مطالعۂ ایڈیٹ: کیوں اور کیسے

مئی ۲۰۰۳ میں روسی ٹیلیوژن ’روسیا‘ نے دوستووسکی کے ۱۸۶۸ کے ناول ’ایڈیٹ‘ کی سلسلہ وار ڈرامائی تشکیل نشر کی۔ یہ سلسلہ نہایت مقبول ہوا اور پورے روس میں پزیرائی کے اونچے ترین درجے پر رہا۔اس پروگرام نے جہاں کچھ ناظرین کومسحور کر کے رکھ دیا وہاں کئی الجھن میں بھی مبتلا ہوئے،لیکن پسندیدگی اور ناپسندیدگی سے قطع نظر یوں معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً ہر کسی نے اسےدیکھا ضرور۔پروگرام کے ہفتوں بعد تک ڈنر پارٹیوں پر اس موضوع پرہونے والی گفتگو اکثر تلخ مباحثوں میں تبدیل ہوتی دیکھی گئی کہ آیا ہدایت کارولادمیر بورٹکو، دوستووسکی کے اصل متن کو پردۂ سکرین پر پوری طرح پیش کر پایا کہ نہیں۔ کتابوں کی دکانوں نے ناول کو سامنے سجانا شروع کر دیا اور پورے ہی روس میں کافی بِکری ہوئی۔

انیسویں صدی کے کسی ناول کی ٹیلی وژن پیشکش کا ایسے شدید اور دوررس ردعمل کو دعوت دینا کافی غیرمعمولی بات تھی خاص طور پر اس لئے کہ زیرِ بحث ناول ایڈیٹ تھا جو کہ دوستووسکی کے سب سے زیادہ قابلِ رسائی کاموں میں شمار نہیں ہوتا۔لیکن سوویت یونین کے بعد کی روسی حقیقت کے سیاق و سباق میں ایڈیٹ پر سامنے آنے والا ردعمل کافی حد تک قابلِ فہم ہے۔ درحقیقت امکان یہی ہے کہ کسی اور روسی کلاسیک مثال کے طور پر ’نئی پود‘ یا ’جنگ اور امن‘ کو اس قسم کی کامیابی متوقع نہ تھی۔ یہ ایڈیٹ ہی کا استحقاق تھا کیوں کہ وہ ایک مخصوص کاٹ سے کچھ ایسے کربناک سوالات اٹھا رہا تھا جو انیسویں صدی کے وسط میں روسی سماج سے متعلق تھے اور آج کے روس میں ایک بار پھر زندہ رہے ہیں۔

شرف و احترام کی پرت کے نیچے ایڈیٹ میں دکھائے گئے سماجی ڈھانچے کی حالت ابتر ہے۔ ظلم اور منافقت کی بہتات ہے۔ کم و بیش ۶۰۰ صفحات میں ایک بھی مکمل طور پر فعال اور سالم خاندان نظر نہیں آتا۔ کئی کردار آنے والی قیامت یا یقینی تباہی کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ دنیا پر سرمائے کی حکومت ہے، لوگوں کی تعریف ان کے پاس دولت ہونے یا نہ ہونے کی بنیادوں پر ہوتی نظر آتی ہے۔ کبھی کبھار یہ دولت ایک قسم کا تشدد بن جاتی ہے—لوگوں کی خرید و فروخت اس طرح ہوتی ہے جیسے ان کا اپنے وجود اور احساسات پر کوئی اختیار نہ ہو۔ صریحاً برے کردار بہت ہی کم ہیں لیکن اکثر و بیشتر کردار انسانی خودغرضی کواپنی شریف النفس جبلتوں کا گلا گھونٹنے کی اجازت دیتے نظر آتے ہیں۔ سماجی نظامِ مراتب کافی طاقتور اور کھلے طور پر غیرمنصفانہ ہے: توتسکی جیسا اوباش سماج میں اونچے درجے پر ہے جب کے اس کی شکار نستاسیا فلپوونا بے خانماں نظر آتی ہے۔شرافت اور دیانتداری کے پرانے معیارات غائب ہو چکے ہیں اور نئے معیارات سرے سے غیر واضح ہیں۔ جیسا کہ نشے میں دھت لیبدیف ایک طربیہ لیکن گہرائی لئے ہوئے سین میں کہتا ہے:’’ شاید پچھلی چند صدیوں کا عمومی رجحان یعنی سائنس اور مادیت پسندی کی بنیادوں پر اٹھایا گیا یہ مکمل خاکہ ہی مردود ہے۔‘‘

