ہم سے رابطہ کریں
- info@awrurdu.com
ایک مردہ مزور کا بیان
جن شاندار شہروں کو ہم نے بنایا
روشنی سے سجایا
ہمیں ان شہروں کی نیم اندھیری جگہوں میں رہائش ملی
ہم نے چراغ بنائے لیکن اوروں کے لیے
ہم نے خوبصورت مکان بنائے جن کے مکین ہم نہیں
کوئی اور ہوا
ہم نے قلم بنایا جس سے اور لوگوں نے ہماری قسمت لکھی
ہم نے جہاز بنائے، موٹریں بنائیں
گوکہ ہمارا استعمال
استعمال کی ساری چیزیں تیار کرنے میں ہوا
جن کی پہنچ ہماری جیبوں سے دور ہی رہی
ہم دھرتی کی ساری گندگی کو دھوتے رہے پشت در پشت
لیکن ہمیں گندگی میں جیا کیے
ہم نے تالے بنائے
جنہیں ہمارے ہی مستقبلوں پر جڑ دیا گیا
ہم نے ہیرے تراشے جو صرف حاکموں، امیروں اور سلطانوں کے لیے تھے
ہم نے کنویں کھودے، نہریں نکالیں
جن کا پانی ہم پر ہی حرام ہوا
ہم نے سڑک بنائی
جس پر مال اسباب کے بوجھ سے کوٹھیاں بھری گئیں
اور جس نے دنیا کی ہر آبادی کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا
لیکن صد افسوس کہ آج اس وبا کےد ور میں
ہمارا وفادار کوئی بھی ثابت نہ ہوا
ہواؤں نے بھی نشتر بن کر ہمارے پست سینوں کو چھلنی کیا
وہ چمکیلی سڑکیں بھی جو عموماً گھروں تک جاتی تھیں
ہمیں دردناک موت کے حادثوں تک لے گئیں
ریل کی پٹریوں پر بکھری ہماری گٹھریوں کی سوکھی روٹیاں
دراصل ہماری سوکھی ہڈیاں ہیں جج صاحب!
٠٠٠
چھٹکارا
ایک دلفریب خواب تھا
یا کوئی اور دنیا کا مخصوص وقفہ
بتانا مشکل ہے۔۔۔
لیکن اس سے بھی مشکل یہ ہے
کہ جب آنکھ کھلی
میں میز پر رکھی ران کی طرح پڑا تھا
اور میرے گرد و پیش
ایک چار سو سال پرانی
تاریکی تھی
جس میں میں
سکوں کی طرح کھنکتا تھا۔۔۔
مجھے روئی کے گولے میں بدل کر
ایک ٹین کے بکسے میں
حفاظت سے رکھا گیا
کسی کا زخم صاف کرنے کے لیے
مجھے آبنوسی لکڑی کے فریم میں
آئینہ بنا کر
جڑ دیا گیا
اور شہر کی فصیل پر
لٹکایا گیا
میں سینکڑوں سال تک، منوں دھول کھاتا
اور پانی پیتا رہا
میری لکڑی کو ملائم سمجھ کر
خون اور منی پونچھی گئی
جن کے نشان
آبنوسی رنگ میں غائب ہوجاتے۔۔۔
میں نے جنگ کے میدان سے
اٹھتے شور کو
گہرائی سے محسوس کیا
جب میرا شیشہ
چٹخ گیا
اور میں
اپنے آبنوس سے
لگ بھگ آزاد ہوگیا۔۔۔
لیکن سوال تھا
ابھی میرے پاس صرف دو ہاتھ اور آدھا دھڑ تھے
