بلیوں کا شہر

کیونجی اسٹیشن پرٹینگوؔ چیو لائن کی تیز رفتار ٹرین پر سوار ہوا۔ کمپارٹمنٹ خالی پڑا ہوا تھا۔ اس نے آج کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ وہ جہا ں بھی گیا اور اس نے جو بھی کیا ( اور جو نہیں کیا) اپنی مرضی سے کیا۔ صبح کے دس بج رہے تھے۔ یہ گرمیوں کے دنوں میں ایک ایسا دن تھا جب ہوا رکی ہوئی تھی اور سورج اپنی تیز شعاعوں کے تیر پھینک رہا تھا۔ ٹرین شنجوکو، یوٹسویا اور اوشانومیزو سے گزرتی ہوئی آخری اسٹیشن ٹوکیو پر رکی۔ تمام مسافروں کے ساتھ ٹینگو بھی اتر گیا۔ ایک بنچ پر بیٹھ کر اس نے سوچنا شروع کیا کہ اسے کہاں جانا چاہئے۔ ’’میں جہاں چاہوں وہاں جا سکتا ہوں‘‘ اس نے خود سے کہا، ’’لگتا ہے آج کا دن کافی گرم ہوگا، مجھے ساحلِ سمندر پر جانا چاہئے۔‘‘ اس نے سر اٹھایا اور پلیٹ فارم گائیڈ کا مطالعہ کیا۔ تب اس نے محسوس کیا کہ وہ سارا دن کیا کرتا رہا ہے۔اس نے اپنے سر سے اس خیال کو جھٹکنے کی کوشش کی لیکن اس خیال نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اس نے غالباً غیر شعوری طور پر یہ فیصلہ تب ہی کر لیا تھا جب وہ چیولائن ٹرین پرکیونجی اسٹیشن سے سوار ہوا تھا۔ وہ ایک لمبی سانس لیکر بنچ پر سے اٹھ گیا اور ایک اسٹیشن ملازم سے چکورا جانے کے لئے تیز ٹرین کی بابت پوچھنے لگا۔ اس شخص نے ضخیم ٹائم ٹیبل کی ورق گردانی کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 11:30 کی اسپیشل ایکسپریس ٹرین سے ٹاٹے یاما پہنچ سکتا ہے اور وہاں سے لوکل ٹرین اسے چکوراقریب دو بجے تک پہنچا دے گی۔ ٹینگو نے ٹوکیو سے چکورا تک کے آنے جانے کی ٹکٹ خریدی اور ایک قریبی ریسٹورانٹ میں جاکر چاول، سالن اور سلادکا آرڈر دیا۔

اپنے باپ سے ملنے جانے کے خیال سے ہی اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اسے وہ شخص کوئی خاص پسند نہ تھا اور نہ ہی اس کے باپ کے دل میں ٹینگو کے لیے کوئی خاص جذبہ تھا۔ اس کا باپ چار سال قبل نوکری سے سبک دوش ہوا تھا اور فوراً ہی اسے چکورا کے سینی ٹوریم میں داخل کیا گیا جس میں ذہنی مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ ٹینگو اس سے قبل محض دو بار اسے دیکھنے گیا تھا، پہلی بارجب باپ کا داخلہ اس ہسپتال میں ہوا تھا اور ٹینگو کو اکلوتے رشتہ دارہونے کے ناطے کاغذات پُر کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ دوسری بار بھی کسی انتظامی امور کے سلسلے میں اسے جانا پڑا تھا۔ بس یہی دو بار۔

سینی ٹوریم ساحل سے متصل ایک وسیع پلاٹ پر واقع تھا۔ یہ لکڑی کی ایک دیدہ زیب عمارت اور تین منزلہ کانکریٹ کے بلڈنگ کی عجیب آمیزش تھی۔سمندری لہروں کے شور کے باوجود یہ ایک پرسکون جگہ تھی اور ہوا میں تازگی تھی۔ باغ کے سرے پر تاڑ کے درختوں کا ایک جھنڈ ہوا کے زور کو کم کرنے کے لئے لگایا گیا تھا۔ وہاں بہترین طبی سہولتیں تھیں۔ اپنے ہیلتھ انشورنس، ریٹائرمنٹ بونس، بچت اور پنشن کی بدولت ٹینگو کا باپ اپنی بقیہ زندگی وہاں آرام سے گزار سکتا تھا۔ بھلے ہی وہ اچھا خاصا ورثہ اپنے پیچھے نہ چھوڑے، لیکن اس کی زندگی کے باقی ماندہ سالوں میں اس کی اچھی نگہداشت ہو، یہی ٹینگو کی خواہش تھی۔ اپنے باپ کو کچھ دینے یا اس سے کچھ لینے کاٹینگو کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ دونوں دو مختلف انسان تھے، جن کے راستے اور منزلیں الگ الگ تھیں۔ محض اتفاقاً ہی دونوں نے زندگی کا کچھ وقت ساتھ گزارا تھا۔ یہ بہت شرم کی بات تھی کہ یوں ہوا، لیکن ٹینگو اس بارے میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

 

ٹینگو ٹکٹ لیکر پلیٹ فارم پر آکھڑا ہوا اور ٹاٹے یاما کی ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے ہم سفر خوش نظر آنے والے چند خاندان تھے جو ساحل پر کچھ دن گزارنے جا رہے تھے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اتوار آرام کا دن ہے۔ لیکن اپنے پورے بچپن میں ٹینگو کو کبھی نہیں لگا کہ اتوار لطف اندوز ہونے کا دن ہے۔ اتوار اس کے لیے ایک ایسے بے ڈھب چاند کی طرح ہوتا جو اس کے تاریک رخ پر ہی روشنی ڈالتا۔ ہفتہ کا دن آتے ہی اس پر تکان طاری ہوجاتی، بدن دکھنے لگتا اور بھوک مر جاتی۔ اس نے اتوار نہ آنے کے لئے دعائیں بھی مانگی تھیں لیکن ان کا کوئی اثر نہ ہوا۔

جب ٹینگو چھوٹا تھا، اس کا باپ NHKکے ممبروں کی فیس وصول کرنے کا کام کیا کرتا تھا۔ NHKجاپان کا نیم سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن Networkتھا۔ ہر اتوار وہ ٹینگو کو لے کر گھر گھر وصولی کے لئے نکل جاتا۔ ٹینگو اپنے باپ کے ہمراہ ان دوروں پر اس وقت سے جارہا تھا جب وہ ابھیKindergarten میں ہی تھا، اورپانچویں جماعت تک یہ کام بلا ناغہ کرتا رہا۔ اسے بالکل بھی پتہ نہ تھا کہNHK کے فیس وصول کرنے والے اہلکار صرف اتوار کو ہی کام کرتے ہیں یا دوسرے دنوں میں بھی؟ لیکن جہاں تک اسے یاد ہے اس کا باپ اتوار کو ان دوروں پر ضرور جایا کرتا تھا۔ عام دنوں کی بہ نسبت وہ اتوار کے دن کچھ زیادہ ہی جوش سے بھر جاتا کہ اتوار میں وہ انہیں بھی پکڑ سکتا تھا جو دوسرے دنوں میں گھر پر نہیں ملتے تھے۔

ٹینگو کے باپ کے پاس اسے اپنے ساتھ ان دوروں پر لے جانے کی کئی وجہیں تھیں۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ ٹینگو کو گھر پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ ہفتے کے دیگر دنوں میں تو وہ اسکول چلا جاتا اور سنیچر کوday-care میں رہ سکتا تھا، لیکن یہ جگہیں اتوار کو بند رہتی تھیں۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ ٹینگو کا باپ کہا کرتا تھا، بچے کا یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا گھر کیسے چل رہا ہے اور اسے مزدوری کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے۔ ٹینگو کا باپ اپنے والد کے ہمراہ بچپن سے ہی کھیتوں میں کام کرنے لگا تھااور دوسرے دنوں کی طرح اتوار کو بھی کام کرتا تھا۔ یہاں تک کہ فصل کے وقت اسے اسکول بھی جانے نہیں دیا جاتا ۔ ٹینگو کے باپ کے الفاظ میں یہی زندگی اسے ملی تھی۔

ٹینگو کے باپ کی تیسری اور آخری وجہ بے حد کاروباری تھی، جس نے کم عمر ٹینگو کے دل میں گہرے خراش چھوڑے تھے۔ باپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایک بچے کو ان دوروں پر ہمراہ لے جانے سے اس کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ بھی، جو اپنی جیبیں ہلکی کرنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتے، یہ دیکھ کر مجبور ہوجاتے کہ ایک بچہ انہیں گھور رہا ہے۔ اسی لیے ٹینگو کا باپ اپنے مشکل ترین دوروں کو اتوار کے لیے بچا رکھتا۔ ٹینگو کو بہت پہلے ہی اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اسے یہ کردار ادا کرنا ہے جس سے اسے سخت نفرت تھی۔ لیکن اسے یہ بھی احساس تھا کہ یہ کام ہوشیاری سے کرنا ہے تاکہ باپ کو خوش رکھا جاسکے۔ اگر وہ باپ کو خوش کرسکا تو اس دن باپ اس کے ساتھ رحم دلی سے پیش آئے گا۔ وہ خود کو ایک سدھائے ہوئے بندر کی طرح محسوس کرتا۔

لیکن ٹینگو کے لیے راحت کی بات یہ تھی کہ اتوار کے دورے گھر سے دور ہوتے۔ وہ اچی کاوا کے مضافات کے ایک رہائشی ضلع میں رہتے تھے اور دورے عموماً مرکزِ شہر کی طرف کے ہوتے۔ اس وصولی کے دوران کم از کم اپنے ہم جماعتوں سے اس کی مڈبھیڑ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی بازار کے علاقے میں جب اس کا کوئی ہم جماعت سڑک پر نظر آجاتا تو وہ بچنے کے لیے اپنے باپ کے پیچھے چھپ جاتا۔

پیر کی صبح اس کے اسکول کے دوست جوشیلے انداز میں بتاتے کہ وہ اتوار کے روز کہاں کہاں گئے اور کیا کیا انہوں نے کیا۔ وہ تفریحی پارک، چڑیا گھر اورBaseball gameدیکھنے جاتے۔ گرمیوں میں وہ تیراکی کے لیے جاتے اور سردیوں میں Skiingکے لیے۔ لیکن ٹینگو کے پاس کہنے کے لیے کبھی کچھ نہ ہوتا۔ اتوار کے روز وہ اور اس کاباپ گھروں کے کال بیل بجاتے، جھک کر سلام بجا لاتے اور پیسے وصول کرتے۔ اگر لوگ پیسے ادا کرنا نہیں چاہتے تو باپ انہیں دھمکیاں دیتا یا گڑگڑاتا۔ اگر لوگ ٹال مٹول کرتے تو وہ اپنی آواز اونچی کرلیتا۔ کبھی کبھی اس کا باپ انہیں کوسنے بھی لگتا۔ یہ تجربات ایسے نہیں تھے جن میں ٹینگو اپنے ہم جماعتوں کو حصّہ دار بنا سکتا۔ وہ سفید کالر والے ملازموں کے مڈل کلاس بچوں کے درمیان خود کو اجنبی محسوس کرتا۔ وہ ایک مختلف دنیا میں ایک الگ ہی زندگی جیتا تھا، حالانکہ کلاس میں وہ اچھے نمبرلاتا اور کھیل کود میں بھی اس کی قابلیت کے سبھی قائل تھے۔ اس لیے اجنبی ہوتے ہوئے بھی اس کے دوست اس سے کنارہ کش کبھی نہ ہوتے۔ عام طور پر سب اس سے عزت سے پیش آتے۔ لیکن جب کبھی اس کے دوست اتوار کے دن کہیں جانے کی دعوت دیتے یا اس کے گھر آنے کی پیش کش کرتے اسے انکار کرنا پڑتا۔ جلد ہی انہوں نے اس سے پوچھنا بھی بند کردیا۔

 

ٹینگو کا باپ ٹوہوکو کے ایک محنت کش خاندان کاتیسرا بیٹا تھا اوروہ گھر کم عمری میں ہی چھوڑ کر ان کاشتکاروں کے ساتھ شامل ہوگیا جو 1930 کے دہے میں ہجرت کر کے منچوریا آگئے۔ اس نے سرکار کے اس دعوے پر کبھی یقین نہیں کیا کہ منچوریا ایک جنّت ہے اور وہاں کی زمین بے حد زرخیز۔ وہ اتنا تو جانتا ہی تھا کہ ’جنّت‘ کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ وہ بھوکا اور غریب تھا۔ گھر میں وہ محض فاقہ زدہ زندگی کی امید کرسکتا تھا۔ منچوریا میں اسے اور دیگر کاشتکاروں کو زراعتی سہولتیں اور اوزار دیئے گئے۔ مٹی پتھریلی اور کم زرخیز تھی اور سردیوں میں تو سب کچھ منجمد ہوجاتا۔ کبھی کبھی تو انہیں آوارہ کتّوں کو مار کر کھانا پڑتا۔ سرکاری امداد کے باوجود ابتدائی چند سال بے حد سخت رہے۔ حالات سنبھلنے لگے تھے جب روس نے 1945کے اگست میں منچوریا پر حملہ کردیا۔ ٹینگو کے باپ کو اس کی امید پہلے سے ہی تھی کیوں کہ اس کی جانکاری ایک سرکاری اہل کار نے اسے دے دی تھی جس سے اس کی دوستی ہوگئی تھی۔ جنگ کی خبر پاتے ہی ٹینگو کے باپ نے اپنے اثاثے کو گھوڑے پر لادا اور علاقائی ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا اورڈالن کی آخری ٹرین پر سوار ہوگیا۔ وہ اپنے کاشتکار ساتھیوں میں سے اکیلا انسان تھا جو سال کے آخیر تک جاپان پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

جنگ کے بعد ٹینگو کا باپ ٹوکیو چلا گیا جہاں اس نے کالے بازار میں قسمت آزمائی کی اور ساتھ ہی بڑھئی کا کام بھی سیکھنے لگا۔ لیکن اس کمائی سے بمشکل ہی اس کا گزارہ ہوپاتا تھا۔ وہ اساکوسا کے ایک شراب خانے میں شراب پہنچانے کا کام کرتا تھا جب اس کی مڈبھیڑ اسی سرکاری اہلکار سے ہوئی جس سے اس کی دوستی منچوریا میں ہوئی تھی۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ٹینگو کے باپ کو کوئی قاعدے کی ملازمت نہیں مل رہی ہے تو اس نے NHKکے وصولیاتی شعبے میں اس کی سفارش کی پیش کش کی۔ ٹینگو کے باپ نے یہ تجویز بخوشی منظور کرلی۔ اسے NHKکے بارے میں کوئی معلومات نہ تھی لیکن وہ ایک معقول ماہانہ آمدنی کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔

NHKمیں ٹینگو کا باپ کافی جوش و خروش سے اپنا کام کرتا۔ نامساعد حالات میں ثابت قدمی اس کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ ایک ایسے شخص کے لیے جسے زندگی بھر کبھی بھر پیٹ کھانا نصیب نہ ہوا ہو، NHK کی فیس وصول کرناکوئی خاص تکلیف دہ کام نہیں تھا۔ لوگوں کی ملامتوں اور سخت نفرت آمیز کلمات کا بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حالانکہ وہ NHKکے سب سے نچلے درجے کے ملازمین میں شامل تھا، لیکن اس اہم ادارے سے وابستگی ہی اس کے لئے طمانیت کا باعث تھی۔ اس کی غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر ہی اسے عارضی ملازم سے ترقی دے کر مستقل ملازمین میں شامل کر لیا گیا، ایک ایسی انہونی جو NHKمیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ جلد ہی اسے کارپوریشن کا اپارٹمنٹ رہائش کے لیے مل گیااور کمپنی کی طبی سہولتیں بھی ملنے لگیں۔ یہ اس کی زندگی میں سب سے زیادہ خوش نصیبی کے لمحات تھے۔

 

ٹینگو کے باپ نے اسے بچپن میں کبھی لوریاں نہیں سنائیں، نہ ہی سونے کے وقت اسے کتابوں سے پڑھ کر کہانیاں سنائیں، وہ اسے اپنے حقیقی تجربات بتاتا۔ اسے کہانی سنانے کا ہنر آتا تھا۔ اس کے بچپن اور جوانی کے تجربات بہت خوشگوار نہیں تھے لیکن ان کی تفصیلات کافی دلچسپ ہوتیں۔ کچھ کہانیاں مزاحیہ ہوتیں، کچھ جاندار اور کچھ تشدد آمیز۔ اگر زندگی کو اس کی بوقلمونی اور اس کے انواع و اقسام کے تجربات کے پیمانے سے ناپا جائے، تو ٹینگو کے باپ کی زندگی ایک لحاظ سے بھرپور تھی۔ لیکن اس کی کہانیوں نے جیسے ہی وقت کی اس دہلیز پر قدم رکھا جب اسے NHK میں ملازمت ملی، تو اچانک ہی اس کی ساری دلکشی ختم ہو گئی۔ اس کی ملاقات ایک عورت سے ہوئی، اس سے شادی کی اور ایک بیٹا ہوا، ٹینگو۔ ٹینگو کی پیدائش کے چند مہینوں کے اندر ہی وہ سخت بیمار پڑی اور مر گئی۔ اس کے بعد اس کے باپ نے اس کی پرورش NHK کی مشقت بھری ملازمت کے دوران تنہا ہی کی۔ اور کہانی ختم۔ اس کی ملاقات ٹینگو کی ماں سے کیسے ہوئی اور شادی کیسے ہوئی؟ وہ کس طرح کی عورت تھی؟ اس کی موت کیسے ہوئی؟ اس کی موت آسان تھی یا وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مری؟ ٹینگو کے باپ نے اس بارے میں اسے تقریباً کچھ نہیں بتایا۔ اگر وہ اس بارے میں باپ سے کچھ پوچھتا، تو وہ پہلو تہی کرتا۔ اکثر یہ سوالات اس کا موڈ خراب کر دیتے۔ گھر میں اس کی ماں کی کوئی بھی تصویر نہیں بچی تھی۔

