ہم سے رابطہ کریں
- info@awrurdu.com
نیومی شہاب نائے ایک شاعرہ، گیت نگار اور ناول نگار ہیں۔ ان کے والد فلسطینی اور والدہ امریکی ہیں۔ اگرچہ وہ خود کو ’’آوارہ گرد‘‘ شاعر کہتی ہیں، ان کا قیام زیادہ تر امریکہ کی جنوبی ریاست ٹیکساس کے شہر سین انٹونیو میں رہتا ہے۔نیومی نے چھ سال کی عمر میں، جیسے ہی انھوں نے لکھنا سیکھا، شاعری شروع کی۔ مگر چودہ سال کی عمر میں فلسطین کے سفر اور اپنی دادی سے ملاقات نے ان کا نقطۂ نظر بالکل بدل دیا اور فلسطین سے متعلق موضوعات ان کی شاعری میں مرکزی حیثیت کے حامل ہو گئے۔ان کی شاعری کے سات مجموعے تاحال شائع ہوئے ہیں۔ ’’عبادت کے مختلف طریقے‘‘ (1980)، ’’جوک باکس کو چمٹائے‘‘ (1982)، ’’زرد دستانہ‘‘ (1986)، ’’سرخ سوٹ کیس‘‘ (1994)، ’’ایندھن‘‘ (1998)، ’’غزال کی انیس قسمیں: مشرقِ وسطیٰ کی نظمیں‘‘ (2002) اور ’’تم اور تمھارے: نظمیں‘‘ (2005) ان کی شاعری کے مجموعوں کے نام ہیں۔ وہ شاعری کی دو کتابوں کی مرتب بھی رہی ہیں ’’ایک ہی آسمان: دنیا بھر کی نظموں سے انتخاب‘‘ (1996) اور ’’سمندر کا نمک: نوجوان شاعروں کی سو نظمیں‘‘۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک ناول ’’حبیبی‘‘ کے نام ۔ اس کے علاوہ ان کی تصویروں اور مضامین کی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔نیومی شہاب نائے کی شاعری میں ہجرت کے تجربے کا سوز و گداز موجود ہے۔ اگرچہ ان کی تمام شاعری انگریزی زبان میں ہےاور عربی پر ان کی دسترس واجبی سی ہے مگر امریکہ کی سرزمین میں اجنبیت کا احساس بھی ان کی شاعری میں موجود ہے اور اپنی فلسطینی شناخت سے ادراک بھی۔ ان کی تقریباً تمام نظمیں فلسطین کی سیاسی صورت حال سے پیدا ہونے والی اذیت کی غماز ہیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات، کردار اور کہانیاں تقریباً تمام یا تو فلسطینی ہیں یا فلسطین سے ہجرت کرکے آنے والے امریکی۔ فلسطین میں ہونے والے سامراجی تسلط اور تشدد کی کہانیاں ان کی شاعری میں بکھری ہوئی ہیں۔ ان کی بنیاد پر ان کو امریکی سے زیادہ فلسطینی قرار دیا جاسکتا ہے، اور غالباً یہی وجہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر ان کے اپنے احساسات اور خیالات کا برملا اظہار ان کی نظموں کو امریکی سیاست کے پس منظر میں متنازع بناتا رہتا ہے۔ خصوصی طور پر دہشت گردی کے حوالے سے ان کی نظموں پرکچھ امریکیوں کو اعتراضات ہوے۔پاکستان میں بیشتر لوگ فلسطین کے مسئلے کی سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھے بغیر بھی فلسطینیوں اور ان کے نصب العین سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ ہماری اپنی شاعری بھی عمومی طور پر اب اس مقام پر ہے جہاں اشرافیہ اور سامراج کے ظلم کے خلاف شدتِ احساس، احتجاج اور بغاوت کے عناصر رومانیت اور سطحی اثباتیت سے بلند ہوکر، اس کے مزاج میں ایک ہمہ گیریت پیدا کر رہے ہیں اور اس میں مقامیت اور لامقامیت کا فرق مٹا رہے ہیں۔ دوسری اور تیسری دنیا میں ہونے والے شاعری کے تراجم نے ہمارے طرزِ احساس و فکر کو پچھلی چند دہائیوں میں بہت بدلا ہے۔ وہ عالمگیریت جو آج ایک سیاسی حقیقت ہے۔ سامراجی قوتوں کو ہمارے لیے بے شمار سماجی، معاشی نفسیاتی اور ماحولیاتی مسائل پیدا کرنے کا موقع دے رہی ہے مگر یہ اس نامختتم ابلاَغ اور مکالمے کو بھی جنم دے رہی ہے جو سماج اور دنیا کے طاقتوروں کے خلاف تمام لوگوں اور شاعروں کے لیے احساسِ دیگر، احتجاج اور انکار کی قوت کا سرچشمہ ہے۔ ایک ایسا ہی ابلاغ اور ایسا ہی مکالمہ نیومی شہاب نائے کے تراجم کرتے ہوے میرا مقصد ہے۔
ہماری عبادتیں
ایک طریقہ تھا گھٹنوں کے بل جھکنے کا
ایک عمدہ طریقہ،اگر آپ ایک ایسے ملک میں رہتے ہوں جہاں پتھرچکنے ہوں۔
جہاں عورتیں بڑی چاہ سے رنگ کاٹ کرسفید کیے گئے صحنوں کے خواب دیکھتی ہوں۔
خفیہ کونے ہوں جہاں چٹان میں گھٹنے سماجائیں
ان کی عبادتیں موسموں سے متاثر پسلیاں تھیں
بالترتیب ادا کیے گئے مختصرلوھےسے الفاظ
جیسے کہ اس طرح ادا کیے گئے حروف انہیں آسمان میں مدغم کرسکتے تھے
پھر وہ لوگ تھے جو اتنے زمانے سے بھیڑیں چرارہے تھے
کہ وہ بھیڑوں کی طرح چلنے لگے تھے۔
زیتون کے درختوں کے نیچے
وہ اپنے بازو بلند کرتے تھے
ہماری آواز سن! ہمیں اس زمین پر تکلیف ہے
ہمیںاتنی تکلیف ہے کہ اسے رکھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
لیکن زیتون سکون کے ساتھ جھولتے رہے
سر کے اورپودینے کی خوشبو داربالٹیوں میں
رات کو لوگ پتلی روٹی اورسفید پنیر جی بھر کرکھاتے
اورتکلیف کے باوجود خوش ہوتے کیونکہ وہاں خوشی بھی تھی
کچھ لوگ زیارت کی قدرکرتے تھے
اپنے آپ کو نئی سفید لینن میں لپیٹے ہوئے
بسوں میں میلوں لمبے ویران ریگستان کے اس پار جانے کے لیے
جب وہ مکہ پہنچتے
وہ مقدس مقامات کے گردپیدل چکر لگاتے
بہت بار
وہ جھک کر زمین کو چومتے
اور واپس لوٹتے
تو ان کے چہروں پر پراسراریت چھائی ہوتی
اس کے برخلاف یقینی طور پر
رشتہ دار لڑکیوں اور دادیوں ،نانیوں کے لیے
ہرروز روز زیارت ہوتا
چشمے سے پانی کھینچتے ہوتے
یاانگور کی ٹوکریوں کو سرپرسنبھالتے ہوئے
یہ وہ تھیں جو ولادتوں پرپسینہ بہاتی مائوں کے لیے
دھیمے سروں میں گنگناتی
ہمیشہ موجود ہوتیں
جو بچوں کے لباسوں پر
باریک کشیدہ کاری کرتیں
یہ بھلا کر کہ بچے کتنی تیزی سے کپڑے گندے کرتے ہیں
اور وہ بھی تھے جنہیں عبادت کی کوئی پرواہ نہیں تھی
