مگر ہوبھی سکتا ہے۔ آج کل تو کہتے ہیں پین لیس ہارٹ اٹیک عام ہوگئے ہیں۔جب تک پتہ لگ پاتا ہے، تب تک آدمی کا کام تمام ہوچکا ہوتا ہے۔ میں تو یوں بھی کبھی کبھار سگریٹ کے کش لگا لیا کرتا ہوں۔

ایسا کرتا ہوں کسی درد کا بہانہ بناکر منی لال سے کہہ کر، گڈی کو یہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہوں۔ چیمبر لاک کردوں گا۔اگر کل تک کچھ نہیں ہوا تو نوٹوں کو چوہے تو کتر نہیں دیں گے۔کسی اچھے ڈاکٹر سے بھی مل لیتا ہوں۔کہہ دوں گا اندر ٹیس سی اٹھ رہی ہے، جوتھوڑی دیر بعد شانت ہوجاتی ہے اور پھر اٹھنے لگتی ہے۔ یہ درد، ہوسکتا ہے میرا وہم ہو، مگر ڈاکٹر کوئی خدا تو نہیں ہے کہ سمجھ جائے کہ میں اسے الو بنارہا ہوں۔دو چار دوائیں یوں ہی لکھ مارے گا۔کل کوئی دفتر میں پوچھے گا بھی تو میں ڈاکٹر اور اس کی دواؤں کا حوالہ دے کر آرام سے جسٹفائی کردوں گا۔ارے، دفتر کیا کوئی جان سے بھی زیادہ ضروری ہے یا پھر پوری دنیا میں میں ہی سب سے بھیانک مجرم ہوں؟ لوگ تہ پتہ نہیں کتنا اور روز ہی کھاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔ اب تو معیار ہی یہ بنتا جارہا ہے کہ کھاؤ تو جم کر۔ پانچ لاکھ، دس لاکھ۔یہ کیا کہ پانچ دس ہزار کے لیے ہی سمجھوتہ کرلیا۔ بڑی رقم لے کر پکڑے بھی جاؤ تو کوئی حقارت سے نہیں دیکھے گا۔بس ہاضمے کے بارے میں دو چار باتیں ضرور اٹھیں گی۔

مگر پکڑے جاؤ تو دو ہزار کیا اور دو لاکھ کیا۔ سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

ابھی لنچ ہونے میں بھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے۔ اپنے سنگی ساتھیوں سے باتیں کرکے کچھ تو ذہنی سکون ملے گا۔پی کے تو میرے چہرے کو دیکھ کر ایک دم ضد کر بیٹھے گا کہ میں فوراً گھر چلاجاؤں۔ نیلو کو بینک میں انفارم کرے گا سو الگ۔

پتہ نہیں کیا سوچ کر میں نے گھنٹی بجادی۔ منی لال دھیرے سے گھس کر حکم کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے کوئی کام تو تھا نہیں۔میں تو بس اتنا  ہی جاننا چاہ رہا تھا کہ باہر ہی بیٹھا ہے یا جو ہلچل یا ہنگامہ باہر ہورہا ہوگا، اس میں مشغول ہے۔میں نے کسی ماہر نفسیات کی طرح اسے غور سے دیکھا، مگر اس کے چہرے پر ایسا کوئی تاثر نہیں ملا۔ ضرور بینچ پر بیٹھا اونگھ رہا ہوگا۔کیا کام دوں اب اسے؟

‘ایسا کرو ذرا۔۔۔’کہتے کہتے میں اٹک گیا۔

‘جی’ اس نے آمادگی سے ، گردن آگے کی طرف جھکائی۔

‘وَکُل صاحب کے پاس سے آج کا اخبار لے آؤ۔’ میں نے تحکم آمیز لہجے میں کہا۔

 

منی لال دروازہ بھیڑ کر نکلا ہی ہوگا کہ نوٹوں کا وہ منحوس پِٹارا میری لرزتی پسیجی انگلیوں میں سرک آیا اور کسی کرشمے کی طرح گیتا کے شلوکوں کو یاد دلاتا ہوا میرے بریف کیس میں سما گیا۔

٠٠٠٠٠

 

اوما شرما کا جنم 11 جنوری 1963 کو مغربی اترپردیش کے ایک گاؤں دیگھی میں ہوا۔انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے ایم اے اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ پہلے ممبئی میں رہے اور حال میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بڑودہ ، گجرات میں مقیم ہیں۔اوما شرما کی کہانیوں کے دو مجموعے ‘بھوشیہ درشٹا’ اور ‘کاروبار’ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں  نے اسٹیفن زویگ کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ اس کی  یادوں پر مشتمل ایک کتاب کا ترجمہ بھی ‘وہ گزرا زمانہ’ کے عنوان سے ہندی میں کیا ہے۔ حال میں ایوان بونن کی کہانیوں کے ترجموں پر مشتمل ایک کتاب انہوں نے تیار کی ہے، جوا بھی شائع نہیں ہوئی ہے۔

مندرجہ بالا کہانی ایک ایسے شخص کی ہے، جو اپنی سرکاری ملازمت کے دوران پہلی بار رشوت لینے کے عمل سے گزرا ہے۔شُبھ آرمبھ کسی بھی کام کو پہلی بار کرنے کے مبارک موقع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک طرف بدعنوانی  کا خوف، دوسری طرف ضمیر کے تھپیڑے اور تیسرے  رشوت کے پیسوں کو لینے کا ایک معاشی جواز۔ یہ سب مل کر کہانی کو ایسا دلچسپ بناتے ہیں کہ اس شخص کے اندرون میں مچنے والی کھلبلی ہماری عام زندگیوں میں چھوٹے بڑے اخلاقی جرائم  کی پہلی پہلی یاد دلانے میں بڑی کامیاب معلوم ہوتی ہے۔ یہ کہانی اوما شرما کی پہلی کہانی ہے اور اس پر بہت حد تک  مختصر روسی کہانیوں کی چھاپ سی دکھائی دیتی ہے۔