بنیادی طور پر ٹینگو نے اپنے باپ کی کہانی پراعتبار نہیں کیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی ماں اس کی پیدائش کے چند ہی مہینے بعد نہیں فوت ہوئی تھی۔ ماں کی اکلوتی یاد اس وقت کی تھی جب وہ صرف ڈیڑھ سال کا تھا اور اس کی ماں کسی اور شخص کی بانہوں میں اس کے پالنے کے قریب کھڑی ہے جو اس کا باپ نہیں تھا۔ اس کی ماں نے اپنا بلاؤز اتارا، انگیا کھولی اوروہ شخص، جو اس کا باپ نہیں تھا،اس کے پستانوں پر جھکا اور اسے چوسنے لگا۔ ٹینگو ان کے قریب ہی بستر پر سورہا تھا جب وہ دونوں ان خوش فعلیوں میں مصروف تھے۔ ٹینگو کی سانسیں ہموار تھیں لیکن وہ سو نہیں رہا تھا بلکہ ماں کو دیکھ رہا تھا۔

ماں کی یہی تصویر ٹینگو کے ذہن میں تھی۔ دس سکینڈ کا یہ منظر اپنی پوری وضاحت کے ساتھ اس کے دماغ میں محفوظ تھا۔ ماں کی یہ اکلوتی جانکاری اس کے پاس تھی، جو اس سے اس کا معدوم تعلق جوڑتی تھی۔ باپ کو اس کی بالکل ہی خبر نہ تھی کہ ٹینگو کے ذہن میں اس کی ماں کی ایسی یاد محفوظ ہے۔ ٹینگو ہمیشہ اس یاد کی جگالی کرتا رہتا جو اسے روحانی غذا پہنچاتی۔ باپ بیٹے، دونوں کے اپنے اپنے تاریک راز تھے جو وہ ایک دوسرے کو نہ بتاتے۔

 

بڑے ہونے پر ٹینگو اکثر سوچتا کہ اس کی ماں کی پستانوں پر جھکا ہوا وہ شخص کہیں اس کا قدرتی باپ تو نہیں۔ یہ اس لیے کہ ٹینگو اپنے باپ سے، جو NHK کا وصولیاتی ایجنٹ تھا، کوئی مشابہت نہ رکھتا تھا۔ ٹینگولمبا تڑنگااور مظبوط کاٹھی کا انسان تھا۔ اس کی پیشانی کشادہ، ناک ستواں اور اوسط کان تھے۔ جب کہ اس کا باپ ٹھگنا، چھوٹا اور غیر متاثر شخصیت کا مالک تھا۔ اس کی پیشانی تنگ، ناک چپٹی اور گھوڑے کی طرح نوکیلے کان تھے۔ ٹینگو جہاں مطمئن اور رحم دل نظر آتا تھا وہیں اس کا باپ مضطرب، نروس اور غصیلہ نظر آتا تھا۔ لوگ اکثر ان کی مشابہتوں کے فرق پر کھلے عام اظہارِ خیال کرتے۔

لیکن جو چیز ٹینگو کو اس کے باپ سے ممتاز کرتی تھی وہ جسمانی مشابہتوں کا اختلاف نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی بناوٹ کا فرق تھا۔ اس کے باپ میں ایسی کوئی چیز نہ تھی جسے ذہانت آمیزتجسس کہا جا سکے۔ یہ صحیح ہے کہ غربت میں پیدا ہونے کی وجہ سے اس نے کوئی معقول تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ ٹینگو کو اپنے باپ کے حالات پر ترس آتا تھا۔ لیکن حصولِ علم کی بنیادی تمنا، جسے ٹینگو ایک فطری خواہش سمجھتا تھا، اس شخص میں مفقود تھی۔ اس کے پاس محض عملی عقلمندی تھی جس نے اسے زندہ رکھا تھا۔ لیکن اس شخص میں ایسی کسی خواہش کا شائبہ تک نہ تھا کہ وہ وسیع دنیا کے تئیں کوئی نقطۂ نظر رکھنا چاہتا ہو۔ اسے اپنی محدود زندگی کے حبس زدہ ماحول سے کوئی بے چینی نہیں ہوتی تھی۔ ٹینگو نے اسے کبھی کوئی کتاب پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اسے فلم یا موسیقی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی، نہ ہی وہ کبھی تفریح کے لیے باہر گیا۔ اسے صرف اپنے وصولی دوروں سے دلچسپی ہوتی تھی۔ وہ ان علاقوں کے نقشے بناتا، اور رنگین قلم سے نشان زد کرتا، جیسے ماہرینِ حیاتیات Chromosomesکا مطالعہ کرتے ہوں گے۔

لیکن دوسری طرف ٹینگو اپنے اندر ہر چیز کے لیے تجسس پاتا۔ اس کے علوم کا دائرہ خاصا وسیع تھا۔ وہ علمِ حساب میں بچپن سے ہی غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا۔ وہ جب تیسری جماعت میں تھا، ہائی اسکول کے سوالات حل کرلیتا تھا۔ علمِ حساب اس کے لیے اپنی زندگی اور باپ سے پیچھا چھڑانے کا ایک موثر ذریعہ تھا۔ علمِ حساب کی دنیا میں وہ ایک راہداری میں چلتے ہوئے مختلف نمبروں کے دروازے کھولتا جاتا۔ ہر بار اس کے سامنے ایک الگ طلسمی جہان ہوتا جہاں اس کی حقیقی بدصورت دنیا کا کوئی نشان نہ ہوتا۔ جب تک وہ اس مملکت کی غیر مختتم دنیا میں ہوتا، وہ آزاد رہتا۔ جہاں ایک طرف علمِ حساب ٹینگو کے لیے ایک شاندار خیالی عمارت تھی، تو دوسری طرف ادب ایک جادوئی جنگل۔ علمِ حساب کا غیر محدود عمودی پھیلاؤآسمانوں کی طرف ہوتا، لیکن کہانیاں اس کے سامنے چاروں طرف پھیلی ہوتیں، جن کی تنومند جڑیں زمین میں گہری پیوست ہوتیں۔ نہ اس جنگل کا کوئی نقشہ تھا اور نہ ہی اس میں کوئی دروازہ۔ عمر کے ساتھ کہانیوں کا یہ جنگل اسے علمِ حساب کے مقابلے میں زیادہ پرکشش لگنے لگا۔ ظاہر ہے ناولوں کا مطالعہ بھی ایک طرح کا فرار ہی تھا، جب وہ کتاب بند کرتا اسے حقیقی دنیا میں لوٹ آنا پڑتا۔ لیکن اس نے محسوس کیا کہ ناولوں کی دنیا سے حقیقت میں لوٹنا اتنا المناک نہیں ہوتاجتنا علمِ حساب کی دنیا سے لوٹنا۔ ایسا کیوں ہے؟ بہت سوچنے کے بعد وہ ایک نتیجے پرپہنچا۔ کہانیوں کے جنگل میں اشیا کتنی ہی واضح کیوں نہ ہوں، وہاں مسائل کاکوئی حتمی حل نہیں ہوتا جیسے حساب کی دنیا میں ہوتا ہے۔ کہانی کا کام، وسیع تناظر میں ، مسائل کو ایک شکل سے دوسری میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ حل مسئلے کی شکل اور سمت پر منحصر ہوتاہے، جسے بیانیے میں تجویز کیا جاتا ہے۔ ٹینگو وہ تجاویز لیکر حقیقی دنیا میں لوٹ آتا۔ یہ ایسے کاغذ کے ٹکڑے کی طرح ہوتا جس پر جادوئی منتر تحریر ہوں۔ ان کا فوراً کوئی عملی مقصد بھلے ہی نہ ہو، لیکن ان میں کچھ امکانات تو تھے ہی۔

ٹینگو نے مطالعۂ ادب سے ایک ممکنہ حل نکالا۔ میرے حقیقی باپ کو کہیں اور ہونا چاہئے۔ چارلس ڈکنس کے ناول کے بد قسمت لڑکے کی طرح ، ٹینگو عجیب و غریب حالات سے دوچار ہوتا ہوا اس اجنبی انسان تک پہنچا تھا جو اس کی پرورش کررہا تھا۔ یہ ایک امید بھی ہو سکتی تھی، ایک کابوس بھی۔ ڈکنس کے Oliver Twistپڑھنے کے بعداس نے مقامی لائیبریری سے اس کی تمام کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ڈکنس کی کہانیوں سے گزرتے ہوئے اسے لگا کہ وہ اپنی زندگی کے حالات پڑھ رہا ہے۔ اس کا تخیل لمبا اور پیچیدہ ہوتا گیا۔ ایک پیٹرن میں مختلف جہات بنتے گئے۔ ہر طرح سے ٹینگو کو لگتا کہ اس کے باپ کا گھر وہ جگہ نہیں ہے جہاں اسے ہونا چاہئے۔ وہ غلطی سے اس پنجرے میں قید ہوگیا ہے اور ایک دن اس کے حقیقی والدین اسے چھڑا لے جائیں گے۔ تب اس کے پاس سب سے حسین، پرسکون اور آزاد اتوار ہوں گے۔

ٹینگو کے باپ نے اس کے امتیازی نمبروں پر ہمیشہ فخر کیا اور اس کا اعلانیہ اظہار وہ پڑوسیوں کے سامنے کرتا۔ پھر بھی اس میں ٹینگو کی ذہانت اور قابلیت پر ایک طرح کی اداسی جھلکتی تھی۔ اکثر، جب ٹینگو پڑھائی کی میز پر ہوتا، اس میں مخل ہوتا، اس سے گھر کے کام کرواتا یا اس کے ’جارحانہ‘ برتاؤ پر بک بک کرتا۔ اس کی بکواس ہمیشہ یہی ہوتی کہ ادھر وہ روزانہ دوڑ بھاگ کر رہا ہے، طویل فاصلوں کے دورے کر رہا ہے اور لوگوں کا کوسنا سہہ رہا ہے اور اُدھر ٹینگو اپنی ہی سہل پسند دنیا میں مگن مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے۔ وہ کہتا، ’’جب میں تمہاری عمر کا تھاتو صبح سے شام تک کمر توڑ مشقت کرتا تھا۔ میرے والد اور بھائی مجھے بلاوجہ پیٹا کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی مجھے بھر پیٹ کھانا نہیں دیا ۔ مجھ سے ہمیشہ جانوروں کی طرح سلوک کیا۔میں نہیں چاہتا کہ تم محض کچھ اچھے نمبروں کی وجہ سے یہ سمجھنے لگو کہ تم خاص ہو۔‘‘

یہ شخص مجھ سے حسد کرتا ہے، ٹینگو نے چند سالوں بعد یہ سوچنا شروع کردیا۔ یہ شخص مجھ سے یا میری زندگی سے جلتا ہے۔ لیکن کیا ایک باپ اپنے بیٹے سے بھی حسد کر سکتا ہے؟ ٹینگو نے اپنے باپ کے بارے میں ایسا کوئی سخت فیصلہ نہیں کیا لیکن جس طرح کی خود غرضی اس کی حرکات اور اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتی تھی ، وہ اس پر ترس کھائے بغیر نہ رہ سکا۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹینگو کا باپ اس سے یکسر نفرت کرتا تھا لیکن وہ ایسی کسی چیز سے نفرت کرتا تھا جو ٹینگو کے اندر تھی ، ایسی ایک شئے جسے وہ معاف نہیں کر سکتا تھا۔

 

جب ٹرین ٹوکیو اسٹیشن سے چلی تو ٹینگو نے وہ کتاب نکالی جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ یہ سفر کے موضوع پر ایک کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ اس میں ایک کہانی تھی ’بلّیوں کا شہر‘ ۔ یہ کسی جرمن مصنف کی ایک بہترین کہانی تھی، جس سے ٹینگو واقف نہ تھا۔ یہ کہانی ، جیسا کہ کتاب کے پیش لفظ میں درج تھا، دونوں عظیم جنگوں کے دوران لکھی گئی تھی ۔

کہانی میں ایک نوجوان، کسی منزل کا فیصلہ کئے بغیر سفر کر رہا ہے۔ وہ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے ایسے کسی بھی اسٹیشن پر اتر جاتا ہے جو اسے دلچسپ نظر آتا۔ وہاں وہ ایک کمرہ کرائے پر لے کرمناظر سے لطف اندوز ہوتا اور جب تک طبیعت سیر نہیں ہوجاتی، ٹھہرتا۔ جب اکتا جاتا تودوسری ٹرین پکڑتا۔ وہ اپنی ہر تعطیل اسی طرح گزارتا ہے۔

ایک دن اسے ٹرین کی کھڑکی سے ایک خوبصورت ندی نظر آئی۔ ندی ایک سر سبز پہاڑی کے دامن میں بہہ رہی تھی اور وہیں ایک چھوٹا سا حسین شہر تھا۔ اسے ندی پر ایک پرانے پتھروں کا پل بھی نظر آیا۔ جب اس شہر کے اسٹیشن پر ٹرین رکی تو وہ اپنے بیگ سمیت اترگیا۔اور اس کے اترتے ہی ٹرین روانہ ہو گئی۔

اسٹیشن پر کوئی بھی نہ تھا۔ نہ کوئی سرکاری ملازم، نہ کوئی مزدور اور نہ ہی کوئی مسافر۔ نوجوان پل پار کر کے شہر میں داخل ہو گیا۔ ساری دکانیں بند پڑی تھیں۔ ٹاؤن ہال سنسان پڑا تھا۔ شہر کے اکلوتے ہوٹل کی میز پر بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ جگہ پوری طرح غیر آباد لگتی تھی۔ شاید تمام لوگ کہیں سو رہے تھے۔ لیکن ابھی صبح کے محض ساڑھے دس بج رہے تھے۔ شاید کسی وجہ سے تمام لوگ یہ شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کسی بھی صورت میں اسے اگلی ٹرین آئندہ صبح ہی مل سکتی تھی۔ اس لیے اس کے پاس یہاں رات گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ وقت گزاری کے لیے شہر میں آوارہ گردی کرنے لگا۔ دراصل یہ بلّیوں کا شہر تھا۔ سورج کے ڈھلتے ہی بہت ساری بلّیاں پل پار کرکے شہر میں آگئیں۔ ہر قسم اور کئی رنگوں کی بلّیاں۔ وہ عام بلّیوں کے مقابلے میں تھوڑی بڑی ضرور تھیں، لیکن تھیں بلّیاں ہی۔ یہ دیکھ کر نوجوان کو سخت حیرت اور دہشت ہوئی۔ وہ بھاگ کر شہر کے بیچ میں واقع گھنٹہ گھر میں گھس گیا اور زینے طے کر کے سب سے اوپری جگہ پر جا کر چھپ گیا۔بلّیوں نے حسبِ معمول اپنا کام شروع کیا۔ دوکانیں کھلیں، اور میزوں پر بیٹھ کر وہ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئیں۔ جلد ہی پل پار کر کے شہر میں مزید بلّیاں آگئیں۔ وہ دکانوں میں خریداریاں کر رہی تھیں، ٹاؤن ہال جاکر انتظامی امور سنبھال رہی تھیں، ہوٹلوں میں کھاناکھارہی تھیں، شراب خانوں میں شراب پی رہی تھیں یا بلیوں کے گیت گا رہی تھیں۔ چونکہ بلّیاں اندھیرے میں دیکھ سکتی تھیں، انہیں روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اس رات چاند کی چودہویں تاریخ تھی اور چاندنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے نوجوان گھنٹہ گھر کی بلندی سے چاروں طرف صاف دیکھ سکتا تھا۔ سپیدۂ سحر کے نمودار ہوتے ہی بلّیوں نے اپنے کام ختم کئے، دکانیں بند کیں اور ان کے جھنڈ کے جھنڈ پل پار کر کے شہر سے باہر چلے گئے۔

جب سورج طلوع ہوا، بلّیاں شہر سے جا چکی تھیں اور شہر ایک بار پھر سے سنسان ہوگیا۔ نوجوان نیچے اتر آیا۔ ہوٹل کے ایک کمرے میں جاکر سو گیا۔ جب اسے بھوک لگی، اس نے ہوٹل کے باورچی خانہ میں بچی ہوئی پاؤ روٹی اور مچھلی کھائی۔ شام ہوتے ہی وہ پھر سے گھنٹہ گھر میں چھپ گیا اور بلّیوں کی حرکات کا صبح تک مشاہدہ کرتا رہا۔ ٹرینیں وہاں کے اسٹیشن پرمحض ایک منٹ کے لیے دن میں دو بار رکتیں، دوپہر سے کچھ پہلے اور سہ پہر میں، اور پھر چل پڑتیں۔ ٹرینوں سے اس اسٹیشن پر نہ کوئی مسافر اترتا نہ وہاں سے چڑھتا۔ وہ ان میں سے کوئی بھی ٹرین پکڑ کر اس عجیب بلّیوں کے شہر سے جاسکتا تھا۔ لیکن وہ گیا نہیں۔ جوان ہونے کی وجہ سے اس میں تجسس تھا اور وہ یہاں مزید رکنے کا خطرہ اٹھانے کے لیے تیار تھا۔ وہ اس عجیب و غریب دنیا کو مزید دیکھنا چاہتا تھا اور ممکن ہو سکے تو یہ پتہ لگانے کی کوشش کرے گا کہ کب اور کیسے یہ بلّیوں کا شہر بنا۔

تیسری رات نیچے گھنٹہ گھر کے چوراہے پر ایک شور سا برپا تھا۔ ’’کیا تمہیں انسانی بوٗ آرہی ہے؟‘‘ ایک بلّی دوسری سے پوچھ رہی تھی۔ ’’ اب جب کہ تم نے ذکر کیا ہے، یہاں چند دنوں سے مجھے کچھ عجیب سی بوٗ آرہی ہے‘‘۔ دوسری نے اپنی ناک سکوڑتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھے بھی۔‘‘ ایک اور بلّی بولی۔ ’’عجیب بات ہے، یہاں کسی انسان کو نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ایک اور نے اضافہ کیا۔ ’’ظاہر ہے، بالکل نہیں۔ یہاں اس بلّیوں کے شہر میں کوئی انسان پہنچ ہی نہیں سکتا‘‘۔ ’’لیکن بوٗ تو ضرور ہے۔‘‘