نوجوان لوگ،وہ جو امریکا ہو آئے تھے
وہ بڑوں کو بتاتے
آپ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں
وقت؟ بزرگ نوجوان کے لیےعبادت کرتے
وہ اللہ سے دعا کرتے کہ ان کے ذہنوں کو بدل دے
کوئی شاخ،گول چاند
اچانک تحکمانہ لہجے میں بول پڑے
اورکبھی کبھار کوئی ایسا بھی ہوتا
جو کوئی عبادت نہ کرتا
بوڑھا فرزی مثال کے طور پر
فوزی مسخرا
جوڈومینوز میں سب کو ہرادیتا تھا
جو مصر تھا اپنی بات پر کہ
وہ جب بھیڑوں سے باتیں کرتا ہے تو
خدا سے باتیں کرتا ہے
جو مشہور تھا اپنے قہقہے کے لیے
***
گزرے سال کا الائو
خطوط لمحوں میں اپنے آپ کو نگل جاتے ہیں
چٹخیولں سے باندھے گئے
دوستوں کے پیغامات
شفاف سرخ کاغذ
پروانوں کے پروں کی طرح سلگتے ہیں
ہوا کے ساتھ ہواہوجاتے ہیں
کسی بھی سال کا ایک بڑاحصہ
آسانی سے آگ پکڑنے کے لیے مناسب ہوتا ہے
سبزیوں کی فہرستیں ،ادھوری نظمیں
دنوں کا چکراتا ہوا نارنجی شعلہ
بہت کم ہے جوپتھر ہے
جہاں ابھی کچھ تھا اوراچانک نہیں ہے
ایک لاوجود چیختا ہے
جشن مناتا ہے
ایک خلا چھوڑجاتا ہے
میں دوبارہ آغاز کرتی ہوں
کمترین عد د سے
تیز رقص ،خساروں اورجدائیوں کی بدلتی ترتیبیں
صرف وہ سب کچھ جو میں نے نہیں کیا
الائو بجھنے کے بعد چٹختا رہتا ہے۔
***
مشہور
دریا مشہور ہے مچھلی کی نظر میں
بلند آواز مشہور ہے خاموشی کی نظر میں
جو جانتی ہے
کسی کے کہنے سے پہلے ہی
اسے زمین وراثت میں ملے گی
احاطے میں سوتی ہوئی بلی مشہور ہے
پرندوں کی نظر میں
جواپنے گھوسلوں سے اس کی نگرانی کررہے ہیں
آنسو مشہور ہے کچھ دیر کے لیے،رخسار کی نظر میں
وہ خیال جو تم سینے سے لگا کر رکھا ہے
مشہور ہے سینے کی نظر میں
مڑی ہوئی تصویر مشہور ہے
اس کی نظرمیں جو اسے لیے پھرتا ہے
اور اس کی نظر میں بالکل نہیں
جوتصویر میں موجود ہے
میں مشہور ہوناچاہتی ہوں
گھسٹتے ہوئےلوگوں کی نظر میں
جوسڑکیں پارکرتے ہوئے مسکراتے ہیں
سوداسلف کی قطار میں
ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے
بچوں کی نظر میں
میں مشہور ہوناچاہتی ہوں اس بات کے لیے
کہ میں ان کی طرف جو اباً مسکراتی ہوں
میں مشہور ہوناچاہتی ہوں
جیسے چرخی مشہور ہے
جیسے مشہور ہے
بٹن کا کاج
اس لیے نہیں کہ اس نے کوئی شاندار کام کردکھایا
بلکہ اس لیے کہ وہ کبھی نہیں بھولا
جو اس کا کام تھا
***
پوشیدہ
اگر تم رکھ دو ایک پتہ
پھر کے نیچے
اگلے روز وہ تقریباً غائب ہوچکا ہوگا
جیسے کہ پتھر نے اسے نگل لیا ہو
اگر تم رکھ دو
کسی پیارے کا نام
اپنی زبان کےنیچے
بہت دنوں تک
بغیراسے زبان سے ادا کیے
وہ بن جائے گاخون
ایک آہ
اندر کھینچی ہوئی
چھوٹی سی سانس
تمہارے لفظوں کے نیچے
ہرجگہ چھپی ہوئی
کوئی نہیں دیکھتا
اس ایندھن کو
جوتمہیں زندہ رکھے ہوئے ہے
***
مٹھی بنانا
پہلی بار ٹیمپیکو کے شمال میں سڑک پر
میں نے اپنی جان کو نکلتے ہوئے محسوس کیا
صحرا میں ایک نقارے کی بڑھتی ہوئی آوازیں
میں سات سالہ، کار میں لیٹی ہوئی
شیشے کے اس طرف پام کے درختوں کو
ایک بیمارکردینے والے انداز میں چکرکھاتے دیکھ رہی تھی
میرا معدہ میری کھال کے نیچے ایک توبوز کی طرح دوٹکڑے ہوگیاتھا
“ہمیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہم مرنے والے ہیں؟”
میں نے اپنی ماں سے پوچھا
ہم کئی دنوں سے سفر میں تھے
ایک عجیب اعتماد کے ساتھ اس نے جواب دیا
“جب تم انگلیوں سے مٹھی نہ بنا سکو”
برسوں بعد میں اس سفر کو یاد کرکے مسکراتی ہوں
ہمارے ناقابل وضاحت آلام سے منقش
وہ سرحدیں جو ہمیں الگ الگ پار کرنا پڑیں
میں جونہیں مری ،آج بھی زندہ ہوں
ابھی بھی اپنےتمام سوالات کے پیچھے
پچھلی سیٹ پر لیٹی ہوئی
ایک چھوٹا ساہاتھ کھولتی اور بند کرتی ہوئی
***
یروشلم
مجھے دلچسپی نہیں ہے اس بات سے
کہ کون سب سے زیادہ تکلیف سے گزرا
مجھے دلچسپی ہے
لوگوں کے تکلیف سے باہر آنے سے
ایک دفعہ جب میراباپ لڑکا سا تھا
اس کے سرپرایک پتھر آکر لگا
اس جگہ پر اس کے بال نہیں اگےت
ہماری انگلیوں نے وہ نازک مقام ڈھونڈ لیا
اور اس کی پہیلی بھی
لڑکاجو گرگیاتھا،پھراٹھ کھڑا ہوا ہے
ناشپاتیوں کی ایک ٹوکری
ہاتھ میں لیے اس کی ماں
گھر میں اس کا استقبال کرتی ہے
ناشپاتیاں تو نہیں رو رہیں
بعد میں ا سکا دوست جس نے پتھر ماراتار
بتاتا ہے اس کا نشانہ ایک پرندہ تھا
اورمیرے باپ کے کاندھوں پر نکلنےلگتےہیں
ہرشخص کے اندر ایک نازک مقام ہوتا ہے
کوئی شے جو زندگی ہمیں دینا بھول گئی
ایک شخص ایک مکان بناتا ہے اور کہتا ہے
’’میں اب مقامی باشندہ ہوں‘‘
ایک عورت اپنے بیٹے کی جگہ
ایک درخت سے بات کرتی ہے۔
اورزیتون کے پھل نکل آتے ہیں
ایک بچے کی نظم کہتی ہے
“مجھے جنگیں پسند نہیں ہیں
ان کا انجام یاد گاریں،ہوتی ہیں”
وہ پرندے کی تصویر بنارہاہے
جس کے پر اتنے چوڑے ہیں
ایک ساتھ دوچھتوں کو چھپاسکتے ہیں
ہم اتنی نمایاں حد تک سست کیوں ہیں؟
سپاہی ایک دوائوں کی دکان میں گھس جاتےہیں
بڑی بندوقیں،ننھی منی گولیاں
اگر تم نے اپنا سر بس ذرا ساموڑا
یہ بہت مضحکہ خیز ہے
میرے دماغ میں ایک جگہ ہے
جہاں نفرت نہیں اگے گی
یہ مقام ایک پہلیا ہے
میں اسے چھوتی ہوں،
ہوا ور بیج
کوئی چیز سوتے میں ہمارے اندر گھس جاتی ہے
دیر ہوگئی ہے مگر سب کچھ ابھی ہونے والا ہے۔
***
ہیلو
کچھ راتوں میں
نوکیلے دانتوں والا چوہا
آڑوئوں کے پیالے تک
اپنا لمبا راستہ طے کرتا ہے
وہ کھانے کے کمرے میں میز پر کھڑا ہوتا ہے
اپنے دانت گاڑتا ہے
ہرپھل کے چہرے سے گودا پیتا ہے
اورجانتا ہے
