بیج

‘تم نے ہنسنا بند کردیا ہے، تو کیا ساری دنیا منحوسیت میں ڈوب جائے؟’۔۔۔اویناش کے منہ سے نکلے یہ الفاظ اسے اس طرح سُن کرگئے تھے کہ وہ کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔ اس کا دماغ ایسا خالی ہوگیا تھا کہ نہ تو  اس نے پلٹ کر اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے ہی کچھ کہا تھا اور نا ہی اس  کی آنکھوں میں ان دنوں جھٹ برسنے والے آنسو ہی آئے تھے۔ وہ بھونچکی سی ان کا منہ تاکتی رہ گئی تھی۔ اویناش بھی یہ بولتے ہی خود اپنے منہ سے نکلے الفاظ پر بری طرح پچھتا رہے تھے۔ ان کا چہرہ ایک دم سفید ہوگیا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیا کریں،  جس سے معاملہ سلجھ جائے۔ انہوں نے اس کی بغل میں بیٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر دھیمے لہجے میں کہا تھا۔ ‘غصہ آگیا تھا مجھے۔آدمی ہی تو ہوں نا! میں تو کتنا پریشان ہوں تمہارے لیے! معاف کردو مجھے!’ اس نے پتھریلی نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے ‘کوئی بات نہیں ‘کہہ کر آنکھیں موند لی تھیں۔

اویناش کے دفتر چلے جانے کے بعد ہی اس نے آنکھیں کھولی تھیں۔ اس کا من ابھی تک سُن ہی تھا۔ اویناش کے وہ لفظ بار بار اسی تیزی سے اس کے دماغ میں گونج رہے تھے۔ پچھلے تین مہینوں سے جو یکسر تنہائی کا احساس ہر وقت اس کے اندر رہتا تھا، آج وہ پتھر کی طرح اس کی سانسوں کے بیچ اٹک گیا تھا۔ لوگ ملنے آتے، چلے جاتے۔۔اویناش صبح شام اس کے پاس گھنٹوں بیٹھتے، پر اسے ہر گھڑی یہی لگتا کہ وہ بالکل اکیلی ہے۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ وہ کوئی تماشا ہے جسے کچھ لوگ مجبوری سے اور کچھ دبے دبے تجسس کے ساتھ دیکھنے آجاتے  ہیں۔ لوگوں کے جانے کے بعد اس کا من اور بھاری ہوجاتا۔ اویناش جب اس کے پاس بیٹھتے، تب بھی وہ دیکھتی رہتی کہ کب ان کے دفتر جانے کا سمے ہو اور وہ چلے جائیں، حالانکہ وہ ان کے آنے کا انتظار اسی طرح گھڑی دیکھتے ہوئے کرتی تھی۔ سارے دن دروازے پر بجنے والی ہر گھنٹی کے بعد کان دروازے پر گڑائے رکھتی تھی کہ پتہ نہیں کون آیا ہے۔ وہ بھی لیٹے لیٹے یاد کرتی رہتی کہ کون اس سے کتنے دنوں سے ملنے نہیں آیا ہے۔مگر کسی کے آنے پر وہ اور زیادہ بے چین ہوجاتی تھی۔ اویناش کے چہرے پر کئی بار ایک عجیب  پس و پیش کا تاثر ابھر آتا تھا۔ وہ طے نہیں کرپاتے تھے کہ اسے  ان کا بیٹھنا اچھا لگتا ہے یا چلے جانا۔ ویسے وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ چاہتی کیا ہے۔ بس اسے لگتا تھا کہ جس دنیا کو وہ پہلے جانتی  اورپہچانتی تھی، وہ اس کے لیے یکدم اجنبی ہوگئی ہے۔ کبھی وہ بے بس ہوکر سوچتی۔’اگر دادی ہوتیں، تو میری ایسی حالت ہوتی ہی نہیں۔کیسے وہ میرے بیمار ہونے پر خود بیمار سی ہوجاتی تھیں۔’اسے لگتا  کہ اس کے اندر اب بھی ایک چھوٹی بچی ہے جسے صرف دادی کی گود میں ہی شانتی مل سکتی ہے۔ کسی اور کے ہونے یا نہ ہونے سے اس کی چھٹپٹاہٹ رتی بھر بھی کم نہیں ہوتی۔

