Edit Content

سپنوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے

(پیدائش 80:11)

صبح کے اجالے کے نرم پنکھ، جب اس کی پلکوں کو سہلانے لگے، تب وہ نیند کی نیلی ندی میں اوپر آچکا تھا۔اس  کاذہن بھیتر کی یادوں اور ان کی تکرار کو سمیٹ رہا تھا۔ رات کی اداسی اس کی آنکھوں سے جاچکی تھی۔ ان آنکھوں کے بھیتر ایک گزرا ہوا سپنا رکھا تھا۔

اس نے پاس بیٹھی مسواک کررہی اپنی ماں سے کہا۔’آج میں نے زیتون کا پیڑ دیکھا ماں!’

ماں مسواک اس لیے کرتی تھی کہ اس کے پھیلے ہوئے سِرے سے اس کے مسوڑھوں پر کھجلی کو آرام مل جاتا تھا۔جب مسوڑھوں سےر س رہا خون مسواک سے چمٹنے لگا، تب اس کی ماں نے مسواک پھینک کر  پانی سے کلی کرلی اور برش میں کولگیٹ لگا لیا۔

اس کی خوشبو سے پیچکامُڑی کی نیند میں  بچا کچھا سپنوں کا خمار تھوڑی دیر کے لیے اور ٹھہر گیا۔اس نے کسی طرح اپنی بند ہوتی پلکوں کو روکا اور اپنی ماں کو دیکھنے لگا، جس کے منہ میں سفید جھاگ بھرا ہوا تھا۔

ماں نے جھاگ بھرے منہ سے الفاظ کو سنبھال سنبھال کر باہر نکالا۔’زیتون یہاں کہاں ہوتے ہیں!’

‘سپنوں میں ماں!’

پیچکامُڑی کھاٹ پر سے اٹھ بیٹھا۔اس نے آنگن کی چہار دیواری کی طرف دیکھا، جس پر لگا ہوا پلستر اکھڑ رہا تھا۔ آنگن میں سونے سے اسے ڈر نہیں لگتا تھا۔ کیونکہ قصبے میں یہ افواہ اڑ رہی تھی کہ کوئی سر پھرا رات میں باہر سو رہے لوگوں کے سر پر پتھر مار دیتا ہے اور اندھیرے میں غائب ہوجاتا ہے۔ اس خیال سے ہی پیچکا مُڑی سہم گیا اور اپنے پچکے ہوئے ماتھے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

دھوپ اپنا نارنگی رنگ دھیرے دھیرے کھونے لگی تھی۔ آسمان میں  کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ بادلوں کا ٹکڑا اور نہ ہی پنچھیوں کی اڑتی ہوئی ڈار۔اتنا خالی آسمان اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب اس کی ماں  کلی ولی سے فارغ ہوکر اپنا چہرہ دھوچکی تھی۔ وہ تین کمروں والے کچے مکان کے اندر چلی گئی۔

چولہے کا دھواں آسمان کی جانب جانے لگا۔ پیچکامُڑی  نے کھاٹ پر لگی مچھردانی کو اتار دیا اور اسے سمیٹ کر کھاٹ پر اس طرح رکھ دیا کہ اس کے پھٹے ہوئے حصے کو آسمان میں رہنے والے اجداد نہ دیکھ پائیں۔ خاص طور پر اس کے  ابو ، جو کبوتر بیچنے کاکام کرتے تھے۔

پیچکامُڑی اپنے  والد کو یاد کرنے لگا۔ حالانکہ اس کے پاس ان کا کوئی ٹھیک حلیہ یا نقشہ تک نہیں تھا۔ جب وہ چار برس کا تھا، تب ہی ان کی موت ہوگئی تھی۔ جو بھی حلیہ تھا،وہ قصبے والوں کی بات چیت اور گپ شپ  کی بنیاد پر اس کے ذہن میں تھا۔اپنےابو کو یاد کرتے ہی اسے کبوتروں  کی بیٹ کی گندھ آنے لگتی تھی۔ اسے کبوتروں سے نفرت تھی۔ خاص کر ان کی غٹر غوں کی آواز سے۔

اسے لگتا کہ وہ موت کی آواز کو سن رہا ہے۔ سفید کبوتر دیکھ کر تو اس کا غصہ ابل  کر اس کی آنکھوں میں آجاتا تھا۔ اس کا من کرتا کہ وہ اس سفید رنگ کے کبوتر کا گلا ہی کاٹ دے اور اس کے خون سے اپنے ماں کی سفید ساڑی کو رنگ دے  اور آسمان کی جانب دیکھ کر چیخے۔

وہ چپ چاپ منہ دھوکر کھاٹ پر بیٹھ گیا اور اس سپنے کے بارے میں سوچنے لگا، جسے اس نے صبح ہی دیکھا تھا۔ ٹیلوں اور ریتیلے پٹھاروں کے بیچ  وہ  پانی کے لیے دوڑ رہا تھا۔ہوا کی سائیں سائیں کی آواز سے اس کے روئیں کھڑے ہوگئے تھے۔اسے دور سے ایک انجان آواز سی آرہی تھی۔اس نے اپنی آنکھوں کو اپنی ہتھیلیوں سے ڈھک لیا۔

‘سپنوں کے بارے میں موت سوچ۔جلدی سے اندر آ۔آج مجھے جلدی جانا ہے۔ شہر میں پولیو کی دوا پلانے کی مہم چل رہی ہے۔’اس کی ماں کی آواز دیر تک اس کی کنپٹی پر رینگتی رہی۔ وہ اس کی لہروں کو دیر تک سنتا رہا۔

پیچکامُڑی نے چائے کی کٹوری میں رات کی بچی ہوئی روٹی کا ٹکڑا ڈبویا اور اسے گول گول ہلانے لگا تاکہ چائے کا سواد آٹے کے بھیتر تک اتر جائے۔ بھیگی ہوئی روٹی کا ٹکڑا لٹک سا گیا۔ اس نے اپنا منہ جھکا کر ایک جھٹکے میں اس نوالے کو نگل لیا۔

‘اس زیتوں کے پیڑ کے نیچے تم کھڑی تھیں ماں۔’

پیچکامُڑی نے غور سے اپنی ماں کی طرف دیکھا، جو چولہے کی آنچ کو بڑھانے کے لیے ، اس میں لوہے کے پائپ سے پھونکیں ماررہی تھی۔ اس وجہ سے اس کا گال پھول اور پچک رہا تھا۔ آگ صرف چولہے میں نہیں تھی، اس کے پھیپھڑوں میں بھی تھی جو روز شام اس کے جسم میں پھیل جاتی تھی، تب وہ کانپنے لگتی تھی۔

پڑوسیوں کا کہنا تھا کہ جِدّن کو شام کو جن پکڑ لیتا ہے۔ سب  ان کے گھر سے دور رہتے تھے۔ سب اس جن سے ڈرتے تھے، جو شام کو دیہہ کو پگھلانے لگتا تھا۔ پائپ زمین پر پٹخ کر اس کی ماں زور زور سے کھانسنے لگی۔ اس کی آنکھوں کےغُلّے باہر آ گئے تھے۔

اسے دیکھ کر پیچکامڑی گھبرا گیا۔ کیونکہ اس نے سنا تھا کہ مرتے ہوئے آدمی کی آنکھوں کے غلے باہر آنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ اسے اپنی ماں کی مدد کرنی چاہیئے یا پھر ڈر کر بھاگ جانا چاہیئے۔ اس کی ذہنی حالت کو پہچانتے ہوئے ماں نے کہا، ‘ابھی نہیں مرنے والی رے۔’