کہ تم اس کا پیغام پڑھوگے
اورچیخ مارو گے
یہ اس کا واحدمتن ہے
جو وہ لکھتاہے
اندھیرےمیں لکھتا ہے
اورتمہارے جاگنے سے پہلے نکل بھاگتا ہے
اورتمہارے جناتی پیر
فرش کو چرمرانا شرو ع کردیتے ہیں
چوہے کی ماں کہاں ہے؟
با پ کہاں ہے؟
پارہ پارہ گھونسلا کہاں ہے؟
ہم کونسی سانس لے رہے تھے
جب چوہاپیدا ہوا
جب اس نے اپنی کانپتی ہوئی تھوتھنی اٹھائی
شہتیرکی طرف،کھونٹی کی طرف،پتھر کی طرف؟
میں نے اس کے نام شیطان کے ناموں پر رکھے
چھلے ہوئے،کیلےا نام
میں ان کمروں میں چھڑی کے بغیرداخل نہیں ہوتی
جو مجھے راہ دکھائے
میں نے کانپتے ہوئے روشنی کا سہارا لیا
اورگھر کے باہرنم آلود مٹی نے
بادلوں کی سی دم کی لکیروں نے خبر دی
کہ وہ الماری میں موجود تھا
موم بتیوں کی دراز میں
اس کی ناک ایک بتی کی طرح تھی
ہم ایک ساتھ کیسے رہیں گے
ہمارے غمگین جوتے اورخفیہ ٹھکانے
دروازوں پرہمارے تالے
اور اسکی ناز ک انگلیوں والے پنجے
جن کی گرفت ،جن کا چنگل بہت مضبوط ہے
اس کی کھال کی کوری تختی
اور وہ تکیے جن پر ہم اپنے سروں کا بوجھ ڈال دیتے ہیں؟
اور وہ بستر جو ایک کشتی تھا،ڈوب رہاہے
اورصبح کے ساحل ابھررہے ہیں
ننھے سایوں کی قطاروں کے ساتھ
وہ وجود جو ہم کبھی بننا نہیں چاہتے تھے
یا وہ ہم جن کا سامنا نہیں چاہتے تھے
تمام چوہے ہاتھ ہلاتے ہوئے
ہمیں ہیلو کہہ رہے ہیں
***
خون
“ایک خالص عرب جانتا ہے ایک مکھی کو اپنے ہاتھوں میں کیسے گرفتارکیاجائے”
میراباپ کہتا
اوربھنا ہٹ کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں
اسی لمحے قید کرتے ہوئے
وہ اپنی بات ثابت بھی کردیتا
جبکہ میزبان اپنا مکھی مارلےت اسے گھورتا رہ جاتا
بہار میں ہماری ہتھیلیاں سانپوں کی مانند چھل جاتیں
خالص عرب یقین رکھتے ہیں کہ تربوز پچاس بیماریوں کا علاج ہے
میں موقع کی مناسبت سے یہ تعداد بدل دیتی تھی
سالوں پہلے،ایک لڑکی نے ہمارے دروازے پر دستک دی
وہ ایک عرب کو دیکھناچاہتی تھی
میں نے کہا ہمارے ہاں کوئی عرب نہیں ہے
اس کے بعد میرے با پ نے مجھے بتایا کہ وہ کون ہے
“شہاب”—“گرتا ہوا ستارہ”
ایک خوبصورت نام،آسمان سے مانگا ہوا
ایک دفعہ میں نے کہا
“جب ہم مرتے ہیں تو کیا ہم اپنا نام واپس کردیتے ہیں؟”
اس نے کہا ایک خالص عرب یہی کہے گا
آج اخبار کی سرخیاں میرے خون میں منجمد ہوگئیں
ایک ننھا فلسطینی پہلے صفحے پر ایک ٹرک پرجھول رہاتھا
ایک بے گھر بے قیمت شے
یہ المیہ اپنے خوفناک سبف کے ہمراہ
ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے
ہم کون سا پرچم لہراسکتے ہیں
میں پتھراوربیج کا پرچم لہراتی ہوں
نیلے ڈوروں سے سلامیز کا کپڑا
میں اپنے باپ کو آواز دیتی ہوں
ہم اس خبر پر بات کرتے ہیں
یہ اس کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے
اس کی دونوں زبانیں اسے نہیں اٹھاسکتیں
میں گائوں میں گاڑی دوڑاتی ہوں
بھیڑوں گایوں کو ڈھونڈتی ہوئی
ہوا سے محبت کرتی ہوئی
کون کسی کو مہذب کہتا ہے؟
آنسو بہاتا دل بھیڑیں چرانے کہاں جائے؟
ایک خالص عرب اب کیا کرے؟
***
لڑکا اورانڈا
ہرچند منٹ کے بعد،وہ چاہتا
کہ رائی گھاس کے ہموار کردہ راستےکی
مسافت طے کرتا
بڑبڑاتی ہوئی مرغیوں کے ڈربے تک پہنچ جائے
وہ بھی سوکھی گھاس میں اپنا بستر بناسکتا تھا
کل انڈہ اتنا تازہ تھا
وہ اسے ہاتھ میں گرم گرم لگا
اور اس نے اسے اپنے کان سے لگایا
جبکہ دوسرے بچےہنسے
اوراسے چھوـڑ کر گیند کے ساتھ دوڑے
ابھی تک اتنا چھوٹا ،کھیلوں میں اتنابھلکڑ
اگرگیند اسے چھو بھی جائے تو رونےکو تیار
اپنی مٹھی میں بند پرندوں کے راز سے چمٹا ہوا
وہ اسے ریفریجریٹر کے لیے چھوڑنے کو تیارنہیں
نہ ہی اپنے باقیماندہ دن کے لیے
***
آدھا اورآدھا
“تم نہیں ہوسکتے” ایک فلسطینی عیسائی کہتا ہے
رمضان کے بعد ضیافت کے پہلے دن
“اس طرح آدھے اورآدھے، اور آدھے اور آدھے”
وہ شیشہ بیچتا ہے
وہ واقف ہے شکستہ ٹکڑوں سے،ریزوں سے
”اگر تم یسوع سے محبت کرتے ہو
تو تم کسی اور سے محبت نہیں کرسکتے”
وہ کہتا ہے
وایا ڈولوروسا میں اپنی نیلی صراحیوں کی دکان میں وہ جھاڑو دے رہاہے
صقیل کیے گئے پتھر مقدس لگتے ہیں
کھجوروں سے بھرے مامول کے چہروں پر شکرکا سفوف لگاتے
آج صبح ہم نے پتلی سفید موم بتیاں جلائیں
جو دوپہر تک کمر کے بل مڑ گئیں
چلوایک بار یہ بھی ہوا
کہ پادری گرجاگھر میں اپنے لیے بہترین مقام کے لیے
جھگڑنہیں رہے تھے
میرے باپ نے اپنے بچپن میں انہیں جھگڑتے سناتھا
جزوی طور پر یہی وجہ ہے
کہ وہ اپنی زبان کے سوا کسی زبان میں عبادت نہیں کرتا
میں ہر استثنا پر اپنے ہونٹ کیوں کاٹتی ہوں
ایک عورت کھڑکی کھولتی ہے
یہاں اوریہاں اوریہاں
ایک نارنجی کپڑے پر نیلے پھولوں کا گلدان رکھتی ہے
وہ ایک شوربہ بنا رہی ہے
سوکھا ہوا لہسن اورمڑی ہوئی پھلی
وہ کوئی چیز چھوڑ نہیں رہی ہے
***
جوک بوکس کو چمٹائے
ایک جزیرے پر یاد کا کومل رنگ
کائی سا ہرا، تیل ساپیلا، بہتا ہوا
بحرغرب الہند میں مدغم ہوتا ہوا
چھ سالہ الفریڈ
اپنے دادا کے جوک بوکس میں موجود
تمام گیتوں کا ایک ایک حرف یاد کرلیتاہے
اورانہیں گاتا ہے
الفاظ سیکھ لینا کچھ ایسا مشکل نہیں ہے
شرابخانوں میں ملازم بہت سی لڑکیاں
اورنوجوان بھی یہ کرچکے ہیں
مگر گیت گانا جیسے الفریڈ گاتا ہے —
اس کے سینے کے چھوٹے سے تالاب میں
ایسی قوی ہیکل وھیل گھر کیسے بناسکتی ہے
لہریں اتنی بلند کیسے ہوسکتی ہیں
اس کے گلے کے ساحل پر سروں کے ٹوٹنے کاشور
اورسمندری پتھرکا ایک ٹکڑا اتنا جسیم