دادی کی یاد آتے ہی، اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے شروع ہوگئے۔وہ جانتی تھی اب گھنٹوں اس کی آنکھوں کا برسنا بند نہیں ہوگا، چاہے وہ کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرے۔ وہ کئی بار سوچتی کہ اویناش اس   کی کتنی فکر کرتے ہیں اور اس  کا کتنا دھیان رکھتے ہیں، مگر نہ جانے کیوں وہ بھی اسے اور رشتہ داروں کی طرح ہی ایک رشتہ دار لگتے ہیں۔ ۔۔بس، تھوڑے نزدیکی رشتہ دار! وہ کئی بار غور سے ایک ٹک اویناش کو دیکھتی کہ وہ اس سے اکتا تو نہیں گئے ہیں یا انہیں اس کی بیماری پر خرچ ہورہے روپیوں کی بربادی تو نہیں چبھنے لگی ہے۔ اویناش کے چہرے سے ایسا کوئی تاثر نہ ملنے پر بھی وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہوتی تھی۔ کئی بار اسے یہ بھی لگتا تھا کہ اگر وہ اویناش کی جگہ ہوتی اور اویناش  اس کی جگہ، تو اب تک وہ پوری طرح اکتا چکی ہوتی۔ اسے اویناش کے دھیمے پن اور شانت سبھاؤ پر کتنی جھلاہٹ ہوا کرتی تھی۔ کہیں جانا ہوتا تو وہ کہتی، ‘تم تو صحیح وقت پر کہیں پہنچ ہی نہیں سکتے۔تمہارے دماغ کی گھڑی کچھ گڑبڑ ہے۔’اویناش چڑ کر کہتے، ‘اور تم جو اتنی ہڑبڑی مچاتی ہو، چڑچڑاتی ہو اور میری ناک میں دم کردیتی ہو، اس سے کیا فائدہ؟ آدھا گھنٹہ دیر سے پہنچو گی، تب بھی دنیا وہیں کی وہیں ملے گی۔’وہ سوچنے لگی کہ سچ مچ اویناش کتنے اطمینان سے اس کی بیماری کو، اس کے پل پل بدلتے موڈ کو اور اس کی چڑچڑاہٹ کو جھیل رہے ہیں،’ انہوں نے آج جو کہا، وہ غلط کہا تھا کیا؟’سچ مچ میں بیمار ہوں تو ساری دنیا میرے لیے بھلا کیسے بیمار ہوجائے گی۔ کتنا کرتے ہیں میرے لیے۔ مگر میں کبھی شکرگزاری  کا اظہار کرناتو دور، ان سے بس چڑی چڑی ہی رہتی ہوں۔کتنا بھی چھپاؤں، مگر وہ سمجھتے تو ہیں۔ مین ان کی جگہ ہوتی، تو یہ بات ان سے بہت پہلے ہی کہہ چکی ہوتی۔’وہ طرح طرح کے وعدے ، ارادے باندھتی اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ اس بات کے لیے اویناش کو معاف کردے گی۔اس بات کو گانٹھ بناکر نہیں رکھے گی۔ اسے بار بار اویناش کا مہینوں سے اترا ہوا اداس چہرہ یاد آرہا تھا۔