‘تم نے بتایا نہیں کہ تم  زیتون کے  پیڑ کے نیچے کیا کر رہی تھیں؟’ پیچکامڑی اپنی باتوں کو بھٹکنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس نے کپ سے چائے سُڑکی  اور جدن کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ اپنے دانتوں کے بیچ پھنس گئے روٹی کے ٹکڑے کو زبان  سے دھکیل رہی تھی۔

ابو کے چلے جانے کے بعد جدن رنگین کپڑے پہننے سے بچتی تھی۔ اس کی سفید ساڑی دیکھ کر پیچکامڑی اداس ہو جاتا تھا۔ اپنی ماں کو رنگوں سے دور دیکھ کر وہ سوچا کرتا تھا کہ مردہ تو سفید کفن پہن کر ان سب جھنجھٹوں سے دور چلا جاتا ہے لیکن عورتیں بچا ہوا جیون کفن اوڑھ کر ہی بتایا کرتی  ہیں۔

سفید رنگ اسے ابو کے خیال کی طرف دھکیل دیتا تھا۔ وہ اپنے خیالوں میں کھو جاتا اور تھوڑے سے بوڑھے آدمی کو کبوتروں کے جھنڈ میں گھرا ہوا دیکھتا۔ انہیں دانہ کھلاتے۔ ان کی غٹرغوں کی آواز کی نقل کرتے ہوئے ہوا میں ہاتھ لہراتے۔ سفید رنگ کےجلومیں ڈھیروں سلیٹی رنگ کے کبوتروں کو پھدکتے ہوئے۔ وہ ان کے بیچ سفید رنگ کے کبوتر کو ڈھونڈھتا، جسے دیکھ کر  اسے اس  کا گلا کاٹ دینے کا خیال آ جاتا تھا۔

ابو کے خیالوں کے بیچ ہی جدن کی آوازکان میں آکر چبھ گئی، ‘‘ارے چائے تو پی لے۔ کیا آنکھیں پھاڑ کر آسمان دیکھ رہا ہے۔’’

جدن نےمٹ میلے  رنگ کی ساڑی پہن لی تھی۔ وہ اس کے آنچل کو کندھے پر ٹھیک کر رہی تھی۔ اس نے اپنا چہرہ دیوار پر ٹنگے آئینے میں دھیان سے دیکھا۔ ماتھے پر اتر آئے بالوں کے گچھے کو کان کے پیچھے کر دیا۔ آنکھوں کو مچمچاکر دیکھا اور پیچکامڑی کی جانب پلٹ کر بولی، ‘گھر میں ہی رہنا۔ کہیں جانا نہیں۔ شام تک آ جاؤنگی۔’

‘میں  سپنے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔’

‘ٹھیک ہے شام کو لوٹ کر آتی ہوں، پھر کر لیں گے۔’

‘لیکن تب تک کہیں میں بھول گیا تو؟’

‘سپنے تمہارے ذہن میں اچار کی طرح محفوظ رہتے ہیں۔ تم بھول ہی نہیں سکتے۔’

اتنا کہ کر جدن کمرے سے باہر نکل گئی۔ باہر آنگن میں اینٹوں کو بچھا کر پگڈنڈی بنا دی گئی تھی، جسکے چاروں اور گھاس کی دوبیں نکل آئی تھیں۔ سامنے ٹین کا دروازہ تھا، جو باہر کی طرف کھلتا تھا۔ چہاردیواری سے لگ کر کبوتروں کے ڈھیر سارے پنجروں کو ایک کے اوپر ایک رکھ دیا گیا تھا۔ پنجرے ایک دوسرے کے بوجھ سے پچکتے جا رہے تھے۔ ہوا میں موجود نمی نے ان کا رنگ اڑادیا تھا۔

وہ بغیر اس کی طرف دیکھے ٹین کے دروازے سے باہر نکل گئی۔ اس کے باہر جاتے ہی آنگن میں دھوپ گرنے لگی۔ گھاس کی دوبوں پر جمی اوس کی بوندیں دھار بن کر نیچے اترنے لگیں۔ پیچکامڑی چائے کے کپ سے چائے سڑکتے ہوئے دور رکھے پنجروں کو دیکھنے لگا۔

اس نے دیکھا کہ ان پنجروں میں بند سارے کبوتروں کا سلیٹی  رنگ اترنے لگا ہے۔ سب اندر پھڑپھڑا رہے ہیں۔ ان کی ہلچل سے پنجرہ ہلنے لگا ہے۔ سارے کبوتروں کا سلیٹی رنگ اتر چکا ہے اور سب سفید رنگ کے کبوتروں میں بدل گئے ہیں۔ اتنے سارے سفید رنگ کے کبوتروں کو دیکھ کر پیچکامڑی کا خون کھول اٹھا۔

اس کے اندر سب کا گلا کاٹ دینے کی خواہش نے زور مارا۔ وہ غصے میں ان کی طرف جھپٹا۔ اس کی تیز جھپٹ سے اوپر رکھے پنجرے بھڑبھڑا کر نیچے گر گئے۔ اس نے دھیان سے دیکھا  توسارے پنجرے خالی تھے۔ سارے کبوتر اس کے ذہن کے اندر پھڑ پھڑانے لگے۔

وہ اپنے اداس خیال میں پھر سے لوٹ آیا اور صبح دیکھے گئے سپنے کو جان بوجھ کر دوبارہ دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ کسی ٹیلے کی ڈھلان پر زیتون کے پیڑ کھڑے ہیں۔ ایک زیتون کے پیڑ کے نیچے جدن کھڑی ہے۔ اس کے پتوں کی ہری چھاؤں میں اس کے چہرے کی تازگی دکھ رہی ہے۔ وہ بار بار دور دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پھر اچانک اس کا خواب  بدل گیا۔ اس نے دیکھا کہ ابو دور ریگستان میں پھاوڑا چلا رہے ہیں۔ وہ تیزی سے گڈھا کھود رہے ہیں۔ پھر وہ تھوڑی دیر رک گئے  اور ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ دھوپ ان کے سر پر گر رہی تھی۔ وہ بار بار اوپر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ خوف زدہ  تھا یا اداس، کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ریت کے دانے ہوا میں اڑنے شروع ہو گئے تھے۔

پھر اچانک سپنا بدل گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا مرے ہوئے کبوتروں کے بیچ کھڑا ہے اور باری باری سے ان کبوتروں کو اس کھودے گئے گڈھے میں رکھ رہا ہے۔ مرے ہوئے کبوتروں کا ڈھیر دیکھ کر آسمان میں چیلیں منڈرانے لگیں۔ ان کالی چیلوں کی اڑان کی آواز سن کر بوڑھاباپ اس گڈھے میں  دبک کر چھپ گیا۔

پیچکامڑی نے دیکھا کہ پانچ چیلیں بہت نیچے اڑتے ہوئے اس کے سر کے اوپر سے نکل گئیں۔ ان کی کلیجہ پھاڑ دینے والی آواز سن کر وہ کانپ گیا تھا۔ ان چیلوں کے پیچھے کالے دھوئیں کا غبار آسمان میں رہ گیا۔ ان کے چلے جانے کی آواز دیر تک آتی رہی۔

اس نے اپنے آنگن کے آسمان پر ان کالی چیلوں کی آواز کو سنا تھا، جو پاس کے ایئربیس کی طرف لوٹ گئی تھیں۔ ان  جنگی جہازوں کی آواز دور سے آ رہی تھی۔ اپنے سپنے میں اس طرح جنگی جہازوں  کے گھس جانے پر اسے بیحد غصہ آ رہا تھا۔

اس نے چیخ کر کہا،’ہمیں جنگ نہیں چاہیئے۔’

لیکن کوئی اس کی آواز سن نہیں پایا، کیونکہ وہ اپنے بھیتر ہی چیخا تھا۔ اس نے دیکھا کہ چائے کا کپ ٹوٹ کر زمین پر بکھر گیا ہے، جسے اس نے پنجروں میں کبوتروں کے پھڑ پھڑانے کے وہم پر اس طرف اچھال دیا تھا۔