میرے پیر ابھی بھی قلعے کے اندرونی حصے میں دفن تھے
مجھے انہیں پانے کے لیے
اپنی زبان کا سودا کرنا پڑا
مجھے ایک درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں لے جایا گیا
جب میں اپنی تلوار کھو چکا تھا
اپنی زبان گروی رکھ چکا تھا
اپنا قلم توڑ چکا تھا
مجھے ایک ہیبت ناک واقعے کا کردار بنایا گیا
مجھے نئی زبان پہنائی گئی
مجھے ایک نئی تلوار دی گئی
مجھے ایک سفید گھوڑے پر
یوں محاذ پر روانہ کردیا گیا
جیسے اسی دن کے لیے میں پیدا ہوا تھا
جیسے یہی میرا خواب تھا
یہی میرا کردار
میں نے لگام کھینچی اور میرے ہاتھ اکھڑ گئے
میں نے صدائیں دینی چاہیں اور میری زبان کھو گئی
میں گھوڑے سے اتر گیا
اور اس کے کھروں سے
نعل نکال کر
اسے آزاد کردیا
اور میں اپنے ہاتھ
اور زبان کے انتظار میں
رستے کے کنارے
وہیں لیٹ گیا
اور جب میری آنکھ کھلی
میں میز پر رکھی ران کی طرح پڑا تھا
میں نے اس طرح خواب اور جسم
دونوں سے چھٹکارا حاصل کیا
٠٠٠
شہر ایک مذاق ہے
جب پتیاں روشن ہوتی ہیں
ننگی آوازوں میں
چھنتی ہے راکھ آئنوں سے
تھوک کی طرح گرتا ہے اپنا ہی چہرہ۔۔۔
نازک فٹ پاتھوں پر
کچلی جاتی ہیں خواہشیں
ایک مڑے تڑے کاغذ کی طرح
مرتے ہیں خواب
جو کچرا گاڑی کے پہیے میں چپکے، پھڑپھڑاتے ہیں
ایک خیال کی طرح کھلتا ہے وقت
اور بند ہوتا ہے مبہم آوازوں میں۔۔۔
کتنا ہے سمے؟
کتنا؟
اور کتنا؟
ہانپتا ہے کوئی بھیتر: دُبکا ہوا
کوئی جھنجھوڑتا ہے بار بار
آنکھیں ملتے کوئی دوبارہ سوجاتا ہے
فخریہ چادر تانے۔۔۔
جیون کی نیّا ڈگمگ ڈولتی ہے
کانپتی انگلیوں سے گرتے ہیں الفاظ
دور تک دوڑتا ہے بچہ
ایک ٹھوکر کھاتا، ہوتا ہوا لہو لہان
لیکن نکالتا نہیں ایک بھی آنسو
ہونٹ بھی ایک خیال معلوم پڑتا ہے
جو کھوجاتا ہے بھیڑ میں
ہم ڈھونڈتے ہیں بد حواس۔۔۔
لمبی جیبیں
نہیں چھپاتیں ہماری کمزوریاں اور کمینگیاں
مسخرے پن سے چلتی ہیں چیزیں
حسب معمول
ایک قیدی نکلتا ہے جیسے بد حواس۔۔۔
شہر گھورتا ہے اسے
دھتکارتی ہیں گلیاں
اور ملائم اندھیرے: نکڑوں پر
کستے ہیں پھبتیاں
ایک پیلی تھکان گھیرتی ہے
سمتوں کے کان کھڑے ہوتے ہیں
دبلی مریل سی روحیں
اپنی دھندھلی شکلیں ٹٹولتی ہیں
ناک گرجاتی ہے، ریزگاری میں۔۔۔
جب سخت ضرورت ہوتی ہے تشبیہوں اور استعاروں کی
وہ گمراہی اختیار کرتے ہیں کمبخت!