کتنی کوشش کرتے ہیں خوش دکھائی دینے کی میرے سامنے۔ من ہی من فکر کرتے ہیں، مگر ہمیشہ بولتے رہتے ہیں کہ ‘بس اس ہفتے بخار ٹوٹ جائے گا۔’جیسے خود  کو یقین دلانے کی کوشش کررہے ہوں۔۔۔جانتے ہیں کہ میں ان کی امید  کے جھوٹے  پن کو سمجھ رہی ہوں، مگربچوں جیسی ضد ٹھان کر جھوٹ بولتے ہیں کہ کیا معلوم اسے سچ ہی سمجھ لیا جائے۔کتنی  خوش دلی سے میری چڑچڑاہٹ کو جھیل  لیتے ہیں۔۔۔اسے یاد آیا کہ دس دن پہلے اس نے الماری میں کچھ ڈھونڈتے  ہوئے، نہ ملنے پر غصے سے سارے کپڑے نکال کر باہر پھینک دیے تھے۔ تب بھی اویناش کچھ نہ بولے تھے اور چپ چاپ الماری میں سامان رکھنے لگے تھے۔وہ خود ہی اپنے پاگل پن پر گھبرا اٹھی تھی۔ کئی دن بعد کی گئی اتنی محنت اور طاقت صرف کرنے سے وہ ہانپ رہی تھی۔اویناش نے کپڑے رکھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پرسکون لہجے میں کہا تھا۔’یہ کیا پاگل پن ہے؟ اتنا غصہ کرو گی، تو کمزوری بڑھے گی ہی نا؟’ سب ٹھیک ہوجائے گا۔’اس نے معافی کی درخواست کرتی ہوئی نگاہوں سے اویناش کو دیکھتے ہوئے کہا تھا،’کیا کروں؟ کتنی ہمت رکھوں؟ تمہی بتاؤ، کیا میری عمر اس طرح بستر پر پڑے رہنے کی ہے؟میں نے بہت ہمت رکھی۔۔بیچ میں بخار ٹوٹا تو سوچا اب بخار نہیں ہوگا، مگر پھر بخار آجاتا ہے۔۔اب میں مایوس ہوگئی ہوں۔اب برداشت نہیں ہوتا ہے۔کوئی میری طرح لیٹا رہے، تب پتہ چلے کتنی چڑچڑاہٹ ہوتی ہے۔’اویناش کے چہرے پر اس کی بات سن کر کئی طرح کے رنگ آئے اور گئے۔پھر جیسے اس نے ہمت بٹور کر کہا۔’ایک بات کہوں؟ڈاکٹر بِنرجی کہہ رہے تھے کہ بخار میں اتنا بستر پر پڑے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔تم پہلے کتنی کتابیں پڑھتی تھیں، اب تم نے کتابیں بھی چھوڑ دیں۔ تم خود کو بیمار نہ سمجھوتو سچ میں ٹھیک ہوجاؤ گی۔’یہ بات اویناش کے منہ سے سن کر اسے بہت تعجب ہوا تھا۔ اس نے جھنجھلا کر کہا تھا،’اچھا ، میں تو پاگل ہوں نا؟ مجھے شوق ہے بستر پر پڑے رہنے کا۔ اس ڈاکٹر بنرجی کی تو شکل سے مجھے الرجی ہوتی ہے۔اب اسے بلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب میں ٹھیک ہی ہوں تو وہ آکر کرے گا بھی کیا؟’

یہ بات یاد آنے سے اسے پھر اویناش کے آج کہے ہوئے الفاظ یاد آگئے۔وہ جیسے درد سے کراہ اٹھی۔’انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بیماری کے کارن مجھے بہت زور سے بولنا یا ہنسنا اچھا نہیں لگتا۔کتنی بری طرح سے ہنس رہے تھے۔۔۔اور وہ بھی بے بات! سب دنیا کو دکھانے کے لیے ناٹک ہے۔’اس کا من پھر غصے اور دکھ سے جل اٹھا۔ اپنی بے بسی پر پھر نئے سرے سے موٹے موٹے آنسو گال پر ڈھلک آئے۔’اب بیمار ہوکر معلوم ہوا کہ دنیا کیسی ہے۔بس بدن میں طاقت نہ  ہو، تو آدمی بالکل بے کار ہوجاتا ہے۔کیسا اکتا گئے ہیں سب مجھ سے!اوپر سے اکتاہٹ کو چھپانے کی کتنی کوشش کرتے ہیں۔مجھے ایک دم بے وقوف اور پاگل سمجھ لیا ہے۔ بیمار ہوں تو کیا، دماغ تو میرا اتنا ہی تیز ہے۔دماغ خراب نہیں ہوگیا ہے نا میرا!’ وہ غصے سے اٹھ بیٹھی اور اس نے بغل میں رکھا ہوا پانی اٹھاکر غٹ  غٹ پی لیا۔ وہ خالی گلاس ہاتھ میں لے کر اسی میں جھانکتی رہی اور سوچتی رہی، ‘کیا حالت بنادی اس لمبی بیماری نے میری! جن لوگوں کو میں بات کرنے لائق تک نہیں سمجھتی تھی، وہ بھی آکر مجھ پر ترس کھاتے ہیں اور ہدایتیں دے جاتے ہیں۔’یہ مت کھاؤ، وہ مت کھاؤ، اس ڈاکٹر کو دکھالو، اور یہ اویناش کس قدر پاگل تھے میرے پیچھے! اب انہیں مجھ میں کمیاں ہی کمیاں نظر آتی ہیں، اف، کتنا اکیلا ہوتا  ہے آدمی! واقعی کتنا اکیلا!’