دوستووسکی روس کو ایک عارضی دور سے گزرتے دیکھ رہا ہے جب وہ پرانا سماجی خول اتار کر پھینک چکا ہے اور ابھی تک نئے کی تلاش میں ہے۔ایڈیٹ کے ابتدائی ابواب ۱۸۶۸ میں چھپے تو جاگیرانہ نظام میں اصطلاحات کے نتیجے میں غلامی کے ادارے کو ختم ہوئے سات سال ہوئے تھے جس کے روایتی روسی سماج پر گہرے اثرات تھے۔دوستووسکی زندگی بھر غلامی کی مخالفت کرتا آیا تھا کیوں کہ اس کے نزدیک دوسرے انسانوں کی ملکیت اپنی بنیادوں میں ایک ایسا ظلم تھا جو خدا کے خلاف تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ دوستووسکی کو ایک خفیہ سیاسی بیٹھک میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف محض ایک خط پڑھنے کی پاداش میں ۱۸۵۰ سے ۱۸۵۴ تک سزائے مشقت دی گئی۔لیکن زار نکولائی اول کی وفات اور ایک لبرل حکمران الیگزینڈر دوم کے حکومت سنبھالتے ہی اصلاحات کا دور شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں ۱۸۶۱ میں غلامی کا ادارہ ختم کر دیا گیا۔دس سال پہلے جس تصور کے نتیجے میں دوستووسکی کو قید کیا گیا تھا وہ اب سلطنت کا قانون بن چکاتھا۔پرانے جاگیردارانہ نظام کا سماجی ڈھانچہ مخدوش ہو چکا تھا— اس کی جگہ کس نے لینی تھی؟

جہاں دوستووسکی روایتی غلامی کے ختم ہونے پر خوش تھا وہاں اسے اس نئی غلامی کی پریشانی لاحق تھی جو اب جاگیردارانہ نظام سے منسلک اس روایتی غلامی کی جگہ لینے والی تھی۔ بے روک ٹوک سرمایہ دارانہ نظام دوستووسکی کے کام میں باربار آنے والا موضوع ہے اور ایڈیٹ’ روبل‘ کی قوت کے بارے میں پرجوش واقعات سے بھری پڑی ہے۔روپے پیسے کے ڈھیر امید اور نجات کی علامت نظر آتے ہیں لیکن اکثر صرف ذلت اور تباہی لاتے ہیں۔

دوستووسکی خاص طور پر انتہا پسندی کی ایک نئی قسم سے بھی تنگ اور مایوس تھا جسے اکثر فنائیت پسندی یا انکارِ کل کہا جاتا ہے۔ فنائیت پسند جنہیں ۱۸۶۰ کی دہائی میں ثقافتی شہرت حاصل ہوئی کم از کم نظریاتی حد تک زارِ روس کی استبدادی حکومت کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔تاہم عملی طور پر وہ اس مقصد میں دلچسپی رکھتے تھے کہ روایتی سماجی اداروں کو رد کر کے نئے سماج کی تشکیل کرنا چاہتے تھے۔فنائیت پسند خاص طور پر عقلی انانیت پسند ی کے فلسفے کے لئے مشہور تھے جو نکولائی چرنیشیوسکی نامی ادیب اور صحافی نے ۱۸۶۳ میں اپنے ناول What is to be done? میں پیش کیا تھا۔عقلی انانیت پسندی کے مطابق زندگی گزارنے والے اصولی طور پر صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ چرنیشیوسکی ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم اپنے ہر فعل کی تہہ میں موجود انانیت پسندی کو پہچان لیں اور بے دریغ اس کے مطابق عمل کریں تو معاشرہ بہتر ہو جائے گا۔ دوستووسکی اس کو ایک ہیبت ناک تصور کے طور پر دیکھتا ہے جو اس کی نظر میں ہر قسم کے شاطر رجحانات کو ممکنہ عقلی بنیادیں فراہم کرے گا۔ خاص طور پر الحاد اس کے لئے طیش کا باعث تھا جو فنائیت پسندی کی ایک عالمگیر قدر ہے ۔دوستووسکی نے محسوس کیا کہ خدا کے انکار سے یہ انتہاپسند ایک ہلاکت خیز اخلاقی افراتفری کا انتخاب کر رہے ہیں۔ ایڈیٹ میں فنائیت پسندوں کے ایسے متعدد خاکے ہیں جن میں سب سے موزوں ایپولت کا کردار ہے جو تپ دق میں مبتلا ایک ایسا نوجوان ہے جو ہر لمحہ اس خوف سے برسرِ پیکار ہے کہ اس کےسر پر منڈلاتی موت کے سامنے زندگی بے معنی ہے۔