صرف مچھلیاں ہی اس کا ناپ جان سکتی ہیں
دادا اوردادی نظارہ کرتے ہیں
وہ نہیں گاسکتے
وہ نہیں جانتے
یہ آواز کس کی ہے
جو ان کے پوتے کے جسم کے جال میں پھنسی ہوئی ہے
وہ لڑکا جسے اس کے والدین نے جزیرے پر واپس بھیج دیا
آم کے پیڑوں سے باتیں کرنے کے لیے
مرغیوں کے ساتھ کھیلنےکے لیے
تین سال پہلے وہ لفظ ’’غمزدہ‘‘نہیں جانتا تھا
اب وہ ایک سرمیں سینکڑوں جذباتی جملے اپنے تاروں سے اداکرتاہے
وہ گھونسے مارتا ہے
تاکہ وہ آواز اوربلند کردیں
وہ اپنے بڑھاپے میں ایک ساتھ کیاکریںگے؟
اپنے آپ کو زندہ رکھنا ہی کافی مشکل ہے
اوریہ جنگلی لڑکا
موسیقی کے علاوہ کسی شے سے محبت نہ کرنے والا
وہ ساری رات گاتارہے گا
جوک باکس کوچمٹائے ہوئے
جب کوئی گیت ختم ہوتا ہے
وہ چھوٹا سا لمحہ
دوبارہ شروع ہونے سے پہلے
الفریڈ اکڑ جاتا ہے
بازوپھیلے ہوئے
سر اس کےچمکیلے پیٹ سے چپکا ہوا
“چلائو” وہ چلاتا ہے
ہلکی سی مسکراہٹ جب سوئی دوبارہ سانس لیتی ہے
انہوں نے اسے بستر میں لٹانے کی کوشش کی ہے مگروہ بستر میں گاتا ہے
ہسپانوی زبان میں بھی
اوروہ ہسپانوی نہیں بولتا
وہ گاتا ہے،اورچیختاہے
وہ جوک باکس کے پاس واپس جاناچاہتا ہے
اوماں میں گلے میں بگل کے ساتھ پیداہوا تھا
یہ تمام سال اسے کھانس کراگل دینے کی کوشش میں گزارے
ابھی پڑھنا بھی نہیں آتا، وقت بتانا بھی نہیں آتا
لیکن وہ گاتا ہے اور اس رقص گاہ میں کرسیاں ایک جھٹکے سے متوجہ ہوجاتی ہیں
دادادادی اپنے سر ہلا تے ہوئےکائونٹر پر جھک جاتے ہیں
گاہک باتیں کرتے کرتے رک جاتے ہیں اورٹکٹکی باندھ لیتے ہیں
ان کے بازوئوں پر حیرت کےگومڑے ابھرتے ہیں
اس کی آواز باہر پانی تک پہنچتی ہے جہاں کشتیاں بندھی ہیں
اوران سب کے لیے نغمہ گرہوتی ہے ایک لہر
درختوں میں بسیرا کرتی ہوئی مرغیوں کے لیے
برابر گھر کے گونگے لڑکے کے لیے
جواس کا دوسرا بہترین دوست ہے
اورباربادوس کے قریب امنڈتے ہوئے
بڑے طوفان کے لیے
ایک ہفتے کے بعد ہمسائے اپنی کھڑکیوں پر تختے ٹھونک رہے ہوںگے
کتوں کواورماہی گیری کی ڈوروں کوجمع کررہے ہونگے
اوربجلی پیداکرنےوالے آلات ہرصحن میں
ایک مقدس چٹک کے ساتھ کام چھوڑدیں گے
مگر الفریڈ اپنے جوک باکس کو گلے سے لگائے تب بھی گارہاہوگا
اب دگنی بلندآواز میں
جبکہ جوک باکس میں دھنوں کے عنوان اندھیرے میں ڈوب چکے ہوںگے
اپنی دادی کوچھیڑنے کےلیے وہ کہےگا
“میرے منہ میںایک سکہ ڈا ل دو‘‘
یقین کرتے ہوئے اس بات کا جس پر وہ یقین کرناچاہتی ہے
یہ کوئی جزیرے کا خاتمہ نہیں ہے
نہ ان تختیوں کا جن پرزندگی کی داستان رقم ہے
نہ ہی نغمے کا
***
سن ۲۰۰۰ سے پہلے آخری اگست کے گھنٹے
رحم سے بنا ہو ا ریشم
لمبے بازوئوں والی سہ پہر
پکی ہوئی ڈالیوں کوکاسنی شگوفوں کے لیے مجبورکرتا ہوا سورج
درختوں کے نیچے سے بغیرعجلت گزرنےسے بڑھ کر کیاکوئی نعمت ہے؟
اس گلاب تک ایک بالٹی لے کر جانا
جو اب تک ایک بل کھاتا مکان بن چکاہے
بیلوں کی چھت اوردیوار یں۔
آپ اس گلاب کے اندر قیام کرسکتے ہیں
ایک پتلی دھار سے نوکدارپھل کا تاج پہنے قدیم انناس کو سیراب کرتے ہوئے
میں سمجھتی تھی کہ سن ۲۰۰۰ تک ہم خود کوبوڑھا محسوس کرنے لگیں گے
والٹ ڈزنی کا خیال تھا کاریں اڑاکریںگی
کیا ڈرامہ ہےکہ سوچتے رہو
کہ یہ ہیں کیلینڈر کے کئی صفر میں بدلنے سے پہلے کی
آخری گرمیاں
آخری سالگرہ
میری ہمسائی کہتی ہے
کہ ہم ستمبر میں جو بھی بوئیں اگ آتا ہے
وہ اپنی گزرگاہ میں گھاس کے چھوٹے گملوں کو قطار میں لگا رہی ہے
میں جانناچاہتی ہوں
کہ جو پہلے ہوچکا ہے
کہر کی جڑوں میں موجود ہے
آپ اپنی پوری زندگی کے گرد
پانی جذب کرنے کی نالی لگاسکتے ہیں
اورجان سکتے ہیں کہ
گرمیوں کی سخت مٹی کی تہوں
اورخشک اڑی ہوئی گھاس کے نیچے
نمی کے لیے کچھ موجود ہے
***
میرےعموکی پسندیدہ کافی شاپ
پیالی سے بلند ہوتی بھاپ کا مرغولہ
کیا ہی سکون بخش تھی یہ بات
بار برا کا ذاتی طور پر جاننا
اس کا بے عیب انڈیلتا ہوا ہاتھ
اورگلے میںپڑا کلف داراسکارف
بار برا کا انہیں جاننا
دوسادہ انڈے اور ایک پین کیک
بغیرکہے
کیامسرت ہے ایک غریب الوطن کے لیے
کوئی بھی بات بغیر کہے
میرے ممو گئے اپنے ہوتھ کے اندر
میںتمہیں بتا نہیں سکتا،مجھے اس جگہ سے کتنا پیار ہے
انہوں نے پانی کاگلاس خالی کردیا
برف کو زور زور سے چھنچھناتے ہوئے
میرے ممو ایک بے برف سرزمین سے یہاں آئے ہیں پانی پینے کے بارے میں ان کے مخصوص خیالات ہیں
’’میں تمہیں نہیں بتاسکتا‘‘ہروقت(کہنا)
مگر پھر وہ کوشش کرتے
میرے عمر نے پوری زندگی ہر روز ایک سفید قمیض پہنی انہوں نے چھنگھاڑتے ہوئےسمندر
اوردردغ بھرے ٹیلی ویژن کے خلاف اپنا ہاتھ بلندکیا
انہوں نے ایک ملک سے دوسرے ملک تک اپنا سرآگے پیچھے ہلایا
اوران کاٹکٹ لمباہوتا گیا
غریب الوطن لوگوں کے پاس ایک ہی وقت میںدوگنا اورصفرہوتاہے
غریب الوطن لوگوں نے ٹیکسیاںچلائیں،بیئر اورکوک فروخت کی
اگر عمر کوکوئی ایسا سر مل گیا جو سچا لگا
توانہوں نے اندر ہی اندر سے بار بار دہرایا
ان کی آنکھیں دوسرے کمروں(Booths)میں جوڑوں کے لیے جھٹکتی پھریں
ان کی کھلم کھلا چھیڑ چھاڑ اورغیررسمی لباسوں کے لیے لیکن انہوں نے کبھی ان کا روپ نہیں اپنایا
عمر جوآخار کار ایک ڈنگ مارتے لمحے میں
23سال کے بعد یہاں سے چلے گئے
ہمیشہ کے لیے پرانے دیس میںبسنے کے لیے
ٹھہرنے کے لیے اور واپس نہ لوٹنے کے لیے
شاید اب وہ پر امن ہوگیا ہو
شاید ایک منٹ کے لیے
’’میں تمہیں بتانہیں سکتا ……کیسے میرے دل نے آخر کاریہ ٹھان لیا ہے‘‘