بلّیوں نے گروہ بنائے اور جاسوسوں کی طرح تلاش میں جٹ گئیں۔ انہوں نے جلد ہی پتہ لگا لیا کہ بو گھنٹہ گھر سے ہی آرہی ہے۔ نوجوان نے زینے پر ان کے نازک پنجوں کی چاپ سنی کہ وہ اوپر آرہی ہیں۔ بس! اب میں پکڑا گیا، اس نے سوچا۔ اس کی بوٗ سے بلّیاں غصّے میں تھیں۔ انسانوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس نے بلّیوں کے تیز ناخنوں اور نوکیلے دانتوں کے بارے میں سوچا۔ وہ سوچ نہیں پا رہا تھاکہ کیا خوفناک واقعہ اس کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اگر انہوں نے اسے پا لیا، تو بلیاں اسے یہاں سے زندہ نہیں جا نے دیں گی۔

بلّیاں گھنٹہ گھر کے اوپر تک چڑھ آئیں اور ہوا میں سونگھنے لگیں۔ ’’عجیب‘‘، ایک بلّی نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔ ’’انسانی بوٗ تو ہے لیکن تعجب ہے یہاں کوئی انسان نہیں‘‘۔

’’بالکل عجیب ہے‘‘، دوسری بلّی نے کہا، ’’لیکن یہاں واقعی کوئی نہیں ہے۔ چلو، کہیں اور دھونڈتے ہیں۔‘‘

بلّیاں تعجب سے اپنے سر ہلاتی ہوئی زینے سے اتر گئیں۔ نوجوان ان کے پنجوں کی معدوم ہوتی آہٹیں تاریکی میں سنتا رہا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا، لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ابھی ابھی ہوا کیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اسے نہ دیکھ پاتیں، لیکن کسی وجہ سے وہ انہیں نظر نہیں آیا۔ کسی بھی صورت میں، اس نے فیصلہ کیا ، کہ اگلی صبح وہ ٹرین پکڑ کر اس شہر سے چلا جائے گا۔ خوش قسمتی ہمیشہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتی ہے۔ لیکن اگلی صبح ٹرین اسٹیشن پر نہیں رکی۔ وہ دیکھتا رہا اور ٹرین آہستہ ہوئے بغیر گزر گئی۔ سہ پہر کی ٹرین کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ انجن کے ڈرائیور کو صاف دیکھ سکتا تھا، لیکن ٹرین کے رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے دیکھ نہیں پا رہا ہے یا پھر کسی کو یہ اسٹیشن ہی نظر نہیں آرہا ہے۔ سہ پہر کی ٹرین کے نظر سے اوجھل ہوتے ہی وہاں خاموشی طاری ہوگئی۔ سورج ڈھلنے لگا اور یہ وقت بلّیوں کے شہر میں آنے کا تھا۔ نوجوان کو معلوم ہوگیا کہ وہ گم ہوچکا ہے اور اب کوئی بھی اس کا پتہ نہیں لگا پائے گا۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ کوئی بلّیوں کا شہر نہیں، بلکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں اسے گم ہونا تھا۔ یہ دنیا خاص طور پر اس کے لیے ہی بنائی گئی ہے اور تا ابد یہاں کوئی ٹرین نہیں رکنے والی جو اسے اس دنیا میں واپس لے جائے جہاں سے وہ آیا ہے۔

 

ٹینگو نے دو بار وہ کہانی پڑھی۔ اور یہ جملہ ’یہ وہ جگہ ہے جہاں اسے گم ہونا تھا‘ اس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا۔ اس نے کتاب بند کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ ٹرین کسی صنعتی علاقے سے گزر رہی تھی۔ جلد ہی اسے نیند آگئی۔ ایک مختصر سی نیند۔ وہ اٹھا تو پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ ٹرین بوسو جزیرے کے ساحلی علاقے سے گزر رہی تھی اور یہ گرمیوں کا موسم تھا۔

ایک صبح، جب ٹینگو ابھی پانچویں جماعت میں تھا، بہت سوچنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ اب اتوار کے دنوں میں اپنے باپ کے ساتھ اسکے کاروباری دورے پر نہیں جائے گا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ یہ وقت وہ کتابیں پڑھنے اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں صرف کرنا چاہتا ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کی طرح عام زندگی جینا چاہتا تھا۔

ٹینگو نے اپنی بات مختصراً واضح الفاظ میں کہی۔ اس کا باپ، ظاہر ہے، پھٹ پڑا۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ دوسرے خاندان کیا کرتے ہیں۔ اس نے کہا، ’’ہم اپنی طرح زندگی جیتے ہیں۔ بقراط صاحب! ’عام زندگی‘ کے بارے میں مجھ سے بات کرنے کی ہمت بھی مت کیجئے گا۔ تم جانتے ہی کیا ہو اس ’عام زندگی‘ کے بارے میں؟‘‘ٹینگو نے اس سے بحث کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے باپ کو صرف خاموشی سے گھور کر دیکھا۔ اسے معلو م تھا کہ وہ کچھ بھی کہے، اس کے باپ پر اثر ہونے والا نہیں۔ پھر اس کے باپ نے کہا کہ اگر ٹینگو نہیں سنتا ہے تو وہ مزید اسے کھلا پلا کر پال نہیں سکتا اور وہ کہیں اور دفع ہوسکتا ہے۔

ٹینگو نے وہی کیا جو اس کے باپ نے کہا۔ اس نے تہیّہ کر لیا تھا کہ وہ مزید ڈر کر رہنے والا نہیں۔ اب جب کہ اسے یہ پنجرہ چھوڑ کر جانے کی اجازت مل گئی تھی، اسے کچھ اور نہیں مگر راحت کا احساس ہوا۔ لیکن ایک دس سال کا لڑکا تنِ تنہا کس طرح زندگی سے لڑ سکتا ہے۔ ایک دن اسکول ختم ہونے کے بعد اس نے اپنی ٹیچر کو اپنی رام کہانی سنائی۔ ٹیچر ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ رحم دل اور منصف مزاج خاتون تھی۔ وہ ٹینگو کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آئی۔ اس شام وہ اسے اپنے ساتھ ٹینگو کے باپ کے پاس ایک طویل گفتگو کے لیے لے گئی۔

ٹینگو کو کمرے سے باہر چلے جانے کے لیے کہا گیا، اس لیے اسے کوئی علم نہیں کہ ان دونوں کے بیچ کیا باتیں ہوئیں۔ اس کے باپ کو ہار ماننی پڑی۔ وہ جتنا بھی غصّہ ور ہو، ایک دس سال کے بچے کو سڑک پر تنہا آوارہ گردی کے لیے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ قانونی طور بھی والدین پر اپنے بچوں کی پرورش کی ذمّہ داری تھی۔

ٹیچر اور اس کے باپ کے درمیان ہوئی گفتگو کے نتیجے میں ٹینگو اب آزاد تھا کہ جس طرح چاہے اپنی اتوار کی چھٹی گزارے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس نے باپ سے اپنا کوئی حق جیتا تھا۔ آزادی اور خود مختاری کی طرف یہ اس کا پہلا قدم تھا۔

 

سینی ٹوریم میں رسپشن پر ٹینگو نے اپنا اور اپنے باپ کا نام بتایا۔ نرس نے پوچھا، ’’کیا آپ نے یہ اطلاع پہلے دی تھی کہ آج آپ ان سے ملنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟‘‘ نرس کی آواز میں تیزی تھی۔ وہ ایک چھوٹی قد کی عورت تھی، دھات کے فریم والا چشمہ لگایا ہوا تھا اور اس کے چھوٹے بالوں میں کچھ چاندی کے تار جھلملا رہے تھے۔

’’نہیں۔ میں نے آج ہی اس کا فیصلہ کیا اور ٹرین پکڑ کر چلا آیا۔‘‘ ٹینگو نے پوری ایمانداری سے بتایا۔

نرس نے اسے حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’یہاں آنے والوں کو ہمیں پہلے سے مطلع کرنا ہوتا ہے کہ وہ کب مریض کو دیکھنے آرہے ہیں۔ ہمارے ملاقات کے اپنے اوقات ہیں … اور مریض کی خواہش کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔‘‘

’’مجھے افسوس ہے، مجھے یہ سب نہیں معلوم تھا۔‘‘

’’آپ آخری بار کب یہاں ملاقات کے لیے آئے تھے؟‘‘

’’دو سال قبل‘‘

’’دو سال قبل‘‘، نرس نے اس مریض سے ملنے آنے والوں کی فہرست کا معائنہ کیا، اس کے ہاتھ میں ایک قلم تھا، ’’آپ کا مطلب ہے دو سالوں میں ملاقات کے لیے آپ ایک بار بھی نہیں آئے؟‘‘

’’جی، بالکل صحیح‘‘۔

’’ہمارے ریکارڈ کے مطابق، آپ مسٹر کاوانا کے اکلوتے رشتہ دار ہیں۔‘‘

’’ہاں، یہ صحیح ہے۔‘‘

اس نے ٹینگو کو گھورا لیکن کہا کچھ نہیں۔ اس کی آنکھیں اس پر الزام تراشی نہیں کر رہی تھیں، وہ صرف حقائق چیک کر رہی تھی۔ بظاہر ٹینگو کا معاملہ کوئی غیر معمولی نہیں تھا۔

’’فی الحال آپ کے والد اپنے گروپ کے بحالی پروگرام میں ہیں۔ یہ گھنٹے بھر میں ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد آپ ان سے مل سکتے ہیں۔‘‘

’’کیسے ہیں وہ؟‘‘

’’جسمانی طور پر وہ صحت مند ہیں۔ ذہنی طور پر وہ مختلف اتار چڑھاؤ سے گزرتے رہے ہیں۔‘‘ نرس نے اپنے ابروؤں کو شہادت کی انگلی سے سہلاتے ہوئے جواب دیا۔

ٹینگو نے اس کا شکریہ ادا کیا اور لاؤنج میں جاکر انتظار کرنے لگا۔ وہ دوبارہ اپنی کتاب کا مطالعہ کرنے لگا، ہوائیں بہہ رہی تھیں جن میں سمندر کی خنکی اور باہر لگے صنوبر کے درختوں کی خوشبو گھلی ہوئی تھی۔ گرمیوں کے پتنگے شور مچا رہے تھے۔ حالانکہ گرمی اپنے شباب پرتھی لیکن ان پتنگوں کو غالباً خبر تھی کہ گرمیاں اب ختم پر ہیں۔

بالآخر نرس نمودار ہوئی اور اسے بتایا کہ وہ اپنے باپ سے ملاقات کر سکتا ہے۔ ’’میں آپ کو ان کا کمرہ دکھا دیتی ہوں‘‘ اس نے کہا۔ ٹینگو صوفے سے اٹھ گیا۔ ایک بڑے آئینے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دن میں پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس نے بد وضع لباس پہن رکھا ہے۔ ایک بوسیدہ شرٹ کے اندر جاپانی طرز کا ٹی شرٹ، بھورا ڈھیلا پائجامہ، جس کے گھٹنوں کے قریب سرخ چٹنی کے نشان تھے، اور سر پر کیپ۔ یہ کسی بھی طرح ایک تیس سالہ انسان کو زیب نہیں دیتا تھا جو دو سالوں بعد اپنے باپ سے ملنے آیا ہو۔ نہ ہی اس کے ہاتھوں میں کوئی ایسی چیز تھی جسے وہ تحفتاً مریض کو دے سکتا تھا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پہلی نظر میں نرس نے اسے حقارت سے دیکھا تھا۔

ٹینگو کا باپ کمرے میں تھا۔ وہ کھلی ہوئی کھڑکی کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ اس کے گھٹنوں پر تھے۔ اس کی قریبی میز پر نازک زرد پھولوں کا ایک گملا تھا۔ فرش پر نرم قالین تھا کہ اگر کوئی گرے تو اسے چوٹ نہ لگنے پائے۔ ٹینگو کو پہلے یہ لگا کہ کھڑکی کے قریب بیٹھا شخص کوئی اور ہے۔ وہ ایک لمحے کو سکڑ سا گیا، جسے ’کانپنا ‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کے بال چھوٹے تھے اور اس قدر سفید جیسے برف سے ڈھکا کوئی لان۔ اس کے گال پچکے ہوئے تھے اس وجہ سے اس کی دھنسی ہوئی آنکھیں پہلے سے زیادہ بڑی نظر آرہی تھیں۔ اس کی پیشانی پر تین گہری لکیریں تھیں۔ اس کے ابرو گھنے اور لمبے تھے، اور اس کے نوکیلے کان پہلے سے زیادہ بڑے لگ رہے تھے جیسے چمگادڑ کے بازو ہوں۔ دور سے وہ کسی انسان کی بجائے کسی چوہے یا گلہری کی طرح کی ایک مکار مخلوق نظر آ رہا تھا۔ پھر بھی وہ تھا ٹینگو کا باپ، یا شاید ٹینگو کے باپ کا ٹوٹا پھوٹا کھنڈر۔ ٹینگو کے ذہن میں اپنے باپ کی شبیہہ ایک کٹھور اور محنت کش انسان کی تھی۔ تفکر اور تخیل سے بھلے ہی اسے کوئی علاقہ نہ ہو لیکن اس کے اپنے اخلاقی اقدار تھے اور مقصدیت کے تئیں اپنا شعور۔ اب جو شخص ٹینگو کے سامنے تھا، وہ اس کے باپ کا محض ایک خول نظر آرہا تھا۔

’’مسٹر کاوانا!‘‘ نرس نے ٹینگو کے باپ سے واضح الفاظ میں کہا۔ شاید مریضوں سے اس طرح مخاطب ہونے کی اسے ٹریننگ ملی ہو۔ ’’مسٹر کاوانا! دیکھئے آپ سے ملنے کون آیا ہے۔ ٹوکیو سے آپ کا بیٹا۔‘‘

ٹینگو کا باپ ان کی طرف مڑا۔ اس کی آنکھیں کسی بھی جذے سے عاری تھیں، جس سے ٹینگو کے ذہن میں کارنس سے جھولتے پرندوں کے دوگھونسلوں کا تاثر ابھرا۔

’’ہیلو‘‘ ٹینگو نے کہا۔

اس کا باپ کچھ کہنے کی بجائے سیدھا ٹینگو کی طرف دیکھتا رہا جیسے وہ کسی غیر ملکی زبان میں کوئی خبر پڑھ رہا ہو۔

’’ڈنر شام ساڑھے چھ بجے شروع ہوتا ہے‘‘ نرس نے ٹینگو سے کہا۔ ’’آپ بہ آسانی تب تک رک سکتے ہیں۔‘‘

نرس کے جانے کے بعد ٹینگو ایک لمحے کے لیے جھجھکا، پھر وہ اپنے باپ کے پاس ایک کرسی لے کر اس کے سامنے بیٹھ گیا، کرسی کے کپڑے کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا اور اس کی لکڑی پر طویل استعمال سے خراشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے باپ کی آنکھوں نے اس کی حرکات کا تعاقب کیا۔

’’کیسے ہیں آپ؟‘‘ ٹینگو نے پوچھا۔

’’بہت اچھا، شکریہ‘‘ اس کے باپ نے جواب دیا۔

ٹینگو کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے بعد کیا کہے۔ اپنی شرٹ کے تیسرے بٹن سے کھیلنے کے بعد وہ باہر کے صنوبر کے درختوں کو دیکھنے لگا اور اس کے بعد اپنے باپ کو۔

’’تم ٹوکیو سے آئے ہو، کیا یہ صحیح ہے؟‘‘ باپ نے پوچھا۔

’’ہاں! ٹوکیو سے۔‘‘

’’پھر تم اکسپریس ٹرین سے آئے ہوگے‘‘۔

’’جی، بالکل صحیح‘‘، ٹینگو نے جواب دیا۔ ’’ٹاٹے یاما تک، اس کے بعد لوکل ٹرین سے یہاں چکورا تک آیا۔‘‘

’’تم سمندر میں تیراکی کے لیے آئے ہو؟‘‘ باپ نے پوچھا۔

’’میں ٹینگو ہوں، ٹینگو کاوانا، آپ کا بیٹا۔‘‘

اس کے باپ کی پیشانی کی لکیریں مزید گہری ہوگئیں،’’بہت سارے لوگ جھوٹ بولتے ہیں کیوں کہ وہ NHK کی فیس دینا نہیں چاہتے۔‘‘

’’بابا!‘‘ ٹینگو نے یہ لفظ ایک زمانے کے بعد بولا تھا۔ ’’میں ٹینگو ہوں، آپ کا بیٹا۔‘‘

’’میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔‘‘ باپ نے اعلان کیا۔

’’آپ کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔‘‘ ٹینگو نے میکانیکی طور پر دہرایا۔ اس کے باپ نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’پھر میں کون ہوں؟‘‘ ٹینگو نے پوچھا۔

’’تم کچھ بھی نہیں ہو‘‘۔ اس نے باپ نے سر کو دو بار مختصراً جھٹکا۔

ٹینگو نے اپنی سانسیں بحال کیں۔ وہ کوئی لفظ تلاش نہیں کر پارہا تھا۔ نہ ہی اس کے باپ کے پاس مزید کہنے کو کچھ تھا۔دونوں اپنے اپنے خیالات میں کھوئے خاموش بیٹھے رہے۔ صرف باہر سے پتنگوں کا شور آرہا تھا۔

وہ شاید صحیح کہہ رہا ہے، ٹینگو نے سوچا۔ ہوسکتا ہے اس کی یادداشت چلی گئی ہو، لیکن اس کے باپ کے الفاظ سچ تھے۔

’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ ٹینگو نے پوچھا۔

’’تم کچھ بھی نہیں ہو۔‘‘ اس کے باپ نے دہرایا۔ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ ’’تم کچھ نہیں تھے، نہ تم کچھ ہو، اور نہ کبھی کچھ ہوگے۔‘‘

ٹینگو اسی وقت اپنی کرسی سے اٹھ کر اسٹیشن چلا جانا چاہتا تھا اور ٹرین پکڑ کر ٹوکیو واپس ہو جانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ اٹھ نہ پایا۔ وہ اس نوجوان کی طرح تھا جو بلّیوں کے شہر جا پہنچا تھا۔ اسے تجسس تھا۔ اسے ایک واضح جواب چاہئے تھا۔ اس میں بے شک خطرات تھے، لیکن ایک مرتبہ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو اس کے وجود پر راز کا پردہ پڑا ہی رہ جائے گا۔ ٹینگو نے ذہن میں الفاظ کو بار بار ترتیب دیا جب تک وہ دوبارہ بولنے کے لیے تیا ر نہیں ہوگیا۔ یہ سوال وہ بچپن سے ہی پوچھنا چاہتا تھا، لیکن پوچھ نہیں پایا تھا۔ ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہی نا کہ آپ میرے حقیقی باپ نہیں ہیں؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے درمیان کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے، یہی نا؟‘‘