مختصراًخاکہ کھینچا جائے تو ایڈیٹ کے ذریعے دکھایاجانے والا روسی سماج بکھر رہا ہے۔ معطل ہوئے ظالم جاگیردارانہ نظام سے سنبھلتا ہوا سماج اب تک درست سمت کا تعین نہیں کر سکا اور حد درجہ بھٹکنے بلکہ پوری طرح زمین بوس ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ لہٰذا اکیسویں صدی کےروس میں ایڈیٹ کی اس حد تک زوردار گونج بہت معقول معلوم ہوتی ہے۔اب جب کہ سوویت دور ختم ہو چکا ہے روسی سماج کا مستقبل اب تک مکمل طور پر واضح نہیں۔ایک طرف تو لامتناہی دائرۂ امکان سامنے ہونے کا احساس موجود ہے۔ دوسری طرف ایک مشترکہ خوف بھی موجود ہے کہ پرانے ڈھانچے کی جگہ کہیں ایک اور اتنا ہی استحصالی ڈھانچہ نہ آ جائے۔ بالکل دوستووسکی کے زمانے کی طرح ایک بار پھر کم دولت والے طبقات ایک ہیبت ناک عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سماجی اور معاشی قوتوں کے سامنے ایک بے چارگی کا احساس ہی شاید یہ وجہ ہے کہ روسیوں کی ایک کثیر تعداد ایڈیٹ کو موجودہ روس کے لئے ایک اہم ناول مانتی ہے۔

لیکن کیا یہ مسائل صرف روس کے ہیں؟ دوستووسکی اپنے آپ کو ایک خالص روسی ادیب مانتا تھا جو اپنی تمام تر ذہنی صلاحتیں بروئے کار لا کر ارد گرد نظر آنے والے مصائب کے بیان اور ان سے مقابلے میں مصروف تھا۔لیکن وہ روس کوایک عالمگیر تناظر میں بھی دیکھتا تھا۔ دوستووسکی کا خیال تھا کہ اپنے سماجی اور روحانی مسائل کے حل کے ساتھ ہی روسی پوری دنیا کو ایک راہِ نجات دکھا سکتے ہیں۔جہاں دوستووسکی کے اٹھائے گئے کچھ مسائل انیسویں صدی کے روس کے ساتھ خاص ہیں وہیں ان میں ایسے مسائل کی اکثریت ہے جو آج ہم سب کو درپیش ہیں۔یہ حقیقت ایڈیٹ کو واقعی ہمارے زمانے کا ایک ناول بناتی ہے۔

ولادمیر نابوکوف جو خود بھی ایک ادیب اور روسی ادب کا ماہر تھا دوستووسکی کی تحریروں کا سخت نقاد تھا۔ نابوکوف کا دعوی تھا کہ دوستووسکی کی اوقات کسی اجرتی ادیب جتنی ہے جسے ادبی فن کا قطعاً علم نہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ’’ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دوستووسکی بنیادی طور پر تجسس سے بھرپور کہانیوں کا ادیب ہے جہاں ہر کردار قاری کو اپنا تعارف کروانے کے بعد اپنی تمام خصوصیات و میلانات کے ساتھ آخر تک ویسا ہی رہتا ہے اور ان سب کے ساتھ پوری کتاب میں وہی سلوک کیا جاتا ہے جو شطرنج کے کسی پیچیدہ کھیل میں مہروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ایک دِقّت طلب کہانی کار ہوتے ہوئے دوستووسکی ایک قاری کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے، وہ کہانی کو بتدریج نقطۂ عروج تک لے جاتا ہے اور تجسس کو اپنی انتہا تک پہنچاتا ہے۔ لیکن اگر آپ اس کی کسی کتاب کو دوبارہ پڑھیں تو فوراً آپ پر یہ کھلے گا کہ پہلی قرأت والا تجسس سرے سے غائب ہو چکا ہے۔‘‘ لیکن نابوکوف کی تنقید درحقیقت کافی حد تک غلط ہے اور اس کی غلطی کی گہرائی ہی ہمیں یہ سوچنے میں مدد فراہم کرتی ہے کہ ایڈیٹ کے مطالعے اور فہم کے لئے کیا راہ اختیار کی جائے۔