لیکن وہ فٹ پاتھ پر ہمیں پیچھے آتے رہے
وہ کہتے رہے’’خیال رکھنا ،خیال رکھنا‘‘
جیسے کے ہمیںچھوڑناوہ برداشت نہ کرپارہےہوں
میں نہیں بتا سکتی …………
ہم پر کیا گزری
یہ جان کر کہ جس ہفتے وہ وہاںپہنچے
وہ مرگئے
میں نہیں بتا سکتی………
اب کیا کیسا لگتاہے
ان کی پیسی سڑکوں پر گاڑی چالتے
اپنے پیروں کے نیچے بوتھ کومحسوس کرتے
اپنا آرڈر دیتے ہوئے
’’کچھ بھی لے آئو‘‘
کیونکہ اگر ہم آرڈر نہ دیں
تو کچھ نہیں آئے گا
نرم ڈور
میرا بھائی اپنے چھوٹے سے سفید بستر میں
ایک سراتھامے رہا
میںدوسرا سراکھنچتی
یہ اشارہ دینے کے لیے
کہ میںابھی جاگ رہی ہوں
ہم باتیں کرسکتے تھے
ایک دوسرے کے لیے
گاسکتے تھے
ہم پانچ سال سے
ایک ہی کمرے میں تھے
مگر وہ نرم ڈور
اپنے گھسے ہوئے سروں کے ساتھ
ہمیں جورے ہوئے تھی
اندھیر ے میں
اطمینان بخش تھی
چاہے ہم دن بھر
نوک جھونک ہی کیوں نہ کرتے رہے ہوں
جب کبھی وہ پہلے سوجاتا
اوراس لے پاتج لا دوسرا سرا
فرش پر گرجاتا
مجھے بری طرح اس کی یادستانے لگتی
حالانکہ میں اس کی ہموار سانس کوسن سکتی تھی
اور ہماری اتنی لمبی اور جداجدازندگیاں ہمارے آگے تھیں
***
بیرون کے چھوٹے (چھوٹے)گلدان
آسمان کی جانب کھلے
ان کے دہانوں کو بخشش دو
فیروزی،عنبرمیںگہراسبز
بانسری کے دسنے کے ساتھ
دوانگوٹھیوں کے ناپ کا گگرا(Ritchee)
باریک ہونٹ اور سجیلی کمر
یہاں ہم سب سے چھوٹا پھول رکھتے ہیں
جوسڑک کے کنارے نرم متی میں
شاداب سدابہار کی شاخ میں
لچکدارپودینے میں
سب کی نظروں سے اوجھل
گزارسکتا تھا
وہ میز کےمرکز میںزیادہ گہرے اگتےہیں
یہاں ہم ننھی زندگی کو امانت میںدیتے ہیں
لڑی،جھڑن(fiagment)مہک
اوروہ مرجاتی ہے
وہ سارا دن گزارلیتی ہے
جبکہ روٹی ٹھنڈی ہوتی ہے
اوربچے اپنی سرمئی کاپیاںکھولتے ہیں
تاکہ وہ ایسا حرف نقش کریں
جوگھر سے باہر نکلی ہوئی چمنی کی شکل کا ہو
اوراخباروںکی سرخیاں کیا کہتی ہیں؟
بڑی پتیوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں
یا اس بارے میں بھی نہیں
کہ رنگدارشیشہ روشنی کو کس انداز میں(filtas light)چھان دیتا ہے
مرد اورلڑکے جو عبادت کررہے تھے جب وہ مرے
اپنے جسموںسے باہرمنہدم ہوجاتے ہیں
زندگی (Lining)کاپوراحرف تہجی
الفاظ کے دونوں رخ
جلے،ان کے انداز ادائیگی
’’یااللہ‘‘جب وہ میزان ہوئے
یا’’یعنی‘‘میرامطلب ہے‘‘ کےمعنوں میں پیروں کے نیچے کانچ کےباریک ـٹکڑے
اب بھی چمکتے ہیں
؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سرخ رنگ کا طویل غم بہتارہتا ہے
کہانی قریبی موڑ پر
ایسے نہیں مڑرہی جیسے تم نے سوچاتھا
یہ موڑلے گی ایک چھوٹے سے چکردارحلقے کی صورت ملائمت کے ساتھ
جیسے کہ بچہ ایک سور کی دم کھینچتا ہے
تمہارے منہ سے کیا نکلا
عام گفتگو کی بکواس
سادل پر موسم کی اچانک تبدیلی کی طرح
آسمان بادلوںکو پہاڑوں کی طرح وسیع کرتا ہوا اس انداز میں جس کی تم پیشگوئی نہ کرسکو
نہ اس کی سمت کایقین کرسکو
کہانی عناصر کو بے ترتیب کرتی ہے،تاریک ترکرتی ہے
اپنی ہی حمایت کرتی ہے
اوریہ بڑاعجیب ہے
بہت پیچیدہ
ایک جولائی کی صبح باورچی خانے کی میز کے گرد بیٹھے
چند الفاظ کو جوڑدینے کے کہیں زیادہ پیچیدہ
ڈیلس میںاگرایک شہر کی مثال لی جائے
وہ شہر جہاں تم نہیں رہتے
جہاں لوگ دن رات خریداری کرتے ہیں
اورہزاروں کہانیاں کوڑے میں ڈالتے ہیں
تم جو ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لیے پھرتے ہو
یاسناتے ہو
شک میں مبتلا ہو
کیا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے
کہانیاں آراوہ رہ گردی کرتی ہوئی
اپنی آزاد زندگیاں گزارتی ہوں
شاید وہ کوئی خطرناک منصوبہ بنارہی ہیں
لیکن گفتگو کا جو تمہیں یاد بھی نہیں
کوئی ریزہ یاخلیہ
متعدد تقاضے کرتے
انوکھی جسم میںتبدیل ہوتا جارہاہے
ایک دن جلد ہی یہ گلی میںٹھوکرکھائے گا
اوردستک دے گا
اوربار بار دستک دے گا
اورتمہیں دروازہ کھولنا ہی پڑے گا
***
الفاظ تلے الفاظ
میری دادی کے ہاتھ انگوروں کو پہچانتے ہیں
بکری کی نئی کھال کی مسرلوب چمک بھی
جب میںبیمار تھی وہ میرے تعاقب میںتھے
میںلمبے بخار سے جاگتی تو انہیں
نیک دعائوں کی طرح اپنے سر کوڈھانپے ہوئے پایا
میری دادی کے دن روئی سے بنے ہوئے ہیں
ایک گول پٹ پٹ اور ہلکی آنچ
وہ ایک عجیب سی گاڑی کو سڑکوں کے چکرلگاتےدیکھتی چولہے کے برابر بیٹھی رہتی ہیں
شاید اس میں ا ن کا بیٹا ہے
جو امریکا کی نذرہوگیاہے
لیکن بیشتر اوقات سیاح ہوتے ہیں
جو پراسرارعبادت گاہوں میں گٹھنوں کے بل جھکتے ہیںاورآنسو بہاتے ہیں
وہ جانتی ہیںڈاک کب آتی ہے
کتنا شازونادر ہوتا ہے کہ کوئی خط آئے
جب خط آتا ہے وہ اس کا اعلان کرتی ہیں
شام کی دھندلی روشنی میںاسے بار بار سننا
ایک معجزہ ہے
میری دادی کی آواز کہتی ہے
انہیں کوئی بات حیران نہیں کرسکتی
ان کے پاس لے جائو
گولی کا زخمی یا اپاہج بچہ
وہجانتی ہیں فاصلوںکو
جن کے درمیان ہم سفر کرتے ہیں
ان پیغامات کو جو ہم نہیں بھیج سکتے
ہماری آواز یںمختصر ہیں(short)
اورسفر میں بھٹک جائیںگے
شوہر کے کوٹ کو خداحافظ
ان لوگوں کو جن سے انہوں نے محبت کی جن کی پرورش کی
وہ جو دورآسمان میںبیج بن کر ان کے پاس سے اڑگئے
وہ اگنے کے لیے اپنے آپ کو بولیںگے
ہم سب کو موت آنی ہے
میری دادی کی آنکھیں کہتی ہیں
اللہ ہرجگہ ہے،موت میں بھی
جب وہ باغوں کی باتیں کرتی ہیں
یانئے زیتون کے
جب وہ یوں (joha)اور اس کے۔۔۔۔؟۔۔
اقوال زریں کی کہانیاں سناتی ہیں
وہ ان کی اولین سوچ ہوتا ہے
