Edit Content

پاروتی ترکی کی نظمیں

نکدَونا چڑیا: ایک

 

آسمان میں اڑتے ہوئے

نکدونا گیت گار ہی تھی

 

اس کے گیت کی

مدھر آواز سنائی دے رہی تھی

 

پوئیں چے چے۔۔

پوئیں چے چے۔۔

 

اس کے اس گیت کو سن کر

سبھی سمجھ گئے

کہ

بارش ہونے میں ابھی دیر ہے

٠٠٠

 

نکدونا:آدی واسی کئی چڑیوں کی زبان جانتے ہیں۔ نکدَونا ہرے رنگ کی لمبی دُم والی چڑیا ہے۔ نکدَونا ہر بارش سے پہلے گیت کے ذریعے اس کی آمد کی اطلاع دیتی ہے۔

 

نکدَونا چڑیا: دو

 

ایک

 

نکدونا

گھر کے آنگن پر

گھوم گھوم کر

اور

خوب چہک چہک کر

آساری راگ کے گیت

گارہی تھی۔۔

 

پوئیں چے چے۔۔

پوئیں چے چے۔۔

 

کہہ رہی تھی۔۔

بارش ہونے والی ہے

جھڑی لگنے والی ہے

 

دو

 

نکدونا کے آساری راگ کے

گیت کے بعد

خوب بارش ہوئی

 

اس کے بعد کُڑُوکھر نے

اپنی زبان میں

بارش ہونے کا اعلان کیا۔۔

 

‘چینپ پوئی ایں۔۔۔’

بارش ہوگئی!

 

بارش ہونے کے بعد

جنگل کے پھول

جگمگاتے ہوئے کھل اٹھے

 

تب انہوں نے اپنی زبان میں

پھولوں کے کھلنے کا اعلان کیا

 

‘پونپ پوئیں دَعا’

پھول کھل گئے!

 

اس طرح کُڑُوکھر اور نکدَونا نے

مکالمےکی ایک مشترک زبان

پیدا کی

آساری کے گیت

ساتھ میں گائے

٠٠٠

 

آساری راگ: کڑوکھر آدی واسی گیت الگ الگ راگ میں گائے جاتے ہیں۔اساڑھ کے موسم میں گائے جانے والے راگ کو ‘آساری راگ’ کہا جاتا ہے۔

کڑوکھر: کڑوکھ آدی واسی قبیلے کے لوگ

آدی واسیوں کو چڑیوں  کی نقل و حرکت سے موسموں کی تبدیلی کا پتہ چلتا رہتا ہے۔نکدونا اگر آسمان میں گیت گاتی ہے تو  یہ بارش کے دیر سے ہونے کی علامت مانی جاتی ہے۔اگر نکدونا دھرتی کے قریب آکر گیت گاتی ہے تو یہ آدی واسیوں کے لیے بہت تیز اور زیادہ برسات ہونے کا اشارہ ہوتا ہے۔

 

ماخا

 

جب انسان

کھیت، ٹونکا اور ڑانڑ

بنانے میں

کئی دنوں تک

جُٹا رہا

کئی دنوں کی

تھکان کو ڈھوتا رہا

اس نے دھرمیش سے

بِنتی کی

 

تب

دھرمیش نے

ان کو ‘رات’ عطا کی

 

پھر انسان رات میں سوئے

اور دنوں میں انہوں نے کھیت جوتے

٠٠٠

 

ماخا: رات

ٹونکا:سطح مرتفعی علاقہ

ڑانڑ:میدانی علاقہ

دھرمیش: کڑوکھ آدی واسی قبیلے کا دیوتا’سورج’

 

سُکرا، سُکرائن

 

ایک

 

بارش

چاند

اور آسمان کا اکیلا تارا

سُکرا

 

مانو سبھی

سُکرا کے ساتھ

منتظر ہیں

 

دو

 

سُکرا تارا

ہَلدیا رہا ہے

ہلدی رنگ کا ہورہا ہے

 

بیاہ کے لیے

اب وہ تیار ہے

 

آسمان کا

سب سے چمکیلا تارا

سُکرا

سُکرائن تارے سے

بیاہ رچائے گا!

 

بھِنسریا

دونوں پاس ہوں گے

اور

اب بینجا راگ کے

گیت گائے جائیں گے

٠٠٠

 

آسمان میں سُکرا اور سُکرائن تارے جب پاس ہوتے ہیں، تب کڑوکھ آدی واسی بیاہ کے گیت گاتے ہیں۔۔۔

سُکرا: آسمان میں سب سے تیز چمکنے والے تارے کا نام

سُکرائن: ایک دوسرے تارے کا نام

بھِنسریا: صبح سویرے

 

جنگل دئیت (جنگل کی نادیدہ شکتی)

 

پُرکھے کہانی کہتے ہیں

سمجھو اور بوجھو!