اچانک اس کے دماغ میں، خالی گلاس میں جھانکتی ہوئی سوچ میں ڈوبی ہوئی اپنی ہی تصویر گھوم گئی۔ اس کا دل گھبرا اٹھا،’کہیں  میں پاگل  تو نہیں ہوتی جارہی ہوں؟ ان دنوں کتنا رونا آنے لگا ہے مجھے بات بات پر! پچھلے پندرہ دنوں سے وہ جیسے ہی سوتی، اس کی دھڑکن اس کے کانوں میں بجنے لگتی اور ماتھا پسینے سے بھر جاتا۔ وہ اٹھ بیٹھتی اور تکیہ الٹی طرف رکھ کر سونے کی کوشش کرتی۔مگر پھر وہی ہوتا۔کبھی اس طرف پیر کرتی ، کبھی اس طرف۔ڈاکٹر بنرجی نے اس کی تکلیف سن کر ایک گولی لکھ دی تھی۔ حالانکہ وہ ایک نئے نام کی گولی تھی، مگر وہ جانتی تھی کہ ‘ڈائزاپام’کا مطلب نیند کی گولی ہی ہوتا ہے۔دادی نیند نہ آنے پر ‘کمپوز’ کھاتی تھیں، اور اس کے پتے پر مہین حرفوں میں ‘ڈائزاپام’ لکھا ہوتا تھا۔ اویناش  کے پوچھنے پر کہ گولی کس چیز  کی ہے کہ  اس نے کہا تھا، ‘مجھے کیا معلوم؟ میں ڈاکٹر ہوں کیا؟’اس کے من میں اپنی وہ سب باتیں گھومنے لگیں، جو اس کے پاگل پن کی طرف بڑھنے کا اشارہ ہوسکتی تھیں۔یہ باتیں اس کے سوائے اور  کوئی جانتا بھی تو نہیں تھا۔ کل باتھ روم میں لال  رنگ کی دوا گر جانے پر جو داغ بن گیا تھا، اسے دیکھ  کر اس کا من نہ جانے کیوں گھبرا رہا تھا۔ وہ بار بار اس لال رنگ کو نہ دیکھنے کی کوشش کرتی رہی تھی، مگر اس کا دھیان وہیں چلا جاتا۔ اس نے خود کو سنبھالنے کے لیے باتھ  روم میں  رکھا اخبار اٹھالیا تھا۔مگر اس کی نظر سیدھے ایک نوجوان لڑکی کی خودکشی کی خبر پر چلی گئی تھی۔ اس کا  کلیجہ منہ کو آگیا تھا اور اس کے ہاتھ سے اخبار چھوٹ کر گر گیا تھا۔ باہر نکل  کر اس نے کشنو کی ماں سے کہا تھا کہ کسی طرح اس داغ کو چھڑا دے۔ کشنو کی ماں ان دنوں اس کے مزاج سے اتنا گھبرانے لگی تھی کہ اس نے بہت محنت سے وہ داغ فوراً چھڑا دیا تھا۔ ‘کتنا چاہتی تھی کشنو کی ماں مجھے!اب تو وہ جب میری آواز سن کر آتی ہے، تو اس کی آنکھوں میں خوف ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کس بات پر میں اسے ڈانٹنے لگوں گی اور پھر تھک کر رونا شروع کردوں گی۔ کیا ہوگیا ہے مجھے؟’۔۔یہ سوچ کر وہ بے چین ہواٹھی۔۔۔اور کتنی وہمی ہوگئی ہوں میں! پہلے اویناش  کا میں کتنا مذاق بناتی تھی، جب وہ الٹی چپلیں سیدھی کرتے ہوئے کہتے، ‘الٹی چپل رکھنے سے بیماری آتی ہے۔’میں کہتی، ‘تمہیں تو سو سال پہلے پیدا ہونا چاہیے تھا۔کہاں سے سیکھی ہیں یہ سب باتیں؟’ اب تو باہر کے لوگ  آتے ہیں ، تو میرے دل میں خیال آئے بنا نہیں رہتا کہ کہیں کسی  کی چپل الٹی نہ پڑی ہو۔ کیا آدمی اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ ذرا سی مصیبت میں اپنے سارے یقین جھٹک دیتا ہے؟

