دکھ کی چٹھی
بے انتہا بے زبان دکھ
بے حد اکیلے سہنا پڑتا ہے
ہر دکھ خودکشی سے پہلے
چٹھی نہیں لکھ پاتا
کہنے سے دکھ نہیں مٹتا
محض اس کی لغت کے لفظ کم ہوجاتے ہیں
٠٠٠
پُکار
اتنی زور سے مت بولو
کہ بہت ساری آوازیں دب جائیں
بلکہ اتنی زور سے سنو
کہ بہت ساری چُپیاں بول اٹھیں
٠٠٠
کوی نہیں ہونا چاہتا
کویتا کے باہر کے شہری جب چپ ہوگئے تھے
تب کویتا کے بھیتر کے شہریوں نے بولنے کا انتخاب کیا
مجھے پتہ ہے کہ میری کویتا گولہ بارود نہیں بن پائے گی
نہ ظلم و ستم روکنے کا کوئی ہتھیار
کویتا اناج بھی نہیں ہے کہ بھوک مٹا پائے
نہ ہی وہ کوئی زندہ انسان ہے جو درد بانٹ سکے
مگر میں ایسی کوشش کرتے رہنا چاہتا ہوں
باہر کی دنیا سے جتنا اداس اور مجبور ہوتا ہوں
کویتا کی دنیا میں اس سے نکلنے کی اتنے ہی امکانات
تلاش کرتا رہتا ہوں ہر روز
سوچتا ہوں کبھی تیار کروں گا ایسی مکمل زبان
جس میں بے چینی کو محسوس کی گئی تیزی سمیت درج کرسکوں
جس دن سے مجھے پتہ چلا تم کویتائیں لکھتے ہو
میں تمہارے بولے ہوئے لفظوں سے زیادہ لکھے ہوئے الفاظ پر بھروسہ کرتا ہوں
ہمیشہ نویں مہینے کی کسی حاملہ عورت جیسا ہوتا ہے
کسی کوی کا چہرہ
من کے پیٹ کے باہر ہزاروں سٹریچ مارکس
تکلیفوں کی لمبی چوڑی داستان کہتے ہوئے
سنسار کا جھیلا ہوا دکھ اکیلے سہنے کے عمل میں
خود کو دھوکا دیتا ہوا زندگی کو فریب دیتا ہوا
دھکیلتا ہے خود کو انجان گہرائیوں میں
وہاں سے نکلنے کی چابی گم ہوجانے کے سکھ کے ساتھ
بڑھتا رہتا ہے قدم بقدم غیر مانوس کی جانب
وہ سبھی ڈکشنریاں زبان کی قبرگاہ ہیں
اس لیے میں نے اس شبد کا معنی وہاں کھوجنے کے بجائے
اس کے معنی کو محسوس کرنے کا انتظار کیا
جتنا جانا گیا ہوں
جانتا ہوں اتنا ہی اجنبی ہوتا جارہا ہوں
اس لیے خود کو تیار کررہا ہوں بڑی تنہائی کے لیے
جیسے اکیلی رہتی ہے کویتا
کویتا کی طرح زندگی کی قواعد کو
توڑ مروڑ دینا چاہتا ہوں
کرنا چاہتا ہوں پرانی کویتا کو پار
پچھلی زبان پر قبضہ
پرانے اسلوب کو سِرا دینا چاہتا ہوں
دکھ کی کویتا پڑھ کر دکھ نہیں مٹتا کوی کا
اس لیے کویتا میں دکھ ہوجانا چاہتا ہوں
ایک دکھ سے نکلنے کے عمل میں دوسرے میں جاگرتا ہوں
بڑے سنکٹ سے جوجھتے ہوئے کئی چھوٹے سنکٹوں میں پھنستا گیا ہوں
جیسے اس کا سبب بتانے کا سچ بیان کرنے کے بدلے میں اور جھوٹ بولنا
بے کاری کے دنوں کو کاٹنے کے لیے جیب میں جتنا ہاتھ گھسیڑے رکھنا تھا
وہاں اتنی ہی جیبیں ڈھیلی ہوئیں
کئی بار لگا کہ میرا آوارہ پن اتنا مہنگا ایماندار ہے
کہ اس کے بوجھ تلے کئی لوگوں کے خواب دبے جارہے ہیں
کئی امیدیں بے سہارا ہو رہی ہیں یا ہوں گی
نوکری کرنے کے لیے صحت بچانی تھی
میں نے بیماریاں بچائیں اور پالیں