’’ریڈیو کی لہریں چرانا غیر قانونی ہے۔‘‘اس کے باپ نے ٹینگو کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔’’یہ پیسہ اور قیمتی اشیا چرانے سے مختلف نہیں ہے۔ کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا؟‘‘

’’آپ کا خیال صحیح ہے۔‘‘ ٹینگو نے فی الحال مان جانے میں عافیت سمجھی۔

’’ریڈیو کی لہریں آسمان سے بارش یا برف کی طرح بلا قیمت نہیں برستیں‘‘، باپ نے کہا۔

ٹینگو نے باپ کے ہاتھوں کی طرف گھور کر دیکھا، وہ قرینے سے گھٹنوں پر رکھے ہوئے تھے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ، جن کا رنگ مسلسل باہر کام کرنے کی وجہ سے گہرا ہوگیا تھا۔

’’میری ماں میرے بچپن میں کسی بیماری کی وجہ سے نہیں مری تھی، ہے نا؟‘‘ ٹینگو نے آہستہ سے پوچھا۔ باپ نے جواب نہیں دیا۔ اس کا چہرہ بدستور سپاٹ رہا اور اس کے ہاتھوں میں بھی کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ اس کی آنکھیں ٹینگو پر جمی ہوئی تھیں جیسے وہ کوئی نامانوس شئے دیکھ رہا ہو۔

’’میری ماں نے آپ کو چھوڑ دیا۔ اس نے آپ کو اور مجھے چھوڑ دیا۔وہ کسی اور شخص کے ساتھ چلی گئی، ہے نا؟‘‘

اس کے باپ نے اثبات میں سر ہلایا، ’’ریڈیو کی لہریں چرانا اچھی بات نہیں۔ تم جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہو کر لو، لیکن بچ نہیں سکتے۔‘‘

یہ انسان میرے سوالات اچھی طرح سمجھ رہا ہے۔ وہ صرف جواب دینا نہیں چاہتا، ٹینگو نے سوچا۔

’’بابا‘‘ ٹینگو نے انہیں مخاطب کیا۔ ’’آپ بھلے ہی میرے باپ نہ ہوں لیکن میں آپ کو یہی کہوں گا کیوں کہ میں نہیں جانتا آپ کو اور کس طرح پکاروں۔ سچ کہوں تو میں نے آپ کو کبھی پسند نہیں کیا۔ شاید بیشتر اوقات میں نے آپ سے نفرت بھی کی۔ یہ آپ کو معلوم ہے، ہے نا؟ لیکن یہ فرض کر لینے سے کہ ہمارے بیچ خون کا رشتہ نہیں ہے میرے پاس آپ سے نفرت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مجھے پتہ نہیں کہ میں آپ کو پسند کرنے لگ جاؤں گا یا نہیں لیکن میں آپ کو جس قدر سمجھتا ہوں اس سے زیادہ سمجھنا چاہتا ہوں۔ میں ہمیشہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ بس اتنا ہی۔ اگر آپ مجھے یہ بات ابھی اسی وقت بتا دیں تو میں آپ سے نفرت کرنا بند کر دوں گا۔ بلکہ میں آئندہ آپ سے نفرت کبھی کروں گا ہی نہیں۔‘‘

ٹینگو کا باپ اسے اپنی جذبات سے عاری آنکھوں سے دیکھتا رہا، لیکن ٹینگو کو لگا کہ وہ روشنی کی بہت ہلکی سی کرن میں ان گھونسلوں کے اندر کہیں دیکھ رہا ہے۔

’’میں کچھ نہیں ہوں‘‘ ٹینگو نے کہا، ’’آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں اس انسان کی طرح ہوں جسے رات کی تاریکی میں سمندر میں پھینک دیا گیا ہو۔ اکیلے تیرتا ہوا کنارے پر پہنچتا ہوں، لیکن وہاں کوئی نہیں ہے۔ میرا کسی شئے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر میرے پاس خاندان نام کی کوئی چیز ہے تو وہ آپ ہیں، لیکن آپ کوئی راز کھولنا نہیں چاہتے۔ دریں اثنا، روز بہ روز آپ کی یاد داشت جواب دیتی جا رہی ہے۔ آپ کی یادداشت کے ساتھ میری سچّائیاں بھی گم ہو رہی ہیں۔ اپنی سچائی کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں، اور اس کے بغیر میں آئندہ بھی کچھ نہ رہوں گا۔ آپ یہاں بھی صحیح ہیں۔‘‘

’’جانکاری ایک قیمتی سماجی اثاثہ ہے۔‘‘ اس کے باپ نے اسی سپاٹ لہجے میں کہا، لیکن اس کی آواز پہلے سے زیادہ دھیمی تھی، جیسے کسی نے ریڈیو کی طرح اس کی آواز کو دھیمی کردی ہو۔ ’’یہ ایک ایسا اثاثہ ہے جسے کثرت سے جمع اور احتیاط سے خرچ کرنا چاہئے۔ اسے ثمر کی طرح آئندہ نسلوں کے حوالہ کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے بھی NHK کو تمہاری فیس کی ادائیگی ضروری ہے، اور ..‘‘

’’میری ماں کس طرح کی عورت تھی؟ وہ کہاں گئی؟ اسے کیا ہوا تھا؟‘‘، اس نے اپنے باپ کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔

اس کے باپ نے اپنی بدبداہٹ بند کی اور اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیا۔

ٹینگو کی آواز میں نرمی آگئی۔ اس نے کہنا شروع کیا، ’’ایک تصویر اکثر میرے ذہن میں ابھرتی ہے، وہی تصویر، بار بار۔ مجھے شک ہے کہ یہ تصویر سے زیادہ ایک ایسے واقعے کی یاد ہے جو اصل میں ہوا تھا۔ میں ڈیڑھ سال کا ہوں، اور ماں میری بغل میں ہے۔ وہ اور ایک نوجوان ایک دوسرے سے ہم آغوش ہیں اور وہ آدمی آپ نہیں ہیں۔ مجھے کچھ نہیں پتہ وہ کون ہے، لیکن اس کا یقین ہے کہ وہ آپ نہیں ہیں۔‘‘

اس کے باپ نے کچھ نہیں کہا، لیکن اس کی آنکھیں کسی ایسی چیز کو صاف دیکھ رہی تھیں جو وہاں نہیں تھی۔

’’کیا میں تم سے کچھ پڑھ کر سنانے کو کہہ سکتا ہوں۔‘‘ ٹینگو کے باپ نے کافی دیر بعد رسمی انداز میں کہا۔ ’’میری آنکھیں اب اتنی کمزور ہوگئی ہیں کہ میں کتابیں پڑھ نہیں پاتا۔ سامنے کتابوں کی الماری میں سے اپنی پسند کی کوئی کتاب لے آؤ۔‘‘

ٹینگو اٹھ کر کتابوں کی الماری کے قریب گیااور ان میں رکھی کتابوں کا جائزہ لینے لگا۔ ان میں زیادہ تر تاریخی ناول اس دور کے واقعات پر لکھے گئے تھے جب سمورائی اس زمین پر چلتے پھرتے تھے۔ ٹینگو ان کتابوں کو، جو قدیم اصطلاحات سے بھرے ہوئے تھے، پڑھنے پر خود کو آمادہ نہیں کر پایا۔

’’اگر آپ برا نہ مانیں تو میں ایک بلّیوں کے شہر کی کہانی سنانا چاہوں گا۔‘‘ ٹینگو نے کہا، ’’یہ وہ کتاب ہے جو میں سفر میں پڑھنے کے لیے لایا تھا۔‘‘

’’بلّیوں کے شہر کی کہانی‘‘، اس کے باپ نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’براہِ کرم وہ کہانی پڑھو، کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘

ٹینگو نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ ’’کوئی مسئلہ نہیں۔ میری ٹرین کے آنے میں ابھی کافی وقت ہے۔ یہ ایک عجیب کہانی ہے۔ پتہ نہیں آپ کو پسند آئے گی یا نہیں۔‘‘

ٹینگو نے کتاب نکالی اورآہستہ آہستہ واضح اور بلند آواز میں پڑھنا شروع کیا۔ وہ درمیان میں رکتا جاتا تھا تا کہ اپنی سانسیں بحال کر سکے۔ جب بھی وہ رکتا باپ کی طرف دیکھتا کہ اس کے چہرے پر کوئی نہ سمجھ پانے کا تاثر تو نہیں ۔ کیا اسے کہانی میں مزہ آرہا ہے؟ لیکن اسے اس کا یقین نہیں آیا۔

’’کیا بلّیوں کے شہر میں ٹیلی ویژن تھا؟‘‘ جب ٹینگو نے کہانی ختم کی اس کے باپ نے پوچھا۔

’’یہ کہانی جرمنی میں 1930کے دہے میں لکھی گئی تھی، تب ٹیلی ویژن نہیں تھا، ہاں ان کے پاس ریڈیو ضرور تھا۔‘‘

’’کیا بلّیوں نے شہر کی تعمیر خود کی تھی؟یا بلّیوں کے وہاں آکر رہنے سے قبل یہ انسانوں نے بنایا تھا۔

’’مجھے نہیں معلوم‘‘، ٹینگو نے کہا۔ ’’لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسے انسانوں نے بنایا تھا، اور کسی وجہ سے لوگ وہاں سے چلے گئے تھے، مثلاً وہ سب کسی وبا میں مرگئے ہوں اور پھر بلّیاں وہاں رہنے کے لئے آگئیں۔‘‘

اس باپ نے سر ہلایا، ’’جب خلا پیدا ہوتا ہے تو کسی چیز کو اسے بھرنے آنا پڑتا ہے۔ ہر کوئی یہی کرتا ہے۔‘‘

’’ہر کوئی یہی کرتا ہے؟‘‘

’’بالکل‘‘

’’آپ کس طرح کی خلا پر کر رہے ہیں؟‘‘

ٹینگو کا باپ جھنجھلا گیا۔ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا، ’’تمہیں نہیں معلوم؟‘‘

’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ ٹینگو نے کہا۔

باپ کے نتھے پھڑپھڑائے۔ اس نے ایک ابرو کو بلند کرتے ہوئے کہا، ’’اگر یہ تم بلا وضاحت نہیں سمجھ سکتے، تو پھر وضاحت کے ساتھ بھی نہیں سمجھ سکو گے۔‘‘

ٹینگو نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی۔ اس کے باپ کی زبان کبھی اتنی عجیب اور تجزیاتی نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ ٹھوس اور عملی لہجے میں بات کرتا تھا۔

’’اوہ، سمجھا۔ آپ کسی طرح کا خلا پر کررہے ہیں۔‘‘ ٹینگو نے کہا، ’’ٹھیک ہے، لیکن جو خلا آپ نے اپنے پیچھے چھوڑی ہے اسے کون پر کرے گا؟‘‘

’’تم‘‘، اس کے باپ نے شہادت کی انگلی سے ٹینگو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’کیا یہ ظاہر نہیں ہے؟ میں کسی اور کے خلا کو بھر رہا تھا، اس لئے میرے پیچھے اس خلا کو تم پر کرو گے۔‘‘

’’جس طرح بلّیاں اس خلا کو پر کرہی تھیں جو انسانوں کے چلے جانے کے بعد پیدا ہوا تھا۔‘‘

’’ہاں‘‘، اس کے باپ نے کہا۔ پھر وہ اپنی اٹھی ہوئی شہادت کی انگلی کو خالی خالی نظروں سے یوں تکنے لگا جیسے یہ ایک پراسرار اور غلط جگہ پر رکھی ہوئی کوئی شئے ہو۔

ٹینگو نے گہری سانس لی، ’’پھر میرا باپ کون ہے؟‘‘

’’صرف ایک خلا۔ تمہاری ماں نے اپنے جسم کا رابطہ ایک خلا سے قائم کیا اور تمہیں پیدا کیا۔ میں نے اس خلا کو پر کیا۔‘‘اتنا کہہ کر اس کے باپ نے اپنا منہ اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

’’اس کے جانے کے بعد آپ نے مجھے بڑا کیا، آپ یہی کہنا چاہ رہے ہیں؟‘‘

اس کے باپ نے بلند آواز میں اپنا گلا صاف کرتے ہوئے اس طرح کہنا شروع کیا جیسے ایک ٹیچر کسی کند ذہن طالب علم کو سمجھاتا ہے، ’’اسی لیے میں نے کہا تھا تم نہ بغیر وضاحت کے سمجھ سکتے ہو اور نہ ہی وضاحت کے ساتھ۔‘‘

ٹینگو نے اپنے ہاتھ اپنی گود میں موڑے اور اپنے باپ کی طرف ایک نظر کی۔ یہ شخص کوئی خالی خول نہیں ہے، اس نے سوچا۔ یہ ایک تنگ نظر اورضدی روح والا گوشت پوست کا انسان ہے۔ یہ اس ساحلِ سمندر پر وقفے وقفے سے جی رہا ہے۔ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس خلا کے ساتھ زندہ رہے جو اس کے اندر پھیل رہا ہے۔ آخر کار یہ خلا اسے نگل جائے گا، صرف وقت کی بات ہے۔ ٹینگو نے چھ بجے سے قبل اسے الودع کہا۔ ٹیکسی کے آنے تک وہ دونوں کھڑکی کے قریب خاموش بیٹھے رہے۔ ٹینگو کے پاس مزید کئی سوالات تھے جو وہ پوچھنا چاہتا تھا، لیکن وہ جانتا تھا اسے کوئی جواب ملنے والا نہیں۔ اس کے باپ کے بھنچے ہوئے ہونٹوں نے اسے سب کچھ کہہ دیاتھا۔ اگر تم کچھ بلا وضاحت نہیں سمجھ سکتے تو وضاحت کے ساتھ بھی نہیں۔ یہی اس کے باپ نے اس سے کہا تھا۔

جانے کا وقت قریب آنے لگا توٹینگو نے کہا، ’’آپ نے آج مجھے بہت کچھ بتایا۔ یہ نہ ہی براہِ راست تھا اور نہ آسانی سے سمجھ میں آنے والا۔ لیکن آپ شاید اس قدر ہی ایماندار ہو سکتے تھے اور اتنا ہی کھل سکتے تھے۔ مجھے اس کے لیے آپ کا ممنون ہونا چاہئے۔‘‘

اس کے باوجود ٹینگو کے باپ نے کچھ نہیں کہا۔ اس کی نظریں سامنے اس طرح مرکوز تھیں جیسے ڈیوٹی پر تعینات ایک سپاہی، اس آگ کے سگنل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا تھا جو قبائلی دور کی پہاڑیوں سے دیے جانے والے تھے ۔ ٹینگو نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کرنے کی کوشش کی، لیکن کھڑکیوں کے باہر تو صرف صنوبر کے درخت تھے، جن کا رنگ غروبِ آفتاب کی وجہ سے گہرا ہوگیا تھا۔

’’مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہاہے کہ میں اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا، سوائے اس کے کہ امید کروں کہ آپ کے اندر خلا بننے کا عمل تکلیف دہ نہ ہو۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے بہت دکھ اٹھائے۔ آپ نے میری ماں سے اتنی گہرائی سے پیار کیا جو آپ ہی کو پتہ ہے۔ میں یہ محسوس کرسکتا ہوں۔ لیکن وہ چلی گئی اور یہ آپ کے لیے بہت مشکل رہا ہوگا، جیسے آپ ایک خالی شہر میں رہ رہے ہوں۔ پھر بھی آپ نے اس خالی شہر میں مجھے بڑا کیا۔‘‘

کوؤں کا ایک غول آسمان پرسے گزرا۔ ٹینگو کھڑا ہوگیا، باپ کے قریب جاکر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے، ’’الودع بابا، میں جلد ہی دوبارہ آؤں گا۔‘‘

دروازے سے باہر نکلنے سے قبل ٹینگو نے مڑ کر ایک آخری بار اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ اسے یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ اس کے باپ کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ڈھلک کر اس کے رخسار پر ٹھہر گیا ہے۔ کمرے کی روشنی میں وہ پھیکا نقرئی رنگ کا نظر آرہا تھا۔ آنسو اس کے رخسار سے بہتا ہوا اس کی گود میں گر گیا۔ ٹینگو دروازے سے باہر نکل گیا۔ ایک ٹیکسی لیکروہ اسٹیشن پہنچا اور دوبارہ اس ٹرین پر سوار ہوگیاجو اسے یہاں لے کر آئی تھی۔

٠٠٠٠٠

 

ہاروکی مراکامی (Haruki Murakami) کی یہ شہرۂ آفاق کہانی، ’بلّیوں کا شہر‘ (TOWN OF CATS)کا ترجمہ ان کے مشہور مترجم جے روبن (Jay Rubin)نے انگریزی میں کیااور یہ کہانی امریکی ہفتہ وار نیو یارکر (The New Yorker)کے 5؍ ستمبر 2011کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ عامر سہیل  نے یہ ترجمہ مراکامی اور جے روبن کے شکریے کے ساتھ کیا تھا۔مراکامی نے کئی ناول اور کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ ان کے کہانی کہنے کا اپنا منفرد انداز ہے۔ ان کی تخلیق میں تخیل، حقیقت اور جادوئی عناصر کی دلچسپ آمیزش ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ان میں فرد کی تنہائی، اجنبیت اور بعض جگہ جنگ سے پیدا شدہ بربادی، بدحواسی، پژمردگی وغیرہ کا موثر بیان پایا جاتا ہے۔

 

بلیوں کا شہر

انگریزی سے اردو: سہیل اختر

 