یہ سچ ہے کہ دوستووسکی اپنے قارئین کو محظوظ کرنا چاہتا ہے چاہے صرف اسی لئے کہ وہ اس کا تخلیق کیا گیا ادب پڑھیں اور اس کے نظریات کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں۔ایڈیٹ ہمارے سامنے بکثرت فضیحت اور تشدد پیش کرتی ہے:پاگل پن ، مرگی کے دورے، خنجر اور کوڑوں سے حملے،خود کشی، آدم خوری سے جڑی اخلاقی پیچیدگیوں کے بارے میں ایک بحث اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔کہانی میں موجود پُرجوش لمحات لطف اٹھانے کے لئے ہیں اور ہمیں قارئین کے طور پر ان سے مسرت حاصل کرنی چاہئے۔ لیکن ایڈیٹ نہ تو کوئی احساس بھرا ناول ہے اور نہ ہی کوئی رومانوی یا سراغ رسانہ کہانی، حالانکہ کبھی کبھار یہ تینوں قسم کے حکایتی نمونے پیش کرتا ہے۔

اس کے برعکس وہ جو صرف کہانی کے پلاٹ کے لئے اسے پڑھیں گے شاید اپنے آپ کو مایوس ہی پائیں گے۔اپنی تمام تر حدت و خنکی کے ساتھ ساتھ ایڈیٹ بہرحال کرداروں اور تصورات کا ایک ناول ہے۔کہانی میں موڑ لانے کا تصور جیسا کہ نابوکوف اس عمل کو بیان کرتا ہے، ایک سلسلہ وار خطی کہانی کی طرف نشاندہی کرتا ہے جو کبھی کبھار قاری کی توقعات کے برعکس جانے کے باوجود کئی دوسری جہات میں قاری کی ذہنی کیفیت سے مطابقت رکھتی ہے۔لیکن یہی خطی کہانی جو ہمیں جدید ادب سے متوقع ہے ایڈیٹ میں موجود نہیں۔کسی بھی ناول کی کہانی کا خاکہ تصورات برتنے کے مقابلے میں ضمنی چیز ہے۔ لہٰذا قارئین کو اپنی توجہ ناول کے تصوراتی بہاؤ پر مرکوز رکھنی چاہئے یعنی وہ کیسے تبدیلی سے گزرتے ہیں اور مختلف کرداروں کے ہاتھوں کیسے ان کی نئی جہتیں برآمد ہوتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں پلاٹ میں موجود موڑ تلاش کرنے کی کی بجائے تصورات میں موجود تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

ایڈیٹ میں سب سے اہم تصور یسوع مسیح اور جدید دنیا میں اس کے مفہوم کا ہے۔دوسرے اتنے ہی اہم تصورات مثلاًعشق، تصورِ زماں اور موت ناول میں عیسائیت کے تصور کے گرد موجود بحث سے ہی منسلک ہیں۔لہٰذا عیسائیت کے بنیادی عقائد، خاص طور پر قدامت پرست روسی کلیسا کے تھوڑے بہت اصول و مبادی جانے بغیر، ایڈیٹ کی تفہیم مشکل ہے۔