جتنا ڈسپلن چاہیے تھا منظم ہونے کے لیے
اتنی ہی نراجیت چُنی بار بار گستاخی کے ساتھ
من ہلکا ہوسکے اس لیے خوب سٹیٹس لگاتا ہوں
تاکہ کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہ پڑے
کچھ دیر بعد جاکر ڈلیٹ کرآتا ہوں
اپنے کام کے آدمی اور سرکار کے معتقد کےسامنے
جی بھر کر اوٹ پٹانگ گالیاں بکتا ہوں
اور دن بھر کتنا کچھ کرنے کے بعد بھی
رات بھر خود کو بھیتر سے بھرا ہوا پاتا ہوں ہمیشہ
کئی بار لگتا ہے کہ میں کچھ نہیں کرپاتا
اس لیے کویتائیں لکھتا ہوں
کچھ نہیں بدل پاتا اس لیے سطریں بدلتا ہوں
کچھ نہیں سدھار سکتا
اس لیے مسودے سدھارتا رہتا ہوں
لکھنا چاہتا ہوںتب تک کویتا
جب تک پوری ختم نہ ہوجائے
کویتا کے اختتام تک نہیں
پوری طرح کویتا بن جانے تک
اپنی اتنی ساری کاواکیت کے درمیان
زندگی کو ایک آسان جملے میں لکھنا چاہتا ہوں
کچھ بول نہیں پاتا
اس لیے بس کویتا لکھتا ہوں
‘کہوں تو ہر کویتا میں جیسے سیکڑوں چپیاں سنائی پڑتی ہیں
جو چپب ہوجاؤں تو لگتا ہے کہ جیسے کوئی کویتا خاموش کرگئی ہے
چلوں تو جیسے اصولوں کو توڑتے ہوئے کوئی کویتا چلتی ہے
رکوں تو جیسے کویتا میں کہیں من ٹھہر جاتا ہے
مڑوں تو جیسے پہلے کسی پرانی کویتا کی مذبذب یاد مڑجائے
ہنسوں تو کھلکھلا اٹھے کوئی ان گڑھ کویتا
روؤں تو کلپ جاتا ہے جیسے کویتا کا ایک ایک شبد
سوچوں تو جیسے کویتا کی دنیا میں بھٹکتا پھرتا ہوں
اور بھولوں تو جیسے کویتا کی کوئی اہم سطر فراموش ہوگئی ہو
مٹوں تو جیسے محض کویتا کی کوئی نقل مٹتی ہے
ملوں تو جیسے برسوں کی آوارہ کوئی کویتا مل جائے
سہموں تو جیسے کویتا میں سہمی ہو تمام دنیا
کھُلوں تو جیسے کئی ابواب کے مختلف معانی کھلتے ہیں
جیوں تو ایک سچی کویتا کی زندگی جیوں
ورنہ مرجاؤں کسی کویتا کی خواہش میں
بچوں تو جیسے بیانیوں میں کوئی کویتا بچ جائے’
نکلوں تو ایسے ہی نکل جانا چاہتا ہوں جیسے
کسی بےحس کے پاس سے کویتا نکل جاتی ہے
جیون کی کویتا اور
کویتا کا جیون جینا چاہتا ہوں اب
کوی نہیں ہونا چاہتا ہوں میں، کویتا ہوجانا چاہتا ہوں اب
٠٠٠
بیک اپ
یادیں تمہارے پریم کے معاوضے کے طور پر ملیں
جو تمہارے ہونے کا بھرم بنائے رکھتی ہیں ہمیشہ
بانٹ لیتا ہوں تمہاری غیر موجودگی تمام سوشل سائٹس سے
ہر سکرول میں دکھ جاتا ہے ہمارا ساتھ بکھرا ہوا رِیل بہ رِیل
موبائل کے کی پیڈ پہچانتے ہیں تمہارا نام
ایک حرف ٹائپ ہوتے ہی پہنچادیتے ہیں مکالمے کے آخری لفظ تک
جسے یہ صدی کہتی ہے آٹو سجیشن
وہ تمہاری یادوں کی مشینی سازش ہے
یاد رہتی ہو تم
ان ان گنت پاسورڈوں کی طرح
جنہیں بدلنے کی کوشش میں
گزرنا ہوگا مجھے
تمہارے ساتھ گزاری ہوئی سب تاریخوں سے
صبح صبح اپنا پہلا چہرہ شیشے میں دیکھتے ہی
جیسے آن ہوجاتا ہو کوئی ویڈیو کال