کیونجی اسٹیشن پرٹینگوؔ چیو لائن کی تیز رفتار ٹرین پر سوار ہوا۔ کمپارٹمنٹ خالی پڑا ہوا تھا۔ اس نے آج کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ وہ جہا ں بھی گیا اور اس نے جو بھی کیا ( اور جو نہیں کیا) اپنی مرضی سے کیا۔ صبح کے دس بج رہے تھے۔ یہ گرمیوں کے دنوں میں ایک ایسا دن تھا جب ہوا رکی ہوئی تھی اور سورج اپنی تیز شعاعوں کے تیر پھینک رہا تھا۔ ٹرین شنجوکو، یوٹسویا اور اوشانومیزو سے گزرتی ہوئی آخری اسٹیشن ٹوکیو پر رکی۔ تمام مسافروں کے ساتھ ٹینگو بھی اتر گیا۔ ایک بنچ پر بیٹھ کر اس نے سوچنا شروع کیا کہ اسے کہاں جانا چاہئے۔ ’’میں جہاں چاہوں وہاں جا سکتا ہوں‘‘ اس نے خود سے کہا، ’’لگتا ہے آج کا دن کافی گرم ہوگا، مجھے ساحلِ سمندر پر جانا چاہئے۔‘‘ اس نے سر اٹھایا اور پلیٹ فارم گائیڈ کا مطالعہ کیا۔ تب اس نے محسوس کیا کہ وہ سارا دن کیا کرتا رہا ہے۔اس نے اپنے سر سے اس خیال کو جھٹکنے کی کوشش کی لیکن اس خیال نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اس نے غالباً غیر شعوری طور پر یہ فیصلہ تب ہی کر لیا تھا جب وہ چیولائن ٹرین پرکیونجی اسٹیشن سے سوار ہوا تھا۔ وہ ایک لمبی سانس لیکر بنچ پر سے اٹھ گیا اور ایک اسٹیشن ملازم سے چکورا جانے کے لئے تیز ٹرین کی بابت پوچھنے لگا۔ اس شخص نے ضخیم ٹائم ٹیبل کی ورق گردانی کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 11:30 کی اسپیشل ایکسپریس ٹرین سے ٹاٹے یاما پہنچ سکتا ہے اور وہاں سے لوکل ٹرین اسے چکوراقریب دو بجے تک پہنچا دے گی۔ ٹینگو نے ٹوکیو سے چکورا تک کے آنے جانے کی ٹکٹ خریدی اور ایک قریبی ریسٹورانٹ میں جاکر چاول، سالن اور سلادکا آرڈر دیا۔

اپنے باپ سے ملنے جانے کے خیال سے ہی اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اسے وہ شخص کوئی خاص پسند نہ تھا اور نہ ہی اس کے باپ کے دل میں ٹینگو کے لیے کوئی خاص جذبہ تھا۔ اس کا باپ چار سال قبل نوکری سے سبک دوش ہوا تھا اور فوراً ہی اسے چکورا کے سینی ٹوریم میں داخل کیا گیا جس میں ذہنی مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ ٹینگو اس سے قبل محض دو بار اسے دیکھنے گیا تھا، پہلی بارجب باپ کا داخلہ اس ہسپتال میں ہوا تھا اور ٹینگو کو اکلوتے رشتہ دارہونے کے ناطے کاغذات پُر کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ دوسری بار بھی کسی انتظامی امور کے سلسلے میں اسے جانا پڑا تھا۔ بس یہی دو بار۔

سینی ٹوریم ساحل سے متصل ایک وسیع پلاٹ پر واقع تھا۔ یہ لکڑی کی ایک دیدہ زیب عمارت اور تین منزلہ کانکریٹ کے بلڈنگ کی عجیب آمیزش تھی۔سمندری لہروں کے شور کے باوجود یہ ایک پرسکون جگہ تھی اور ہوا میں تازگی تھی۔ باغ کے سرے پر تاڑ کے درختوں کا ایک جھنڈ ہوا کے زور کو کم کرنے کے لئے لگایا گیا تھا۔ وہاں بہترین طبی سہولتیں تھیں۔ اپنے ہیلتھ انشورنس، ریٹائرمنٹ بونس، بچت اور پنشن کی بدولت ٹینگو کا باپ اپنی بقیہ زندگی وہاں آرام سے گزار سکتا تھا۔ بھلے ہی وہ اچھا خاصا ورثہ اپنے پیچھے نہ چھوڑے، لیکن اس کی زندگی کے باقی ماندہ سالوں میں اس کی اچھی نگہداشت ہو، یہی ٹینگو کی خواہش تھی۔ اپنے باپ کو کچھ دینے یا اس سے کچھ لینے کاٹینگو کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ دونوں دو مختلف انسان تھے، جن کے راستے اور منزلیں الگ الگ تھیں۔ محض اتفاقاً ہی دونوں نے زندگی کا کچھ وقت ساتھ گزارا تھا۔ یہ بہت شرم کی بات تھی کہ یوں ہوا، لیکن ٹینگو اس بارے میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

 

ٹینگو ٹکٹ لیکر پلیٹ فارم پر آکھڑا ہوا اور ٹاٹے یاما کی ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے ہم سفر خوش نظر آنے والے چند خاندان تھے جو ساحل پر کچھ دن گزارنے جا رہے تھے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اتوار آرام کا دن ہے۔ لیکن اپنے پورے بچپن میں ٹینگو کو کبھی نہیں لگا کہ اتوار لطف اندوز ہونے کا دن ہے۔ اتوار اس کے لیے ایک ایسے بے ڈھب چاند کی طرح ہوتا جو اس کے تاریک رخ پر ہی روشنی ڈالتا۔ ہفتہ کا دن آتے ہی اس پر تکان طاری ہوجاتی، بدن دکھنے لگتا اور بھوک مر جاتی۔ اس نے اتوار نہ آنے کے لئے دعائیں بھی مانگی تھیں لیکن ان کا کوئی اثر نہ ہوا۔

جب ٹینگو چھوٹا تھا، اس کا باپ NHKکے ممبروں کی فیس وصول کرنے کا کام کیا کرتا تھا۔ NHKجاپان کا نیم سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن Networkتھا۔ ہر اتوار وہ ٹینگو کو لے کر گھر گھر وصولی کے لئے نکل جاتا۔ ٹینگو اپنے باپ کے ہمراہ ان دوروں پر اس وقت سے جارہا تھا جب وہ ابھیKindergarten میں ہی تھا، اورپانچویں جماعت تک یہ کام بلا ناغہ کرتا رہا۔ اسے بالکل بھی پتہ نہ تھا کہNHK کے فیس وصول کرنے والے اہلکار صرف اتوار کو ہی کام کرتے ہیں یا دوسرے دنوں میں بھی؟ لیکن جہاں تک اسے یاد ہے اس کا باپ اتوار کو ان دوروں پر ضرور جایا کرتا تھا۔ عام دنوں کی بہ نسبت وہ اتوار کے دن کچھ زیادہ ہی جوش سے بھر جاتا کہ اتوار میں وہ انہیں بھی پکڑ سکتا تھا جو دوسرے دنوں میں گھر پر نہیں ملتے تھے۔

ٹینگو کے باپ کے پاس اسے اپنے ساتھ ان دوروں پر لے جانے کی کئی وجہیں تھیں۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ ٹینگو کو گھر پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ ہفتے کے دیگر دنوں میں تو وہ اسکول چلا جاتا اور سنیچر کوday-care میں رہ سکتا تھا، لیکن یہ جگہیں اتوار کو بند رہتی تھیں۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ ٹینگو کا باپ کہا کرتا تھا، بچے کا یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا گھر کیسے چل رہا ہے اور اسے مزدوری کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے۔ ٹینگو کا باپ اپنے والد کے ہمراہ بچپن سے ہی کھیتوں میں کام کرنے لگا تھااور دوسرے دنوں کی طرح اتوار کو بھی کام کرتا تھا۔ یہاں تک کہ فصل کے وقت اسے اسکول بھی جانے نہیں دیا جاتا ۔ ٹینگو کے باپ کے الفاظ میں یہی زندگی اسے ملی تھی۔

ٹینگو کے باپ کی تیسری اور آخری وجہ بے حد کاروباری تھی، جس نے کم عمر ٹینگو کے دل میں گہرے خراش چھوڑے تھے۔ باپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایک بچے کو ان دوروں پر ہمراہ لے جانے سے اس کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ بھی، جو اپنی جیبیں ہلکی کرنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتے، یہ دیکھ کر مجبور ہوجاتے کہ ایک بچہ انہیں گھور رہا ہے۔ اسی لیے ٹینگو کا باپ اپنے مشکل ترین دوروں کو اتوار کے لیے بچا رکھتا۔ ٹینگو کو بہت پہلے ہی اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اسے یہ کردار ادا کرنا ہے جس سے اسے سخت نفرت تھی۔ لیکن اسے یہ بھی احساس تھا کہ یہ کام ہوشیاری سے کرنا ہے تاکہ باپ کو خوش رکھا جاسکے۔ اگر وہ باپ کو خوش کرسکا تو اس دن باپ اس کے ساتھ رحم دلی سے پیش آئے گا۔ وہ خود کو ایک سدھائے ہوئے بندر کی طرح محسوس کرتا۔

لیکن ٹینگو کے لیے راحت کی بات یہ تھی کہ اتوار کے دورے گھر سے دور ہوتے۔ وہ اچی کاوا کے مضافات کے ایک رہائشی ضلع میں رہتے تھے اور دورے عموماً مرکزِ شہر کی طرف کے ہوتے۔ اس وصولی کے دوران کم از کم اپنے ہم جماعتوں سے اس کی مڈبھیڑ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی بازار کے علاقے میں جب اس کا کوئی ہم جماعت سڑک پر نظر آجاتا تو وہ بچنے کے لیے اپنے باپ کے پیچھے چھپ جاتا۔

پیر کی صبح اس کے اسکول کے دوست جوشیلے انداز میں بتاتے کہ وہ اتوار کے روز کہاں کہاں گئے اور کیا کیا انہوں نے کیا۔ وہ تفریحی پارک، چڑیا گھر اورBaseball gameدیکھنے جاتے۔ گرمیوں میں وہ تیراکی کے لیے جاتے اور سردیوں میں Skiingکے لیے۔ لیکن ٹینگو کے پاس کہنے کے لیے کبھی کچھ نہ ہوتا۔ اتوار کے روز وہ اور اس کاباپ گھروں کے کال بیل بجاتے، جھک کر سلام بجا لاتے اور پیسے وصول کرتے۔ اگر لوگ پیسے ادا کرنا نہیں چاہتے تو باپ انہیں دھمکیاں دیتا یا گڑگڑاتا۔ اگر لوگ ٹال مٹول کرتے تو وہ اپنی آواز اونچی کرلیتا۔ کبھی کبھی اس کا باپ انہیں کوسنے بھی لگتا۔ یہ تجربات ایسے نہیں تھے جن میں ٹینگو اپنے ہم جماعتوں کو حصّہ دار بنا سکتا۔ وہ سفید کالر والے ملازموں کے مڈل کلاس بچوں کے درمیان خود کو اجنبی محسوس کرتا۔ وہ ایک مختلف دنیا میں ایک الگ ہی زندگی جیتا تھا، حالانکہ کلاس میں وہ اچھے نمبرلاتا اور کھیل کود میں بھی اس کی قابلیت کے سبھی قائل تھے۔ اس لیے اجنبی ہوتے ہوئے بھی اس کے دوست اس سے کنارہ کش کبھی نہ ہوتے۔ عام طور پر سب اس سے عزت سے پیش آتے۔ لیکن جب کبھی اس کے دوست اتوار کے دن کہیں جانے کی دعوت دیتے یا اس کے گھر آنے کی پیش کش کرتے اسے انکار کرنا پڑتا۔ جلد ہی انہوں نے اس سے پوچھنا بھی بند کردیا۔

 

ٹینگو کا باپ ٹوہوکو کے ایک محنت کش خاندان کاتیسرا بیٹا تھا اوروہ گھر کم عمری میں ہی چھوڑ کر ان کاشتکاروں کے ساتھ شامل ہوگیا جو 1930 کے دہے میں ہجرت کر کے منچوریا آگئے۔ اس نے سرکار کے اس دعوے پر کبھی یقین نہیں کیا کہ منچوریا ایک جنّت ہے اور وہاں کی زمین بے حد زرخیز۔ وہ اتنا تو جانتا ہی تھا کہ ’جنّت‘ کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ وہ بھوکا اور غریب تھا۔ گھر میں وہ محض فاقہ زدہ زندگی کی امید کرسکتا تھا۔ منچوریا میں اسے اور دیگر کاشتکاروں کو زراعتی سہولتیں اور اوزار دیئے گئے۔ مٹی پتھریلی اور کم زرخیز تھی اور سردیوں میں تو سب کچھ منجمد ہوجاتا۔ کبھی کبھی تو انہیں آوارہ کتّوں کو مار کر کھانا پڑتا۔ سرکاری امداد کے باوجود ابتدائی چند سال بے حد سخت رہے۔ حالات سنبھلنے لگے تھے جب روس نے 1945کے اگست میں منچوریا پر حملہ کردیا۔ ٹینگو کے باپ کو اس کی امید پہلے سے ہی تھی کیوں کہ اس کی جانکاری ایک سرکاری اہل کار نے اسے دے دی تھی جس سے اس کی دوستی ہوگئی تھی۔ جنگ کی خبر پاتے ہی ٹینگو کے باپ نے اپنے اثاثے کو گھوڑے پر لادا اور علاقائی ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا اورڈالن کی آخری ٹرین پر سوار ہوگیا۔ وہ اپنے کاشتکار ساتھیوں میں سے اکیلا انسان تھا جو سال کے آخیر تک جاپان پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

جنگ کے بعد ٹینگو کا باپ ٹوکیو چلا گیا جہاں اس نے کالے بازار میں قسمت آزمائی کی اور ساتھ ہی بڑھئی کا کام بھی سیکھنے لگا۔ لیکن اس کمائی سے بمشکل ہی اس کا گزارہ ہوپاتا تھا۔ وہ اساکوسا کے ایک شراب خانے میں شراب پہنچانے کا کام کرتا تھا جب اس کی مڈبھیڑ اسی سرکاری اہلکار سے ہوئی جس سے اس کی دوستی منچوریا میں ہوئی تھی۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ٹینگو کے باپ کو کوئی قاعدے کی ملازمت نہیں مل رہی ہے تو اس نے NHKکے وصولیاتی شعبے میں اس کی سفارش کی پیش کش کی۔ ٹینگو کے باپ نے یہ تجویز بخوشی منظور کرلی۔ اسے NHKکے بارے میں کوئی معلومات نہ تھی لیکن وہ ایک معقول ماہانہ آمدنی کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔

NHKمیں ٹینگو کا باپ کافی جوش و خروش سے اپنا کام کرتا۔ نامساعد حالات میں ثابت قدمی اس کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ ایک ایسے شخص کے لیے جسے زندگی بھر کبھی بھر پیٹ کھانا نصیب نہ ہوا ہو، NHK کی فیس وصول کرناکوئی خاص تکلیف دہ کام نہیں تھا۔ لوگوں کی ملامتوں اور سخت نفرت آمیز کلمات کا بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حالانکہ وہ NHKکے سب سے نچلے درجے کے ملازمین میں شامل تھا، لیکن اس اہم ادارے سے وابستگی ہی اس کے لئے طمانیت کا باعث تھی۔ اس کی غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر ہی اسے عارضی ملازم سے ترقی دے کر مستقل ملازمین میں شامل کر لیا گیا، ایک ایسی انہونی جو NHKمیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ جلد ہی اسے کارپوریشن کا اپارٹمنٹ رہائش کے لیے مل گیااور کمپنی کی طبی سہولتیں بھی ملنے لگیں۔ یہ اس کی زندگی میں سب سے زیادہ خوش نصیبی کے لمحات تھے۔

 

ٹینگو کے باپ نے اسے بچپن میں کبھی لوریاں نہیں سنائیں، نہ ہی سونے کے وقت اسے کتابوں سے پڑھ کر کہانیاں سنائیں، وہ اسے اپنے حقیقی تجربات بتاتا۔ اسے کہانی سنانے کا ہنر آتا تھا۔ اس کے بچپن اور جوانی کے تجربات بہت خوشگوار نہیں تھے لیکن ان کی تفصیلات کافی دلچسپ ہوتیں۔ کچھ کہانیاں مزاحیہ ہوتیں، کچھ جاندار اور کچھ تشدد آمیز۔ اگر زندگی کو اس کی بوقلمونی اور اس کے انواع و اقسام کے تجربات کے پیمانے سے ناپا جائے، تو ٹینگو کے باپ کی زندگی ایک لحاظ سے بھرپور تھی۔ لیکن اس کی کہانیوں نے جیسے ہی وقت کی اس دہلیز پر قدم رکھا جب اسے NHK میں ملازمت ملی، تو اچانک ہی اس کی ساری دلکشی ختم ہو گئی۔ اس کی ملاقات ایک عورت سے ہوئی، اس سے شادی کی اور ایک بیٹا ہوا، ٹینگو۔ ٹینگو کی پیدائش کے چند مہینوں کے اندر ہی وہ سخت بیمار پڑی اور مر گئی۔ اس کے بعد اس کے باپ نے اس کی پرورش NHK کی مشقت بھری ملازمت کے دوران تنہا ہی کی۔ اور کہانی ختم۔ اس کی ملاقات ٹینگو کی ماں سے کیسے ہوئی اور شادی کیسے ہوئی؟ وہ کس طرح کی عورت تھی؟ اس کی موت کیسے ہوئی؟ اس کی موت آسان تھی یا وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مری؟ ٹینگو کے باپ نے اس بارے میں اسے تقریباً کچھ نہیں بتایا۔ اگر وہ اس بارے میں باپ سے کچھ پوچھتا، تو وہ پہلو تہی کرتا۔ اکثر یہ سوالات اس کا موڈ خراب کر دیتے۔ گھر میں اس کی ماں کی کوئی بھی تصویر نہیں بچی تھی۔

بنیادی طور پر ٹینگو نے اپنے باپ کی کہانی پراعتبار نہیں کیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی ماں اس کی پیدائش کے چند ہی مہینے بعد نہیں فوت ہوئی تھی۔ ماں کی اکلوتی یاد اس وقت کی تھی جب وہ صرف ڈیڑھ سال کا تھا اور اس کی ماں کسی اور شخص کی بانہوں میں اس کے پالنے کے قریب کھڑی ہے جو اس کا باپ نہیں تھا۔ اس کی ماں نے اپنا بلاؤز اتارا، انگیا کھولی اوروہ شخص، جو اس کا باپ نہیں تھا،اس کے پستانوں پر جھکا اور اسے چوسنے لگا۔ ٹینگو ان کے قریب ہی بستر پر سورہا تھا جب وہ دونوں ان خوش فعلیوں میں مصروف تھے۔ ٹینگو کی سانسیں ہموار تھیں لیکن وہ سو نہیں رہا تھا بلکہ ماں کو دیکھ رہا تھا۔

