نیہا نروکا کی نظمیں

ایک  بوسہ لے لو

 

تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو نا

تو آؤ، ملو مجھ سے اور ایک بوسہ لے لو

ملو اس قصباتی گندگی اور خوشبو سے

جس نے مل کر مجھے جوان کیا

جس نے کھیتوں سے کٹتے پلاٹ دیکھے

محلے کے اس پرانے خستہ مکان سےملو

جس کا سب سے پرانا آدمی پچھلے دنوں مر گیا

گھر کے پچھواڑے ہوتے تھے ماہواری کے کپڑوں کے ڈھیر

ان کے بیچ جگہ ڈھونڈ کر رفع حاجت کرتی ان عورتوں سے ملو

جن کے پِتا یا پتی عمر بھر شرابی رہے یا بے روزگار

پتلی گلیوں میں ٹنگے چھجوں پر

شام ہوتے ہی لٹکنے لگتی تھیں گھونگھٹ والی بہوئیں

چھوٹی چھوٹی باتوں پر کرتی تھیں کھی کھی

اور کبھی بات کرتے کرتے رو پڑتی تھیں

میں چاہتی ہوں تم ان بہوؤں سے ملو

ابھی بھی ان کی آنکھوں کے گڈھوں میں نمکین پانی بھرا ہے

تین ، چھ، دس تولے سونے میں لدی

مہندی اور غازے سے سجی بیس بائیس سال کی لڑکیاں

سسرال سے لوٹ کر آئیں تو پچاس کی ہوگئیں

ان پچاس سال کی بوڑھی لڑکیوں سے ملو

جو کبھی کبھار راکھی اور شادی بیاہ کے موقعوں پر آتی ہیں بس

اور آتے ہی بتا دیتی ہیں جانے کی تاریخ

سیلن بھرے کمرے میں رات بھر تڑپتی تھیں کچھ جوان چھاتیاں

جو صبح ہوتے ہوتے سوکھ جاتیں

کبھی ان سوکھی چھاتیوں والی معشوقاؤں سے ملو

دیکھو کیسے ان کے جسم برف ہوگئے ہیں

پانی کی سبزی میں تیرتے تھے دو تین آلو اور ایک ٹماٹر

باسی روٹیوں کے جھنڈ پر گرتے تھے کئی ہاتھ

جن کی ریکھاؤں میں بھری تھیں برتنوں کے مانجھنے کی راکھ

میں چاہتی ہوں تم ان ہاتھوں سے ملو

اور ان کا ایک بوسہ لے لو

٠٠٠

 

یہاں بوسہ لینا جرم ہے

 

میں آج شام کو بالکل فری ہوں، آؤگی ملنے؟

 

میں نے چاچی سے منتیں کیں

وہ جانتی تھیں، تم میرے ہونے والے شوہر ہو

تو مان گئیں

 

میں نے پرس اٹھایا، ٹھیک ٹھاک کپڑے پہنے، آٹو بک کیا اور پارک کے گیٹ پر پہنچ گئی

تم گیٹ پر ہی کھڑے تھے۔۔۔

 

تمہاری بغل میں ایک مونگ پھلی بیچنے والا دس بارہ سال کا لڑکا کھڑا تھا

جو تم سے بار بار مونگ پھلی خریدنے کی بِنتی کررہا تھا

میرے کہنے پر تم نے دس روپے کی مونگ پھلی تُلوالی

 

ہم پارک میں بیٹھے رہے

بیٹھے بیٹھے مونگ پھلی چھیلتے رہے

 

میں مسکراتی رہی، تم ہنستے رہے

میں قصے سناتی رہی، تم قصے سنتے رہے

پھر اچانک تم نے مجھے چوم لیا

میں انگلی سے مٹی کریدنے لگی۔۔۔

 

پھر نہ جانے کس امید میں، میں اٹھ کر اوٹ میں آگئی

پھر ہم دونوں ایک دوسرے کو آغوش میں بھر کر چومنے لگے

 

تبھی ایک لڑکا آیا

اس کے چہرے پر نفرت کے آثار تھے

‘یہ سب یہاں نہیں چلے گا’

 

تم سٹپٹا گئے

میں ڈر گئی۔۔۔

تم نے لڑکے سے کہا’سوری’

 

پانچ منٹ پہلے مجھے پتہ چلا تھا’بوسہ کسے کہتے ہیں’

پانچ منٹ بعد مجھے پتہ چلا ‘بوسہ لینا جرم ہے’

 

میں سر نیچے جھکائے پارک سے باہر آگئی۔۔۔

میرے بدن پر کپڑے تھے مگر یوں لگا جیسے میں بالکل ننگی ہوں

 

میرے کانوں میں تمہاری کوئی آواز نہیں آئی۔۔۔

مہینوں تک کیسٹ کی طرح کانوں میں بس یہی بجتا رہا

یہ سب یہاں نہیں چلے گا۔۔۔

 