وہ آنگن میں  بنے چبوترے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔ سپنے کا بچا ہوا حصہ پھر سے اسے یاد آنے لگا۔ وہ بوڑھا جو کبوتروں کو ریگستان میں دفنا رہا تھا۔ وہ چلتے ہوئے ان زیتون کے پیڑوں کے نیچے آ گیا۔ ان پیڑوں کی پتیوں میں خدا کی رحمت بھری ہوئی تھی، جن کی نازک چھاؤں میں وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

دور ایک عورت کھڑی تھی۔ وہ بھی اسی زیتون  کےپیڑ کے نیچے چلی گئی۔ اس نے بوڑھے کا ماتھا اپنے کپڑے سے پونچھا۔ پھر اپنی تھیلی میں رکھی پوٹلی نما  چیز سے پانی چوانے لگی اور بوڑھا اپنی ہتھیلیوں کا چلو بناکر پینے لگا۔

‘پانی!’ ہاں پانی کے لیے تو وہ بھی بھٹک رہا تھا اپنے سپنے میں۔ وہ چونک گیا کہ جس پانی کے لیے وہ سپنے میں مرنے کی کگار پر پہنچ گیا تھا، وہ اس عورت کی تھیلی میں رکھا ہوا تھا۔ پیچکامڑی بھاگتے ہوئے اس طرف گیا۔ گرم ریت سے اس کے پاؤں کے تلوے جلنے لگے تھے۔ اس کا گلا پیاس سے سوکھنے لگا تھا۔ اسے پانی نہ ملتا تو وہ کسی کا خون بھی پی سکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

جب وہ زیتون  کےپیڑ کے پاس پہنچا، تب نہ وہاں بوڑھا تھا اور نہ ہی وہ عورت۔ زمین پر گری ہوئی پانی کی بوندوں کی رمق تھی، جو بھاپ بن کر اڑ رہی تھی۔ اس ٹیلے سے پیچکامڑی نے دور دیکھا کہ شاید کہیں پانی مل جائے۔ پانی کہیں نہیں دکھ رہا تھا۔ بس ایک گڈھا دکھائی دے رہا تھا، جس میں بوڑھے نے کبوتروں کو دفن کیا تھا۔

آنگن کے ٹین کے دروازے پر ہوئی دستک کی آواز سے وہ چونک گیا۔ اس نے دھیان سے سنا کوئی اپنے بوٹوں سے دروازے کو زور زور سے مار رہا ہے۔ پیچکامڑی چبوترے سے اٹھا اور دروازے کی طرف گیا۔ تب تک فوجی دروازہ توڑکر اندر آ چکے تھے۔

ایک فوجی نے اسے دھکا مار کر چاردیواری سے سٹا دیا اور اپنی بندوق کی نال اسکی چھاتی پر ٹکا دی۔ باقی ان کے کچے مکان میں گھس گئے۔ انہوں نے پورے گھر کی تلاشی لی۔ جب کچھ نہیں ملا، تب وہ باہر نکلے۔ ایک نے آنگن میں رکھی پلاسٹک کی بالٹی کو لات مارکر پلٹا دیا۔ اس کے اندر بھی کچھ نہیں تھا۔

پیچکامڑی ان  فوجیوں کی وردی کا رنگ دیکھ کر چونک گیا۔

‘جنت کا رنگ’

ایک دم زیتونی رنگ کی وردی، جس پر کہیں کہیں جمے ہوئے  خون کے چھینٹوں کے داغ کالے پڑ گئے تھے۔ ان فوجیوں کے بوٹوں کی چررمرر کی آواز سے آنگن میں پھیلی گھاس کچل گئی تھی۔

‘کبوترباز کہاں بھاگ گیا؟’ ایک فوجی  پیچکامڑی کے پاس آیا اور دھیرے سے پوچھا۔ باقی ہنستے ہوئے باہر چلے گئے۔ پیچکامڑی کو دیر تک اپنی چھاتی پر بندوق کی نلی محسوس ہوتی رہی۔ وہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ ابھی جو کچھ ہوا وہ سپنا تھا یا پھر حقیقت۔

اس نے دھیان سے دیکھا۔ پورے آنگن میں بوٹوں کی چھاپ تھی۔ گھاس ادھڑگئی تھی۔ دروازہ ٹوٹ کر لٹک گیا تھا۔ وہ اپنے کچے مکان کے اندر گیا۔ اندر گھر کا سارا سامان بکھرا پڑا ہوا تھا۔ ابو کی فروالی سفید رنگ کی ٹوپی بھی فرش پر پڑی تھی۔ رسوئی کا سامان بھی تتر بتر ہوچکا تھا۔ گھر کا سارا سامان واپس اپنی جگہ  رکھنے کے بعد پیچکامڑی باہر نکل گیا۔ اس نے دیکھا کہ باہر دور تک فوجیوں کی گاڑیاں کھڑی تھیں اوروہ  ہر گھر کی تلاشی لے رہے تھے۔ وہ بھیتر لوٹ آیا۔

جب دیر شام جدن گھر لوٹی، تب اندھیرا ٹھنڈا ہونے لگا تھا۔ آسمان سے گرتی سرد بوندیں آنگن میں گھاس کی نوک  کونہ پا کر واپس آسمان میں لوٹنے لگی تھیں۔ گھر کا دروازہ ٹوٹا ہوا دیکھ کر جدن ٹھٹک گئی۔ اس کے ٹھٹھکنےمیں حیرت نہیں، غصہ شامل تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے ٹین کا وہ دروازہ بنوایا تھا۔

جدن کی دیہہ میں دبکی بخار کی مہک پاکر پیچکامڑی کمرے سے باہر آ گیا۔ اس نے دیکھا کہ جدن اس ٹوٹے ہوئے دروازے کا معائنہ کر رہی ہے۔

‘آج فوجی  آئے تھے۔ انہوں نے توڑ دیا۔’، پیچکامڑی کی آواز میں اداسی تھی۔

‘پھر تو سپنے کو حقیقت میں ملا رہا ہے پیچکا۔’ یہ کہتے ہوئے اس کی ماں آنگن کے اندر آ گئی۔

‘سچ میں ماں !یہ دیکھو ان کے بوٹوں کے نشان۔’، پیچکامڑی نے آنگن میں مرجھائی ہوئی گھاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

‘یہ گھوڑوں کے کھروں کے نشان ہیں۔ لگتا ہے پڑوسی کے گھوڑے پھر آنگن کی گھاس چرنے گھس آئے تھے۔ تو کہاں تھا رے باؤلے؟’ جدن کی آواز کا روکھا پن ہوا میں پھیل گیا۔

جدن جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئی وہ چیخ پڑی، ‘کمرے کا سامان کس نے ادھر سے ادھر کر دیا ہے؟’

‘فوجیوں نے تلاشی کے دوران پھیلا دیا تھا۔ میں نے ٹھیک کیا ہے۔’

‘پھر جھوٹ۔ صاف کیوں نہیں کہتا کہ چاقو ڈھونڈھ رہا تھا۔’

‘چاقو کس لیے؟’

‘سفید کبوترکو  ذبح کرنے کے لیے۔’

‘تو بھی کتنی بھولی ہے ماں۔ میں ناخن نہیں کاٹ سکتا تو ذبح کیا کروں گا؟’

‘تو پھر آنگن میں پڑے خالی پنجروں میں سفید کبوتر کیوں ڈھونڈھ رہا تھا۔ سب بکھرا دیا ہے تونے۔’

‘میں یہ سپنا دیکھ رہا ہوں، یا حقیقت ہے کہ میری پیاری ماں بھی مجھے اوروں کی طرح پاگل سمجھ رہی ہے۔’