ان چھوئے لمس کی کچوٹ سے بھر جاتا ہے پورا ماحول
من کی سکرین گیلری میں تمہاری کتنی ہی تصویریں محفوظ رہیں
جن کے پاس نہیں ہے آپشن شِفٹ پلس ڈلیٹ کا
پریم یادوں کا بیک اپ ہے
کبھی جو کرپٹ ہوا کوئی حصہ
تو ایک سِرا چھوتے ہی کھُل جاتی ہے پوری کہانی
٠٠٠
چرواہے کی بھاشا
آہٹ پاکر سہم کر اٹھ جاتیں ہیں
اس کی موجودگی کےبھروسے میں جھپکا لیتی ہیں پلکیں
پیروں کو قدم تال کی لے پہنچانتی ہے
سنتی ہیں اس کی ہر آواز
جانتی ہیں سبھی اشاروں کو
چرواہے کی بھاشا بوجھتی ہیں بھیڑ بکریاں
میں میں سے صبح کرتی ہیں
باڑے سے کھلتے ہی پھولوں کی طرح بکھر جاتیں ہیں
بسنت کی طرح چھاجاتی ہیں گھاس کے میدان میں
اوس سے سنی گھانس بس اوپر سے ہی کھاتی ہیں
امرت سا دودھ دیتی ہیں
اور چرواہے کی مجبوری میں گوشت کے بدلے
پیسوں میں قیمت بھی ادا کرتی ہیں وفاداری کی
اپنی بال کی کھال میں
نہ جانے کتنی حدت چھپائے ہوتی ہیں
چمڑے میں بہت ساری نرمیاں اور دودھ سا میٹھا خون
گھات لگائے بھیڑیا دیکھتا ہے دور سے
سمجھتا ہے چرواہے اور مویشیوں کے درمیان کی دوری کو
ان منی نیند میں ہر تھِرکن ، ہر کنمناہٹ
بھانپ لیتا ہے چرواہا
ایک بھی میمنا لے نہیں جانے دے گا اب کی بار
ہانکنے والی لاٹھی بھانجنے کو رکھتا ہے تیار
یہ بات جانتی ہیں بے فکر گھانس چررہی بھیڑ بکریاں
٠٠٠
کیتن یادو 18 جون 2002 کی پیدائش ہیں۔ انہوں نے 2020 میں بی کام اور 2022 میں ہندی سے ایم اے کیا ہے۔ فی الحال الہ آباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ان کی نظمیں ہندی کی تمام اہم پتریکاؤں یعنی رسالوں جیسے ‘سمالوچن’،’تدبھو’، ‘سمکالین جن مت’،’سماورتن’ اور ‘ونمالی’ وغیرہ میں شائع ہوچکی ہیں۔اردو میں ان کی نظموں کے تراجم کا یہ غالباً پہلا موقع ہے۔
کیتن یادو اپنے لہجے میں ایک بجھی بجھی سی دھار رکھتے ہیں۔زبان کی بندھی ٹکی قواعد سے پرے انہوں نے اپنی نظموں کے لیے ایسے اسلوب کا انتخاب کیا ہے جو بقول ان کے ایک قسم کی ‘کاواکیت’ سے علاقہ رکھتا ہے۔لیکن بے حد پرمعنی اور ہندوستانی سماج میں جاتی واد کے بخشے گئے عذابوں کو اجاگر کرنے والی یہ نظمیں پڑھنے والے کے ذہن پر ایک گہرا تاثر چھوڑنے کی طاقت رکھتی ہیں۔کیتن جدید دور میں شناخت کے مباحث کے ساتھ ساتھ محبت اور شخصیت سازی کے آڑے آنے والی لجلجی سیاست کو بھی کو اپنی نظموں کا موضوع بناتے ہیں۔ان کا سنگھرش ایک شاعر اور ذی حس انسان کے باطن میں پنپنے والے اضطراب کو جس خوبی سے دکھاتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہایت کم عمری میں انہوں نے کویتا کی تھاہ کے ساتھ ساتھ بیمار سماج کو جاننے والی نگاہ کو بھی پوری طرح پالیا ہے۔امید ہے کہ آپ کو بھی یہ نظمیں پسند آئیں گی۔شکریہ