ماں کی یہی تصویر ٹینگو کے ذہن میں تھی۔ دس سکینڈ کا یہ منظر اپنی پوری وضاحت کے ساتھ اس کے دماغ میں محفوظ تھا۔ ماں کی یہ اکلوتی جانکاری اس کے پاس تھی، جو اس سے اس کا معدوم تعلق جوڑتی تھی۔ باپ کو اس کی بالکل ہی خبر نہ تھی کہ ٹینگو کے ذہن میں اس کی ماں کی ایسی یاد محفوظ ہے۔ ٹینگو ہمیشہ اس یاد کی جگالی کرتا رہتا جو اسے روحانی غذا پہنچاتی۔ باپ بیٹے، دونوں کے اپنے اپنے تاریک راز تھے جو وہ ایک دوسرے کو نہ بتاتے۔

 

بڑے ہونے پر ٹینگو اکثر سوچتا کہ اس کی ماں کی پستانوں پر جھکا ہوا وہ شخص کہیں اس کا قدرتی باپ تو نہیں۔ یہ اس لیے کہ ٹینگو اپنے باپ سے، جو NHK کا وصولیاتی ایجنٹ تھا، کوئی مشابہت نہ رکھتا تھا۔ ٹینگولمبا تڑنگااور مظبوط کاٹھی کا انسان تھا۔ اس کی پیشانی کشادہ، ناک ستواں اور اوسط کان تھے۔ جب کہ اس کا باپ ٹھگنا، چھوٹا اور غیر متاثر شخصیت کا مالک تھا۔ اس کی پیشانی تنگ، ناک چپٹی اور گھوڑے کی طرح نوکیلے کان تھے۔ ٹینگو جہاں مطمئن اور رحم دل نظر آتا تھا وہیں اس کا باپ مضطرب، نروس اور غصیلہ نظر آتا تھا۔ لوگ اکثر ان کی مشابہتوں کے فرق پر کھلے عام اظہارِ خیال کرتے۔

لیکن جو چیز ٹینگو کو اس کے باپ سے ممتاز کرتی تھی وہ جسمانی مشابہتوں کا اختلاف نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی بناوٹ کا فرق تھا۔ اس کے باپ میں ایسی کوئی چیز نہ تھی جسے ذہانت آمیزتجسس کہا جا سکے۔ یہ صحیح ہے کہ غربت میں پیدا ہونے کی وجہ سے اس نے کوئی معقول تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ ٹینگو کو اپنے باپ کے حالات پر ترس آتا تھا۔ لیکن حصولِ علم کی بنیادی تمنا، جسے ٹینگو ایک فطری خواہش سمجھتا تھا، اس شخص میں مفقود تھی۔ اس کے پاس محض عملی عقلمندی تھی جس نے اسے زندہ رکھا تھا۔ لیکن اس شخص میں ایسی کسی خواہش کا شائبہ تک نہ تھا کہ وہ وسیع دنیا کے تئیں کوئی نقطۂ نظر رکھنا چاہتا ہو۔ اسے اپنی محدود زندگی کے حبس زدہ ماحول سے کوئی بے چینی نہیں ہوتی تھی۔ ٹینگو نے اسے کبھی کوئی کتاب پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اسے فلم یا موسیقی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی، نہ ہی وہ کبھی تفریح کے لیے باہر گیا۔ اسے صرف اپنے وصولی دوروں سے دلچسپی ہوتی تھی۔ وہ ان علاقوں کے نقشے بناتا، اور رنگین قلم سے نشان زد کرتا، جیسے ماہرینِ حیاتیات Chromosomesکا مطالعہ کرتے ہوں گے۔

لیکن دوسری طرف ٹینگو اپنے اندر ہر چیز کے لیے تجسس پاتا۔ اس کے علوم کا دائرہ خاصا وسیع تھا۔ وہ علمِ حساب میں بچپن سے ہی غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا۔ وہ جب تیسری جماعت میں تھا، ہائی اسکول کے سوالات حل کرلیتا تھا۔ علمِ حساب اس کے لیے اپنی زندگی اور باپ سے پیچھا چھڑانے کا ایک موثر ذریعہ تھا۔ علمِ حساب کی دنیا میں وہ ایک راہداری میں چلتے ہوئے مختلف نمبروں کے دروازے کھولتا جاتا۔ ہر بار اس کے سامنے ایک الگ طلسمی جہان ہوتا جہاں اس کی حقیقی بدصورت دنیا کا کوئی نشان نہ ہوتا۔ جب تک وہ اس مملکت کی غیر مختتم دنیا میں ہوتا، وہ آزاد رہتا۔ جہاں ایک طرف علمِ حساب ٹینگو کے لیے ایک شاندار خیالی عمارت تھی، تو دوسری طرف ادب ایک جادوئی جنگل۔ علمِ حساب کا غیر محدود عمودی پھیلاؤآسمانوں کی طرف ہوتا، لیکن کہانیاں اس کے سامنے چاروں طرف پھیلی ہوتیں، جن کی تنومند جڑیں زمین میں گہری پیوست ہوتیں۔ نہ اس جنگل کا کوئی نقشہ تھا اور نہ ہی اس میں کوئی دروازہ۔ عمر کے ساتھ کہانیوں کا یہ جنگل اسے علمِ حساب کے مقابلے میں زیادہ پرکشش لگنے لگا۔ ظاہر ہے ناولوں کا مطالعہ بھی ایک طرح کا فرار ہی تھا، جب وہ کتاب بند کرتا اسے حقیقی دنیا میں لوٹ آنا پڑتا۔ لیکن اس نے محسوس کیا کہ ناولوں کی دنیا سے حقیقت میں لوٹنا اتنا المناک نہیں ہوتاجتنا علمِ حساب کی دنیا سے لوٹنا۔ ایسا کیوں ہے؟ بہت سوچنے کے بعد وہ ایک نتیجے پرپہنچا۔ کہانیوں کے جنگل میں اشیا کتنی ہی واضح کیوں نہ ہوں، وہاں مسائل کاکوئی حتمی حل نہیں ہوتا جیسے حساب کی دنیا میں ہوتا ہے۔ کہانی کا کام، وسیع تناظر میں ، مسائل کو ایک شکل سے دوسری میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ حل مسئلے کی شکل اور سمت پر منحصر ہوتاہے، جسے بیانیے میں تجویز کیا جاتا ہے۔ ٹینگو وہ تجاویز لیکر حقیقی دنیا میں لوٹ آتا۔ یہ ایسے کاغذ کے ٹکڑے کی طرح ہوتا جس پر جادوئی منتر تحریر ہوں۔ ان کا فوراً کوئی عملی مقصد بھلے ہی نہ ہو، لیکن ان میں کچھ امکانات تو تھے ہی۔

ٹینگو نے مطالعۂ ادب سے ایک ممکنہ حل نکالا۔ میرے حقیقی باپ کو کہیں اور ہونا چاہئے۔ چارلس ڈکنس کے ناول کے بد قسمت لڑکے کی طرح ، ٹینگو عجیب و غریب حالات سے دوچار ہوتا ہوا اس اجنبی انسان تک پہنچا تھا جو اس کی پرورش کررہا تھا۔ یہ ایک امید بھی ہو سکتی تھی، ایک کابوس بھی۔ ڈکنس کے Oliver Twistپڑھنے کے بعداس نے مقامی لائیبریری سے اس کی تمام کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ڈکنس کی کہانیوں سے گزرتے ہوئے اسے لگا کہ وہ اپنی زندگی کے حالات پڑھ رہا ہے۔ اس کا تخیل لمبا اور پیچیدہ ہوتا گیا۔ ایک پیٹرن میں مختلف جہات بنتے گئے۔ ہر طرح سے ٹینگو کو لگتا کہ اس کے باپ کا گھر وہ جگہ نہیں ہے جہاں اسے ہونا چاہئے۔ وہ غلطی سے اس پنجرے میں قید ہوگیا ہے اور ایک دن اس کے حقیقی والدین اسے چھڑا لے جائیں گے۔ تب اس کے پاس سب سے حسین، پرسکون اور آزاد اتوار ہوں گے۔

ٹینگو کے باپ نے اس کے امتیازی نمبروں پر ہمیشہ فخر کیا اور اس کا اعلانیہ اظہار وہ پڑوسیوں کے سامنے کرتا۔ پھر بھی اس میں ٹینگو کی ذہانت اور قابلیت پر ایک طرح کی اداسی جھلکتی تھی۔ اکثر، جب ٹینگو پڑھائی کی میز پر ہوتا، اس میں مخل ہوتا، اس سے گھر کے کام کرواتا یا اس کے ’جارحانہ‘ برتاؤ پر بک بک کرتا۔ اس کی بکواس ہمیشہ یہی ہوتی کہ ادھر وہ روزانہ دوڑ بھاگ کر رہا ہے، طویل فاصلوں کے دورے کر رہا ہے اور لوگوں کا کوسنا سہہ رہا ہے اور اُدھر ٹینگو اپنی ہی سہل پسند دنیا میں مگن مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے۔ وہ کہتا، ’’جب میں تمہاری عمر کا تھاتو صبح سے شام تک کمر توڑ مشقت کرتا تھا۔ میرے والد اور بھائی مجھے بلاوجہ پیٹا کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی مجھے بھر پیٹ کھانا نہیں دیا ۔ مجھ سے ہمیشہ جانوروں کی طرح سلوک کیا۔میں نہیں چاہتا کہ تم محض کچھ اچھے نمبروں کی وجہ سے یہ سمجھنے لگو کہ تم خاص ہو۔‘‘

یہ شخص مجھ سے حسد کرتا ہے، ٹینگو نے چند سالوں بعد یہ سوچنا شروع کردیا۔ یہ شخص مجھ سے یا میری زندگی سے جلتا ہے۔ لیکن کیا ایک باپ اپنے بیٹے سے بھی حسد کر سکتا ہے؟ ٹینگو نے اپنے باپ کے بارے میں ایسا کوئی سخت فیصلہ نہیں کیا لیکن جس طرح کی خود غرضی اس کی حرکات اور اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتی تھی ، وہ اس پر ترس کھائے بغیر نہ رہ سکا۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹینگو کا باپ اس سے یکسر نفرت کرتا تھا لیکن وہ ایسی کسی چیز سے نفرت کرتا تھا جو ٹینگو کے اندر تھی ، ایسی ایک شئے جسے وہ معاف نہیں کر سکتا تھا۔

 

جب ٹرین ٹوکیو اسٹیشن سے چلی تو ٹینگو نے وہ کتاب نکالی جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ یہ سفر کے موضوع پر ایک کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ اس میں ایک کہانی تھی ’بلّیوں کا شہر‘ ۔ یہ کسی جرمن مصنف کی ایک بہترین کہانی تھی، جس سے ٹینگو واقف نہ تھا۔ یہ کہانی ، جیسا کہ کتاب کے پیش لفظ میں درج تھا، دونوں عظیم جنگوں کے دوران لکھی گئی تھی ۔

کہانی میں ایک نوجوان، کسی منزل کا فیصلہ کئے بغیر سفر کر رہا ہے۔ وہ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے ایسے کسی بھی اسٹیشن پر اتر جاتا ہے جو اسے دلچسپ نظر آتا۔ وہاں وہ ایک کمرہ کرائے پر لے کرمناظر سے لطف اندوز ہوتا اور جب تک طبیعت سیر نہیں ہوجاتی، ٹھہرتا۔ جب اکتا جاتا تودوسری ٹرین پکڑتا۔ وہ اپنی ہر تعطیل اسی طرح گزارتا ہے۔

ایک دن اسے ٹرین کی کھڑکی سے ایک خوبصورت ندی نظر آئی۔ ندی ایک سر سبز پہاڑی کے دامن میں بہہ رہی تھی اور وہیں ایک چھوٹا سا حسین شہر تھا۔ اسے ندی پر ایک پرانے پتھروں کا پل بھی نظر آیا۔ جب اس شہر کے اسٹیشن پر ٹرین رکی تو وہ اپنے بیگ سمیت اترگیا۔اور اس کے اترتے ہی ٹرین روانہ ہو گئی۔

اسٹیشن پر کوئی بھی نہ تھا۔ نہ کوئی سرکاری ملازم، نہ کوئی مزدور اور نہ ہی کوئی مسافر۔ نوجوان پل پار کر کے شہر میں داخل ہو گیا۔ ساری دکانیں بند پڑی تھیں۔ ٹاؤن ہال سنسان پڑا تھا۔ شہر کے اکلوتے ہوٹل کی میز پر بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ جگہ پوری طرح غیر آباد لگتی تھی۔ شاید تمام لوگ کہیں سو رہے تھے۔ لیکن ابھی صبح کے محض ساڑھے دس بج رہے تھے۔ شاید کسی وجہ سے تمام لوگ یہ شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کسی بھی صورت میں اسے اگلی ٹرین آئندہ صبح ہی مل سکتی تھی۔ اس لیے اس کے پاس یہاں رات گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ وقت گزاری کے لیے شہر میں آوارہ گردی کرنے لگا۔ دراصل یہ بلّیوں کا شہر تھا۔ سورج کے ڈھلتے ہی بہت ساری بلّیاں پل پار کرکے شہر میں آگئیں۔ ہر قسم اور کئی رنگوں کی بلّیاں۔ وہ عام بلّیوں کے مقابلے میں تھوڑی بڑی ضرور تھیں، لیکن تھیں بلّیاں ہی۔ یہ دیکھ کر نوجوان کو سخت حیرت اور دہشت ہوئی۔ وہ بھاگ کر شہر کے بیچ میں واقع گھنٹہ گھر میں گھس گیا اور زینے طے کر کے سب سے اوپری جگہ پر جا کر چھپ گیا۔بلّیوں نے حسبِ معمول اپنا کام شروع کیا۔ دوکانیں کھلیں، اور میزوں پر بیٹھ کر وہ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئیں۔ جلد ہی پل پار کر کے شہر میں مزید بلّیاں آگئیں۔ وہ دکانوں میں خریداریاں کر رہی تھیں، ٹاؤن ہال جاکر انتظامی امور سنبھال رہی تھیں، ہوٹلوں میں کھاناکھارہی تھیں، شراب خانوں میں شراب پی رہی تھیں یا بلیوں کے گیت گا رہی تھیں۔ چونکہ بلّیاں اندھیرے میں دیکھ سکتی تھیں، انہیں روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اس رات چاند کی چودہویں تاریخ تھی اور چاندنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے نوجوان گھنٹہ گھر کی بلندی سے چاروں طرف صاف دیکھ سکتا تھا۔ سپیدۂ سحر کے نمودار ہوتے ہی بلّیوں نے اپنے کام ختم کئے، دکانیں بند کیں اور ان کے جھنڈ کے جھنڈ پل پار کر کے شہر سے باہر چلے گئے۔

جب سورج طلوع ہوا، بلّیاں شہر سے جا چکی تھیں اور شہر ایک بار پھر سے سنسان ہوگیا۔ نوجوان نیچے اتر آیا۔ ہوٹل کے ایک کمرے میں جاکر سو گیا۔ جب اسے بھوک لگی، اس نے ہوٹل کے باورچی خانہ میں بچی ہوئی پاؤ روٹی اور مچھلی کھائی۔ شام ہوتے ہی وہ پھر سے گھنٹہ گھر میں چھپ گیا اور بلّیوں کی حرکات کا صبح تک مشاہدہ کرتا رہا۔ ٹرینیں وہاں کے اسٹیشن پرمحض ایک منٹ کے لیے دن میں دو بار رکتیں، دوپہر سے کچھ پہلے اور سہ پہر میں، اور پھر چل پڑتیں۔ ٹرینوں سے اس اسٹیشن پر نہ کوئی مسافر اترتا نہ وہاں سے چڑھتا۔ وہ ان میں سے کوئی بھی ٹرین پکڑ کر اس عجیب بلّیوں کے شہر سے جاسکتا تھا۔ لیکن وہ گیا نہیں۔ جوان ہونے کی وجہ سے اس میں تجسس تھا اور وہ یہاں مزید رکنے کا خطرہ اٹھانے کے لیے تیار تھا۔ وہ اس عجیب و غریب دنیا کو مزید دیکھنا چاہتا تھا اور ممکن ہو سکے تو یہ پتہ لگانے کی کوشش کرے گا کہ کب اور کیسے یہ بلّیوں کا شہر بنا۔

تیسری رات نیچے گھنٹہ گھر کے چوراہے پر ایک شور سا برپا تھا۔ ’’کیا تمہیں انسانی بوٗ آرہی ہے؟‘‘ ایک بلّی دوسری سے پوچھ رہی تھی۔ ’’ اب جب کہ تم نے ذکر کیا ہے، یہاں چند دنوں سے مجھے کچھ عجیب سی بوٗ آرہی ہے‘‘۔ دوسری نے اپنی ناک سکوڑتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھے بھی۔‘‘ ایک اور بلّی بولی۔ ’’عجیب بات ہے، یہاں کسی انسان کو نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ایک اور نے اضافہ کیا۔ ’’ظاہر ہے، بالکل نہیں۔ یہاں اس بلّیوں کے شہر میں کوئی انسان پہنچ ہی نہیں سکتا‘‘۔ ’’لیکن بوٗ تو ضرور ہے۔‘‘

بلّیوں نے گروہ بنائے اور جاسوسوں کی طرح تلاش میں جٹ گئیں۔ انہوں نے جلد ہی پتہ لگا لیا کہ بو گھنٹہ گھر سے ہی آرہی ہے۔ نوجوان نے زینے پر ان کے نازک پنجوں کی چاپ سنی کہ وہ اوپر آرہی ہیں۔ بس! اب میں پکڑا گیا، اس نے سوچا۔ اس کی بوٗ سے بلّیاں غصّے میں تھیں۔ انسانوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس نے بلّیوں کے تیز ناخنوں اور نوکیلے دانتوں کے بارے میں سوچا۔ وہ سوچ نہیں پا رہا تھاکہ کیا خوفناک واقعہ اس کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اگر انہوں نے اسے پا لیا، تو بلیاں اسے یہاں سے زندہ نہیں جا نے دیں گی۔