شہزادہ مشکن جسے دوستووسکی ایک ’کامل حسین آدمی‘ کہتا ہے کئی طور سے خود حضرتِ مسیح کا ہی عکس ہے خاص طور پر حضرتِ مسیح کا وہ تصور جو قدامت پسند روسی روایت میں موجود ہے۔ روسی کلیسا کی روایت میں مسیحی شخصیت کی ایک اہم جہت kenosis کا تصور ہے،یعنی ایک یونانی لفظ جس کے معنی ’خالی کر دینے‘ کے ہیں۔ یہ اصطلاح عام طور پرحضرتِ مسیح کے خود کو عاجزی سے ایک انسان کے طور پر پیش کر دینے اور موت کو برداشت کرنے کے ہیں۔ سینٹ پال اپنے متبعین کو حضرتِ مسیح کے نقشِ قدم پر چلنے کی نصیحت کرتے ہیں، ’’جس نے خدا کی شکل میں ہونے کے باوجود خدا سے برابری کو کسی مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو خالی کر تے ہوئے ایک غلام کی شکل اختیار کی اور انسان کی مثل وجود اختیار کیا۔انسان کی شکل میں پائے جانے کے بعد اس نے اپنی اسی راہِ عجز پر سفر کرتے ہوئے موت تک کو وفاداری سے اختیار کیا، یہاں تک کہ سولی کے ذریعے موت۔ ‘‘(نامہ بہ فلیپیان ۲: ۶۔۸) مسیح کا ایک کمزور اور عاجز تصور روسی مذہبی عقیدے کا مرکزی جزو ہے۔مشکن خود بھی ایسی ہی عاجزی کا مظہر ہے۔وہ اپنی زندگی میں آنے والے ہر شخص کے ساتھ ہم احسا سی یعنی جذبۂ ہمدردی کی ایک غیرمعمولی قابلیت ظاہر کرتا ہے۔وہ عیسائیت کے عالمگیر محبت کے آدرش کے قریب محسوس ہوتا ہے۔نستاسیا فلپوونا کے لئے مشکن کی محبت اسی زمرے میں آتی ہے۔جیسا کہ وہ خود ذکر کرتا ہے نتاکسیا کے لئے اس کا بنیادی جذبہ ہمدردی کا ہے۔اس کی تباہ حال، مصیبت زدہ روح کی خاطر وہ اس سے محبت کرتا ہے، اس کی محبت کی وجہ نستاسیا کی تکالیف ہیں۔عہد نامۂ جدید میں ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں حضرتِ مسیح سماج میں بے عصمت مانی جانے والی عورتوں کو اپنی نیکیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنے والے خدائی فوجداروں سے بچاتے ہیں۔ نستاسیا فلپوونا سے محبت کے ذریعے مشکن اپنے آپ کو زمین پر مسیحا ثابت کررہا ہے۔

لیکن مشکن کوئی خدائی وجود نہیں رکھتا ، وہ بہرحال ایک انسان ہی ہے اور باقی انسانوں کی طرح اس کی بھی انسانی تمنائیں ہیں۔اگلایا کے لئے اس کی محبت اس دردمندانہ محبت سے کافی مختلف ہے جو وہ نستاسیا سے کرتا ہے۔کیسے ممکن ہے کہ وہ انفرادی، رومانی محبت جو وہ اگلایا کے لئےاپنے دل میں پاتا ہے اس عالمگیرمحبت کے ساتھ بیک وقت موجود ہو جو وہ پوری دنیا اور بالخصوص مجروح و مضروب نستاسیا فلپوونا سے کرتا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ عیسائیت کا تصور ِعشق اور رومانوی جذبۂ محبت ایک دوسرے سے متضاد ہوں؟

دوستووسکی نےایڈیٹ سے کچھ سال قبل ۱۸۶۴ میں اپنی بیوی ماریا کی موت کے بعد اپنے ذاتی تناظر میں ان سوالوں پر غور وفکر کیا تھا۔کمرے میں اپنی بیوی کی میت کے سرہانے بیٹھے رشتۂ ازدواج کو حیاتِ بعد الموت کے پس منظر میں رکھ کر اس نے اپنی ڈائری میں کچھ خیال آرائی کی تھی۔اس نے لکھا کہ حضرتِ مسیح کی ذات مجسم عشق ہے اور انسانیت کے لئے یہ تصورِ عشق ایک نمونۂ حیات۔ دوستووسکی لکھتا ہے کہ ذات کا ارفع ترین مقصد ’’ اپنی انانیت کو اس طرح ختم کر دینا ہے کہ جیسے اسے کسی بھی تفریق سے بالاتر،تمام انسانیت کے قدموں میں کسی بھی بدلے کی خواہش کے بغیر لا گرایا جائے۔ یہ مسرت کی انتہا ہے۔ ‘‘ اگر ایسی عالمگیر محبت ہی زمین پر انسانیت کا مقصد ہے تو پھر شادی بیاہ اور خاندانی زندگی یقینا خود غرضی سمجھی جائے کیوں کہ یہ لازم آئے گا کہ پوری دنیا کی بجائے اپنی محبت کا مرکز کچھ لوگوں کو بنایا جائے۔ دوستووسکی مزید لکھتا ہے کہ ’’خاندان زمین پر انسانیت کے لئے مقدس ترین شے ہے[۔۔۔] لیکن اس کے ساتھ انسانیت کو اس قانونِ فطرت کی اتباع کرتے ہوئے اپنے حتمی مقصد سے منہ موڑنا پڑے گا۔ ‘‘ چونکہ لوگ اب تک خالص مسیحی جذبۂ عشق کے قابل نہیں لہٰذا انہیں اپنی محبتوں کو اپنے خاندانوں پر نچھاور کر دینا چاہئے۔ دوستووسکی کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ تضاد اس دنیا میں دور نہیں ہو سکتا۔ زمین پر سب کے لئے محبت حضرتِ مسیح کے نزول ِ ثانی اور الہامی پیشنچ گوئی کے مطابق خدا کی سلطنت کے ظہور تک ناممکن ہے۔ایڈیٹ ایک ایسے جذبۂ عشق کو سماجی اور عملی دونوں صورتوں میں وقت سے پہلے بروئے کار لانے کی کوششوں کا ایک سوانحی خاکہ ہے۔