زبان کی کتیا
روتی ہے بے آواز
نظم میں۔۔۔
بس سنائی دیتے ہیں
بھونڈے پتھروں سے شبد
سر پر برستے ہوئے۔۔۔
بے وفا رات دھندھلاتی ہے
نازک پیروں کے نشان۔۔۔
گویا اپنی ہی انتڑیاں
کھنچتی چلی جاتی ہیں
سنسنان سڑکوں پر۔۔۔
٠٠٠
نیلی بیاض
اگر لفظوں کی صحت کم کردی جائے
تو بہت بڑی بڑی سطریں بھی
اس چھوٹی سی جادوئی بیاض میں
سما جاتی تھیں
جو طاق پر حفاظت سے رکھی جاتی تھی
جس کے پچھلے پنوں پر میں تصویر بناتا
جس کی ضرورت گاہے بگاہے پڑ ہی جاتی تھی
اس میں حسب حال شعر
فون نمبر
پرانے پتے
بچوں کے جنم دن
حساب کتاب
بچت، قرض
مہینے کا پتلا بجٹ
ایک دیوار کھڑی کرنے کی لاگت
کتنا کچھ ہوتا تھا
اس چھوٹی سی نیلی بیاض میں
پہلے وہ بیاض گم ہوئی
پھر وہ رسم الخط
پھر وہ لوگ
پھر وہ گھر
اور پھر ہماری یہ زندگی
٠٠٠
التجا
ہمارے ساتھ ہماری تھوڑی بدنصیبی بھی چلی آئی تھی
آپ کا بھلا کیا قصور!
کچھ بستیاں خاک میں مل جائیں
آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو
کچھ نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوجائیں
آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو
یہ تاریخی مہایگیہ پورا ہو
آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو
ہمارے قاتل!
ہمارے دلدار!
اب جینے کی نہیں
مرنے کی رخصت چاہتے ہیں
کوئی خواہش نہیں، کوئی شکوہ نہیں
بس اتنی التجا ہے آپ سے
ہماری قبروں میں ہی
اپنے خنجر بھی دفن کردیجیے گا
٠٠٠
سرد لفافہ
جب سرمئی شام کی پتھریلی سڑکوں کو
پار کرتا ہوا
میں اپنے روکھے بالوں سے کچھ گرد جھاڑتا
اس سے اچانک ٹکرایا تھا
اس نے سورج کی کچھ کرنوں کو
میری آنکھوں میں چپ کی سیڑھیاں اترتے۔۔۔
دیکھ
لیا
تھا
جسے میں نے آنسوؤں کے جھُٹ پٹے میں
بے ترتیبی سے چھپا کر تھام رکھا تھا
اور ایک پھیکی مسکراہٹ بھر سکا تھا
وہ میرا ندیم
وہ میرا دوست
وہ میرا پیار
ایک دھڑکتے حادثے کی طرح
ایک طوفان کو کچھ عرصہ روکے کھڑا رہا
میں نے اسے جب جب صدائیں دیں
وہ آیا
اور پاس بیٹھا رہا
اس کے پاس سارے سُر تھے
اور میرے پاس کچھ چھِدرے گیت
ہماری جُگل بندی نے کتنے پر پھیلائے
داستانوں کی طرح لمبے ہوتے گئے
اور افق کے سرمے پر سرخی مل دی
لیکن خوش نما رات کے ایک وقفے میں
اس نے میری روح میں جھانکتے ہوئے
مجھ سے ایک سوال پوچھا تھا
اور میں نے ایک سرد لفافے کی طرح
اس کی بے جان ہتھیلی کو
اپنی ہتھیلی میں دبا کر
ایک افسوس کی طرح
جیب میں رکھ لیا تھا
٠٠٠
گندے ہوٹل
ان کی بھی اپنی ضرورت تھی
ان کے بھی اپنے بیرے تھے
جو گندا کھانا پروسنے میں ماہر ہوچکے تھے
اور موٹی گالیاں سننے کے بھی
وہ کھانے والے کے برے مزاج اور مایوسی کو بھانپنے کی
پوری قوت رکھتے
انہیں معلوم تھا زندگی کا معمول
آدمی کی اوقات
اور بھوک کا وقت
انہیں کسی کی تعریف کی
ضرورت ہی نہیں پڑی کبھی
وہ جانتے تھے کہ ان کے نام
ہمیشہ ایک طرح سے ہی لیے جائیں گے
انہیں بطور ٹِپ، بھدی گالی کے سوا
کبھی کچھ نہیں ملے گا
اب تو آنے والے بھی
بغیر شکایت ہی کھاکر اٹھ جاتے
آدھے سے زیادہ کھانا
پلیٹ میں ہی چھوڑ کر چلے جاتے
یا میز پر گرا کر اٹھ جاتے
انہیں معلوم تھا
کچھ کہنے سننے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا
سدھار کی ہر گنجائش سے پرے تھے یہ گندے ہوٹل
سو وہ بھی بس اپنی بھوک مٹانے ہی آتے رہے یہاں
ان گندے ہوٹلوں کے بارے میں
سب کو پتہ ہوتا
لیکن پھر بھی یہ چلتے رہتے
اسی طرح جیسے جی رہے ہیں یہاں سب لوگ
اپنی گندی زندگیاں
بنا کسی شکایت کے
بنا کسی ولولے کے
بنا کسی امید کے
میں بے دلی سے کھائے جارہا تھا
اور وہ مجھے دیکھ رہا تھا
اس نے میرے کہنے سے پہلے ہی
تھالی میں گرادی ایک اور روٹی
دراصل وہ مجھ سے زیادہ جانتا تھا
میری بھوک کو
یہ گندے ہوٹل اس تہذیب کا نچور ہیں
قدرت کا لازمی اصول ہیں یہ
آدمی کی مجبوری اور کم ظرفی پر ہنستے
سب کی ایک سی آؤ بھگت کرتے
غریب کی انتڑیاں شانت کرتے
ہر بار گندا کھانے کی گارنٹی دیتے
گندے گلاس میں گندا پانی پروستے
کائنات کی شروعات سے ، کائنات کے انت تک
پروستے رہیں گے آگے سب کے
یوں ہی ایک سا گندا کھانا
یہ گندے ہوٹل بنے رہیں گے ہمیشہ
بھوک کا ابدی پیمانہ
٠٠٠
عدنان کفیل درویش بلیا، اترپردیش سے تعلق رکھتے ہیں۔ دلی یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کرنے کے بعد عدنان نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہندی ساہتیہ میں ایم اے کیا اور بعد ازاں وہیں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔انہوں نے ہندی شاعری میں اپنی زبان اور اسلوب کے ساتھ مضامین کے سبب بھی اپنی ایک خاص جگہ بنائی ہے۔ اب تک ان کے دوشعری مجموعے ‘ٹھٹھرتے لیمپ پوسٹ’ اور ‘نیلی بیاض’ کے نام راج کمل پرکاشن ، ہندی سے سے شائع ہوچکے ہیں۔
عدنان کفیل درویش اپنے منفرد لہجے کی بنیاد پر ہندی کی نئی نظم کا ایک اہم نام بن گئے ہیں۔ ان کے یہاں سماج میں موجود ناانصافی اور نابرابری سے پیدا ہونے والی ابتری کی جو شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں، وہ اپنی طرف توجہ کھینچتی ہیں۔ اردو الفاظ ان کی شعری زبان کا ایک خاص حصہ ہیں، جسے ہندی کی اس نئی شعری فضا میں ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ قبول اور پسند کیا جانے لگا ہے۔ عدنان نے اپنی نظموں کے ذریعے اقلیت، اقلیتی علاقوں، پچھڑوں، دبے کچلے لوگوں اور فرد کو نظر انداز کرنے والے نام نہاد جدید اور ترقی یافتہ خوابوں پر بھی کئی سوالیہ نشان قائم کیے ہیں۔’ اوراردو’ پر ان کی یہ نظمیں ان کے دونوں شعری مجموعوں ‘ٹھٹھرتے لیمپ پوسٹ’ اور ‘نیلی بیاض’ سے ماخوذ ہیں، آخر کی دو نظمیں ہندی میں بھی ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