بلّیاں گھنٹہ گھر کے اوپر تک چڑھ آئیں اور ہوا میں سونگھنے لگیں۔ ’’عجیب‘‘، ایک بلّی نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔ ’’انسانی بوٗ تو ہے لیکن تعجب ہے یہاں کوئی انسان نہیں‘‘۔

’’بالکل عجیب ہے‘‘، دوسری بلّی نے کہا، ’’لیکن یہاں واقعی کوئی نہیں ہے۔ چلو، کہیں اور دھونڈتے ہیں۔‘‘

بلّیاں تعجب سے اپنے سر ہلاتی ہوئی زینے سے اتر گئیں۔ نوجوان ان کے پنجوں کی معدوم ہوتی آہٹیں تاریکی میں سنتا رہا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا، لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ابھی ابھی ہوا کیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اسے نہ دیکھ پاتیں، لیکن کسی وجہ سے وہ انہیں نظر نہیں آیا۔ کسی بھی صورت میں، اس نے فیصلہ کیا ، کہ اگلی صبح وہ ٹرین پکڑ کر اس شہر سے چلا جائے گا۔ خوش قسمتی ہمیشہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتی ہے۔ لیکن اگلی صبح ٹرین اسٹیشن پر نہیں رکی۔ وہ دیکھتا رہا اور ٹرین آہستہ ہوئے بغیر گزر گئی۔ سہ پہر کی ٹرین کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ انجن کے ڈرائیور کو صاف دیکھ سکتا تھا، لیکن ٹرین کے رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے دیکھ نہیں پا رہا ہے یا پھر کسی کو یہ اسٹیشن ہی نظر نہیں آرہا ہے۔ سہ پہر کی ٹرین کے نظر سے اوجھل ہوتے ہی وہاں خاموشی طاری ہوگئی۔ سورج ڈھلنے لگا اور یہ وقت بلّیوں کے شہر میں آنے کا تھا۔ نوجوان کو معلوم ہوگیا کہ وہ گم ہوچکا ہے اور اب کوئی بھی اس کا پتہ نہیں لگا پائے گا۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ کوئی بلّیوں کا شہر نہیں، بلکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں اسے گم ہونا تھا۔ یہ دنیا خاص طور پر اس کے لیے ہی بنائی گئی ہے اور تا ابد یہاں کوئی ٹرین نہیں رکنے والی جو اسے اس دنیا میں واپس لے جائے جہاں سے وہ آیا ہے۔

 

ٹینگو نے دو بار وہ کہانی پڑھی۔ اور یہ جملہ ’یہ وہ جگہ ہے جہاں اسے گم ہونا تھا‘ اس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا۔ اس نے کتاب بند کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ ٹرین کسی صنعتی علاقے سے گزر رہی تھی۔ جلد ہی اسے نیند آگئی۔ ایک مختصر سی نیند۔ وہ اٹھا تو پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ ٹرین بوسو جزیرے کے ساحلی علاقے سے گزر رہی تھی اور یہ گرمیوں کا موسم تھا۔

ایک صبح، جب ٹینگو ابھی پانچویں جماعت میں تھا، بہت سوچنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ اب اتوار کے دنوں میں اپنے باپ کے ساتھ اسکے کاروباری دورے پر نہیں جائے گا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ یہ وقت وہ کتابیں پڑھنے اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں صرف کرنا چاہتا ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کی طرح عام زندگی جینا چاہتا تھا۔

ٹینگو نے اپنی بات مختصراً واضح الفاظ میں کہی۔ اس کا باپ، ظاہر ہے، پھٹ پڑا۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ دوسرے خاندان کیا کرتے ہیں۔ اس نے کہا، ’’ہم اپنی طرح زندگی جیتے ہیں۔ بقراط صاحب! ’عام زندگی‘ کے بارے میں مجھ سے بات کرنے کی ہمت بھی مت کیجئے گا۔ تم جانتے ہی کیا ہو اس ’عام زندگی‘ کے بارے میں؟‘‘ٹینگو نے اس سے بحث کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے باپ کو صرف خاموشی سے گھور کر دیکھا۔ اسے معلو م تھا کہ وہ کچھ بھی کہے، اس کے باپ پر اثر ہونے والا نہیں۔ پھر اس کے باپ نے کہا کہ اگر ٹینگو نہیں سنتا ہے تو وہ مزید اسے کھلا پلا کر پال نہیں سکتا اور وہ کہیں اور دفع ہوسکتا ہے۔

ٹینگو نے وہی کیا جو اس کے باپ نے کہا۔ اس نے تہیّہ کر لیا تھا کہ وہ مزید ڈر کر رہنے والا نہیں۔ اب جب کہ اسے یہ پنجرہ چھوڑ کر جانے کی اجازت مل گئی تھی، اسے کچھ اور نہیں مگر راحت کا احساس ہوا۔ لیکن ایک دس سال کا لڑکا تنِ تنہا کس طرح زندگی سے لڑ سکتا ہے۔ ایک دن اسکول ختم ہونے کے بعد اس نے اپنی ٹیچر کو اپنی رام کہانی سنائی۔ ٹیچر ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ رحم دل اور منصف مزاج خاتون تھی۔ وہ ٹینگو کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آئی۔ اس شام وہ اسے اپنے ساتھ ٹینگو کے باپ کے پاس ایک طویل گفتگو کے لیے لے گئی۔

ٹینگو کو کمرے سے باہر چلے جانے کے لیے کہا گیا، اس لیے اسے کوئی علم نہیں کہ ان دونوں کے بیچ کیا باتیں ہوئیں۔ اس کے باپ کو ہار ماننی پڑی۔ وہ جتنا بھی غصّہ ور ہو، ایک دس سال کے بچے کو سڑک پر تنہا آوارہ گردی کے لیے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ قانونی طور بھی والدین پر اپنے بچوں کی پرورش کی ذمّہ داری تھی۔

ٹیچر اور اس کے باپ کے درمیان ہوئی گفتگو کے نتیجے میں ٹینگو اب آزاد تھا کہ جس طرح چاہے اپنی اتوار کی چھٹی گزارے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس نے باپ سے اپنا کوئی حق جیتا تھا۔ آزادی اور خود مختاری کی طرف یہ اس کا پہلا قدم تھا۔

 

سینی ٹوریم میں رسپشن پر ٹینگو نے اپنا اور اپنے باپ کا نام بتایا۔ نرس نے پوچھا، ’’کیا آپ نے یہ اطلاع پہلے دی تھی کہ آج آپ ان سے ملنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟‘‘ نرس کی آواز میں تیزی تھی۔ وہ ایک چھوٹی قد کی عورت تھی، دھات کے فریم والا چشمہ لگایا ہوا تھا اور اس کے چھوٹے بالوں میں کچھ چاندی کے تار جھلملا رہے تھے۔

’’نہیں۔ میں نے آج ہی اس کا فیصلہ کیا اور ٹرین پکڑ کر چلا آیا۔‘‘ ٹینگو نے پوری ایمانداری سے بتایا۔

نرس نے اسے حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’یہاں آنے والوں کو ہمیں پہلے سے مطلع کرنا ہوتا ہے کہ وہ کب مریض کو دیکھنے آرہے ہیں۔ ہمارے ملاقات کے اپنے اوقات ہیں … اور مریض کی خواہش کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔‘‘

’’مجھے افسوس ہے، مجھے یہ سب نہیں معلوم تھا۔‘‘

’’آپ آخری بار کب یہاں ملاقات کے لیے آئے تھے؟‘‘

’’دو سال قبل‘‘

’’دو سال قبل‘‘، نرس نے اس مریض سے ملنے آنے والوں کی فہرست کا معائنہ کیا، اس کے ہاتھ میں ایک قلم تھا، ’’آپ کا مطلب ہے دو سالوں میں ملاقات کے لیے آپ ایک بار بھی نہیں آئے؟‘‘

’’جی، بالکل صحیح‘‘۔

’’ہمارے ریکارڈ کے مطابق، آپ مسٹر کاوانا کے اکلوتے رشتہ دار ہیں۔‘‘

’’ہاں، یہ صحیح ہے۔‘‘

اس نے ٹینگو کو گھورا لیکن کہا کچھ نہیں۔ اس کی آنکھیں اس پر الزام تراشی نہیں کر رہی تھیں، وہ صرف حقائق چیک کر رہی تھی۔ بظاہر ٹینگو کا معاملہ کوئی غیر معمولی نہیں تھا۔

’’فی الحال آپ کے والد اپنے گروپ کے بحالی پروگرام میں ہیں۔ یہ گھنٹے بھر میں ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد آپ ان سے مل سکتے ہیں۔‘‘

’’کیسے ہیں وہ؟‘‘

’’جسمانی طور پر وہ صحت مند ہیں۔ ذہنی طور پر وہ مختلف اتار چڑھاؤ سے گزرتے رہے ہیں۔‘‘ نرس نے اپنے ابروؤں کو شہادت کی انگلی سے سہلاتے ہوئے جواب دیا۔

ٹینگو نے اس کا شکریہ ادا کیا اور لاؤنج میں جاکر انتظار کرنے لگا۔ وہ دوبارہ اپنی کتاب کا مطالعہ کرنے لگا، ہوائیں بہہ رہی تھیں جن میں سمندر کی خنکی اور باہر لگے صنوبر کے درختوں کی خوشبو گھلی ہوئی تھی۔ گرمیوں کے پتنگے شور مچا رہے تھے۔ حالانکہ گرمی اپنے شباب پرتھی لیکن ان پتنگوں کو غالباً خبر تھی کہ گرمیاں اب ختم پر ہیں۔

بالآخر نرس نمودار ہوئی اور اسے بتایا کہ وہ اپنے باپ سے ملاقات کر سکتا ہے۔ ’’میں آپ کو ان کا کمرہ دکھا دیتی ہوں‘‘ اس نے کہا۔ ٹینگو صوفے سے اٹھ گیا۔ ایک بڑے آئینے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دن میں پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس نے بد وضع لباس پہن رکھا ہے۔ ایک بوسیدہ شرٹ کے اندر جاپانی طرز کا ٹی شرٹ، بھورا ڈھیلا پائجامہ، جس کے گھٹنوں کے قریب سرخ چٹنی کے نشان تھے، اور سر پر کیپ۔ یہ کسی بھی طرح ایک تیس سالہ انسان کو زیب نہیں دیتا تھا جو دو سالوں بعد اپنے باپ سے ملنے آیا ہو۔ نہ ہی اس کے ہاتھوں میں کوئی ایسی چیز تھی جسے وہ تحفتاً مریض کو دے سکتا تھا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پہلی نظر میں نرس نے اسے حقارت سے دیکھا تھا۔

ٹینگو کا باپ کمرے میں تھا۔ وہ کھلی ہوئی کھڑکی کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ اس کے گھٹنوں پر تھے۔ اس کی قریبی میز پر نازک زرد پھولوں کا ایک گملا تھا۔ فرش پر نرم قالین تھا کہ اگر کوئی گرے تو اسے چوٹ نہ لگنے پائے۔ ٹینگو کو پہلے یہ لگا کہ کھڑکی کے قریب بیٹھا شخص کوئی اور ہے۔ وہ ایک لمحے کو سکڑ سا گیا، جسے ’کانپنا ‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کے بال چھوٹے تھے اور اس قدر سفید جیسے برف سے ڈھکا کوئی لان۔ اس کے گال پچکے ہوئے تھے اس وجہ سے اس کی دھنسی ہوئی آنکھیں پہلے سے زیادہ بڑی نظر آرہی تھیں۔ اس کی پیشانی پر تین گہری لکیریں تھیں۔ اس کے ابرو گھنے اور لمبے تھے، اور اس کے نوکیلے کان پہلے سے زیادہ بڑے لگ رہے تھے جیسے چمگادڑ کے بازو ہوں۔ دور سے وہ کسی انسان کی بجائے کسی چوہے یا گلہری کی طرح کی ایک مکار مخلوق نظر آ رہا تھا۔ پھر بھی وہ تھا ٹینگو کا باپ، یا شاید ٹینگو کے باپ کا ٹوٹا پھوٹا کھنڈر۔ ٹینگو کے ذہن میں اپنے باپ کی شبیہہ ایک کٹھور اور محنت کش انسان کی تھی۔ تفکر اور تخیل سے بھلے ہی اسے کوئی علاقہ نہ ہو لیکن اس کے اپنے اخلاقی اقدار تھے اور مقصدیت کے تئیں اپنا شعور۔ اب جو شخص ٹینگو کے سامنے تھا، وہ اس کے باپ کا محض ایک خول نظر آرہا تھا۔

’’مسٹر کاوانا!‘‘ نرس نے ٹینگو کے باپ سے واضح الفاظ میں کہا۔ شاید مریضوں سے اس طرح مخاطب ہونے کی اسے ٹریننگ ملی ہو۔ ’’مسٹر کاوانا! دیکھئے آپ سے ملنے کون آیا ہے۔ ٹوکیو سے آپ کا بیٹا۔‘‘

ٹینگو کا باپ ان کی طرف مڑا۔ اس کی آنکھیں کسی بھی جذے سے عاری تھیں، جس سے ٹینگو کے ذہن میں کارنس سے جھولتے پرندوں کے دوگھونسلوں کا تاثر ابھرا۔

’’ہیلو‘‘ ٹینگو نے کہا۔

اس کا باپ کچھ کہنے کی بجائے سیدھا ٹینگو کی طرف دیکھتا رہا جیسے وہ کسی غیر ملکی زبان میں کوئی خبر پڑھ رہا ہو۔

’’ڈنر شام ساڑھے چھ بجے شروع ہوتا ہے‘‘ نرس نے ٹینگو سے کہا۔ ’’آپ بہ آسانی تب تک رک سکتے ہیں۔‘‘

نرس کے جانے کے بعد ٹینگو ایک لمحے کے لیے جھجھکا، پھر وہ اپنے باپ کے پاس ایک کرسی لے کر اس کے سامنے بیٹھ گیا، کرسی کے کپڑے کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا اور اس کی لکڑی پر طویل استعمال سے خراشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے باپ کی آنکھوں نے اس کی حرکات کا تعاقب کیا۔

’’کیسے ہیں آپ؟‘‘ ٹینگو نے پوچھا۔

’’بہت اچھا، شکریہ‘‘ اس کے باپ نے جواب دیا۔

ٹینگو کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے بعد کیا کہے۔ اپنی شرٹ کے تیسرے بٹن سے کھیلنے کے بعد وہ باہر کے صنوبر کے درختوں کو دیکھنے لگا اور اس کے بعد اپنے باپ کو۔

’’تم ٹوکیو سے آئے ہو، کیا یہ صحیح ہے؟‘‘ باپ نے پوچھا۔

’’ہاں! ٹوکیو سے۔‘‘

’’پھر تم اکسپریس ٹرین سے آئے ہوگے‘‘۔

’’جی، بالکل صحیح‘‘، ٹینگو نے جواب دیا۔ ’’ٹاٹے یاما تک، اس کے بعد لوکل ٹرین سے یہاں چکورا تک آیا۔‘‘

’’تم سمندر میں تیراکی کے لیے آئے ہو؟‘‘ باپ نے پوچھا۔

’’میں ٹینگو ہوں، ٹینگو کاوانا، آپ کا بیٹا۔‘‘

اس کے باپ کی پیشانی کی لکیریں مزید گہری ہوگئیں،’’بہت سارے لوگ جھوٹ بولتے ہیں کیوں کہ وہ NHK کی فیس دینا نہیں چاہتے۔‘‘

’’بابا!‘‘ ٹینگو نے یہ لفظ ایک زمانے کے بعد بولا تھا۔ ’’میں ٹینگو ہوں، آپ کا بیٹا۔‘‘

’’میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔‘‘ باپ نے اعلان کیا۔

’’آپ کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔‘‘ ٹینگو نے میکانیکی طور پر دہرایا۔ اس کے باپ نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’پھر میں کون ہوں؟‘‘ ٹینگو نے پوچھا۔

’’تم کچھ بھی نہیں ہو‘‘۔ اس نے باپ نے سر کو دو بار مختصراً جھٹکا۔

ٹینگو نے اپنی سانسیں بحال کیں۔ وہ کوئی لفظ تلاش نہیں کر پارہا تھا۔ نہ ہی اس کے باپ کے پاس مزید کہنے کو کچھ تھا۔دونوں اپنے اپنے خیالات میں کھوئے خاموش بیٹھے رہے۔ صرف باہر سے پتنگوں کا شور آرہا تھا۔

وہ شاید صحیح کہہ رہا ہے، ٹینگو نے سوچا۔ ہوسکتا ہے اس کی یادداشت چلی گئی ہو، لیکن اس کے باپ کے الفاظ سچ تھے۔

’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ ٹینگو نے پوچھا۔

’’تم کچھ بھی نہیں ہو۔‘‘ اس کے باپ نے دہرایا۔ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ ’’تم کچھ نہیں تھے، نہ تم کچھ ہو، اور نہ کبھی کچھ ہوگے۔‘‘

ٹینگو اسی وقت اپنی کرسی سے اٹھ کر اسٹیشن چلا جانا چاہتا تھا اور ٹرین پکڑ کر ٹوکیو واپس ہو جانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ اٹھ نہ پایا۔ وہ اس نوجوان کی طرح تھا جو بلّیوں کے شہر جا پہنچا تھا۔ اسے تجسس تھا۔ اسے ایک واضح جواب چاہئے تھا۔ اس میں بے شک خطرات تھے، لیکن ایک مرتبہ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو اس کے وجود پر راز کا پردہ پڑا ہی رہ جائے گا۔ ٹینگو نے ذہن میں الفاظ کو بار بار ترتیب دیا جب تک وہ دوبارہ بولنے کے لیے تیا ر نہیں ہوگیا۔ یہ سوال وہ بچپن سے ہی پوچھنا چاہتا تھا، لیکن پوچھ نہیں پایا تھا۔ ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہی نا کہ آپ میرے حقیقی باپ نہیں ہیں؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے درمیان کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے، یہی نا؟‘‘

’’ریڈیو کی لہریں چرانا غیر قانونی ہے۔‘‘اس کے باپ نے ٹینگو کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔’’یہ پیسہ اور قیمتی اشیا چرانے سے مختلف نہیں ہے۔ کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا؟‘‘