شاہزادہ مشکن سماجی حفظِ مراتب اور رواجوں کے دباؤ میں آ کر سمجھوتے کرنے سے قاصر ہے۔زیادہ تر تو وہ یہ رواج سمجھتا ہی نہیں جس پر اسے اکثر احمق کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن گھامڑ پن فی نفسہٖ تو ہمیشہ کوئی ایسی بری خاصیت نہیں خاص طور پر روسی مذہبی روایت میں۔روسی کلیسا میں ’مقدس احمق‘ کی ایک مضبوط روایت موجود ہے جس کا ماخذ سینٹ پال کا کورنتھیوں کو لکھا مکتوب ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ ،’’ہم مسیح کی راہ میں احمق ہیں جب کہ تم مسیح کی دانش میں حصہ دار ہو۔‘‘ روسی کلیسا میں کچھ بہت زیادہ چاہے جانے والے مسیحی درویش ’’مسیح کی راہ میں احمق‘‘ کہلائے گئےہیں۔مقدس احمق جسمانی لذتوں کو حقیر گردانتے تھے، ان میں سے اکثر جاڑوں میں ننگے پاؤں رہتے، اور اکثر اوقات ان کے طور طریقے غیرمعقول اور مہمل ہوتے۔ انیسویں صدی کے روس میں کچھ لوگ مقدس احمقوں کے طور پر زندگی بسر کرتے ، صدقہ خیرات میں ملنے والی خوراک پر گزارا کرتے اور گلیوں میں ہی پڑے سو رہتے۔ ان میں سے بہت سوں کو شاید آج پاگل کہہ دیا جائے۔لیکن روسی کلیسا نے ان مقدس احمقوں کو اپنی زندگیاں خدا کے لئے وقف کر دینے اور مسیح کی کسی بھی عملی مفاد اور عقل سے بالاتر محبت میں سرشار رہنےکے باعث بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

ناول کے عنوان میں موجود’’ احمق‘‘ یعنی شاہزادہ مشکن کسی بھی روایتی مقدس احمق سے زیادہ با عقل ہونے کےباوجود اس روایت کی کچھ نمائندہ خاصیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے مثال کے طور پر دولت کی مکمل تحقیر، سماجی نظامِ مراتب میں عدم دلچسپی ، ہمیشہ خالص حق گوئی کی عادت وغیرہ۔ لیکن جہاں وہ سماجی رسم و رواج کے انکار پر مائل ہے وہیں وہ کسی مقدس احمق کے برعکس سماج کا حصہ بننے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا ناول کا ایک مرکزی دھارا ایک ایسی دنیا میں عالمگیر محبت کی کارفرمائیوں یا ناکامیوں کا احاطہ ہے جو سماجی نظامِ مراتب اور رواجوں سے پوری طرح منسلک ہے۔