وہ دراصل جو سوچ رہی ہوتی ہیں وہ اللہ کا نام ہے
’’انہیں جواب دو اگر تم ان کے الفاظ تلے الفاظ سن سکتے ہو…ورنہ یہ بس بہت سے ناہموار کناروں کی دنیا ہے،اس سے گزرنا مشکل ہے اورہماری جیبیںپتھروں سے بھری ہیں۔‘‘
بنیاد پرستی
کیونکہ آنکھ کا سایہ مختصر ہوتاہے
ہاہجوم میںسروں کے اوپر سے دیکھنامشکل ہے
اگر ہر کوئی زیادہ ہوشیار نظرآتا ہے
لیکن تمہیںاپنے ذاتی راز کی ضورت ہے؟
اگرمجید کبھی تمہارادوست نہ رہاہو؟
اگرایک ہی راستہ
بہشت کے لامحدود قلب کو مطمئن کرسکتا ہو؟
اگر تم نے بادشاہ کو اس کے سنہری سخت پر لیموڈں کی ٹوکریاں اٹھائے دہقانوں سے زیادہ پسند کیاہو؟
اگر تم یقین کرناچاہتے ہو
کہ اس کے محافظ تمہیں جماعت میںداخل ہونے دیںگے؟
ٹوٹی ہوئی پنسل لیے لڑکا اپنے چھوٹے چاقو کے سیے کے ساتھ چھیل رہاہے
باربار یہاں تک
لکڑی میں سے ایک نوک دوبارہ نکل آتی ہے
اگر وہ یقین کرے کہ اس کی زندگی اس جیسی ہے
وہ اپنے باپ کے پیچھےجنگ میں نہیں جائے گا۔
***
اتنی زیادہ خوشی
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اتنی زیادہ خوشی کا کیا کیاجائےاداسی کے ساتھ میں کچھ ہوتا ہے جس کوگھسا جاسکتا ہےایک زخم جسے مرہم اورکپڑے سے مندمل کیا جاسکتا ہے
جب دنیاتمہارے اطراف ڈھے رہی ہو
تمہارے پاس چننے کے لیے ٹکڑے ہوتے ہیں
ہاتھوں میں تھامنے کے لیے کچھ
ٹکٹ کے بچے ٹکڑے یاریزگاری کی طرح لیکن خوشی سطح پر تیرتی رہتی ہے
اسے پکڑ کے رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی
اسے کسی شے کی ضرورت نہیں ہوتی
خوشی برابر والے مکان کی چھت پر گیت گاتی ہوئی اترتی ہےیہ حقیقت بھی کہ ایک زمانے میں تم ایک پرسکون درخت کے گھر میںرہتے تھے
اوراب شوراورگرد کی ایک کان کے اوپر رہتے ہو
تمہیں اداس نہیں کرسکتی
ہرشے کی اپنی زندگی ہوتی ہے
وہ بیدارہوسکتی ہے
کافی کیک اور پکے ہوئے آڑوئوں کے
امکانات کی دنیا میں
اورمحبت کرسکتی ہے
اس فرش سے جسے صفائی کی ضرورت ہے
گندگی سے لتھڑے کپڑوں اورکھرونچوںسےبھرے پیکاڑ چونکہ ہمارے پا س اتنی بڑی جگہ نہیں جس میںاتنی زیادہ خوشی سماسکے
تم کندھے اچکاتے ہو،تم اپنےہاتھ اٹھاتے ہو
اور وہ تمہارے اندر سے بہہ نکلتی ہے
ہر اس شے میںجسے تم چھوتے ہو
تم ذمے دار نہیں ہو
تم اس کے لیے فخر نہیں کرتے
جیسے کہ چند کے لیے رات کا آسمان فخر نہیں کرتا لیکن اسے تھامے رہتا ہے،دوسرون کو اس میں شریک کرتا ہے اور اس بات کے لیے مشہورہوتاہے۔
***
عربی
ہنستی ہوئی آنکھوں والے شخص نے یہ کہنے کے لیے مسکرانا روک دیا
جب تک تم عربی نہ بولو تم دردکوسمجھ نہیں سکوگی
اس بات کا تعلق سرکے پچھلے حصے سے ہے
عرب اپنا غم سرکے پچھلے حصے میں لے کر چلتا ہے
جس میں صرف زبان شگاف ڈالتی ہے
پتھروں کاٹکرائو،آنسو بہاتا ،گڑگڑاتا
پرانے لوہے کے دروازے کا قبضہ
’’ایک بار تم جان جائو‘‘اس نےسرگوشی کی
تم جب ضرورت ہو کمرے میں داخل ہوسکتی ہوسکتی ہو
موسیقی جو تم نے دور سے سنی،کسی اجنبی کی شادی میںبجتے ڈھول کی دھمک
تمہاری کھال کے اندر ابھاررہی ہے
ایک اندرونی بارش
ہزار دھڑکتی زبانیں،تم بدل جاتی ہو‘‘
باہربرفباری،آخرکار رک جاتی ہے
ایک ایسی سرزمین میںجہاں برف نہیں گرتی
ہم نے محسوس کیا تھا کہ
ہمارے دن سفید اورساکت ہورہے یہں
میں نے سوچا ہے کہ درد کی کوئی زبان نہیں ہوتی
یاہرزبان ایک جیسی اعلیٰ ترین مترجم چھلنی میں اپنی شرم کا اعتراف کرتی ہے
عربی کے کنارے پر رہنا اس کے قیمتی دھاگوں کو کھینچتے ہوئےبغیر یہ سجھے کہ یہ قالین کیسے بناجاسکتا ہے
مجھ میں کوئی صلاحیت نہیں
آواز ہے مگر معنی نہیں
بات کرنے کے لیے
میں اس کے کاندھے سے اوپر کسی اورکودیکھتی رہی
اپنےمرجانے والے دوست کو یاد کرتے ہوئے
جوصرف قلم گھسیٹ تھی
’’میں لکھ نہیں سکتی‘‘
کسی بھی علم مخو کا رمے اس وقت کیا فائدہ
ہوسکتا تھا
میں نے اس کے بازو کو چھوا
اسے زور سے تھاما
جومشرق وسطی میں نہیں کیاجاتا
’’میں اس پر محنت کروںگی‘‘
اس کے نیک سخت دل پر اداسی محسوس کرتے ہوئے
مگر بعد میں ہموارسڑک پر
ایک ٹیکسی کو بآواز بلند’’درد‘‘کہتے ہوئے بلایا اور وہ رک گئی ہرزبان میں اوراپنے دروازے کھول دیے
***
روز مرہ
یہ سکڑے سکڑے ہوئے بیج جو ہم بوتے ہیں
مکئی کے دانے ،خشک دالیں
اکھیڑی ہوئی مٹی ٹھونس دیتے ہیں
انگلیوں کے پوروں کے ناپ کر ڈھانک دیتے ہیں
یہ قمیضیں جنہیں ہم بالکل ٹھیک ٹھیک
سفید چوکورشکل میں تہہ کرتے ہیں
یہ روٹیاں جن کو ہم ٹکڑوں میںکاٹتے ہیں
اورخستہ پتوں کی صورتر تلتے ہیں
یہ بستر جس کی چادریں میںسیدھی کرتی ہوں
اس کے کناروں سے جب تک کہ نیلاغلاف کھنچتی ،کمبل کے برابر نہیں آجاتا
اورکوئی باہر نہیں لٹکتا
یہ لفافہ جس پر میںپتہ لکھتی ہوں
اس طرح کے نام آسمان کے مرکز
ایک بادل کی طرح بیچ میں رہے
یہ صفحہ جو میں ٹائپ کرتی ہوں
اورپھرٹائپ کرتی ہوں
یہ میز جس کی گرد میںصاف کرتی ہوں
یہاں تک کہ دھبے دار لکڑی چمکنے لگے
یہ کپڑوں کی گٹھڑی جو میںدھوتی ہوں
ہمارے مشترکہ جھنڈوں کی طرح
ایک ملک اتنا نزدیک
کسی کو اس کا نام لینے کی ضرورت نہیں
ہمارے دن اسم ہیں،انہیں چھولو
ہمارے ہاتھ گر جاگھر ہیں،جودنیا کی پرستش کرتے ہیں
***
ایندھن
اس آخری تاریخ میں بھی کبھی کبھار مجھے تلاش کرناپڑتا ہےلفظ’’وصول کرنا‘‘
میں اس کی گہری اوردلچسپی لیتی نگاہ کو وصول کرتی ہوں
شیریںالفاظ کی بارش میں ایک پھلیوں کا پودا سرسبز ہوجاتا ہے۔
’’مجھے بتائو تم کیا سوچتے ہو۔میں سن رہی ہوں‘‘
کہانی اپنے بیس اور اق پلٹ دیتی ہے