 

وہ سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں۔۔

کیا تمہیں معلوم ہے؟

میرخا راجی اپنا راستہ کیوں نہیں  بیڑاتا؟

پرتا-ٹوڑونگ اپنی جگہ سے کیوں نہیں ڈِگتے

خاڑ-خوسرا کو کیسے یاد رہتی ہے سمت بہاؤ کی

 

جادو یہ کس کا ہے

کون ہے وہ

کس کے بس میں ہیں سب

پھر سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں

جنگل دئیت

٠٠٠

 

کڑوکھ آدی واسی کتھا ہے کہ جنگل میں ‘دئیت(شکتیاں)’ رہتے ہیں۔جنہوں نے سارے میرخا راجی، پرتا-توڑونگ، خاڑ-خوسرا وغیرہ  کو بڑے حساب سے خود سے باندھے رکھا ہے۔اس لیے کوئی بھی اپنا راستہ نہیں بھٹکتا ہے۔جنگل دئیت فطرت میں ایک نادیدہ شکتی کے روپ میں موجود ہے۔

میرخا راجی:آسمان کی سلطنت

پرتا-توڑونگ:پہاڑ

خاڑ-خوسرا:ندی ،نالا

بیڑانا: بھٹکنا

 

ڈِھنچوا پنچھی

 

ڈِھنچوا۔۔۔

آدی واسیوں کی

بہت پرانی سہیلی ہے

 

جب تہذیب نے آنکھیں کھولی

اور پرکھوں نے پکڑا ہَل

تب اساڑھ کے موسم میں

پرکھوں کا ساتھ دینے

اُڑ کر آپہنچی ڈِھنچوا

 

تبھی سے ہر بار اساڑھ میں

وہ ساتھ دینے

آتی ہے

 

کھیت جوتتے بیلوں کو

اَڑھاتی ہے۔۔۔

اور

دھان کی فصلوں کو

اوگرتی ہے

٠٠٠

 

ڈِھنچوا: لمبی دُم والی کالے رنگ کی چڑیا جو دھان کی فصلوں کی نگرانی کرتی ہے۔

اڑھانا: حکم دینا

اوگرنا:نگرانی کرنا

 

بھاگ جوگِنی

 

رات ہوتے ہی آکاش اور پیڑ

بے حساب بھاگ جوگنیوں سے بھر گئے

 

آکاش کی طرف

جاتی ہوئی بھاگ جوگنیوں نے

پریم کے گیت گانا شروع کیا

اور ہر دِشا کی ندیوں نے

اپنا رُخ سمندر کی جانب کرلیا

 

جنگل میں پھیلی ہوئی

بھاگ جوگنیوں  کے گیت سے

مہوا میٹھا ہورہا تھا

اندھیرے میں بھاگ جوگنیاں

ہمیشہ گنگناتی تھیں

جانے کہاں سے سیکھا تھا انہوں نے یہ گیت

بھاگ جوگنیاں رات کا بے انت راگ تھیں

رات جو اپنی پریمکا سے

خوب پریم کرتا تھا

اسے اندھیرے میں انہیں آنکھوں سے دیکھتا تھا

اور ہر روز اپنے جنگل آکاش میں

پریم رس گھولتا تھا

٠٠٠

 

بھاگ جوگنی:کڑوکھ آدی واسی زبان میں جگنو کو ‘بھاگ جوگنی’ کہا جاتا ہے۔

کڑوکھروں کی کچھ کہانیوں میں رات کو مرد بھی مانا گیا ہے۔

 

لکڑا

 

ہے بھئی!

تم کیوں میرا راستہ روکتے ہو

 

میں تمہارا بھائی ہوں۔۔۔

 

جنگل سے گزرتے ہوئے

باگھ سے سامنا ہونے پر

کسی نے یوں کہا

 

پھر باگھ نے اس کا راستہ کبھی نہیں روکا

 

اس دن سے وہ انسان اور باگھ

ایک نسل کے ہوئے

٠٠٠

 

لکڑا:باگھ۔باگھ کڑوکھ آدی واسیوں کا ایک ٹوٹیم یا گوتر ہے۔

 

خَدّی چاند

 

خَدّی کا چاند

آسرا دیکھتا ہے۔۔۔

تِلئی پھولوں کا آسرا

 

پھولوں والے پہاڑ پر

ان کے ملنے کی جگہ

ہمیشہ سے طے ہے!

 

خَدّی کے موسم میں

چاند پہاڑوں پر ہوتا ہے

اور

تارے دھرتی پر

وہ سَکھوا کے جنگلوں میں

جگنوؤں کی طرح کھِلتے ہیں!

 

خدّی بیتنے تک

چاند اور تارے

تِلئی اور سکھوا پھولوں کے ساتھ رہتے ہیں!

 

پھر اگلے خَدّی موسم پر

ملنے کا آسرا دے کر لوٹ جاتے ہیں!