سامنے کی کالی دیوار دیکھ کر اس نے اپنی آنکھیں گھما لیں۔ اس نے جب اسے دیکھنے کے لیے آئی اپنی چھوٹی بہن وِنیتا سے کہا تھا کہ وہ سامنے کی دیوار  پر ٹنگی پھول والی تصویر ہٹا کر الماری میں رکھ دے، تو ونیتا اس کا منہ تاکتی رہ گئی تھی، جیسے اس کی بات نہ سمجھ رہی ہو۔ ایک بڑے سے کھلی پنکھڑیوں  والے پیلے پھول کی وہ تصویر اسے بے حد پسند تھی۔۔شادی  سے پہلے بھی اس نے اسی تصویر کو اپنے پلنگ کے سامنے ٹانگ رکھا تھا۔ اب جب وہ اکیلی ہوتی، تو اس کی آنکھیں اس پھول سے چپک جاتیں اور اسے لگتا کہ وہ اس پھول کے اندر گھستی جارہی ہے۔ بڑی مشکل سے وہ اپنی آنکھیں اس تصویر سے ہٹاتی۔ ونیتا کو چپ چاپ کھڑے دیکھ کر اس نے کہا تھا، ‘اس تصویر کو دیکھکر میں اداس ہوجاتی ہوں، اسے ہٹا دو۔’ونیتا نے بنا کچھ کہے وہ تصویر اندر رکھ دی تھی۔ شام کو اویناش بھی خالی دیوار دیکھ کر چونکے تھے، مگر اس کی طرف دیکھ کر کچھ  پوچھتے پوچھتے رہ گئے تھے۔

‘میں کیا یہاں اسی طرح پڑے پڑے پاگل ہوجاؤں گی؟’ یہ سوچتے سوچتے اسے اپنی چچیری بہن گیتا  یاد آگئی۔ گیتا بہت  سندر اور ہوشیار تھی، مگر پتہ نہیں کیسے اسے اچانک پاگل پن کے دورے پڑنے لگے تھے۔’جب وہ پاگل ہوسکتی ہے، تو میں بھی تو ہوسکتی ہوں۔۔’یہ خیال اس کے من میں چکر کاٹنے لگا۔اس نے ماں کے منہ سے سنا تھا کہ جب وہ گیتا سے ملنے گئیں تو گیتا نے کمرے میں دن میں بھی پردے کھینچ  کر اتنا اندھیرا کیا ہوا تھا کہ وہ ٹھیک سے گیتا کو دیکھ ہی نہیں پائی تھیں۔ماں کو ایسا لگا تھا کہ جیسے کچھ چھپانے کے لیے کمرے کو اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ یہ بات یاد آنے پر  اسے لگنے لگا  کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ گیتا کو روشنی اسی طرح آنکھوں میں چبھتی ہو جیسے اسے ان دنوں چبھنے لگی ہے۔آج کل تو وہ پورے دن نہ کھڑکی کھولتی تھی اور نہ پردے کھسکاتی تھی۔اگر کوئی پردے کھسکانے کی صلاح دیتا تو وہ کہتی، ‘میری آنکھوں میں  درد ہے۔’وہ سکتے میں آکر سوچنے لگی۔۔۔’کیا پتہ یہ بھی پاگل پن کی نشانی ہو۔۔۔اس طرح اندھیرے میں رہنے کی خواہش ہونا۔’

پہلے اسے ستمبر ۔اکتوبر کے مہینے کتنے پسند تھے۔ آسمان میں کئی روئی جیسے چھوٹے چھوٹے بادلوں کے ٹکڑے دوڑ لگاتے تھے اور ہوا میں جاڑے کی ایک ہلکی سی کھنک آجاتی تھی۔اسے  ایسا لگتا جیسے قدرت دم سادھ کر کسی کے آنے کا انتظار کررہی ہو۔وِشو کرما پوجا کے ڈھول ، جاڑے کی آمد کا اعلان کررہے ہوں۔مگر اس سال تو اس نے آسمان دیکھا تھا نہ وہ روئی جیسے بادل۔اسکول میں پڑھا ہوا کالی داس کا شرد رِتو(ستمبر سے دسمبر کے درمیان کا موسم) کا بیان اسے یاد آجاتا۔ رگھوونش(کالی داس کا مہاکاویہ) کے شلوک بھول جانے پر بھی شرد رِتو کی ایک پہچان اس کے اندر بس گئی تھی، مگر اب تو اسے دن ، تاریخ اور مہینہ ہی یاد نہیں رہتا تھا۔ روز تاریخ پوچھتی، دن پوچھتی، اگلے دن پھر بھول جاتی۔