ایک دفعہ میری استانی نے مجھے ایک اونچے اسٹول پر کھڑا کردیا،اس نے سوچا میرے ہم جماعتوں کی نظر میں جمع چھیل کر صحیح تاپ پرلے آئیںگے لیکن انہوں نے کچھ اور ہی کیا
’’ہم بھی ہنسے اگر ہمیںمعلوم ہتا کہ میں نے اپنی نظر کھڑکی کے باہر
آسمان کی مکمل لکیرپرجمالی تھی
یہ وہ جگہ تھی جہاں میںجارہاتھا
ایک لڑکے نے مجھ سے کہا تھا
اگر اس نے اوپر اسکیت کو کافی تیز چلایا
تو اس کی تنہائی اس کے برابر نہیں آسکے گی
یہ چمپئن بننے کی کوشش کا
بہترین سبب تھا جو میں نے سناتھا
آج رات میںکنگ ولیم اسٹریٹ پر پیدل چلاتے ہوئے سوچ رہی ہوں
کہ کیا سائیکلوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے
ایک فتح اپنی تنہائی کو سڑک کے کسی کونے میںہانپتے ہوئے پیچھے چھوڑآنا
جبکہ خود اچانک ابھرتے ہوئےاچالیہ کے بادل میں آزاد تیرتے ہوئے اترجانا
گلابی پتیاں جنہوں نے کبھی تنہائی محسوس نہیں کی چاہے وہ کتنی ہی آہستہ گررہی ہوں
***
الاسکا
فیئربینکس میںآدھی رات کو فون بجتا تھا
اورہمیشہ کلانڈ ائک لائونج کے لیے غلط نمبر ہوتا تھا،یہ نہیں ہے میںنیند میںکہتی ۔یہ اور جگہ ہے۔ہم تو رضائیوں میںدبکے ہوئے کچھ لوگ ہیں،پھر میںجاگتی ہوئی پڑی سوچاکرتی لیکن ہوتا کیا ہے وہاں کلانڈائک میں؟وہ نیچی بڑی سی عمارت جوہمارےاپارٹمنٹ سے چند گلیاں دورپارکنگ کے میدانوں کے درمیان کھڑی ہے۔کسی یوکون سیاح کے دھندلے شیشوں والی کھڑکی اورچین کھانے کے خوبصورت خواب کی طرح۔
بے شک وہاں پول گیندوں کی سکون بخش آواز میںپرانی چربی کی مہک،فلالین اور بھاپ ہوگی۔
ٹیکساس میںہمارے گھر میںہمارے پاس مقامی ٹی وی کمپنی کے لیے غلط نمبرآئے تھے۔لوگوں کو یقین ہوناتھا کہ میں ایک سیکریٹری ہوںجو ان سے بات نہیں کرناچاہتی۔وہ ایک ساتھ چار چاردفعہ فون کرتے،بالآخر میں ایک مستقبل مزاج صاحب سے کہتی’’جناب ہم آپ کے ٹی وی دیکھنے کے اوقات کی نگرانی کررہے ہیں اور افسوس کے ساتھ رپورت دیتے ہیں کہ آپ بہت ہی زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں آپ کو فی الھال کیبل سروس کے لیے غیر مستحق قراردیاگیا ہے، کوئی کتاب یاایسا کچھ پڑھنے کی کوشش کریں،اس نے دوبارہ فون نہیں کیا،قلانڈائک لائوغ کے لیے میں نے آخار کار بدبداکرکہا
’’چلے آئو…..بیئر ہماری طرف سے ہے‘‘
***
ایک آتش فشاں سے مذاکرات
ہم تمہیں’’ایگوا‘‘کہیںگے
جیسا کہ دریائوں اورٹھنڈے جگہوں کوکہاجاتا ہے
ہم بادلوں کو آمادہ کرلیںگے کہ وہ تمہاری گردن کے گرد ڈیرہ ڈالے رہیں
تاکہ تم دیر تک سوتے رہو
ہمیںخوشی ہوگی اگر تم ہمیشہ کے لیے سوجائو
ہم ان ڈھلانوں کی دیکھ بھال کریںگے
جہاں ہم نے فصل بوئی ہے
وہ گیت گاتے ہوئے
جو خوف کاورثہ ہمیںدینے سے پہلے
ہمارے بزرگوں نے ہمیںسکھائے تھے
ہم کوشش کریںگے آپس میں جھگڑا نہ کریں
جب بیوہ اضافی آٹے کا مطالبہ کرے گی
خدائے برتر کے دن پھیلی کاخود کی خوشبو کو یاد کرتے ہوئے ہم وہ مہیا کریںگے۔
برائے مہربانی ہمارے بارے میںسوچو جیسے ہم ہیں
منے منے جن کی کھال آسانی سے جل جاتی ہے
برائے مہربانی ذرا دیکھو کیسے ہم نے اپنے گھروں کے اطراف پودوں کو پانی دیا ہے
اورمرچوں کو ٹین کے ڈبوں میںمنتقل کیا ہے۔
معاف کردو وہ غصہ جو ہم زمین کے لیے محسوس کرتے ہیں
جب بارش نہیں ہوتی ،یابہت زیادہ ہوتی ہے اور ہماری مکئی کونگل جاتی ہے
اتنا تنہا تنہا ہوجانا اور تمہارے سائے میںزندگی گزارنا آسان نہیںہے
اکثر جب ہم رات کا کھانا کھارہے ہوتے ہیں
تم ایک چور کی طرح پہلے ہمارے ریڈیو کو پھر چرح کو چھوتے ہوےئے ہمارے کمروں سے گزرتے ہو
بعد میںہمارے خوابوں کے گرد کناروں پر آگ جل اٹھتی ہے۔
وہ کاغذ کی طرح جلتے ہیں
ہم ہاتھوں میںراکھ لیے بیدا ہوتے ہیں
ہم ایسے کیونکر زندگی گزارسکتے ہیں؟
ہمیںضرورت کہ ہم بیدار ہوں تو ہمارےطاق صحیح سلامت ہوں
ہمارے بچے رضائاں اوڑھے سورہے ہوں
ہمیں ضرورت ہے جھیلوں جیسے خوابوں کی
جن کی صحبتیں مچھلیوں کی طرح دبیز ہوں
ہم پرسایہ کرو جب ہم جال ڈالیں اور مچھلی پکڑیں لیکن بس اور کچھ نہیں،اورکچھ نہیں۔
***
سینا،بننا اور کروشیا کرنا
اس کی گود میں ایک چھوٹی سی چھاری دارآستین نیلی اورسفید
سوئیں احتیاط سے سوت کو ترپتی ہیں
دونوں طرف سے
وہ مجھے ان پرسکون چوڑے زاویوں والی عورتوں کی یاد دلاتی ہے
جن سے میںہجوموں میںرشتہ داری کرنے کی اداکاری کرتی تھی۔
برابرنشست میں
پیلا اون کا گولا
پھندے والی ٹوپی میںبدل رہاہے۔
وہ کرشیا کرنے کے لیے بہت کم عمر نظرآتی ہے۔
وہکروشیا کرنے کے لیے بہت کم عمر نظرآتی ہے
میںخوش ہوںتاریخ مکمل طور پر گم نہیں ہوئی
اس روپیلا کانٹا باوقار اندا زمیں نیچے جاتا ہے
اوریہ آخری بار کب ہوا
کہ تم نے کسی کو سب کے سامنے
ایک سرمئی لینن کی قمیض پر جب سیتے ہوئے دیکھا اس کے تانکے نظر نہیں آنے چاہئے
ایک مقصد انکشفانہ روشنی میں جگمگاتا ہے
مائوں کے دن
لاگارڈیا اور ڈیلس کے درمیان
برابر برابرنشستوں پر بیٹھی تین عورتیں جو ایک ساتھ نہیں ہیں
نازک کارروائیاں انجام دے رہی ہیں
معجزانہ طور پر وہ کبھی نہیں بولتیں
تین مختلف قسموں کی سوئیاں
تین قینچیاں
جہاز پر تمام دوسرے لوگ
’’دی ٹائمز‘‘کے ساتھ اونگھ رہے ہیں
جب پرواز کا خدمتگار
مفت شراب پیش کرتا ہے
آپ سوچیںگے کہ وہ سکون سے بیٹھیںگی
تھوڑی دیر بات چیت کریںگی
بتائیںگی کہ وہ یہ کس کے لیے بتا رہی ہیں
نمونوں کا تبادلہ کریںگی
ٹھیک ہے نا؟
مگر ایک گہری بیگانگی نے
دنیا پر حملہ کردیا ہے
وہ آنکھیں بند کیے چکیاں لیتی ہیں