٠٠٠

 

آدی واسی چاند دیکھ کر تہواروں کا وقت طے کرتے ہیں۔ کوئی بھی تہوار بڑھتے چاند کے وقت منایا جاتا ہے۔چَیت مہینے سے آدی واسیوں کا خدّی تہوار شروع ہوتا ہے۔خدّی کے اسی موسم میں تِلئی اور سکھوا کے پھول کھلتے ہیں۔

 

سب نے ان کے لیے جگہ بنائی

 

شہر کے علاقے سے دور

ایک گاؤں

جو پہاڑی علاقے میں

شمار ہوتا تھا

ایک پریمی جوڑے کو

تنہائی میں چھوڑ کر

چپ چاپ چلا گیا دور

تب چاروں طرف دیکھ کر

اس نے کہا اپنے ساتھی سے

 

جان! گیت گاتے ہوئے

مجھے ریجھنے دو

ماندر بجاتے ہوئے

میرے اتنے قریب مت آؤ

 

پیچھے کی دیوار

اور تمہارا ماندر

میرے رجھاؤ کی جگہ پر

آتا جارہا ہے

 

اس وقت

پریمکا کی پرزور بِنتی پر

دھرتی ہلکی نرم ہوگئی تھی

 

سب نے ان کے لیے جگہ بنائی

اس وقت ان کی محبت بھری گفتگو سے

گھر کی دیوار بھی

ہلکی سی کھسک گئی تھی

٠٠٠

 

ماندر:مٹی سے بنایا ہوا ایک ساز ، جو کڑوکھ قبیلے کے لوگ بجاتے ہیں۔

 

پاروتی تِرکی  کی یہ نظمیں جھارکھنڈ کے گملا میں موجود کڑوکھ قبیلے کی تہذیبی علامتوں، جنگل اور فطرت سے ان کے رشتے، تہواروں، دکھوں اور سکھوں، عقائد وغیرہ کو بڑی خوبصورتی سے سامنے لا رکھتی ہیں۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گروہ میں ‘خ’ کا  استعمال اس کی اصل صوتی صورت میں  ہوتا ہے۔پاروتی تِرکی بتاتی ہیں کہ کڑوکھ بھاشا میں ‘خ’ کی صدا موجود ہے،ڈاکٹر راگاپتی تِرکی، ڈائرکٹر آف  ٹرائبل ریسرچ اینڈ ڈاکیومنٹیشن سینٹر، چھتیس گڑھ نے بھی  کڑوکھ –ہندی لغات  کو ترتیب دیتے وقت خاص طور پر ‘خ’ کے تلفظ پر پڑھنے والوں کو توجہ دلائی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس قبیلے میں یہ حرف اسی طرح استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ عربی میں رائج ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کڑوکھ بھاشا میں بہت سے عربی الفاظ کی آمیزش ہوئی ہے۔ان نظموں کو پڑھتے وقت دو باتیں دھیان میں رکھی جانی چاہیے۔ہندوستان میں رسم الخط سےبہت عرصے تک محروم رہنے والی  بہت سی بولیوں میں لوک گیتوں، کتھاؤں وغیرہ کی قدیم روایت رہی ہے۔ان قبائل  میں موجودقدیم گیتوں اور رواجوں کو ہندی اور انگریزی میں بیان کرنے والے شاعر اب جستہ جستہ ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔انہیں میں پاروتی تِرکی کا نام بھی بہت اہم ہے۔اسی لیے ان نظموں کو ترجمہ کرتے وقت بنیادی کڑوکھ الفاظ کو ترجمہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ان کے معانی دے دیے گئے ہیں، تاکہ ان کی روح پر کوئی آنچ نہ آئے۔یہ نظمیں پاروتی ترکی کے شعری مجموعے ‘پھر اگنا’ اور ہندی ویب سائٹ ‘سدانیرا’ سے لی گئی ہیں۔

پاروتی تِرکی کا جنم 16 جنوری 1994 کو جھارکھنڈ کے گُملا شہر میں ہوا۔ان کی ابتدائی تعلیم گُملا کے ہی جواہر نوودیہ کالج میں مکمل ہوئی۔اس کے بعد کاشی ہندو یونیورسٹی ، بنارس سے انہوں نے  ایم اے کیا اور وہیں شعبۂ ہندی سے ‘کڑوکھ آدی واسی گیت: جیون راگ اور سنگھرش(جدوجہد)’ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔پاروتی ترکی کی خاص دلچسپی کے مراکزآدی واسی شاعری اور لو ک گیت ہیں۔وہ کہانیاں بھی لکھتی ہیں ۔اس کے علاوہ ہندی کی بہت سی اہم ویب سائٹس پر ان کی نظمیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ اسی سال ان کا شعری مجموعہ ‘پھر اُگنا’ کے نام سے شائع ہوکر لوگوں تک پہنچا ہے۔یہ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ہے۔فی الحال وہ رانچی یونیورسٹی  سے وابستہ رانچی کے رام لکھن سنگھ یادو کالج میں ہندی ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ  پروفیسر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