‘کیا آدمی اس طرح ہار مان لیتا ہے۔۔۔اتنی جلدی؟ اس کی جینے کی خواہش بس اتنی ہی ہوتی ہے؟’ اسے یاد آیا کہ ڈیڑھ مہینے تک دادی بیمار رہی تھیں۔ کینسر کی تکلیف سے جوجھتی ہوئی۔انہیں پورا ہوش نہیں رہا تھا، ان کا دماغ کبھی ماضی کے گہرے کنوئیں میں اترنے لگتا تھا کبھی صفر ہوجاتا ۔ایک بار ہوش میں  آنے پر ماں نے ان سے کہا۔’آپ ٹھیک ہوجائیں گی اماں جی۔بس اب تھوڑے دن کی تکلیف اور ہے۔’تو دادی نے کہا تھا،’نہیں، میں ٹھیک نہیں ہونا چاہتی۔مرنا تو ہے ہی ایک نہ ایک دن ۔اب میں اتنی تکلیف تو پاچکی ہوں۔ اگر ٹھیک ہوگئی، تو مرنے کے لیے اتنی ہی تکلیف اور بھگتنی پڑے  گی۔’پھر اسے لیلا موسی یاد آئیں، جو برسوں سے کِڈنی کی تکلیف پارہی تھیں اور موت کی کگار پر بیٹھی تھیں۔ کبھی ان کا بدن اتنا پھول جاتا کہ ان کا پانی پینا بالکل بند کردیا جاتا۔ بہت تڑپنے پر ایک چھوٹی برف کی ڈلی چوسنے کو ملتی۔ لیلا موسی اپنی بیماری کی گاتھا اس طرح سناتیں جیسے اپنے بجائے کسی اور کی بات کررہی ہوں۔ جو بھی ان سے ملنے جاتا، اسے وہ خوب دلجمعی اور تفصیل سے اپنی بیماری کی باتیں بتاتیں۔وہ سوچنے لگی، ‘کیا لیلا موسی نے جیون کو جھیلنے کے لیے خود کو دو ٹکڑوں میں بانٹ لیا تھا؟ ایک وہ جو تکلیف سہتا تھا اور دوسرا جو اس تکلیف کو دیکھتا تھا؟’ اسے لگا کہ دادی اور لیلا موسی بھلے ہی اس کی طرح پڑھی لکھی نہ تھیں، مگر انہیں جیون جینا اور مرنا اچھی طرح آتا تھا۔ ‘موت کے آنے کا انتظار کرنے سے اچھا تو خود آگے جاکر موت سے مل لینا ہے۔’اپنے خیالوں کے بہاؤ پر وہ پھر گھبرا اٹھی اور کروٹ بدل کر کچھ اور سوچنے کی کوشش کرنے لگی۔

وہ اس کروٹ بہت کم لیٹتی تھی، کیونکہ اس طرف آئینہ لگا ہوا تھا، جس میں خود کو دیکھنے سے وہ بہت بچنا چاہتی تھی۔ اپنا رنگ اڑا چہرہ، سونی اداس آنکھیں اور بھوک ختم ہوجانے سے دبلائے شریر پر جھولتے بلاؤز کو دیکھ کر اس کی مایوسی اور گاڑھی ہوجاتی تھی۔ وہ آئینے کے سامنے سے گزرتے ہوئے خود اپنے آپ سے ہی نظریں چرالیا کرتی تھی۔اس کا من ہوتا کہ یہ آئینہ بھی وہاں سے ہٹادے، مگر اویناش کے ردعمل کے بارے میں سوچ کر وہ یہ بولنے کی ہمت نہیں کرپاتی تھی۔ اب کوئی راستہ نہ پاکر خود سے ملنے آئے طرح طرح کے مشورے دینے والوں کی طرح ہی اس آئینے کو بھی برداشت کرنا اس نے سیکھ لیا تھا۔

شاید وہ بچپن سے ہی جسمانی تکلیف اور بیماری سے بہت گھبراتی رہی  ہے۔  ایک بار تیرہ چودہ سال کی عمر میں کئی دنوں سے گھر میں ہوئی خرگوش پالنے یا نہ پالنے کی بحث کو ختم کرتے ہوئے دادی نے ماں سے کہا تھا،’یاد نہیں تمہیں، چڑیاگھر میں بھالو نے اس کی گڑیا چھین لی تھی، تب کیسے پاگل ہوگئی تھی۔کتنی جھاڑ پھونک کروانی پڑی تھی۔ پھر خرگوش مر گیا  تو اسے کون سنبھالے گا؟’ یہ سن کر وہ خاموش ہو کر دادی کا منہ تاکتی رہ گئی تھی۔ اس نے دادی اور ماں سے الگ الگ بہت بار پوچھ کر جاننے کی کوشش کی تھی کہ اس کے ساتھ  بچپن میں  کیا ہوا تھا، مگر ان دونوں نے جیسے منہ ہی سل لیا تھا۔ تب اچانک بچپن کا ایک منظر ، جو اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ اسے یاد ہے، اس کے دماغ میں کوندھ گیا تھا۔۔۔۔لال پتھروں کے ایک مکان میں کوئی تلک دھاری آدمی ایک سفید چنور نما چیز لے کر اس کے سامنے جھُلا رہا تھا اور وہ ماں کی گود میں چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ منظر تھوڑے دنوں تک اسے بہت پریشان کرتا رہا تھا، پھر بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ وہ یہ منظر بھول بھال گئی تھی۔ آج پھر نہ جانے کہاں سے اسے پھر وہی بات یاد آگئی۔ ‘کیا پتہ مجھ میں بچپن سے ہی کوئی پاگل پن کا بیج موجود ہو؟’ یہ سوچ اسے ایک دم کاٹھ بناگئی۔

وہ اٹھ بیٹھی۔اس نے اپنے دماغ سے اس خیال کو جھٹکنے کے لیے اسکول ، کالج میں خود کو اسٹیج پر میڈل ملنے کے منظر یاد کیے۔ ‘نہیں ، نہیں، میں بھلا پاگل کیسے ہوسکتی ہوں؟’ ٹھیک ہے،میں پریشان ہوں، جلدی گھبراجاتی ہوں، مگر اس کی حدیں پار کرکے یکدم پاگل پن کی طرف کیسے جاسکتی ہوں۔میں کیوں یہ سب بے کار کی باتیں سوچ رہی ہوں؟’لیکن پھر اسے گیتا یاد آگئی، جو اس سے کم ہوشیار نہ تھی۔اسکول میں اس کی کتنی دھاک تھی۔وہ پھر بے اطمینانی سے بھر گئی، ‘کیا معلوم، ہمارے خاندان میں ہی کوئی پاگل پن کا روگ ہو۔۔جینیاتی مرض۔۔جو ہماری پیڑھی میں پھوٹا ہو۔’اسے اسکول میں بائلوجی میں پڑھے ہوئے  جینیاتی  صفات کے اصول یاد آنے لگے، جس کے مطابق کچھ صفتیں ایک دو نسلوں تک غائب رہنے کے بعد  پھر دکھائی پڑنے لگتی ہیں۔

اچانک وہ جلدی سے اس باسی ، گھٹن بھرے کمرے سے باہر نکلنے کے لیے چھٹپٹا اٹھی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ کشنو کی ماں باہر سو رہی تھی۔ وہ اس کی بغل سے گزرتی ہوئی برآمدے میں جاکر کھڑی ہوگئی۔ تیز روشنی سے اس کی آنکھوں میں درد کی ایک لہر گزر گئی! اتنے دنوں بعد روشنی سے اس کی آنکھیں پوری طرح کھل نہیں رہی تھیں۔ چوندھیائی ہوئی آنکھوں سے اس نے برآمدے سے نیچے جھانکا۔گاڑیوں اور لوگوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔یہ مہانگر کی ایک بے حد مصروف کراسنگ تھی، جہاں گاڑیوں کا سلسلہ رات دن جاری رہتا تھا۔ بیمار پڑنے سے پہلے وہ اکیلا پن محسوس ہونے پر، کسی کسی دن گھنٹوں کھڑے ہوکر گاڑیوں اور لوگوں کو چلتے ہوئے دیکھ کر وقت کاٹ لیتی تھی۔ اس طرح گاڑیوں کو آتے جاتے دیکھنے میں نہ جانے کیسا جادو  ہوتا تھا کہ اسے سمے بیتنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ آج مہینوں بعد جب اس نے سکڑی ہوئی آنکھوں سے اپنی پرانی جگہ پر کھڑے ہوکر نیچے جھانکا، تو وہی پرانا منظر دیکھ کر اسے اچانک ایسا جھٹکا لگا جیسے کسی  نے بجلی کا تار چھوا دیا ہو، اس کے بدن میں زور سے پھریری ہوئی  اور روئیں کھڑے ہوگئے۔اس کی دھڑکنیں اس کے کانوں میں بجنے لگیں۔اس  کے منہ سے اپنے آپ نکلا۔’یہ کیا  ہوگیا؟ ساری دنیا چل رہی ہے۔ مجھے کیا ہوگیا میں کہاں رہ گئی’ وہ بار بار نیچے چلتی گاڑیوں اور لوگوں کو دیکھتی، اور بار بار اس کے من میں یہی سوال گھومنے لگتا۔تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر اونچے کیے  اور گردن اٹھا کر آسمان میں دوڑ لگاتے روئی جیسے بادلوں کو آنکھ بھر کر دیکھا۔اچانک اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔پیچھے پلٹ کر کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نے دیکھا، کشنو کی ماں جاگ کر اسے ایسے دیکھ  رہی تھی جیسے کسی بھوت کو دیکھ رہی ہو۔وہ  اسے دیکھ  کر مسکراتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی اور اس نے پردے ہٹا کر کھڑکیاں کھول دیں۔ پھر پلٹ کر دیکھا تو کشنو کی ماں بھی اس کےپیچھے پیچھے کمرے میں آگئی تھی اور دروازے سے  سٹ کر کھڑی تھی۔ اچانک کشنو کی ماں اپنے تمباکو خوردہ دانت چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے پہلے کی طرح مسکرانے لگی۔ وہ بھی جواب میں مسکرائی تو کشنو کی ماں ٹھٹھا مار کر ہنس پڑی جیسے پگلا گئی  ہو۔وہ خود بھی ہنسی، پھر اس نے اچانک جھینپ کر کشنو کی ماں کی طرف پیٹھ کر لی اور کنگھا اٹھا کر شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے بال بنانے شروع کردیے۔

٠٠٠

 

انسانی زندگی میں کسی بھی قسم کا مرض انسان کو جتنا جسمانی طور پر نقصان پہنچاتا ہے، نفسیاتی طور پر اس کا دوگنا اثر ہوتا ہے۔ یہ ایک طرف انسان کے اعتماد کو چوٹ  پہنچاتا ہے، دوسری طرف اس کو زندگی سے جوڑنے والی پرجوش اور خوبصورت شاہراہ سے بالکل کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ مگر انسان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اداسی اور مایوسی کے گھنے اندھیروں سے خود کو نکالنے کا ہنر جانتا ہے، چاہے آس پاس کوئی دلاسہ دینے والا ہو یا نہ ہو، چاہے وہ جھنجھلاہٹ یا کڑواہٹ کے کیسے ہی گہرے  کنویں میں خود کو پھنسا ہوا محسوس کررہا ہو، زندگی کی کشش اسے دوبارہ روشنی بکھیرتے ہوئے منظر کی طرف لاتی ہے۔ امید و بیم کے ایسے پرکشش کھیل کو بیان کرتی  الکا سراؤگی کی یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے۔

الکا سراؤگی کا جنم 17 نومبر 1960 کو ہوا۔ ان کی مشہور تخلیقات میں ‘کلی کتھا وایا بائی پاس’، ‘شیش کادمبری’،’کوئی بات نہیں’،’ایک بریک کے بعد’،’جانکی داس تیج پال مینشن’،’ایک سچی جھوٹی گاتھا’،’کلبھوشن کا نام درج کیجیے’،’گاندھی اور سرلادیوی چودھرانی’ جیسے ناول شامل ہیں۔ ان کی یہ کہانی راج کمل پرکاشن سے شائع شدہ  ان کی کہانیوں کی کلیات ‘سمپورن کہانیاں’ سے لی گئی ہے۔