پیچکامڑی کی روہانسی آواز سن کر جدن سہم گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ پیچکامڑی اپنی سنک میں واپس لوٹ جائے۔ اس نے بڑی مشکل سے پیچکا کو اسکے وہم کی دنیا سے باہر نکالا تھا۔

اس میں اسے پادری کی مدد بھی ملی تھی۔ لیکن وہ پیچکامڑی کے سرپھرےپن اور پادری کی خرافاتی ہمدردی  سے ڈرتی تھی۔

‘حقیقت ہے میرے بھولو۔’ یہ کہتے ہوئے جدن نے پیچکا کا گال سہلایا۔

‘تم پولیو کی مہم سے لوٹ آئیں؟’

‘ہاں۔’

‘جھوٹ مت بولو ماں۔ تم سپنے سے لوٹ رہی ہو۔’ پیچکامڑی کی رال بہنے لگی۔ اس نے غیر شعوری طور پر اسے اپنی قمیص کی آستین سے پونچھ لیا۔

‘مجھے پاگل پن کا دورہ تھوڑے ہی پڑتا ہے رے!’

‘تو پھر تمہاری تھیلی میں زیتون کی ٹہنی کہاں سے آئی؟’

پیچکامڑی کے سوال پر جدن جھلا گئی اور اپنے کندھے سے لٹکی تھیلی کو اس نے جھاڑکر دیکھا۔ اس میں زیتون نہیں بلکہ نیم کی ٹہنی تھی، جس کی نازک ہری پتیاں تھوڑی مرجھا گئی تھیں۔ مرجھا تو جدن کا چہرہ بھی گیا تھا۔ اس کی دیہہ میں دبکا بخار دھیرے دھیرے باہر آ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے تاپ سے اسے سب کچھ دھندھلا دکھ رہا تھا۔

‘یہ نیم کی ٹہنی ہے اور مجھے ہر وقت سپنے نہیں آتے۔’

‘تو کیا آتے ہیں؟ مرگی کے دورے اور شام کا بخار؟’

‘لیکن تیرے سپنے میں زیتون کا پیڑ ہی کیوں آیا؟’

‘خدا جانے ماں! لیکن پادری کہہ رہا تھا کہ۔۔۔’ پیچکامڑی کی بات کو بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے جدن نے سوال کیا، ‘تو پھر اس نقلی پادری کے پاس گیا تھا؟’

‘نقلی؟’

‘اور نہیں تو کیا۔ وہ صرف صبح نو سے گیارہ اور شام پانچ سے سات تک ہی پادری کی نوکری کرتا ہے۔ یہاں کوئی تیار ہی نہیں تھا پادری بننے کو۔ اسلئے اسے نوکری پر رکھا گیا ہے۔ ہاں بتا کیا کہہ رہا تھا پادری؟’

‘پادری کہہ رہا تھا کہ زیتون کا پیڑ جنت کے باغیچے میں  تھا۔’

‘کب، آج کہہ رہا تھا؟’

‘نہیں بہت پہلے۔’

‘دور رہنا اس پادری سے۔ وہ محبت اور ہمدردی کا جھانسہ دیتاہے۔’

محبت اور ہمدردی جیسے الفاظ سن کر پیچکامڑی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ روہانسا ہو گیا۔ محبت کے جذبے میں یکبارگی ڈوب سا گیا۔ وہ اپنی ماں سے لپٹ گیا اور گھبرا کر الگ ہو گیا۔

‘ارے ماں تمہیں تو تیز بخار ہے۔’

‘ہاں وہی شام کا بخار ہے۔ کل صبح تک ٹھیک ہو جائے گا۔ چل ٹھیک ہے ،میں تھوڑا آرام کرتی ہوں۔ بعد میں باتیں کریں گے۔’ یہ کہ کر جدن کمرے کی کھاٹ پر پسر گئی۔ اسے بخار سے بے سدھ ہوکر نیند میں جاتے دیکھ کر پیچکامڑی کو پادری کی بات یاد آنے لگی۔

اس نے کہا تھا،’جب جن آتا ہے تو بخار چڑھ جاتا ہے۔’

پادری کی اس بات  کے یاد آنے پر وہ پادری کے بارے میں سوچنے لگا۔ پیچکامڑی  جب پہلی بار پادری سے ملا تھا، اس دن ہلکی بارش ہو رہی تھی اور وہ محبوب کے گھوڑوں کے لیے گھاس لانے اس کے ساتھ پہاڑی کی ترائی میں گیا تھا۔ محبوب کو پیچکامڑی پر ترس آتا تھا۔ وہ ابو کا بچپن کا دوست تھا اور مرحوم دوست کے پریوار کی مدد کرنا وہ ضروری سمجھتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ محلے کے لوگ اور بچے پیچکامڑی کا مذاق اڑائیں۔ اس لئے وہ محلے سے دور اسے اپنے ساتھ ترائی  میں لے آیا تھا۔

جب ہلکی بارش تیز ہو گئی، تب دونوں بھاگ کر پاس کی  ایک عمارت میں چلے گئے اور اس کے احاطے میں بارش سے بچتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ بارش  کی شفاف جھالر کے بیچ اسے ایک سفید رنگ کا کبوتر اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ پیچکامڑی اس دھندھلے احساس کے پیچھے عمارت کے اندر چلا گیا۔ تب تھکان سے پست محبوب سیمنٹ کے چبوترے پر بیٹھا ہوا اونگھ رہا تھا۔

پیچکامڑی جیسے ہی عمارت کے اندر پہنچا، اس نے دیکھا کہ سامنے اونچی جگہ پر ایک بڑی سی مورتی لگی ہے۔ مورتی جس مرد کی  ہے، اسکے سر پر کانٹوں سے بھرا تاج ہے اور وہ سولی پر کیلوں سے ٹھکا ہوا ہے۔ اس کے سامنے ڈھیروں موم بتیاں جل رہی ہیں، جن کے محدود اجالے میں اس سفید کبوتر کی پیٹھ اس کی طرف تھی۔

‘آؤ چائلڈ!’

یہ جملہ  سن کر پیچکامڑی ڈر گیا۔ وہ بھاگنا چاہتا تھا، لیکن وہ کبوتر پیچھے پلٹ گیا۔ سفید لبادے میں ایک شخص کھڑا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے اس کے پاس آیا اور بولا،’گاڈ کے گھر میں ڈرتا کیوں ہے؟’

وہ ایک دم قریب آ گیا اور اس نے دھیرے سے کہا، ‘اوہ مائے اسپیشل چائلڈ۔ یو نیڈ لَو۔ ناٹ ہیٹ آر سمپیتھی۔’

پادری نے پیچکامڑی کو گلے لگا لیا۔ بارش کی نمی اور عمارت میں اڑ رہی لوبان کی خوشبو  کو سونگھتے ہوئے  پادری کی آغوش میں اسے اچھا لگا۔ اسے لگا کہ وہ اپنے ابو کی آغوش میں ہے۔

پیچکامڑی اس پادری کی آغوش میں خاموش اور کمہلائے ہوئے ہرن کی طرح دبک کر رہ گیا۔ پادری نے اس کا ماتھا سہلایا اور دھیرے سے اس کے ماتھے کو چوم لیا۔ پیچکامڑی نے دھیان سے دیکھا پادری کا چہرہ کسی عورت  کی طرح نازک اور چمکدار لگ رہا تھا۔

اس نے پادری کی پیٹھ کے پیچھے اس سفید کبوتر کو صاف صاف دیکھا، جو اس کی جانب منہ بچکا کر پیچھے کے دروازے سے بھاگ گیا۔

وہ لڑکی سفید رنگ کی فر اک پہنے ہوئے تھی، جس کی لمبی بانہوں میں سفید رنگ کے فر لگے ہوئے تھے، جو اس کے دوڑنے پر پنکھوں کی مانند لہرا رہے تھے۔

سفید کبوتر کو دیکھ  کرپیچکامڑی کے منہ سے رال بہنے لگی۔ وہ اس کبوترکو پکڑکر اس کے پنکھوں کو سہلانا چاہتا تھا۔ وہ اس سے کھیلنا چاہتا تھا۔ اسے پکڑنے کے لیے اس نے  خود کو پادری کی آغوش سے چھڑا لیا اور عمارت کے پیچھے چلا گیا۔

پیچھے کے بڑے سے دروازے سے چنار کی پرانی گندھ آ رہی تھی۔ اس دروازے کو دھیرے سے دھکیل کر پیچکامڑی اندر چلا گیا۔ اندر احاطے کے بعد ایک بڑا سا باغیچہ تھا، جس میں سیب کے ڈھیروں پیڑ لگے ہوئے تھے۔ ان پر کچے سیب لدے ہوئے تھے۔ برف کی نمی سے پاس رکھی لکڑیوں پر پھپھوند لگ گئی تھی۔

وہ سفید کبوتر کو ادھر ادھر ڈھونڈھنے لگا۔ جو کہیں نہیں تھی۔ آگے برامدے سے لگ کر کئی کمرے تھے اور سب کے دروازے بند تھے۔ وہ گھبرا گیا۔ وہ دکھی ہو گیا۔ وہ تیزی سے ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ اس کے دوڑنے کی آواز عمارت میں گونجنے لگی۔ اس کی دھمک سن کر ہلکی نیند میں اونگھتا محبوب گھبرا گیا اور تیزی سے اندر آیا۔ اس نے راستے میں کھڑے پادری کو دیکھ کر پوچھا، ‘‘کہاں ہے وہ بدھو بچہ؟’’

محبوب کی آواز سن کر پیچکامڑی واپس ہال میں آ گیا۔ دونوں عمارت سے باہر آ گئے۔

گھر کے دروازے پر جدن اس کا انتظار کرتے ہوئے چھاتا لے کر کھڑی تھی۔ حالانکہ تب تک بارش بند ہو چکی تھی اور اندھیارا پہاڑی کے چھور تک پہنچنے والا تھا۔

اس نے دیکھا دور ایک گھوڑے پر گھاس کا گٹھر لدا ہوا ہے اور دوسرے پر چچا بھتیجا بیٹھ کر آ رہے ہیں۔

پیچکامڑی گھوڑے سے کود کر اتر گیا اور بھاگتے ہوئے اپنی ماں کے پاس آ گیا۔ اپنے بچے کے چہرے پر خوشی دیکھ کر جدن سہم گئی تھی۔ اس نے پیچکا کا گال سہلاتے ہوئے پوچھا، ‘کیا بات ہے؟’

‘میں نے آج سفید کبوتردیکھا  ماں۔ بہت پیارا سا۔ چھوٹا سا۔ میں اب روز جاؤں گا اس ترائی والی عمارت میں۔’

‘کون سی عمارت؟’

‘وہی جس کی گھنٹی کی آواز آتی ہے۔’

‘وہ پادری والی عمارت۔ تم وہاں گئے تھے؟’

‘ہاں۔ وہیں ہے سفید کبوتر۔’

سِنتھیا اکثر سفید رنگ کے کپڑے ہی پہنا کرتی تھی۔ وہ خودکشی کی طرح خوبصورت تھی، جس کی روشنی دور دور تک پھیل جاتی تھی۔ بوڑھے اور ادھیڑ بھی سنتھیا کے خواب میں مرے جا رہے تھے۔ ان کا پڑوسی محبوب اس کے پیار میں اپنے سارے گھوڑے بیچنے کو تیار تھا۔ لیکن سنتھیا ایک ہوا تھی، جو اڑکر نکل جاتی تھی۔ رہ جاتی تھی تو بس اسکی یاد اور دیہہ کی سہرنیں۔

کسی کے زور سے کھانسنے کی آواز سے پیچکامڑی اپنی سوچ سے باہر آ گیا۔ اس نے دیکھا کہ کھاٹ پر اس کی ماں اٹھ بیٹھی ہے اور زور زور سے کھانس رہی ہے۔ اس نے ایک گلاس میں پانی لیکر اپنی ماں کو دیا۔ جدن نے کسی طرح اپنی کھانسی پر قابو پایا۔

‘اب کون سے سپنے میں ڈوب گیا ہے رے!’ جدن کی آواز میں بھراہٹ تھی۔ جب وہ پیچکامڑی سے پانی کا گلاس لے رہی تھی، تب اس کی جلد کی تپن اڑکر پیچکا تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن وہ تو زیتون کے پیڑ کی چھاؤں میں کب سے کھڑا تھا۔

‘وہی صبح کے سپنے میں۔’ پیچکامڑی  کی رال بہنے لگی۔ اس نے اپنی قمیص کی آستین سے اسے پونچھ لیا۔ اس کی قمیص کی دونوں آستینیں رال میں ڈوبی ہوئی رہتی تھیں۔

‘زیتون تو بہت دور کے دیش میں ہوتے ہیں۔ پہلے اوپر جنت میں ہوا کرتے تھے، جس کی پتیاں خدا کے لمس سے نم رہتی تھیں۔’

‘اور وہ بوڑھا کون تھا ماں؟’ پیچکامڑی نے سیدھے  اپنا سوال آگے کر دیا۔

‘ہوگا کوئی مسیحا۔’

‘اور وہ عورت جو اس بوڑھے مسیحا کا ماتھا پونچھ رہی تھی؟’

‘کیا معلوم بیٹا۔ اتنی گہری باتوں کی سمجھ مجھ میں نہیں ہے۔’

جدن نے بات کو رفع دفع کر دیا اور پانی کا گلاس نیچے رکھ دیا۔ تب پیچکامڑی کی جلد میں رچی بسی  ہوئی تپن پھیلنے لگی۔ اس نے اپنی ماں کو بستر پر لٹا دیا اور اس کے پیر دبانے لگا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کے پیر پر ریت کے دانے لگے ہوئے تھے۔ تلوے پر چھالا پڑ گیا تھا۔

پیچکامڑی کو پیر دباتے دیکھ کر جدن کو رونا آ گیا۔ وہ روتے ہوئے سوچنے لگی۔ ‘کتنا معصوم ہے میرا  پیچکا۔ نہ جانے لوگ کیوں اسے بڑبولا سمجھتے ہیں؟ دیکھو نا!کتنے دل  سےمیری خدمت کررہا ہے۔ کہاں آج کل کے بچہ ایسا کرتے ہیں۔’

جدن نے پیچکامڑی سے کہا، ‘ابو رہتے تو اسے فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ تولیہ ٹھنڈے پانی میں بھگو کر پورے بدن پر پھراتے۔ دو منٹ میں بخار اتر جاتا۔’

‘لیکن محلے والے تو کہہ رہے تھے کہ تمہیں شام کو جن پکڑ لیتا ہے!’

جدن نے اس کی بات کو ان سنا کرکےکھانستے ہوئے کہا۔’ہائے رے ابو!’ وہ ابو کو یاد کرنے لگی۔ وہ بہت برسوں بعد انہیں یاد کر رہی تھی۔ اس کے پاس سوائے یاد کرنے کے کچھ نہیں تھا۔

اپنی ماں کی اس پکار پر پیچکامڑی بے بسی سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ ابو کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس کی سوچ میں ابو قصبے کے بازار کے کونے میں خالی جگہ پر اپنے کبوتروں کے پنجروں کو رکھ کر کھڑے ہیں۔ ان کے آس پاس لوگوں کی بھیڑ ہے۔ کچھ بچے دھیان سے ان کبوتروں کو دیکھ رہے ہیں۔

ایک فوجی گاڑی ان کے پاس آکر رکتی ہے۔ سارے فوجی گاڑی سے اتر جاتے ہیں۔ ایک گاہک سفید رنگ کی ایمبیسڈر کار سے اترتا ہے اور ان سے سارے کبوتر خرید لیتا ہے۔ وہ باری باری سے سارے کبوتروں کو ہوا میں اڑا دیتا ہے۔ کبوتر آسمان میں اڑتے ہوئے دور چلے جاتے ہیں۔ دور بہت دور۔ آسمان اور کبوتروں کا رنگ آپس میں مل جاتا ہے۔

وہ اچانک اپنی ماں سے پوچھتا ہے، ‘کیا ہم بھی اس زمین کے پنجرے میں پھنسے  ہوئےکبوتر ہیں ماں؟’’

‘کیوں؟’

‘وہ پادری کہہ رہا تھا کہ آزادی کی مانگ کو ٹھکرا دیا گیا ہے۔ سرکار علاقے میں اور فوجی بھیج رہی ہے۔ یہ سرکار کون ہے ماں؟’

‘یہ سیاسی بات میں کیا جانوں!’

‘تو کیا سچ میں ابو بارود لے جاتے سمے مارے گئے تھے؟’

‘کس نے بتایا؟ اسی پادری نے؟اس کے پاس مت جایا کر۔ انسیت آدمی کی جان لے لیتی ہے اور ابھی تو تیری مسیں بھی نہیں پھوٹی ہیں۔’

‘تو تم بتاؤ نا ماں! ابو کے بارے میں۔’

‘کچھ خاص یاد نہیں ہے اب۔ جو یاد ہے وہ صرف وہم اورخیال ہے۔’

میری پیدائش پر وہ کئی دنوں تک گھر نہیں آئے تھے۔ کیا یہ سچ ہے؟’

‘ہاں۔ یہی ایک بات مجھے اچھی طرح یاد ہے۔’

‘کیا وہ بو والی بات۔’

‘ہاں۔ ہاں۔’

‘تمہیں کس نے بتایا؟ محلے والوں نے؟’

‘ہاں۔’

‘جب تو پیدا ہوا تھا، تب تیرے ابا نے دور سے ہی نظر پھیر لی تھی، جب میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس کے بدن سے بہادری  کی بو آ رہی ہے اور پھر وہ باہر بھاگ گیا۔’

‘پھر؟’

‘پھر کیا۔۔۔ وہ کئی مہینوں تک نہیں آئے۔ میں سوچ رہی تھی کہ برف اتر جانے کے بعد ضرور لوٹ آئیں گے۔ لیکن وہ نہیں آئے۔ اور جب آئے تو ان کا جسم ٹکڑوں میں آیا۔’ یہ کہ کر جدن رونے لگی۔

وہ روتی ہوئی سو گئی۔ پیچکامڑی نے دھیان سے دیکھا، اس کی ماں گہری نیند میں چلی گئی تھی۔ اس کا تاپ ہلکا ہو گیا تھا۔ پیچکامڑی باہر نکل آیا۔ آنگن میں اس نے اپنی کھاٹ بچھائی اور پھر اس پر مچھردانی لگائی۔ وہ چپ چاپ اس کے اندر پسر گیا۔ اسے اپنی آنکھوں میں کچھ گیلا  پن سا محسوس ہوا۔ وہ اپنی حالت پر چونک گیا۔

‘ارے !میں بھی روتا ہوں، محبوب تو کہہ رہا تھا کہ کم عقل لوگوں کو رونا نہیں آتا۔’

اپنی اس صلاحیت کو پہچان کر وہ خوش ہو گیا اور خوشی خوشی دیر تک روتارہا۔ اس نے روتے ہوئے پادری کو یاد کیا۔ اس نے روتے ہوئے سفید کبوتر کو یاد کیا۔ اس نے روتے ہوئے اپنے ابو کو یاد کیا۔

جب وہ روتے ہوئے پادری کو یاد کر رہا تھا، تب اس کے اندر ایک نیا جذبہ پنپنے لگا۔ اسے غصہ آنے لگا۔ وہ پہلی بار غصہ ہو رہا تھا۔ اسلئے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ پیر کیوں کانپ رہے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آگ کیوں پھیل گئی ہے۔ لیکن اسے اتنا سمجھ آ رہا تھا کہ اس دن پادری کے بدن میں بخار نہیں تھا۔ وہ تو مالش کے بہانے اس سے کھلواڑ کر رہا تھا۔

جب وہ روتے ہوئے سفید کبوتر کو یاد کر رہا تھا، تب اس کے اندر ایک دوسرا نیا جذبہ پنپنے لگا۔ اسے پیار آنے لگا۔ وہ ایک دم پہلی بار پیار کو محسوس کر رہا تھا۔ اسلئے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیوں اسے اپنے اندر سب کچھ خالی خالی سا لگ رہا ہے۔ کیوں وہ بار بار سفید کبوتر کو یاد کر رہا ہے۔

لیکن اسے اتنا سمجھ آ رہا تھا کہ سفید کبوتر اس دن پیار نہیں کر رہا تھا۔ وہ محبوب کے پیسے نچوڑ رہا تھا۔ محبوب نے اپنے تین گھوڑے اس کا پیار پانے کے لیے بیچ دیے تھے۔ اس نے سفید کبوتر کو محبوب سے پیار کرتے دیکھا تھا۔

اسے پہلی بار اپنی روح کا احساس ہوا۔ وہ زارو قطار رونے لگا۔ وہ اتنا رویا کہ پورا آنگن اس کے آنسوؤں سے بھر گیا۔ وہ چپ چاپ بستر سے اٹھا اور رسوئی کے اندھیرے میں کچھ ڈھونڈھنے لگا۔ اس کے پیروں کی دھمک اور کھڑ کھڑاہٹ سن کر جدن جاگ گئی۔

وہ زور سے چیخی، ‘چور۔ چور۔’

پھر اپنے افلاس کا خیال آتے ہی چپ ہو گئی۔ اس نے پھسپھساکر پوچھا، ‘پیچکا!’

پیچکا گھبرا کر باہر بھاگ گیا۔ پھر وہ صبح تک اپنے بستر پر کروٹ بدلتے ہوئے پڑا رہا۔ نیند نے اسے دھیرے دھیرے کترنا شروع کر دیا۔ وہ اپنی نیند میں مرنے لگا۔

اس نے دیکھا کہ وہ آسمان کے اس پار جنت پہنچ گیا ہے۔ چاروں طرف زیتون کے پیڑ لگے ہیں۔ ان کے بیچ میں کہیں کہیں سیب کے پیڑبھی ہیں۔ ان کے آس پاس انجیر کے پیڑہیں اور بادام اور انگور کے بھی۔ ان کے آس پاس گلابوں کی جھاڑیاں۔ ان جھاڑیوں کے پیچھے ایک سفید کبوتر۔ ادھر سے ادھر پھدکتا ہوا۔ وہ اتراتے ہوئے اپنے فر اک کو ہوا میں اڑا رہا تھا۔

پیچکامڑی نے دھیان سے دیکھا۔ وہاں اڑنے والی گلہریاں تھیں۔ گانے والے مینڈک۔ پنکھوں والے خرگوش۔ ایک اشارے پر ملنے والے پھل۔ قسم قسم کی خوشبوئیں۔ ساری پتیوں پرخدا کی مسکراہٹ کی چمک۔ اور دور سے ہوشیار  کرتے گوریلا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہاں نہ گرمی ہے اور نہ ہی ٹھنڈ۔ نہ بھوک ہے اور نہ دکھ۔ نہ چاہت ہے اور نہ ہی سپنے۔

سنتھیا کی  فراک ہوا میں پنکھ بن کر پھڑ پھڑانے لگی اور وہ اڑتی ہوئی اس کے پاس آئی۔ اس نے پیچکامڑی کا سر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ جوشِ محبت میں پیچکامڑی کا چہرہ سورج مکھی کے پھول کی طرح کھل سا گیا۔ اس سورج مکھی کے رسیلے دانوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لینے کے لیے سنتھیا جیسے ہی جھکی،  پیچکامڑی کا خواب ہوا ہوگیا۔

اس نے ڈر کر اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس نے دیکھا کہ صبح کی روشنی سے آنگن بھر گیا ہے۔ اس کے آنسو تتلی بن کر اڑ رہے ہیں۔ سامنے جدن کھڑی اس کی طرف تاک رہی ہے۔ پیچکامڑی کو دیکھ کر وہ چیخ پڑی، ‘پھر تو اسی سنتھیا کے سپنے دیکھ رہا ہے۔’

‘تو کیسے جان لیتی ہے ماں؟’

جدن نے اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں کے مکالموں کے بیچ لاؤڈاسپیکر سے آ رہی سرکاری منادی کی آواز گھس آئی۔

‘سنو سنو۔ پابندی اور تیرہ مہینوں کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔’

دونوں اس منادی کو سن کر چپ ہو گئے اور وہ آواز دھیرے دھیرے دور چلی گئی۔ جدن نے اپنی تھیلی سے بچی ہوئی آلو کی سبزی اور پوریوں کو نکال کر دیکھا۔ اس سے بدبو آ رہی تھی۔ اس نے  اسےباہر پھینک دیا اور پیچکامڑی کی طرف دیکھ کر کہا،’تم نے کل رات کچھ نہیں کھایا تھا؟’

اس نے بھی کچھ جواب نہیں دیا۔ حساب برابر ہو گیا۔ چپی کے شور میں دونوں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ جدن دیکھتی ہے کہ آنگن کی کچلی ہوئی گھاس سوکھ کر پیلی ہوتی جا رہی ہے۔ پیچکامڑی نے دیکھا کہ اس کی ماں کا چہرہ دن بدن بوڑھا ہوتا جا رہا ہے۔ اسے اپنی ماں کی جلد سے زیتون کی  بو آنے لگی۔

وہ اپنے پرانے سپنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ سپنے میں وہ ترائی والی عمارت کے پیچھے والی دیوار پھاند کر پہنچا۔ تب اندر کوئی نہیں تھا۔ پادری کے پادری بننے کی صبح کی ڈیوٹی ختم ہو چکی تھی اور وہ قصبے کے بازار کی  جانب چلا گیا تھا۔

دن کے اس سمے وہ بازار میں گرم شال اور مفلر بیچا کرتا تھا۔ بازار کے اندر بڑی دکانیں اور شوروم تھے۔ اس لئے پھیری والوں کو خون والی جھیل کے پاس کی فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر اپنا سامان بیچنا پڑتا تھا۔

تب مین لینڈ سے بہت سارے سیاح آتے تھے۔ انہیں بھیڑوں کی اون اور لوگوں کی چیخ سے بنی شالیں زیادہ پسند آتی تھیں۔زیادہ ٹھنڈ پڑنے پر ایسی  خوفناک شال پہننے سے انکا کلیجا ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ وہ چیخ کر کہتے تھے۔

‘سالوں کو آزادی چاہیے۔’

پیچکامڑی جیسے ہی دیوار پھاند کر عمارت کے پیچھے اترا، ویسے ہی ایک کتا اسکی طرف جھپٹا۔ کتے کے بھونکنے کی آواز سن کر سنتھیا دوڑتی ہوئی باہر آئی۔ اس نے کتے کی چین کو پکڑ کر اسے پیچکامڑی سے دور کیا اور کہا، ‘‘اسے تمہاری آستین میں  جمی رال کی بو بہت پسند ہے۔ اسلئے یہ تم پر جھپٹ پڑا۔’

پیچکامڑی زمین پر گر پڑا تھا۔ اس نے اپنی کہنی کو دھیان سے دیکھا، اس کی کہنی چھل گئی تھی۔ اس نے اپنی کہنی کو چاٹ لیا۔ تب سنتھیا کتے کو دور ،اس کی  مقررہ جگہ پر باندھ رہی تھی۔ پھر وہ پیچکامڑی کے پاس آئی۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور پیچکامڑی کے سر پر ہاتھ پھراتی ہوئی بولی،’چوٹ تو نہیں لگی؟’

وہ کچھ کہہ نہیں پایا۔ وہ سنتھیا کی بھوری آنکھوں کو دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں ہمدردی  تھی۔ اس کی قربت  میں عجیب سی پکار تھی، جسے پیچکامڑی سن پا رہا تھا۔

اس نے دھیرے سے سنتھیا کا گال سہلایا۔ سنتھیا نے کچھ نہیں کہا۔

پھر پیچکامڑی نے دھیرے سے اس کے کندھوں کو پکڑ لیا۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔

پھر اس نے سنتھیا کو اپنی طرف طاقت سے جھکانا چاہا۔ وہ جھٹکے سے اٹھی اور بولی،’ایسے اکیلے میں مت آیا کرو۔’

سنتھیا نے اسے چلے جانے کا اشارہ کیا اور اپنے کمرے کے اندر چلی گئی، جدھر سے دو لوگوں  کے کھونکھیانے کی آواز آئی۔ وہ دیوار پھاند کر باہر آیا اور سوچنے لگا کہ وہ دوسری ہنسی کی آواز کس کی تھی۔ یہ  سوچتے ہوئے وہ گھر لوٹنے کے بجائے خون والی جھیل کی طرف چلا گیا۔

اس نے دور سے دیکھا کہ جھیل چاروں طرف سے دیوار سے گھری ہے۔ اس کے اندر چھوٹی بڑی ڈھیروں ناؤ چل رہی ہیں، جس میں سیاح بیٹھ کر چیخ رہے ہیں ،چلا رہے ہیں، سورج کی ترچھی کرنوں سے جھیل کی سطح پر نارنگی رنگولی سی  بن گئی تھی۔

اس رنگولی کو بیچ بیچ میں کوئی ناؤ چیر جاتی تھی۔ جھیل کے مرکزی  دروازے سے بہت پہلے، ایک پیڑ کے نیچے فٹ پاتھ پر بیٹھا نقلی پادری گرم شال اور مفلر کے ڈھیر لگا کر بیچ رہا تھا۔

اس نے پہلی بار پادری کو پینٹ اورشرٹ میں دیکھا۔ پادری اسے دیکھ کر منہ پھیر لینا چاہتا تھا لیکن وہ بھاگ نہیں سکتا تھا۔ پیچکامڑی اس کے پاس پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور بولا، ‘تمہیں پتہ ہے وہاں عمارت میں سنتھیا کے ساتھ کون ہے؟’

اپنی جیکٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے نقلی پادری بولا، ‘ہمم۔ وہی تمہارا گھوڑے والا دوست۔’

‘تم منع کیوں نہیں کرتے؟’

‘کسے؟

‘سنتھیا کو۔’

پادری شال کے ڈھیر کو ٹھیک کرنے لگا اور اس سے دھیرے سے کہا، ‘ابھی گاہک آ رہے ہیں۔ تم جاؤ۔’

پیچکامڑی دور چلا گیا اور پادری کے کام نمٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ وہ اس خونی جھیل کی دیوار پر بیٹھ گیا۔

اسے جھیل سے اپنے اجدادکی روحوں کے چیخنے چلاّنے کی آواز آنے لگی۔ اس نے پلٹ کر جھیل کی  جانب دیکھا۔ سیاح زور زور سے چلا رہے تھے۔

اپنا سارا سامان سمیٹ کر جب پادری اس کے پاس آیا، تب پیچکامڑی  اسے دیوار کے پار جھیل کے پاس لے گیا اور پوچھا، ‘‘اس جھیل میں کتنا لیٹر خون ملا ہوگا؟’

‘مجھے کیا پتہ؟’

دونوں جھیل میں اترنے والی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ شام کی ٹھنڈک دور سے آنے والی تھی۔ لیکن پوری طرح آئی نہیں تھی۔

‘لیکن یہ تو جانتے ہو کہ اس میں ہمارے سیکڑوں  بزرگوں کو مارکر پھینک دیا گیا۔’

‘کچھ نے تو جھیل میں کود کر اپنی جان لے لی۔’

‘لیکن فوجیوں کے ذریعے  اندھیری راتوں میں پھینکی گئی لاشوں سے تویہ جھیل بھری ہوئی ہے۔’

‘آزادی مانگنے کی قیمت ہے وہ۔ لیکن تم یہ سب سوال کیوں کر رہے ہو۔ سب تو تمہیں کم عقل کہتے ہیں۔ لیکن لگتا تو نہیں ہے۔’

پادری نے مشکوک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ تب پیچکامڑی اپنا منہ بچکاتے ہوئے جھیل کی اور دیکھ رہا تھا۔ گویا سارےاجداد اس کی تلہٹی سے نکل کر باہر آئیں گے اور اسے دعا دیں گے۔

‘اچھا چھوڑو یہ سب۔ کیا تم جانتے ہو کہ میری ماں کو شام کو جکڑنے والے جن کا نام کیا ہے؟’

‘ہاں’

‘تو بتاو۔’

‘ٹی بی!’

پیچکامڑی چپ چاپ اٹھا اور گھر کی طرف دوڑنے لگا۔ اسے پیچھے سے سینکڑوں مردہ لوگوں کی چیخیں سنائی دیں۔ لیکن وہ نہیں رکا۔ وہ دوڑتا ہی رہا۔

 

‘لے چائے پی لے!’

جدن کی آواز سے پیچکامڑی گھبرا گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا۔ باہر سورج کی تیز دھوپ دیوار پر گر رہی تھی۔ کھاٹ پر وہ اوندھا پڑا ہوا تھا۔ وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھا۔

‘اداس دکھ رہا ہے رے پیچکا۔ کیا بات ہے؟’ جدن نے اسے دلارتے ہوئے کہا۔

‘نہیں تو۔’

‘پھر کوئی برا سپنا دیکھا کیا؟’

‘نہیں۔ بس سپنا تھا۔’

‘تو بتا۔’

وہ تھوڑی دیر چپ رہا۔ جیسے  اپنے سپنوں اور یادوں کے خزانے کو ٹٹول رہا ہو۔ وہ ان ساری باتوں اور حوالوں کو اپنے ذہن میں اکٹھا کرنے لگا۔   اس نے غیر شعوری طور پراپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے سہلانے لگا۔ پھر اس نے دھیرے سے کہنا شروع کیا۔

‘میں نے دیکھا ماں کہ میں زیتون  کےپیڑوں سے دور اس ریتیلے ٹیلے پر ایک سفید کبوتر کا گلا ریت رہا ہوں، اسکے خون کا فوارہ اڑ رہا ہے۔ سفید کبوتر کو اس گڈھے میں دفن کرنے کے لیے جب میں نے مٹی ہٹائی، تب دیکھا کہ مٹی کے نیچے درجنوں بچوں کی لاشیں دفن ہیں۔ کچھ لاشوں کے ہاتھ پیر بمباری میں اڑ ے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔میں وہاں سے بھاگنے لگا۔ میں نے بھاگتے ہوئے دیکھا کہ وہ بوڑھا مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں اور تیزی سے بھاگنے لگا۔ دیکھ نا بھاگتے سمے میں گر پڑا اور میری کہنی بھی چھل گئی۔’ یہ کہتے ہوئے پیچکامڑی نے اپنی کہنی جدن کو دکھائی۔

‘ارے ارے!’

اس کی ماں نے پیچکامڑی کو اپنے گلے سے لگا لیا۔ پیچکامڑی  اس کی آغوش میں پسر گیا۔ وہ سپنوں کا مارا تھا۔ اس کے منہ سے رال بہنے لگی۔ اس نے اپنی آستین سے اسے پونچھ لیا۔

دیر تک اسے اپنی بانہوں میں دلارنے کے بعد جدن نے اس سے کہا، ‘اب تو وہ چاقو واپس کر دے!’

پیچکامڑی اپنی ماں کی آغوش سے نکلا اور خون والی جھیل کی طرف چلا گیا۔

٠٠٠٠٠

 

ریاست کے جبر پر لکھی ہوئی بہت سی کہانیاں ہم سبھی نے پڑھی ہیں، ظاہر ہے کہ  اس وقت پوری دنیا میں لوگ اس جبر کے حامی بھی ہیں اور شکار بھی۔بچوں، جوانوں، بوڑھوں، عورتوں سبھی پر یہ جبر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے ، ایک مختصر سی کہانی میں سنجے منہرن سنگھ نے اس موضوع پر بالکل نئے  انداز میں قلم اٹھایا ہے۔اس کہانی کو آپ دنیا کے کسی بھی خطے پر رکھ سکتے ہیں،  یہ آپ کو سب جگہوں کے دکھ کا نقشہ پوری ایمانداری سے دکھانے میں کامیاب ہے۔سنجے منہرن کی کہانیاں اپنے اچھوتے اسلوب، دلچسپ پیرائے کے ساتھ ساتھ کرداروں کے انوکھے ناموں کی وجہ سے بھی اپنی طرف توجہ کھینچتی ہیں۔ شاید شناخت کے نام پر ابل رہی ہماری دنیا میں وہ شناخت سے پیچھا چھڑانے کے لیے اپنے کرداروں کو ایسے نام دیتے ہیں، جن سے ان کی تہذیبی یا مذہبی شناخت  کا پتہ لگانا آسان نہ ہو۔بہرحال یہ کہانی مجھے اپنی اب تک کی ہندی سے اردو میں ترجمہ کی گئی کہانیوں میں ،سب سے زیادہ پسند آئی ہے۔ آپ اسے پڑھ کر اپنی رائے شیئر کرسکتے ہیں۔شکریہ

سنجے منہرن سنگھ کا جنم 28 دسمبر 1970 کو مان پور، شہڈول، مدھیہ پردیش میں ہوا۔انہوں نے  ‘تاریخ اور دیہی ترقی’ کے موضوع پر ایم اے کیا اور ہسپانوی سے ہندی ترجمے میں ڈپلوما بھی لیا۔فی الحال وہ چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ میں مقیم ہیں۔روزگار کے سلسلے میں ان کا دلی، ممبئی، بنگلور اور دوسرے کچھ شہروں میں بھی رہنا ہوا۔ان کا ایک شعری مجموعہ ‘دیہہ کی لوریاں’ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ‘خواب سا کچھ’ کے عنوان سے وہ ایک ناول بھی قلمبند کرچکے ہیں، جو کہ لوک بھارتی، راج کمل پرکاشن سے شائع ہوچکا ہے۔انہیں اب تک کئی ادبی اعزازات سے نوازا بھی جاچکا ہے۔ان کی کہانیاں ملک کے موقر ادبی جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔مندرجہ بالا کہانی ہندی کے بہت اہم اور کامیاب ترین رسالے ‘تدبھو’ کے تازہ شمارے میں شامل ہے اور اس کا ترجمہ مصنف کی اجازت سے شائع کیا جارہا ہے۔