’’آپ کا خیال صحیح ہے۔‘‘ ٹینگو نے فی الحال مان جانے میں عافیت سمجھی۔

’’ریڈیو کی لہریں آسمان سے بارش یا برف کی طرح بلا قیمت نہیں برستیں‘‘، باپ نے کہا۔

ٹینگو نے باپ کے ہاتھوں کی طرف گھور کر دیکھا، وہ قرینے سے گھٹنوں پر رکھے ہوئے تھے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ، جن کا رنگ مسلسل باہر کام کرنے کی وجہ سے گہرا ہوگیا تھا۔

’’میری ماں میرے بچپن میں کسی بیماری کی وجہ سے نہیں مری تھی، ہے نا؟‘‘ ٹینگو نے آہستہ سے پوچھا۔ باپ نے جواب نہیں دیا۔ اس کا چہرہ بدستور سپاٹ رہا اور اس کے ہاتھوں میں بھی کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ اس کی آنکھیں ٹینگو پر جمی ہوئی تھیں جیسے وہ کوئی نامانوس شئے دیکھ رہا ہو۔

’’میری ماں نے آپ کو چھوڑ دیا۔ اس نے آپ کو اور مجھے چھوڑ دیا۔وہ کسی اور شخص کے ساتھ چلی گئی، ہے نا؟‘‘

اس کے باپ نے اثبات میں سر ہلایا، ’’ریڈیو کی لہریں چرانا اچھی بات نہیں۔ تم جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہو کر لو، لیکن بچ نہیں سکتے۔‘‘

یہ انسان میرے سوالات اچھی طرح سمجھ رہا ہے۔ وہ صرف جواب دینا نہیں چاہتا، ٹینگو نے سوچا۔

’’بابا‘‘ ٹینگو نے انہیں مخاطب کیا۔ ’’آپ بھلے ہی میرے باپ نہ ہوں لیکن میں آپ کو یہی کہوں گا کیوں کہ میں نہیں جانتا آپ کو اور کس طرح پکاروں۔ سچ کہوں تو میں نے آپ کو کبھی پسند نہیں کیا۔ شاید بیشتر اوقات میں نے آپ سے نفرت بھی کی۔ یہ آپ کو معلوم ہے، ہے نا؟ لیکن یہ فرض کر لینے سے کہ ہمارے بیچ خون کا رشتہ نہیں ہے میرے پاس آپ سے نفرت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مجھے پتہ نہیں کہ میں آپ کو پسند کرنے لگ جاؤں گا یا نہیں لیکن میں آپ کو جس قدر سمجھتا ہوں اس سے زیادہ سمجھنا چاہتا ہوں۔ میں ہمیشہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ بس اتنا ہی۔ اگر آپ مجھے یہ بات ابھی اسی وقت بتا دیں تو میں آپ سے نفرت کرنا بند کر دوں گا۔ بلکہ میں آئندہ آپ سے نفرت کبھی کروں گا ہی نہیں۔‘‘

ٹینگو کا باپ اسے اپنی جذبات سے عاری آنکھوں سے دیکھتا رہا، لیکن ٹینگو کو لگا کہ وہ روشنی کی بہت ہلکی سی کرن میں ان گھونسلوں کے اندر کہیں دیکھ رہا ہے۔

’’میں کچھ نہیں ہوں‘‘ ٹینگو نے کہا، ’’آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں اس انسان کی طرح ہوں جسے رات کی تاریکی میں سمندر میں پھینک دیا گیا ہو۔ اکیلے تیرتا ہوا کنارے پر پہنچتا ہوں، لیکن وہاں کوئی نہیں ہے۔ میرا کسی شئے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر میرے پاس خاندان نام کی کوئی چیز ہے تو وہ آپ ہیں، لیکن آپ کوئی راز کھولنا نہیں چاہتے۔ دریں اثنا، روز بہ روز آپ کی یاد داشت جواب دیتی جا رہی ہے۔ آپ کی یادداشت کے ساتھ میری سچّائیاں بھی گم ہو رہی ہیں۔ اپنی سچائی کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں، اور اس کے بغیر میں آئندہ بھی کچھ نہ رہوں گا۔ آپ یہاں بھی صحیح ہیں۔‘‘

’’جانکاری ایک قیمتی سماجی اثاثہ ہے۔‘‘ اس کے باپ نے اسی سپاٹ لہجے میں کہا، لیکن اس کی آواز پہلے سے زیادہ دھیمی تھی، جیسے کسی نے ریڈیو کی طرح اس کی آواز کو دھیمی کردی ہو۔ ’’یہ ایک ایسا اثاثہ ہے جسے کثرت سے جمع اور احتیاط سے خرچ کرنا چاہئے۔ اسے ثمر کی طرح آئندہ نسلوں کے حوالہ کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے بھی NHK کو تمہاری فیس کی ادائیگی ضروری ہے، اور ..‘‘

’’میری ماں کس طرح کی عورت تھی؟ وہ کہاں گئی؟ اسے کیا ہوا تھا؟‘‘، اس نے اپنے باپ کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔

اس کے باپ نے اپنی بدبداہٹ بند کی اور اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیا۔

ٹینگو کی آواز میں نرمی آگئی۔ اس نے کہنا شروع کیا، ’’ایک تصویر اکثر میرے ذہن میں ابھرتی ہے، وہی تصویر، بار بار۔ مجھے شک ہے کہ یہ تصویر سے زیادہ ایک ایسے واقعے کی یاد ہے جو اصل میں ہوا تھا۔ میں ڈیڑھ سال کا ہوں، اور ماں میری بغل میں ہے۔ وہ اور ایک نوجوان ایک دوسرے سے ہم آغوش ہیں اور وہ آدمی آپ نہیں ہیں۔ مجھے کچھ نہیں پتہ وہ کون ہے، لیکن اس کا یقین ہے کہ وہ آپ نہیں ہیں۔‘‘

اس کے باپ نے کچھ نہیں کہا، لیکن اس کی آنکھیں کسی ایسی چیز کو صاف دیکھ رہی تھیں جو وہاں نہیں تھی۔

’’کیا میں تم سے کچھ پڑھ کر سنانے کو کہہ سکتا ہوں۔‘‘ ٹینگو کے باپ نے کافی دیر بعد رسمی انداز میں کہا۔ ’’میری آنکھیں اب اتنی کمزور ہوگئی ہیں کہ میں کتابیں پڑھ نہیں پاتا۔ سامنے کتابوں کی الماری میں سے اپنی پسند کی کوئی کتاب لے آؤ۔‘‘

ٹینگو اٹھ کر کتابوں کی الماری کے قریب گیااور ان میں رکھی کتابوں کا جائزہ لینے لگا۔ ان میں زیادہ تر تاریخی ناول اس دور کے واقعات پر لکھے گئے تھے جب سمورائی اس زمین پر چلتے پھرتے تھے۔ ٹینگو ان کتابوں کو، جو قدیم اصطلاحات سے بھرے ہوئے تھے، پڑھنے پر خود کو آمادہ نہیں کر پایا۔

’’اگر آپ برا نہ مانیں تو میں ایک بلّیوں کے شہر کی کہانی سنانا چاہوں گا۔‘‘ ٹینگو نے کہا، ’’یہ وہ کتاب ہے جو میں سفر میں پڑھنے کے لیے لایا تھا۔‘‘

’’بلّیوں کے شہر کی کہانی‘‘، اس کے باپ نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’براہِ کرم وہ کہانی پڑھو، کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘

ٹینگو نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ ’’کوئی مسئلہ نہیں۔ میری ٹرین کے آنے میں ابھی کافی وقت ہے۔ یہ ایک عجیب کہانی ہے۔ پتہ نہیں آپ کو پسند آئے گی یا نہیں۔‘‘

ٹینگو نے کتاب نکالی اورآہستہ آہستہ واضح اور بلند آواز میں پڑھنا شروع کیا۔ وہ درمیان میں رکتا جاتا تھا تا کہ اپنی سانسیں بحال کر سکے۔ جب بھی وہ رکتا باپ کی طرف دیکھتا کہ اس کے چہرے پر کوئی نہ سمجھ پانے کا تاثر تو نہیں ۔ کیا اسے کہانی میں مزہ آرہا ہے؟ لیکن اسے اس کا یقین نہیں آیا۔

’’کیا بلّیوں کے شہر میں ٹیلی ویژن تھا؟‘‘ جب ٹینگو نے کہانی ختم کی اس کے باپ نے پوچھا۔

’’یہ کہانی جرمنی میں 1930کے دہے میں لکھی گئی تھی، تب ٹیلی ویژن نہیں تھا، ہاں ان کے پاس ریڈیو ضرور تھا۔‘‘

’’کیا بلّیوں نے شہر کی تعمیر خود کی تھی؟یا بلّیوں کے وہاں آکر رہنے سے قبل یہ انسانوں نے بنایا تھا۔

’’مجھے نہیں معلوم‘‘، ٹینگو نے کہا۔ ’’لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسے انسانوں نے بنایا تھا، اور کسی وجہ سے لوگ وہاں سے چلے گئے تھے، مثلاً وہ سب کسی وبا میں مرگئے ہوں اور پھر بلّیاں وہاں رہنے کے لئے آگئیں۔‘‘

اس باپ نے سر ہلایا، ’’جب خلا پیدا ہوتا ہے تو کسی چیز کو اسے بھرنے آنا پڑتا ہے۔ ہر کوئی یہی کرتا ہے۔‘‘

’’ہر کوئی یہی کرتا ہے؟‘‘

’’بالکل‘‘

’’آپ کس طرح کی خلا پر کر رہے ہیں؟‘‘

ٹینگو کا باپ جھنجھلا گیا۔ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا، ’’تمہیں نہیں معلوم؟‘‘

’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ ٹینگو نے کہا۔

باپ کے نتھے پھڑپھڑائے۔ اس نے ایک ابرو کو بلند کرتے ہوئے کہا، ’’اگر یہ تم بلا وضاحت نہیں سمجھ سکتے، تو پھر وضاحت کے ساتھ بھی نہیں سمجھ سکو گے۔‘‘

ٹینگو نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی۔ اس کے باپ کی زبان کبھی اتنی عجیب اور تجزیاتی نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ ٹھوس اور عملی لہجے میں بات کرتا تھا۔

’’اوہ، سمجھا۔ آپ کسی طرح کا خلا پر کررہے ہیں۔‘‘ ٹینگو نے کہا، ’’ٹھیک ہے، لیکن جو خلا آپ نے اپنے پیچھے چھوڑی ہے اسے کون پر کرے گا؟‘‘

’’تم‘‘، اس کے باپ نے شہادت کی انگلی سے ٹینگو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’کیا یہ ظاہر نہیں ہے؟ میں کسی اور کے خلا کو بھر رہا تھا، اس لئے میرے پیچھے اس خلا کو تم پر کرو گے۔‘‘

’’جس طرح بلّیاں اس خلا کو پر کرہی تھیں جو انسانوں کے چلے جانے کے بعد پیدا ہوا تھا۔‘‘

’’ہاں‘‘، اس کے باپ نے کہا۔ پھر وہ اپنی اٹھی ہوئی شہادت کی انگلی کو خالی خالی نظروں سے یوں تکنے لگا جیسے یہ ایک پراسرار اور غلط جگہ پر رکھی ہوئی کوئی شئے ہو۔

ٹینگو نے گہری سانس لی، ’’پھر میرا باپ کون ہے؟‘‘

’’صرف ایک خلا۔ تمہاری ماں نے اپنے جسم کا رابطہ ایک خلا سے قائم کیا اور تمہیں پیدا کیا۔ میں نے اس خلا کو پر کیا۔‘‘اتنا کہہ کر اس کے باپ نے اپنا منہ اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

’’اس کے جانے کے بعد آپ نے مجھے بڑا کیا، آپ یہی کہنا چاہ رہے ہیں؟‘‘

اس کے باپ نے بلند آواز میں اپنا گلا صاف کرتے ہوئے اس طرح کہنا شروع کیا جیسے ایک ٹیچر کسی کند ذہن طالب علم کو سمجھاتا ہے، ’’اسی لیے میں نے کہا تھا تم نہ بغیر وضاحت کے سمجھ سکتے ہو اور نہ ہی وضاحت کے ساتھ۔‘‘

ٹینگو نے اپنے ہاتھ اپنی گود میں موڑے اور اپنے باپ کی طرف ایک نظر کی۔ یہ شخص کوئی خالی خول نہیں ہے، اس نے سوچا۔ یہ ایک تنگ نظر اورضدی روح والا گوشت پوست کا انسان ہے۔ یہ اس ساحلِ سمندر پر وقفے وقفے سے جی رہا ہے۔ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس خلا کے ساتھ زندہ رہے جو اس کے اندر پھیل رہا ہے۔ آخر کار یہ خلا اسے نگل جائے گا، صرف وقت کی بات ہے۔ ٹینگو نے چھ بجے سے قبل اسے الودع کہا۔ ٹیکسی کے آنے تک وہ دونوں کھڑکی کے قریب خاموش بیٹھے رہے۔ ٹینگو کے پاس مزید کئی سوالات تھے جو وہ پوچھنا چاہتا تھا، لیکن وہ جانتا تھا اسے کوئی جواب ملنے والا نہیں۔ اس کے باپ کے بھنچے ہوئے ہونٹوں نے اسے سب کچھ کہہ دیاتھا۔ اگر تم کچھ بلا وضاحت نہیں سمجھ سکتے تو وضاحت کے ساتھ بھی نہیں۔ یہی اس کے باپ نے اس سے کہا تھا۔

جانے کا وقت قریب آنے لگا توٹینگو نے کہا، ’’آپ نے آج مجھے بہت کچھ بتایا۔ یہ نہ ہی براہِ راست تھا اور نہ آسانی سے سمجھ میں آنے والا۔ لیکن آپ شاید اس قدر ہی ایماندار ہو سکتے تھے اور اتنا ہی کھل سکتے تھے۔ مجھے اس کے لیے آپ کا ممنون ہونا چاہئے۔‘‘

اس کے باوجود ٹینگو کے باپ نے کچھ نہیں کہا۔ اس کی نظریں سامنے اس طرح مرکوز تھیں جیسے ڈیوٹی پر تعینات ایک سپاہی، اس آگ کے سگنل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا تھا جو قبائلی دور کی پہاڑیوں سے دیے جانے والے تھے ۔ ٹینگو نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کرنے کی کوشش کی، لیکن کھڑکیوں کے باہر تو صرف صنوبر کے درخت تھے، جن کا رنگ غروبِ آفتاب کی وجہ سے گہرا ہوگیا تھا۔

’’مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہاہے کہ میں اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا، سوائے اس کے کہ امید کروں کہ آپ کے اندر خلا بننے کا عمل تکلیف دہ نہ ہو۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے بہت دکھ اٹھائے۔ آپ نے میری ماں سے اتنی گہرائی سے پیار کیا جو آپ ہی کو پتہ ہے۔ میں یہ محسوس کرسکتا ہوں۔ لیکن وہ چلی گئی اور یہ آپ کے لیے بہت مشکل رہا ہوگا، جیسے آپ ایک خالی شہر میں رہ رہے ہوں۔ پھر بھی آپ نے اس خالی شہر میں مجھے بڑا کیا۔‘‘

کوؤں کا ایک غول آسمان پرسے گزرا۔ ٹینگو کھڑا ہوگیا، باپ کے قریب جاکر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے، ’’الودع بابا، میں جلد ہی دوبارہ آؤں گا۔‘‘

دروازے سے باہر نکلنے سے قبل ٹینگو نے مڑ کر ایک آخری بار اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ اسے یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ اس کے باپ کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ڈھلک کر اس کے رخسار پر ٹھہر گیا ہے۔ کمرے کی روشنی میں وہ پھیکا نقرئی رنگ کا نظر آرہا تھا۔ آنسو اس کے رخسار سے بہتا ہوا اس کی گود میں گر گیا۔ ٹینگو دروازے سے باہر نکل گیا۔ ایک ٹیکسی لیکروہ اسٹیشن پہنچا اور دوبارہ اس ٹرین پر سوار ہوگیاجو اسے یہاں لے کر آئی تھی۔

٠٠٠٠٠

 

ہاروکی مراکامی (Haruki Murakami) کی یہ شہرۂ آفاق کہانی، ’بلّیوں کا شہر‘ (TOWN OF CATS)کا ترجمہ ان کے مشہور مترجم جے روبن (Jay Rubin)نے انگریزی میں کیااور یہ کہانی امریکی ہفتہ وار نیو یارکر (The New Yorker)کے 5؍ ستمبر 2011کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ عامر سہیل  نے یہ ترجمہ مراکامی اور جے روبن کے شکریے کے ساتھ کیا تھا۔مراکامی نے کئی ناول اور کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ ان کے کہانی کہنے کا اپنا منفرد انداز ہے۔ ان کی تخلیق میں تخیل، حقیقت اور جادوئی عناصر کی دلچسپ آمیزش ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ان میں فرد کی تنہائی، اجنبیت اور بعض جگہ جنگ سے پیدا شدہ بربادی، بدحواسی، پژمردگی وغیرہ کا موثر بیان پایا جاتا ہے۔

ہاروکی مراکامی کی کہانی کا یہ ترجمہ اختر سہیل صاحب نے مجھے بھیجا تھا۔وہ ایک باکمال شاعر تھے۔ دشت زاد کے نام سے ان کا ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہوا تھا۔افسوس ہے کہ جب یہ ادبی دنیا پر شائع ہوا تو اختر سہیل صاحب کا نام اس میں غلطی سے عامر سہیل ہوگیا تھا۔اب ایک مدت بعد میں اس غلطی کو درست کررہا ہوں۔ 2019 میں ان کا اچانک انتقال ہوگیا۔وہ ادبی دنیا کوپڑھنے، سننے اور پسند کرنے والوں میں تھے، بالکل شروعاتی دور میں انہوں نے میری ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔آج اس کہانی کی دوبارہ اشاعت میری جانب سے ان کو خراج محبت بھی ہے۔ترجمے کی زبان سہل اور سندر ہے، اور کہانی تو عمدہ ہے ہی۔کسی روز سہیل اختر کا شعری انتخاب بھی اسی ویب سائٹ کے ذریعے آپ دوستوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔شکریہ!