اویناش مشر کی نظمیں

یہ شاعر ہیں اور نظمیں بھی لکھتے ہیں

 

شاعروں کو اب نظمیں کم کردینی چاہییں

اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی

کہ وہ اب بھی بہت کم ہیں

اور مختلف ادوار اور زبانوں میں

ان کی اہمیت پر لگاتار بحث بنی رہتی ہے

میں اس طرح سوچا کرتا ہوں کہ

ایک نظم کافی ہوگی ایک شاعر کے لیے

اور کبھی کبھی کئی شاعروں کے لیے

ایک نظم بھی بہت زیادہ ہوگی

انسانیت کے لاتعداد نمائندوں

اور ان کے ناقابل تصور مظالم کے خلاف

میں اس طرح۔۔۔اس طرح سوچا کرتا ہوں کہ۔۔۔۔

 

میں کچھ نہیں کررہا ہوں

 

ایک شخص

میرے بچپن کا دوست

میرے پڑوس میں

مجھ سے دور

کیا کرتا ہے

میں کبھی جان نہیں پایا

جاننا نہیں چاہا

وہ کھینچتا کھنچاتا رہا تصویریں

اور خوش نظر آتا رہا

پتنی اور بچوں کے ساتھ

اس کے بچے بڑے ہوتے رہے تصویروں میں

اس کے بال جھڑنے اور سفید ہونے لگے تصویروں میں

میں اس کی تصویریں پسند کرتا رہا

جبکہ مجھے اس کا ووٹ پتا تھا

پتہ تھے اس کے شغل

اس کی نفرتیں

پھر بھی میں نے کیا اس کا سواگت

کہا تم بنے رہو

اور تمہارا اقتدار

تمہارا علم

میں نے اسے بہت پیار سے بھائی کہا

فاشسٹ کہتا تو وہ کیسے جان پاتا:

میں کیا کہہ رہا ہوں!

 

ہندی سے بھرے ہوئے کنوئیں میں

 

یہ ایک بہت پرانی بات ہے

سب محرومینِ اقتدار، اقتدار سے نفرت کرتے ہیں

لیکن  زبانیں ہتھیار نہیں ہوتیں

 

یہ ایک بہت پرانی بات ہے

زبانیں خودغرضی کو مٹادیتی ہیں

اور آدرش مقاصد کو

 

یہ ایک بہت پرانی بات ہے

زبانیں  ملنسار اور رہنما ہوتی ہیں

لیکن  ہمدردیاں آخر کار  بدعنوان ہوجاتی ہیں

 

یہ ایک بہت پرانی بات ہے

سکھ کو آفاقی کردو

اور دکھ کوذات تک محدود

 

یہ ایک بہت پرانی بات ہے

یہ ایک کنوئیں کا پانی کہتا تھا

یہ اس کنوئیں میں مینڈکوں  کی آمد سے پہلے کی بات ہے

 

میں باہر سے بند تھا کیا

 

ماتھا میرا گرم تھا

لیکن کسی نے چھوا نہیں

میں کھانا کھاکر نہیں آیا تھا

لیکن ‘کھاؤ گے؟’ کسی نے پوچھا نہیں

چائے زیادہ نہیں دو یا تین کپ دن بھر میں

کوئی ساتھ میں پیے تو بہت بہتر

اسے اکیلے کھَولانے کی ہمت نہیں رہی

لیکن سب شراب پینا چاہتے تھے

کسی نے نہیں کہا کہ کبھی گھر چائے پر آئیے

 

میں بہت دنوں سے سینے میں اٹھتے درد کو دبائے ہوئے ہوں

لیکن وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ زور زور سے ہنسوں

 

کوئی اور وجہ رہی ہوگی

 

کوئی صرف بیس روپے کے لیے قتل کیوں کرے گا

کوئی کیوں پریم کو ثابت کرنے کے لیے

محبوبہ کے پرکشش چہرے پر تیزاب پھینکے گا

کوئی کیوں محض ریگنگ کے کارن کلائی کی نس کاٹ  لے گا

کوئی کیوں امتحان میں کم نمبر آنے پرزہر کھاکر جان دے دے گا

ایک لاکھ  کا قرض ہے محض اس لیے کوئی خودکشی کیوں کرے گا

‘جنت میں بہتر حوریں ملتی ہیں وصل کے لیے’

اس انعام کے لیے کوئی دھرتی پر بم دھماکے کیوں کرے گا

سمجھ داریاں اتنی کھوکھلی اور برائیاں اتنی عام کیوں ہیں آج کل

جبکہ  مہاپُرش سب کچھ ہندی میں سمجھاتے آئے ہیں

 

کوئی کچھ بدلنے کے لیے ووٹ

اور کوئی کچھ بدلنے کے لیے قتل عام کیوں کرے گا

کچھ غلط فہمیاں ہیں آئیے انہیں دور کر لیں

جیون میں بے وقوفیوں کے  یہ بے روک سلسلے اس سے شاید کچھ تھم جائیں

 

ان کی بیویاں

 

وہی مجبور کرتی ہیں کتابیں بیچنے پر

و ہی بتاتی ہیں کہ کیا سب سے ضروری ہے آنکھوں کے لیے

و ہی دھکیلتی ہیں میرے دوستوں کو

ہومیوپیتھ اور جیوتش کے جڑ سنسار میں

و ہی کہتی ہیں کہ آج سے چائے بند اور کل سے اخبار

و ہی ایشور کو اہم بنادیتی ہیں

و ہی بے وقوفیوں کو

 

میرے دوست تھک کر اپنا ماضی یاد کرتے ہیں

یہ ایک بے وقت نسیان کی علامت ہے

جو موجود کو گزر چکے کی طرح

برتنے کے لیے اکساتا ہے

 

جیسے  ناتراشیدگی خود چنتی ہے اپنی بناوٹ

ویسے ہی اس سارے قابل نفرت  عمل سے گزرتے ہوئے

میں اکیلے پن کو دور کرنے کے لیے

صرف ایک نوکر رکھوں گا

جو مجھے لوٹ کر بھاگے گا ایک دن

اور انگریزی کا بڑا شاعر بنے گا

 

بد صورت عورت کی ضرورت

 

اس دوپہر وہ ہر جگہ اپنی ناموجودگی

بڑی شدت سے محسوس کرتی رہی

 

شام ڈھلے جب بہت سارے راستے جگمگا اٹھے

تب بھی کسی پوسٹر میں اس نے خود کو نہیں پایا

کھوئی کھوئی سی وہ رات دیواروں کے بیچ لوٹ آئی

اور اپنے سارے کپڑے اتار کر

اپنے بدن کو اپنے ہی ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے سو گئی

 

صبح ہونے پر جب وہ جاگی

وہ یہ سوچ کر خوش ہوئی

کہ وہ کسی اور کے بستر پر نہیں ہے

ہوائیں کھانستی ہوئی گزرتی تھیں بدشکل کوچوں سے

تھوڑا اور بھیتر گھسنے پر

کچھ ختم کیے جانے کا بے رحم شور سنائی دیتا تھا

جہاں وہ اڑتی ہوئی پتنگوں اور ڈربے نما مکانوں کے بیچ پیدا ہوئی

اور دھیمے دھیمے اپنے سارے خواب کھو کر

شام سے اندھیرے کی طرح ہوگئی

 

یہ جان کر بھی کہ سارے سپنے اس میں ہی کہیں کھو گئے ہیں

اس نے کبھی انہیں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی

 

اس وقت جب خوبصورتی مقابلوں میں شریک ہورہی تھی

وہ چاہتی تھی  ہتھیا لینا ہر وہ سامان آرائش

جس سے زیادہ اور زیادہ بدصورت دکھا جاسکے

 

اپنے بلاتکار کے ہر ڈر کو مضمحل کرتی ہوئی

وہ محفوظ تھی اپنے بنائے گھیرے میں

 

بسیں دھول اڑاتی ہوئی جاتی تھیں اس کے چہرے پر

لیکن وہ چِپکی نہیں رہی

کسی مرد کی قمیص سے بٹن بن کر

 

وہ اس طرح تھی

کہ بس آئینہ ہی دیکھ سکتا تھا اسے پرہوس نظروں سے

رات ہی کرسکتی تھی اس سے پریم

خواب ہی ہوسکتے تھے اس کی طرف راغب

اداسی ہی لے سکتی تھی اس کا بوسہ

اس کے ان بے رنگ ساتھیوں کے یہاں

آنکھوں سے چننے کا کوئی منظر نہ تھا

 

بہت کچھ جھوٹ تھا اس کے لیے

اور کپکپی سب سے بڑی سچائی زندگی کی

 

دنیا میں سب کچھ ویسا  ہی تھا:

فنون، مقابلے، بلاتکار، شادیاں اور اشتہار

اور وہ بھی ویسی ہی تھی:

آئینوں کے پہلے، آئینوں کے رہتے، آئینوں کے بعد۔۔۔

 

سموسہ

 

سموسہ نہ کھا سکنے کے قصے بھی دکھ کا حصہ ہیں

یہ قصے مجھے میرے پہلے سموسے کی یاد دلاتے ہیں۔ پہلا سموسہ جو میں نے کھایا، وہ پچاس پیسے کا تھا۔ جہاں میں نے اسے کھایا تھا، وہاں آج بھی اس کی قیمت پانچ سات روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس کا ذائقہ ساری حسوں کو بیدار اور چاق و چوبند کردینے والا تھا۔

ان کی ابتدا ، ان کی تاریخ اور تنوع یہاں میرا موضوع نہیں ہے۔ میرا موضوع صرف وہ ہی سموسے ہیں، جنہیں میں نے کھایا ہے۔ بہت بہت بھوکی دوپہروں میں۔ ان کی کشش نے مجھے کانٹوں سا جکڑا ہے اور سواد نے شہد سا۔ میری عمر کے نہ جانے کتنے ہی دنوں کی خوراک صرف سموسے رہے ہیں۔ وہ فوراً بھوک ماردینے کے معاملے میں سب سے سستے، اثردار اور کم نقصان دہ ہتھیار ہیں۔ بھوک کبھی بھی لگ سکتی ہے۔ مفلسی میں وہ سدا ہی لگی رہتی ہے، لیکن سموسوں کا ایک سمے ہے۔ ان کے لیے اکثر دوپہر تک انتظار کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بنانے والے ان کی تیاری میں صبح سے لگتے ہیں۔ انہیں شام میں کھاؤ تو رات میں کچھ کھانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ وہ دیر تک بھوک کو دور رکھتے ہیں۔

ایک دن میں دس دس سموسے کھانے کی یادیں ہیں میرے پاس۔

مجھے بچپن میں خالہ زاد اور ماموں زاد بھائیوں کا بڑا پیار ملا۔ وہ جو آپ کو پیار کرتے ہیں، آپ کی خواہشیں جانتے ہیں۔ بچپن کی خواہشیں سموسوں سی گرم اور سہل تھیں۔ بھائی جب آتے، انہیں ساتھ لیے آتے۔

سموسوں کی ابتدائی یاد کبھی زندگی سے گئی نہیں۔ وہ سدا تقابلی بنی رہی۔ کچھ چیزیں خود بنانا ناانصافی ہے۔ اس لیے سموسے گھر میں بنانے کی چیز نہیں ہیں۔ وہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، کیونکہ انہیں بہت سارا اشتراک اور حصہ داری پسند ہے۔ بہت سارا جن جیون یعنی سماجی بھائی چارہ، انسانی بو اور اپنائیت ۔ چٹنیوں کے بغیر ان کا ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔

منظر: وہ دو ہیں، اور لال اور ہری چٹنی کے ساتھ ایک ہی دونے میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں دو لوگ کھارہے ہیں۔ ایک ہی دونے میں۔

یہ منظر دیکھ کر مجھے نہیں لگتا کہ انسانی تہذیب کو کوئی خطرہ ہے۔

زندگی جب جب بوجھ بنی، سموسوں نے یقین دلایا کہ اتنی جلدی مت کرو وہاں جانے کی جہاں سے لوٹنا ناممکن ہے۔

گوبر، گوموتر اور دودھ کے شوقین سموسوں کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔ وہ اپنے پورے مثلث نما وجود سے بھیدتے ہیں۔ بھکتی، روایت اور تہذیب کو۔ میرے کئی ورت ٹوٹ گئے ان کی وجہ سے۔ بے انتہا سیری میں بھی انہیں گھان سے اترتے دیکھ کر حیران ہوا ہوں۔ بار بار۔ ان کی مذمت ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کے خلاف کوئی ثبوت ہی نہیں ہے۔ وہ گندی سے گندی جگہوں پر بھی لوگوں کے کام آئے ہیں۔ جنم سے ہی باوفا اور جمہوریت پسند۔

جنہیں پڑھنے کی عمر میں کتابیں نہیں ملیں

جنہیں جوان ہونے پر وصل نہیں ملا

جنہیں سردیوں میں گرم کپڑے نہیں ملے

جنہیں بیمار پڑنے پر دوائیاں نہیں ملیں

جنہیں مر جانے پر مُکھ اگنی نہیں ملی

انہیں بھی ملتے رہے ہیں سموسے

 

اویناش مشر ہندی کے معاصر ادب میں اپنی نظموں سے ایک الگ پہچان بناچکے ہیں۔ ان کا اسلوب تجربہ پسند ہےاور موضوعات زندگی کے عام اور معمولی شعبوں سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ہم یہاں ان کی چند نظموں کے اردو تراجم لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ ان میں سے سات نظمیں ‘ہندوی’ ویب سائٹ پر موجود ان کی نظموں سے منتخب کی گئی ہیں، جبکہ سموسہ اور کے پہلے شمارے میں شائع ہوچکی ہے۔

اویناش مشر 5 جنوری 1986 کو غازی آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے دو شعری مجموعے ‘اگیات واس کی کویتائیں اور چونسٹھ سوتر سولہ ابھیمان:کام سوتر سے پریرت ‘ اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ‘نئے شیکھر کی جیونی ‘ اور ‘ ورشا واس’ نامی دو ناول بھی وہ لکھ چکے ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جو اسی سال شائع ہوکر لوگوں تک پہنچا ہے۔

news-1712

yakinjp


sabung ayam online

yakinjp

yakinjp

rtp yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

judi bola online

slot thailand

yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

yakinjp

ayowin

mahjong ways

judi bola online

mahjong ways 2

JUDI BOLA ONLINE

maujp

maujp

maujp

82001

82002

82003

82004

82005

82006

82007

82008

82009

82010

82011

82012

82013

82014

82015

82097

82099

82100

82101

82102

82103

82104

82105

82106

82107

82108

82109

82110

82171

82172

82173

82174

82175

82176

82177

82178

82179

82180

82181

82182

82183

82184

82016

82017

82018

82019

82021

82022

82023

82024

82025

82111

82112

82113

82114

82115

82186

82187

82188

82189

82190

82191

82192

82193

82194

82195

82196

82197

82198

82199

80082

80083

80084

80085

82026

82027

82028

82029

82030

82031

82032

82033

82034

82035

82116

82117

82118

82119

82120

82201

82202

82203

82204

82205

82206

82207

82208

82209

82210

82036

82037

82038

82039

82040

82041

82042

82043

82044

82045

82046

82047

82048

82049

82050

82051

82052

82053

82054

82055

82121

82122

82123

82124

82125

82126

82127

82128

82129

82130

82131

82132

82133

82134

82135

82136

82137

82138

82139

82140

82211

82212

82213

82214

82215

82216

82217

82218

82219

82220

82221

82222

82223

82224

82225

82226

82227

82228

82229

82230

82056

82057

82058

82059

82060

82061

82062

82063

82064

82065

82141

82142

82143

82144

82145

82146

82147

82148

82149

82150

80182

80183

80184

80186

80188

80189

80190

80191

80193

80194

80195

82066

82067

82068

82069

82070

82072

82073

82074

82075

82076

82077

82078

82079

82080

82231

82232

82233

82234

82235

82236

82237

82238

82239

80210

82081

82082

82083

82084

82085

82086

82087

82088

82089

82090

82091

82092

82093

82094

82095

82151

82152

82153

82154

82155

82156

82157

82158

82159

82160

82161

82162

82163

82164

82165

82166

82167

82168

82169

82170

82241

82242

82243

82244

82245

82246

82247

82248

82249

82250

82251

82252

82253

82254

82255

82256

82257

82258

82259

82260

news-1712