تم فون پر فون کرتے رہے

میں فون کاٹتی رہی۔۔۔

 

تم نے میسج کیا

‘سوری!ہم جلدی شادی کرلیں گے’

 

پھر ہماری شادی ہوگئی

ہمارے حصے میں ایک بستر اور ایک چھوٹا سا کمرہ آگیا

 

کام سے تھکے، اوبے ہم کمرے میں آتے تو میں روشنی بجھادیتی

آہستہ آہستہ تمہارے ہونٹ میرے ہونٹوں کی طرف بڑھتے

تبھی وہ لڑکا میرے کانوں میں زور سے چیختا

‘یہ سب یہاں نہیں چلے گا’

٠٠٠

 

بلاتکاریوں کی فہرست

 

میں نے ادھیڑ جسموں میں وہ آنکھیں دیکھیں

جو ہوس میں تیر رہی ہوتی تھیں

ان جسموں کے مالکوں نے انہیں آنکھوں سے ماؤں کو دیکھا

بہنوں کو دیکھا

معشوقاؤں کو  دیکھا

دیکھا ننھی بچیوں کو بھی۔۔۔

 

وہ بچیاں جو ماں کے دودھ کا سواد تک نہ بھولی تھیں

ان بچیوں کو بھی یہ اکیلے میں لے گئے

اور اپنا ‘سخت عضو’ سہلانے کو کہا

انہوں نے ان  کی ساکت چھاتیوں کو بھی چھوا

وہ بس اتنا ہی سمجھیں کہ یہ کوئی ڈروانا کھیل ہے

انجیکشن اور کڑوی دوائی سے بھی زیادہ پیڑا پہنچانے والا کھیل!

 

ان کے چہرے، کپڑے اور پرفیوم کی مہک سے لگتا

یہ بڑے شریف، سیدھے اور ہمدرد انسان ہیں

مگر یہ تھے شاطر، بے رحم اور گھنونے

ان کی چھُوَن ایسی تھی کہ جن جگہوں کو انہوں نے ایک بار چھو لیا

وہ آج تک ‘باس’ ماررہے ہیں

ان کی پتنیاں روز اسی باس میں سانس لیتی ہیں، روٹی کھاتی ہیں اور نیند بھی پوری کرتی ہیں

 

انہوں نے اپنے گھر کی عورتوں کے حصے کا کھانا خود ڈکار لیا

پھر بھی رہے عمر بھر بھوکے

عمر بھر دُھلے، چمکدار اور پریس کیے کپڑے پہنے

مگر رہے ان میں ننگے

یہ بچپن کھاگئے نہ جانے کتنے۔۔۔

پھر بھی ان کا نام درج ہوتا رہا انسانوں کی فہرست میں

٠٠٠

 

تین لڑکیاں

 

وہ تین لڑکیاں ہیں

تینوں دانش مند ہیں، ہنر مند ہیں، کھلاڑی ہیں۔۔

مگر بیٹیاں نہیں ہیں

 

وہ بوجھ ہیں،قرض ہیں، سود ہیں اپنے ماں باپ پر

مگر بیٹیاں نہیں ہیں

 

ان کی ماں اپنا نام تک بھول گئی ہے، اس کا نام اب بس یہی ہے’تین لڑکیوں والی ماں’

تینوں لڑکیاں اسے کمتر محسوس کرواتی ہیں، ان ماؤں کے سامنے جن کے لڑکے ہیں

اور جن کی چھاتی فخر سے پھول گئی ہے

 

پہلی پہلے بچے کی چاہ میں ہوگئی

دوسری لڑکے کی چاہ میں ہوگئی

اور تیسری وقت پر جانچ نہ ہوپائی اس لیے بس ہوگئی

 

تینوں میں سے ایک بھی ایسی نہیں، جسے کھیت، کھلیان، چھت اور مکان دیا جاسکے

ماں اداس ہوکر کہتی ہے، ‘یہ سب تو بیٹے کو دیا جاتا ہے اور یہ تینوں تو لڑکیاں ہیں’

 

سوچتی ہوں ان تینوں کا معصوم دل کیا سوچتا ہوگا اس بارے میں۔۔۔

کہ وہ بیٹیاں نہیں، لڑکیاں ہیں بس!

 

ان کی ماں کو بیٹے کا انتظار ہے

ان تینوں کو بھائی کا انتظار ہے

گھر اور جائداد کو مستقبل کے مالک کا انتظار ہے

 

کوئی نہیں جسے بیٹیوں کے لڑکیوں میں بدل جانے کی فکر ہو۔۔۔

٠٠٠

 

تم پتھر کی ہو!

 

اس نے کہا۔۔

‘تم پتھر کی ہو!’

پھر زیادہ تر نے یہی کہا۔۔۔

 

میں نےہر بار اس جملے کے ختم ہونے کے بعد

اس کے سچ ہونے کی خواہش کی

 

میرے لیے انسان ہونا بھی کٹھِن رہا

اور پتھر ہونا بھی۔۔۔

 

نہ جانے آسانی سے میری کیا دشمنی ہے

کبھی بھی کوئی ٹھیک ٹھاک راستہ نہیں ملا

 

مجھے سمندر بھی اچھے لگے

اور پہاڑ بھی

آکاش کی یاترا کی بھی بڑی چاہت تھی میری

مگر رہنا پڑا مجھے میدان میں

 

ایسے میدان جہاں سے پتھریلی سڑکیں تو گزریں

مگر ان پر ہرے پیڑ نہ تھے

جو تھے وہ سوکھے اور بے جان۔۔۔

 

اس لیے میں نے پتھر ہونا چاہا۔۔۔

 

میں نے ایسے کسی رام کی خواہش نہیں کی جو اس عذاب سے مجھے مُکتی دے۔۔۔

 

کیونکہ میں جانتی تھی، ‘پریم کبھی مکتی نہیں دیتا،ہاں! مُکت (آزاد) ہو کر پریم ضرور ممکن ہے۔’

٠٠٠

 

وِش کنیائیں

 

منہ میں وِش اور دل میں آرگیزم کی خواہش رکھنے والی یہ عورتیں

عورتیں نہیں وِش کنیائیں ہیں

دور رہو ان سے

مت پھنسو ان کے پرکشش روپ جال میں

پچھتانے کا وقت بھی نہیں دیتیں یہ وِش کنیائیں

 

وصل کے انتہائی لمحوں میں اپنے زہریلے دانت تمہاری گردن پر ہلکے سے گڑا کر  لوٹ جائیں گی اپنے گھروں میں

اور جئیں گی اپنی معمول کی زندگی اس طرح کہ تمہارا مردہ سایا بھی نہیں جان سکے گا

کہ گھروں میں پونچھا لگاتی، کپڑے دھوتی یہ گرہستنیں ، عورتیں نہیں، وِش کنیائیں ہیں

 

یہ  لذیذ پکوانوں کی باتیں کریں گی

یہ  خوبصورت لباسوں کا ذکر چھیڑیں گی

یہ جنسی باتوں کو کانوں میں گھولیں گی

تم ان کی لبھاونی باتوں میں مت آنا

 

تم اپنی زبان کی گندگی ان کے خوبصورت چہرے پر پوت دینا

کوئی سیال مادہ مل جائے تو ان کے خوبصورت چہرے پر انڈیل دینا

 

بہت غرور ہے انہیں

کچل کر رکھ دینا ان کا غرور

چھری مل جائے تو

چھری سے لکھ آنا ان کی ناف کے نیچے’وِش کنیائیں’

 

یہ رنڈیاں، عورتیں نہیں وِش کنیائیں ہیں

 

انہیں جدید تعلیم نے پال پوس کر ہمیں مارنے کے لیے تیار کیا ہے

٠٠٠

 

مفت  پریم

 

میں نے سنا تھا

اس دنیا میں کچھ بھی مفت میں نہیں ملتا

ہر مفت چیز کی قیمت

کبھی نہ کبھی چکانی ہوتی ہے

اس لیے میں نے چیزیں نہیں خریدیں

پریم کیا

بدلے میں مجھے ‘اور زیادہ پریم’ ملا

اس پریم میں ‘زیادہ’ کی قیمت مجھے زندگی بھر چکانی پڑی

٠٠٠

 

نیہا نروکا کی نظموں میں  عورت اور سماج کے درمیان کشاکش کے پہلو ایسی عمدگی اور سچائی کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں  کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لیے ان نظموں کے آئنے میں اپنے آس پاس کو پوری طرح برہنہ دیکھ سکتا ہے۔ان کی نظموں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ لفاظی  کو طاق پر رکھ کر شاعری میں بھی سیدھے سپاٹ  لہجے میں قاری سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ ان کی صلاحیت ہی ہے کہ انہوں نے نظموں میں کسی طرح کے اکہرے پن کو پیدا ہونے سے روکا ہے اور حساس موضوعات کو بھی بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے۔ اس انتخاب میں ان کے لہجے کے ایک عنصر کو خاص طور پر پیش نظر رکھا گیا ہے اور وہ ہے، ہمارے سماج کی عورت دشمنی۔

نیہا نروکا کا جنم 7 دسمبر 1987 کو اُدوت گڑھ، بھِنڈ، مدھیہ پردیش میں ہوا۔ انہوں نے ہندی ادب میں ایم اے اور ‘ہندی کی  خاتون افسانہ نگاروں کی سرگزشتوں کا تجزیہ’ نامی موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ان کی نظمیں ‘ہنس’، ‘آج کل’،’واگارتھ’ جیسے رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ فی الحال وہ  مدھیہ پردیش کے کولارس میں شریمنت مہاراج مادھوراؤ سندھیا یونیورسٹی  میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔گزشتہ برس ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘پھٹی ہتھیلیاں ‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔یہ نظمیں اسی کتاب سے لی گئی ہیں۔