اورکبھی نہیں کہتیں
’’حیرت انگیز‘‘
یا
’’ہمارادیکھو‘‘
یا
’’خدا کرے تیمارا دھاگہ کبھی نہ ٹوٹے‘‘
***
فلسطینی خو د کو گرم کیسے رکھتے ہیں
ایک لفظ منتخب کرو اور اسے ادا کرتے ہوئے بار بار یہاں تک کہ وہ تمہارے منہ میں اک آگ جلادے
’’ادھافیرا‘‘وہ جو ہاتھ بڑھاتا ہے
’’الفاظ‘‘تنہائی پسند
ہم جیسے لوگوں نے ہی ستاروں کے نام رکھے تھے
ہر رات وہ دنیائوں کے درمیان لمبے راستے پر قطار بناتے ہیں
وہ سرہلاتے ہیں ،پلکیں جھپکاتے ہیں
ان کی پیلی آنکھوں میںکچھ درست یا غلط نہیں ہوتا
’’دراہ‘‘ننھے گھر
اپنی دیواریں کھول دو اورہمیں اندر لے لو
میراکنواں خشک ہوگیا
میرے دادا کے انگوروں نے گیت گانا چھوڑدیے
میںکوئلوں کو ہلاتی ہوں
میر ے بچے روتے ہیں
میںانہیں کیسے سکھائوں گی
وہ ستارں کے باشندے ہیں
وہ سفید پتھر کے قلعے بنات ہیں اورکہتے ہیں
’’یہ میرا ہے‘‘
میں انہیں کیسے سکھائوں گی محبت کرنا
’’مزار سے نقاب لبادہ؟
یہ سمجھنا کہ اس کے پیچھے ایک قدیم شخص ایک شعلے کو ہوا دے رہاہے؟
وہ ہماری سانس کی سیاہ ہوا کو ہلاتا ہے
وہ کہتا ہے نقاب اٹھے گا
یہاں تک کہ وہ ہمیںچمکتا ہوا
شادآبادپہاڑ یوں پرچنگاریون کی ماندپھیلتا ہوا دیکھیںگے
غیر،یہ سب میںنے گھڑا ہے مجھے مزارکے بارے میں یقین نہیں ہے لیکن میںجانتی ہوں ہمیں اس زمین پ خود کو گرم رکھنے کی اور جب تمہاری شال اتنی پتلی ہوجتنی میری ہے
تم کہانیاں ہی سنائوگے۔
***
زرددستانہ
موٹرکاروں اورحکومتوں کی دنیامیںایک زرددستانہ کیا معنی رکھ سکتا ہے؟
مٰںچھوٹی سی تھی،ہر ایک کی طرح زندگی پیش بندیوں،احتیاطی تدابیر کی ایک زنجیر تھی، ذھن کرنے سے گہری مت چوسو،ٹافیوں کو مت چوسو،غبارے مت پھلائو،تربوز مت گرائو،ٹیلی ویژن مت دیکھو،جب ایک کرسمس پر نرم کاغذ میں لپٹے نئے دستانے میرے سامنے ظاہرہوئے،میں نے انہیں خود کو ہدایت دیتے سنا،زرددستانوںکو گم مت کرنا۔
میں چھوٹی سی تھی،یاد رکھنے کے لیے باتیں بہت زیادہ تھیں،ایک روز جب برف چٹختے رہی تھی ، موسم سرماڈھل رہاتھا،جلد ہی ہم کشتیاں چالنے والے تھے اورخندقوں میںلوئیں لگانے والے تھے،ایک ندی کو ہاتھ لہراتے ہوئے میں نے ایک دستانے کوکھوجانے دیا،ندی کی لہروں میں ، گلی کے نیچے لیکس جذب،گلیوں کے دہانے کب سے ہونے لگے ؟میںایک مایوس سڑک پر چلتی ہوئی گھرگئی۔دستانےپیسوں سے ملتے ہیں،ہمارےزیادہ نہیں ہیں،میں کسی کو نہیں بتائوں گی ، میںوہ بچا ہو ا ستانہ پہنوںگی اور دوسراہاتھ جیب کے اندررکھوںگی ،مجھے معلوم ہے میری ماں کی آنکھوں میں وہ آنسو جمع ہیں جو انہوںنے بہائے نہیں ہیں،میں وہ نہیں ہوناچاہتی جو ان کے بہہ جانے کا سبب بنے،یہ دعا تھی جو میں چپکے سے مانگتی تھی، موزے تہہ کرتے ہوئے ، گدھوں کوکگروں کے ساتھ قطارمیںکھڑا کرتے ہوئے،اچھا بنتا ایک وعدہ جو رات کو میری الماری کا معائنہ کرتے لال بیگوں سے کیاجاتا تھا، اگر تم رات کو میرے بستر میں نہ گھسو تو میںاچھی بنوںگی،اوروہ مان جاتے تھے، میرے پاس نبھانے کے لیے بہت وعدے تھے۔
ایک مشین سے نکلتی تو لیوں کی طرح مہینے لڑھکتے چلے گئے،میں نے گیت گائے ،تصویریں بنائیں اور بلی کو موٹا کردیا، جستجو مت چھوڑو،مت بولو،بے ایمانی مت کرو،جھگڑا مت کرو،یہ ہرجگہ سنا جا سکتا تھا،ایک سپی دکھا سکتا ہے کہ دیواروں کے بغیر کیسے سویاجائے،ایک ندی یاد رکھ سکتی ہے کہ کیسے کچھ بہالایاجائے اور بدلاجائے۔اگلے دن میں میںندی کو سوپ کی طرح ہلارہی تھی،اپنے بھائی سے کہتے ہوئے کہ رات کو کھانا جلد ہی تیار ہوجائے گا اگر وہ صرف روٹی جلدی سے بنالے ، جب میں نے اسے دیکھا،زرددستانہ ایک شاخ پر لٹکاہواتھا کیچڑ میںلتھڑا موت سے بچ نکلنے والا،ایک خاموشی پرچم،گزشتہ تین مہینوں سے یہ کہاںتھا، میں اسے دھوسکتی تھی،اس کی بہن کے ساتھ اسے اپنی سرماکی دراز میںقید کرسکتی تھی، اس دنیا میں کسی کو اس کی خبر بھی نہ ہو گی ، ہاروی اسٹریٹ پر معجزے ہوتے تھے بچے زرد روشنی میں گھر واپس آتے تھے،درخت دوبارہ زندہ ہوتے تھے اوردستانے دور دراز سفرکرتے تھے مگر لوٹ آتے تھے،ایک ہزارمیل بعد،چیک بکوں اوراسٹیریو کی دنیا میں ،ایک زرددستانہ کیا معنی رکھ سکتا ہے۔؟
یہ وہی فرق ہے جو سطح پر تیرنے اورتہہ میںچلے جانے کے درمیان ہے۔
***
جو نہیں بدلتا
روز یلو کہتی ہے واحد شے جو نہیں بدلتی
ریل کی پٹریاں ہیں،اسے اس بات کا یقین ہے
ریل بدل جاتی ہے،یاخود وہ پودے اس کے اطراف مکڑیوں کے جالوں جیسے ہوجاتے ہیں۔
لیکن پیڑیاں نہیں
میں ایک کوتین سال سے دیکھ رہی ہوں وہ کہتی ہے
اوریہ نہ مڑا،نہ ٹوٹا ہے نہ ہی بڑاہواہے
پیڑ کو اس بات کا یقین نہیں ہے
اس نے ایک ملک کو میں میں ۔۔۔؟۔۔۔ کے پاس ایک بے کار چھوڑی ہوئی پٹری دیکھی ہے۔
اورکہتا ہے کہ ری کے بغیر پٹری ایک بدلی ہوئی پٹڑی تھی۔
اس کی دھات چمکدار نہیں تھی،تختے ٹوغ گئے تھے اور چورغائب ہوگئے تھے۔
مورابیز سٹریٹ میںہرمنگل کو قصائی ایک سومرغیوںکی گردنیں توڑتے ہیں۔
ایک جانب جھکے گھر کی کھڑی
دار چینی میں بنے ان کے شوربے سے مہکتی ہے
اس سے پوچھو وہ کیا ہے جو نہیں بدلا
ستارے دھماکوں سے اڑ جاتے ہیں
گلاب چر مراجاتا ہے جیسے کہ اس کی پتیوں میں آگ ہو
بلی جو مجھے جانتی تھی جھاڑی کے نیچے دفن ہے
ریل کی سیٹی آج بھی
اپنی قدیم آواز میںماتم کرتی ہے
لیکن جب وہ چلی جاتی ہے ،ذہن کی دیواروں سے واپس سرکتی ہوئی ہربار کچھ مختلف ہوتا ہے جو وہ اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔
تعارف و ترجمہ: تنویر انجم