ایک اور مسئلہ جو مشکن اور دوسرے کرداروں کو درپیش ہے موت کی حقیقت کا سامنا ہے۔موت کا اٹل پن کیسے زمین پر ہماری زندگیوں کو متاثر کرتا ہے؟ کیا زندگی کی متناہیت کا واقعہ اسے بے معنی بنا دیتا ہے؟ یا اس وجہ سے یہ پہلے سے بھی زیادہ قیمتی ٹھہرتی ہے؟ظاہر ہے عیسائی روایت میں ان سوالوں سے متعلق اہم مضمرات بھی موجود ہیں۔عہد نامۂ جدید کے مطابق حضرتِ مسیح کو موت کے بعد دوبارہ اٹھایا گیا اور وہ مومنین کو ابدی زندگی کی پیش کش کرتے ہیں ۔عیسائی تناظر میں دنیوی زندگی صرف ہستی کا ایک درجہ ہے ، قبل اس کے کہ انسان کو ایک اور ارفع تراقلیم ِ حیات میں منتقل کر دیا جائے۔ایڈیٹ میں بہت سے کردار عیسائیت کے اس مرکزی عقیدے پر سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔رگوزین اور ایپولت دونوں مصور ہابلین کی ۱۵۲۱ کی پینٹنگ ’مسیح اپنے مقبرے میں‘کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرتِ مسیح موت کےبعد زندہ نہیں ہوئے۔ناول کے سیاق میں اس تصور کے دہشت ناک مضمرات ہیں:اگر یہ کردار حق پر ہیں تو نظریۂ عیسائیت کی پوری عمارت ہی دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے اور ابدی ہلاکت ناگزیر ہے۔

موت، عشق اور زمان کے تصورات عصرِ آخر کے الہامی مباحث میں ایک دوسرے سے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔جیسا کے عہد نامۂ جدید کے’ کشف یوحنا‘ میں ماقبل قیامت حضرتِ مسیح کے ظہورِ ثانی اور انسانی دنیا کے خاتمے کا ذکر ہے۔ناول میں ’اختتامِ زمان‘ کے کیا معنی ہیں؟ کیا زمانے کے ختم ہونے کے معنی دنیا کی ہر شے کی مکمل ہلاکت اور تباہی کے ہیں؟یا اس کے معنی زمانی حقیقت کے مخرب پنجوں کی پہنچ سے دور ایک نئی اور مزید کامل دنیا کے آغاز کے ہیں؟

یہ کہنا کہ دوستووسکی کے ذہن میں ان سوالوں اور ان جیسے کئی دوسرے سوالوں کے جواب نہیں تھے چور راستے سے فرار والی بات ہو گی۔دوستووسکی پختہ مذہبی، سماجی اور سیاسی عقائد رکھتا تھا اور ان کا اظہار کبھی اپنے فکشن میں کرنے سے نہیں جھجکا۔ لیکن بحیثیت ایک ادیب، دوستووسکی کے بارے میں ایک بے حد اچھی بات یہ ہے کہ اس سے غیرمتفق ہونے کی صورت میں بھی وہ اتنا ہی پُراثر اور دلچسپ رہتا ہے جتنا اس سے اتفاق کی صورت۔دوستووسکی متعدد ایسے معاملات پر فصیح و بلیغ طریقے سے اظہار کا حق ادا کرتا ہے جو اس کے لئے زندگی اور موت جتنے ہی اہم ہیں۔وہ کئی بار اپنے مخالفین یعنی انتہا پسندوں، ملحدوں اورکمزور وں پر ظلم ڈھانے والے دولت مندطبقات کو تضحیک کا نشانہ بناتا ہے لیکن کبھی ان کی زبان بند نہیں کرتا۔لہٰذا اس حقیقت کے باوجود کہ دوستووسکی قاری تک اپنی فکر اور اعتقادات پہنچانا چاہتا ہے، ایڈیٹ کسی بھی تناظر میں پروپیگنڈا نہیں ہے۔اس کے برعکس ناول متنوع تصورات پر مشتمل ایک ایسا پیچیدہ خاکہ ہے جو انسانی تجربے کے لئے ناگزیر ہے۔

 

انگریزی سے ترجمہ: عاصم بخشی

 

این رسکا ، اپر پیننسولا آف میشگن سے تعلق رکھنے والی ادیبہ ہیں، جنہیں روسی ادب پر دسترس حاصل ہے، انہوں نے یہ مضمون بطور خاص بینٹم کلاسیکس کے ذریعے شائع ہونےوالے ‘ایڈیٹ ‘ کے نسخے پر بطور تعارف لکھا تھا۔ان کی یہ تحریر ہمیں دوستووسکی کے اس ناول میں موجود بہت سے اہم نکات اور ان کے سیاق کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